…
صاف پتہ چل رہا تھا کہ مریض کی حالت نازک ہے! بہت نازک!
منہ اور ناک میں ٹیوبیں لگی ہوئی تھیں، ہاتھ کے راستے، سٹینڈ پر لٹکی بوتل میں سے دوا جسم میں جا رہی تھی۔ سر کی جانب دیوار کے ساتھ متعدد آلات نظر آ رہے تھے جن پر بلڈ پریشر، دل کی رفتار اور نہ جانے کیا کیا دیکھا جا سکتا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ سانس مشکل سے چل رہا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے اس حالت میں مریض کے قریبی اعزہ کیا کر رہے ہوں گے؟ بیٹے، بیٹیاں، بیوی، بھائی بہن، ماں باپ! یقینا محوِ دعا ہوں گے۔ بارگاہِ ایزدی میں گڑگڑا رہے ہوں گے کہ رحیم و کریم پروردگار شفا بخش دے۔ اگر ہسپتال میں کوئی مسجد ہو گی تو وہاں جا کر کوئی بیٹا یا بھائی سجدہ ریز ہو گیا ہو گا! کوئی ڈاکٹر کے پاس کھڑا، امید کا چراغ آنکھوں میں جلائے، کچھ پوچھ رہا ہو گا! ماں اور بیوی صدقے پر صدقہ دے رہی ہوں گی!
مگر آہ! ہم میں سے کچھ اتنے بے درد اور پتھر دل ہیں کہ اس حالت میں بھی، اپنے جاں بلب باپ، ماں یا چچا کی فوٹو کھینچتے ہیں۔ پھر اس فوٹو کو فیس بک کی سولی پر چڑھاتے ہیں اور وہاں اپیل کرتے ہیں کہ یہ حالت ہے میرے پیارے کی، دعا کرو... پھر غضب خدا کا اُس پر ''لائیک‘‘ آتے ہیں۔ اس لیے کہ لائیک کے علاوہ اور وہاں کوئی کالم ہی نہیں! حیرت ہے کہ تم خود دعا کرنے کے بجائے فوٹو کھینچ رہے ہو، فیس بک پر مشغول ہو اور دوسروں کو کہہ رہے ہو کہ دعا کرو! کتنے لوگ فیس بک پر فوٹو دیکھ کر، رقت اور زاری سے دعا کریں گے؟ شاید سو میں ایک یا دو تین! تصویر نظر آئے گی اور فیس بک کے چلتے دریا میں بہہ جائے گی۔
ایسا ایک دو بار نہیں، بارہا دیکھا ہے ہر بار حیرت ہوئی اور افسوس! ایسی حالت تو دیکھی تک نہیں جاتی چہ جائیکہ تصویر بنا کر پوسٹ کی جائے۔ اپنے پیاروں کا تو تدفین سے پہلے چہرہ دیکھنے کیلئے بھی پہاڑ جتنا مضبوط دل چاہیے۔ ایک دوست ایسے موقع پر روتے ہیں مگر چہرہ نہیں دیکھتے! وہ ذہن میں مرحوم کا ہنستا بستا زندگی سے بھرپور چہرہ رکھنا چاہتے ہیں۔
جاپان سے نئی نئی سوزوکی وین پاکستان میں آئی تھی تو کسی نے کہا تھا کہ اٹھارہ بیس انسان وین کے اندر پچک کر بیٹھے اور اتنے ہی باہر لٹکتے دیکھ کر جاپانیوں کے اوسان خطا ہو گئے ہوں گے۔ پھر کورونا آیا تو اس کے ساتھ بہت کچھ ہوا۔ راتوں رات ہزاروں ماہرین پیدا ہو گئے۔ اسی طرح فیس بک کا بانی بھی سوچتا تو ہو گا کہ جو سلوک اس ایجاد کے ساتھ ہم پاکستانیوں نے کیا، کہیں اور کیا ہوا ہو گا!! خارج از وزن شاعری ٹنوں کے حساب سے ظہور پذیر ہوئی۔ اس کے مداح لاکھوں میں! کفار کی اس ایجاد کو ہمارے واعظین، مناظر اور مسلک پرست حضرات نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس پر یوں چھا گئے جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر چھا جاتی ہے! گالیاں ایسی ایسی پڑھنے میں آئیں کہ الامان و الحفیظ! پھر یہ دھمکی کہ شیطان آپ کو لائیک کرنے سے روکے گا! واہ! بھئی واہ! تم شیطان کے اتنے قریب ہو کہ تمہیں معلوم ہے وہ کیا کرے گا!!
کچھ ایسے قابلِ رحم شرفا بھی ہیں جو فیس بک پر پوچھتے پھر رہے ہیں کہ میرے پاس اتنے ہزار روپے ہیں، بتائیے میں کون سا بزنس کروں؟ خدا جھوٹ نہ بلوائے پانچ سو روپے کی خطیر رقم کے ساتھ بھی بل گیٹس کے کچھ رقیب بزنس کے مشورے مانگ رہے ہیں!
