Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, February 28, 2015

وجوہات تلاش کرو


نظام الملک طوسی سلجوقی بادشاہوں کا وزیراعظم رہا۔ الپ ارسلان کے نو سال اور ملک شاہ کے بیس سال وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ روایت ہے کہ تین دوست نظام الملک (اصل نام جس کا ابو علی حسن تھا)‘ عمر خیام اور حسن بن صباح مکتب میں ہم جماعت تھے۔ تینوں نے ایک دوسرے سے پیمان کیا کہ جو کوئی بھی کسی بلند مقام پر پہنچے گا‘ دوسرے دو کا خیال رکھے گا۔ ابو علی حسن وزیر بنا اور نظام الملک کا خطاب پایا۔ اس نے دونوں کو دربار میں عہدے پیش کیے۔ عمر خیام نے انکار کر کے پڑھائی کو ترجیح دی۔ نظام الملک نے اسے رصدگاہ تعمیر کرا دی۔ حسن بن صباح نے عہدہ قبول کر لیا مگر اپنے ہی دوست کے خلاف سازش کی۔ معاملہ کھلا تو بھاگ گیا۔ پھر اس نے فدائی کھڑے کیے۔ قلعہ الموت فتح کیا۔ ایک فدائی ہی نے نظام الملک کو خنجر سے اُس وقت قتل کیا جب وہ اصفہان سے بغداد جا رہا تھا۔ 
فتوحات اس کی بے شمار تھیں۔ غزنی سے لے کر شام تک پھریرا لہراتا رہا۔ جارجیا کو اس نے خراج دینے پر مجبور کیا لیکن اصل کارنامہ نظام الملک طوسی کا فتوحات نہیں تھیں‘ اصل کارنامہ تعلیمی اداروں کا جال تھا جو اس نے سلطنت کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔ نیشاپور سے موصل تک اور ہرات سے بصرہ تک نظامی مدارس کھل گئے۔ انہیں کی طرز پر یورپ میں یونیورسٹیاں وجود میں آئیں۔ 
سلجوقی بادشاہ ملک شاہ کو شکایت موصول ہوئی کہ نظام الملک طوسی لشکر پر توجہ نہیں دے رہا اور ریاست کے وسائل تعلیمی اداروں پر خرچ کر رہا ہے۔ اس نے دربار میں طوسی سے پوچھا۔ طوسی کا جواب تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ’’جہاں پناہ! لشکری کا تیر چند گز تک جائے گا لیکن تعلیمی اداروں سے نکلنے والوں کا ہدف ستارے ہوں گے!‘‘ 
آج اگر بھارت کا وزیراعظم مودی نظام الملک کے بارے میں یہ حکایت پڑھے تو فوراً اپنے عساکر کے سالار کو بلا کر پوچھے گا: ’’تم نے ہمارے دشمن پاکستان کو زیر کرنے کے لیے کیا تیاری کیا ہے؟‘‘ 
آپ کا کیا خیال ہے‘ بھارتی عساکر کا سالار کیا جواب دے گا؟ کیا وہ ٹینک توپیں اور بندوقیں گنوائے گا؟ کیا وہ پیدل فوج کی تعداد بتائے گا؟ نہیں! وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا! وہ صرف یہ کہے گا ’’جناب وزیراعظم! جس ملک میں نادرا جیسا ادارہ موجود ہے‘ اس ملک کو زیر کرنے کے لیے مجھے یا میرے عساکر کو کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے!!‘‘ 
غضب خدا کا… سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ میں نادرا کے چیئرمین صاحب ایک طرف یہ بتا رہے ہیں کہ ایک عشرے میں ستر ہزار ایک سو اکسٹھ غیر ملکیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے‘ لاہور میں 200 جعلی کارڈ بنے تو فی کارڈ ایک لاکھ روپے وصول کیے گئے‘ تقریباً تیس ہزار غیر ملکی باشندوں کو رجسٹرڈ کیا گیا اور 372 کو ورک پرمٹ بھی دے دیے گئے‘ دوسری طرف اسی سانس میں کہتے ہیں کہ اب تک 372 اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی! اور قائمہ کمیٹی میں سے کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’کارروائی‘‘ کیا ہے؟ کیا انہیں برطرف کیا گیا؟ کیا وہ جیل میں ہیں؟ آخر سزا کیا دی گئی ہے؟ نادرا کا اہلکار کمیٹی کو بتاتا ہے کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ملازمین کے خلاف ’’زیرو ٹالرنس‘‘ پالیسی اپنائی گئی ہے؟ آخر یہ زیرو ٹالرنس پالیسی کیا ہے؟ اس کے خدوخال کیا ہیں؟ قوم کو کیوں نہیں بتایا جا رہا؟ غیر ملکیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنا معمولی جرم نہیں۔ پھانسی کی سزا بھی کم ہے! 
دوسری طرف ایک اور اطلاع یہ ہے کہ چالیس ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ مہاجرین رجسٹرڈ تک نہیں تھے! یہ تو بھلا ہو‘ آئی ایس آئی کا کہ اس نے ہزاروں جعلی شناختی کارڈوں کی نشاندہی کی اور مئی 2013ء میں ایک فہرست ارسال کی جس میں جعلی شناختی کارڈوں کی تفصیل درج تھی۔ 29 اہلکاروں کے نام دیے گئے جو ملوث تھے۔ ان 29 کو کیا سزا دی گئی؟ نہیں معلوم! 
رہا مسئلہ افغان مہاجرین کی واپسی کا‘ تو یہ معاملہ تادمِ تحریر لاینحل نظر آ رہا ہے۔ اعداد و شمار جو صورتِ حال بتاتے ہیں‘ اسے دیکھیے تو ایک مقام پر پہنچ کر ہنسی بھی آتی ہے۔ اس وقت صرف پنجاب میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ ہے۔ اس میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ (یا ایک لاکھ 44 ہزار) صرف مغربی پنجاب کے چار اضلاع راولپنڈی‘ اٹک‘ چکوال اور جہلم میں رہائش پذیر ہیں۔ ظاہر ہے اصل تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد روزانہ ایک سو ہے! یہ بھی نہیں معلوم کہ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ بارڈر کراس کر کے افغانستان سے پاکستان آنے والوں میں ان ’’واپس‘‘ جانے والوں کی تعداد کتنی ہے! کچھ سال پہلے یہ خبر عام تھی کہ واپس جانے والے مہاجرین کو سو ڈالر فی کس مدد دی جا رہی تھی۔ مدد لے کر بارڈر پار کرتے تھے اور کچھ دن بعد دوبارہ آ جاتے تھے! موجودہ سیکرٹری دفاع نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے سے ملاقات کے دوران اقوامِ متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ ان مہاجرین کی واپسی کو ممکن بنانے میں مدد فراہم کرے! 
یہ ایک عجیب و غریب صورت حال ہے۔ یعنی ملکی ادارے تو رشوت لے کر غیر ملکیوں کو اندر آنے دیں۔ پھر رشوت لے کر انہیں قومی دستاویزات مہیا کریں اور ورک پرمٹ تک پیش کریں اور درخواست ہم اقوام متحدہ سے کریں کہ وہ واپسی کے لیے مدد فراہم کرے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ وحشت اثر خبر بھی میڈیا دے چکا ہے کہ افغان پولیس اور ایجنسیوں کے باقاعدہ ملازمین ہمارے ہاں مہاجر کیمپوں میں اہلِ خانہ سمیت رہ رہے ہیں اور اپنے ’’فرائض منصبی‘‘ سرانجام دے رہے ہیں! اگر اقوام متحدہ کے نمائندے کو اصل صورت حال کا علم ہوتا تو وہ جواب میں یہ پیش کش کرتا کہ ہم آپ کو بارڈر پر جانچ پڑتال کرنے کے لیے دیانت دار اہلکار‘ دیانت دار پولیس اور نادرا میں کام کرنے کے لیے دیانت دار ورکر اور افسر دے سکتے ہیں! 
یہ صدقۂ جاریہ مردِ مومن مردِ حق کی وہ میراث ہے جو اس نے قوم کو عطا کی۔ مہاجرین تو افغانستان سے دوسرے ہمسایہ ملک میں بھی گئے تھے لیکن وہاں انہیں اس طرح رکھا گیا جیسا دنیا بھر میں رکھے جانے کا دستور ہے۔ یہاں انہیں جائداد خریدنے سے لے کر ٹرانسپورٹ بزنس پر اجارہ داری قائم کرنے تک‘ وہ سب حقوق دے دیے گئے جو پاکستانیوں کے تھے۔ آج افغان مہاجرین کی مثال اُس دیوار کی ہے جسے یاجوج ماجوج ہر روز چاٹتے تھے۔ شام کو وہ چھلکے کی طرح پتلی ہو جاتی تھی۔ صبح گرانے کی نیت سے آتے تھے تو پھر اتنی ہی موٹی ہو چکی ہوتی تھی۔ یہ ’’گرم پانیوں‘‘ کا وہ چشمہ ہے جس میں قوم آج تک غسل کر رہی ہے۔ گرم پانیوں تک پہنچنے کا تصور روسیوں کے پاس تو ناپید تھا‘ یہاں اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا   ؎ 
سرِّ خدا کہ عابد و زاہد کسی نہ گفت 
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید 
خدائی بھید عابد اور زاہد نے تو نہ کہا‘ بادہ فروش بتاتا پھرتا تھا! 
وسط ایشیا کے دشت و صحرا کو پار کرنے میں روس کے زاروں کو صدیاں لگ گئیں۔ خیوا فتح کرنے والے کئی لشکر برف کے طوفانوں کا شکار ہو کر ملیا میٹ ہو گئے۔ اٹلس کے علم کا مبتدی بھی جانتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی بندرگاہیں روس کو کسی بھی اپنی بندرگاہ سے کہیں زیادہ دور پڑتی ہیں‘ لیکن جب کسی کی جنگ اپنے نام پر لڑنے کا فیصلہ کر لیا جائے تو پھر وجوہ بھی خود ہی گھڑنا پڑتی ہیں۔ شفیق الرحمن ’’تزکِ نادری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ نادر شاہ نے اپنے درباریوں کو حکم دیا… ’’ہم نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حملے کی وجوہات تلاش کرو!‘‘

Friday, February 27, 2015

واہ! کیا ترجیحات ہیں!


