Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, November 29, 2017

دامن خالی!ہاتھ بھی خالی!


فیض آباد دھرنا کس کے لیے چیلنج تھا؟

وفاقی حکومت کے لیے

وفاقی حکومت کس کی تھی؟

مسلم لیگ نون کی!

مسلم لیگ نون کا سربراہ کون ہے؟

میاں محمد نواز شریف قائداعظم ثانی!

پارٹی میں ان کا نائب کون ہے؟

عملی اعتبار سے ان کی  دختر نیک اختر مریم صفدر!



جنہوں نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں  وزیراعظم کا الیکشن لڑیں گی اور یہ کہ "جو لوگ میرے ارد گرد ہیں' بتاتے ہیں کہ ایک خاص  رول میرے لیے مخصوص ہے"دھرنا مسلم لیگ نون کی وفاقی  حکومت کے لیے چیلنج بنا تو یہ دونوں باپ بیٹی کہاں تھے؟

یہ دونوں پیش منظر سے غائب ہوگئے!انہوں نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بیان  سامنے آیا نہ ردِ عمل !مذاکرات کی کوشش کی  نہ اپنی پارٹی  کی حکومت کی کوئی مدد کی!

دونوں باپ بیٹی کا 'دھرنے سے پہلے 'تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی بیان میڈیا پر جلی حروف اور بلند آواز  میں ضرور  دکھائی اور سنائی دیتا تھا۔ دھرنے کے دوران دونوں  مہر بلب رہے!

اس خاموشی ' اس  تغافل ' اس بے نیازی 'اس عدم دلچسپی کی ممکنہ وجوہات کیا ہیں ؟

اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں  !اول یہ چاہتے ہیں کہ دھرنے کی وجہ سے بدامنی پیدا ہو۔قتل و غارت گری ہو!عوام بدحال ہوں۔ ملک میں انارکی پھیلے۔ حکومت ناکام ہوجائے۔ ریاست انتشار کے دہانے پر پہنچ جائے۔ فوج کو مجبوراً امن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے۔ پھر یہ صورتِ حال شریف خاندان کے لیے یوں ہو جیسے اللہ دے اور بندہ لے۔ شوق شہادت تکمیل تک پہنچے۔ میاں صاحب اور ان کی دختر"فوجی آمریت" کے خلاف پرچم لے کر نکلیں اور فاتح بن کر لوٹیں ! دوم:دھرنے کی پشت پر یہی ہوں !اگر ایسا تھا تو یہ کس منہ سے دھرنا ختم کرنے لیے کوئی کردار ادا کرتے۔

 سوم!یہ دھرنے کی پشت پر نہیں تھے نہ ہی اپنی پارٹی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ مگر ان میں اتنی قابلیت 'اتنی لیاقت 'اتنی ذہنی سکت ہی نہ تھی کہ حالات کو نارمل کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرتے!انہوںنے عملی اعتبار سے پارٹی کے سر سے ہاتھ اٹھا لیا کیوں کہ ان کے پاس  کہنے کو کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم نے سڑکیں بنائیں اور سوائے یہ پوچھنے کے کہ کیوں نکالا!ہم سمجھتے ہیں کہ تیسری وجہ ہی زیادہ امکانی لگتی ہے!کیوں کہ جو شخص وزارتِ اعظمٰی کے چار سالوں کے دوران کوئی سنجیدہ اجلاس  اٹنڈ نہ کرسکا ' کوئی فائل پڑھ سکا ہو نہ کسی فائل پر کچھ لکھ سکا ہو' خارجہ امور پر یا ملک کے اندرونی مسائل پر پانچ منٹ مربوط اور قابلِ فہم  گفتگو کرنے کے قابل نہ ہو' وہ اتنا ادراک اور شعور کہاں سے لاتا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات کرتا یا مذاکرات کی نگرانی کرتا

دھرنے والے کہاں سے آئے تھے؟

لاہور سے!

کہاں سے گزرے تھے؟

جی ٹی روڈ سے

لاہور اور جی ٹی روڈ پر کس کی حکومت ہے؟

شہباز شریف کی!

شہباز شریف کس پارٹی سے ہیں ؟

مسلم لیگ نون سے؟

تو پھر انہوں نے دھرنے والوں کو وفاقی دارالحکومت پہنچنے سے پہلے کسی مقام پر روکا کیوں نہیں ؟

اس کی ممکنہ وجوہ بھی وہی ہیں جو اوپر  بیان کی جا چکی ہیں ! ایک اضافی وجہ 'جو چوتھی وجہ ہوسکتی ہے' یہ ہے کہ وہ اپنے یعنی پنجاب حکومت کے سر سے یہ بلا اتارنا چاہتے تھے تاکہ کسی مرحلے پرکوئی ذمہ داری ان پر نہ آن  پڑے!

 صرف باپ بیٹی کی نااہلی کے نکتہ نظر سے مسئلے کو  دیکھنا  تنگ نظری ہوگا!یہ دھرنا ملک کو صدیوں  پیچھے لے گیا ہے!اس نے ثابت کردیا ہے کہ کوئی شخص بھی دو اڑھائی ہزار افراد لے آئے'کسی شہ رگ جیسی شاہراہ پر قابض ہوجائے تو رہاست کو بے بس اور حکومت کو مفلوج کرسکتا ہے!حکومت' عدالتیں 'کچھ بھی نہیں کرسکتیں!

اس دھرنے نے پارلیمنٹ کی بے وقعتی پر مہر تصدیق  ثبت کردی ہے۔ ان اکیس دنوں میں  پارلیمنٹ کے کسی ایوان نے صورتِ حال پر بحث کی نہ حل تلاش کیا  نہ کوئی ذمہ داری اٹھائی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ منتخب نمائندے آگے بڑھتے ،دھرنے والوں  سے بات چیت کرتے اور  عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ! ڈاکٹر  فضل چوہدری دارالحکومت کے عوامی نمائندے ہیں پانامہ کیس کے دوران یہ پیش منظر  پر مسلسل چھائے رہے۔ دوسرے عوامی نمائندے دارالحکومت سے اسد عمر تھے۔ راولپنڈی سے عوامی نمائندے شیخ رشید تھے جو ٹیلی ویژن کے پردہء سیمیں  پر اینکروں سے زیادہ نظر آتے ہیں  !حنیف عباسی اس وقت اسمبلی میں نہیں مگر راولپنڈی کی مسلم لیگ نون کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے۔آپ اندازہ لگائیے'جڑواں شہروں کے لاکھوں باشندے دھرنے  کے اکیس دنوں  کے دوران  سُولی پر  لٹکے رہے۔ اذیت کی آخری انتہا سے دوچار رہے۔ ایمبولینسیں  رکتی رہٰیں ،مریض  راستوں  میں دم توڑتے رہے۔ طلبہ درس گاہوں اور امتحان گاہوں میں پہنچنے سے قاصر رہے ۔تاجروں  کو کروڑوں اربوں کا نقصان ہوا۔ دونوں شہروں  کے درمیان آمدورفت  کا سلسلہ منقطع رہا۔ مسافر بسوں کے اڈوں  'ریلوے اسٹیشنوں  اور ائیرپورٹوں  تک نہ پہنچ پائے ۔ مگر ان عوامی نمائندوں میں سے کوئی آگے نہ بڑھا۔ کیا اسد عمر اور کیا  ڈاکٹر فضل چوہدری 'کیا شیخ رشید اور کیا حنیف عباسی !کسی نے دھرنے والوں کی آکر منت نہ کی کہ آپ کے مطالبات جائز ہوں گے مگر عوام کو سزا نہ دیجیے! ہزار طریقے ہوسکتے تھے ۔ جگہ تبدیل کرنے کے لیے بدلے میں 'اسد عمر اور شیخ  رشید'دھرنے کا  حصہ بننے پر آمادہ ہوجاتے'حنیفف عباسی اپنی حکومت پر دباؤ ڈالتے مگر افسوس! صد افسوس! ان میں سے کسی نے بھی عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا نہ عوام کو اذیت سے رہائی دینے کے لیے ایک انچ اپنی جگہ سے ہلے ۔

اور عمران خان؟عمران خان اپنےآپ کو متبادل قیادت کے لیے پیش کرتے ہیں!مسلم لیگ نون  کی دشمنی بالائے طاق رکھتے ہوئے'عمران خان ذرا بلند سطح پر سوچتے اور عوام کو اس یرغمالی کیفیت  سے نکالنے  کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ۔ وہ دھرنے والوں کےسامنے کھڑے ہوکر تائید کرتے'تالیف ِ قلب کرتے'مگر ساتھ ہی منت سماجت کرتے کہ عوام کی آمد ورفت مسدود نہ کیجئے۔اگر عمران  خان کوئی مثبت کردار ادا کرتے اور کامیابی سے ہمکنار  ہوجاتے تو ان کا قد اور بلند ہوجاتا ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوجاتا  مگر وہ بظاہر الگ تھلگ رہے گویا غیر جانبدار تھے۔ مگر ایسی غیر جانبداری کا کیا فائدہ جو عوام کےدکھ درد سے بے نیاز ہو!

بلاتبصرہ۔ اتوار کے دن ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال راولپنڈی سے جو دو پولیس اہلکار غائب ہوگئے تھے 'وہ پیر کے دن فیض آباد  کے قریب  'سڑک کے کنارے پڑے ملے۔جسموں پر تشدد کے نشانات تھے۔ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور بدن پر خراشیں تھیں !انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں  وہ داخل کرلیے گئے۔ ڈاکٹروں  کے بیان کی رُو سے 'انہیں اندرونی زخم  بھی آئے ہیں ۔ایک کی بائیں  کہنی ٹوٹ  چکی تھی۔ دونوں  کو لاٹھیوں اور پلاسٹک چڑھی تاروں  سے پیٹا گیا  تھا۔ ڈی ایس پی سٹی سرکل نے بتایا کہ دونوں سرکاری اہلکاروں کو اغوا کے بعد فیصل آباد کے قریب خیمے میں رکھا گیا اور بے رحمی سے مارا پیٹا گیا۔

ان دونوں  کو ہسپتال سے اٹھایا گیا تھا۔ہسپتال  یہ دونوں اہلکار کیوں آئے تھے؟یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ ہنگاموں کے درمیان جوافراد ہلاک ہوگئے تھے 'یہ اہلکار ان کی لاشیں  پوسٹ مارٹم کے لیے لائے تھے ۔ساتھ ہی احتجاجی بھی پہنچ گئے ۔کوئی رپورٹ تھی یا  فارم'احتجاجی کہتے تھے اس پر یوں لکھو 'پولیس والے ان کی بات مان نہیں رہے تھے۔ ہجوم نے پہلے ایک کو مارنا  شروع کیا' گھسیٹ کر اسے باہر لائے 'گاڑی میں ڈالا اور لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر دوسرے کو بھی مارتے ہوئے لے گئے۔تیسرا پولیس اہلکار کسی طرح بچ نکلا۔

پس نوشت نمبر(1) میڈیا نے خبر دی ہے کہ عالم بالا میں صدر جنرل ضیاء الحق شاداں و فرحاں  ہیں اور  سراپا تبسم ہیں ! بار بار اپنے آپ سے کہتے پائے گئے کہ یہ ہے وہ پاکستان جو میں چاہتا  تھا۔ اگرچہ یہ دن میری زندگی میں  نہ آسکےتاہم اطمینان یہ ہے کہ بنیاد اس کی میں نے ہی رکھی تھی۔

پس نوشت نمبر(2)پاکستانی پاسپورٹ  پر ایک کالم مذہب کا بھی ہے کہ پاسپورٹ کا حامل کس مذہب کا پیروکار ہے۔کیا ایسا کالم دنیا کے کسی اور ملک یا ممالک کے پاسپورٹوں  پر بھی پایا جاتا ہے؟قارئین سے التماس ہے کہ رہنمائی کریں ۔            

Monday, November 27, 2017

زندہ درگور بُڑھیا!


بال بکھرے ہوئے تھے۔چہرے پر خراشیں تھیں ۔ٹخنوں سے خون بہہ بہہ کرجوتوں میں جم گیا تھا۔گھٹنے زخمی تھے۔ہاتھوں کی کئی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں ۔چلی تو لنگڑا رہی تھی۔سانس فوراً پھول جاتا تھا۔

مجھے دیکھا تو  رُک گئی۔ اس حال میں بھی آنکھوں سے خیرہ کُن چمک شعاؤں  کی طرح باہر آرہی تھی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  بات کرنا ممکن ہی نہ تھا۔طنز بھرے لہجے میں بولی

"تم نے بھی میرا ماتم ہی کرنا ہوگا

کرلو!کہیں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جاؤ۔

میں نے اسے بٹھایا۔اور بتایا  کہ میں  اس لیے نہیں ڈھونڈ رہا تھا کہ تمھیں  موضوع سخن بنا کر کالم کا پیٹ بھروں۔میں تو تمھاری سننے آیا ہوں !سب تمھاری بات کرتے ہیں لیکن تمھاری سنتے نہیں!اپنی بات کرتے ہیں اور تمھارے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں !تم بتاؤ!میں سنوں گا کیا اس حال تک تمھیں عسکری مداخلت نے پہنچایا ہے؟

کاش ایسا ہوتا!ایسا ہوتا تو مجھے اپنے بالوں کے بکھرنے کا'دانتوں کے ٹوٹنے کا،گھٹنوں کے زخمی ہونے کا' چہرے کے مسخ ہونے کا رنج تو نہ ہوتا۔مجھے خوشی ہوتی کہ  میں نے اپنے آپ کو ایک مقصد کے لیے' ایک بڑے مقصد کے لیے خرچ کیا  ہے!مگر افسوس !یہ حال میرا عسکری مداخلت نے نہیں کیا ہے!"

سول بالا دستی سے یہ  ملاقات اس کے گھر میں ہو رہی تھی۔شہر کے ایک گنجان 'پرانے محلے میں ٹوٹی ہوئی گلی کے سرے پر'ایک خستہ حال مکان کا بالائی حصہ تھا۔ صرف ایک کمرے پر مشتمل! یقین نہیں آ رہا  تھا کہ جمہوری دور میں سول بالا دستی اس عُسرت  سے زندگی کاٹ رہی ہوگی۔کمرے  کے کونے میں تیل والا چولہا اور چند برتن پڑے تھے۔بان کی چارپائی تھی۔ ادوائین ٹوٹی ہوئی!تکیے  کا غلاف میل سے کالا ہوچکا تھا۔ میں بیٹھا تو یوں لگا جیسے چارپائی کا پیٹ زمین سے جا لگے گا۔

منع کرنے کے باوجود چائے بنانے بیٹھ گئی۔کسی زمانے میں پیالیوں کے ساتھ کُنڈے لگے ہوں ،مگر اب صرف نشان باقی  تھے۔ چائے پکڑائی تو ساتھ ہی معذرت کرنے لگی کہ گُڑ کی چائے ہے۔کہنے لگی کہ' سفید چینی خریدنے کی استطاعت نہیں !

خود وہ پھیکی چائے پی رہی تھی۔کہنے لگی'پشتوں میں کسی کو ذیابطیس نہیں تھی۔گزشتہ سات آٹھ سال اس قدر ذہنی تناؤ اور دباؤ میں گزرے کہ شوگر ہوگئی!

پھر وہ بولتی گئی اور میں دم بخود سنتا رہا۔کس قدر دردناک کہانی تھی!لب لباب اس کی داستانِ غم کا یہ تھا کہ 2008ء میں جمہوری حکومت آئی تو سول بالادستی بھی سامنے آگئی۔جوان تھی اور خوبصورت!گلے میں پانی اترتا ہوا ،دکھائی دیتا تھا!زلفیں گھنی تھیں 'کالی گھٹا کو شرما دینے والی!چہرہ غازے کے بغیر بھی چاند جیسا!چلتی تو فوجی مداخلت بھاگ جاتی۔دنیا عش عش کرتی!

