Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, September 21, 2010

نو بار پیسا‘ دس بار چھانا

قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واپس آئینگے یا نہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاہ کارناموں کے پیش نظر پاکستان کا رخ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے اگر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اپنا ریوالور دشمن کو پیش کرنیوالا جرنیل واپس آ کر بقیہ زندگی آرام سے گزار سکتا ہے اور فوجی اعزازات کے ساتھ دفن ہو سکتا ہے تو پرویز مشرف کیوں نہیں آ سکتے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کراچی آکر اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کے طفیل انتخابات لڑیں اور جیت بھی جائیں!

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف واپس آ جاتے ہیں اور حکومت بھی سنبھال لیتے ہیں تو کیا وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتے ہیں؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تو نو سال کے عرصہ میں کر گزرتے! یہ ایک الزامی جواب ہے اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس وقت پرویز مشرف ایک ڈکٹیٹر تھے۔ اب حکومت میں آئے تو کوئی منشور کوئی پروگرام لے کر آئیں گے!

خوش گمانی ایک ایسی بیماری ہے جو وہم سے زیادہ مہلک ہے۔ وہم کا مریض بچ نکلتا ہے کیونکہ وہم حفاظتی اقدامات پر اکساتا رہتا ہے۔ خوش گمانی کا مریض ’’سب اچھا ہے‘‘ کہتا ہے اور سو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورتحال ایسی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر صومالیہ اور افغانستان کے برابر سمجھا جا رہا ہے۔ جمہوریت اور خواندگی کے حوالوں سے جو سروے سامنے آ رہے ہیں ان میں ہم سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہیں۔ سیاست دان جو کچھ کر رہے ہیں اور جتنے پانی میں ہیں‘ سب کے سامنے ہے۔ ہنسی اور رونا ایک ساتھ آتے ہیں۔ ایک طرف خبر ہے کہ مسلم لیگوں کا اتحاد اور ادغام ہو رہا ہے۔ وہی لوگ جو 9سال پرویز مشرف کیساتھ رہے‘ ملک ’’بچانے‘‘ کیلئے پیر صاحب پگارا کو نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ اس خبر کیساتھ ہی ایک خبر ہے کہ غربت سے مجبور ہو کر باپ نے بچوں کو مار ڈالا اور خود کشی کر لی۔ یوں لگتا ہے مسلم لیگ کے رہنما ایک اور ہی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ ایم این اے حضرات تین گنا زیادہ امیر ہو چکے ہیں اور ان کے اثاثے کھربوں میں ہیں۔ دوسری طرف ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات کو وزیر خزانہ بے نقط سناتے ہیں اور انہیں ایک پائی دینے کو تیار نہیں۔ تیسری طرف آزاد کشمیر کی حکومت لاکھوں روپے اشتہاروں پر خرچ کر رہی ہے جن میں وزیر اعظم اپنے مجاہدِ اول والد گرامی کی تصاویر کو نمایاں طور پر شائع کرا رہے ہیں! لاقانونیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایف سی کے اہلکار ایک بس ڈرائیور اور کنڈکٹر کو مارتے پیٹتے ہیں ڈرائیور پولیس کو مدد کیلئے پکارتا ہے پولیس والے آتے ہیں لیکن ایف سی کے اہلکار پولیس کے ایس ایچ او ہی کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ گویا بقول غالب …؎

ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

وکیل ایک امید بن کر ابھر رہے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پاتال سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ ابھی لاہور والا سانحہ لوگوں کی یاد سے محو نہیں ہوا جس میں پوری وکیل برادری اپنے بھائی کی ’’مدد‘‘ کیلئے قانون کو پامال کرنے پر تل گئی تھی پھر خبر آئی کہ ایک وکیل صاحب نے جج کو جوتا دے مارا کیونکہ ان کے موکل کا کام نہیں ہو رہا تھا۔ اب تازہ مژدہ سننے میں یہ آیا ہے کہ وکیلوں نے اینٹیں مار مار کر گجرات میں ایک شخص کو جان سے دے مارا۔ پورے ملک میں وکیلوں کی کسی تنظیم نے احتجاج میں چوں تک نہیں کی!

