Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 24, 2012

رمضان اور پیشہ ور اینکر


سوار تو میں تھائی ایئر کے جہاز پر تھا مگر یاد پی آئی اے کو کر رہا تھا۔ ساری محبت کے باوجود اب کے میں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں اور قومی ایئر لائن سے اجتناب کیا تھا ۔ جب بھی پی آئی اے کا جہاز بنکاک پہنچا، تاخیر سے پہنچا اور ہر دفعہ معلوم ہوا کہ آسٹریلیا جانے والا جہاز جا چکا ہے۔ یہ تماشہ کئی بار، کئی شہروں میں ہوا۔ میکسیکو جانا تھا لاہور سے پی آئی اے کے جہاز پر بیٹھا۔ حسب معمول تاخیر.... نیویارک پہنچ کر معلوم ہوا کہ میکسیکو والا جہاز اڑ چکا ہے۔ نیو یارک ایئر پورٹ پر پی آئی اے کی خاتون انچارج نخوت سے بتا رہی تھی کہ میں تو پاکستان کبھی گئی ہی نہیں! شب بسری کےلئے کمرہ تب ملا جب خالص ”پاکستانی“ سٹائل میں بات کی۔ اسی طرح ایک بار پی آئی اے سے لندن پہنچے۔ اتنی تاخیر سے کہ واشنگٹن جانےوالا جہاز پرواز کر چکا تھا۔ محسن خان اور شبیر ڈاہر جیسے منجھے ہوئے بیورو کریٹ ساتھ تھے۔ طویل مذاکرات کے بعد پی آئی اے نے رات گزارنے کےلئے جس ہوٹل کا انتظام کیا اسکے کمرے راجہ بازار کے منجی بستر والے کمروں سے ذرا ہی بہتر تھے۔ قومی اسمبلی کو جو تازہ اعداد و شمار مہیا کیے گئے ہیں انکی رُو سے گزشتہ تین ماہ کے دوران پی آئی اے کی چار ہزار تین سو سے زیادہ پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی ہیں۔ چنانچہ عافیت اسی میں ہے کہ محبت پی آئی اے سے کی جائے لیکن سفر کسی مہذب ایئر لائن سے کیا جائے۔
میلبورن پہنچ کر جان ناتواں کو صدموں پر صدمے اٹھانا پڑے۔ شہر میں وزیر اعظم اور لیڈر آف اپوزیشن دونوں آئے ہوئے تھے۔ میں نے ایک آسٹریلوی سے پوچھا کہ ٹریفک کتنے گھنٹوں کےلئے روکی جائےگی؟ اس نے سوال سن کر حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے بتایا کہ گزشتہ جمعرات کو صدر زرداری اور میاں نواز شریف دونوں کراچی میں تھے تو اہل کراچی پر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ سڑکیں کنٹینروں سے بند کی گئیں۔ کلفٹن سے ٹاور تک اور شاہراہ فیصل سے بلاول ہاﺅس تک اور میاں صاحب کے ہوٹل تک سب شاہراہیں مسدود تھیں۔ آسٹریلوی نے نئی حیرت سے دیکھا ”یقین نہیں آتا کہ یہ 2012ءمیں ہو رہا ہے! پاکستانی پارلیمنٹ اس غیر انسانی سلوک پر ایکشن کیوں نہیں لیتی؟“ اب کے میں نے آسٹریلوی کو حیرت سے دیکھا۔

بس ڈرائیور چینی تھا‘ اس سے پوچھا کہ کیا میلبورن میں مقیم ہزاروں چینیوں کیلئے کوئی ویلفیئر ایسوسی ایشن ہے؟ اسکے پاس بھی میرے لئے حیرت ہی تھی۔ اس کا جواب سیدھا سادا تھا۔ ”چینیوں کی ویلفیئر پورے شہر کی ویلفیئر ہی کا حصہ ہے“۔ مجھے سنگا پور یاد آ گیا جہاں چینی کا پڑوسی چینی نہیں ہو سکتا اور انڈین یا ملائے کا پڑوسی انڈین یا ملائے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کوئی نسلی یا لسانی گروہ شہر کے کسی حصے پر غلبہ نہیں پا سکتا۔ اگر یہ اصول کراچی میں اپنایا جاتا تو آج جو حالت ہو رہی ہے، نہ ہوتی۔ بدقسمتی سے اب یہ اصول لاہور میں بھی پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ عجیب و غریب خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے مرکزی نائب صدر امیر مقام نے خادم پنجاب سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں صرف ایک لسانی گروہ کے مسائل پر بات چیت ہوئی۔ خادم پنجاب نے لاہور میں مقیم ایک ایسی ویلفیئر سوسائٹی کےلئے ایمبولینس کی منظوری دی جو صرف ایک لسانی گروہ کی نمائندگی کر رہی ہے کاش کوئی خادم پنجاب کو مشورہ دیتا کہ ایسے ہی کوتاہ اندیشانہ اقدامات کے نتیجے میں شہروں میں سہراب گوٹھ وجود میں آتے ہیں۔ خدا نہ کرے لاہور کا حال بھی کراچی جیسا ہو اور خدا نہ کرے کہ اے این پی کے سربراہ کا کوئی بھانجا بھتیجا لاہور میں بھی کسی روز لسانی سیاست کی دکان چمکا رہا ہو! یاد آیا کہ اس حساس مسئلے کی طرف کچھ عرصہ قبل جاوید ہاشمی نے بھی توجہ دلائی تھی۔ اس وقت ہاشمی صاحب نون لیگ ہی میں تھے۔