پہلی خراش اس کے چہرے پر اس وقت پڑی جب اس زمانے کے صدر نے اپنے جیل کے ایک ساتھی کو تیل اور توانائی کا وزیر بنا دیا۔ یہ آغاز تھاپھر تو صدمے پر صدمہ'چوٹ پر چوٹ!یوسف رضا گیلانی کے زمانے میں ہر طرف ملتان ہی ملتان تھا۔حج کا سکینڈل اٹھا تو بیچاری سول بالا دستی کے گھٹنوں سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ پھر راجہ پرویز اشرف کے زمانے میں ریڑھ کی ہڈی تک متاثر ہوگئی!

مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو سول بالا دستی کے پرخچے اڑنے شروع ہوگئے۔زخمی تھی مگر اب بھی جوانی کی دلکشی باقی  تھی۔ چہرے کے نقوش میں جاذبیت اب بھی تھی۔میاں نواز شریف نے غیر منتخب 'ریٹائرڈ بیورو کریٹ وزیراعظم آفس میں ایڈوائزر بنا کر بٹھایا تو بیچاری کی چیخیں نکل گئیں  اس پیر تسمہ پا ایڈوائزر کی واحد خوبی یہ تھی کہ  وہ میاں صاحب کی ذات برادری سے تھا۔
وزیر اعظم کے اختیارات 'ان کی غیر حاضری میں 'ان کی بیٹی نے سنبھالے تو سول بالا دستی نے شہر کے پُر رونق آسودہ حصے کو چھوڑا اور اس تنگ قدیم محلے میں منتقل ہوگئی۔ اب وہاں  رہتے ہوئے اُسے شرم  محسوس ہوتی تھی۔ پھر دختر نیک اختر نے میڈیا سیل کھول لیااور وزارتِ اطلاعات کو اپنی باندی بنا لیا۔اس وقت کے وزیر اعظم نے  ذاتی محلات کی چار دیواری پر قومی خزانے سے ستر کروڑ لگادیے۔ سول بالا دستی کے چہرے پر جھریاں پڑ گئیں ۔۔نواسی کے  نکاح پر قومی ائیر لائن کو یوں استعمال کیا گیا جیسے گاؤں کے  چودھری میراثیوں کو  استعمال کرتے ہیں ۔غسل خانے پر عوام کے ٹیکسوں سے اڑھائی کروڑ لگا دیے۔

پورا ایک سال  وزیراعظم نے سینٹ میں اپنی شکل نہ دکھائی۔سول بالا دستی کا پیٹ کمر سے جا لگا۔ کابینہ کو وہ گھاس ہی نہ ڈالتے تھے۔دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلٰی ہر روز اسمبلی میں جاتے مگر وزیراعظم کے بھائی' مہینے گزر جاتے تب بھی صوبائی اسمبلی کا رُخ نہ کرتے۔

صوبائی وزیر اعلٰی نے بیٹے کو صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک  کیا تو سول بالا دستی نے سر پیٹ لیا۔پھر فرد واحد نے چھپن کمپنیاں  بنائیں ۔ کابینہ کا دخل تھا نہ اسمبلی کا۔ سول بالا دستی کے بال  دیکھتے ہی دیکھتے سفید ہوگئے۔

کون سا ظلم تھا جو اس زمانے میں سول بالا دستی  پر نہ ہوا تھا۔غیر ملکی دوروں میں وزیراعظم صرف ایک وزیر اعلٰی  کو ساتھ لے جاتے اس لیے کہ وہ بھائی بھی تھا۔وزارت خارجہ کے امور بھی وہی چلاتا ۔ توانائی کی وزارت میں بھی اسی کا عمل دخل تھا۔ قطر جاکر وفاق کی طرف سے معاہدے کرتا رہا!

سول بالا دستی انگشت بدنداں  ہو کر وزیر اعظم  کے رنگ چالے دیکھتی رہی'خون کے آنسو پیتی رہی! وزیراعظم فائل پڑھ سکتا تھا نہ فائل پر کچھ لکھتا تھا۔عملاً' پرنسپل سیکرٹری ہی وزیراعظم تھا۔ایک اجلاس  بھی وزیراعظم  نے ای سی سی جیسے اہم ادارے کا خود اٹنڈ نہ کیا۔حکومتی امور سے اتنی بھی دلچسپی  نہ تھی جتنی سوتیلی  ماں کو سوتیلے بچوں سے ہوتی ہے!سینکڑوں  کمیٹیاں سمدھی کے سپرد کردیں۔خود صرف بیرونی دورے کرتے۔ملک میں ہوتے تو مری چلے جاتے!حکومت میاں نواز شریف کے لیے عیاشی کے سواکچھ نہ تھی۔ ہر روز روزِ عید تھا۔ ہر شب شبِ برات تھی!ذوق اتنا پست اور عامیانہ کہ کروڑوں کی گھڑی باندھ کر خوش ہوتے جب کہ لوگ اخ تھو کرتے! خارجہ امور  پر ایک دن بھی گفتگو نہ کی!مُودی نے ماسکو سے لے کر واشنگٹن تک'ابو ظہبی سے  لے کر ریاض تک'تاشقند سے لے کر 'تہران اور کابل تک بھارت کے نام کا غلغلہ برپا کردیا۔ مگر میاں نواز شریف کسی سے بات تک نہ کرپاتے۔بس لندن جاتے تو ریستورانوں میں کھاتے پیتے!سول بالا دستی اب ستر سال کی  ضعیف  بدصورت کالی کلوٹی بڑھیا کا روپ دھار چکی تھی۔

پانامہ کیس کا فیصلہ ہوا تو نااہل وزیراعظم نے عدالت کا فیصلہ ماننے  ہی سے انکار کردیا فوجی آمر'عدالتوں میں مداخلت کرتے تھے مگر اب جمہوری دور میں جو کچھ عدالتوں  ان کے فیصلوں اور ججو ں کے ساتھ ہوا 'سول بالا دستی نے شرم سے سر جھکا لیا'پارٹی کے امور بیٹی نے سنبھال لیے۔آئین اور قانون کی شکل بگاڑ کر'ترامیم کے سہارے'پارٹی کی صدارت پر قبضہ ہے۔سول بالادستی کیا کرتی'صرف اور صرف ایک خاندان کو بچانے کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا گیا جس سے آمریت بھی شرما جاتی !

اب وہ ہانپ رہی تھی۔دمہ بھی ہوگیا تھا!کہنے لگی کتنا برداشت کرتی دیکھو !میری کمر پر کتنا بوجھ  لادا گیا۔میری پیٹھ پر اس خاندان نے کجاوا رکھا اور پھر مجھ پر سواری کرنے لگ گئے۔سمدھی بھی۔بیٹی بھی 'داماد بھی 'بھائی بھی بھتیجا بھی!پیپلز پارٹی نے سول بالادستی کی کمر پر بہنیں  لاد دیں ۔کھوتا بھی اتنا وزن اٹھانے سے قاصر تھا۔ان جمہوری حکومتوں  نے سول بالادستی کو کم ظرف نو دولتیوں  کی طرح استعمال کیا!

پیشکش کی کہ ہسپتال داخل کرا دیتا ہوں ۔مگر اس نے انکار کردیا۔ کہنے لگی بس یہ تکلیف ضرور دوں گی کہ کسی دن کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو!جو چار دن باقی ہیں  'دواؤں کی مدد سے آرام سے گزر جائیں! !زیادہ جینے کی خواہش ہی نہیں  ! اس سے پہلے پہلے کہ نا اہل شخص کی قیادت میں پوری حکومت نااہل ہوجائے 'مرجاؤں تو بہتر ہوگا۔           


Friday, November 24, 2017

چڑھ جا بچہ سولی رام بھلی کرے گا


چوہدری صاحب کے بچوں نے پڑھنا لکھنا تو تھا نہیں ،ضرورت بھی نہیں تھی۔کھیت،زمینیں ،لمبی چوڑی جاگیر،جس کی پیمائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔گاڑیوں کے بیڑے،اسمبلی کی جدی پشتی ممبریاں ،وزارتیں سب کچھ تو میسر تھاایسے میں کالج، یونیورسٹی کی پڑھائیاں اور پابندیاں کون برداشت کرتا ۔

مگر یہ جو ان کے ہاری ،مولو کا بچہ پڑھائی میں ذرا تیز نکل آیا تو یہ ذرا ٹیڑھا معاملہ تھا۔بدبخت قصبے کے کالج تک پہنچ چکا تھا۔اگر وہاں سے بھی فارغ التحصیل ہو کر  مزید ترقی کرگیا تو چوہدری کے نیم خواندہ بیٹوں کی کیا عزت رہے گی۔

چوہدری صاحب کے زرخیز دماغ نے اس کا حل نکال لیا۔ پیار سے انہوں نے مولو کے بچے کو باور کرایا کہ وہ اس کے ہمدرد، مربی اور سرپرست ہیں اس کے دل میں یہ بات بٹھادی کہ اس کا باپ ہاری سہی مگر ہے تو کسان!کسانوں کی ذات اونچی ہوتی ہے۔اس  لیے کالج میں رعب داب اور ٹھسے سے رہا کرے۔دوسرے طلبا کی اکثریت اس کے مقابلے میں نیچ ذاتوں سے ہے۔مولو کے بچے کی گردن اکڑ گئی۔اس نے کالج میں کھڑ پینچی شروع کردی۔ آہستہ آہستہ کچھ اور  لڑاکے قسم کے طلبہ اس کے دائرہ اثر میں  شامل ہو گئے۔ مار کٹائی کے نتیجے میں  پہلی بار مولو کے بچے کو  کالج سے نکالا گیا تو چوہدری صاحب کو فاتحانہ اطمینان ہوا۔مسکراہٹ ان کی گھنی مونچھوں میں چھپائے چھپتی نہیں تھی۔فوراً کالج پہنچے اور "بچے" کو معافی دلوا دی ۔اس کے بعد وہی ہوا جو تعلیمی اداروں میں  مسلکی،مذہبی،نسلی اور لسانی تنظیموں سے منسلک طلبہ  کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔اساتذہ تک مولو کے بیٹے سے خائف رہنے لگے۔مگر فارغ التحصیل ہوا نہ یونیورسٹی تک پہنچ پایا۔چوہدری صاحب کی اولاد کا مستقبل محفوظ کا محفوظ رہا۔

یہ کوئی خیالی تصویر نہیں ہے جو پیش کی گئی ہے۔یہی کچھ تو چند روز پہلے قائداعظم یونیورسٹی میں ہوا! بلوچی اور  سندھی طلبہ کے دو گروہ ایک دوسرے پر پل پڑے۔

اسلحہ کی ماشااللہ ملک کے کسی گوشے میں کوئی کمی نہیں ہے۔باخبر حلقوں کی رائے یہ ہے کہ اس ملک میں اسلحہ کی اتنی مقدار موجود ہے کہ  کئی ملکوں کے لشکر مسلح ہوسکتے ہیں ۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دنگا فساد  کرنے والے طلبہ کو نکال دیا ۔اس کے بعد  ہنگامے شروع  ہوگئے۔یونیورسٹی بسیں نہ چلنے دی گئیں ۔کلاسوں کو زبردستی بند کرا دیا گیا۔ سب سے بڑا مطالبہ کس صورت میں سامنے آیا؟یہ کہ جن طلبا کو نکالا گیا ،ان کی سزائیں موقوف کی جائیں ۔یونیورسٹی یرغمال بن گئی۔انتظامیہ اور اساتذہ بے بس ہوگئے۔ایچ ای سی(ہائر ایجوکیشن کمیشن) خاموش تماشائی بنا رہا۔

آپ اعتراض کرسکتے ہیں کہ چوہدری کا اس میں کیا عمل دخل اور لینا دینا؟جگر تھام کر سنیے۔

یونیورسٹی میں اکثر و بیشتر ایسی گاڑیاں نظر آنے لگیں جن پر  ایک خاص صوبے کی نمبر پلیٹیں تھیں ۔پھر سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اس قصے میں پڑے۔جو اطلاعات اس  کالم نگار کے پاس ہیں  ،اس کے مطابق ان طلبہ کو معاف کردیا گیا۔دوسری قومیتوں کے طلبہ اس عرصہ میں اپنی پڑھائی میں مصروف رہےاس لیے کہ وہ کسی لسانی صوبائی ثقافتی مسئلے میں الجھے ہوئے نہیں تھے۔معروف سکالر پروفیسر ہود بھائی نے،اس ضمن میں ،ایک دلچسپ  فقرہ لکھا۔

Punjabi students gleefully egged them to fight harder.

یعنی پنجابی طلبہ نے انہیں  زیادہ سخت لڑائی پر اکسایا۔

غور کیجیے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس وقت، مجموعی طور پر ،پنجابی اور پٹھان طلبہ تعلیمی حوالے سے سب سے آگے ہیں ۔اس کے بعد ،اس کالم نگار کی رائے میں شمالی علاقہ جات کا نمبر آتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ  کوئی بلوچی ،کوئی سندھی ،یا جنوبی پنجاب کا  کوئی طالبعلم ممتاز صفوں میں  نہیں دکھائی دیتا۔مستثنیات ہر جگہ موجود ہیں ۔ ان علاقوں سے بھی طلبہ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔مگر ہم ایک عمومی بات کررہے ہیں ۔ اور تعمیم
generalization
ہمیشہ اکثریت کی  بنیاد پر بنتی ہے۔ جن گروہوں کو علاقائی ثقافت اور لسانی امتیاز کے خار دار دشوار گزار جنگل میں دھکیلا جاتا ہے وہ تعلیمی اور اقتصادی میدان میں  اکثر و بیشتر  پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ سندھ میں کچھ عرصہ پہلے" سندھی ٹوپی"کا دن منایا گیا۔ ایسے محدود حوالوں سے پنجاب اور کے پی میں  تقریبات کیو ں نہیں منائی جاتیں ؟کراچی کی مثال  لے لیجیے۔اردو بولنے والے طلبہ تعلیمی میدان میں بہت آگے تھے۔پھر الطاف حسین نے لسانی بنیاد  پر کھڑاک شروع کیا تو بساط الٹ گئی۔ممتاز حسین اور ڈاکٹر  عطا ء الرحمٰن جیسے نابغوں کے بجائے سیکٹر کمانڈ ،فلاں لنگڑا اور فلاں ٹُنڈا پیدا ہونے لگے۔

اس سے پہلے یہ کالم نگار اپنے قارئین کو یہ افسوس ناک واقعہ بتا چکاہے کہ ایک بلوچ سردار نے لاہور میں پریس کانفرنس کی،کسی نے پوچھا کہ اس  زمانے  میں بھی بلوچ سردار ،چوری کے مقدمات کا فیصلہ ،ملزموں  کو جلتے انگاروں پر چلا کر کیوں کرتے ہیں ؟سردار کا جواب تھا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ واقعہ یہاں ختم نہیں  ہوتا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ،اس کالم نگار  کو،دارالحکومت کی ایک بڑی یونیورسٹی میں کچھ طلبہ سے گفتگو کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔یہ طلبہ کون تھے؟یہ بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں  سے آئے ہوئے لیکچرر تھے۔یعنی  اعلیٰ تعلیم  یافتہ۔لیکچر کے دوران  اس کالم نگار نے جب بلوچی سردار  کی پریس کانفرنس  کا ذکر کیا تو حاضرین میں اضطراب  کی لہر دوڑ گئی۔کچھ نے برملا اعتراض  کیا کہ ہمارے سردار  کے بارے میں کوئی بات کی جائے۔

اب آپ جان گئے  ہوں گے کہ چوہدری  اور مولو کے بیٹے کی مثال کس  عمدہ اور مکمل طریقے سے منطبق  ہورہی  ہے۔صورتِ حال اس مثال کے سانچے میں ٹھیک ٹھیک ،ترتیب سے فٹ ہورہی ہے۔

بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں

کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں !

بلوچستان کے سرداری  نظام کی بقا اس میں ہے کہ  قبائل کے عام لوگ تعلیمی اور اقتصادی میدان میں ترقی نہ کرسکیں ۔سکولوں اور کالجوں کی عمارات سرداروں  کے غلے کے لیے  گودام کاکام کرتی رہیں ۔ قبیلے کے افراد  اپنے خاندانی معاملات تک سردار کی مرضی سے نمٹاتے رہیں ۔سردار نئی بندوق چیک کرنے کے لیے گلی  میں سے گزرنے والے کسی بھی رہگیر کے سر  کا نشانہ لیتا رہے۔اسمبلیوں  اور سینٹ  میں ہمیشہ سردار ہی آئیں  ۔گورنری اور وزارت اعظمٰی انہی کی جاگیر  بنی رہے۔کچھ طلبہ اگر کسی یونیورسٹی تک پہنچ بھی جائیں تو "بلوچی" بن کر رہیں ۔نسلی اور لسانی  تفاخر میں پھنسے رہیں ۔مار دھاڑ کریں ۔  اگر انہیں سزا ملے تو سینٹ اور اسمبلی  میں بیٹھے ہوئے سردار  جاکر معاملہ"رفع دفع"کرادیں ۔جرمانے معاف ہوجائیں ۔سزائیں  موقوف ہوجائیں۔ یوں لڑنے والوں کی مزید حوصلہ افزائی  ہو۔پھر مستقبل کے لیے ان کے حوصلےاور بلند  ہوں ۔یوں وہ ایسے بلوچ  تو بن جائیں جن سے یونیورسٹیاں خوف زدہ رہیں مگر پی ایچ ڈی ،سائنسدان، انجینئراور ماہر اقتصادیات نہ بن سکیں ۔سرداری نظام کو چیلنج کرنے کے قابل کبھی  نہ ہوں ۔

ایک قریبی عزیز  نے دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں سات سال پڑھایا ۔ان کامشاہدہ یہ تھا کہ کے پی کے دور افتادہ ،پس ماندہ گوشوں سے آئے ہوئے پٹھان طلبہ،اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت  کچھ عرصہ ہی میں ،تعلیمی حوالے سے بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔یہ وہ تھے جو کسی نسلی مسلکی یا مذہبی گروہ سے وابستگی اختیار نہیں کرتےاور صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ مرکوز  کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کرتے تھے۔

پس ماندگی اور ناکامی  ان طلبہ کے لیے بھی اپنی بانہیں کھولے کھڑی رہتی ہے جو مسلکی بینادوں پر، تعلیمی اداروں میں گروہ بندی کرتے ہیں یا گروہ بندی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس حقیقت کا ادراک  جن والدین کو ہوگیا ہےوہ اپنے بچوں  کو پنجاب یونیورسٹی یا دارالحکومت کی"بین الاقوامی"اسلامی یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیتے۔کئی والدین نے بتایا کہ ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کی اجارہ داری کی وجہ سے انہوں نے  اپنے ہونہار  بیٹوں بیٹیوں  کو ان درس گاہوں  میں نہیں جانے دیا۔سروے کرکے دیکھ لیجیے ،جو طلبہ دوران تعلیم مذہبی مسلکی،نسلی،لسانی اور سیاسی  تنظیموں سے وابستہ رہتے ہیں ،وہ ان درس گاہوں  سے کچھ بن کر کبھی نہ نکل سکے۔سیاسی جماعتوں  میں گئے بھی تو ان کی شہرت پراپرٹی ڈیلروں  ہی کی رہی!ایک کتا بچہ تک تصنیف نہ کرسکے۔دس منٹ کی اثر انگیز تقریر کسی علمی موضوع پر  کرنے سے قاصر ہیں۔ مستقبل انہی  طلبہ کا تابناک ہے جو دوران تعلیم ،بلوچی ہیں نہ پنجابی،پختون ہیں نہ سندھی،دیوبندی ہیں نہ بریلوی،سبز ہیں نہ سرخ،مذہبی ہیں نہ غیر مذہبی،صرف اور صرف طالب علم ہیں ۔




Wednesday, November 22, 2017

کوئی ہے جو وسطی پنجاب کو جگائے!


ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے اس ملک کے شہروں کو محاصروں  میں قید کردیا ہے، عوام  کو خانہ جنگی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ  کے بدترین دور سے گزر  رہا ہے۔ ملک کا  وزیراعظم ،وزیراعظم ہونے کا اقرار ہی نہیں کررہا۔اس کے خیال میں اس کا اپنا وزیرعظم کوئی اور ہے۔اس  کی کابینہ کے ارکان کا قبلہ کہیں اور ہے۔دارالحکومت یرغمال بنا ہوا ہے۔حکومت نظر  ہی نہیں آرہی۔ جڑواں شہروں  کے شہری سسک رہے ہیں ،بلک رہے ہیں ،ان کے اعصاب شل  ہوچکے ہیں ، ان کا کاربار تباہ و برباد ہوگیا ہے۔طلبہ  امتحان گاہوں میں نہیں پہنچ  پارہے۔ تاجروں کی دکانیں بند ہیں ۔مسافر ریلوےسٹیشنوں ،بسوں کے اڈوں اور ائیر پورٹوں تک جانے سے قاصر ہیں ۔ کوئی والی وارث نہیں۔ وزراء اپنے محلات میں آرام سے رہ رہے ہیں ۔ کم ہی ہیں ان میں سے جو ہر روز  اپنے دفاتر  میں حاضر ہوتے ہوں ، دوسرے لفظوں میں  یوں کہیے  کہ وہ اس عذاب سے بے خبر ہیں جس سے جڑواں شہروں  کے باشندے گزر رہے ہیں ۔

یہ اذیت ناک صورت حال شریف خاندان کو خوب راس آرہی ہے۔شریف خاندان ،مسلم لیگ نون کے نکتہ  نظر سے نہیں سوچتا ۔ پارٹی کا نکتہ نظر تو دور کی بات ہے۔ شریف خاندان ملک اور قوم کے نکتہ نظر سے بھی نہیں سوچتا۔ جتنی بدامنی ہو،شورش ہو،فساد ہو،عوام جس قدر پریشان حال ہوں، شریف خاندان کے چہرے  پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کی جھلک ابھرتی ہے۔ایک
sadistic

(اذیت رساں)تبسم ہونٹوں پر کھیلتا ہے ۔گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں  ۔۔۔۔دیکھا  !ہمیں نکالا تو اس کا بدلہ مل رہا ہے،یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم حکومت میں نہیں رہے۔اب بھگتو ،مزے لو
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا

میری بلاسے بوم رہے یا ہما رہے

 میاں صاحب نے تخت سے اترنے کے بعد  ایک دن کے لیے بھی نہیں تسلیم کیا کہ حکومت اب بھی ان کی پارٹی کے پاس ہےاور وہ پارٹی کے سربراہ ہیں ۔حکومت کسی اور پارٹی کے پاس ہوتی تب بھی ان کا رویہ یہی ہوتا۔ معاندانہ ،حریفانہ رویہ' یہ ہے شریف خاندان کا وہ رویہ جس کی بنا پر عوام یہ سمجھنے پہ مجبور ہیں کہ کہیں اس  بدامنی کی پشت پر انہی لوگوں کا ہاتھ تو نہیں ؟دھرنے والے لاہور سے روانہ ہوکر  'بغیر کسی رکاوٹ کے'دارالحکومت میں اترتے ہیں اور دونوں شہروں کی شہہ رگ پر بیٹھ  جاتے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کرتی؟آخر کیوں؟عوام یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ دھرنا دینے والے  چاند تو نہیں مانگ رہے ۔ان کا کون سا مطالبہ ہے جس کا پورا کرنا  حکومت کے لیے ناممکن ہے؟راجہ ظفر  الحق  کمیٹی کی  رپورٹ  کیوں نہیں منظر عام پر لائی جارہی؟وزیر قانون کو ہٹانے سے کیا حکومت کا تختہ الٹ جائے گا؟اگر وزیر قانون اس مسئلے کے ذمہ دار نہیں تو اور  کون ہے؟جو کوئی بھی ہے 'اسے سامنے لایاجائے۔آخر یہ کھیل کیوں کھیلا گیا؟ حلف نامے کے بجائے محض اقرار نامہ کس کے دماغ میں ابھرا تھا؟اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ دھرنا تو فیض آباد کے مقام پر دیا جارہا ہے' انتظامیہ نے باقی  راستوں  کو کیوں مسدود کررکھا ہے؟سارے راستے کیوں  بند ہیں ؟ہر طرف رُکی ہوئی،پھنسی  ہوئی ٹریفک کے اژدہام  میں پولیس کیوں نظر نہیں آرہی؟ یہی وہ  سوالات ہیں جن پر غور کیا جائے تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حکومت خود اس ٹہنی کو کاٹ رہی ہے جس پر  بیٹھی ہے۔

 ایک طرف دھرنے کی وجہ سے پورا ملک ذہنی تناؤ میں ہے'دوسری طرف میاں صاحب نے ایبٹ آباد کے جلسہ عام میں قوم کے ساتھ ایک اور مذاق کیا ہے ۔تازہ مذاق 'زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ اعلان کیا ہے کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے پوپ کہے کہ ویٹی کن مسلمانوں کا مسکن ہے ۔جیسے مورخ یہ  کہہ دے کہ ماؤزے تنگ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا حامی تھا ۔جیسے کوئی در فنطنی چھوڑے کہ قائداعظم 'تقسیم کے وقت کانگریس کے صدر تھے۔

جہاں تک اس کالم نگار  کو یاد پڑتا ہے 'تین عشروں  میں میاں صاحب نے پہلی بار نظریے کی بات کی ہے۔انہوں نے راز کی یہ بات کبھی کسی کو نہیں بتائی کہ ان کا نظریہ کیا ہے؟اس کے خدو خال کیا ہیں ؟کیا ملکی ترقی کے ضمن میں ان کا نظریہ کوئی نیا زاویہ پیش کرتا ہے؟میاں محمد نواز شریف نے آج تک کوئی ایسی بات نہیں کی جس میں گہرائی ہو،ترقی کے بارے میں وہ ہمیشہ یہی گھسا پٹا فقرہ دہراتے ہیں کہ" سڑکیں بن رہی ہیں' مک میں روشنیاں پھیل رہی ہیں "۔انہوں نے آج تک ملک کے تعلیمی نظام  کے بارے میں  بات نہیں کی ۔زرعی اصلاحات کا کوئی تصور  ان کے ذہن میں نہیں ۔کیا کسی وقت انہوں نےسوچا ہے کہ  بلوچستان کا  سرداری نظام کتنا فرسودہ  اور اذکار رفتہ ہے؟کیا کبھی کسی وقت انہوں نے بھولے سےبھی ذکر کیا کہ جنوبی پنجاب  میں کس قدر غربت ہے'بھوک ننگ  ہے' جاگیردارانہ نظام نے تمام لوگوں کو جکڑ رکھا ہے 'مدارس چھائے ہوئے ہیں 'تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے' کیا انہوں نے کبھی اس  کا کوئی حل سوچا ہے؟اگر سوچا ہے تو قوم کے سامنے پیش کیا ہے؟

جو شخص بطور وزیراعظم کوئی سنجیدہ اور طویل اجلاس نہیں  برداشت کرسکتا  'جو ای سی سی کی ایک میٹنگ کی صدارت کرنے کی قابلیت نہیں  رکھتا' جو خارجہ امور پر دس منٹ بات کرنے کی  اہلیت سے  عاری ہے؛جو ایک ایک لفظ کے لیے اپنے مشیروں  اور حواریوں  کا محتاج ہے 'جس نے کبھی کسی فائل پر  کچھ نہیں لکھا 'اس لیے کہ  اسے معلوم ہی نہیں کیا لکھنا ہے'وہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا نام نظریے کے مترادف ہے۔ کیا اس  سے زیادہ بھیانک مذاق ہوسکتا ہے؟

 اس ملک نے بہت سے حادثے دیکھے ہیں۔اس ملک کے عوام نے بہت انہونیوں کا سامنا کیا ہے مگر تاریخ جن بڑے حادثوں پر حیرت کا اظہار کرے گی وہ تین ہیں ۔قائداعظم کے ملک پر آصف زرداری نے صدارت کی۔ میاں نواز  شریف تین بار وزارت عظمٰی کی گدی پر  بیٹھے اور سلمان فاروقی محتسب اعلیٰ رہے۔ فارسی کے شاعر  نے اسی لیے کہا تھا کہ

بسی نا دیدنی را دیدہ ام من

 مرا ای  کاشکی مادر نہ زادی!

جن انہونیوں کو دیکھنا پڑا، اس سے تو بہتر تھا کہ شاعر دنیا ہی میں وارد نہ ہوا ہوتا۔

 مستقبل کی وزیر اعظم ،دختر نیک اختر نے آج تک  سوائے اپنے والد کی بے گناہی کے اور  شریف خاندان  کے اقتدار کے جواز کے کوئی بات نہیں کی۔

 شریف خاندان کا زوال ،برامکہ کے اس  زوال سے زیادہ اہم ہے جس نے عباسیوں  کو سکون کا سانس مہیا کیا تھا۔ برامکہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔خلیفہ کو وہ خاطر میں نہ لاتے تھے۔ باپ اور بھائیوں  نے محلات ایسے تعمیر کرائے تھے آسمان دنگ تھا اور زمین انگشت بدنداں !ان کی شہرت چار دانگ ِ عالم میں پھیل گئی ۔یہاں تک  کہ دوسرے ملکوں کے سفیر ان سے ملاقات کے لیے منتظر رہتے۔ پھر ایک رات ایک گمنام شخص گلی میں گاتا گزرا

؎تدبر  بالنجرم و لست تدری

 ورب النجم یفعل ما یشاء 

ہر کام "مبارک ساعت" دیکھ کر کرنے والے برامکہ کو اس گمنام شخص نے دھمکی دی یا پیش گوئی کی کہ ۔۔۔۔"ستاروں  سے تدبیر کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمھیں کچھ نہیں  معلوم !ستاروں کا پروردگار جو چاہے کرتا ہے"۔

پھر برامکہ سے بھی کئی ہاتھ آگے بڑھ گیا تھا۔سابق وزیراعظم علالت کے دوران لندن تھے تو دختر نیک اختر تکبر کی آخری سیڑھی پر چڑھ گئیں ۔وہ غیر ملکی سفیروں  کو بادشاہ  کی طرح ملتی تھیں ۔ وہ سرخ قالین پر چلتی  تھیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر،قالین سے ہٹ کر پاؤں رکھتے تھے۔قومی وسائل ان کی مٹھی میں تھے۔ ملک ان کے قدموں میں  پڑا تھا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا فرزند بے تاج حکمران تھا۔ وہ تمام امور  میں دخیل تھا ۔بیوروکریسی دست بستہ کھڑی تھی ۔صوبائی وزراء کی حیثیت صفر تھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ خاندان رُو بہ زوال ہوگا؟ان سے پوچھ گچھ ہوگی؟ عدالتوں  میں حاضر ہوں گے؟انگلی نچا کر مضحکہ خیز تقریریں  کرنے والے وزیراعلٰی کی 56 کمپنیاں  کرپشن کی علامت بن کر رہ گئی ہیں !ابھی تو اقربا پروری اور دوست نوازی کے ایسے ایسے مناظر سامنے آئیں گے کہ خلقِ خدا حیران رہ جائے گی۔ لاہور ڈاکوؤں کے نرغے میں ہے اور شور  پنجاب  سپیڈ کا مچایا جارہا ہے۔ 2018 ء کے  انتخابات میں وسطی پنجاب نے اگر اسی بے حسی کا ثبوت دیا  جس کا گزشتہ انتخابات میں دیا تھا تو اس ملک  پر ایک اور لمبی کالی رات چھا جائے گی۔ کوئی ہے  جو وسطی پنجاب کو جھنجھوڑے 'جگائےاور سیاسی شعور دے؟           