جہازی سائز کی پجارو ہوٹل کے سامنے رکی۔ ہوٹل کے منیجر نے خود آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ ہوٹل پانچ ستارہ نہیں‘ سیون سٹار تھا! منیجر وڈیرے کو ادب و احترام سے ریستوران میں لایا اور بٹھا کر‘ ویٹر کو بلا کر واپس اپنی سیٹ پر گیا۔ وڈیرے نے ویٹر سے پوچھا‘ کھانے میں کیا ہے۔ ویٹر نے ایک لمبی فہرست سنائی۔ تقریباً سارے ہی کھانوں کے نام اس نے انگریزی میں بتائے۔ ولایتی کھانے تھے۔ آخر میں سائیں کو بھنڈی کا لفظ سنائی دیا۔ یہ واحد ڈش تھی جو اس کی سمجھ میں آئی۔ چنانچہ اس نے بھنڈی کا آرڈر دے دیا! 
پاکستانی عوام کی مثال اسی ان پڑھ وڈیرے کی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ہر شعبے میں پیچھے ہے۔ معیشت‘ جمہوریت‘ لا اینڈ آرڈر‘ تعلیم‘ ڈیموکریسی‘ الیکشن کمیشن کے اختیارات‘ درآمدات و برآمدات‘ آئی ٹی‘ ریورس برین ڈرین (یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ تارکینِ وطن کی بیرونِ ملک سے واپسی) مگر یہ وہ شعبے ہیں جو عوام کی بھاری اکثریت کی سمجھ سے باہر ہیں۔ انہیں اعداد و شمار کی خبر ہے نہ ان شعبوں کی نزاکتوں‘ باریکیوں اور پیچیدگیوں کی۔ کرکٹ واحد شعبہ ہے جس میں بھاری اکثریت کو دلچسپی ہے اور وہ اس کی جزئیات تک سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس بھنڈی کو قوم اچھی طرح سمجھتی ہے۔ چنانچہ پاکستان ہارتا ہے تو پوری قوم ماتم کناں ہو جاتی ہے۔ ورنہ کرپشن اور نااہلی ہر شعبے میں‘ بلا کسی تخصیص اور بلا کسی استثنا‘ بدرجۂ اتم موجود ہے اور روز افزوں ہے مگر عوام کی توجہ سے اور اس کے نتیجہ میں عوام کی نظروں سے اوجھل ہے! 
آخر کس برتے پر لوگ کرکٹ میں کامیابی کی توقع کرتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمہ گیر زوال میں کوئی ایک شعبہ زوال سے پاک ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کا گھر کھنڈر بنا ہوا ہو‘ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو‘ بچے در در دھکے کھا رہے ہوں‘ بیوی لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ کر شام کے لیے آٹا خریدے اور وہ خود قیمتی ملبوس زیب تن کیے‘ چمکتی لمبی کار میں گھوم رہا ہو؟ جو باقی سارے سیکٹروں میں کرپشن اور زوال کو‘ درخورِ اعتنا نہ سمجھ کر‘ صرف سپورٹس میں اعلیٰ کارکردگی کا مطالبہ کرتے ہیں وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ بوہڑ کے درخت کو گملے میں اگانا چاہتے ہیں۔ 
دنیا کے جو ممالک سپورٹس میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں‘ اللہ کے بندو! زندگی کے باقی میدانوں میں بھی تو ان کی کامرانیاں اور ظفریابیاں دیکھو۔ کامیابیوں کا ایک سائبان ہے جو ان کے سروں پر تنا ہوا ہے۔ اس سائبان میں کہیں کوئی سوراخ نہیں‘ اس سائبان کا کوئی کونہ گرا ہوا نہیں‘ اس سائبان کے نیچے‘ سہارا دینے والے ستون چوکس ہیں اور سیدھے! صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مثال لیجیے۔ موسم گرما کی اولمپک کھیلوں میں اب تک امریکہ 2400 میڈل حاصل کر چکا ہے جن میں 976 سونے کے اور 758 چاندی کے ہیں۔ سرمائی اولمپک مقابلوں میں اب تک اس نے 281 میڈل حاصل کیے ہیں جن میں سے 96 سونے کے اور 102 چاندی کے ہیں۔ موسم گرما کے اولمپک مقابلوں میں امریکہ سونے کے تمغوں اور تمغوں کی مجموعی تعداد میں دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے اور سرمائی مقابلوں میں صرف ناروے سے پیچھے ہے۔ گزشتہ صدی کے وسط سے لے کر 1980ء تک اس کا مقابلہ زیادہ تر سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ برفانی کھیلوں میں وہ ناروے اور مشرقی جرمنی کا حریف تھا اور اب چین کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ کارکردگی اس لیے ممکن ہوئی کہ پارلیمنٹ سے لے کر امریکی صدر تک سارے ادارے اس ضمن میں چوکس ہیں۔ کانگرس نے ’’یونائیٹڈ سٹیٹس اولمپک کمیٹی‘‘ تشکیل دی ہوئی ہے جو اولمپک کھیلوں میں امریکی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیتی رہتی ہے۔ کئی اور پہلو بھی براہ راست کانگرس کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت‘ کھلاڑیوں میں منشیات کی روک تھام اور میڈیا کا کھیلوں میں کردار۔ یہ وہ پہلو ہیں جو ہر وقت کانگرس کی نظر میں رہتے ہیں۔ امریکی صدر کو کھیلوں کی صورتِ حال سے باخبر رکھنے کے لیے ایک ’’پریذیڈنٹ کونسل فار فزیکل فِٹ نس‘‘ رات دن مصروفِ کار ہے جو وزیر صحت کی وساطت سے امریکی عوام کی صحت اور جسمانی صحت کے متعلق مسلسل رپورٹ کرتی رہتی ہے۔ 
اب اس قوم کی کارکردگی علم و ادب اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ملاحظہ کیجیے۔ اب تک مختلف علمی‘ ادبی اور سائنسی میدانوں میں آسٹریلیا نے 13 نوبل انعامات جیتے ہیں۔ آسٹریا نے 21‘ کینیڈا نے 23‘ فرانس نے 67‘ جرمنی نے 102 اور برطانیہ نے 115 حاصل کیے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے امریکہ نے کتنے انعامات جیتے ہوں گے؟ ڈیڑھ سو؟ یا دو سو؟ نہیں! یہ تعداد 353 ہے۔ 98 سائنس دانوں نے میڈیسن میں‘ 88 نے طبیعات میں اور 54 نے اقتصادیات میں نوبل انعام جیتے۔ ادب‘ کیمسٹری اور امن اس کے علاوہ ہیں۔ اب ایجادات کی طرف آیئے۔ ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے والی ایجادات کی اکثریت امریکہ کی ایجاد کردہ ہے۔ ریفریجریٹر‘ ٹرام‘ ٹیلی گراف‘ ڈِش واشر‘ ویکیوم کلینر‘ مائکرو ویو اوون‘ فوٹوکاپی‘ ایئرکنڈیشنر‘ ٹریکٹر‘ ٹریفک سگنل‘ ان ایجادات میں سے چند ہیں۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں جن سے کوئی ایجاد برپا نہ ہو سکی‘ جن کی یونیورسٹیوں میں داخلے کی تاریخ سے لے کر امتحان کی تاریخ تک کچھ بھی یقینی نہیں‘ جن کے تعلیمی ادارے سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں‘ جن کے سرکاری سکولوں کی اکثریت دیواروں‘ چھتوں‘ ٹاٹوں‘ اساتذہ اور پینے کے پانی سے محروم ہے‘ جن کے کالجوں میں اساتذہ ہفتوں کلاس روم کا رُخ نہیں کرتے اور تنخواہیں لیے جاتے ہیں‘ جن کے کمرہ ہائے امتحان میں بوٹی مافیا کا راج ہے‘ جن کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کو ایک سیکشن افسر ہانک کر پولنگ ڈیوٹی پر لے جاتا ہے‘ وہ نوحہ خوانی کرتے بھی ہیں 
تو صرف کرکٹ کی ہار پر! ٹریفک دنیا میں بدترین سطح پر ہے‘ غیر ملکی لاکھوں کی تعداد میں بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزے کے دندناتے پھر رہے ہیں اور امیگریشن سے لے کر پولیس تک سب ’’بے خبر‘‘ ہیں‘ درآمدات آسمان کو چھو رہی ہیں۔ برآمدات پاتال سے لگی ہیں۔ کارخانہ دار بنگلہ دیش‘ ویت نام‘ سری لنکا اور ملائیشیا بھاگ گئے۔ دارالحکومت ڈاکوں کے حوالے سے سارے شہروں میں اول نمبر پر ہے‘ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کے عسکری بازوئوں پر رولنگ دے چکی جس کا نوٹس کوئی نہیں لے سکتا۔ پورا ملک لاقانونیت اور انارکی کا شکار ہے اور درد صرف کرکٹ کے لیے دل میں اٹھ رہا ہے واہ! کیا ترجیحات ہیں اس قوم کی!! 
آپ 2015ء میں شہنشاہیت کا عروج ملاحظہ فرمایئے۔ وزیراعظم بیک جنبشِ قلم‘ ایک غیر سفارت کار کو‘ جو کامرس اینڈ ٹریڈ سروس سے تعلق رکھتا ہے اور پہلے سے ہی کئی سال سفارتی تعیناتی سے اپنا ’’حصہ‘‘ وصول کر چکا ہے‘ کینیڈا جیسے اہم ملک میں ہائی کمشنر مقرر کر دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک ریٹائرڈ سفیر کو امریکہ جیسے اہم ملک میں دو سال کی توسیع دی جاتی ہے‘ پوری وزارتِ خارجہ انگشت بدنداں ہے اور سر بہ گریباں! کام کرنے والے افسر بددل ہو رہے ہیں اور بدظن۔ وزیر خارجہ کا وجود ہی نہیں! میڈیا دہائی دے رہا ہے۔ مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی! دوسرے ملکوں میں ایسا ہو تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہو جائے اور حکمران جماعت کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ یہاں پارلیمنٹ معجون کھا کر سوئی ہوئی ہے۔ جاگتی بھی ہے تو صرف اس وقت جب ایک ایک ووٹ کے لیے کروڑوں کی بولی لگتی ہے! 
افسوس! اس قوم کو صرف کرکٹ کا افسوس ہے!

