پہلا مشیر: مبارک ہو عالی جاہ! ہماری شرحِ نمو منفی چار سے ترقی کرتے کرتے صفر پر پہنچ گئی ہے۔ امید ہے کہ ہماری حکومت میں اگلے دس برسوں کے دوران یہ دو یا تین تک پہنچ جائے گی!
دوسرا مشیر: جہاں پناہ! چینی کا نرخ تین سو روپے سے کم ہو کر دو سو اسّی ہو گیا ہے! ہم عوام کو مہنگائی کے جبڑوں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو رہے ہیں! یہ سب آپ کی دوراندیشی اور مستقبل بین پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
تیسرا مشیر: حضور! پٹرول کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔ ہر بڑے شہر‘ یعنی لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ پشاور وغیرہ میں کم از کم ایک پٹرول پمپ ضرور پٹرول مہیا کرے گا! اسی طرح ہر ضلع میں ایک پٹرول پمپ یہ فرض ادا کرے گا۔ پہلے تو تجویز یہ تھی کہ دو یا تین متصل اضلاع کیلئے ایک پٹرول پمپ ہو‘ مگر عوام کی سہولت کیلئے اب ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ایک پٹرول پمپ پر پٹرول لازماً دستیاب ہوگا۔
چوتھا مشیر: اس سے ماحولیات کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ درخت لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی! صرف دس فیصد گاڑیاں اور بسیں چل رہی ہیں۔ لوگ پیدل چلتے ہیں یا گھوڑا گاڑیوں پر۔ حضور تاریخ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ مغلوں کے زمانے میں گھوڑوں‘ گھوڑا گاڑیوں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے آمد و رفت ہوتی تھی۔ دھواں اور کاربن نہیں ہوتا تھا۔ ماحول صاف ستھرار ہتا تھا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ صحرائے عرب سے اونٹ اور سری لنکا اور تھائی لینڈ سے ہاتھی درآمد کریں تاکہ سواری کے ذرائع میں اضافہ ہو سکے۔ اگلے بجٹ میں شتربان اور مہاوت کی آسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے روزگار میں اضافہ ہوگا! جیسا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا‘ لاکھوں افراد کو نوکریاں مل جائیں گی!
پانچواں مشیر: سرکار!آئی ایم ایف کا جو کارندہ ہمارے مرکزی بینک کا گورنر تھا‘ اپنا مشن مکمل کر کے واپس جا رہا ہے۔ اسے بے مثال کارکردگی کے نتیجہ میں آئی ایم ایف نے ترقی دے کر پورے جنوبی امریکہ کا ڈائریکٹر تعینات کیا ہے! اُس کی روانگی سے پہلے ڈالر چار سو روپے کا ہو چکا ہے! بہت سے کمرشل بینک اپنا کاروبار ختم کر کے کفن بنانے کی فیکٹریاں لگا رہے ہیں! سنا ہے جو صاحب یہاں مشیر تھے‘ انہیں بھی واپس بلایا جا رہا ہے! یہ اور بات کہ وہ واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔اُن کا خیال ہے کہ ہماری حکومت جلد انہیں دوبارہ بلانے پر مجبور ہو جائے گی!
پہلا مشیر: ہم نے عالی جاہ! ایک اور مسئلہ بھی حل کر لیا ہے۔ وزارت خزانہ میں عالمی اقتصادی اداروں کے ملازمین کو دفاتر مہیا کرنے کیلئے اپنے ملازمین کو ریٹائر کر دیا ہے۔ اس سے ہم نے دو فوائد بیک وقت حاصل کئے ہیں۔ اوّل: ان اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کو بیٹھنے کی باعزت جگہ مل گئی ہے۔ دوم: وزارت خزانہ کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دینا پڑیں گی۔ یوں بھی وہ بیکار بیٹھے تھے‘کام تو سارا آئی ایم ایف کے لوگ ہی کر رہے تھے۔ ہمیں سالانہ قرض لینے کیلئے اب پُر صعوبت مذاکرات نہیں کرنا پڑیں گے۔ جب بجٹ آئی ایم ایف کے اپنے کارندے بنائیں گے تو قرض لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی!
جہاں پناہ: باقی مشیرانِ کرام کہاں ہیں‘ سپیشل اسسٹنٹ بھی نظر نہیں آ رہا!
(مشیر نظریں نیچی کر لیتے ہیں! ماحول پر خاموشی چھا جاتی ہے)
پہلا مشیر: (ہکلاتے ہوئے) بندہ پرور! ان میں سے جو جناب کے ذاتی احبّا و اصدقا ہیں‘ ان کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی تاب نہیں!