مذہبی لحاظ سے لوگوں کو محنت اور اکل حلال کے بجائے یہ افیون کھلائی جا رہی ہے کہ روحانی شخصیات نے کہہ دیا ہے کہ حالات ٹھیک ہونیوالے ہیں۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ غیب کا علم وہ صرف اپنے رسولوں پر ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی کہ صرف اسی قوم کی حالت بدلے گی جس کو اپنی حالت خود بدلنے کی دھن ہو گی لیکن بزعمِ خویش روحانیت کے مالک اس سے اتفاق نہیں کرتے پھر ہر روحانی شخصیت نے پریس میں اپنے اپنے ٹھیکے دار چھوڑ رکھے ہیں جو مسلسل تشہیر کر رہے ہیں اور بے چارے عوام یہ تک نہیں جانتے کہ روحانی شخصیات وہ ہوتی ہیں جو اپنی تشہیر کرتی ہیں نہ اپنی روحانیت کا اعلان کرتی ہیں۔ مبلغین کی حالت یہ ہے کہ عام پاکستانیوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن فنکاروں‘ کھلاڑیوں اور اداکاروں کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا جہاں مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہاں زیادتی بھی کر رہا ہے۔ ہارے ہوئے سیاست دانوں کو جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں بار بار سامنے لایا جا رہا ہے ایک صاحب جو نو سال تک پرویز مشرف کا پاندان یا اگالدان رہے‘ ٹی وی پر یہ کہتے سنے گئے کہ جب سے پاکستان بنا ہے عوام کو بار بار بے وقوف بنایا جا رہا ہے!

ملک کو زبوں حالی کے اندھے غار سے نکالنے کیلئے ایک ایسی قیادت درکار ہے جو کم از کم پانچ اقدامات کرے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو کم سے کم ہیں اور حل کے بغیر سنبھلنا ناممکن ہے۔ اول زرعی اصلاحات‘ جو بھارت نے 1951ء میں ہی کر ڈالی تھیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ کے وڈیروں اور بلوچستان کے سرداروں کی موجودگی میں یہ ملک جہنم سے جنت بن سکتا ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے۔ ایک ایسی قیادت جو غداروں کے خاندانوں سے برطانیہ کی دی ہوئی جاگیریں واپس لے‘ لے گی ملک کی نجات دہندہ ہو گی۔ دوم‘ دولت کا حساب‘ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کھرب پتیوں نے قوم کو نصیحتیں کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ سیاست دان ہوں یا بیورو کریٹ یا سابق جرنیل‘ صنعت کار ہوں یا تاجر سب سے ایک ایک پائی کا حساب لئے بغیر حالات میں کوئی تغیر نہیں آ سکتا۔ ملک ایسی قیادت کا انتظار کر رہا ہے جو باہر رکھی ہوئی دولت کو واپس منگوائے اور انکم ٹیکس نہ دینے والوں کے گلے میں پٹے ڈالے۔ سوم‘ تعلیم کے میدان میں طبقاتی تقسیم ختم کر کے پورے ملک میں متوازن تعلیمی نظام کا اجرائ۔ ایک طرف امراء کے گراں بہا ادارے ہیں اور دوسری طرف مدارس جن میں غریب طبقات کے بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ چار نظام ہائے تعلیم کو ختم کر کے ایک نظامِ تعلیم اپنانے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔ چہارم‘ مذہبی لاقانونیت کا خاتمہ‘ مذہبی لاقانونیت اس صورت حال کو کہتے ہیں جس میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ مدرسہ کھول سکتا ہے‘ مسجد بنا سکتا ہے۔ اپنے نئے فرقے کا ڈول ڈال سکتا ہے اور مسلح یا غیر مسلح گروہ تشکیل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں سعودی عرب‘ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کا ماڈل اپنانا ہو گا جہاں مسجدیں ریاست کے انتظام میں ہیں اور فرقہ واریت مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔

پاکستان میں عدم توازن کا یہ عالم ہے کہ مذہبی مدارس کے مالکان عیش کرتے ہیں لیکن مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں مضحکہ خیز حد تک کم ہیں۔ پنجم‘ حکمرانوں کا عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنا۔ خلفائے راشدینؓ کی یہ سنت آج تقریباً سارے مغربی اور ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ سوئٹرز لینڈ سے لے کر ڈنمارک تک اور برطانیہ سے لیکر نیوزی لینڈ تک حکومتوں اور ملکوں کے سربراہ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور خزانے پر گاڑیوں‘ جہازوں‘ سکیورٹی اور عیاشی کا کوئی بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ ان پر خرچ کیا جانیوالا ایک ایک پیسہ دیکھا جا سکتا ہے اور جس طرح میڈیا اور اپوزیشن ان کی نگرانی کرتی ہے اس کا تصور بھی پاکستان میں اس وقت ناممکن ہے۔

یہ وہ پانچ اقدامات ہیں جن کے بغیر پاکستان موجودہ صورتحال سے ہر گز نہیں نکل سکتا۔

اب ہم واپس اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جس سے کالم کا آغاز ہوا تھا۔ تو کیا پرویز مشرف اس قسم کے اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ انکے نو سالہ دورِ اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کسی خوفِ تردید کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ انہیں قوم کو درپیش مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ انکے پاس وژن ہے نہ اتنی ذہنی استعداد کہ وہ زرعی اصلاحات یا نظام تعلیم جیسے مسائل کو سمجھ سکیں۔ وہ اگر سیاست میں آ بھی گئے تو فاروق لغاری صاحب کی طرح ایک اور سابق صدر ہونگے۔ بس اس سے زیادہ نہ کم!

افسوسناک سچائی یہ ہے کہ بظاہر کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو قوم کو درپیش مسائل کا ادراک کر سکے۔ حکومت کو تو چھوڑ ہی دیجئے کہ اس کا ذکر ہی کیا‘ کیا آپ کو دوسرے رہنماؤں میں کوئی ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو برسرِ اقتدار آنے کے علاوہ کچھ اور سوچ سکے۔ کیا آپکو یاد پڑتا ہے کہ شریف برادران‘ چودھری برادران‘ اعجاز الحق‘ ہمایوں اختر‘ ظفر اللہ جمالی‘ اسفند یار ولی‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ منور حسن‘ مشاہد حسین‘ احسن اقبال‘ مولانا ساجد میر‘ یا کسی اور سیاستدان نے زرعی اصلاحات یا نظامِ تعلیم پر کبھی کوئی بات کی ہو؟ ذہن پر زور ڈالئے‘ نہیں کبھی نہیں … یہ سب وہ رہنما ہیں جو قابلِ احترام ہیں لیکن یہ برسرِ اقتدار آنے اور حریف کو چت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے۔ ان میں سے اکثریت وہ ہے جسے لکھنے پڑھنے سے نفرت ہے۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ ہے نہ بین الاقوامی امور کا … ان میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنے فیصد زرعی زمین آبادی کے کتنے حصے کے پاس ہے؟ آپ ان سے پوچھیں کہ
’’REVERSE BRAIN DRAIN‘‘
 کیا ہے؟ بھارت کے تارکین وطن بھارت واپس کیوں آ رہے ہیں؟ بنگلور‘ مدراس اور حیدر آباد دکن پوری ترقی یافتہ دنیا میں کیوں مشہور ہیں؟ گمان غالب یہ ہے کہ آپ کا سوال سن کر ان رہنماؤں کے مسلح باڈی گارڈ‘ اپنی خوفناک مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے آپ پر پل پڑیں گے!! رہے ایم کیو ایم کے رہنما تو وہ کچھ ہفتوں سے جاگیرداری کیخلاف باتیں تو کر رہے ہیں لیکن ایک طویل عرصے سے ہر حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود آج تک انہوں نے زرعی اصلاحات پر کوئی بل یا قرار داد لانے کی بات تک نہیں کی۔ ہمارے دوست فاروق گیلانی کہا کرتے ہیں کہ ایک خشخاش کا دانہ … نو بار پیسا‘ دس بار چھانا‘ اس کا دسواں حصہ کھایا … پیٹ پھول گاگر سا آیا … اس وقت جو قیادت ہمیں میسر ہے اسے ہم نو بار پیس چکے ہیں اور دس بار چھان چکے ہیں اور اب اس فقیر کے بقول …؎

فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں

کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے

17 comments:

Anonymous said...