Wednesday, February 25, 2015

جو تڑکے شہر میں داخل ہو

قندھار کے نواح میں ڈھلتی عمر کے ساتھ چمٹتا میوہ فروش‘ غزنی کے مین بازار میں خریداروں کے انتظار میں اونگھتا کبابچی اور بامیان کی نامہربان چراگاہوں میں عناصر کی سختیاں سہتا گڈریا… تیس سال یورپ اور امریکہ کی عشرت گاہوں میں گزارنے والے حکمران کو کیا علم کہ یہ لوگ زندگی کس طرح بسر کر رہے ہیں۔ بسر کر بھی رہے ہیں یا نہیں! یا زندگی انہیں گزار رہی ہے۔ فراز صاحب یاد آ گئے   ؎ 
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیسی 
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا 
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا بخت عجیب ہے۔ اول تو ستارہ بن کر چمکتا ہی نہیں‘ دمکنا نصیب بھی ہو تو پیشانی تنگ ملتی ہے۔ جمہوریت آتی ہے تو ایسے حکمران گلے پڑتے ہیں جو ملک میں صرف راج کرنے آتے ہیں۔ زندگی کے زیادہ شب و روز انہوں نے باہر گزارے ہوتے ہیں۔ کچھ تو معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح بازار میں صرف خریداری کرنے آتے ہیں۔ معین قریشی کے مقابلے میں شوکت عزیز کا مذاق‘ زیادہ سنگدلی سے کھیلا گیا۔ موصوف فتح جنگ سے عوامی نمائندے ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ اپنے حلقے کا‘ یعنی فتح جنگ کا نام سنتے ہی چہرہ سپاٹ ہو جاتا تھا۔ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری! انگریزوں نے کمال کا لفظ تراشا ہے‘ Wooden face۔ چوبی چہرہ۔ اصلاً یہ محاورہ پرتگالی زبان کا ہے۔ لکڑی سے تراشا گیا چہرہ کیا ہنسے گا اور کیا مسکرائے گا! وزارتِ عظمیٰ گئی تو بریف کیس اٹھایا‘ سرکاری عہدے کی وجہ سے جو قیمتی تحائف ملے تھے اور جو توشہ خانے کا مال تھے‘ سمیٹے اور یوں گئے‘ جیسے اس ملک سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار مال سمیٹ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوتے تھے۔ سسر ایس ایس اقبال حسین سول سروس سے تھے۔ وفاقی سیکرٹری رہے پھر انڈونیشیا میں سفیر‘ کیا نفیس انسان تھے۔ گزرے وقتوں کی شرافت اور وضعداری کا پیکر۔ انتقال کیا تو داماد‘ جو ساری دنیا میں پاکستان کے نام پر کانفرنسیں اٹنڈ کرتے پھر رہے تھے‘ جنازے پر تو کیا آتے‘ قبر پر بھی نہ آئے۔ 
کرائے پر لیے ہوئے ان دو حکمرانوں کو تو چھوڑ دیجیے۔ باقی پر نظر دوڑایئے۔ پارٹی کی خاتون سربراہ کے سالہا سال ملک سے باہر گزر گئے۔ دبئی کے عالی شان قصر میں زندگی گزاری۔ نیویارک میں کیسا گراں بہا اپارٹمنٹ خریدا۔ انجم نیاز نے بدشگونی کے حوالے سے ساری تفصیل لکھ ڈالی۔ پھر ایک صاحب صدر بنے۔ یوں لگتا تھا بیرون ملک اکتا جاتے تو تبدیلیٔ آب و ہوا کی غرض سے واپس آتے۔ دوسرے حکمرانوں کو دیکھ لیجیے‘ پارٹی کو بے یارومددگار چھوڑ کر محلات میں جا بسے۔ کبھی جدہ کبھی لندن۔ واپسی اس وقت ہوئی جب اقتدار کی گارنٹی ملی۔ وفاق میں نہ سہی‘ سب سے بڑا صوبہ ہی سہی! 
المیہ یہ ہے کہ ان مسافرو ںاور مہاجروں کے مقابلے میں عسکری آمر اسی ملک میں رہے۔ چھوٹی ملازمتوں سے گزرے۔ کپتان‘ میجر اور کرنل کی کیا تنخواہ ہوتی ہے! بریگیڈیئر کس طرح گزارا کرتا ہے! آٹے دال کا بھائو انہیں معلوم تھا۔ اقتدار اعلیٰ پر پہنچنے کے بعد جو کچھ کرتے رہے‘ وہ الگ قصہ ہے! لیکن عام آدمی کی زندگی اور زندگی کی سختیوں سے بخوبی واقف تھے۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر کوئی بھی نہ پیدا ہوا تھا۔ 
اس امرِ محال کا‘ اس Paradox کا سبب کیا ہے؟ غور کیا جائے تو گرہ کھلتی ہے۔ جمہوریت گراس روٹ سطح پر مستحکم نہ ہو سکی۔ سیاسی کیریئر اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ نیچے سے شروع کرنے والے نیچے ہی رہتے ہیں۔ صدر زرداری سے لے کر شہبازشریف تک‘ بے نظیر بھٹو سے لے کر نوازشریف تک۔ کتنی یونین کونسلوں کے یہ حضرات ممبر یا صدر رہے؟ کتنی ضلع کونسلوں میں کام کیا؟ کتنی مقامی حکومتوں کے بجٹ بنائے؟ کچھ نے تو صوبائی اسمبلیوں تک کے منہ نہ دیکھے۔ 
اس کے مقابلے میں ان حکمرانوں کے سیاسی کیریئر دیکھیے جن کے ملکوں میں جمہوریت گلی کوچے سے شروع ہوتی ہے‘ قریوں بستیوں اور قصبوں سے ہوتی ہوئی شہروں کے محلوں سے گزرتی مقامی حکومتوں میں وقت گزارتی‘ صوبائی اداروں کو مستحکم کرتی‘ بلند ترین سطح پر پہنچتی ہے۔ اس سفر میں عشرے گزر جاتے ہیں‘ کبھی دو‘ کبھی تین! جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا سیاسی سفر اڑھائی عشروں پر محیط ہے اور زیریں ترین سطح سے شروع ہوا۔ مشرقی جرمنی میں سیاست کرنا آسان نہ تھا۔ دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد مرکل نے نئی سیاسی پارٹی میں عام ورکر کی حیثیت سے کام کیا۔ عبوری حکومت میں ترجمان رہیں۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اَدغام کے بعد حلقے کی سیاست کی اور اپنے حلقے سے چھ بار انتخابات جیتے۔ نوجوانوں کے امور کی وزارت میں کام کیا۔ پھر ماحولیات اور ایٹمی حفاظت کا قلم دان سپرد ہوا۔ پارٹی اقتدار سے باہر ہوئی تو وہ اس کی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئیں۔ جمہوریت کا حسن دیکھیے کہ پارٹی میں مالیاتی سکینڈل سامنے آیا تو مرکل نے پارٹی کے صدر کی کھل کر مخالفت کی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ پارٹی کو اُس کے بغیر چلا کر دکھایا جائے۔ پھر کئی سال حزبِ اختلاف کی قائد رہیں۔ 
فرانس کے موجودہ صدر آلندے کا سیاسی کیریئر چھتیس سالوں پر محیط ہے۔ اگر ان کی سرگرمیاں بطور طالب علم شمار کی جائیں تو چار عشرے ہوتے ہیں۔ گیارہ سال تو صرف پارٹی کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ سات سال اپنے شہر کے میئر رہے! اندازہ لگایئے جو شخص سات سال شہر کا میئر رہے اور پھر ملک کا صدر بنے‘ وہ گلی کوچوں میں رہنے والے عام لوگوں کے مسائل سے کس طرح ناواقف اور کس طرح بے نیاز رہ سکتا ہے! 
برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ایک سیاسی پارٹی کے شعبۂ تحقیق سے وابستہ ہو گئے۔ پانچ سال جم کر کام کیا۔ پھر وزیراعظم کے سٹاف میں رہے۔ پھر پارٹی کے سیاسی ونگ کے سربراہ بنائے گئے۔ 1992ء کے انتخابات میں ڈیوڈ کیمرون نے بیس بیس گھنٹے روزانہ کام کیا۔ جہاں کام کرتے وہیں سو جاتے۔ پھر اقتصادی ونگ کے انچارج بنے۔ ہر روز صبح ساڑھے چار بجے بیدار ہونے سے اتنا دبائو پڑا کہ سیاست چھوڑ کر صحافت اپنانے کا فیصلہ کیا۔ مگر انتخابات میں فتح ہوئی تو پارٹی کے بڑوں نے واپس طلب کیا اور وزیر خزانہ کا خصوصی ایڈوائزر مقرر کیا۔ پھر وزارتِ داخلہ میں مشیر رہے۔ پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہونے کے بعد بھی سفر جاری رہا۔ ہوم افیئرز کمیٹی کے رکن رہے۔ شیڈو منسٹر رہے۔ شیڈو لیڈر آف ہائوس رہے۔ پارٹی کے وائس چیئرمین کے طور پر کام کیا۔ پھر شیڈو وزیر تعلیم رہے۔ ان دالانوں اور طویل غلام گردشوں سے گزرنے کے بعد پارٹی کی سربراہی اور وزارت عظمیٰ ملی۔ وہ جو فارسی کے شاعر نے کہا تھا‘ برسوں کی اس سیاسی تربیت پر صادق آتا ہے۔ مٹھی بھر اُون کسی درویش کا خرقہ یوں ہی نہیں بن جاتی۔ اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کپاس کا گالا مٹی سے نکلتے ہی کسی معشوق کا ملبوس یا کسی شہید کا کفن نہیں بن جاتا۔ کاتا جاتا ہے۔ دھاگہ بنتا ہے۔ پھر کھڈی پر چڑھتا ہے۔ پھر رنگ کی بھٹی سے گزرتا ہے   ؎ 
سالہا باید کہ تا یک سنگ اصلی زافتاب 
لعل گردد دربدخشان یا عقیق اندر یمن 
پتھر کو ایک عرصہ درکار ہے کہ سورج کی روشنی میں پڑا رہے۔ تب جا کر بدخشاں کے لعل یا یمن کے عقیق کی صورت اختیار کرے گا! 
لیکن یہ سب کچھ جنوبی ایشیا میں نہیں ہوتا۔ یہاں تو فضا میں ایک غالیچہ اڑتا ہوا آتا ہے۔ عوام کے سروں پر آ کر رکتا ہے۔ اس سے ایک بنا بنایا بڑا آدمی اترتا ہے اور مسند سنبھال لیتا ہے۔ افغانستان کے موجودہ صدر 1973ء میں ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ 1977ء میں واپس آئے لیکن اسی سال سکالر شپ مل گیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔ ڈاکٹریٹ کیا۔ پروفیسر بنے۔ بڑے آدمی ہو گئے۔ ورلڈ بینک میں کام کیا۔ چار عشروں کے بعد واپس آئے اور براہ راست صدر کے مشیر بن گئے۔ صاحبزادی نیویارک میں قیام پذیر ہیں۔ فلم ڈائریکٹر ہیں۔ بیگم کا تعلق لبنان سے ہے۔ 
کیا صدارت سے الگ ہو کر صدر اپنے ملک میں قیام کریں گے یا اپنے بچوں کے پاس واپس چلے جائیں گے؟   ؎ 
سفر ہے شرط! مسافر نواز بہتیرے 
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے 
پہلے تو صرف داستانوں میں ہوتا تھا کہ صبح سویرے شہر کے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے اندر قدم رکھتا تھا‘ بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔ اب حقیقت میں ایسا ہوتا ہے   ؎ 
یہاں تاج اُس کے سر پر ہوگا جو تڑکے شہر میں داخل ہو 
یہاں سایہ ہما کا نہیں پڑتا‘ یہاں کوہِ قاف نہیں ہوتا

Monday, February 23, 2015

اوپر کی منزل والے


اس وقت موبائل فون تھا‘ نہ لینڈ لائن۔ فیکس تھا‘ نہ ای میل۔ انٹرنیٹ تھا‘ نہ ٹیلی ویژن‘ ہوائی جہاز تھے‘ نہ برق رفتار گاڑیاں۔ کچھ بھی نہ تھا۔ بس گھوڑے تھے‘ دوڑتے گھوڑے اور ان پر سوار ایلچی۔ ہاتھی تھے‘ آہستہ رو‘ لیکن تعجب تھا اور معجزہ تھا اور حریت تھی کہ اِدھر قتل ہوتا تھا‘ اُدھر خبر حکمران کو پہنچ جاتی تھی۔ ڈاکہ پڑتا تھا اور ہزاروں کوس دور بیٹھے ہوئے بادشاہ کو معلوم ہو جاتا تھا۔ مُکھیا تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔ بدن کھال سے باہر آتا ہوا محسوس ہوتا۔ ڈاکہ پڑا کیسے‘ مُکھیا تو رات بھر گائوں میں خود پہرا دیتا‘ اس کے بیٹے پہرہ دیتے اس لیے کہ بیٹوں کو معلوم تھا کہ قتل ہوا اور قاتل نہ پکڑا گیا تو مُکھیا‘ اُن کا باپ‘ پھانسی پر چڑھ جائے گا۔ ڈاکہ پڑا‘ ڈاکو نہ پکڑا گیا تو سارا نقصان باپ کو بھرنا پڑے گا۔ 
شاہراہیں بھی بن رہی تھیں‘ سرائیں بھی تعمیر ہو رہی تھیں‘ شاہراہوں کے کنارے شجرکاری بھی ہو رہی تھی۔ ریونیو بھی اکٹھا ہو رہا تھا۔ مگر یہ سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اولین ترجیح رعایا کی حفاظت تھی اور رعایا کے مال کی حفاظت۔ یہ واقعہ ہم سب نے بارہا پڑھا ہوا ہے کہ ایک مسافر کے قتل کا علم ہوا تو شیرشاہ سوری سب کچھ چھوڑ کر‘ اکیلا جائے واردات پر پہنچا۔ چہرہ لپیٹا اور درخت کاٹنے لگا۔ درخت شاہراہوں کے کنارے اُس زمانے میں سرکاری تھے۔ شاخ تو درکنار‘ پتہ بھی کوئی نہیں توڑ سکتا تھا۔ ہر مُکھیا اپنا جاسوسی کا نظام رکھتا تھا۔ آگاہ ہوا تو دوڑتا آیا اور درخت کاٹنے والے کو پکڑ لیا۔ سوری نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا‘ تم درخت تک کاٹے جانے سے باخبر ہو گئے ہو‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ مسافر کے قتل کا تمہیں علم نہ ہو۔ چوبیس گھنٹے ہیں۔ ان کے اندر قاتل پیش کرو ورنہ اپنی گردن! 
سینکڑوں ہزاروں سال سے یہ بنیادی اصول سب حکمرانوں کو معلوم ہے کہ مقامی پولیس کو‘ اسے پولیس کہیں یا کوتوال‘ نمبردار یا مُکھیا‘ مقدم یا کچھ اور‘ مجرموں کا علم ہوتا ہے۔ پاکستان کی پولیس کے بارے میں یہ حقیقت زبان زدِ خاص و عام ہے کہ وہ مجرم کو پاتال کے نیچے سے بھی نکال لاتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو‘ غیر سیاسی ہو‘ اُسے اُن مکروہات اور اُن لعنتوں سے پاک رکھا جائے جو اُسے ہیرو سے زیرو بنا دیتی ہیں۔ پولیس کے سربراہ پر دبائو نہ ہو۔ اس پر وہ ماتحت نہ مسلط کیے جائیں جن کے رابطے براہ راست اوپر ہوں۔ اُس پر وہ باس نہ مقرر کیے جائیں جو اُس کے ہاتھ باندھ دیں۔ 
اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہ رہے گا۔ پولیس کو اپنا زرخرید غلام سمجھنے والے بھی ایک نہ ایک دن اُسی لاقانونیت کا شکار ہوں گے جس کا شکار عوام ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت میں ایک ایسی بلند جاہ شخصیت کے ایکڑوں پر پھیلے محل میں ڈاکہ پڑا ہے جو سالہا سال تک اقتدارِ اعلیٰ پر فائز رہی۔ آپ گیارہ سال تک ایوانِ بالا کے سربراہ رہے۔ یہ ایوانِ بالا کے کسی بھی سربراہ کا طویل ترین دورانیہ تھا۔ اس منصب پر فائز شخصیت کو حاصل ہونے والی مراعات پر ایک نظر ڈالی جائے تو سر گھوم جاتا ہے! کیا زندگی ہے اور کیا آرام! کیا سہولیات ہیں اور کیا فوائد۔ آپ نے اس منصب پر رہتے ہوئے نیوزی لینڈ‘ ملائیشیا‘ سری لنکا‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ ہسپانیہ‘ پولینڈ‘ آسٹریلیا‘ فرانس‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ جاپان‘ تھائی لینڈ اور چلی کے سرکاری دورے بھی کیے۔ ایوانِ بالا میں وہ 1985ء میں داخل ہوئے۔ پھر 1991ء میں‘ پھر 1997ء میں‘ پھر 2003ء میں‘ ایک بار پھر 2006ء میں۔ وہ قانون اور انصاف کے وزیر بھی رہے۔ ان کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلم دان بھی رہا۔ وہ قائم مقام صدر بھی رہے۔ کاش وہ اس طویل‘ بے حد طویل… عہدِ اقتدار میں‘ پولیس کی خودمختاری کے لیے کوئی بل پیش کر دیتے‘ کاش وہ ایوانِ بالا کے ارکان کو‘ جن کے وہ سردار تھے‘ ایک شام اپنے گھر میں چائے پر مدعو کرتے اور انہیں کہتے کہ 
’’ہم اس ملک میں مراعات یافتہ طبقوں کے لیے بھی قابلِ رشک حیثیت رکھتے ہیں لیکن یاد رکھو‘ ہم ہمیشہ ہٹو بچو کے نعروں کے جلو میں نہیں چلیں گے۔ ہمیں یہ قوم اپنے خون پسینے کی کمائی سے وہ معیارِ زندگی بہم پہنچا رہی ہے جس کا مغربی ملکوں میں سوچا بھی نہیں جا سکتا! آئو‘ ہم ایک ایسا کام کر جائیں جس سے اس ملک کی کایا پلٹ جائے۔ ہم پولیس کو برطانیہ یا امریکہ یا سنگاپور یا آسٹریلیا کی پولیس کی طرح خودمختار اور مؤثر بنا جائیں۔ سیاسی مداخلت کا خاتمہ کردیں۔ سفارش اور اقربا پروری کا اس محکمے سے نشان تک ختم کردیں۔ ہم پولیس کو وی آئی پی کی حفاظت سے ہٹا کر عوام کی حفاظت پر مامور کر جائیں!‘‘ 
کاش وہ اپنے عہدِ صدارت ہی میں یہ کام کر جاتے۔ 
ہم آج ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ڈاکو ان کے فارم ہائوس میں صبح پو پھٹنے سے پہلے گھُس آئے۔ انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو رسیوں سے باندھا اور مال و اسباب لے کر چلتے بنے۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں‘ اس کے پیش نظر یہ واقعہ رُلا دینے والا ہے۔ قابلِ افسوس ہے۔ ہم مذمت کرتے ہیں۔ ہم دُکھ میں ان کے شریک ہیں۔ 
سابق صدر کی حیثیت میں ان کے گھر پر جو پہریدار مامور تھے‘ مبینہ طور پر وہ ڈاکہ پڑنے کے وقت غیر حاضر تھے اور کچھ سو رہے تھے! 
یہ خبر میڈیا میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ مگر عوام کے ساتھ تو یہ سب کچھ ایک عرصہ سے ہو رہا ہے۔ کاریں اور موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں۔ یہ ’’انڈسٹری‘‘ اس قدر منظم ہو چکی ہے کہ بدطینت ’’خریدار‘‘ ڈاکوئوں کے گروہوں سے فرمائشیں کرتے ہیں کہ انہیں کس ماڈل کی کون سی گاڑی درکار ہے۔ ڈاکوئوں کا راج ہے۔ چور بے خوف پھر رہے ہیں‘ سٹریٹ کرائم عروج پر ہے۔ خواتین کے ہاتھوں سے ہزاروں لاکھوں پرس چھینے جا چکے ہیں۔ لاکھوں موبائل فون جھپٹے جا رہے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر سوار ڈاکو‘ معمر عورتوں کی گردنوں میں پڑے ہار ہاتھوں میں دبوچ کر یوں بھاگتے ہیں کہ معمر عورتیں موٹر سائیکلوں کے ساتھ گھسٹتی جاتی ہیں! معصوم بچیوں کے کان نوچے جا رہے ہیں۔ لڑکیوں کے بازو اور گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ آج اگر کوئی شیر شاہ سوری ہوتا‘ کوئی علائو الدین خلجی ہوتا‘ کوئی ولیم بینٹنک ہوتا تو دن کا کھانا اور رات کا سونا اپنے اوپر حرام کر دیتا اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا جب تک ڈاکوئوں کا خاتمہ نہ کر لیتا! 
بحری جہاز کی نچلی منزل میں سوراخ ہو جائے اور پانی اندر آنا شروع ہو جائے تو اوپر کی منزل والے کتنی دیر محفوظ رہیں گے؟ اللہ کے بندو! یہ سوراخ بند کرو ورنہ کائونٹ ڈائون شروع ہو چکا ہے۔ اُلٹی گنتی کا آغاز ہو گیا ہے!