ذاتی اور خاندانی زندگی کی ایک ایک پرت کھولنے کا کیا فائدہ! چند دن ہوئے امریکہ سے ایک عالمِِ دین کی ہدایات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کیا پتے کی باتیں بتائیں:
٭ اپنی پُر مسرت شادی کی تشہیر سوشل میڈیا پر مت کیجیے۔
٭ اپنی مہنگی خریداریوں کی اطلاعات نہ دیجیے۔
٭ یہ جو واہ اور نائس کے کمنٹ آتے ہں، ان میں سے اکثر جعلی ہیں۔
٭ آپ اس طرح کر کے حاسدوں کو بھڑکا رہے ہیں۔
٭ آپ کو کیا علم کون آپ کی اطلاعات محفوظ کر رہا ہے اور تصویریں غلط موقع پر استعمال کرے گا۔
٭ اپنی نجی زندگی کو پردے ہی میں رہنے دیجیے۔ اپنے آپ پر، اپنے خاندان پر، اپنی ازدواجی زندگی پر، اپنے بچوں کے مستقبل پر رحم کیجیے!
عبادات بھی اس کراہیت سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ احرام باندھتے ہی فیس بک پر تشہیر شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ایئر پورٹ پر پہنچنے کی!! کلام پاک میں تو یہ ہدایت دی گئی کہ اپنے رب کو زاری سے پکارو اور خفیہ! مگر یہاں یہ عبادت بھی تشہیر کی نذر ہو گئی۔ خوفِ خدا سے دل اس قدر خالی ہو گئے ہیں کہ بیت اللہ کے طواف کے دوران اب دعائوں کے کتابچے کم اور سیلفیاں لیتے موبائل فون زیادہ نظر آتے ہیں۔ اور ان میں ہر رنگ اور ہر نسل کے مسلمان ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں!! اس میں تعجب بھی کیا ہے۔ جب ہنستا قہقہے لگاتا، مشّاق خرانٹ اینکر، کیمرہ آن ہوتے ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر، زار و قطار رونا، گڑگڑانا شروع کر سکتا ہے تو اس کے دوسرے مسلمان بھائی دورانِ طواف، اور حالتِ احرام میں تصویریں بنوا کر دنیا بھر کو کیوں نہیں بتا سکتے کہ لو! دیکھو! ہم چلے عبادت کرنے! ہم کس قدر نیک ہیں!!
فیس بک پر اس کالم نگار کا جو دائرہ ہے اس میں پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں جو صرف علمی، ثقافتی اور ادبی پوسٹنگ احباب کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں فارسی ادبیات عالیہ کے صدر رہے۔ اب معتبر ترین نجی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں مگر کبھی اپنی کامیابیوں کی تشہیر نہیں کی! ان کی فیس بک کی وال (یا ٹائم لائن، نہیں معلوم دونوں میں کیا فرق ہے) بذاتِ خود ایک دبستان ہے، ایک مدرسہ ہے ایک ادارہ ہے! انہوں نے سو سو دو دو سو سال پرانی کتابوں سے متعارف کرایا۔ ابھی ایک ہفتہ ہوا انہوں نے 1922ء کا شائع شدہ، مولوی غلام رسول صاحب کا شہرۂ آفاق ''قصّہ سسّی و پنوں‘‘ احباب کے ساتھ شیئر کیا اور کتاب کا ٹائٹل دیکھنے کو ملا۔ 1812ء میں لکھے گئے مرزا محمد حسن قتیل لاہوری کا خط انہی کے طفیل پڑھنے کو ملا۔ خطاطی کے بیش بہا نادر نمونے دیکھے۔ عبدالرحیم خانخاناں کا یہ با کمال شعر انہی کی وال پر ملا؎
خاک بادا خاک بادا برسرِ این زندگی
خانِ خانان بودن و بی جانِ جانان زیستن
ایسی زندگی پر خاک! ہو تو خانِ خانان مگر خانِ خاناں کے بغیر جی رہے ہو!
انگریز شاعر رابرٹ گارڈنر اسبقؔ (1876-1930) کی شاعری بھی یہیں پڑھی۔ اس انگریز شاعر اسبق صاحب کا ایک شعر دیکھیے؎
تیرے دیوانے کے پیچھے کیا ہے لڑکوں کا ہجوم
کچھ ہیں پتھر جھولیوں میں، کچھ ہیں پتھر ہاتھ میں
تاہم نظامی صاحب اپنی دلکش اور عمدہ شاعری شیئر کرنے میں فیاض ہرگز نہیں!!معروف کالم نگار، جوانِ رعنا، آصف محمود بھی اپنی وال پر ہمیشہ سیاسی، قومی اور صحافتی معاملات ہی لے کر آتے ہیں۔ یہ اور بات کہ خون جوان ہے اور قوتِ تحریر زبردست! ایسے میں پوسٹنگ کبھی کبھی طوفانی یا سیلابی بھی ہو جاتی ہے۔ ان دنوں وہ اسلام آباد کے اُن مقامات کی ہمیں سیر کرا رہے ہیں جو اس نئے شہر سے پہلے کے ہیں، اب تک محفوظ ہیں اور اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل!! سارے پند و نصائح بجا! مگر، میرے سمیت، ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ ہم وہ نہیں جو بدل جائیں۔ فیس بک ہم سے پناہ مانگتی رہے گی اور گانے والا گاتا جائے گا؎
پردے میں رہنے دو
پردہ نہ اٹھائو
پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا!
No comments:
Post a Comment