جہاں پناہ:جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے ضمن میں کیا پروگریس ہے؟
دوسرا مشیر! حضورِ پرنور! ہم نے پولیس اور سیکرٹریٹ کا ایک ایک افسر تو جنوبی پنجاب کو دے ہی دیا تھا۔ باقی امور بھی طے کئے جا رہے ہیں! بہاولپور اور ملتان کے حامیوں کے درمیان اختلافات طے کرانے کیلئے ایک کمیٹی بنانے پر غور کیا جا رہا ہے! امید واثق ہے کہ 2050ء تک جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے اہم نکات پر اتفاق کرا لیا جائے گا!
تیسرا مشیر: جہاں پناہ! کچھ طالع آزما‘ کوتاہ اندیش اب بھی یہ سوال اٹھانے کی جسارت کر رہے ہیں کہ احتساب کے نتیجہ میں تاحال کوئی چھوٹی موٹی رقم‘ حتیٰ کہ چند روپے بھی سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائے جا سکے۔ یہ سوال زرداری اور شریف خاندان کے ضمن میں پوچھا جا رہا ہے! اس پر مستزاد یہ پہلو ہے کہ ان افراد سے دولت واپس لینے کی کارروائی پر قومی خزانے سے کتنا روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے؟ لوگ حساب مانگتے ہیں۔
پہلا مشیر! ایسے لوگوں کی بات سنی ان سنی کر دینی چاہیے۔ لوگوں کا کیا ہے! ایسے ناروا سوالات اٹھانے والوں میں حاسد‘ بداندیش اور کور چشم شامل ہیں۔ یہ ہماری کامیابیوں پر سیخ پا ہوتے ہیں!
جہاں پناہ: مکان اب تک کتنے بن چکے ہیں اور کتنے خاندانوں کو نئے گھروں میں مقیم کیا جا چکا ہے؟
تیسرا مشیر: کام زور و شور سے جاری ہے! گھروں کے ڈیزائن پر اختلافات تھے۔ اب کوئی صورت اتفاق کی نظر آنے کی امید ہے! پروجیکٹ کے اخراجات ہم اُس رقم سے پورے کریں گے جو زرداری خاندان اور شریف خاندان سے واپس ملے گی!
جہاں پناہ: کورونا کی تازہ ترین صورت احوال سے آگاہ کیا جائے!
چوتھا مشیر: صاحبِ عالم! ہم بدستور ٹاپ کے دو یا تین ملکوں میں شمار کئے جا رہے ہیں۔ مگر مثبت پہلو اس ابتلا میں یہ ہے کہ ہر چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں! ہماری لحیم شحیم آبادی کے تناظر میں‘ جہاں پناہ اتفاق فرمائیں گے‘ یہ تعداد کچھ زیادہ نہیں!
جہاں پناہ: بازار‘ منڈیاں‘ مارکیٹیں کھلی ہونی چاہئیں! پارک‘ سیر گاہیں‘ باغات‘ کوئی چیز بند نہ ہو! دیہاڑی دار مزدوروں متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
پانچواں مشیر:شاہِ عالم! دیہاڑی دار مزدوروں کی اکثریت کورونا کی نذر ہو چکی ہے! اس طرح قدرت نے اس مسئلے کو حل کرنے میں ہماری مدد غیب سے کی ہے! تاجر برادری کے بچے کھچے ارکان خوش ہیں۔ مضبوط معیشت کا سہرا ہماری حکومت کے ماتھے پر جھومر کی طرح چمک رہا ہے۔
جہاں پناہ: ہم کچھ شہروں کا دورہ کرنا چاہتے ہیں! (دورہ شروع ہوتا ہے)
جہاں پناہ: یہ تیسرا شہر ہے جس کا ہم دورہ کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے لوگ بہت ہی کم نظر آ رہے ہیں۔ راستوں پر اردگرد کی بستیوں میں سناٹا ہے‘ ٹریفک برائے نام ہے۔ کیا وجہ ہے؟
پہلا مشیر: حضور! کورونا کی وجہ سے لاکھوں افراد مر چکے ہیں۔ جب عالمی ادارئہ صحت نے لاک ڈاؤن کی تلقین کی تھی اور پنجاب کی وزیر صحت نے اس کی تائید کی تھی اس وقت بھی ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے! اس کے نتیجہ میں شہر کے شہر‘ محلوں کے محلے‘ آبادیوں کی آبادیاں کورونا چٹ کر گیا۔ مگرخدا کا شکر ہے کہ معیشت کمزور نہیں ہوئی۔ جو پانچ چھ دیہاڑی دار مزدور زندہ ہیں‘ ان کی دال روٹی برابر چل رہی ہے۔
جہاں پناہ: بہت خوب! معیشت متاثر نہیں ہونی چاہئے! کورونا نے پھیلنا ہی پھیلنا تھا! اس کا کچھ نہیں ہو سکتا! لاک ڈاؤن پر اصرار کرنے والے قبروں میں جا لیٹے ہیں۔
دوسرا مشیر:جہاں پناہ! آئی ایم ایف نے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں پچاس فیصد کم کرنے کا حکم دیا ہے!
جہاں پناہ: حکم کی تعمیل کی جائے۔
No comments:
Post a Comment