چینی سے مایوس ہو کر میں نے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک اور آسٹریلوی سے پوچھا کہ کیا کرسمس پر تمہارے تاجر بھی لوٹ مار کرتے ہیں، اس نے جواب دیا نہیں، وہ تو قیمتیں کم کر دیتے ہیں۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ ہمارے علماءکرام صرف رمضان میں نیک کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں، سارا سال نہیں، اور ان نیک کاموں میں سچ بولنا، وعدہ ایفا کرنا اور قیمتیں برقرار رکھنا، شامل نہیں ہوتا۔ یوں بھی جس رمضان میں پیشہ ور اینکر لاکھوں روپوں کا معاوضہ لیکر رونے کا ڈرامہ رچائیں گے وہاں منافقت سے کیسے جان چھوٹے گی۔ وینا ملک تو سحری کی پروگرام سے فارغ ہو گئی لیکن اس اینکر سے خلق خدا کی جان کیسے چھوٹے گی جو آٹھ لاکھ ماہانہ کے معاوضہ پر پی ٹی وی کا سربراہ بنا اور پھر، ایک روایت کےمطابق، سینیٹر بننے کے چکر میں سربراہی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کہتے ہیں کہ موصوف نے ریٹنگ بڑھانے کےلئے ”قیامت کے آثار“ پر جو پروگرام کئے تھے وہ معروف ترکی مصنف یحییٰ ہارون کی تصنیف کا سرقہ تھے۔ سب کچھ تو کمرشل ہو چکا تھا۔ ایک رمضان رہ گیا تھا وہ بھی ریٹنگ کے بھوکے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ انا للہ

 اوپر علماءکرام کا ذکر ہوا ہے اس ضمن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک عالم دین کا بھی ذکر ہو جائے۔ سیاست میں انکی ذہانت اور نکتہ آفرینی سب مانتے ہیں۔ نیا نکتہ انہوں نے یہ نکالا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اس عمر میں الیکشن کا پیچیدہ نظام کیسے سمجھیں گے؟ سبحان اللہ۔ نابغہ یوں ہی تو نہیں کہلاتے:

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی

اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی ایک معروف اداکارہ کا یہ جملہ بہت مشہور ہے کہ ”ایک تو میری عمر کم ہے، دوسرا میں بھولی بہت ہوں“۔ حضرت کی بھی عمر کم ہے اور بھولے بالکل نہیں ہیں۔ رسا چغتائی بھی اسی موقع پر یاد آ گیا:

ڈیرہ دارن کیا جانے

پیار کسی مغلانی کا

لیکن ایک خبر رمضان المبارک میں خوش آئند ضرور ملی ہے۔ محسن پاکستان جناب ڈاکٹر قدیر خان نے ”تحفظ پاکستان“ کے نام سے نئی جماعت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ تاہم مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ تاسیس کے وقت جو حضرات ڈاکٹر صاحب کےساتھ تھے، کاش وہ غیر متنازعہ ہوتے‘ ان میں جناب حنیف عباسی کا نام دیکھ کر اہل کشف کا ماتھا ٹھنکا ہے۔ آپ جماعت اسلامی میں تھے جماعت نے الیکشن کا بائی کاٹ کیا تو عباسی صاحب ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر، باڑ پھلانگ کر، نون لیگ میں جا پہنچے۔ نون لیگ نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، بالکل اسی طرح جیسے پرویز مشرف کے جاتے ہی اسکے یار غار جناب زاہد حامد کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ حنیف عباسی ٹاک شوز میں بولتے گھن گرج کےساتھ ہیں اور خوب بولتے ہیں۔ نون لیگ کو ان کی فکر کرنی چاہیے۔
 محسن پاکستان نے کہا ہے کہ انکے اثاثے قوم کی ملکیت ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو، اگر ان اثاثوں کی تفصیلات بھی قوم کو بتا دی جائیں۔ آجکل پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوان انٹرنیٹ پر بھارتی سائنس دان عبدالکلام کی کتابیں بہت پڑھتے ہیں۔ عبدالکلام کئی سال بھارت کے ایوان صدر میں رہے لیکن نکلے تو وہی دو ٹرالی بیگ ساتھ تھے جو لےکر اندر گئے تھے۔ محسن پاکستان کو جب پرویز مشرف نے نظر بند کیا تو نوائے وقت نے انکے حق میں ایک طویل مہم بہادری اور استقامت سے چلائی۔ ”امن کی آشا“ والے اس موقع پر منقار زیر پر رہے۔ اتفاق یا سوءاتفاق یہ ہوا کہ محسن پاکستان نے کالم نگاری شروع کی تو اسی ”امن کی آشا“ کے علمبردار اخبار میں۔ میر کیا سادہ ہیں لیکن سادہ تو ان دنوں کوئی بھی نہیںؒ کسی بزرگ نے کہا تھا:

اے زر! تو خدا نہ ای ولیکن بخدا

ستار عیوب و قاضی الحا جاتی!