Sunday, November 19, 2017

میاں صاحب کا طرزِ حکومت۔تازہ ترین مثال



میاں محمد نواز شریف کے  عہدِ حکومت میں اداروں کی تباہی کی بات اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اس کا تذکرہ کرنا عبث لگتا ہے۔ دونوں بھائیوں  کو خدا سلامت رکھے 'اس قدر مستقل مزاج ہیں  کہ کسی احتجاج' کسی اعتراض کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔اس کا  ایک بڑا  سبب دو بزرگ ترین اداروں کا بے اثر ہوجانا ہے  یہ دو ادارے جو دوسرے تمام اداروں کی ماں کا درجہ رکھتے ہیں  'پارلیمنٹ اور کابینہ  ہیں 'اگر یہی خاموش ہوجائیں تو عوام کا احتجاج اپنی قدرو قیمت کھو بیٹھتا ہے۔ ان دونوں  اداروں کا گلا سب سے پہلے دبادیا گیا۔ کابینہ ربڑ کی مُہر بن کررہ گئی۔کئی کئی ماہ گزر جاتے تھے کہ میاں  صاحب کے دور میں وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہی نہیں ہوتا تھا ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ  کو وہ اس قابل ہی نہیں گردانتے تھے کہ اس میں آئیں 'اجلاس اٹینڈ کریں اور ارکان کے خیالات سے براہ راست استفادہ کریں ۔پنجاب میں  صورت حال اس سے بھی ابتر  ہے۔ جاتی امرا  کو وزیراعظم کے کیمپ آفس کا درجہ حاصل رہا  ۔ستر کروڑ چار دیواری پر لگ گیا۔ہزاروں  اہلکار وہاں تعینات ہیں تمام جملہ اخراجات بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ وزارت اعظمیٰ  گئی تو ان " خاندانی" ثروت مندوں نے جو دعویٰ  کرتے ہیں کہ ہم تو شروع ہی سے مالدار تھے  ایک اور خفیہ دروازہ کھول لیا ۔حکم صادر  ہوا کہ اب جاتی امرا کو وزیراعلٰی   پنجاب کا  دفتر قرار  دیا جائے احتجاج ہوا تو حکم کو ذرا تعطل میں ڈال دیا گیا۔بچے بچے کو اس حقیقت کا علم ہے کہ "خاندانی"امرا اتنی چھوٹی اور خفیف حرکتیں نہیں کرتے۔ان کے ہاتھ دینے والے ہوتے ہیں لینے والے نہیں ہوتے۔جس طرح لاہور  میں اپنی متعدد رہائش گاہیں یہ حضرات سرکاری خزانے سے پال پوس رہے ہیں اور جس طرح جاتی امرا کے  اخراجات  اپنی جیب سے ادا کرنے کے بجائے عوام کے ٹیکسوں  سے ادا کئے جارہے ہیں اس سے قوم کا بچہ بچہ جان گیاہے کہ یہ لوگ  خاندانی امیر ہرگز نہیں ۔ یہ طرزِ عمل نودولتیوں کا شعار ہوتا ہے۔جنہوں نے سب کچھ دیکھا ہو،ثروت مندی جن کے خاندانوں میں مدتوں اور زمانوں  سے راج کررہی ہو وہ قناعت پسند ہوتے ہیں ۔طارق  نعیم کاشعر یاد آرہا ہے۔

یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں

 خسروی'شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!

خاندانی ثروت مند  بیٹیوں نواسیوں کے نکاح  مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ  کے مقدس مقامات پر پڑھوائیں تو اس کا بار عوام پر نہیں ڈالتے'خود برداشت کرتے ہیں قومی ائیر لائن کے جہازوں کو  ذاتی اور  خاندانی مقاصد کے لیے بے دردی سے جس طرح استعمال کیا گیا' اس سے اصلیت کا بھی پتا چل گیا۔محمود غزنوی نے فردوسی کے ساتھ  کیا گیا وعدہ جب پامال کیا تو فردوسی نے کہا کہ  خاندانی لوگ اس  طرح نہیں کرتے۔ اس موقع پر اس کے کہے گئے اشعار  ایک باقاعدہ کلیہ کی صورت اختیار کرگئے ہیں ۔

جب ہم کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کا طرزِ حکومت شخصی اور قبائلی تھا'جمہوری نہیں تھا 'تو اس کا مطلب یہ  ہے کہ  وہ سارے فیصلے ذاتی پسند اور  ناپسند کے حوالے  سے کرتے تھے تازہ ترین نمونہ اس قبائلی اور شخصی طرزِ حکومت کا پی آئی اے کے سی ای او(چیف ایگزیکٹو آفیسر) کی تعیناتی ہے۔اس منصب کے لیے اسی کو تعینات کیا جاتا ہے جو ہوا بازی کی صنعت میں کم از کم پچیس سال کا تجربہ رکھتا ہو۔ہوا بازی کے مشیر (یا وزیر) نے  اپنے سٹاف  افسر کو اس عہدے کے لیے تجویز کیا ۔سٹاف افسر کا ہوا بازی کے شعبے سے کوئی تعلق نہ تھا۔نہ ہی ایک دن کا تجربہ اس میدان کا تھا۔اگر نواز شریف صاحب کا طرزِ حکومت جمہوری ہوتا تو وہ پوچھتے  یا خود دیکھتے کہ تعیناتی کے قانونی تقاضے کیا ہیں اور کیا تجویز  کیا ہوا  شخص  پیشہ ورانہ اہلیت رکھتا ہے۔ مگر چونکہ طرزِ حکومت قبائلی اور شخصی ہے' اس لیے وزیر کے کہنے پر سابق  وزیراعظم نے یہ تعیناتی منظور کرلی ۔گویا قومی ائیر لائن کی تباہی  میں ابھی کچھ کسر باقی تھی۔

اس غلط بخشی کے ضمن میں  ایک ظلم  اور بھی ہوا  ۔وزیر کے چہیتے سٹاف افسر کی تعیناتی کے احکام پی آئی اے کے ایچ آر کے شعبے نے جاری کرنے تھے  خبر یہ ہے کہ  اس شعبے  نے ایک جائز اعتراض  کیا کہ  شناختی کارڈ میںدی گٰئٰ تاریخ پیدائش میٹرک کی سند میں دی گئ تاریخ پیدائش سے مختلف ہے اعتراض کرنے والوں کو ملازمت سے برخواست کر دیا گیا !حالانکہ ان  کا اعتراض کرنا ان کی ڈیوٹی کا تقاضا تھا۔"سٹاف افسری" پاکستان میں ایک ایسی علت ثابت ہوئی ہے جس نے اداروں کی تباہی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔مثلایہی دیکھیے کہ فوج سے آیا ہوا صدر یا وزیر اعظم کا سٹاف افسر جو اے ڈی سی کہلاتا ہے،باقی تمام فوجیوں سے زیادہ "لائق"اور"ممتازو منفرد"ثابت ہوتا رہا ہے۔سول سروسز میں عساکر پاکستان کا باقاعدہ کوٹہ ہے اس کا ایک طریق کار ہے ۔مسلح افواج سے جو افسر سول سروسز میں آتے ہیں،انہیںایک پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے ۔مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیےکیا ہوتا رہا!

اسی طرح وزیراعظم کے "پرنسپل سیکرٹری " کے منصب کو ناانصافی اور ظلم کے لیےخوب خوب استعمال کیا گیا۔یوں لگتا ہے جو اہلکار وزیراعظم کا سٹاف افسر بنتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ لمبے ہاتھ مارنے کی کوشش کرتا ہے اور لوٹ مار میں زیادہ سے  زیادہ حصہ مارنے کے لیے کھیل کھیلتا ہے ۔ایک صاحب جو سٹاف افسر (پرنسپل سیکرٹری)تھے ریٹائرمنٹ پر گھر جاتے جاتے پانچ سال کے لیے وفاقی محتسب بن گئے ۔پھر ایک اور صاحب نے ایل ریگولیٹری اتھارٹی  کے عہدے پر شب خون مارا جو پروسیس پہلے سے چل رہا تھا اس میںان کا نام تھا نہ ذکر۔جن امیدواروں کے انٹرویو ہوئے تھے اور فائل میں جن کا مزکور تھا ،وہ سب بیک جنبش قلم منظر سے غئب ہو گئےاور حق "حقدار"کو مل گیا۔

تاریخ کو مزید کریدیے۔راولپنڈی،اسلام آباد،لاہور،کراچی کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران ،حکمرانوںسے متعارف ہو جاتے ہیں۔ائیر پورٹوں پراستقبال کرتے ہیںاور رخصت کرتے ہیں۔اگر سروے کیا جائے تو اس مضحکہ خیز حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ انہی اہلکاروں کی تعیناتیاں زیادہ تر بیرون ملک ہوتی رہیں۔پاکستان کے سفارتخانوں میں استقبال کرنے والے اور رخصت کرنے والے زیادہ ترتجارت اور زراعت کے "ماہرین "کے طورپر براجمان ہوتے رہے ۔"عمدہ ترین"مثال اس ناانصافی اور میرٹ کُشی کی وہ تعیناتی ہے جو ماڈل ٹاؤن 14 قتل کیس کے حوالے سے ایک اہلکار کی بطور "تجارتی سفیر"بیرون ملک کی گئی۔

قومیں انفراسٹرکچر سے ترقی نہیں کرتیں۔قانون پسندی سے ترقی کرتی ہیں۔اگر شاہراہوں کی تعمیر سے ملک ترقی یافتہ سمجھے جاتے تو آج سعودی عرب اور کویت جیسے ملک سوئٹزر لینڈ اور کینیڈا کے ہم سر گردانے جاتے۔ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں ملک کا سربراہ بھی قانون شکنی کا ارتکاب نہیں کرسکتا!

پس نوشت۔حضرت مولانا طارق جمیل نے ازراہ کرم رابطہ کر کے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے میا ں صاحب کو مشکلات کے حوالے سے وظیفہ نہیں بتایا ۔ ہاں ان کی علیل اہلیہ کے لئے انہوں نے دعائے صحت کی اور سالانہ عالمی اجتماع میں شرکت کی دعوت کی !اس کالم نگار نے مولانا کی خدمت میں عرض کیا کہ چونکہ کم و بیش سارے پرنٹ میڈیا میں وظیفہ بتانے کی خبر شائع ہوئی اس لئے مناسب ہے کہ ایسے مواقع پر مولانا کا کوئی ترجمان صورت حال کی وضاحت کر دیا کرے تا کہ ان کے معتقدین میں اضطراب نہ پھیلے۔بہر طور اس وضاحت کے لئے کالم نگار مولانا کا شکر گزار ہے۔

   


Friday, November 17, 2017

ہم علما کے پیروں کی خاک ہیں


رائے ونڈ میں  عالمی تبلیغی اجتماع کی آمد آمد تھی۔نو نومبر کو مولانا طارق جمیل  جاتی امرا  میں سابق  وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس تشریف لے گئے ۔میڈیا  کی خبروں کے مطابق  انہوں نے وہاں ڈیڑھ گھنٹہ قیام کیا۔اسی  اثناء میں انہوں نے  تین کام کیے۔ اول میاں صاحب کو اجتماع میں  حاضر ہونے کی دعوت دی ۔دوم'ان کی بیمار اہلیہ کی صحت کے لیے دعا کی۔سوم'میاں صاحب کو  جو مشکلات درپیش ہیں ۔ان کے حل کے لیے وظیفہ تجویز  کیا۔

 تبلیغی جماعت کے اکابر کا  خواص کے پاس خود چل کرجانا اور اجتماع  میں شرکت کی دعوت دینا ایک معمول کی کارروائی ہےمولانا طارق جمیل  مولانا فضل الرحمٰن  کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور  انہیں بھی شرکت کی دعوت دی۔

تاہم سوشل میڈیا میں جو ردِ عمل ظاہرہوا وہ ایک اعتبار سے منفی تھا۔عوام کی کثیر تعداد نے جو سوال اٹھایا وہ منطقی لحاظ سے ناروا نہ تھا ۔کیا کرپشن کے داغ اوراد وظائف سے دُھل جاتے ہیںَ

عوام کو معلوم ہے کہ مولانا طارق جمیل ایک باخبر انسان ہیں ۔اندرون ملک اور  بیرون ملک ہر جگہ تشریف لے جاتے ہیں ۔کرہء ارض ان کی جولا نگاہ ہے۔ہر ملک ،ہر زبان ،ہر نسل ہر شعبے ،ہر  پیشے کے لوگ ان سے ملاقات کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ میاں  صاحب کی بے پناہ دولت اور غضب کرپشن کی عجب کہانیوں سے ناآشنا ہوں ۔ انہیں یقیناً معلوم ہوگا  کہ جس نرم وگداز ریشمی شاہراہ پر ان کی پجارو سبک خرامی کے ساتھ جاتی امرا پہنچی وہ شاہراہ بیت المال کی رقم سے بنی۔ انہوں نے یقیناً  یہ خبر بھی پڑھی ہوگی جو تواتر سے چھپتی رہی کہ ساٹھ  کروڑ کے لگ بھگ حفاظتی حصار  ان کے محلات کے ارد گرد سرکاری خزانے کی"مد" سے کھینچا گیا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ مولانا اس طوفان سے بے خبر ہوں جو پانامہ کیس کے عنوان سے کئی ماہ میڈیا سے لے کر عوام کے ذہنوں تک چھایا رہا۔مولانا یقیناً یہ لطیفہ سن کر محظوظ ہوئے ہوں گے  کہ محترم میاں صاحب  نے جے آئی  ٹی کے سامنے اپنے خالو کو پہچاننے میں دو اڑھائی گھنٹے لگا دیے۔اس قسم کی طلسمی اطلاعات بھی  یقیناً ان تک پہنچی ہوں گی کہ فلیٹ فروخت پہلے کردیے گئے اور خریدے بعد میں  گئے۔ قطری شہزادے کی سحر انگیز ہوشربا  داستان ِ امیر حمزہ بھی  ان کی مبارک سماعتوں  تک یقیناً پہنچی ہوگی۔ جس طرح میاں صاحب کے عہدِ اقتدار میں  ان کی دختر نیک اختر 'حکومتی اختیارات بروئے کار لاتی رہیں 'اس کی اخلاقی شرعی اور قانونی حیثیت مولانا جیسے ذہین و فطین نابغہء  عصر  سے کیسے  پوشیدہ رہ سکتی ہے۔علالت کے دوران لندن آنے جانے کے لیے جس طرح قومی ائیر لائن کے جہازوں کو استعمال کیا گیا اور نواسی کے نکاح  کے لیے جس طرح قومی ائیر لائن کے جہازوں کی سمتیں  بدلی گئیں اور جس طرح نیویارک میں مسافر پریشان ہوئے وہ سب مولانا کی نگاہِ دور بیں  سے اوجھل نہ ہوگا ۔