The news is certainly in the air that Gen. Musharraf is planning to make a come back. The rumors of his coming back were started several moths ago, I suppose that is one way he and his friends can test (political) waters. There is no doubt that the present rulers have turned out to be a total disappointment. In fact, if there was an award for the worst governance, the present rulers would have won hands down. Would the unprecedented unpopularity of the present government help Musharraf to attract some interest that he can exploit to carve out his own niche? Only time will tell but I won’t hold my breath for that.

Almost all thugs who are in the government or the opposition today, have been tried and tested one time or the other and the verdict is that they are all useless and incompetent. They may be incompetent for the offices they hold, but they are very competent and effective when it comes to transfer out the loot to their foreign banks without getting caught. Had they deployed that talent to serve Pakistan, the country would have been a success story by now. How different is Musharraf from the lot that has been around for ever and have delivered nothing to the nation? Not much. Musharraf had a free hand for nine years, what does he have to show for it? All he had done during those years is that he had turned Pakistan into an American colony. There is nothing on his resume that would remotely indicate that he possesses an attribute of a politician or a national leader.

The people of Pakistan may have overlooked the boots and the uniforms only if the military coup had delivered what the civilian politicians had failed to deliver. But in Musharraf’s case, he had been as incompetent as those without the uniform. I see no reason for the public to vote for him. There is no point in jumping out of frying pan, only to fall into fire.

The real question is what would be his legal position in Pakistan today in view of what he did to the judiciary during his dictatorship days?

Javed

کاشف نصیر said...

ہمارے لوگوں کی یاداشت کمزور ہے۔ آج آپ بہت سوں سے بات کریں کہیں گے مشرف کے دور میں دودھ کی نہریں بہ رہی تھیں اور واپس آکر سونے کہ پہاڑ گاڑ دے گویا خودفہمی ہی فہمی ہے۔

Abdullah said...

ایک اور بہترین کالم!!!!!
جناب اظہار الحق صاحب آپ دکھتی رگ ایسے پکڑتے ہیں کہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے،
سو سوالوں کاایک سوال ہے کہ پھر کون؟؟؟؟؟؟؟؟
البتہ ایم کیو ایم والے کچھ عرصے سے جاگیرداروں کے خلاف نہیں بلکہ یہ ان کے منشور کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے جاگیرداری کا خاتمہ،بس بات اتنی ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا اور وہ بھی ایسی صورت میں جب غلام بنے ہاریوں اور کسانوں کو اپنی غلامی کااحساس بھی نہ ہو اور اگر کوئی انہیں احساس دلانے کی کوشش کرے تو اس ہی کا سر پھاڑنے اٹھ کھڑے ہوں!!!!!!!!!!!
مگر کہیں سے تو ابتداء کرنا ہی پڑےگی نا؟؟؟؟؟؟؟

Abdullah said...

مشرف بھی اکیلا چنا ہی تھا بہت سارے کرپٹ لوگوں کے بیچ میں،
مگراس نے فوج اور پولس کو خاصی حد تک پاک کرنے کی کوشش ضرورکی یہ تو آپ مانتے ہیں نا؟؟؟؟؟؟
خیر یکم اکتوبر اور یکم نومبر بھی کچھ زیادہ دور نہیں،اگر مشرف آنا چاہتے ہیں تو آنے دیں کم سے کم یہ تو پتہ چلے کہ کیا کیا کیا اور کیا کیا نہیں کیا!!!!!!!!
حالانکہ پاکستان کو تباہی سے واپس لاناجبکہ خزانہ خالی ہوچکا تھا نواز شریف ہاتھ جھاڑ چکے تھے،امریکا حملے پر تلا بیٹھا تھا فوج پٹاخوں پر چل رہی تھی،
کتنے معصوم نوجوان جی ڈی پائلٹ بننے کے شوق کی بھینٹ چڑھے کہ طیارے تباہ حال تھے اور مینٹینس کے لیئے پیسہ نہیں تھا!!!!
آج خود بہترین اسلحہ بنارہی ہے،یہ سب آسمان سے نازل نہیں ہوا!!!!!!!!!!