سچ ہے کہ زمانے کی گاڑی روپیہ چلائے!
لیجئے بس رُک گئی ہے۔ چینی ڈرائیور مجھے بتا رہا ہے کہ  یہاں اترنا ہے۔ میلبورن میں درجہ حرارت سات ہے۔ آپ کو گرمی اور مجھے سردی مبارک ہو!

Tuesday, July 17, 2012

بچّہ جو خواجہ سرائوں کے گھر پیدا ہئوا



وہ تو بھلا ہو متقی اور متشرع حافظ سعید صاحب کا جنہوں نے یہ بات کہی۔ ورنہ ہم جیسے گنہگار تو کب سے شور مچا رہے تھے۔ بقول ناصرکاظمی....
 رات پھر شہر میں بجلی سی چمکتی رہی ہم سوئے رہے
وہ تو کہیے کہ بلا سر سے ٹلی ہم نفسو! شکر کرو
 حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ برطانوی وزیراعظم چاربیڈ کے ایک پرانے گھر میں رہتا ہے جو چند مرلوں میں بنا ہوا ہے اور ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ یہ اسلامی طرز ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ سنتِ رسول پرعمل کر رہا ہے !
حافظ صاحب چار روز پہلے وی آئی پی کلچر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں گئےہیں۔انہوں نے فریاد کی ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ آئین اور سنتِ رسول .... دونوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔گورنر پنجاب سینکڑوں ایکڑ کے محل میں رہ رہا ہے۔کمشنر حضرات سو سو کنال کے ” مکانوں“ میں قیام پذیر ہیں۔ایوان صدر کا روز کا خرچ دس لاکھ روپے اور وزیراعظم کے دفتر کا خرچ بارہ لاکھ روپے ہے۔ حافظ صاحب نے مقدمہ کے دعویٰ میں یہ بھی بتایا ہے کہ صدر پاکستان گزشتہ ہفتے خصوصی جہاز میں لندن گئے ہیں۔وہاں ائر پورٹ پر جہاز کھڑا کرنے کا روز کا کرایہ چھ سو پاﺅنڈ یعنی تقریباً ایک لاکھ روپے ہے، وہاں سے صدر اور ان کے اہل خاندان ذاتی کام سے ایڈنبرا گئے لیکن سفارت خانہ نے اس کیلئے بھی خصوصی جہاز کا بندوبست کیا۔ اسکے مقابلے میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون وزیراعظم بننے سے پہلے سائیکل پر پارلیمنٹ جاتا تھا اور وزیراعظم بننے کے بعد صرف سیکورٹی کی وجہ سے سرکاری کار استعمال کر رہا ہے ۔ لندن شہر کا میئر لورس جانسن سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔
 ہم جیسے لوگ جب کہتے تھے کہ سنگا پور،کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک کے حکمران اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہیں تو ایسی ایسی خوفناک ای میلیں آتی تھیں کہ الامان و الحفیظ! کوئی یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتا تھا اور کوئی جان سے مارنے کی دھمکی دیتا تھا، سچ کبھی نہیں چھپتا،اب حافظ صاحب نے یہی کچھ کہا ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جو روزِ روشن سے زیادہ واضح ہے۔امریکی صدر کو جھوٹ بولنے کی پاداش میں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ڈنمارک میں خاتون وزیر آدھی رات کو سائیکل چلاتے وقت لال بتی پر رُکی نہیں دوسرے روز استعفیٰ دینا پڑا۔ وزیراعظم برطانیہ کی بیوی ٹرین کا ٹکٹ گھر چھوڑ آئی اورچَیکر کو دکھا نہ سکی تو سزا بھگتنا پڑی۔ سکینڈے نیویا کے ملکوں میں وزیروں کی ڈاک میڈیا والے کھولتے ہیں اور ساری شکایات سب کچھ میڈیا پر دکھایاجاتا ہے۔ سکینڈے نیویا ہی کے ایک ملک کی وزیراعظم عام کمرشل پرواز میں سفر کررہی تھی۔ معلوم ہوا، کہ پاکستان کے وزیراعظم چارٹرڈ وی آئی پی جہاز سے آرہے تھے اور اس کیلئے باقی جہازوں کو روکاجا رہا ہے۔ یہ وزیراعظم لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ خاتون وزیراعظم نے وہیں سے اپنی حکومت کو حکم دیا کہ پاکستان کو دی جانے والی ساری امداد روک دی جائے کیونکہ جس ملک کا وزیراعظم اتنی شان و شوکت اور تزک و احتشام سے سفر کر رہا ہے اُسے امداد کی کیا ضرورت ہے۔روزنامہ فرنٹیر پوسٹ کے مطابق یہ امداد کوشش کے باوجود بحال نہ ہوسکی!
