Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, August 30, 2013

مولانا روشن سے ایک ملاقات

مولانا روشن سے ملاقات کا وقت طے تھا۔ پہنچے تو بیٹھک میں انتظار کرنے کو کہا گیا۔ پوچھا کیا کررہے ہیں۔ بتایا گیا کہ ٹیلیویژن کا مصری چینل دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد ترکی کا چینل دیکھیں گے اور پھر افغانستان کا۔ دو اڑھائی گھنٹے انتظار کرتے رہے۔ بالآخر وہ تشریف لائے۔ ساتھ ہی چائے بھی آگئی۔ چائے کے ساتھ چینی کے بجائے مصری کی ڈلیاں تھیں۔ گفتگو شروع ہوئی۔
’’حضرت! آج کل آپ کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے؟‘‘
’’پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ، ظاہر ہے مصر کی صورت حال ہے۔ سینکڑوں مصری مسلمانوں کو وہاں کی فوج شہید کر چکی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس پر شدید ترین ردعمل کامظاہرہ کریں۔ ہمیں مصر سے سفارتی تعلقات پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔
’’حال ہی میں شامی فوج نے سینکڑوں افراد کو کیمیائی ہتھیاروں سے قتل کیا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔ اس ظلم پر آپ کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔‘‘
’’آپ یہ سوال ایک سازش کے تحت کررہے تاکہ ہماری توجہ مصری عوام سے ہٹائی جائے۔ آپ کی اس سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’آپ نے فرمایا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مصر کی صورت حال ہے۔ اس کے بعد آپ کے خیال میں اس ملک کے کون کون سے مسئلے توجہ مانگتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں ترکی کے حالات پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور افغانستان کے حالات پر بھی۔‘‘
’’جو لوگ اس سارے تناظر میں بار بار پاکستان کے مسائل کا ذکر کرتے ہیں وہ امت کے دشمن ہیں۔ وہ مسلمانوں کے عالمی اتحاد کو ریزہ ریزہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مسلسل ان کے لیے بددعائیں کررہے ہیں۔‘‘
’’آپ نے افغانستان کی بات ہے۔ مغربی افواج کے انخلا کے بعد ، وہاں امن و امان کا آپ کے نزدیک کیا امکان ہے؟
’’انشاء اللہ العزیز، وسیع امکان ہے۔ طالبان کی حکومت قائم ہوتے ہی افغانستان کے حالات میں مثبت تبدیلی آئے گی۔‘‘
’’طالبان، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پختون قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا وہ حکومت میں ازبکوں، تاجکوں، ہزارہ اور دوسرے نسلی گروہوں کو شریک کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟‘‘
’’کون سے ازبک اور کون سے تاجک؟ ازبک ازبکستان میں رہتے ہیں اور تاجک تاجکستان میں۔ آپ غیر منطقی سوال پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’مولانا! گزارش ہے کہ شمالی افغانستان میں پختونوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ شمالی افغانستان کوترکستان صغیر بھی کہا جاتا ہے۔ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی تاجک تھے، رشید دوستم ازبک تھا۔ وسطی افغانستان میں ہزارہ کا غلبہ ہے۔‘‘
’’آپ کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں۔ ویسے میری معلومات کی رو سے افغانستان میں صرف طالبان ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’آپ کی پارٹی الیکشن میں بھی حصہ لیتی رہی ہے۔ پارٹی کا اس ضمن میں منشور بھی ہوگا۔ یہ جو بڑے بڑے مسئلے ہیں۔ مثلاً فیوڈلزم، ناخواندگی، متعدد ذریعہ ہائے تعلیم، ایک طرف مدارس اور دوسری طرف کالج اور یونیورسٹیاں‘ ان مسائل کے ضمن میں آپ کے خیالات کیا ہے؟‘‘