اسی طرح بیک جنبش قلم تمام سیاست دانون کو ریجیکٹ کردینا بھی ماورائے عقل بات ہے!
مسئلہ یہ ہے کہ اچھے دیانتدار اور محنتی لوگ ہر پارٹی میں موجود ہیں قلیل تعداد میں ہی صحیح،انہیں ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہیئے،اچھے ٹیکنو کریٹس بڑے بڑے اداروں کے سربراہ ہونا چاہیئیں،تب کہیں یہ ملک صحیح راہ پکڑے گا!!!!!

Asghar said...

What is the legal punishment of a coup? It is death sentenced. So legally speaking, Musharraf should be hanged till death if he comes back, so that it is dealt according to law and made a lesson for other such potential elements. But of course, who observes law in this country? Law is ONLY for insignificant people!

افتخار اجمل بھوپال said...

ديکھ ليا آپ نے ۔ سيدھے نہيں مگر گول مول الفاظ ميں مشرف کو اچھا يہيں کہہ ديا گيا ہے ۔ جس پارٹی کا منشور سرمايہ داروں اور جاگير داروں کو ختم کرنا ہے وہ ہميشہ سرمايہ داروں ۔ جاگيرداروں اور آمروں کی حکومت ميں شامل رہی ہے اور اب بھی شامل ہے ۔ پھر اکيلا چنا بھی ہے ۔ صرف کراچی حيدرآباد اور سکھر ميں اُفتاد مچاتے ہوئے وہ طاقتور ہوتی ہے
جب تک منافقت ختم نہيں ہو گی بہتری نہيں آ سکتی

Abdullah said...

:)
بابا جی میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ جب تک منافقت ختم نہیں ہوگی بہتری نہیں آسکتی!
تو پھر کب سے ختم کررہے ہیں منافقت؟؟؟؟؟؟؟؟؟
:)
رہی مشرف کےاچھا برا ہونے کی بات تو میں نےکچھ دلائل دیئے ہیں آپ بھی ثابت کریں کہ میری لکھی باتیں غلط ہیں بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے!!!!!!!!
باقی جناب ہی لکھتے رہتے ہیں کہ وقت سے پہلے ریٹائر منٹ لے لی کیونکہ ارد گرد موجود لوگوں سے لڑ نہیں سکتا تھا تو کچھ لوگ دامن بچاکر سکون سے بیتھ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں اور کچھ دوسروں کو بچانے کے لیئے خود آگ میں کود جاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑسکتا،اب ان دونوں میں بہتر کون ہے اس کا فیصلہ لوگوں پر!!!!!!!!!

ویسے میری باتیں سمجھدار لوگوں کے لیئے ہیں اور
انہوں نے سمجھ بھی لی ہوںگی!!!!!!!!
:)

Abdullah said...

جاوید گوندل عرف اصغر عرف پتہ نہیں کیا کیا!!!!!!!!
گھوڑا بھی حاضر ہے اور میدان بھی،تو پھرکب چڑھارہے ہو پچھلے ڈکٹیٹروں کو قبرسے نکال کرپھانسی پر؟؟؟؟؟؟
یا ایسے اعزازات صرف دیگر زبان والوں ہی کے لیئے ہیں گولی پھانسی پھندا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