ظلم کی تازہ ترین مثال دیکھئے۔پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے حال ہی میں حکم دیا ہے کہ نواز شریف ، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر شخصیات سے سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں واپس لے لی جائیں لیکن وفاقی حکومت نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا ہے۔ان گاڑیوں کی مرمت اور ٹائرو ں کی تبدیلی ہی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور سوائے چوہدری شجاعت کے باقی سب شخصیات یہ سارے اخراجات قومی خزانے سے وصول کر رہی ہیں، سینٹ کے سابق چیئر مین اور موجودہ وزیر قانون نے ایسی دو گاڑیوں کی مرمت پر پچیس لاکھ اور سپیکر قومی اسمبلی نے دس لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔کل اخراجات اربوں میں ہیں، خود سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے کہا ہے کہ جتنی رقم ایک بلٹ پروف یا مرسڈیز کار کی دیکھ بھال پر صرف ہوتی ہے اتنے میں نئی کرولا کار آجاتی ہے!
یہ جو ملک کو اور ملک کے عوام کو نوچ نوچ کر اور بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھایا جارہا ہے تو کیا ہم بھیڑیوں کے نرغے میں ہیں؟ کیا یہ ” اہم شخصیات“ خون چوس چوس کر سیراب نہیں ہوئیں۔ سانپ بھی کبھی کبھی ڈسنے سے انکار کردیتا ہے اور جنگلی درندوں کو بھی کبھی شرم آجاتی ہے لیکن ہمارا پالا جن لیڈران کرام سے پڑا ہے،وہ شرم و حیا سے عاری ہیں۔ ایک ایک وزیراعلیٰ نے چار چار محلات کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے رکھا ہے۔ذاتی جاگیروں پر پولیس کے سینکڑوں سپاہی پہرے دے رہے ہیں۔ حکومت چلانے میں بھائی، بیٹا، بھتیجی، سب شریکِ کار ہیں! چھچھورے پن کا یہ عالم ہے کہ ہالی وُڈ کی معروف اداکارہ انجلینا جولی سیلاب زدگان کی مدد کیلئے پاکستان آئی تو اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔ اداکارہ کو ملنے وزیراعظم کا پورا خاندان ملتان سے خصوصی جہاز پر آیا کھانے کی میز دنیا بھر کے انواع و اقسا م کے ماکولات و مشروبات سے اٹی پڑی تھی بیش بہا تحائف اس کے علاوہ تھے۔ یہ منظر اتنا بھیانک تھا کہ اداکارہ نے واپس جاکر اسکی مذمت کی اور ایسی باتیں کیں کہ کسی میں شرم ہوتی تو ڈوب مرنے کا مقام تھا۔
سارا مسئلہ خاندانی پس منظر کا ہے۔ پھل سے بھری ہوئی ٹہنی جھکتی ہے اور بے ثمر شاخ ہوا میں اچھلتی لہراتی اور مارنے کو دوڑتی ہے۔ یہ جو گیلانی اور مشرف، پانچ پانچ لاکھ روپے کا ایک ایک سوٹ پہننے لگے تھے تو اس لئے کہ زندگی میں پہلے کچھ دیکھا نہ تھا، یہ خبر آخر کس نے نہیں پڑھی کہ پرویز مشرف دورے پر چین گیا تھا تو وہ وقت بھی تھا کہ سخت سردی میں نیچے پہننے کا زیر جامہ قرض لیکر خریدا۔ گیلانی صاحب جیل میں تھے تو ڈھکی چھپی بات نہیں ، ہر اخبار میں خبر چھپی کہ گھر کا خرچ چلانے کیلئے گھڑی فروخت کی لیکن قومی خزانہ تحویل میں آیا تو ایک سوٹ دوبارہ نہ پہنا اور یوں لگتا تھا جیسے ماشاءاللہ باتھ روم میں بھی تھری پیس سوٹ میں تشریف لے جاتے تھے۔ غریب جاٹ کو کٹورا ملا تو پانی پی پی کر بے حال ہوگیا اور ہیجڑوں کے گھر بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے چوم چوم کر اسے مار ہی دیا۔اس کے مقابلے میں قائداعظم کا رویہ دیکھئے۔ محنت سے پیسہ کمایا تھا اور اتنا کمایا تھا کہ بمبئی میں شاید ہی ایسا گھر کسی کا ہو۔رونمائی میں اپنی دلہن کو اس وقت لاکھوں روپے دئیے جب پندرہ روپے ماہوار کی تنخواہ خوشحالی کی علامت سمجھتی جاتی تھی لیکن زیارت میں جرابیں منگوائیں ،قیمت پوچھی تو کہا مہنگی ہیں۔واپس کرا دیں۔ لاہور سے کپور تھلہ والوں کا باورچی منگوایا گیا جس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا پسند کرتے تھے ،واپس بھجوادیا۔ یہ جو عوام کے پسینے کی کمائی سے بلٹ پروف کاروں پر سوار یاں کر رہے ہیں آخر ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ اور یہ کن کھیتوں کی مولیاں ہیں؟
  حافظ سعید صاحب! وی آئی پی کلچر کی لعنت کے خلاف اس جہاد میں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور حافظ صاحب! گستاخی معاف!یہ جہاد بھی ضروری ہے۔!