’’بہت اچھا سوال ہے۔ میں چاہتا تھا کہ آپ یہ سوال ضرور پوچھیں۔ دیکھیے! ہم نے اس سلسلے میں ایک بنیادی پالیسی طے کی ہے۔ اس پالیسی کے نفاذ سے یہ سارے مسائل خود بخود یوں حل ہونا شروع ہوں گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔‘‘
’’وہ بنیادی پالیسی کیا ہے؟ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے‘‘ 
’’جی ضرور! وہ پالیسی ہے گو امریکہ گو۔‘‘
’’بس امریکہ کے جانے کی دیر ہے۔ اس کے بعد دیکھیے، اس ملک کی حالت ہی بدل جائے گی!‘‘
’’جب آپ گو امریکہ گو فرماتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
’’آپ کو یقیناً معلوم ہے کہ امریکہ کی موجودگی پورے کرہ ٔارض پر ہے۔ بحر ہند میں اس کے جہاز موجود ہیں۔ مشرق اوسط کے مسلمان ممالک میں اس کی افواج موجود ہیں۔ چین اور جاپان کے سمندروں پر بھی اس کا غلبہ ہے۔ اس تمام برتری کا سبب سائنس اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی حیرت انگیز ترقی ہے۔ آپ کے گو امریکہ گو کہنے سے امریکہ کہیں سے نہیں جائے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کریں اور امریکہ کو چیلنج کرنے کے قابل ہوجائیں۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟‘‘
’’مجھے آپ کے اس نکتے سے سازش کی بو آرہی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا سوال نہیں! آپ اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جب ہم نے کہہ دیا کہ گو امریکہ گو۔ تو بات ختم ہوگئی۔ اصل میں آپ کا ایمان کمزور ہے۔ آپ اگر صدق دل سے گو امریکہ گو کہیں اور یہ فقرہ دن میں بارہ پندرہ بار دہرائیں اور جب بھی موقع ملے، شاہراہوں پر اس کا نعرہ لگائیں تو امریکہ ضرور گو ہوجائے گا اور اس کے بعد ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔‘‘
دہشت گردوں نے پاکستان میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا ہے۔ دھماکے اور خودکش حملے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ مسجدیں محفوظ ہیں نہ مزار۔ تاہم تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ نے کبھی اس تباہی و بربادی کی مذمت نہیں کی۔ کیا آپ کو اپنے پاکستانی بھائیوں کا غم نہیں؟
’’دیکھیے، ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ یہ دہشت پسندانہ کارروائیاں ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں۔ آپ ڈرون حملے رکوا دیں دہشت پسندانہ قتل و غارت رک جائے گی؟‘‘
لیکن جو لوگ مارے جاتے ہیں، وہ تو ڈرون حملوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہ تو بے گناہ اور معصوم شہری ہیں اور بے قصور مارے جارہے ہیں۔
’’آپ پھر سازش کی طرف جارہے ہیں۔ یہ دہشت پسندانہ کارروائیاں بلیک واٹر کے ذریعے کی جارہی ہیں۔ آپ امریکہ کے حامی لگتے ہیں۔ گو امریکہ گو۔ گو امریکہ۔ گو امریکہ گو۔‘‘
’’حضرت! معافی کا خواستگار ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ دھماکے اور خودکش حملے کرانے والے خود ان اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ جو لوگ پکڑے گئے وہ سب پاکستانی ہیں۔ طالبان کبھی بھی امریکہ کے ایجنٹ نہیں بن سکتے۔‘‘
’’بالکل غلط! جب ہم نے کہہ دیا کہ یہ بلیک واٹر کے کارنامے ہیں تو بات ختم ہوگئی۔ اگر آپ نہیں مانتے تو ہمارے پاس دوسرے طریقے بھی ہیں۔‘‘
کسی کیا طلبا تنظیم کا کسی تعلیمی ادارے پر تسلط قائم کرنا ، وہاں کے نظم و ضبط کو اجاڑنا، اساتذہ اور انتظامیہ پر حملے کرنا جائز ہے؟
’’اگر اسی طلبا تنظیم کا تعلق ہماری پارٹی سے ہے تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔‘‘
’’لیکن یہ قرین انصاف نہیں! اگر ناجائز ہے تو سب کے لیے ناجائز ہونا چاہیے۔‘‘
’’آپ امریکی ایجنٹ ہیں اس لیے ایسی باتیں کررہے ہیں۔‘‘