Saturday, February 21, 2015

پیدائش کا حادثہ

گھر بیٹھے بیٹھے برس ہا برس گزر گئے۔ کتابیں پڑھتے‘ باورچی خانے میں کام کرتے‘ سویٹر بنتے ‘کشیدہ کاری کرتے جوانی ڈھل گئی   ؎ 
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی 
بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی 
رشتے آئے‘ نامنظور ہوتے گئے۔ لڑکی کی‘ جو کسی زمانے میں واقعی لڑکی تھی‘ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ذات برادری سے رشتہ نہ آیا۔ ابا کا اٹل فیصلہ تھا‘ دوسری ذات میں شادی کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ انتظار کرتے کرتے ابا کو اجل نے آ لیا۔ مسائل پیچیدہ ہو گئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ لڑکی کو غیر شادی شدہ بڑھیا کہا جانے لگا۔ 
یہ ہماری معاشرتی زندگی سے ایک عام مثال ہے۔ اسے عصبیت کہتے ہیں۔ عصبیت ایک بیماری ہے۔ جو مثال اوپر دی گئی ہے‘ یہ اس بیماری کا نرم ترین حملہ ہے۔ 
اس سے زیادہ سخت حملہ یہ ہے کہ ذات برادری کی بنیاد پر فرائض منصبی ادا کرتے وقت بددیانتی کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ اس معاشرے میں عام ہے۔ ایک دوست نے عرصہ ہوا‘ تجویز پیش کی تھی کہ ناموں سے سابقے اور لاحقے ہٹا دیے جائیں‘ لیکن ظاہر ہے تجویز قابلِ عمل نہ تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ باجوہ صاحب یا اعوان صاحب یا مغل صاحب یا شاہ صاحب انٹرویو لینے بیٹھتے ہیں تو جو امیدوار باجوہ یا اعوان یا مغل یا سید ہوتا ہے‘ ہمدردی کا مستحق ہو جاتا ہے۔ المیے کی انتہا یہ ہے کہ اسے برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ذات کی بنیاد پر اقربا پروری کو صلہ رحمی کا نام دے کر گناہ کو بدتر کر دیا جاتا ہے۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے بتایا کہ جب وہ ایک صوبائی دارالحکومت میں چیف منسٹر آفس میں کام کر رہے تھے تو ایک سیاست دان نے‘ جو عالی شان منصب پر تھے انہیں ہدایت کی کہ کوئی سائل ان کی ذات کا ہو تو اس کی درخواست پر انہیں بتائے بغیر ان کی طرف سے سفارشی ریمارک لکھ دیا کرے۔ یہ عصبیت جو اس نظام کو گھُن کی طرح کھا رہی ہے‘ اب بلند ترین سطح پر واشگاف انداز میں جلوہ افروز ہے۔ دُہائیاں دی جا چکی ہیں‘ تنقید کی جا رہی ہے‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نشان دہی کی جا رہی ہے۔ بار بار کی جا رہی ہے مگر ملک کی بلند ترین سطح پر فیصلے ذات برادری کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ 
لیکن اس عصبیت کی سخت ترین شکل اور ہے۔ ذات برادری‘ قومیت اور عقیدے کی بنیاد پر مجرم کی پشت پناہی کرنا اور غلط کو صحیح قرار دینا اس بیماری کا جان لیوا حملہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ بیماری اس وقت لعنت کی صورت اختیار کر جاتی ہے جب قومیت اور عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کردیا جائے‘ بسوں سے اتار اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور یونیورسٹیوں‘ کالجوں‘ سکولوں‘ دفتروں‘ کمپنیوں اور کھیتوں‘ کارخانوں میں کام کرنے والوں کو اس بنیاد پر زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا جائے کہ وہ فلاں قومیت سے ہیں یا فلاں زبان بولتے ہیں۔ 
بلوچستان کی ایک یونیورسٹی کے اساتذہ سے خطاب کرنے کا موقع تھا۔ نوجوان استاد اس لیے برافروختہ ہوا کہ مقرر نے ایک سردار پر تنقید کی تھی۔ تنقید کیا کی تھی‘ امرِ واقعہ بیان کیا تھا۔ سردار نے پاکستان کے ایک بڑے پررونق شہر میں پریس کانفرنس کی۔ کسی نے سوال پوچھا کہ آپ کے ہاں ظلم ہو رہا ہے کہ بے گناہی کا ثبوت جلتے انگاروں پر چل کر دینا پڑتا ہے۔ سردار نے معصومیت سے جواب دیا کہ ہاں! یہ ہماری روایت ہے! سردار کی بات تو دوسری ہے‘ اس نے سرداری کی حفاظت کرنی ہے اور رائلٹی کی بھی‘ لیکن اس معاشرے کا کیا بنے گا جس کے پڑھے لکھے نوجوان صرف اس لیے برافروختہ ہو جائیں کہ ان کی روایت پر اور ان کے سرداروں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ خودکشی کا یہ راستہ زندگی کی طرف لے جانے سے قاصر ہے۔ اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود علاقے جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ سردار ذاتی زندگیوں میں بھی مداخلت کرتا ہے۔ کون کس پیشے میں جائے گا‘ کون کہاں آباد ہوگا‘ کون کہاں شادی کرے گا‘ سب کچھ سردار کے اختیار میں ہے۔ سرکاری ملازموں کو پورا ماہ کام کرنے کے باوجود تنخواہ لینے کے لیے سردار کی پرچی درکار ہے۔ تنصیبات سردار کے رحم و کرم پر ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے میڈیا نے خبر دی کہ بلوچستان اسمبلی کے اندر ایک سردار کو ذاتی محافظ لے جانے کی اجازت نہ دینے پر معاملہ طول پکڑ گیا اور جھگڑے کی صورت پیدا ہو گئی۔ یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک سردار سینکڑوں محافظوں کے جلو میں ورود کرتا تھا۔ یہ حفاظت نہیں‘ مائنڈ سیٹ ہے! 
یہ طرزِ فکر ترقی کے راستے مسدود کرتا ہے۔ اگر یہ طرزِ فکر امریکہ میں جڑ پکڑ جاتا تو آج وہ کرۂ ارض کا حکمران نہ ہوتا۔ بے شمار قومیتیں وہاں بستی ہیں۔ اطالوی‘ آئرش‘ جرمن‘ فرانسیسی‘ انگریز اور اب چینی‘ بھارتی‘ پاکستانی اور عرب آباد ہیں۔ لیکن قومی معاملات میں کسی عصبیت کا حتی الامکان وجود نہیں۔ 
امریکی پولیس کی مثال لے لیجیے‘ اس کے اعلیٰ مناصب پر کالے بھی ہیں‘ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بھی ہیں‘ چینی اور جاپانی بھی ہیں اور جنوبی ایشیا کے ہندو اور مسلمان بھی ہیں۔ اس نوجوان ڈاکٹر کا اضطراب یاد آ رہا ہے جس نے کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک ہسپتال کے لیے ملازمت کا انٹرویو دیا۔ وہ ناامید تھا۔ تیس اسامیاں تھیں اور آٹھ سو امیدوار تھے۔ اکثریت سفید فام امیدواروں کی تھی۔ یہ جنوبی ایشیا سے تھا اور رنگ اس کا سانولا تھا۔ لیکن وہ منتخب ہوا اس لیے کہ ملکی معاملات میں فیصلے کرتے وقت ان لوگوں نے عصبیت کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ 
قیدیوں کا جیلر کی محبت میں گرفتار ہو جانا نفسیاتی عارضہ ہے۔ اسے سٹاک ہوم سنڈروم کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ عارضہ‘ یہ سنڈروم کئی سطحوں پر کام کر رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا جائزہ لے لیجیے۔ کیا ورکر اور کیا رہنما‘ سب ایک خاندان کی محبت میں مبتلا ہیں‘ سب صاحبزادے کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ دفاع کر رہے ہیں۔ یہی صورتِ حال پنجاب کے شاہی خاندانوں میں گجرات سے لے کر رائے ونڈ تک طاری ہے۔ پشاور اور ڈیرہ ا سماعیل خان تک اس مرض کے جراثیم گئے ہیں۔ 
تاہم خطرناک صورت اس مرض کی یہ ہے کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس ذات برادری اور قومیت کے حصار میں محبوس ہو جائے۔ یہاں یہ وضاحت کرنا لازم ہے کہ ہم جب قبائلی سردار کی بات کرتے ہیں تو یہ تجویز نہیں کر رہے کہ قبائلی شناخت ترک کردی جائے۔ آپ بگتی‘ مری‘ رئیسانی جو بھی ہیں‘ شوق سے رہیے۔ اپنے نام کے ساتھ لکھنا چاہتے ہیں تو ضرور لکھیے لیکن دوسرے قبائل‘ دوسری ذاتوں‘ دوسری برادریوں اور دوسری شناختوں کو میرٹ پر جانچئے   ؎ 
خوبصورت بہت ہو تم لیکن 
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو 
آپ کے مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والا امیدوار زیادہ صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے تو اسے نامنظور کر کے آپ اپنا نقصان کریں گے۔ دوسری زبان بولنے والا آپ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اپنی جوانی تج دیتا ہے‘ خونِ جگر سے کشتِ تعلیم کی آبیاری کرتا ہے‘ آپ کی نسلوں کو سنوارتا ہے مگر آپ اسے صرف اس لیے گولی مار دیتے ہیں کہ اس کی ظاہری شناخت آپ سے الگ ہے‘ آج آپ یہ کھیل کھیل کر اپنے جذبات کو تسکین بہم پہنچا لیں گے لیکن اپنے علاقے کو‘ اپنے صوبے کو پس ماندگی کے اس نشیب میں دھکیل دیں گے جس سے نکلنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔ 
ذات‘ برادری‘ قومیت‘ زبان‘ سب شناخت کے لیے ہیں۔ تعارف کے لیے ہیں۔ فخر و غرور کے لیے نہیں! اگر ایک خاص قومیت سے تعلق رکھنا کمال ہے تو یہ کمال حاصل کرنے میں آپ نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ یہ تو پیدائش کا حادثہ تھا!