مولانا ان اکابرین سے ہیں جو  ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ ہدایت کا چراغ ہیں  ۔خطاب فرماتے ہیں تو لگتا ہے الفاظ ان کے دہن مبارک سے نہیں 'جلسہ گاہ کے ارد گرد لگے ہوئے قمقموں میں سے باہر چَھن رہے ہیں ۔ سرورِ کائناتﷺ کا شجرہ ء نسب سناتے ہیں تو وجد طاری ہوجاتا ہے۔دعا کراتے ہیں تو دل کی گہرائیوں میں  تاثیر کے سوتے ابل پڑتے ہیں  ۔ایسے عالی قدر عالم بے بدل فاضل اجل سے یہ حقیقت کس طرح پوشیدہ  رہ سکتی ہے کہ قبولیت دعا کے لیے اکلِ حلال لازم ہے۔ اورادووظائف تسبیح و سجادہ  اکلِ حلال کی عدم موجودگی میں ایسے ہی ہیں جیسے ریت  پر پانی کی دھارا!ہماری تبلیغی جماعت کی مقدس کتاب"فضائل ِ اعمال" میں جو صبح شام رات دن  حلقہ ہائے تبلیغ میں  پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے اور گھروں  میں  خواتین اور  بچوں کو اہتمام اور التزام کے ساتھ  سنائی جاتی ہے ایک واقعہ  لکھا ہے کہ  بصرہ میں درویشوں  کا ایک طائفہ تھا جو مستجاب الدعوات تھا ۔عراق کا جو گورنر آتا'وہ اس کے حق میں بددعا کرتے 'وہ مرجاتا یا معزول کردیا جاتا۔حجاج گورنر بنا تو اس نے درویشوں  کے اس  گروہ کو گورنر ہاؤس مدعو  کیا اور طعام سے ان کی خاطر تواضع کی !کسی نے اس اقدام کی  وجہ پوچھی تو شاطر گورنر نے راز کی بات بتائی کہ گورنر ہاؤس کا مالِ حرام ان کے شکم میں  داخل کردیا ہے۔اب کہاں قبولیتِ دعا ؟چنانچہ میں ان کی بددعاؤں سے محفوظ ہوگیا ہوں ۔

اب اشکال یہ آن پڑا ہے کہ مولانا نے میاں صاحب کو تلقین کیوں نہ کی کہ حرام(یا مشکوک) مال کی وجہ سے دعائیں قبول  نہیں ہوتیں ۔انہوں نے  اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ نصیحت کیوں نہ کی کہ قوم کا مال قوم کے خزانے میں  واپس ڈالو اور ایک ایک پائی کا حساب دو۔

اس اشکال  کی کوئی اور توضیح اور توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی  سوائے اس کے کہ مولانا کسی کا بھی دل نہیں  دکھاتے اور پھر سابق وزیراعظم کا دل تو کسی صورت دکھانا پسند نہیں کیا ہوگا کہ آخر کار وہ ہمارے حکمرانِ اعلیٰ رہے۔

 تو پھر کیا وہ تابعین اور علماء کرام جو حجاج جیسے سفاک حکمرانو ں کے سامنے غلط کو غلط  کہتے تھے اور حکمرانوں  کو صاف صاف ٹوکتے تھے ۔غلط تھے؟وہ حکمرانوں  کو دو ٹوک الفاظ میں متنبہ کرتے تھے کہ تم نے فلاں کام  غلط کیا ہے 'اس سے توبہ کرو۔بیت المال  میں خیانت نہ کرو۔اللہ کےسامنے جواب دہی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو۔

یقیناً ان علما کرام نے  بادشاہوں  کا دل دکھایا۔مولانا طارق جمیل ان کی نسبت زیادہ بلند پایہ ہیں ۔وہ میاں صاحب کو مال حرام سے بچنے کا کہہ کر ان کے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔ رہی یہ مشہور بات کہ  جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہت بڑا جہاد ہے۔تو واضح ہو کہ مولانا کا مشن تبلیغ ہے جہاد نہیں۔اگر کلمہ حق کہہ کر  حکمرانوں ،عمائدین ،امرا اور طبقہ ء بالا کے ارکان کا دل دکھایا جائے تو تبلیغ کے ثمرات کیسے حاصل ہوسکیں گے؟یہی تو غالب نے سمجھایا تھا۔

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر

 کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی!

رہا"فضائل ِ اعمال " میں لکھا ہوا وہ واقعہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے جس میں گورنر ہاؤس کے مال حرام کا درویشوں کے پاک شکم میں داخل ہونے کاذکر ہے'تو  اس کا انطباق  کوئی ناہنجار  اس بات پر ہرگز ہرگز نہ کرے کہ  مولانا جاتی امرا کے محلات میں تشریف لے گئے اور وہاں ڈیڑھ گھنٹہ گزارا تو یقیناً وہاں کے دستر خوان سے اپنے شکم مبارک میں بھی کچھ ڈالا ہوگا ۔مولانا پہلی بار کسی حکمران یا سابق حکمران کے محل میں تھوڑی ہی گئے ہیں۔شاہان قطر کے محلات میں بھی قیام فرماتے رہے ہیں اور مبینہ طور پر پنجاب کے صحت افزا مقامات پر واقع سرکاری رہائش گاہوں میں بھی(ہوسکتا ہے موخر الذکر روایت درست نہ ہو)اصل بات یہ ہے کہ ہماری تبلیغی جماعت میں دو طبقات ہیں ۔عوام اور خواص۔تبلیغی اجتماعات میں بھی خواص کی نشست  گاہ الگ اور ممتاز ہوتی ہے۔تو یہ واقعات جو ہماری تبلیغی کتابوں میں لکھے جاتے ہیں 'یہ عوام کے لیے ہوتے ہیں  خواص ان سے مبرا اور مستثنیٰ ہوتے ہیں۔عوام کو چاہیے کہ حجاج کا گورنر ہاؤس ہو یاجاتی امرا کے محلات یا شاہانِ قطر کے کاخ و قصر ایسے تمام مقامات پر کچھ کھانے پینے سے اجتناب کریں ۔خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ کوئی مشکوک مال شِکم میں اتر جائے اور سب کیے کرائے پر پانی پِھر جائے،دعائیں قبولیت سے محروم ہوجائیں ۔

یہ گنہگار کالم نگار حضرت مولانا کا ایک ادنیٰ  عقیدت مند ہے ۔امید ہے کہ اس کی توجیہہ کے بعد سوشل میڈیا پر اٹھنے والا طوفان تھم جائے گا۔بجائے یہ کہ مولانا نے مالِ حرام سے منع کیوں نہ فرمایا 'اس امر کی تعریف کی جانی چاہیے کہ انہوں نے دُکھی نواز شریف کا دل مزید نہیں دُکھایا۔

علماہمارا دینی سرمایہ ہیں  ۔ہمارے لیے مقدس اور محترم ہیں ۔خطائی بزرگان گرفتن خطاست کے مصداق  ان پر کسی  قسم کی تنقید یا گرفت ناجائز ہے۔وہ جو کچھ بھی کریں یا کہیں 'اُسے دین کی کسوٹی پر پرکھنا ہم  عامیوں کے لیے مناسب ہرگز نہیں !لازم  ہے کہ ہم علماء کے ہر فرمان پر بلا چون و چرا سرَ تسلیم خم کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان کا موازنہ اُن علماء کرام سے کربیٹھیں جو حکمرانوں  کو ان کی غلطیوں  پر ٹوک ٹوک کر ان کا جینا حرام کردیتے  تھے'جو قید و  بند کی صعوبتیں  برداشت کرتے تھے اور جو اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر جان بھی قربان کردیتے تھے۔ایسا موازنہ ہرگز جائز نہیں ۔بس اس زمانے کے جید  اور مقدس علماء کرام جو کچھ فرماتے ہیں ،اس پر آمنا و صدقنا کہتے جائیے۔                   


Wednesday, November 15, 2017

بیواؤں کی آہ!


عمر پچھتر اور اسی کے درمیان ہوگی۔چہرے کے نقوش اب بھی لطافت کا پتہ دے رہے تھے۔لباس صاف پرانا لگ رہا تھا مگر اجلا۔پاؤں میں ربڑ کے سیاہ جوتے۔ہاتھ میں لاٹھی۔گاڑی سے نکل کر دکان کی طرف جارہا تھا کہ اس نے روکا۔


"یہاں کہیں"مرکزی قومی بچت" کا دفتر نیا نیا شفٹ ہوا ہے۔مجھے مل نہیں رہا۔"

میں نے احترام سے جواب دیا ۔"جی مجھے نہیں معلوم 'پوچھ کر بتاتا ہوں۔"

دکاندار سن رہا تھا۔اس نے آگے کی طرف  اشارہ کرکے بتایا کہ  چھ سات دکانیں چھوڑ کر دائیں طرف ہے۔عمر رسیدہ خاتون مڑی۔پتہ نہیں کیا ہوا'لاٹھی پھسلی یا پاؤں ٹیڑھا پڑا 'گر پڑی۔وہ تو حسنِ اتفاق تھا کہ  نیچے کچی زمین  تھی ورنہ اس عمر میں فریکچر ہونے کے لیے بہانہ چاہیے۔دکاندار اور میں دونوں آگے بڑھے اور اٹھایا۔خاتون کا سانس بھی یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ کچھ اکھڑ گیا ہو۔دکاندار اندر سے کرسی لے آیا۔بٹھایا پھر پانی کا گلاس  پیش کیا۔اٹھنے لگی تو میں نے کہا آئیے'میں آپ کو مرکزی قومی بچت تک چھوڑ آتا ہوں ۔

 اس نے اپنے بڑھاپے اور اکلاپے کی باتیں شروع کردیں ۔یوں کہ  قومی بچت کے دفتر میں داخل ہوئے تو وہ مسلسل بول رہی تھی۔میں نے مناسب سمجھا کہ کاؤنٹر پر کھڑا رکھنے کے بجائے معمر خاتون کو بٹھا دینا چاہیے۔میں اسے منیجر کے دفتر میں لے گیا۔خوش اخلاق منیجر اٹھ کر ملا۔میں نے بتایا کہ خاتون گر پڑیں اور میں  فقط چھوڑنے آیا ہوں۔ ان کا کام جلد ہوجائے تو بہتر۔منیجر سراپا مسکراہٹ تھا۔کہنے لگا آپ بھی تشریف رکھیے۔میں ان کا کام ابھی کراتا ہوں ۔

اس نے چیک بک خاتون سے لی ۔خود ہی بھری ۔پھر دستخط کرا کر خود کاؤنٹر  پر گیا اور پانچ منٹ بعد آکر  رقم خاتون کے ہاتھ  میں پکڑائی۔خاتون نے رقم گنی۔اب وہ خود کلامی کررہی تھی۔"تیئس ہزار چار سو۔"اس نے رقم دوبارہ گنی ایک بار  پھر آہستہ سے"تیئس ہزار چار سو۔"کہا پھر بیگ کی زپ کھول کر رقم اس میں رکھی۔اس کی خود کلامی جاری تھی۔

"خدا اس کا بیڑہ غرق کرے'ذلیل و رسوا ہو' اللہ کرے کبھی نہ پھلے پھولے۔"

پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔میں کچھ کہنے لگا تھا کہ منیجر نے بیک وقت آنکھوں اور ہاتھ کے اشارے سے منع کیا

میں نے خاتون سے پوچھا۔"آپ کو چھوڑ آؤں "؟

کہنے لگی'نہیں بھائی !میں نزدیک ہی رہتی ہوں  'چلی جاؤں گی۔"

وہ لاٹھی ٹیکتی نکل گئی' میں نے منیجر سے پوچھا'یہ بدعائیں کسے دے رہی تھی؟اس نے ایک آہ بھری۔

"اسحاق ڈار صاحب کو"

پھر وہ خود ہی خاتون کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنے لگا۔خاتون بیوہ تھی۔بچے اپنے اپنے گھروں کے ہوگئے۔ مزاج ایسا ہے کہ کسی بچے سے کچھ لینے کو تیار نہیں ۔گھر کا بالائی حصہ کرائے پر اٹھارکھا ہے۔کچھ وہاں سے مل جاتا ہے۔میاں  نے انتقال سے پہلے اس کے نام  تیس لاکھ روپے مرکز قومی بچت میں "بہبود فنڈ" کے حوالے سے جمع کرا دئیے تھے۔"بہبود فنڈ"صرف ان مردوں اور عورتوں کے نام کھل سکتاہے جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو۔2013ء میں جب میاں نواز شریف  کی حکومت آئی تو  بہبود فنڈ میں جمع کرائے گئے ایک لاکھ پر ایک ہزار ساٹھ روپے منافع ملتا تھا اس خاتون کو تیس لاکھ پر اکتیس ہزار آٹھ سو روپے ماہانہ مل جاتے تھے۔یوں اس کی گزر بسر ہو رہی تھی۔ اسحاق ڈار صاحب وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے یہ منافع گھٹانا شروع کردیا ۔ان بوڑھے لوگوں کی جمع شدہ  رقم  اربوں میں تھی۔حکومت اس خطیر  رقم سے خوب فائدے اٹھا رہی تھی۔وزیراعظم 'صدر اور کابینہ کے ارکان  کے اللے تللے اس کے علاوہ تھے۔ مگر بچت کرنے والوں کو  اسحاق ڈار  صاحب نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ایک ہزار ساٹھ سے کم کرکے نو سو اور کچھ کردیا۔ پھر ہوتے ہوئے یہ رقم  اب صرف سات سو اسی روپے رہ گئی ہے۔یعنی ایک لاکھ پر دوسو اسی روپے کم ہوئی۔اب اس ضعیفہ  کو اکتیس ہزار آٹھ سو کے بجائے  تیئس ہزار چار سو روپے ملتے ہیں ۔ یہ ہر ماہ آتی ہے۔رقم گنتی ہے۔2013ء سے پہلے ملنے والی رقم سے اس کا تقابل کرتی ہےاور پابندی کے ساتھ اسحاق ڈار صاحب کو بدعائیں دیتی ہے۔اب تو اس کی بدعائیں مجھے بھی یاد ہوگئی ہیں ۔

"خدا اس کا بیڑہ غرق کرے'ذلیل و رسوا ہو'اللہ کرے کبھی نہ پھلے پھولے۔"

میرادل لرزنے لگا۔اسحاق ڈار صاحب کی وہ تصویر  آنکھوں کے سامنے  پھرنے لگی جو حال ہی میں  وائرل ہوئی ہے۔ لندن کے کسی ہسپتال  میں پڑے ہیں ۔تو یہ کہیں بیواؤں کی آہ تو نہیں جو انہیں لگی ہے؟صرف ایک ہی بیوہ تو بددعا  نہیں دے رہی ہوگی!ستر ستر اسی اسی سال کے مرد اور عورتیں  'جو ملازمت کر سکتے ہیں نہ کاروبار ،اپنی زندگی بھر کی کمائی "قومی بچت " والوں  کے سپرد کردیتے ہیں ۔اس امید پر کہ اس عمر میں  ہر ماہ کچھ نہ کچھ ملتا رہے گا۔"قومی بچت" کے ملازمین  ،اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتاتے ہیں  کہ ان بیواؤں  اور بوڑھوں  کے جمع شدہ بتیس ارب روپے بجٹ میں "آمدنی "کے طور  پر دکھائے گئے ہیں ۔حالانکہ یہ تو ایک لحاظ سے قرض ہے اسے اثاثوں  میں نہیں شمار کیا جاسکتا۔