Wednesday, July 11, 2012

شکست لیکن دسترخوان پر

باورچیوں کی فوج ظفر موج‘ ماش کی دال کیلئے الگ باورچی اور باقر خانیاں بنانے والا باورچی الگ‘ یہ زوال کی نشانیاں ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ زوال اورنگزیب کی وفات یعنی 1707ءکے بعد شروع ہوا۔ زوال کی سب سے بڑی علامت یہ تھی کہ اورنگزیب عالم گیر پورے پچیس سال دکن میں رہا‘ مرہٹے اسکے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے اور وہ مسلمان ریاستوں کے ساتھ۔ کابل سے لے کر بنگال تک پورا شمال پچیس سال بغیر بادشاہ رہا اور شیرازہ بکھر گیا۔
یہ بھی نہیں کہ عروج کے زمانے میں حکمران فاقے کرتے تھے‘ نہیں‘ بالکل نہیں۔ کھاتے تھے اور شوق اور ذوق سے کھاتے تھے اور خوب کھاتے تھے لیکن فرق یہ تھا کہ خوردن برائے زیستین تھا۔ نہ کہ زیستن برائے خوردن۔ زوال کے زمانے میں یہ ہوا کہ زندہ رہنے کا مقصد ہی پیٹ پوجا ٹھہرا۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔
دس سال کابل میں رہنے کے بعد بابر نے ہندوستان فتح کیا تو آگرہ کے مضافات میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے جو بستی بسائی اس کا نام کابل رکھا۔ مدت بعد افغانستان سے خربوزہ آیا تو کاٹتے ہوئے روپڑا۔ اس لئے نہیں کہ خربوزے کےلئے مرا جا رہا تھا‘ اس لئے کہ کابل یاد آرہا تھا۔ بابر کی بہن گلبدن بیگم لکھتی ہے کہ ہمایوں نے پھوپھیوں کےلئے دعوت کی تو پچپن بھیڑیں ذبح کیں۔ جہانگیر کا شوق بس اتنا تھا کہ بقول خود اسکے‘ اسے صرف شراب اور دن میں آدھ سیر گوشت درکار تھا۔ رہے امور مملکت تو وہ نورجہاں کے ذمے تھے۔ ہیرلڈ لیم کی ادق انگریزی میں لکھی ہوئی امیر تیمور کی سوانحِ حیات کا ترجمہ بریگیڈیئر گلزار احمد نے کیا اور اس طرح کیا کہ حق ادا کر دیا۔ جب رہنماءباورچیوں اور مالشیوں کے رحم و کرم پر ہونگے تو بریگیڈیئر گلزار احمد جیسے نابغہ کو کون جانے گا اور کسے ان کا پتہ ہو گا۔ یہ کالم نگار پہلی بار وسط ایشیا گیا تو یہ کتاب سفری گائیڈ کے طور پر استعمال کی۔ اس میں لکھا ہے کہ تیمور کی شادی پر گندم کی موٹی روٹیاں گوسفند کے شوربے میں ڈبو ڈبو کر کھائی گئیں‘ بس یہاں تک تھی ان حملہ آوروں اور فاتحین کی خوش خوراکی۔
پھر زوال کا زمانہ آیا‘ نظام حیدرآباد میں اور نواب اودھ میں خودمختار ہو گئے لیکن کیا خود مختاری تھی! بقول فر اق....
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر ”اختیار“ کو دیکھا
امورِ سلطنت تو وہ انگریز نمٹاتے تھے جو درباروں میں ریذیڈنٹ بن کر براجمان تھے۔ نواب صاحبان صرف باورچیوں اور بیگمات میں دلچسپی لیتے تھے‘ اودھ کے  نواب نے ٹھان لی کہ ماش کی دال پکانے کے ماہر باورچی کو جو نظام حیدرآباد کے محل میں ہے‘ اپنے پاس لا کر رہے گا چنانچہ طویل کشمکش کے بعد کامیابی ہوئی۔ باورچی نے آکر شرط عاید کی کہ جب میں آکر بتاﺅں کہ دال تیار ہو گئی ہے تو فوراً کھانا ہو گی۔ عرصہ بعد ماش کی دال پکانے کا حکم ملا‘ باورچی نے پکائی اور آکر اطلاع دی۔ نواب صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔
کچھ دیر کے بعد اس نے دوبارہ عرض گزاری۔ جب بہت دیر ہو گئی تو باورچی نے اعلان کیا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ جاتے جاتے پکی ہوئی دال ایک درخت کے تنے کے اس حصے پر انڈیل گیا جو زمین سے ملا ہوا تھا۔ روایت ہے کہ وہ پیڑ ہمیشہ سرسبز رہا۔ واجد علی شاہ کا پلاﺅ چونتیس سیر گوشت کی یخنی میں پکتا تھا اور صبح کے پراٹھوں کےلئے ہر روز دوسیر گھی آتا تھا۔ شامی کباب ایجاد ہی اس لئے ہوئے کہ نواب صاحب کے دانت نہیں رہے تھے اور گوشت کھانے کو دل بھی کرتا تھا۔ ایک نواب صاحب نے حریف کو چت کرنے کیلئے دعوت کی تو دسترخوان پر کوفتے بھی تھے‘ پلاﺅ بھی اور قورمہ بھی‘ لیکن دراصل یہ ساری مٹھائیاں تھیں‘ جن کی شکلیں پلاﺅ اور قورمے جیسی تھیں۔ مہمان جو لقمہ میں میں ڈالتا‘ مٹھائی ہوتی۔ ”فتح“ کی کیا مسرت تھی جو میزبان نے محسوس کی! اندلس میں زوال کا زمانہ آیا تو مسلمان بادشاہ نے حملہ آور عیسائی بادشاہ سے کہا کہ فوجوں کی لڑائی بھی کوئی لڑائی ہے‘ آﺅ شطرنج میں مجھے ہراﺅ اور تاریخ نے دیکھا کہ میدان جنگ میں شطرنج کھیلی گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں پر زوال آیا تو نوابوں نے حریفوں کو دسترخوان پر شکستیں دیں! کلائیو اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پشت پر رہتا تھا اور سراج الدولہ پالکی میں میدانِ جنگ میں آتا تھا اور وہ بھی مع بیگمات! ولیم ڈال رمپل ”لاسٹ مغل“ میں لکھتا ہے کہ دہلی میں تعینات انگریز ریذیڈنٹ سرتھامس مٹکاف جس کی ذاتی لائبریری میں بیس ہزار کتابیں تھیں‘ صبح سات بجے اپنے دفتر پہنچتا تھا اور گیارہ بجے تک کام کے بیشتر حصے سے فارغ ہو چکا ہوتا تھا۔ شدید گرمی میں جب انگریز دوپہر کے قیلولے اور آرام کیلئے گھروں کو واپس جا رہے ہوتے تو بہادر شاہ ظفر کے لال قلعہ کے مکین نیند سے اٹھ رہے ہوتے!
آج اگر لاہور سے تعلق رکھنے والا  سیاست دان نام نہاد جلاوطنی گزارنے کیلئے جدہ جاتا ہے اور باورچیوں کی فوج ظفر موج ساتھ لے کر جاتا ہے تو تعجب کیسا! واجد علی شاہ نے بھی تو یہی کچھ کیا تھا لیکن اسکے باوجود واجد علی شاہ کا پلہ بھاری ہے‘ اس نے ڈرامے‘ لباس سازی اور موسیقی میں تو کچھ تخلیقی جوہر دکھائے تھے‘ اسکی بنائی ہوئی ٹھمری ”بابل مورا“ آج بھی موسیقی کے فن کا حصہ ہے۔ مالشیوں کو مصاحب بنا کر رکھنا بھی مسلمان حکمرانوں کا پرانا شیوہ ہے۔ مصر کا صدر انور السادات سرکاری دورے پر فرانس گیا تو میزبان حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ اسکے ساتھ یہ اتنا قریب ترین شخص کون ہے‘ معلوم ہوا کہ وہ صدر صاحب کی مالش کیا کرتا ہے۔
زوال کا ثبوت دیکھیے کہ پاکستان کا  اُس وقت کا وزیر اعظم جب کوالالمپور جاتا ہے تو جہاز سے اتر کر کسی یونیورسٹی یا کسی انڈسٹریل سنٹر کا رخ نہیں کرتا‘ سیدھا فاسٹ فوڈ کی دکان پر جاتا ہے اور برگر سے شوق فرماتا ہے۔ کراچی جاتا ہے تو بنس روڈ پر دکاندار سے بحث کرتا ہے کہ نان پر تل کم کیوں لگائے ہیں۔ الناسُ علیٰ دینِ ملوکہم‘ جیسے حکمران ویسے لوگ۔ آج قدم قدم پر فاسٹ فوڈ کے مراکز ہیں‘ بحثوں کا موضوع پزا‘ برگر‘ چرغے‘ تکے اور نہاری ہے‘ پورے ملک میں نصف درجن عوامی لائبریریاں بھی نہیں! آبادی بیس کروڑ سے اوپر ہو چکی ہے اور خواندگی کی شرح بیس فیصد سے کم ہے۔ ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر میں ہر روز کچن کا خرچ لاکھوں کا ہے۔ فرانس برطانیہ اور سنگاپور کے حکمران دوپہر کو کافی کے ساتھ سینڈوچ کھاتے ہیں‘ مارگریٹ تھیچر اپنا کھانا خود بناتی تھی۔
زوال کے زمانے پر سینگ نہیں لگے ہوتے‘ بس ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمارا زمانہ ہے‘ عروج کے زمانے میں حکمران سیاست نامہ طوسی۔ تزک تیموری‘ تزکِ بابری اور تزکِ جہانگیری جیسی کتابیں لکھتے ہیں۔ زوال کے زمانے میں ایوب خان کی فرینڈز ناٹ ماسٹر‘ مشرف کی ان دی لائن آف فائر اور یوسف رضا گیلانی کی چاہِ یوسف سے صدا جیسی کتابیں ”تصنیف“ ہوتی ہیں!!