Wednesday, February 18, 2015

سراب کا بیوپار

یہ بارہ بھائی تھے۔ الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔ کوئی گھر کسی گلی میں تھا‘ کوئی کسی کوچے میں‘ کچھ کی دیواریں مشترک تھیں‘ مگر سب کی بجلی‘ گیس‘ پانی اپنا اپنا تھا۔ یہ سب آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ کبھی بیویوں کے کہنے سننے پر‘ کبھی بچوں کی وجہ سے‘ کبھی دو تین بھائیوں نے کسی مشترکہ کاروبار کا آغاز بھی کیا تو ابتدا ہی سے رخنے پڑنا شروع ہو گئے‘ جلد ہی کاروبار بھی ٹھپ اور بول چال بھی بند۔ اس صورت حال میں بھی بوڑھے والد کو ایک ہی دھن تھی کہ یہ سب بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہیں۔ ان کا باورچی خانہ ایک ہو‘ ان کا بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ٹیلی فون کا ایک بل ہو۔ ان کے بچے ایک صحن میں کھیلیں اور ان کے کنبے ایک ساتھ رہیں۔ بابے کو جب بھی کوئی مشورہ دیتا کہ بزرگو! ایک گھر میں یہ اکٹھے کیا رہیں گے‘ یہ تو الگ الگ گھروں میں رہ کر بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ پہلے یہ تو کرو کہ یہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ہی آپس میں ملنا جلنا شروع کریں۔ عید محرم کے موقع پر ہی اکٹھے ہو جائیں۔ بیماری ہی میں ایک دوسرے کا خیال رکھ لیں۔ ان میں جو بھائی سب سے زیادہ غریب ہے‘ آسودہ حال بھائی اسی کی مدد کردیں۔ مگر بابا اس قسم کا مشورہ سنتے ہی بھڑک اٹھتا۔ ’’تم ہمارے دشمن ہو۔ تم میرے خاندان کا اکٹھا ہونا نہیں دیکھ سکتے۔ تم حسد کرتے ہو‘ تم ہمارے اتحاد کے خلاف ہو‘‘۔ 
یہ ایک مثال ہے اُس سراب کی جو مسلمان عوام کو دکھایا جا رہا ہے اور ماضی میں بھی دکھایا جاتا رہا ہے۔ پورے عالم اسلام میں ایک حکمران تلے ایک حکومت قائم کرنے کا سراب!! ایک خواب جس کے پیچھے مسلمان عوام کو دوڑایا جا رہا ہے۔ بھوکے ننگے عوام‘ تن پر کپڑا نہیں‘ کھانے کو روٹی نہیں‘ پینے کو صاف پانی نہیں میسر‘ اکثریت کے پاس بیت الخلا تک نہیں! ہسپتال مفقود‘ تعلیمی ادارے ناپید‘ مزارعوں اور ہاریوں کی ہزاروں‘ لاکھوں بیویاں اور بیٹیاں زمینداروں‘ چودھریوں اور وڈیروں کے گھروں میں لونڈیوں کی طرح کام کر رہی ہیں اور عملاً محبوس ہیں‘ سرداروں کا راج ہے‘ ’’مجرموں‘‘ کے بدن پر گڑ کا شیرہ مل کر انہیں چیونٹیوں بھرے غاروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی چیز کی فکر نہیں! کسی مسئلے کا حل نہیں! کسی فریاد کی دادرسی نہیں! جانوروں کی سی زندگی گزارنے والے ان بے بس بے کس عوام کو پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے۔ 
زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلمان حکومتوں کے درمیان علاقائی تعاون بھی ممکن نہیں نظر آتا۔ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور برونائی ایک خطے میں ہیں۔ زبان تقریباً ایک ہے۔ کلچر یکساں ہے۔ لباس اور خوراک وہی ہے۔ مگر تینوں میں کسی اتحاد کا نام و نشان تک نہیں۔ نہ اقتصادی حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ خارجہ پالیسیوں میں موافقت! 
برصغیر میں دو مسلمان ریاستیں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش۔ پہلے ایک ملک تھا۔ نہیں چل سکا۔ الگ الگ ہو گئے۔ دونوں میں اتحاد اور اشتراک کا شائبہ تک نہیں! ایک میں ابھی تک ان سیاستدانوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں جو 44 سال پہلے پاکستان کی فوج کا ساتھ دے رہے تھے۔ دوسرا اس پر احتجاج کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پہلے عراق کویت پر چڑھ دوڑا۔ پھر عراق اور ایران میں طویل جنگ چھڑ گئی۔ قطر‘ بحرین‘ یو اے ای‘ سب کی خارجہ پالیسیاں اپنا اپنا منہ دوسری طرف کیے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کے اڈے جگہ جگہ قائم ہیں۔ کچھ ملک پڑوسی ملکوں میں فرقوں کی بنیاد پر پریشر گروپ وجود میں لا رہے ہیں۔ کچھ باغیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ آگے چلیے۔ شمالی افریقہ میں الجزائر‘ مراکش‘ لیبیا اور تونس ہیں‘ ساتھ مصر ہے‘ مصر کے جنوب میں سوڈان ہے۔ کیا ممکن ہے کہ مراکش‘ لیبیا اور الجزائر کا‘ یا لیبیا اور تونس ہی کا اتحاد قائم ہو جائے؟ مصر اور سوڈان ایک مشترکہ خارجہ پالیسی یا اقتصادی حکمت عملی اپنا لیں؟ 
اللہ کے بندو! خواب دکھانے کے بجائے‘ سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے‘ جو کرنے کے کام ہیں وہ کرو! ان ملکوں کی حکومتوں سے کہو کہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر اقتصادی تعاون کا آغاز کریں۔ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے مشترکہ تنظیمیں وجود میں لائیں۔ تعلیمی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ صحت کے شعبے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اپنے اپنے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کریں اور کھیتوں میں جانے کے بجائے بیت الخلا کا کلچر اپنائیں۔ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنے والے پہلے یہ تو دیکھیں کہ شرقِ اوسط کی منڈی میں پاکستانیوں پر بھارتیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بازاروں پر ہندوئوں کا غلبہ ہے۔ تعلیمی اداروں‘ کمپنیوں‘ دفتروں‘ کارخانوں میں انہی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پہلے وہاں تو امتِ مسلمہ کا درد پیدا کر لو! 
گھر کی حالت یہ ہے کہ انڈر پاس بنانے کی اہلیت تک مفقود ہے‘ پورے صوبے کے بجائے ایک شہر کو مرکزِ نگاہ بنایا گیا۔ وہاں بھی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ہر انڈر پاس کی بلندی دوسرے سے مختلف ہے! پھر بورڈ تک نہیں لگائے گئے‘ جن پر بلندی لکھی ہوئی ہو! گاڑیوں کا پھنسنا معمول بن چکا ہے۔ درجنوں کیا بیسیوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس میں تو کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں تھی! ایک عام ضرورت تھی جو مستریوں نے پوری کرنی تھی! جو حکمران اتنا نہیں کر سکتے وہ عالم اسلام میں ایک حکومت کیا بنائیں گے۔ وفاقی حکومت نے ’’فیصلہ‘‘ کیا ہے کہ گیارہ لاکھ افغان مہاجرین کو افغان کیمپوں میں ’’واپس‘‘ لائے گی اور دس لاکھ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کا ڈیٹا اکٹھا کرے گی! سولہ لاکھ مہاجرین میں سے صرف 37 فیصد کیمپوں میں اور 63 فیصد باہر رہائش پذیر ہیں۔ جائدادوں سے لے کر کاروبار تک بہت کچھ ان کا ہے! کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اب ان کے اثاثوں کی فہرستیں بنیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہیں کیمپوں میں رکھنا ضروری ہے تو اب تک یہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟ نہ کرنے والے کون ہیں؟ کس کی ذمہ داری تھی؟ کوئی پوچھ گچھ؟ کوئی مقدمہ؟ کوئی سزا؟ اور اگر اب تک یہ ضروری نہ تھا تو اب کیوں ضروری ہو گیا ہے؟ 
مسلح افواج کی پریڈ کے دوران علاقے میں قائم مدارس اور مزارات ایک ہفتے کے لیے بند کیے جا رہے ہیں؟ آخر کیوں؟ اگر ان سے خطرہ ہے تو باقی دنوں میں وہ کیوں کھلے رہیں اور خطرے کا باعث بنیں؟ کیا صرف پریڈ سے متعلقہ لوگوں کی جانیں قیمتی ہیں؟ 
یہ ہیں باہم متناقض پالیسیوں کی چند مثالیں! الل ٹپ وقتی فیصلے‘ باسی کڑھی میں ابال۔ وہ بھی کبھی کبھی! تسلسل ہے نہ دانش مندی! مستقل مزاجی ہے نہ غیر جانبداری! آرمی چیف‘ پولیس کو غیر سیاسی بنانے کی نصیحت کر رہے ہیں‘ اس نصیحت کی نوبت ہی کیوں آئی؟ سول سروس پرزے پرزے‘ لیر لیر‘ بخیہ بخیہ ہو چکی! اقربا پروری عروج پر ہے۔ سب کچھ ان بنیادوں پر ہوتا ہے کہ فلاں کس شہر سے ہے‘ فلاں کس برادری کا چشم و چراغ ہے اور فلاں کی پشت پر کس گردن بلند کا ہاتھ ہے! اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی حیثیت اُس ڈاکخانے سے زیادہ نہیں جو ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہو اور جس کا انچارج بابو ہر روز چھٹی کا انتظار کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرتا ہو! سول سرونٹس کے کیریئر چارٹ؟ جہاں تعیناتیاں اوپر سے آنے والے ٹیلی فون پر ہوتی ہوں وہاں پر یہ چارٹ کیسے بنیں گے! سعدی نے کہا تھا   ؎ 
تو کارِ زمیں را نکو ساختی؟ 
کہ با آسمان نیز پرداختی! 
کیا زمین کے معاملات سنور چکے کہ اب آسمان کا رُخ کر رہے ہو؟ یورپی یونین ایک دن میں نہیں بنی۔ اس کی پشت پر صدیوں کا ارتقا ہے۔ پہلے ان ملکوں نے اپنی اپنی حالتیں سنواریں! پھر اتحاد کی طرف گامزن ہیں۔ وہ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے!!

