Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, November 24, 2017

چڑھ جا بچہ سولی رام بھلی کرے گا


چوہدری صاحب کے بچوں نے پڑھنا لکھنا تو تھا نہیں ،ضرورت بھی نہیں تھی۔کھیت،زمینیں ،لمبی چوڑی جاگیر،جس کی پیمائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔گاڑیوں کے بیڑے،اسمبلی کی جدی پشتی ممبریاں ،وزارتیں سب کچھ تو میسر تھاایسے میں کالج، یونیورسٹی کی پڑھائیاں اور پابندیاں کون برداشت کرتا ۔

مگر یہ جو ان کے ہاری ،مولو کا بچہ پڑھائی میں ذرا تیز نکل آیا تو یہ ذرا ٹیڑھا معاملہ تھا۔بدبخت قصبے کے کالج تک پہنچ چکا تھا۔اگر وہاں سے بھی فارغ التحصیل ہو کر  مزید ترقی کرگیا تو چوہدری کے نیم خواندہ بیٹوں کی کیا عزت رہے گی۔

چوہدری صاحب کے زرخیز دماغ نے اس کا حل نکال لیا۔ پیار سے انہوں نے مولو کے بچے کو باور کرایا کہ وہ اس کے ہمدرد، مربی اور سرپرست ہیں اس کے دل میں یہ بات بٹھادی کہ اس کا باپ ہاری سہی مگر ہے تو کسان!کسانوں کی ذات اونچی ہوتی ہے۔اس  لیے کالج میں رعب داب اور ٹھسے سے رہا کرے۔دوسرے طلبا کی اکثریت اس کے مقابلے میں نیچ ذاتوں سے ہے۔مولو کے بچے کی گردن اکڑ گئی۔اس نے کالج میں کھڑ پینچی شروع کردی۔ آہستہ آہستہ کچھ اور  لڑاکے قسم کے طلبہ اس کے دائرہ اثر میں  شامل ہو گئے۔ مار کٹائی کے نتیجے میں  پہلی بار مولو کے بچے کو  کالج سے نکالا گیا تو چوہدری صاحب کو فاتحانہ اطمینان ہوا۔مسکراہٹ ان کی گھنی مونچھوں میں چھپائے چھپتی نہیں تھی۔فوراً کالج پہنچے اور "بچے" کو معافی دلوا دی ۔اس کے بعد وہی ہوا جو تعلیمی اداروں میں  مسلکی،مذہبی،نسلی اور لسانی تنظیموں سے منسلک طلبہ  کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔اساتذہ تک مولو کے بیٹے سے خائف رہنے لگے۔مگر فارغ التحصیل ہوا نہ یونیورسٹی تک پہنچ پایا۔چوہدری صاحب کی اولاد کا مستقبل محفوظ کا محفوظ رہا۔

یہ کوئی خیالی تصویر نہیں ہے جو پیش کی گئی ہے۔یہی کچھ تو چند روز پہلے قائداعظم یونیورسٹی میں ہوا! بلوچی اور  سندھی طلبہ کے دو گروہ ایک دوسرے پر پل پڑے۔

اسلحہ کی ماشااللہ ملک کے کسی گوشے میں کوئی کمی نہیں ہے۔باخبر حلقوں کی رائے یہ ہے کہ اس ملک میں اسلحہ کی اتنی مقدار موجود ہے کہ  کئی ملکوں کے لشکر مسلح ہوسکتے ہیں ۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دنگا فساد  کرنے والے طلبہ کو نکال دیا ۔اس کے بعد  ہنگامے شروع  ہوگئے۔یونیورسٹی بسیں نہ چلنے دی گئیں ۔کلاسوں کو زبردستی بند کرا دیا گیا۔ سب سے بڑا مطالبہ کس صورت میں سامنے آیا؟یہ کہ جن طلبا کو نکالا گیا ،ان کی سزائیں موقوف کی جائیں ۔یونیورسٹی یرغمال بن گئی۔انتظامیہ اور اساتذہ بے بس ہوگئے۔ایچ ای سی(ہائر ایجوکیشن کمیشن) خاموش تماشائی بنا رہا۔