ابھی انٹرویو جاری تھا کہ مولانا روشن کے سیکرٹری کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے مولانا کو یاد دلایا کہ احتجاجی جلوس کا وقت نزدیک آرہا ہے اور یہ کہ مولانا نے اس کی قیادت فرمانا ہے۔ ہم نے آخری سوال پوچھا کہ کیا یہ جلوس مہنگائی کے خلاف نکل رہا ہے یا دہشت گردی کے خلاف۔ مولانا یکدم بھڑک اٹھے۔ ’’جاہل ہیں آپ! یہ جلوس مصر کی فوجی حکومت کے خلاف نکالا جارہا ہے‘‘۔

Thursday, August 29, 2013

کھرچے ہوئے لفظوں کا ماتم

یہ دھچکا نہیں تھا۔ یہ تو ٹھوکر تھی جو مجھے لگی۔ قریب تھاکہ میں منہ کے بل گر پڑتا۔
نواسی کو فارسی پڑھا رہا تھا۔ شبان کا لفظ آیا۔ میں نے مطلب بتایا: گڈریا۔ ساڑھے سات سالہ زینب نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے۔ اس پر میں نے کہا چرواہا۔ وہ بولی چرواہا کیا ہوتا ہے؟ یہ دھچکا نہیں تھا، ٹھوکر تھی۔
یہ دلیل غلط ہے کہ شہر کے بچوں کا چرواہے سے واسطہ پڑتا ہے نہ بھیڑ بکریوں کے گلّے سے۔ واسطہ تو ان کا شہزادی سے بھی نہیں پڑتا لیکن انہیں معلوم ہے کہ پرنسس کسے کہتے ہیں۔ واسطہ تو ان کا جادو سے بھی نہیں پڑتا لیکن ویلنٹائن ڈے منانے والے سکول میں چند ماہ گزارنے کے بعد Magician کے لفظ سے متعارف ہوجاتے ہیں۔ وہ سٹوری بکس پڑھتے ہیں۔ اگر کہانیوں کی کتابیں پڑھتے تو چرواہے سے بھی آشنا ہوتے، لکڑہارے سے بھی اور پرستان سے بھی!
لیکن المیے کا یہ پہلوتو کچھ بھی نہیں۔ سانحہ تو اور ہے۔ ہماری ادبی میراث۔ ہماری تہذیبی تاریخ فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے شروع ہورہی ہے جو 1800ء میں قائم ہوا۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ ہم ولی دکنی کو پہلے اردو ادیب اور شا عر کے طور پر پڑھ پڑھا رہے ہیں۔ ولی دکنی کا سال وفات 1707ء ہے۔ شمالی ہند میں مسلمانوں کا اقتدار محمد غوری کی اس فتح سے شروع ہوتا ہے جو اس نے ترائن کی دوسری جنگ میں حاصل کی تھی۔ یہ 1192ء کا واقعہ ہے۔ 1192ء اور 1707ء کے درمیان پانچ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ ہے۔ آپ دنیا کو کیا بتائیں گے کہ پانچ سو سال ہمارا ادب تھانہ تہذیب ؟ ہم میں کوئی شاعر پیدا ہوا نہ دانشور؟ ہم جنگلی تھے؟ ستر پتوں سے چھپاتے تھے؟ آگ چقماق سے پیدا کرتے تھے؟ گوشت کچا کھاتے تھے؟ قلم اور تحریر سے کوئی واسطہ نہ تھا؟
خدا کے بندو! ان پانچ سو سالوں میں تمہارے آبائو اجداد نے وہ ادب پیدا کیا جس کی پوری دنیا میں دھوم ہے۔ جسے نہیں معلوم وہ تم خود ہو!   ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یہ کہنا کہ فارسی ہماری زبان نہ تھی، ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی کوتاہ نظر کہہ دے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے۔ اقبال اور فیض پنجابی بولتے تھے۔ غالب وسط ایشیا کے شہر سبز سے آئے تھے۔ جوش ملیح آبادی پٹھان تھے اور ان کے بزرگ پشتو بولتے تھے۔ تو کیا ہم اس بنیاد پر اردو سے لاتعلقی اختیار کرلیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! تو پھر ہم اس فارسی زبان و ادب سے کس طرح کنارہ کش ہوسکتے ہیں جو برصغیر میں ہم نے پیدا کیا۔ ان پانچ سو سال میں جو ادب یہاں ظہور پذیر ہوا اس کے خلّاق برصغیر ہی سے تھے۔ یہ درست ہے کہ مغلوں کے زمانے میں ایرانی اہل قلم یہاں آئے لیکن وہ تو اس لیے آئے کہ ہماری زبان و ادب کی برتری کے قائل تھے اور ہماری سرپرستی کے متمنی تھے۔ ورنہ ہمارے فارسی ادیبوں اور شاعروں کا ایران سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ 
امیر خسرو آگرہ کے ایک قصبے پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ فیضی کے والد شیخ مبارک ناگور میں پیدا ہوئے اور خود فیضی کا آگرہ میں تولد ہوا۔ بیدل پٹنہ سے تھے۔ غالب دلّی سے اور اقبال سیالکوٹ سے تھے۔ فارسی پر ایرانیوں کی اجارہ داری نہیں۔ جس طرح تاجکستان، بخارا، سمرقند، خجند اور افغانستان کی زبان فارسی ہے اسی طرح برصغیر کی زبان بھی فارسی تھی۔
