Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, August 05, 2013

چُوڑیاں

پیر ودھائی موڑ سے جیسے ہی میں راجہ بازار والی سڑک پر چڑھا نظر دائیں طرف ہجوم پر پڑی اور دفعتاً میں نے اسے پہچان لیا۔
اس کی جتنی تصویریں دیکھی تھیں، سب میں اس کے سر پر تاج تھا۔ اب اس نے چادر لپیٹی ہوئی تھی لیکن چہرے پر جلال اور آنکھوں میں غیر معمولی عقابی چمک نے میرے وجدان کی مدد کی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی ہے اور پھر چند ثانیوں میں اسے معلوم ہوگیا کہ کوئی اسے بغور دیکھ رہا ہے۔ یہی آسمانی ذہانت اس سے متوقع بھی تھی۔ یہی ذہانت تھی جس نے کئی بار اسے موت کے منہ سے نکالا۔
جس دن وہ کئی سو مہمانوں کے ساتھ باہر کے دسترخوان میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی پلیٹ میں گوشت کا ایک ٹکڑا سخت تھا۔ اس نے تلوار نکال لی اور اسے کاٹا۔ عین اسی لمحے بابر کی نظر اس پر پڑی۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک کمانڈر سے بابر نے سرگوشی کی۔ ’’یہ شخص خطرناک ہے۔ کھانے کے بعد کسی بہانے اسے روک لو۔ ‘‘ وہ بھی دیکھ رہا تھا۔ اس پر دو اور دو چار کی طرح واضح ہوگیا کہ یہ سرگوشی اسی کے بارے میں ہے اور خیریت کی نہیں ہے۔ اولین موقع پاتے ہی وہ وہاں سے نکلا اور پھر جب آگرہ لوٹا تو شہر اس کے قدموں میں ڈھیر تھا!
میں جیسے ہی قریب گیا، ایک دلآویز مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی۔ عجیب مسکراہٹ تھی جس نے بات کرنے کے لیے مجھ میں اعتماد بھر دیا۔ آہ! فراق کا شعر یاد آگیا   ؎
ہم سا ہی تھا فراق مگر بھولتا نہیں
جو بے تکلفی میں جلال اس کے رخ پہ تھا
کہنے لگا، مجھے معلوم ہے کہ تم نے مجھے پہچان لیا ہے۔ اب ہجوم نہ اکٹھا کرلینا۔
ہم ایک عام سے چائے خانے میں جا بیٹھے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ یہاں تمہیں کوئی نہیں پہچانے گا۔ جن لوگوں کو اپنے حال کا علم نہیں اور مستقبل کی پروا نہیں، ان کا ماضی سے کیا تعلق! بس یوں سمجھو کہ ان کا ماضی ہے بھی اور نہیں بھی۔ تم یہ بتائو یہاں کر کیا رہے ہو؟
’’اپنی گم گشتہ اقلیم دیکھنے آیا ہوں۔ گرانڈ ٹرنک روڈ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔ سنار گائوں سے چلا۔ سرحد پار کرکے تمہارے ملک میں داخل ہوا۔ لاہور سے راولپنڈی جس بس میں آرہا تھا اس پر راستے میں ڈاکہ پڑا۔ مسافر لٹ گئے، ان کا سب کچھ چھن گیا۔ میں حیران ہوں کہ تمہارے حکمران کیسے ہیں۔ دو گھنٹے ڈاکو منظر عام پر رہے۔ سنا ہے میرے زمانے کی نسبت مواصلاتی رابطے کئی سو گنا تیز تر ہیں پھر بھی کوئی پولیس والا، کوئی سرکاری افسر اہلکار نہ پہنچا‘‘۔
’’ڈاکے، قتل، اغوا، بھتہ خوری، فریب کاری، چوری، نوسربازی یہاں کا معمول ہے۔ ہم عادی ہوچکے ہیں۔ کچھ دن میں یہ سب کچھ تمہیں بھی عجیب نہیں لگے گا‘‘۔ 
’’تمہارا ملک میری سلطنت کے ایک پرگنے کے برابر ہے۔ مجھے جب قتل یا ڈاکے کی اطلاع ملتی تھی تو نیند مجھ پر اس وقت تک حرام ہوجاتی جب تک قاتل یا ڈاکو پکڑے نہ جاتے۔ اس ذرا سے ملک میں اور اس آدھے پنجاب میں ڈاکو، قاتل اور اغوا کار دندناتے پھرتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ تمہارے حکمرانوں کو نیند کس طرح آجاتی ہے! کیا ان میں عزت نفس نام کی کوئی شے نہیں؟ میرا تو سیدھا حساب تھا جس گائوں میں قتل ہوتا، مقررہ میعاد کے اندر قاتل نہ پکڑا جاتا تو نمبردار کو پھانسی پر لٹکا دیتا تھا۔ راتوں کو نمبردار پہرے دیتے اور خلقت آرام سے سوتی۔ ڈاکہ اور اغوا تو دور کی بات ہے، ایک خوشہ بھی کوئی نہیں توڑ سکتا تھا۔ ایک بار میرے لشکر نے پڑائو کیا۔ ایک فوجی جوان نے ساتھ والے کھیت سے خوشہ توڑ لیا۔ میں نے اس کا کان کاٹا اور پورے لشکر میں اسے پھرا کر نمائش کی۔ یہاں، میں نے سنا ہے کہ کوتوالوں کے گھر میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔‘‘