اسحاق ڈار صاحب کے اپنے اثاثے اس عرصہ میں مبینہ طور پر نوے لاکھ سے نوے کروڑ ہوگئے۔ دبئی میں فلک بوس ٹاور کھڑے ہیں ۔فرزند ارجمند بیرون ملک ہیں ۔کروڑوں  کے تحائف اور "قرضے"باپ بیٹے کے درمیان"محبت" کے رشتوں  کو مضبوط سے مضبوط تر کررہے ہیں ۔اسحاق ڈار صاحب عملاً وزیراعظم تھے۔ اصل وزیراعظم جناب نواز شریف کو کسی اجلاس  سے،کسی فائل سے ،کسی دماغی کام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ان کی طبع ِ نازک کسی قسم کا بوجھ برداشت کرنے سے عاری تھی۔ ای سی سی کے کسی اجلاس  کی صدارت وزیراعظم نے نہ کی۔سب کچھ اسحاق ڈار صاحب کے سپرد تھا۔ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرسکتے تھے ۔ظفر حجازی ہوں یا انٹر نیشنل بنک کے سعید احمد،سب ان کے اشارہ ابرو پر رقص کرتے تھے۔ بیسیوں  چھوڑ سینکڑوں کمیٹیوں کے ڈار صاحب چیئرمین تھے۔ بولتے تو "ہمچو ما دیگری نیست"کا نمونہ ہوتے۔باڈی لینگوئج ایسی تھی جیسے روئے زمین پر ان کا ہمسر کوئی نہ ہو۔وزراء کو بھی ماتحت ہی گردانتے ۔ان کے پاس اتنا وقت ہی نہ تھا کہ بوڑھوں ،بیواؤں ،ضعیفوں،فقیروں کے بارے  میں سوچتے۔اٹھتے بیٹھتے ایک ہی فکر تھی کہ ٹیکس زیادہ سے زیادہ لگائیں۔خزانے میں ایک طرف سے پیسہ آتا رہے،دوسری طرف سے نکلتارہے اور نکل کر ان حوضوں ،تالابوں میں جاتا رہے جو ان جیسے امراء  کے ہیں ۔چنانچہ انہوں نے بیواؤں اور بوڑھوں کو نچوڑا۔خوب،پوری قوت سے نچوڑا،زندگی بھر کی بچت ان سے لے لی اور بدلے میں،ہر کچھ ماہ بعد،ان کے منافع کو قینچی سے کاٹتے رہےیہاں تک کہ وہ چیخ اٹھے۔

پھر بیواؤں  کی آہیں آسمان تک پہنچیں ۔اسحاق ڈار صاحب بلند و  بالا تخت سے نیچے گرےاور تاحال مسلسل نیچے لڑھکتے جارہے ہیں ۔کاغذ پر بدستور وزیر خزانہ ہیں مگر ملک کے اندر پاؤں دھرنے سے ڈر رہے ہیں ۔ کمیٹیوں کی صدارت خواب و خیال ہوئی۔ای سی سی کی چودھراہٹ چھن گئی۔کل مشترکہ مفادات کونسل رکنیت سے بھی فارغ کردئیے گئے۔

مگر اصل سزا یہ نہیں ،اصل سزا جو ڈار صاحب کو بیواؤں کی آہ لگنے سے ملی ہے وہ بدنامی ،وہ تضحیک،وہ جگ ہنسائی اور وہ بےحرمتی ہے جو ان کے ارد گرد دیوانہ وار رقص کررہی ہے۔مالی کرپشن کا ٹیکہ ان کے ماتھے پر لگا ہے۔ان کی حیثیت ایک مجرم کی ہے۔عدالت سے بچتے پھر رہے ہیں ۔بیواؤں اور بے کس بوڑھوں  کی آہ کا اثر دیکھیے کہ وزیراعظم کے بعد ملک کا  طاقت ور ترین فرد آج ایک تہمتِ بے جا کے  سوا کچھ بھی نہیں !دیار ِ غیر کے ایک ہسپتال میں پڑا ہے۔اگر بیماری واقعی  وجود رکھتی ہے اور علاج ہی کے لیے  بستر پر پڑے ہیں تو حالت قابلِ رحم ہے اور اگر  بیماری  عدالتوں سےبچنے کا محض بہانہ ہے تو حالت قابلِ رحم ہونے کے علاوہ عبرتناک بھی ہے۔ سو ہے کوئی جو  ڈار صاحب سے عبرت پکڑے؟عبرت پکڑو!اے آنکھوں والو!ڈار صاحب سے عبرت پکڑو۔

نوے کروڑ ہیں یا نوے ارب،یا دبئی کے سر بفلک ٹاور، ڈار صاحب کو اس بدنامی ،اس جگ ہنسائی ،اس تضحیک سے کوئی نہیں بچا سکتا جو ان کے ماتھے پر کُھدچکی ہے،جو سائے کی صورت ان کے ساتھ لگی ہے۔چلیے، عزت کا خیال نہ سہی،کہ ان "بڑے "لوگوں  کی عزت بھی وہ عزت نہیں ہوتی جس کا معنی لغت میں لکھا ہے،عزت پر لعنت بھیجئے،مگر بے سکونی، ذہنی دباؤ،مسلسل پریشانی،ٹینشن تو وہ حقیقت ہے جس سے آنکھ نہیں چرائی جاسکتی۔ کاش ڈار صاحب بیواؤں کی آہوں کو دعوت نہ دیتے۔     


Monday, November 13, 2017

کھڑکیاں سمندر کی طرف کھلتی ہیں


میں تو ایک جھیل ہوں ۔جاڑا آتا ہے تو کونجیں اترتی ہیں ،دور دور سے آئی ہوئی،سائبیریاسے،صحرائے گوبھی کے اس پار سے برف سے، مستقل ڈھکے پہاڑوں سے،آکر میرے کناروں پر بیٹھتی ہیں ، باتیں کرتی ہیں ۔میرے ترسے ہوئے نیلے پانیوں کو اپنی  ٹھنڈی چونچوں  سے بوسے دیتی ہیں ، پیاس بجھاتی ہیں۔پھر  رُت بدلتی ہے۔ وہ ڈاروں کی صورت اڑتی ہوئی واپسی کا راستہ لیتی ہیں ۔ میرے پانی، میرے کنارے انہیں جاتے ہوئے حسرت سے دیکھتے ہیں ،مگر روک نہیں پاتے۔بس پوچھتے ہیں ۔کیا تم سائبیریا واپس جا کر ہمیں یاد کرو گی؟"تم اگلےسرما ضرور آنا ہم یہیں تمھارا انتظار کریں گے"

میں تو ایک باغ ہوں اپنے فرش کو اس سبزے سے آراستہ کرتا ہوں جو مخمل  کی طرح ہے۔ روش روش  پھول کھلاتا ہوں  کنج کنج آراستہ کرتا ہوں ۔فوارے چلاتا ہوں ۔نہر کا پانی باغ کے راستوں سے گزارتا ہوں ۔پانی میں رنگین مچھلیاں  پالتا ہوں پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں  کہ نرم خنک ہوا چلے۔ٹہنیاں جھومیں  ۔پھول رقص کریں یہ سب کس لیے؟ان بچوں کے لیے جو دن چڑھے باغ میں آتے ہیں  ۔ان پرندو ں کے لیے جو مختلف  رنگوں کے ہیں اور  خوبصورت ہیں  اور میں سمجھتا ہوں  میں زمین کا نہیں آسمان کا ٹکڑا ہوں ۔ میں باغ ہوں مگرباغ  بہشت ہوں ۔ بچے میرے سبز مخمل پر دوڑتے ہیں تو میرے سینے میں توانائی بھر جاتی ہے۔

رنگین خوبصورت پرندے میرے درختوں کی ٹہنیوں  پر بیٹھ کر گیت گاتے ہیں  تو ابر پاروں کے اس پار  سے فرشتے اترتے ہیں  اور ان پرندوں اور ان بچوں کی حفاظت کرتے ہیں ،دن بھر چہکار اور مہکار رہتی ہے۔پرندے اور بچے،بچے اور پرندے،آنکھ مچولیاں کھیلتے ہیں پھول پودے درخت سبزہ اور پانی تالیاں بجاتے ہیں  !مگر آہ !جب شام ہونے لگتی ہے سب کوچ کرنے لگتے ہیں !پرندے اڑ جاتے ہیں بچے روشوں کو اداس ،پانی کو خاموش،پھولوں کو منہ بسورتا،پودوں کو دم بخود اور درختوں کو مغموم چھوڑ کر چلتے بنتے ہیں ۔باغ پر ویرانی چھاجاتی ہے۔اجاڑپن ہر شئےکو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔پھر رات پڑتی ہےاندھیری،سرد،بے مہررات! لمبی رات!باغ رات تنہا گزارتا ہےان بچوں اور پھولوں کی یادیں جو دن بھر اس کے سینے پر کھیلتے بھاگتے گاتے اور پھدکتے رہے۔

میں تو ایک پارک ہوں ۔دن بھر لوگوں سے بھرا رہتا ہوں ۔بیٹھتے ہیں دھوپ کھاتے ہیں جب یخ زرد شام چھانے لگتی ہے توسب گھروں کو چل دیتے ہیں پھر رات بھر برف باری سے میں تنہا نمٹتا ہوں ۔

میرا حال تو میری دادی کا سا ہے۔گرمیوں کی چھٹیاں ہم سب ہمیشہ گاؤں میں ان کے ساتھ گزارتے تھے۔کوئی کہاں سے آتا تھا،کوئی کہاں سے،اپنے اپنے ٹھکانوں ،قصبوں اور شہروں سے!سب ایک گھر میں جمع ہوتے تھے دو اڑھائی ماہ مل کر رہتے تھے ۔دن ڈھلتے ہی صحن میں جھاڑو دیا جاتا تھا۔پھر پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔گرد بیٹھتی تھی سوندھی سوندھی خوشبو سارےمیں پھیل جاتی تھی۔پھر چارپائیاں بچھتی تھیں۔ان پر سفید چھپے والی چادریں بچھائی جاتی تھی - تکیے  رکھے جاتے تھے۔رات کو چہل قدمی کے لیے سب باہر جاتے تھے۔صبح نو بجے صحنوں میں تنور سلگا دیے جاتے تھے۔گرم گرم روٹیوں  پر،انگلیوں کےساتھ،دادی گڑھے ڈالتی تھیں پھر مکھن کے بڑے بڑے پیڑے ان روٹیوں کے سینوں پر پگھل کر،ان گڑھوں  میں رچ بس جاتے تھے۔ ساتھ شکر ہوتی تھی اور دودھ جیسی میٹھی لسی!

ہم سب بچے باہر، اپنے کھیتوں میں جاکر بیلوں سے خود خربوزے توڑتے تھے۔موٹھ اور مونگ کی ادھ پکی پھلیاں کھانے کا اپنا مزہ تھا! خاندان کی خواتین سفر سے پہلے گھوڑیوں پر بیٹھتی تھیں تو گلی میں سے مردوں کا گزرنا روک دیا جاتا تھا۔

مگر یہ ستر اسی  دن اس قدر تیز رفتاری سے گزرتے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔پھر وہ دن آتا تھا جب سب نے واپس جانا ہوتا تھا۔ اس د ن دادی صبح سے بولنا بند کردیتی  تھیں  بس خاموشی سے  بچوں کے  جانے کی تیاری کرتی رہتی تھیں سامان بندھ جاتا اٹیچی کیس ،صندوق تیار کئے جاتے بیگوں کی زپیں چلنے اور بند ہونے کی آوازیں آتیں ، پھر سب رخصت ہوتے تو دادی دروازے کے سامنے کھڑی ہوجاتیں  ۔جب تک جانے والے نظر آتے کھڑی رہتیں ۔پھر وہ سب سامنے مکانوں کی اوٹ سے ادھر  ہوتے تو دادی  پلٹ کر گھر کے اندر آتیں۔ اس قطرے کو جو رخساروں پر بہہ رہا ہوتا انگلی سے صاف کرتیں پھر خالی صحن اور بھائیں بھائیں  کرتے کمروں کو دیکھ کر ،صحن کے ایک طرف بیٹھ جاتیں۔

میرا حال بھی وہی ہے ہاں ، زمانے کی گردش نے ہجر اور وصال کے تلازمے تبدیل کردئیے ہیں ۔ پہلے مختلف شہروں اور قصبوں سے آتے تھے اب بچے مختلف ملکوں سے آتے ہیں ۔ اب کھیتوں  کھلیانوں  میں نہیں ،تعطیلات کے دوران پارکوں  کلبوں بازاروں اورمارکیٹوں  میں جاتے ہیں اب گھوڑیاں اور اونٹ نہیں ،جہازوں کے پیٹ انہیں اپنے اندر چھپا کر لے جاتے ہیں اور دور دیسوں میں جاکر اگل دیتے ہیں۔

ہجر اور وصال کے تلازمے بدلے مگر کرب اور درد کے اشاریے وہی ہیں  ۔صحن اسی طرح ویران ہوتے ہیں۔کمرے اسی طرح بھائیں بھائیں کرتے ہیں  ۔جو کھلونے ،چھوٹے چھوٹے جوتے اور ننھی منی قمیضیں  یا پتلونیں رہ جاتی ہیں  ۔وہ اُسی طرح رلاتی ہیں  ۔آنسو اب بھی رخساروں پر ڈھلکتے ہیں مگر ہوائی اڈوں پر! گھر میں  مُڑتی ہوئی سیڑھی اب بھی آہیں بھرتی ہے ۔دروازے اب بھی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو یاد کرکے خاموش سسکیاں بھرتے ہیں  ۔گھوڑے ہوں یا ڈاچیاں  ،جہاز ہوں  یا کشتیاں  یا ہوائی اڈے ،درد کے سامان میں کمی نہیں آئی۔ انسان کے اندر کو کسی زمانے کسی ایجاد، کسی ترقی نے تبدیل نہیں کیا ۔آنسو روکنے کے لیے سائنس کچھ نہیں کرسکی ۔اب چند گھنٹوں  میں ویرانے سبزہ زار بنا دیے جاتے ہیں  ۔مگر سلگتے خالی  ویران سینوں کو آباد کرنے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوا ۔پہلے رخصت کرنے والے بندرگاہوں  پر روتے تھے پھر ریلوے اسٹیشنوں  پر۔ اب ہوائی اڈوں پر روتے،سسکتےاور بلکتے ہیں !جدائی ایک مستقل  قدر ہے ۔کوئی الجبرا،کوئی ریاضی ،کوئی فزکس اس قدر کو گھٹا نہیں سکی ۔راکٹ مریخ پر پہنچ جائیں  مگر ناصر کاظمی کا فرا ق کا گیت سدا ہرا بھرا رہے گا۔

؎پھر وہی گھر وہی شام کا تارا

 پھر وہی رات وہی سپنا تھا

 یوں گزرا وہ ایک مہینہ

جیسے ایک ہی پل گزرا تھا

 صبح کی چائے سے پہلے اس دن

 تو نے رختِ سفر باندھا تھا

 اب نہ وہ گھر نہ وہ رات کا تارا

اب نہ وہ  رات نہ وہ سپنا تھا

 آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی

 کل جہاں خوشبو کاپھیرا تھا

پچھلی شب کی تیز ہوا میں

کورا کاغذ بول رہا تھا!

پہلے حویلیاں  فراق کے نوحے پڑھتی تھیں  ۔اصطبلوں میں گھوڑے آنسو بہاتے تھے ۔اب پورچوں میں گاڑیاں ماتم کرتی ہیں ۔بیڈ روم  خالی ہوکر صدائیں  دیتے ہیں!انسان کے باہر سب کچھ بدل گیا۔اندر کچھ نہیں بدلے گا۔جب تک دل خون کا ٹکرا ہے۔ اس میں سے درد کے سوتے بہتے رہیں گے۔ جب تک آنسو بنتے رہیں گے ،آنکھوں  سے نکلتے اور رخساروں  پر لڑھکتے رہیں گے ۔بشیر بدر نے کہا تھا

؎گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک  


خون میں آگ بن کر اتر جائے گی یہ مکان صبح تک راکھ ہوجائے گا

اب تو جو گئے ہیں  انہیں پیچھے چھوڑے ہوئے گرم کپڑوں کے صندوقوں  کی فکر ہے نہ ضرورت!وہاں تو ان لباسوں کی ہی ضرورت نہیں !ہوائی جہاز  ایسا عفریت ہے جس نے ہجرتوں کے در کھول تو دیے ،بند کرنا اس کے بس کی بات نہیں!ہجرت ایسا عمل ہے جس کا ایک سرا نظر آتا ہے دوسرا کسی کو نہیں دکھائی دیتا۔ہجرت کرنے والی نسلوں کا اَن دیکھا نامعلوم مستقبل کسے نظر آسکتا ہے!ایک نسل ان رابطوں کو قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے جدوجہد کرتے کرتے ٹھکانے لگ جاتی ہے۔دوسری نسل میں یہ تعلق کمزور ہونے لگتا ہےاس کے بعد کوئی گارنٹی ہے نہ پیش گوئی! پھر زمانہ جو چاہے کرے!پھر وقت اپنی رو میں جسے جدھر چاہے لے جائے!