کیا ستم ہے کہ جس امیر خسرو کو ایرانی بھی طوطی، ہند کے لقب سے یاد کرتے ہیں جس نے نظامی گنجوی جیسے معرکہ آرا شاعر کے خمسہ کا جواب لکھا اور جامی جیسے نابغہ نے بہارستان جامی میں اعتراف کیا کہ نظامی کے خمسہ کا جواب خسرو سے بہتر کسی نے نہیں لکھا۔ جس خسرو نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھیں، جن کا چہار دانگ عالم میں شہرہ ہے، وہ خسرو ان ہم وطنوں میں محض ’’کھیر پکائی جتن سے‘‘ اور’’ آیا کتا کھا گیا‘‘ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ آج خسرو، فراق کی زبان میں ضرور کہتے ہوں گے۔   ؎
میرا دل آگاہ تھا اک گنج معانی
اے ہم نفسو! تم نے مری قدر نہ جانی
وہ غالب جو خود کہتا ہے کہ مجھ سے متعارف ہونا ہے تو میرا فارسی کا کلام پڑھو۔ آج اپنی فارسی شاعری کے حوالے سے مکمل اجنبی ہے۔ اقبال اردو کی ساڑھے تین کتابوں سے جانا جاتا ہے اور فارسی کی سات تصانیف کا مکمل بلیک آئوٹ ہے۔
ترکوں کے ساتھ المیہ پیش آیا کہ اتاترک نے رسم الخط بدل دیا لیکن اس کے باوجود ان کی زبان وہی ہے۔ یہی حادثہ وسط ایشیا کے ترکستانیوں کے ساتھ پیش آیا۔ سوویت یونین نے ان کا رسم الخط روسی کردیا۔ تاہم زبان وہی رہی۔ جو سانحہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا، اس کی مثال دنیا میں شاید ہی ہوگی۔ رسم الخط تو نہ بدلا مگر زبان پوری کی پوری غائب کر دی گئی۔ یہاں تک کہ پورے پانچ سو سال تاریخ میں سے کم ہوگئے!
کچھ عرصہ قبل ان سطور کے لکھنے والے نے ممتاز ادبی جریدے ’’زرنگار‘‘ کے مدیر ضیا حسین ضیا کو ایک خط لکھا تھا جسے خوبصورت نثر نگار اور شاعر ضیا نے ’’مکتوب گریہ نہاد‘‘ کا نام دے کر چھاپا۔اس مکتوب گریہ نہاد سے ایک پیراگراف اسی ماتم کے بارے میں ہے…’’ وہ جو اقبال نے کہا تھا۔   ؎
میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
تو کہستاں سے مراد میرے خیال میں تو ہماری زبان ہی ہے، لیکن افسوس! ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ تہذیبی  مہاجر بنے اور آگا پیچھا گم کر بیٹھے۔ یہ آگا پیچھا گم کرنا با عزت لوگوں کے لیے جیتے جی مر جانے کے مترادف ہوتا تھا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو نیچ خاندانوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ گملوں میں درخت اگانے کی بہت کوشش ہوئی لیکن خون وہی خون قبول کرتا ہے جو مناسبت رکھتا ہو اور جس کے اجزا ہمزاد ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔‘‘
آج ہمارے بچے ہماری زبان سے اس لیے بیگانہ ہیں کہ ہم نے خود اپنی شناخت گم کی۔ ہم نے ماضی کے پانچ سو سال دفن کرکے ان پر مٹی ڈال دی۔ اس کے بعد اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا حال اور ہمارا استقبال باعزت ہوگا تو یہ ایک سنگین خوش فہمی ہے۔ جو آبائو اجداد کے ورثے کو لات مارتے ہیں، ان کی نسلیں ان سے ضرور انتقام لیتی ہیں۔ ایک نوحہ جدید اردو نظم کے منفرد شاعر معین نظامی نے اسی سانحے پر رقم کیا ہے ۔آئیے اس کے ساتھ مل کر ماتم کریں:
میرے اجداد کے گرتے ہوئے حجرے کے محرابِ خمیدہ میں
کسی صندل کے صندوقِ تبرک میں
ہرن کی کھال پر لکھا ہوا شجرہ بھی رکھا ہے
کہ جس پر لاجوردی دائروں میں
زعفرانی روشنائی سے مرے سارے اقارب کے مقدس نام لکھے ہیں
مگر اک دائرہ ایسا بھی ہے
جس میں سے لگتا ہے
کہ کچھ کھرچا گیا ہے
میں انہی کھرچے ہوئے لفظوں کا وارث ہوں

Tuesday, August 27, 2013

قبائلی طرزِ حکومت میں یہی ہوتا ہے