Monday, February 16, 2015

خودکفیل

سناندو سَین بھارت سے ہجرت کر کے امریکہ آن بسا۔ اس کی زندگی نئے ملک میں آسان نہ تھی۔ مزدوری کی۔ فاقے کاٹے۔ حالات بعض اوقات اتنے حوصلہ شکن تھے کہ واپس جانے کا خیال آ جاتا مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ کئی عشروں کی طویل جانکاہ محنت کے بعد آخر وہ اس قابل ہو گیا کہ مین ہیٹن نیویارک میں ایک چھوٹے سے کاروبار کا مالک بن سکے۔ ابھی چند دن ہی اس کامیابی کو ہوئے تھے کہ 27 دسمبر کی شام کو‘ جب وہ زیرِ  زمین ریلوے سٹیشن پر کھڑا تھا‘ کسی نے اسے دھکا دیا۔ وہ منہ کے بل ریلوے لائن پر جا گرا۔ اوپر سے سوں سوں کرتی‘ چنگھاڑتی ٹرین آئی اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر گئی۔ 
چوبیس گھنٹوں کے ا ندر اندر پولیس نے دھکا دینے والی عورت کو گرفتار کر لیا۔ کیمرے کی فوٹیج پر یہ جائے واردات سے فرار ہوتی صاف نظر آ رہی تھی۔ 31 سالہ ایریکا نے بتایا کہ ’’اسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ جب سے نائن الیون ہوا ہے‘ میں انہیں مارتی پیٹتی آئی ہوں‘‘۔ 
سناندو سَین مسلمان نہیں تھا۔ غیر مسلم تھا مگر جنوبی ایشیا سے تھا۔ ایریکا نے اسے مسلمان سمجھا اور قتل کردیا۔ مسلمانوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ جو مہم امریکہ میں چلائی جا رہی ہے‘ وہ آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھانے لگ گئی ہے۔ 27 دسمبر والا واقعہ اس کی صرف ایک مثال ہے۔ لاتعداد مسلمان اس نفرت کا شکار ہوئے اور ہو رہے ہیں جو میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے اور جو چند سیاست دان چند نشستیں جیتنے کے لیے پھیلا رہے ہیں‘ شکاگو سے پارلیمنٹ کے امیدوار ’’جو والش‘‘ نے اپنی انتخابی مہم کی تقریر میں یہ مذموم فقرہ اچھل اچھل کر کہا… ’’مسلمان یہاں امریکہ میں امریکیوں کو آئے دن قتل کر رہے ہیں‘‘ ساتھ ہی اس نے یہ گھٹیا اور بے سروپا الزام‘ جس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا‘ لگایا کہ شکاگو کے مضافات میں دہشت پسند اسلام پھیل رہا ہے اور یہ کہ نائن الیون سے بھی بڑے حملے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تقریر سن کر خوب واہ واہ ہوئی۔ حقائق سے بے خبر امریکی غضب سے بپھر گئے۔ اس ہیٹ سپیچ کا نتیجہ بہت جلد برآمد ہوا۔ کچھ دن بعد رمضان کا مہینہ آ گیا۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر گئیں۔ شکاگو کی ایک مسجد میں ایک دن نمازیوں پر فائرنگ ہوئی اور دوسرے دن تراویح کی نماز کے دوران ایک اور مسجد کی کھڑکی سے نمازیوں پر تیزابی بم پھینکا گیا۔ جب کچھ سمجھدار امریکیوں نے والش پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا تو اس نے کسی قسم کی معذرت کرنے سے انکار کردیا۔ میڈیا خاموش رہا۔ امریکی میڈیا کو‘ جو آزادی کا علم بردار بنتا ہے‘ شرم آنی چاہیے کہ سیاست دانوں کی اشتعال انگیزی‘ دروغ گوئی اور نعرہ بازی کو قبول کر لیتا ہے اور اس کا تجزیہ کرتا ہے نہ اس پر تنقید کرتا ہے۔ 
ایک اور سیاست دان نیوٹ گِنگرچ یا وہ گوئی میں دوسروں سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہے۔ اس کا الزام ہے کہ مسلمان ’’خفیہ جہاد‘‘ کی تیاریوں میں ہیں۔ خلافِ اسلام مہم چلانے والوں کے پاس فنڈ اکٹھے کرنے کا منظم سلسلہ ہے۔ لگتا ہے کہ خفیہ ہاتھ ان کی پشت پر ہے۔ پورے ا مریکہ میں مہم چلائی جا رہی ہے‘ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو پبلک لائف سے پیچھے ہٹا دیا جائے اور ایک ایسی اقلیت میں تبدیل کردیا جائے جو اپنے آپ میں سمٹ کر رہ جائے۔ ساتھ ہی ایک اور مہم شروع کی گئی۔ انڈر گرائونڈ ریلوے سٹیشنوں کی دیواروں پر‘ نیویارک میں اور دوسرے شہروں میں بھی‘ ایسے اشتہار لگائے گئے اور ایسے نعرے درج کیے گئے جن سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلے اور ایک عام‘ ناسمجھ امریکی‘ کچھ بھی کر بیٹھے۔ ان میں سے کچھ اشتہارات میں نائن الیون کے سانحے کی تصویر لگا کر ساتھ قرآنی آیات‘ جو جہاد کے بارے میں ہیں‘ لکھی گئی ہیں۔ مسلمانوں کو وحشی کہا گیا ہے اور ’’عوام‘‘ کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ’’جہادیوں‘‘ کا مقابلہ کریں۔ 
مسلمان دکاندار نفرت کا خاص نشانہ بن رہے ہیں۔ نیویارک میں ایک ستر پچھتر سالہ دکاندار رحمت اللہ کو‘ جب وہ اپنی دکان بند کر رہا تھا‘ گولی مار دی گئی۔ نیویارک ہی میں‘ اسی ہفتے ایک اور مسلمان دکاندار کو دو افراد نے گھسیٹ کر دکان سے باہر نکالا اور زدو کوب کیا۔ اس سے پہلے پوچھا گیا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان؟ ایک اور مسلمان کو مسجد کے قریب چھریوں کے پے در پے وار کر کے شہید کر دیا گیا۔ قاتل‘ مارتے وقت زور زور سے نعرہ لگا رہا تھا 
I am going to kill you moslim!
’’اوئے مسلمان! میں تجھے قتل کرنے لگا ہوں‘‘۔ 
یہ ہے وہ پس منظر جس میں تہرے قتل کا حالیہ دلخراش واقعہ پیش آیا ہے۔ نارتھ کیرولینا میں شامی نژاد مسلمان‘ اس کی بیوی اور بیوی کی بہن کو سروں میں گولیاں مار کر ایک امریکی نے شہید کردیا۔ بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ گاڑیاں پارک کرنے کا جھگڑا تھا مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں رہی کہ مارنے والا اس مسلسل مہم سے متاثر ہوا جو مسلمانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے اور جس کی پشت پر بہت سی ایسی لابیاں ہیں جو بوجوہ کھل کر سامنے نہیں آنا چاہتیں۔ 
یہ سب قابل مذمت ہے‘ مگر جب ہم ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں تو کچھ دوسرے پہلو اس مذمت کو کمزور کر دیتے ہیں۔ کل پشاور میں مسجد پر حملہ کر کے درجنوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ یہ قاتل امریکی نہیں تھے۔ مسلمان تھے۔ گزشتہ ہفتے شکارپور میں ساٹھ سے زیادہ مسلمانوں کو بھی مسلمانوں ہی نے مارا ہے۔ جو کچھ شام اور عراق میں ہو رہا ہے‘ اس کے سامنے غیر مسلموں کے حملے ماند پڑ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ اپنی قبریں کھودو۔ انہیں ان قبروں میں لٹایا جاتا ہے اور سروں میں گولیاں ماری جاتی ہیں۔ بچوں کو چھوڑا جاتا ہے‘ نہ عورتوں کو‘ نہ بوڑھوں کو۔ 
اس کے ساتھ‘ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر مسلسل حالتِ انکار (State of denial) میں ہیں۔ ’’نہیں‘ مسلمان مسلمان کو نہیں مار سکتا‘‘! ’’یہ کوئی اور لوگ ہیں جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں‘‘۔ پشاور کے حالیہ حادثے پر وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان کہ مارنے والے افغانستان سے نہیں آتے‘ یہیں پاکستان سے آتے ہیں‘ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ 
امت مسلمہ کا اتحاد بدستور ایک خواب ہے۔ ایسا خواب جس کی تعبیر دور دور تک نہیں نظر آ رہی۔ مسلمان ملکوں کا اتحاد تو خواب ہی ہے‘ مسلمان معاشرے کا تاروپود اندر سے بکھر رہا ہے۔ پراگندگی اور ابتری عروج پر ہے۔ تکفیر کا فتنہ دبانے سے کیا دبے گا‘ دن بدن زیادہ ہو رہا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ ایک مسلک کا ماننے والا دوسرے مسلم کے مسلمان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا‘ اس کی مسجد میں قدم رکھنے سے گریز کرتا ہے‘ بسااوقات ایک دوسرے کے خاندان میں شادیاں کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ ایک معاشرے میں کئی معاشرے ہیں۔ چار دیواریاں اتنی اونچی ہیں کہ آسمان کو چھو رہی ہیں اگرچہ بظاہر نظر نہیں آتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت مدارس کی رجسٹریشن یا فنڈ کے آڈٹ کی بات کرے تو مختلف مسالک کے مدارس چلانے والے منتظم حضرات متحد ہو جاتے ہیں لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز پڑھ لیں گے؟ ایک دوسرے کے خاندان سے رشتے قبول کر لیں گے؟ پھر ہر فرقے کے اندر کئی فرقے ہیں۔ ہر مسلک کے اندر مختلف مسالک ہیں۔ 
غیر مسلکوں کو‘ جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں‘ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جب مسلمان خود مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر رہے ہیں‘ تو انہیں تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اس شعبے میں خودکفیل ہیں۔

Friday, February 13, 2015

رومان! مگر کب تک!