Tuesday, July 03, 2012

نہیں بندہ پرور نہیں

نہیں! بندہ پرور نہیں! اب عوام کو محض اس نعرے پر زندہ نہیں رکھا جا سکتا کہ پاکستان ستائیس رمضان کو وجود میں آیا تھا۔ دیوار پر کچھ اور لکھا ہے۔ غور سے پڑھیے
بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا
یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے
اللہ کی سُنت کسی کےلئے نہیں تبدیل ہوتی۔ پیغمبروں کا سلسلہ آمنہ کے لال پر ختم ہو گیا اور ساتھ ہی معجزوں کا بھی۔ بہت سی مقدس ریاستیں  ، میسور کی سلطنتِ خداداد --- کچھ بھی نہ رہا‘ اس لئے کہ خالقِ کائنات حسب نسب نہیں دیکھتا۔ یومِ تاسیس نہیں دیکھتا، تریسٹھ سال کے سیاہ کارناموں کو دیکھتا ہے۔
اس ملک کے مظلوم عوام نے کون سی قربانی نہیں دی؟ ابھی تو سیاچن کی برف کے نیچے سے سارے شہیدوں کی میتیں بھی نہیں نکلیں۔ اب یہ عوام، شہیدوں کے یہ وارث، اگر افیونی نعروں اور تقدیس کے دعووں کو نہیں مانتے تو شکوہ کیسا؟ صوفیا کے استاد حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر --- جن کو پڑھے بغیر تصوّف کا دعویٰ کرنے والا حاطب اللیل ہی کہلا سکتا ہے فرما گئے ہیں
گفتی کہ فلان ز یادِ ما خاموش است
از بادہء عشقِ دیگران مدہوش است
شرمت بادا، ہنوز خاکِ درِ تو
از گرمئی خونِ دل من در جوش است
تو تم نے یہ شکوہ کیا کہ فلاں میری یاد سے غافل ہے اور کسی اور کے عشق میں پڑ گیا ہے! تمہیں شرم آنی چاہیے۔ ابھی تو تمہاری دہلیز کی مٹی میرے دل کے خون کی گرمی میں رقص کر رہی ہے!
سچی بات کڑوی ہے لیکن پھر بھی سچی ہے۔ طفل تسلیاں دینے والے سالہا سال سے سبزی گوشت اور آٹا لینے بازار گئے ہی نہیں، نہ دوا لینے کےلئے کسی ہسپتال کی قطار میں کھڑے ہوئے ہیں، انہیں کیا خبر کہ پچانوے فیصد لوگوں کے سامنے یہ خوفناک حقیقت منہ پھاڑے کھڑی ہے کہ غربت اور بھوک ایمان کو کھا جاتی ہے!
نہیں! بندہ پرور نہیں! زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ معروف غیر جانبدار معیشت دان ڈاکٹر فرخ سلیم نے دو دن پہلے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ ناکام ریاستوں کے انڈیکس میں روانڈا، برونڈی، حبشہ (ایتھوپیا) اور برما بھی پاکستان سے بہتر شمار کئے گئے ہیں۔ چار سال پہلے پونے پانچ کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہے تھے آج یہ تعداد آٹھ کروڑ ہو چکی ہے۔ ایک کروڑ بچے سکولوں سے باہر جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔ امریکن ایکسپریس بنک بستر باندھ کر چلا گیا ہے۔ ہانگ کانگ شنگھائی بنک (HSBC) رخصت ہونے کےلئے پَر تول رہا ہے۔ سٹی بنک نے اپنے اثاثے فروخت کر دیے ہیں۔
کیا کسی ملک کی قیادت اس سے زیادہ سفاک اور خود غرض ہو سکتی ہے کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کو معلوم ہی نہیں کہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے؟ حالات کا اندازہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف کے اس بیان سے لگائیے جو انہوں نے حال ہی میں ملائیشیا سے واپسی پر دیا ہے۔ ملائیشیا میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا سالانہ اجلاس تھا۔ ذکا اشرف نے ایک ایک ملک کی منت کی کہ پاکستان میں آ کر کھیلیں لیکن کسی ایک ملک نے بھی دعوت قبول نہیں کی۔ ذکا اشرف نے کہنے کو صرف ایک فقرہ کہا ہے لیکن اس میں ملک کی پوری صورت حال صاف دکھائی دے رہی ہے --- ”کسی کو ہمارے ہاں آنے میں دلچسپی نہیں ہے! سارے ملک امن و امان کے فقدان کی شکایت کرتے ہیں!“ اسی امن و امان کی ایک اور جھلک دیکھئے کہ کراچی سے پانچ ہزار چھ سو پاسپورٹ چوری ہوئے اور اب وہ نہ جانے کس کس کے پاس ہیں!