؎ نے باگ ہاتھ ہر ہے نہ پا ہے رکاب میں

ہجرتیں جو بستیوں قریوں ڈھوکوں گوٹھوں سے شروع ہوئی تھیں ،نزدیک کے قصبوں اور شہروں تک لائیں  ۔پھر سمندر پار دوسرے ملکوں میں لے گئیں۔

پہلے زندگیاں  اس امید میں ختم ہوتی تھیں کہ گاؤں واپس جائیں گے۔اپنے کیکر اور اپنے شیشم کے نیچے بیٹھ بیٹھ کر،اپنے رہٹ کا پانی پئیں گے،کوئی گاؤں واپس نہ گیا۔شیشم،کیکر اور رہٹ انتظار کرتے رہے جو شہر میں آیا،وہیں کا ہوگیااب عمریں اس سراب میں کٹتی ہیں کہ سمندروں کو عبور کرکے واپس وطن جائیں گے۔مگر کوئی واپس نہیں آتا۔آتے بھی ہیں تو جانے کے لیے۔

سمندروں  کے کنارے خواب گاہیں بنی ہوئی ہیں ۔ان کی کھڑکیاں صرف اور صرف پانیوں کی طرف کھلتی ہیں ۔پانیوں کی طرف!سفینوں اور جہازوں کی طرف!کوئی کھڑکی واپسی کی طرف نہیں کھلتی!       


Friday, November 10, 2017

دو قومی نظریے پر کلیدی خطبہ گاندھی جی دیں گے


ہمارے دوست معروف دانشور  ،جناب خورشید ندیم تحریر میں کم خواب و پرنیاں جیسے الفاظ  استعمال کرتے ہیں ،گفتگو میں بھی نرم ہیں اور بعض اوقات امیدیں قائم کرنے میں بھی ضرورت سے زیادہ فیاض۔

دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ۔۔

"تدریجاً" یہ ادارہ ایک جدید  مدرسہ بنتا چلا گیا۔ زیادہ سے زیادہ مخصوص مذہبی  تعبیرات کا تبلیغی مرکزیا ایک مذہبی  سیاسی جماعت کے وابستگان کے لیے روزگار کا وسیلہ۔ علمی کم  مائیگی کی ایک وجہ  یہ رہی کہ یہاں علمی تحقیق کے لیے حوصلہ افزا فضا میسر نہ ہوسکی، ادارہ تحقیق  اسلامی کو  یونیورسٹی سے وابستہ کردیا گیا۔مگر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذکر پر پابندی  رہی،جن کی علمی وجاہت کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں  اب یونیورسٹی نے سر سید احمد خان کو دو روزہ کانفرنس کا موضوع بنایا  تو میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا"

جس یونیورسٹی کو خورشید  ندیم صاحب جدید مدرسہ کہہ رہے ہیں ،وہ مدرسہ تو ہوسکتا ہے، جدید ہرگز نہیں ۔کئی دارالعلوم اکٹھے کئے جائیں تو  تنگ نظری  اور مخصوص مذہبی تعبیرات میں اس "یونیورسٹی" کی گرد کو نہ پہنچ سکیں ،سرسید کانفرنس کے انعقاد پر خوشگوار حیرت  خورشید ندیم صاحب کو نہ جانے کیسے ہوئی؟

اگر قائداعظم پر سیمینار ہو اور کلیدی خبطہ  مولانا حسین احمد مدنی  یا سردار ولبھ بھائی پٹیل سے دلوایا جائے تو حیرت کیسی؟

"یونیورسٹی" کی نیت صاف ہوتی تو سرسید کے خلاف روایتی ملائیت کو یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ ان دانشوروں کو بھی مدعو کرتی جو سرسید کو گردن زنی نہیں ،محسن سمجھتے ہیں۔

چلیں جاوید  غامدی یا خورشید ندیم کو نہ بلاتے کہ یہ عامی ہیں ۔ بیچارے اردو میں پی ایچ ڈی ہیں ،نہ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں ، مگر ڈاکٹر مہدی حسن کو بلا لیتے ۔اگر ڈاکٹر مہدی حسن کو تنظیم اسلامی والے اپنی تقریب میں بلا سکتے ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب نے ثابت کیا تھا کہ ہر پیغمبرپر"روشن خیالی" کا الزام لگا تو "یونیورسٹی" کیوں نہیں بلاسکتی۔

ڈاکٹر ہود بھائی کو بلا لیتے پروفیسر  فتح محمد ملک تو اسلام آباد میں موجود تھے۔

خدا کے بندو! سرسید کے ناقدین ہی کو جمع کرنا تھا تو سجاد میر کو بلا لیتے۔ ڈھنگ سے بات کرتے ہیں ،گفتگو کا فن جانتے ہیں ۔ دلائل دیتے ہیں ،اور سنتے ہیں ۔ مگر ان میں سقم یقیناً یہ نظر آیا ہوگا کہ نہ ملا ہیں نہ  پیر۔

یہاں آنکھوں دیکھا،بلکہ بیتا واقعہ بیان کرنا اس نکتے کی وضاحت کرے گا کہ اس یونیورسٹی نما  دارالعلوم میں کس مائنڈ  سیٹ کے پروفیسرز اکٹھے کئےگئے ہیں ۔

غالباً دو سال پہلے کی بات ہے، پاکستان اکادمی ادبیات میں الطاف حسین حالی کے  حوالے سے ایک تقریب ہوئی۔ ایک خاتون نے اوراق خوانی کی،تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ بکسر کی شکست سے لے کر ،ٹیپو سلطان کی شہادت تک اور  1857 کی پسپائی سے لے کر جلیانوالہ باغ کی ہلاکتوں تک،ہر ناکامی کا ذمہ دار  یہی شخص تھا۔ جس کا نام حالی تھا۔۔ انگریزوں کا خادم ۔

اسلام آباد کے سب بڑے بڑے دماغ ،بڑے بڑے جسموں کےساتھ وہاں براجمان تھے۔ منہ میں سب کے گھگھنیاں تھیں ۔ اس طالب علم نے اپنی باری پر تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی مقدور بھر سعی کی، یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جو "یونیورسٹی" میں طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں اپنا مخصوص نکتہ نظر ٹھونس رہا ہے۔ نظم و نسق ملائیت کے سپرد ہے ۔علاقہ مذہبی سیاسی جماعت کا مفتوحہ ہے۔

نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ اقبال نے تینوں قاتل عناصر کا ذکر  الگ الگ کیا تھا۔

؎اے کشتہ ء سلطانی و ملائی و پیری

مگر سر سید کا دماغ ٹھکانے لگانے  کے لیے یونیورسٹی نے مُلائی اور پیری کا ایسا مہلک  امتزاج  


Lethal combination

کھڑا کیا کہ اس انتخاب پر داد نہ  دینا بدذوقی ہوگی۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال سے سر سید پر مُلائیت حملہ آور ہے، اور زیادہ مشتعل اس لیے ہے کہ ایک مخصوص حلقے سے باہر اس کی کسی نے سنی نہیں۔
یہ حلقہ بھی مُلائیت کا اپنا ہے۔ یہ وہی مُلائیت ہے جس نے جہانگیر کو اور عثمانی خلیفہ کو پریس قبول کرنے سے روکا ۔جس نے مذہب کو زندگیوں سے نکال  کر ظاہری وضع قطع  اور لباس تک محدود کردیا۔ جس نے کہا کہ لاؤڈ اسپیکر اور ٹیلی ویژن حرام ہے اور پھر کہا حلال ہے۔ بلکہ اپنے اپنے چینل کھول لیے۔ یہ وہی مُلائیت ہے جو اب بھی مسلمان  نوجوانوں کو سائنس ،انجینئرنگ  اور  میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھڑوا کر مدرسوں کی طرف بھیج رہی ہے۔

پیری مریدی کے راستے سیادت اور امارت کا حصول  تو عام تھا۔اب پیری مریدی کے راستے ادب فتح کیا جانے لگا ہے۔ایک صاحب کا دعویٰ  ہے کہ وہ علمی تصوف سے متعلق ہیں ۔فضا انہوں نے اپنے ارد گرد تقدس اور روحانیت کی باندھی ہے، اس فضا کا لامحالہ نتیجہ آمنا و صدقنا اور صم بکم عمی ہوتا ہے۔چنانچہ حلقہ بگوشوں میں  اختلاف کا رواج ہے  نہ ہمت!

کوئی استاذ العلماء  کہتا ہے تو کوئی مرشد۔

واقعہ یہ ہے کہ یہی راستہ حُب  جاہ اور عُجب کی طررف جاتا ہے بظاہر سادگی اور عجز مگر ایک حلقہ  تعظیم و اطاعت کرتا ہے۔ تو  مزا ہی آ جاتا ہے۔ دوسروں کی نظر میں استاذ العلماء اور مرشد ہونا ہی تو جاہ ہے۔ اسی سے ایک پگڈنڈی عُجب کی طرف جاتی ہے۔ حدیث میں ہے۔۔۔"رہے ملہلکات سو وہ  خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے ،اور  بخل ہے جس کے موافق عمل کیا جائے، اور آدمی کا اپنے آپ کو  اچھا سمجھنا  (اعجاب المرءبنفسہ) اور  یہ سب سے بڑھ کر ہے"

جبھی تو ناصر کاظمی نے کہا تھا۔۔۔

سادگی سے تم نہ  سمجھے ترکِ دنیا کا سبب

ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!

اس مصیبت سے بچنے کے لیے ہی تو ملامتیہ نے اپنے آپ کو عاصی بنا کر پیش کیا کہ حب و جاہ  اور عُجب سے جان چھڑائی جائے۔اب جب پیری  مریدی کا نظام قائم ہوچکا  ،ہر بات  مرشد کی مستند سمجھی جانے لگی۔ تو ادب اور تاریخ  کی طرف  رُخ ہوا فضا وہی آمنا صدقنا کی ! پھر خاص قسم کے الفاظ اور  طویل فقرے۔ پھر لفظوں کو چبا چبا کر ایک مخصوص ادائیگی جس میں  نسائیت بھی جھلکتی ہے۔ بقول خؤرشید ندیم صاحب "غور و فکر کی صلاحیت کچھ دیر کے لیے سلب ہوجاتی ہے"مگر سب جھاگ!
سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انگریزی یا  کسی زبان میں ترجمہ کریں تو ہاتھ  کچھ نہ آئے، اسی لیے اوزار جو پکڑا گیا ہے، گفتگو  ہے تحریر نہیں ! تحریر میں آپ کو
 substance
دینا پڑتا ہے

ایک چڑیا گھر میں شیر لایا گیا، زبیرے نے اسے پہلی بار دیکھا تھا، اس کے پاس آیا پوچھا تم کون ہو ،کیا کرتے ہو؟

شیر نے  توجہ نہ دی ۔۔دوسرے  دن پھر آیا۔،پھر تیسرے دن،چوتھے دن آخر شیر تنگ آ  گیا، اس نے زبیرے سے کہا پہلے یہ دھاری دار چادر اتارو، پھر میرے ساتھ کشتی لڑو،تمھیں معلوم  ہوجائے گا، میں کون ہوں ،

بھائی! آپ پیری مریدی کی، تقدس کی ،مرشدیت کی دھاری دار چادر اتاریں ۔ عقیدت مندوں اور مریدوں  سے باہر نکلیں  اور ادب اور تاریخ  کے طالب علم(چلیے بہت بڑے سکالر) کے طور پر باہر  نکلیں تو آٹے دال کا بھاؤ  معلوم ہو!

پیر صاحب کے مفروضؤں  کو چیلنج کوئی مرید نہیں کرتا ، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب من جانب اللہ ہے۔ یہ محض  مفروضہ ہے کہ اینٹی تھیسس تھیسس ہی سے نکلتا ہے ۔یہ بھی مفروضہ ہے کہ سرسید کی جدو جہد کو صرف تعلیمی میدان تک محدود کرنا  فکری افلاس کی دلیل ہے ۔اس طائفے کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ  موجودہ نطام ِ تعلیم فکرِ  سرسید کی پیداوار ہے ۔چلیے یہ متنازعہ بات مان بھی لی جائے تو سوال یہ ہے کہ  ڈیڑھ سو برس ہوچکے ہیں ۔ جسے آپ درست سمجھتے ہیں  ؟

آپ سرسید کے عیوب کے بجائے ہمیں اپنے محاسن سے بھی تو مطلع فرمائیے ،

ضیا الحق کے اقتدار کے  پورے عشرے میں اس  مکتب فکر کی مکمل حکمرانی تھی۔ جسے سرسید سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
حکومت کی طاقت بھی تھی،مذہبی جماعتوں اور "اصحاب رشد و ہدایت "کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا۔ خزانوں کے منہ مشائخ کانفرنسوں کے لیے کھلے تھے، ملائیت کا رقص زور و شور سے جاری رہا،تو پھر آپ  سرسید کو پیش منظر سے ہٹا کر اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا لیتے۔

مگر اصل مسئلہ دلائل کا نہیں ،نہ کلیدی خطبے کے مندرجات کا۔ اصل مسئلہ اس " حسنِ نیت"کا ہے جس نے سرسید پر سیمینار اس لیے کرایا کہ جانے پہچانے مخالفین کو مسند پر بٹھایا جائے۔، اور وہی اعتراضات دہرائے جائیں  جو سرسید پر ملائیت ڈیڑھ صدی سے کر رہی ہے۔

جیسا کہ اوپر مثال دی گئی ہے کہ قائداعظم پر سیمینار ہو اور کلیدی خطبہ مولانا حسین احمد مدنی یا کانگرسی زعما میں سے کوئی دے تو کیا  آپ اس خطبے کا جواب دینے بیٹھ جائیں گے ؟یا اس بدنیتی کا ماتم کریں گے جس نے قائداعظم کے دشمنوں کو کھلی چھٹی دی۔

ظلم یہ ہے کہ سر سید کے افکار  کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیری سے ان دشنام طرازوں  کو مکمل آگاہی نہیں ۔سرسید اندھوں کے اس طائفہ کے لیے وہ ہاتھی ہے جس کا یہ  محض کان یا پاؤں ٹٹولتے پھر رہے ہیں ۔،

مکمل فکر اور عمل جو سر سید کا کارنامہ ہے،توجہ سے محروم ہے اور ذہنی بساط سے بھی۔مثلاً  اگر اس  درد سے واقف ہونا  ہو جو سر سید کے دل میں برصغیر کے ایک عام باشندے کے لیے تھا تو ان کی تصنیف "مسافر ان لندن "کا مطالعہ لازمی ہے ۔وہ اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے کتنے بڑےعَلم بردار تھے دیکھیے۔۔۔

"اس تمام ترقی کا باعث  انگلستان میں صرف یہ ہے کہ تمام چیزیں  تمام علوم تمام فن جو کچھ اس قوم  کی زبان میں ہے ،پس  جو لوگ حقیقت میں ہندوستان کی بھلائی  اور ترقی چاہنے والے ہیں وہ یہ جان لیں کہ  ہندوستان کی بھلائی صرف  اسی پر منحصر  ہے کہ تمام علوم  اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک انہی کی زبان میں ان کو دیے جائیں ۔ ہمالیہ کی چوٹی پر یہ الفاظ  کھود دئیے جائیں کہ ہندوستان اسی  وقت ترقی کرسکتا ہے جب وہاں تعلیم اس کی اپنی زبان میں دی جائے"

موضؤع بہت طویل ہے    باتیں بہت سی ہیں  مگر مجھے جانا ہے، اسی یونیورسٹی نے دو قومی نظریے پر سیمینار منعقد کیا ہے ۔سنا ہے گاندھی جی کلیدی خطبہ دیں گے۔ میں اس سنہری موقع کو کھونا نہیں چاہتا،سو،خدا حافظ!