رومان! مگر کب تک!
لکڑی کا شیشہ‘ پرانا ٹیبل تھا اور دونوں طرف بان کی کھردری چارپائیاں۔ میز پر شیشے کے جگ میں نہیں‘ مٹی کے صراحی نما گھڑے میں پانی تھا۔ یہ ایک ٹرک ہوٹل تھا۔ ساتھ پرانا ساتھی اللہ بخش تھا۔ جب بھی گائوں یا اپنے علاقے میں جانا ہوتا ہے‘ گاڑی وہی چلاتا ہے۔ ہم نے ایک پلیٹ سبزی کی منگائی‘ ایک دال کی‘ تنور کی تازہ خستہ روٹیاں تھیں جو گرم گرم‘ چنگیر میں رکھی جا رہی تھیں۔ مانا کہ ایک طرف شاہراہ تھی جس پر مہیب ٹرک اور دیو آسا بسیں گزر رہی تھیں مگر دوسری طرف تو کھیت تھے۔ حدِ نظر تک‘ وسعت کو اپنے اوپر تانے‘ گندم کی فصل‘ سبز چادر سر پر اوڑھے‘ اپنے حساب سے اونچی ہو رہی تھی۔ درخت تھے‘ سنہری نرم دھوپ جیسے ان کی ٹہنیوں سے بور کی طرح اتر رہی تھی ؎ 
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں 
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے 
پرندے تھے‘ بادلوں بھری فضائوں کے معصوم مسافر۔ کھانے تو اس کرۂ ارض پر‘ ملک ملک‘ بہت کھائے۔ بحرالکاہل کے جنت نظیر کناروں پر آباد ریستورانوں میں سی فوڈ سے لے کر‘ ٹھٹھرتے وسط ایشیا کے سر بہ فلک فائیو سٹار ہوٹلوں میں گراں بہا 
Caviar 
تک۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کُلُّ شئیٍ یَرْجِعُ اِلیٰ اَصْلہٖ جو مزا بان کی کھردری چارپائی پر‘ اور مٹی کے پیالے میں اور مٹی ہی کی صحنکی یا طباق میں‘ لسی کے گھونٹ سے‘ چُپڑی ہوئی تنور کی روٹی سے‘ رات کی بچی ہوئی مسور کی ٹھنڈی دال سے اور گندم کے موٹے آٹے کے بنے ہوئے حلوے سے حاصل ہوتا ہے‘ اس کا کیا جواب اور کیا مقابلہ! 
مگر ہم جیسے لوگ‘ جن کی اصل ان خاک اڑاتے قریوں میں ہے‘ جو اٹھے اور شہروں میں آن بسے‘ ایک عجیب منافقت کا شکار ہیں۔ ذہنوں میں وہی رومانیت آباد ہے جس میں ہم نے بچپن اور لڑکپن گزارے۔ کچی گلیاں‘ جو بارش میں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں‘ بڑے بڑے آنگنوں میں ایک طرف رہائشی چارپائیاں اور دوسری طرف ڈھور ڈنگر‘ فضا میں گوبر اور اُپلوں کی تیرتی خاص بُوباس۔ ان پڑھ چرواہے جن کی جوانی اور ادھیڑ عمر مویشیوں کو ہانکتے گزر جاتی ہے۔ کوسوں تک پیدل چلتے مرد جن کے پیچھے پیچھے‘ جوتے ہاتھوں میں اٹھائے ان کی عورتیں! مٹی کے پیالے‘ چراغ‘ دودھ اور دہی۔ یہ ہیں وہ دیہات جو یاد کے دریچوں سے دکھائی دیتے ہیں اور ذہنوں میں آباد ہیں۔ 
مگر یہ وہ زندگی ہے جو ہم خود اب بسر نہیں کر سکتے۔ ذہنی طور پر وہی ہیں لیکن جسمانی اعتبار سے ہم کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ ہمیں تو اب انٹرنیٹ درکار ہے‘ وہ بھی چوبیس گھنٹے‘ کسی تعطل اور کسی رخنے کے بغیر‘ جو صبح چار پانچ بجے‘ جب ہم بستر پر نیم دراز ہوں‘ امریکہ کا‘ شرق اوسط کا اور بھارت کا تازہ ترین پرنٹ میڈیا حاضر کردے۔ صبح ہمیں اخبارات کا موٹا سا پلندہ چاہیے۔ چائے وہ پیتے ہیں جس میں تعویذ نما گتھی پڑی ہوئی ہو‘ جس کا دھاگہ پیالی سے باہر لٹک رہا ہو اور دودھ اتنا ڈالتے ہیں جتنی ہماری گفتگو میں سچائی ہوتی ہے۔ راتیں ہماری جاگتی ہیں۔ یو پی ایس اور جنریٹر زندگی کا جزو بن چکے ہیں۔ بچے جن سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور جن دفتروں‘ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں‘ ان کا ان خاک اڑاتے قریوں میں کوئی وجود ہے نہ تصور! 
ترقی یافتہ ملکوں میں دیہات کی شکل بدل چکی ہے۔ شہر اور گائوں میں فرق یہی رہ گیا ہے کہ ایک کی آبادی زیادہ ہے اور دوسرے کی کم! معیارِ زندگی یکساں ہے۔ طرزِ حیات ایک سا ہے۔ سہولیات دونوں جگہ وہی ہیں۔ وہی انٹرنیٹ‘ وہی لائبریریاں‘ وہی ہسپتال‘ وہی تعلیمی ادارے‘ اساتذہ اور ڈاکٹروں کے لیے دور افتادہ بستیوں میں جا کر کام کرنا لازمی ہے۔ ریٹائرڈ بوڑھوں اور بوڑھیوں کے لیے خصوصی گائوں آباد کیے جا رہے ہیں جو شہروں کے ہنگاموں سے دور ہوں مگر ہسپتال اور لائبریریاں اسی معیار کی ہوں جو شہروں میں میسر ہیں۔ پانی صاف ستھرا‘ خوراک خالص‘ ملاوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ مقامی حکومتیں ان دور افتادہ بستیوں میں اُسی چابکدستی‘ دیانت داری اور احتساب کے حوالے سے چوکس ہو کر دن رات عوام کی خدمت کرتی ہیں جس طرح صوبائی یا شہری حکومتیں کرتی ہیں۔ 
ہمارے دیہات ترقی یافتہ دنیا تو دور کی بات ہے‘ خود ہمارے اپنے شہروں سے سینکڑوں سال پیچھے ہیں۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ سکولوں کی چھتیں ہیں نہ دیواریں۔ اساتذہ ہیں نہ لائبریریاں نہ لیبارٹریاں۔ ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ پنجاب حکومت سرکاری سکولوں کو مرحلہ وار شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس پر لاکھوں کروڑوں روپے لگیں گے اور پھر شکوک و شبہات اور الزامات اور صفائیوں سے بھری ہوئی کہانیاں جنم لیں گی۔ دن کی روشنی میں کھلنے والے ان سکولوں کو شمسی توانائی کی نہیں‘ باعزت عمارتوں کی‘ فرنیچر کی‘ پینے کے صاف پانی کی‘ اہلیت رکھنے والے اساتذہ کی لائبریریوں کی اور لیبارٹریوں کی ضرورت ہے۔ آج‘ 2015ء میں بھی‘ حالت یہ ہے کہ مڈل اور ہائی سکول جانے کے لیے بچوں اور بچیوں کو طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی پیدل‘ کبھی سوزوکیوں کے پیچھے لٹک کر‘ اور کبھی بسوں کی چھتوں پر موت کی جھولی میں بیٹھ کر۔ کوئی سروے نہیں بتاتا کہ ملک کے دیہاتی علاقوں میں قائم سکولوں سے کتنے بچے بڑے ہو کر کیا کیا بن رہے ہیں۔ فوج میں افسر یہاں سے کتنے نکل رہے ہیں‘ سول سروس میں کتنے جا رہے ہیں اور دوسرے شعبوں میں کتنی تعداد ملازمتیں حاصل کر رہی ہے؟ 
صحت کا شعبہ اس قدر پیچھے ہے کہ اسے شعبہ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ تحصیل سطح کے ہسپتال شفاخانے نہیں‘ مقتل اور ذبح خانے ہیں۔ ادویات میسر ہیں نہ آلات‘ یہاں تک کہ مرتے ہوئے مریض کے لیے بسااوقات روئی اور قینچی تک نہیں ملتی۔ ہولناک برآمدوں میں لواحقین کھڑے ہو کر بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات چائے پی رہے ہوتے ہیں یا کہیں پرائیویٹ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مریض کو مجبوراً کئی میل دور‘ کسی بڑے شہر کے نجی ہسپتال میں لانا پڑتا ہے جو دکان کی طرح چلایا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں جانا پڑا تو معلوم ہوا کہ لفٹ صرف مریضوں کے لیے چل سکتی ہے‘ وہ بھی پہلے عرض گزاری کرنا پڑتی ہے۔ مریضوں کے عمر رسیدہ لواحقین‘ سامان اٹھائے‘ چوتھی منزل تک سیڑھیوں سے جا رہے تھے۔ دیہاتی علاقوں سے لائے ہوئے مریضوں کے تیماردار ایسے عذاب سے گزرتے ہیں کہ شہروں میں رہنے والے اس کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ راتیں برآمدوں میں ٹھٹھرتے ہوئے‘ گرمیاں ہوں تو باہر لان کے سبزے پر یا سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے گزرتی ہیں۔ آمدورفت میں ساری جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے۔ یوں بھی جب سے بجلی آئی ہے اور موبائل فون عام ہوئے ہیں‘ کسانوں کے پاس نقد رقم ختم ہو گئی ہے۔ چودہ چودہ گھنٹے لوڈشیڈنگ پر رہنے والی بجلی کا بل باقاعدگی سے آتا ہے! ایک زمانہ تھا کہ کسان بچت کر لیتا تھا۔ اب جو رقم بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد بچتی ہے‘ وہ فضول شوق لے اُڑتے ہیں۔ سڑکیں اول تو کچی ہیں‘ دھول اڑاتی اور پکی ہیں تو ٹوٹی ہوئیں‘ مرمت کے لامتناہی انتظار میں۔ 
رومانی تصورات بجا! لیکن کیا کبھی وہ وقت آئے گا جب ہمارے دیہات گزرے زمانوں سے نکل کر آج کی دنیا میں قدم رکھیں گے؟

Monday, February 09, 2015

اور کوئی دوسرا اس خواب کو دیکھے تو…

سناٹا ہے۔ آسمان سے زمین تک چھایا ہوا۔ چاروں سمت پھیلتا‘ امڈ امڈ کر آتا!
گھر میں آوازیں تو ہیں مگر سنائی نہیں دے رہیں۔ وہی کمرے ہیں‘ وہی دیوار و در مگر سب کچھ بدل گیا ہے  ؎
نشاں کہیں بھی نہیں اس کی انگلیوں کے مگر
میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز روتا ہوں
اب یہ گھر کبھی بھی ویسا نہیں ہو پائے گا‘ جیسے تھا۔ ایک زمانہ لد چکا۔ ایک اور زمانہ آ پہنچا۔ اس کے کمرے میں جھانکتا ہوں۔ خالی پلنگ۔ جو الماری اس کے ملبوسات سے اٹی رہتی تھی‘ خالی ہے۔ ضبط چھوٹ جاتا ہے۔ آنکھوں میں ستارے ٹوٹتے ہیں‘ ہچکیاں لینے لگتا ہوں ع دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے۔ پالتے ہیں‘ پوستے ہیں۔ رومی نے کہا تھا   ؎
طفل کنم‘ سوئے دبستاں شوند
کھیلتی ہیں‘ سکول جاتی ہیں‘ کچن کو آباد کرتی ہیں‘ یوں کہ میٹھی خوشبوئیں‘ بیکنگ کی رنگا رنگ بہاریں گھر پر چھا جاتی ہیں۔ خریداریاں کرتی ہیں‘ مائوں کے ساتھ دنیا بھر کی باتیں کرتی ہیں‘ پوشاکوں کی‘ بوطیقوں کی‘ کیا پہننا ہے‘ کیا پکانا ہے‘ پھر ایک صبح آتی ہے تو نظر نہیں آتیں۔ ایک اور گھر کو جا چکی ہوتی ہیں۔ عجیب دنیا ہے۔ جدائی کا پہاڑ جتنا وزن سینے پر اٹھائے‘ کرب سے چٹختے‘ ماں باپ روتے بھی ہیں اور خدا کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ گھر کی ہو گئی‘ ذمہ داری نمٹ گئی۔ ساتھ ساتھ گھر کو دیکھتے ہیں۔ کلیجے شق ہونے لگتے ہیں   ؎
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر در اسی گھر میں
فلم چلتی ہے۔ ایک ایک منظر سامنے آتا ہے‘ دم بخود دیکھتا ہوں۔ حیران‘ وقت کس طرح گزرتا ہے۔ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ چلتی ریل سے باہر دیکھتے ہیں تو منظر سے نظر نہیں ہٹتی۔ رفتار کا احساس نہیں ہوتا۔ منظر سے نظر ہٹتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ چھوٹی سی تھی۔ ساتھ سوتی تھی۔ کہانیاں سنتی تھی۔ خود بھی سناتی تھی۔ سٹوری بُکس مل کر پڑھتے تھے۔ رات کو سب سوجاتے تھے تو فریج سے آم نکال کر باپ بیٹی مینگو پارٹی مناتے تھے۔ تیسری چوتھی جماعت میں تھی تو نظمیں کہنا شروع کردیں۔ کچھ جمع ہو چکیں تو ایک دن غور سے پڑھیں۔ حیرت ہوئی کہ وزن بھی تھا‘ ترتیب بھی اور تنظیم بھی۔ ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک مصرع سے ایک لفظ نکال کر کہا‘ اسے پڑھو‘ پڑھا اور بحر اور وزن کی اصطلاحات سے ناآشنا‘ کہنے لگی‘ نہیں‘ یہ ٹھیک نہیں‘ اس میں گڑ بڑ ہے۔ پھر ایک دن کچھ نظمیں باپ نے فون پر وحید احمد کو‘ کہ نظم کا سردار ہے‘ سنائیں۔ وحید احمد نے کہا‘ بہت اچھی نظمیں ہیں مگر شاعر کم پڑھا لکھا لگتا ہے۔ رئوف امیر مرحوم کو سنائیں تو کہنے لگے شاعر دس بارہ جماعتیں پڑھا لگتا ہے۔ ڈاکٹر وحید احمد کے اصرار پر نظمیں کتاب کی صورت شائع کرائی گئیں۔ طباعت کا اہتمام چاچو سعود عثمانی نے کیا۔ ایک اور چاچو انوار فطرت نے دیباچہ لکھا۔ یوں کتاب ’’بکریوں والا بابا‘‘ چھپی۔ اور ہِٹ ہوئی۔ چاچے محبوب ظفر اور چاچے غضنفر ہاشمی نے اکادمی ادبیات میں تقریب کا اہتمام کیا۔ افتخار عارف نے رونق بخشی۔
پھر مصوری کا شوق ہوا۔ میلبورن سے لے کر لاہور اور اسلام آباد تک‘ سارے گھروں کی دیواریں اس کی بنائی ہوئی پینٹنگز سے بھر گئیں۔ جو دیکھتا‘ مصور کا نام ضرور پوچھتا۔ کالج پہنچی تو تعطیلات کے دوران انٹرن شپ کے لیے ملک کے موقر ترین انگریزی روزنامہ سے منسلک ہوئی۔ چند ہفتوں میں پانچ مضامین چھپ گئے۔ روزنامہ نے ملازمت کی پیشکش کردی۔ ہنس کر کہنے لگی‘ ابھی تو پڑھائی بھی پوری نہیں ہوئی‘ یوں بھی صحافت کو کیریئر نہیں بنانا۔
باپ بیٹی کا رشتہ عجیب ہوتا ہے۔ اسے کوئی اور کیا سمجھے گا! افتخار عارف نے کہا تھا   ؎
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو دیکھے تو برا مانتی ہیں
جب بھی بیمار پڑا‘ نوٹ کیا کہ اس کے ہونٹوں سے ہنسی غائب ہو جاتی۔ کالج سے‘ اور پھر یونیورسٹی سے آ کر پہلا سوال یہی ہوتا ابو کا کیا حال ہے۔ جارحانہ انداز سے پرہیز کراتی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضرور کہتی کہ ابو‘ بہت ہوچکی‘ اب یہ ڈرامہ بند کریں۔ انگوٹھے میں درد شروع ہوا۔ ڈاکٹر نے ہدایت کی تو اہتمام سے ہر روز گرم پانی ٹب میں ڈالتی۔ نمک ملاتی اور سامنے رکھ کر کہتی پائوں اس میں
رکھیں۔ پھر دوا لگاتی‘ ملتی۔ ماں کے پیروں میں بھی تکلیف تھی۔ لندن سے جوراب نما Protectors منگوائیں‘ پہننے کا طریقہ سمجھایا۔ گھر کے اندر پہننے والی چپل ذرا بوسیدہ ہوتی تو نئی لے آتی۔ سرما نے زور کیا تو ایک دن کہنے لگی‘ میرے ساتھ بلیو ایریا آئیں‘ کام ہے۔ ملبوسات کی دکان پر پہنچے تو پہلے سے منتخب کردہ لمبا کوٹ پہنایا‘ ابو‘ یہ ضروری ہے‘ دوسرے دن مفلر آ گیا‘ بتایا کہ کبھی استعمال ہی نہیں کیا۔ کوئی بات نہیں‘ اب کر لیں۔
فاروق گیلانی مرحوم اور میں نے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد رہائش گاہیں ایک ساتھ تعمیر کروائیں‘ اس پر کبھی بات نہیں ہوئی لیکن عجیب اتفاق کہ دونوں نے بیٹیوں کے لیے مستقل خواب گاہیں مختص کیں۔ استطاعت ہو تو ماں باپ کے گھر میں شادی شدہ بیٹیوں کے اپنے کمرے ہوں۔ جب بھی آئیں کسی اور کو زحمت نہ ہو۔ تعمیر کے دوران اس کا ایک اور ٹیلنٹ سامنے آیا‘ لگتا تھا عشروں سے یہی کام کر رہی ہے۔ باتھ روموں کے اندر‘ کچن میں‘ لائونج میں‘ کون سی چیز کہاں لگانی ہے‘ رنگ کیسا ہونا ہے‘ روشنیاں کیسی ہوں گی‘ فرنٹ ایلی ویشن کس طرح کی ہوگی‘ آرکیٹیکٹ آ کر اسی سے پوچھتا تھا اور اسی کو بتاتا تھا۔
پھر فاکس ویگن (Beetle) کا شوق ہوا۔ بہت کہا کوئی اور گاڑی لو‘ مگر نہیں! اس کے بعد ہی باپ کے علم میں اضافہ ہوا کہ جسے اس گاڑی کا شوق ہو‘ کوئی اور گاڑی اسے نہیں بھاتی۔ مستری بھی مخصوص اور چلانے کا طریقہ بھی الگ۔ یوں رکھی جیسے بچے کا خیال رکھتے ہیں۔ جہاں گاڑی کھڑی ہوتی‘ کوئی بابا‘ کوئی ریٹائرڈ فوجی آ کر قیمت پوچھتا اور خریدنے کی پیشکش کر دیتا۔ اپنے سارے کام اور گھر کے بھی‘ اسی پر کرتی۔ باپ کے پاس وقت نہ ہوتا تو ماں کو ساتھ بٹھاتی‘ بھابھی کو لیتی اور ہسپتال سے لے کر کیش اینڈ کیری سے سودا لینے تک‘ سارے امور نمٹا آتی۔ جس کا بھی جنم دن ہوتا‘ بھائیوں میں سے کسی کا‘ کسی بھابھی کا‘ بھانجے یا بھتیجی کا‘ بھولنے کا سوال ہی نہ تھا۔ امپورٹڈ چیزیں‘ مہنگے داموں خرید کر لاتی اور ایسا کیک بناتی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ نکاح ہوا۔ رخصتی نہ تھی اس لیے باپ کو محسوس نہ ہوا۔ اب رخصت ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ سارا میلہ تو کمبل چرائے جانے کے لیے تھا۔ تیاریاں‘ خریداریاں‘ تقاریب‘ مہمان… اور حاصل؟ ویران گھر‘ سرخ آنکھیں‘ بھنچے ہونٹ‘ زیرِ آب رخسار‘ گُھٹا ہوا سینہ اور بات بات پر‘ کسی نہ کسی بہانے‘ چھلک چھلک پڑتے آنسو!