سزائیں صرف پٹواریوں، کانسٹیبلوں اور کلرکوں کےلئے رہ گئی ہیں جہاں کوئی بڑی مچھلی ”پریشانی“ کا شکار ہوئی، ادارے کے ادارے اُسے بچانے کےلئے میدان میں کود پڑے۔ این ایل سی اسکی صرف ایک مثال ہے۔ جو جرنیل اسے چلا رہے تھے انہوں نے اُس وقت کے وزیراعظم کی واضح ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ببانگِ دہل اربوں روپے سٹاک ایکسچینج کی سرمایہ کاری میں جھونک دیے۔  ملازمین کی پنشن کی رقم بھی لگا دی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ دو ارب روپے بنکوں سے قرضہ لیا اور یہ بھی ”سرمایہ کاری“ میں لگا دیا۔ تقریباً دو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بنکوں کو سود الگ دیا جا رہا ہے۔ لیکن دو سال پہلے جب پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اس سارے معاملے کو ہاتھ میں لیا تو جی ایچ کیو نے کہا کہ ہم خود تفتیش کرینگے۔ یہ تفتیش آج تک سامنے نہیں آئی! ایک انگریزی معاصر نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ اب پریس ہو یا عوام، ”بڑوں“ کا بال بیکا کوئی نہیں کر سکتا۔ ہاں ”چھوٹے“ جتنے بھی ہیں بے شک کڑکی میں پھنستے جائیں اور ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھا جاتا رہے!
تو پھر کیا ہم مایوس ہو جائیں؟
کیا ہم جاں بلب مریض کی طرح آخری ہچکی کا انتظار کرتے رہیں
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گذارے چلے جائیں گے؟
نہیں! بندہ پرور نہیں! اقدامات! صاف اور واضح اقدامات اٹھانے ہونگے۔ اس ملک کی بقا اس میں ہے کہ پالیسیاں تبدیل کی جائیں اور نئی پالیسیوں پر عمل کیا جائے۔ اب محض یہ راگ الاپنے سے کام نہیں چلے گا کہ ہم ستائیس رمضان کو معرض وجود میں آئے تھے، اس لئے گند اور غلاظت کے باوجود صاف ستھرے رہیں گے‘ بھلا گند اور غلاظت کا صفائی کے ساتھ کیا تعلق ہے!
زرعی اصلاحات اور احتساب! تریسٹھ سالوں میں کس کس نے لوٹا؟ قوم جاننا چاہتی ہے۔ آج اگر ہمارا قبائلی بندوق پکڑ کر بیت اللہ محسود کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے تو اس لئے کہ تریسٹھ سالوں کے دوران پولیٹیکل ایجنٹ اُن مَلکوں اور خانوں میں سرکاری رقوم بانٹتے رہے جن کا عام قبائلی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس سوال کا جواب کون دےگا کہ وزیرستان میں‘ خیبر‘ مہمند‘ باجوڑ اور دوسرے قبائلی علاقوں میں کالج اور یونیورسٹیاں کیوں نہیں بنیں اور کارخانے کیوں نہ لگے؟ احتساب کیجئے، خواہ قبریں کیوں نہ اکھاڑنی پڑیں!
ہمیں اُن خاندانوں سے بھی نجات حاصل کرنا ہو گی جو نسل در نسل پارلیمنٹ میں گھسے ہوئے ہیں اور خدا کا خوف نہ رکھنے والی اُن ریش ہائے دراز     سے بھی جان چھڑانا ہو گی جو اسمبلیوں میں اپنی بیٹیوں کو بھیجتے ہیں اور دعویٰ دنیا میں خلافت قائم کرنے کا کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اپنی زندگیوں ہی میں اپنے فرزندوں کو اپنا جانشین مقرر کرا جاتے ہیں
براہیمی   نظر  پیدا  مگر  مشکل  سے   ہوتی       ہے
ہوس سینوں میں چُھپ چُھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
 

powered by worldwanders.com