جب حکومتیں میرٹ کی بنیاد پر نہ بنیں اور اصولوں کی بنیاد پر نہ چلائی جائیں توایسی ہی مضحکہ خیز صورت پیدا ہوتی ہے جیسی مسلم لیگ نون کی حکومت میں ہورہی ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں بنیادی طورپر کوئی فرق نہیں اس لیے کہ دونوں کا طرز حکومت بنیادی طورپر قبائلی ہے۔ قبائلی طرز حکومت میں میرٹ اور قانون دونوں کی حیثیت صفر ہوتی ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند ۔ اور وہ بھی قبیلے کے سربراہ کی، فیصلہ کن ہوتی ہے۔ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی ہی کی طرح ایک قبیلہ ہے، سیاسی پارٹی ہرگز نہیں۔ سیاسی پارٹی وہ ہوتی ہے جس کے اندر انتخابات منعقد ہوں اور ایک خاندان کی اجارہ داری نہ ہو۔ مسلم لیگ نون ایک قبیلہ ہے جس کی بنیاد وسطی پنجاب پر اٹھی ہے۔ فیصل آباد سے لے کر سیالکوٹ تک اور گوجرانوالہ سے لے کر رائے ونڈ تک کے علاقے اس قبیلے کا نشان امتیاز ہیں۔ قبیلے کا سربراہ ہی سب کچھ ہے یا وہ امرا اور عمائدین جو سربراہ سے قربت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات ہرگز اہم نہیں کہ کون کس شعبے کا انچارج ہے، اسے انگریزوں کی زبان میں ’’فری فار آل‘‘ کہتے ہیں۔
یہاں پہنچ کر ہم مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کا موازنہ ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت قبائلی طرز کی حکومت ہے، ہم مسلم لیگ نون کی حکومت کا موازنہ طالبان کی تحریک سے کرکے دیکھتے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان ایک حکومت نہیں، قبائلی طرز کی ایک تنظیم ہے، جس میں شعبوں کے انچارج ہیں نہ وزارتوں کی تقسیم۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق جو کنفیوژن تحریک طالبان پاکستان میں پیدا ہوئی ہے، ویسی ہی کنفیوژن مسلم لیگ نون کی حکومت کو درپیش ہے۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پرفوجی قیادت اور حکومت میں اتفاق نہیں۔ عسکری قیادت حکومت کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔ اس کے بعد انہوں نے فوج کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ عسکری قیادت کو حکومت سے معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ کے خیال میں وہ معاملات جو عسکری اداروں کے سربراہوں کے علم میں ہیں وہ سیاسی قیادت سے شیئر نہیں کیے جاتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے رانا ثناء اللہ کی تردید کی اور کہا کہ یہ بیان رانا صاحب کی ذاتی رائے ہے، اس کا مسلم لیگ نون کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں پارٹی پالیسی پر بریفنگ لینی چاہیے اور پارٹی پالیسی سے اختلاف سے اجتناب کرنا چاہیے۔ پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ ثناء اللہ کو وفاق کی پالیسیوں پر عملدرآمد کی ہدایت کردی ہے ( غالباً وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہدایت کردی گئی ہے )۔
یہ ہے قبائلی طرز حکومت، جس میں یہ معلوم نہیں کہ کون کس شعبے کا انچارج ہے۔ پرویز رشید صاحب کے بیان سے جوکچھ معلوم ہوا، اس کے مطابق :
1۔ مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کا وزیر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ مسلم لیگ نون کی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
2۔ صوبائی وزیر نے پارٹی پالیسی پر بریفنگ نہیں لی جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ پارٹی پالیسی سے بے خبر ہیں۔
3۔وہ وفاق کی پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں کررہے ۔
رانا ثناء اللہ پنجاب کی حکومت کے نمائندے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک ہی پارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ایک دوسرے کی پالیسیوں کا یا تو علم ہی نہیں، یا باہمی اختلاف ہے۔