اس کائنات میں جتنی خوش رنگ‘ جتنی شیریں اور جتنی دلکش نعمتیں ہیں‘ جیسے سخت پیاس میں ٹھنڈا پانی‘ جیسے چلچلاتی دھوپ میں خنک سایہ‘ جیسے ہوا میں اڑتے رنگین بادل‘ جیسے بارش کے بعد ایک افق سے دوسرے افق تک چھائی ہوئی‘ رنگوں کی پینگ۔ فطرت کے ناقابلِ بیان دیدہ زیب مناظر۔ جنہیں صرف دستِ قدرت ہی بنا سکتا ہے‘ اور رشتے جو خون میں شامل ہوتے ہیں‘ ان سب میں ماں کی شفقت کے بعد صرف بیٹی کا پیار ہے جس کا ثانی کوئی نہیں‘ جس کو بیان کرنے کے لیے ساری زبانوں کی ساری لغات ناکافی ہیں اور جس کا احساس صرف وہ نہیں کر سکتا جو اس نعمت سے محروم ہے۔ سفر سے واپسی پر پہلا گھر جس میں مقدس قدم پڑتے فاطمہ زہراؓ کا ہوتا۔ نکلتے وقت آخری تشریف آوری وہاں ہوتی۔ آتیں تو جہانوں کے سردارؐ کھڑے ہو جاتے۔

Friday, February 06, 2015

پن چکیوں پر حملے



ڈان کو ایگزوٹ یوں تو ہسپانوی زبان کا ناول ہے لیکن اسے جدید مغربی ادب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ بائبل کے بعد سب سے زیادہ اسی کے دنیا میں تراجم ہوئے۔ اس کا مصنف سروانتے تھا جو کچھ عرصہ الجزائر میں قید رہا۔ یوں وہ عربی ادب سے شناسا ہوا۔ ایک روایت یہ ہے کہ ڈان کو ایگزوٹ ایک عرب سید احمد کی تصنیف ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہماری زبان اردو کے حوالے سے اس کا تلفظ بھی مشکل اور متنازعہ ہے۔ ہسپانوی اسے ڈان کیو ہاٹی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ کو اگزوٹ ہو گیا۔
اس ناول کا شہرۂ آفاق مرکزی کردار خود ڈان کو ایگزوٹ ہی ہے۔ مہماتی ناول پڑھ پڑھ کر وہ ایک تخیلاتی دنیا میں رہنے لگا تھا۔ اس زمانے کے بہادر تلوار ڈھال اور نیزہ لے کر مہمات سر کرتے تھے۔ وہ بھی گھر سے نکل پڑا۔ زرہ پہن لی۔ پڑوسن لڑکی کو محبوبہ تصور کیا جس کا لڑکی کو بالکل علم نہیں تھا۔ راستے میں پڑنے والی سرائے کو محل اور اس کے مالک کو محل کا نواب قرار دیا۔ یوں وہ نائٹ (سورما) بن گیا۔ ایک غریب کسان سانچو پانزا کو اپنا ملازم بنا لیا جو اس کے ہتھیار اٹھاتا تھا۔ اس سے وعدہ کیا کہ اپنی فتوحات میں سے وہ اسے ایک جزیرہ عطا کرے گا۔
ڈان کو ایگزوٹ اور اس کا شمشیر بردار سانچوپانزا تصوراتی مہمات سر کرتے ہیں۔ کبھی پن چکیوں پر حملے کرتے ہیں۔ کبھی ڈاکوئوں کا مقابلہ کرتے ہیںکبھی شہروں کو فتح کرتے ہیںکبھی اجنبی عورتوں کو محبوبہ اور ملکہ تصور کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور مناظر مزاحیہ ہو جاتے ہیں۔ آخر میں یہ ہیرو اپنے گائوں میں واپس آتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اب وہ دشت میں گلہ بانی کرے گا۔
لگتا ہے کہ وطن عزیز ڈان کو ایگزوٹ اور اس جیسے تخیلاتی مہم جوئوں اور تصوراتی سورمائوں کے نرغے میں ہے۔ پن چکیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ کبھی غربت کو ختم کیا جا رہا ہےکبھی دہشت گردی سے مقابلہ ہو رہا ہےکبھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ کبھی تعلیم پھیلانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ کبھی توانائی کے بحران کو حل کرنے کی تاریخیں دی جا رہی ہیں۔ ذرا مندرجہ ذیل بیانات پڑھیے۔ اور غور کیجیے کہ ان اعلانات اور پن چکیوں پر ڈان کو ایگزوٹ کے دنداں شکن حملوں میں کیا فرق ہے؟
ذمہ دار عناصر کو ہر صورت میں قانون کے شکنجے میں لایا جائے گا
بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے درندے رعایت کے مستحق نہیں
سیلاب سے متاثرہ آخری خاندان کی گھروں کو واپسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
شیر جاگے تو سرخی رہے گی نہ پائوڈر
عوام کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے
گراں فروشوں کو من مانی نہیں کرنے دیں گے
عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلائیں گے
انرجی بحران حل ہونے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
میرے ہوتے کوئی عوام کا استحصال کرےیہ ممکن نہیں!
حکومت توانائی بحران کو ہر صورت میں کنٹرول کرے گی
متاثرین وزیرستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے
دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کریں گے
گراں فروشی ہرگز برداشت نہیں کروں گا
منافع کے نام پر عوام کا استحصال ناقابل برداشت ہے
اقدامات میں کوتاہی برداشت نہیں ہوگی، کاغذی کارروائی نہیں چلے گی
ٹیکس چوری روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے
زرہ بکترلمبے نیزےسانچوپانزا کی اٹھائی ہوئی تلوار اور پن چکیوں پر ان بہادرانہ حملوں کے باوجود صورت حال نہ صرف جوں کی توں ہے بلکہ ہر روز ابتر ہو رہی ہےتوانائی کے بحران یا گرانی کے مسائل کو چھوڑ دیجیے۔ کسی بھی حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ اس کی عزت کا اور عزت کے بعد بقا کا سوال ہوتا ہے۔ ساتھ
ہی اس ’’مسلمہ حقیقت‘‘ کو سامنے رکھیے کہ پنجاب کی حکومت دوسرے صوبوں کی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستعد ہے! اس حقیقت کا اعتراف کبھی لندن میں سنائی دیتا ہے کبھی چین میں اور کبھی سویڈن میں۔ مگر امن و امان کی جتنی تباہ کن صورت حال پنجاب میں ہے کراچی کے علاوہ کوئی اور گوشۂ وطن اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پنجاب حکومت کو کامیاب ترین قرار دینے والے ’’غیر جانب دار‘‘ سروے کنندگان اگر یہ سروے بھی کرا لیتے کہ پرائیویٹ گارڈوں کی صوبے میں کتنی تعداد ہے تو صوبے کی برتری یہاں بھی واضح ہو جاتی! صوبے کے باقی شہروں کو تو چھوڑ دیجیےپنجاب حکومت کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ لاہور شہر میں کتنے غیر ملکی آباد ہیںاسلحہ کتنا ہے اور کون کون سے علاقے نوگو ایریا بنتے جا رہے ہیں۔
خطرناک ترین رجحان یہ سامنے آ رہا ہے کہ عوام کا ریاست سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ جہاں بھی لوگوں کا بس چلتا ہےوہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور ’’جہاں ہے جیسے ہے‘‘ کی بنیاد پر مسئلے کو وہیں حل کر دیتے ہیں۔ پولیس کسی بھی حکومت کا شوروم ہوتی ہے مگر پنجاب پولیس کا یہ حال ہے کہ وہ جائے واردات پر بروقت نہ پہنچنے کے ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔ یہ چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ فیصل آباد میں ڈاکوئوں کے پانچ رکنی گروہ نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا تو شہریوں کی بڑی تعداد اکٹھی ہو گئی۔ ڈاکوئوں نے اندھا دھند
فائرنگ کیشہری گرنا شروع ہو گئے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت کی اور تین ڈاکوئوں کو پکڑ لیا۔ فائرنگ کی آواز پورے علاقے میں سنی گئی سوائے ان مقامات کے جہاں پولیس براجمان تھی۔ شہریوں نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا یعنی دستِ خود دہانِ خوداپنا انصاف خودانہوں نے ڈاکوئوں پر تشدد کرنا شروع کیا۔ جب وہ ادھ موئے ہو گئے تو پولیس ظاہر ہوئی اور ڈاکوئوں کو ہسپتال لے گئی جہاں وہ دنیائے فانی کو اپنے باقی ڈاکو ساتھیوں کے حوالے کر کے دوسرے جہان کو رخصت ہو گئے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ شہریوں نے ڈاکوئوں کو زندہ جلانے کی بھی کوشش کی!
سنتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں کسی حکمران کو اپنی قلمرو میں ڈاکے یا قتل کی اطلاع ملتی تھی تو وہ امن قائم کرنے سے پہلے کھانا پینا اور سونا ترک کر دیتا تھا۔ اب سارے طور اطوار بدل گئے ہیں۔ ایک عقل مند نے بتایا ہے کہ اب شیر کی ایک دن کی زندگی سے گیدڑ کی سو سالہ زندگی قابلِ ترجیح سمجھی جاتی ہے۔ اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو۔ اب پیسہ ہاتھ کی میل نہیں ہاتھ کی زینت اور ہاتھ کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔ کھانے پینے کا معاملہ یہ ہے کہ کھانا پینا ترک کر بھی دیا جائے تو امن و امان کی کیا گارنٹی ہے؟ ریلوے کے ایک وزیر نے ریلوے کے تباہ کن حادثے پر کہا تھا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں میں کوئی ریلوے کا انجن ڈرائیور ہوں؟ شکارپور کے دلدوز سانحہ کے فوراً بعد پرتکلف کھانے کو کمزور کھانا قرار دینے والے حکمران معترضین کا منہ بند کرنے کے لیے یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ کیا یہ حملہ ہم نے کرایا ہے کہ اپنی خوش خوراکی پر سمجھوتہ کر لیں؟


 

powered by worldwanders.com