Wednesday, November 08, 2017

کتاب فروش اور میں !



کتاب فروش سے اردو کی بی اے کی کتابیں طلب کیں اور وضاحت کی کہ اردو کے مضمون کے لیے بی اے کی وہ کتابیں درکار ہیں جو خواتین کے لیے ہیں ،اس نے  کتابوں  کا  ایک  سیٹ دیا، اب اردو کی وہ کتابیں مانگیں جو بی اے میں مردوں کے لیے مخصوص ہیں ، اس نے کتابوں کا ایک اور سیٹ دیا۔دونوں کھول کردیکھے تو  ایک سے ہی تھے۔ وہی کتابیں اور اتنی ہی کتابیں ۔
اب ایم اے اردو خواتین کے لیے   کتابیں مانگیں  ،تو ایک سیٹ کاؤنٹر پر رکھ دیا گیا۔ پھر ایم اے اردو مردوں کے لیے کتابوں کا مطالبہ کیا۔ کتاب فروش  نے ایک اور سیٹ دے دیا۔ ان دونوں سیٹوں کو کھول کردیکھا تو  یہ بھی ایک جیسے ہی تھے۔

پوچھا ،خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ کتابیں کیوں نہیں ؟ ۔دنکاندار پڑھا لکھا تھا۔ عجیب دلیل دی۔

کہنے لگا  اردو شاعروں  ادیبوں  نے ادب  تخلیق کرتے وقت یہ تخصیص کب کی تھی کہ یہ تخلیق عورتوں کے لیے ہے اور  فلاں مردوں کے لیے؟۔ اب آپ بتائیے فسانہ ء  آزاد یا دیوان غالب یا باغ و بہار کیا  صرف مردوں کے لیے لکھے  گئے  ہیں ؟

یا صرف عورتوں کے لیے؟۔

اور آپ نے ابھی دو دو سیٹ  کتابوں کے مجھ سے نکلوائے ،پہلے یہ بتائیے کہ ادب میں یہ صنفی یا جنسی  تقسیم کب سے آئی؟بظاہر  آدمی آپ معقول لگتے ہیں ؟

حالات خراب ہوتے نظر آئے، کتاب فروش اب تقریباً غصے میں تھا،میں نے اس کی خوشامد کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔

ایک چرواہا ٹی وی چینلوں سے بہت بیزار  تھا، بات کا بتنگر  اور رائی کا پہاڑ  بنا کر، کھینچ تان کر ،معمولی سے واقعہ کو  "بریکنگ نیوز"بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور پھر سارا دن یہ بریکنگ نیوز ناظرین کی آنکھیں  پھوڑتی رہتی ہے ،ایک دن وہ اپنے مویشی  چرا رہا تھا اور آرام سے درخت کے نیچے بیٹھا  بانسری بجا رہا تھا، کہ ایک اینکر اس کا انٹرویو کرنے کے لیے آدھمکا۔

اینکر چرواہے سے ،آپ بکروں کو کیا کھلاتے ہیں ؟

چرواہا۔     کالے کو یا سفید کو؟

اینکر۔     سفید کو۔

 چرواہا۔    ۔گھاس

اینکر      اور کالے کو؟

 چرواہا۔   ۔اسے بھی گھاس

اینکر     ۔انہیں باندھتے کہاں ہو؟

 چرواہا۔     کالے کو یا سفید کو؟

 اینکر۔    ۔سفید کو

چرواہا۔   ۔ کمرے میں

اینکر۔   اور کالے کو۔؟

چرواہا۔   ۔اسے بھی کمرے میں

 اینکر۔    ۔انہیں نہلاتے کیسے ہو؟

چرواہا۔   ؟کسے ؟ کالے کو یا سفیدکو ؟

اینکر ۔     سفید کو؟

چرواہا۔    ۔پانی سے

اینکر۔    اور کالے کو؟

چرواہا۔   ۔اسے بھی پانی سے

 اینکر۔    (غصے سے،) بد بخت، جاہل جب دونوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہو تو  پھر بار بار کیوں پوچھتے ہو کہ  کالے کو یا سفید کو؟

چرواہا۔   ۔کیوں کہ سفید بکرا میرا ہے۔

اینکر۔     ،اور کالا؟

چرواہا۔   ۔وہ بھی میرا ہے!

حماقت کی یہ داستاں سن کر کتاب فروش کے چہرے پر مسکراہٹ  آئی،اب اسے وہ دعوت نامہ دکھایا جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی نے بھیجا تھا۔ اس میں دنیا کی عجیب و غریب بات یہ تھی کہ اردو کے دو شعبے تھے،ایک کے آگے (F)۔دوسرے کے آگے ا(M) لکھا تھا۔

پہلے تو میں اور دکاندار سوچتے رہے کہ اس "ایف اور ایم "کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، چونکہ "ایف" کے سامنے خاتون پروفیسر کا نام لکھا تھا۔اور "ایم"کے ساتھ مرد پروفیسر کا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو اس سے مراد  مرد اور عورت ہی ہے۔

اب یہ نہیں معلوم کہ  جو شعبہ اردو عورتوں  کے لیے ہے اس میں کون سی کتابیں  پڑھائی جاتی ہیں  اور جو شعبہ مردوں کے لیے ہے اس میں کون سی کتابیں پڑھائی جاتی ہوں گی، کافی دیر سوچنے کے بعد ہم اس  نتیجے پر پہنچے کہ عورتوں کے شعبہ اردو  میں بہشتی زیور او رحقوق الزوجین ضرور نصاب کا حصہ  ہوں گے ، مردوں کے لیے اردو ادب کے کورس میں موت کا منظر  اور حسن پرستوں کا انجام معہ ضمیمہ پڑھائی جاتی ہوں  گی۔

لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ  کیا انگریزی ادب ،سائنس،معاشیات ،بین القوامی تعلقات، اور دیگر تمام مضامین کے شعبے بھی صنفی اور جنسی بنیادوں پر الگ الگ قائم کیے گئے ہیں ؟اور کیا  نصاب بھی الگ الگ ہیں ؟

 کچھ مشکلات  جو ہمارے ناپختہ ذہنوں  میں در آئیں  یہ تھیں کہ اکاؤنٹسی،کیمسٹری ،فزکس، اور اس قبیل کے دوسرے علوم کو مردوں اور عورتوں میں کس طرح تقسیم کیا گیا ہوگا؟مثلاً کون سے اجزاعلمِ فزکس کے یا اکاؤنٹنسی یا قتصادیات کے خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ؟

اکنامکس میں ،توازن تجارت" یا تامین  

protection

جیسے موضوعات  غالباً خواتین کو نہ پڑھائے جارہے ہوں  ا۔اس لیے کہ خواتین کو پروٹیکٹ کرنے کلے لیے کچھ یونیورسٹیوں میں باقاعدہ مسلح جتھے موجود ہوتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اکنامکس میں تامین (پروٹیکشن) کا لڑائی جھگڑے  سے یا مرد عورت کی صنفی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ۔

کتاب فروش  کو اور مجھے اس سے بھی زیادہ پیچیدہ امر یہ درپیش  ہوا کہ سر سید  پر یونیورسٹی جو سیمینار کرا رہی تھی،اس میں  مردوں اور عورتوں  کی یہ تقسیم  ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئی تھی۔ مقالات پڑھنے والوں میں  مرد بھی تھے، اور عورتیں بھی۔،یہ تو  "اختلاطِ  مرد و زن " کا ارتکاب ہوا ،جس کا سدِ باب  کرنے لے لیے یونیورسٹی ایک عرصہ سے کام کرہی ہے،بلکہ  یہی کام کرہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سیمینار منعقد کیے جاتے ،ایک "مطالعہ،سرسید برانے خواتین"اور دوسرا  "مطالعہ ۔سرسید برائے مرد حضرات" ۔اگر اردو ادب  اس بنیاد پر دو  مختلف حصوں میں بٹ سکتا ہے تو سرسید کے مطالعے کی کیا جسارت  ہوسکتی ہے کہ بٹ جانے سے انکار کرے۔

دوسرا تکنیکی سوال یہ  پیدا ہوا کہ اگر سیمینار میں  عورتوں  اور مردوں کو اکٹھا کردیا گیا تو مقالہ پیش  کرنے والوں میں دونوں اصناف  نے شرکت کی اور گمان غالب ہے کہ سامعین میں سامعات بھی ہوں گی، اور اگر اس  دوران مملکت پاکستان پر کوئی  پہاڑ آن گرا نہ آسمان۔ اور سنان اور سننے والی خواتین ون پیس میں  شام کو اپنے اپنے گھروں میں پہنچ گئیں تو اردو شعبے  کو مردوں اور عورتوں کے لیے ایک کردینے میں ،سوائے چند  مذہبی دکانداروں کے،کسے نقصان ہوگا؟

مگر یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ اصل مشکل آگے پیش  آرہی تھی،کتاب فروش اور میں نے جب دعوت نامے کا بغور مطالعہ کیا تو خواتین کے بارے میں احساس کمتری کے علاوہ ایک اور  شدید نفسیاتی عارضہ بھی کارڈ سے قطرہ قطرہ نچڑ کر نیچے زمین میں جذب ہورہا تھا۔ وہ یہ تھا کہ  صاحب علم ہونے  کے لیے خاص طور پر سر سید احمد  کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دو شرائط پر پورا اترنا  لازم نظر آیا۔

ایک یہ کہ مقرر پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹر ہو،دوسرے یہ کہ کسی نہ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہو۔ پچانوے فیصد مقررین کو اسی حوالے سے بلایا گیا تھا۔ کل ہی عطا الحق قاسمی صاحب نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ مشاعرہ ہال میں ایک سامع  دندناتا  ہوا داخل ہوا۔اسے منیر نیازی نظر آئے۔

ان سے پوچھا کیا آپ بھی شاعر ہیں ؟منیر نیازی نے کہا نہیں، میں قتیل شفائی ہوں  ۔

اب اگر اسی طرح کا کوئی حاطب اللیل کسی سیمینار میں گھس جائے اور کسی معززشخص سے جو معنک بھی ہو، کوٹ پتلون اور نکٹائی  میں بھی ملبوس ہو اور سیاہ جوتے جس کے پالش  سے چمک بھی رہے ہوں ، پوچھ  بیٹھے کہ کیا آپ بھی صاحب علم ہیں ؟ تو منیر نیازی کی طرح  جواب میں وہ یہ نہ کہہ دے کہ نہیں" میں تو "اردو میں پی ایچ ڈی ہوں "۔

ویسے ایک کھیپ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی ایسی بھی نکلی جو فی الواقع  صاحبان علم پر مشتمل تھی ،داکٹر معین نظامی کو دیکھیے، ان کے شاگرد بھی کہاں  کہاں  پہنچ چکے ،ڈاکٹر  شعیب  احمد ہیں، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ہیں ، داکٹر ارشد ناشاد ہیں ،جو صیحٰح معنوں میں محقق کہلانے کے مستحق ہیں ۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ہیں ، ساری زندگی  پوری سنجیدگی سے کام کیا  اور تحقیق کا حق ادا کیا۔

ڈاکٹر عزیز  ابن الحسن ہیں ،جنہیں  پڑھ کر عسکری اور سلیم احمد یاد  آجاتے ہیں ، برخوردار  ارشد معراج ہیں  کہ تحقیق کے لیے طویل چھٹی لی۔ مالی مشکلات برداشت کیں ۔  مگر ڈاکٹریٹ  اس طرح کیا جیسے کرنا چاہیے  تھا۔ یہی صورتحال ڈاکٹر روش ندیم کی ہے۔ رہے ڈاکٹر شاہد صدیقی تو اردو ان کی تحقیق کا موضوع ہی نہ تھا۔، مگر جس  طرح اوپن یونیورسٹی کو آکر جگایا۔ منہ ہاتھ دھلا کر پوشاک بدلوا کر میدان میں اتارا  اور مردہ رگوں میں جان پیدا کی،انہی کا حصہ ہے ۔

اور بھی نام ہیں !  معتبر نام! مگر اوپر سے بالائی کی  یہ تہہ اتار دیں تو نیچے حالت پتلی ہے اور  بہت پتلی ہے۔ ہم جیسے عامی جو ڈاکٹریٹ نہیں رکھتے اور  کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتے ،سُو ء اتفاق  سے اسی ملک میں  رہتے ہیں ، اور ان لاتعداد طلبہ اور طالبات سے ملتے رہتے ہیں ،جو یونیورسٹیوں  ،میں  زیر تعلیم ہیں، پڑھانے والے بھی ہمارے حلقہ احباب میں ہیں ، اس سے کون کافر انکار کرے گا۔ کہ یونیورسٹی میں کرنٹ اور انڈر کرنٹ عجیب و غریب چلتے ہیں ، یعنی پانی کی سطح کے نیچے چلنے والی بحری رویں  -استاد کی نگاہِ حسن شناس  اگر کسی طالبہء علم پر ٹھہر گئی ہے اور اس طالبہ کو اکثر و بیشتر  اپنے کسی  کلاس فیلو لڑکے کے ساتھ دیکھا گیا ہے، تو پھر  اس لڑکے کی خیر نہیں ، اس کی ڈویژن ،اس کا تھیسس اور اس کا بہت کچھ خطرے کی زد میں آجائے گا اور ایسا "انتقام" عام  ہے۔

پی ایچ ڈی کرانا اب ان  یونیورسٹیوں میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔  اس انڈسٹری  کے لیے سرمایہ مطوب ہے۔ تعلقات درکارہیں ،کوئی ضامن یا گارنٹر ہو۔ پھر دیکھئے ڈگری ہاتھ آتی ہے یا نہیں۔

ہمارے ایک جاننے والے صاحب نے حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ کہتے ہیں ، سپر وائزر یعنی نگران پروفیسر  صاحب کو مقالے کا مسودہ بھیجا تو ایک عرصہ تک جواب ندارد آخر تنگ آکر فون  کیا تو فرمانے لگے ،بھائی! میں نے کیا دیکھنا اور بتانا ہے،بس آپ اپنے شعبے کے ماہر ہیں ،سب ٹھیک ہے۔

لیکن اس یونیورسٹی کے سیمینار میں جو سرسید خان پر تھا۔ خود سر سید پر کیا بیتی ؟یہ ایک الگ داستان ہے، طویل اور الم ناک !اور افسوس بے تصویر بھی۔

اگر  آپ کے اعصاب فولادی ہیں ،اگر آپ کا دل مضبوط ہے اگر آپ کی ساعد، محض ساعد سیمیں نہیں ،اور اگر آپ اس چند روزہ زندگی سے عاجز نہیں آچکے تو حواس  مجتمع رکھیے اور دل مضبوط  اس حادثہ ء فاجعہ کی کچھ تفصیل  اگلی نشست  میں بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی جائے گی، ابھی، اس وقت تو میں  اور کتاب فروش دونوں سر سید احمد خان کی تربت کی طرف دوڑے  جارہے ہیں ،کیوں کہ یونیورسٹی سیمینار ختم ہوتے ہی  وہا ں سے کچھ لوگ ایک پیر صاحب کی قیادت میں کدالیں اور پھاوڑے لے کر سر سید  کی قبر کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں۔خدا خیر کرے!          

       


 

powered by worldwanders.com