جوکچھ تحریک طالبان میں ہورہا ہے وہ بھی اسی کا پر تو ہے۔ پنجابی طالبان کے رہنما نے وزیراعظم کی مذاکراتی پیش کش کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وزیراعظم نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ تحریک طالبان کے ترجمان نے اس سے شدیداختلاف کرتے ہوئے، پنجابی طالبان کے نمائندے کو اس کے منصب ہی سے برطرف کردیا اور اعلان کیا کہ اس کا تحریک طالبان پاکستان سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ پنجابی طالبان کے نمائندے نے جواب الجواب میں کہا ہے کہ تحریک طالبان معزول کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتی ، دوسری طرف تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیش کش مسترد کردی۔
یہ درست ہے کہ پرویز رشید صاحب نے طالبان کی طرح یہ نہیں کہا کہ رانا ثناء اللہ کا تعلق اب مسلم لیگ نون سے نہیں ہے۔ تاہم قبائلی طرز حکومت ،تحریک طالبان اور مسلم لیگ نون کی حکومت دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اور وہ قدر مشترک فراق کے الفاظ میں    ؎
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
اس قبائلی طرز حکومت کی ایک تازہ مثال دیکھیے۔ گڈانی میں وزیراعظم پاکستان پاور پراجیکٹ منصوبے پر بریفنگ لے رہے تھے۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر زکے بارے میں حکومت کی بلند ترین سطح پر جو ڈائلاگ ہوا، ملاحظہ کیجیے۔
وفاقی سیکرٹری پانی وبجلی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پاکستان پاور لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے۔ وزیراعظم اپنے ایڈیشنل سیکرٹری سے کہتے ہیں: ’’فواد آپ نے مجھے نہیں بتایا کہ کمپنی بن چکی ہے جب کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کمپنی بن گئی ہے لیکن آپ نے کہا تھا کہ ابھی نہیں بنی ہے‘‘۔
پھر وزیراعظم نے کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بارے میں استفسار کیا تو بتایا گیا کہ ابھی بورڈ آف ڈائریکٹرز نہیں بنا، لیکن سیکرٹری پانی وبجلی نے کہا کہ بورڈ کا پہلا اجلاس بھی ہوچکا ہے۔ اب وزیراعظم نے بورڈ کے ارکان کے بارے میں پوچھا۔ اس پر یہ کہا گیا کہ ابھی بورڈ کے ارکان بنائے ہی نہیں گئے !
یہ صرف دومثالیں ہیں۔ ورنہ ہر شعبے میں ،ہرطرف، ہروقت صورت حال یہ ہے کہ   ع
پابدستِ دگری، دست بہ دست ِدگری
کسی کا پائوں کسی کے ہاتھ میں اور کسی کے ہاتھ میں کسی کا ہاتھ۔ صوبائی وزیر، وفاقی وزیر داخلہ کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ ایک اور وفاقی وزیر اس کی تردید کرتا ہے اور وضاحت بھی۔ وزیراعظم جزئیات اور فروعات کے بارے میں سوال کبھی وزارت کے سیکرٹری سے کررہے ہیں اور کبھی اپنے ایڈیشنل سیکرٹری سے ۔متعلقہ وزیر کہاں ہے ؟اجلاس میں تھا بھی یا نہیں ؟تھا تو وہ خود معاملات کو ہاتھ میں کیوں نہیں لے رہا ؟ ایک وفاقی وزیر کو اپنے معاملات کا انچارج ہونا چاہیے اور ان کے بارے میں معلومات اسے ازبر بھی ہونی لازم ہیں۔ عام طورپر وفاق کے سربراہ کو متعلقہ شعبے کے وزیر ہی سے استفسارات کرنے چاہئیں اور اسی کے جوابات پر اعتماد کرنا چاہیے ، اس لیے کہ وزیراعظم کو غلط جواب دینا معمولی فروگزاشت نہیں۔ اگر وزیر پراعتماد کیا جائے تووہ جواب کے غلط یا صحیح ہونے کا ذمہ دار بھی ہوگا۔

لیکن ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں سسٹم ہو، قواعدوضوابط ہوں، طے شدہ طریق کار ہو۔ رہے بادشاہ یا قبائلی سربراہ تو ان کے سامنے سسٹم، قواعدوضوابط اورطے شدہ طریق کار کی حیثیت ہی کیا ہے !!
 

powered by worldwanders.com