ارے اتنے زبردست غیر جانبدار کالم پر بھی
لوگ سینگھ پھنسا لیتے ہیں۔
پاکستان تو بےچارہ پٹاخوں سے ہی اپنا دفاع کرتا آیا۔
مشرف سے پہلے پاکستان نے جب تک ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا۔
بھارت تو بے خوف ہو کر کسی وقت بھی ان پٹاخوں والی فوج کا قلعہ قمع کر سکتا تھا۔بس کیوں کہ بھارت کی حکومت نہایت شریف تھی اس لئے پاکستان کی کشمیری مجاہدین کو سپورٹ دینے کے باوجود بس رحمدلی میں در گذر کر جاتی تھی۔ مشرف آیا نہایت باصلاحیت تھا۔پاکستان کو مشکل ترین دور سے نکال کر لے گیا۔بس ذرا ریسٹ کیلئے لنڈن کے ایجور روڈ پر ۱۵ ملین پونڈ کا ایک چھوٹا سا گھر لے کر رہنے لگ گیا۔
اب انقلاب آئے گا پاکستان میں مشرف صاحب اور کچھ دوسرے نہایت مظلوم جنہوں نے زندگی نہایت مشکل میں گذاری اور قوم کے ہمدرد واپس آئیں گے۔جب ہر طرح کی ضمانت مل جائے گی کہ جان شان کا خطرہ کوئی نہیں ھے۔انقلاب اسی طرح آتا ھے جی۔لیڈر اپنی جان اور توند کی حفاظت پہلے کرتے ہیں پھر عوام کی بہتری کیلئے کچھ کرتے ہیں۔
نو سال کا وقت کوئی وقت ہوتا ھے جی۔
صلاحیتیں تو تیس سال کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔
آوے ہی آوے جی
مشرف شاہ جی آوے ہی آوے
ساتھ میں بھائی کو بھی لاوے۔
پھر اس ملک سے جہالت تو نہیں جاہلوں کا صفایاکریں گئے دونوں مل کر۔
جاہل کون ہوں گے اس کا فیصلہ مشرف شاہ صاحب اور بھائی صاحب کریں گئے۔
زندہ باد

Abdullah said...

جاہل کون ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لیئے مشرف اور بھائی کا انتطار کرنے کی کیا ضرورت ہے جب صاف صاف اور سامنے نظر آرہا ہو!!!!!!
:lol:

Anonymous said...

I think the columnist is not correct when he says that the General, who surrendered in Paltan Maidan, was burried with military honors. The then President, General Yahya Khan was burried with military honors notwithstanding the fact that he was equally responsible for Pakistan's disintegration. This comment is posted here to keep the record straight.

مولوی said...

بہت اچھی تحریر ھے ۔

سب سے محترم بزرگوار اگر منافقت ہی سب باتوں کا حل ھے تو جی آپ اپنے سے شوروعات کوی نہیں کرتے ؟؟؟

عمران جاٹ said...

یار سنا ھے جاپانی کتا شوق سے کھاتے یہ خوامخوں اسی کا اکثر لگتا ھے۔۔۔۔ :wink: :wink:

Anonymous said...

I think the the credit goes to the current govt who are ambitious to finish poverty and illiteracy from the country forever... by letting all the poor die!!

And this govt is very determined to do that!!

Not only that, they are even willing to actively kill poor people so that we get rid of poverty once and for all!!

Bravo Zardari saahibb Mr 10% now Mr 100%

Anonymous said...

this is an amazing column,so true.brings back all those musharraf lovers back to steady ground.peel back ur eyelids already musharraf supporters,mr izhar ul haq summed it all right here!!!!!!jus quit kidding ur selves,v dnt need sly decietful promises anymore!!!about time v got sumthin REAL!!!!!!

Anonymous said...

http://www.mukto-mona.com/Articles/jaffor/niazi_death.htm

khalid said...

Dear Sir,
I love to read ur columns and always wait for these.However,in this column if ur signal is towards Maualan Tariq Jameel,then u are wrong.Pl try to meet him ,he will give equal importance and i hope u will change ur opinion.The rest of the column is that what all educated pakistani think but could not express in a beautiful way like yours.God bless u.
Khalid,
Crawford,ANU,Australia

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com