’’یہ جو ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟‘‘
وہ ہنسا یہاں تک کہ خوبصورت سفید دانت اس کے سرخ سفید چہرے پر موتیوں کی طرح لگنے لگے۔
’’میرے بھائی! جنگ جنگ ہوتی ہے، وہ کسی کی نہیں ہوتی۔ امریکہ کی جنگ ہوتی تو امریکی شہروں پر، امریکی جیلوں پر، امریکی فوجیوں پر حملے ہوتے۔ تمہاری جیلیں توڑی جارہی ہیں، تمہارے لوگ قتل ہورہے ہیں اور تم جنگ کا شجرہ نسب تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہو۔ مجھے تو ایک بات معلوم ہے، ریاست کی رٹ میں ایک فیصد رخنہ بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کیسی ریاست ہے جس میں عدالتیں دوسروں کی لگ رہی ہیں۔ نجی تنظیمیں اپنے اپنے لشکر رکھتی ہیں۔ جیلوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ریاست اور ریاست کے اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یہ مولانا فضل الرحمن مجھے قطعاً پسند نہیں، لیکن ایک بات اس نے بہت پتے کی کی ہے، وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان صرف ایک راستہ آتا ہے۔ اس پر کئی چوکیاں قائم ہیں، سوال یہ ہے کہ ان چوکیوں سے حملہ آور گزرے تو چوکیوں کا عملہ کہاں تھا اورکیا کررہا تھا؟ بغاوت کچلی جاتی ہے، باغیوں سے گفت و شنید کے چونچلے نہیں چلتے۔ حساس اداروں پر تم لوگ اربوں روپے خرچ کررہے ہو۔ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ان کی پرورش کررہے ہو اور ان کے اخراجات برداشت کررہے ہو، کیا وہ ان باغیوں ان قاتلوں کو ختم نہیں کرسکتے؟‘‘
’’تمہیں اپنی جی ٹی روڈ پر بڑا فخر ہے۔ تم نے ہماری موٹروے نہیں دیکھی؟ اب تو لاہور کراچی موٹر وے بھی زیر غور ہے‘‘۔ 
’’احمقو! میں نے بے شمار شاہراہیں بنوائی تھیں۔ جی ٹی روڈ کے علاوہ ملتان سے لاہور اور ملتان سے آگرہ براستہ برہانپور بھی تعمیر کیں۔ لیکن یہ ایک ثانوی کارنامہ تھا۔ اصل مسئلہ امن و امان کا ہوتا ہے۔ کیا تم نے سنا نہیں کہ میرے عہد میں زیورات سے لدی پھندی عورتیں سلطنت کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اکیلی سفر کرتی تھیں اور کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ اس کراچی لاہور موٹروے کا خاک فائدہ ہوگا جس پر کاروں، بسوں اور ٹرکوں کو روک کر لوٹ لیا جائے گا اور مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا؟‘‘
وہ اٹھا۔ مجھے کہنے لگا تم پانچ منٹ بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں۔ میں اسے چائے خانے سے نکلتے دیکھتا رہا۔ طویل قامت، مجھ پر رعب طاری ہوگیا، وہ چل رہا تھا تو یوں لگ رہا تھا تاریخ رواں تھی!
پانچ دس منٹ بعد وہ واپس آیا اور ایک پیکٹ جو بہت بڑا تھا، نہ بہت چھوٹا، مجھے دیا۔
’’یہ تمہارے حکمرانوں کے لیے میری طرف سے ایک حقیر سا تحفہ ہے۔ مجھے امید ہے وہ ضرور شرف قبولیت بخشیں گے؟‘‘
’’لیکن اس میں ہے کیا۔‘‘ میں نے پوچھا 
’’چُوڑیاں‘‘ اس نے جواب دیا اور شال کا کنارہ آنکھوں پر رکھے سسکیاں لیتا باہر نکل گیا۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com