آپ اعتراض کرسکتے ہیں کہ چوہدری کا اس میں کیا عمل دخل اور لینا دینا؟جگر تھام کر سنیے۔

یونیورسٹی میں اکثر و بیشتر ایسی گاڑیاں نظر آنے لگیں جن پر  ایک خاص صوبے کی نمبر پلیٹیں تھیں ۔پھر سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اس قصے میں پڑے۔جو اطلاعات اس  کالم نگار کے پاس ہیں  ،اس کے مطابق ان طلبہ کو معاف کردیا گیا۔دوسری قومیتوں کے طلبہ اس عرصہ میں اپنی پڑھائی میں مصروف رہےاس لیے کہ وہ کسی لسانی صوبائی ثقافتی مسئلے میں الجھے ہوئے نہیں تھے۔معروف سکالر پروفیسر ہود بھائی نے،اس ضمن میں ،ایک دلچسپ  فقرہ لکھا۔

Punjabi students gleefully egged them to fight harder.

یعنی پنجابی طلبہ نے انہیں  زیادہ سخت لڑائی پر اکسایا۔

غور کیجیے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس وقت، مجموعی طور پر ،پنجابی اور پٹھان طلبہ تعلیمی حوالے سے سب سے آگے ہیں ۔اس کے بعد ،اس کالم نگار کی رائے میں شمالی علاقہ جات کا نمبر آتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ  کوئی بلوچی ،کوئی سندھی ،یا جنوبی پنجاب کا  کوئی طالبعلم ممتاز صفوں میں  نہیں دکھائی دیتا۔مستثنیات ہر جگہ موجود ہیں ۔ ان علاقوں سے بھی طلبہ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔مگر ہم ایک عمومی بات کررہے ہیں ۔ اور تعمیم
generalization
ہمیشہ اکثریت کی  بنیاد پر بنتی ہے۔ جن گروہوں کو علاقائی ثقافت اور لسانی امتیاز کے خار دار دشوار گزار جنگل میں دھکیلا جاتا ہے وہ تعلیمی اور اقتصادی میدان میں  اکثر و بیشتر  پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ سندھ میں کچھ عرصہ پہلے" سندھی ٹوپی"کا دن منایا گیا۔ ایسے محدود حوالوں سے پنجاب اور کے پی میں  تقریبات کیو ں نہیں منائی جاتیں ؟کراچی کی مثال  لے لیجیے۔اردو بولنے والے طلبہ تعلیمی میدان میں بہت آگے تھے۔پھر الطاف حسین نے لسانی بنیاد  پر کھڑاک شروع کیا تو بساط الٹ گئی۔ممتاز حسین اور ڈاکٹر  عطا ء الرحمٰن جیسے نابغوں کے بجائے سیکٹر کمانڈ ،فلاں لنگڑا اور فلاں ٹُنڈا پیدا ہونے لگے۔

اس سے پہلے یہ کالم نگار اپنے قارئین کو یہ افسوس ناک واقعہ بتا چکاہے کہ ایک بلوچ سردار نے لاہور میں پریس کانفرنس کی،کسی نے پوچھا کہ اس  زمانے  میں بھی بلوچ سردار ،چوری کے مقدمات کا فیصلہ ،ملزموں  کو جلتے انگاروں پر چلا کر کیوں کرتے ہیں ؟سردار کا جواب تھا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ واقعہ یہاں ختم نہیں  ہوتا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ،اس کالم نگار  کو،دارالحکومت کی ایک بڑی یونیورسٹی میں کچھ طلبہ سے گفتگو کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔یہ طلبہ کون تھے؟یہ بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں  سے آئے ہوئے لیکچرر تھے۔یعنی  اعلیٰ تعلیم  یافتہ۔لیکچر کے دوران  اس کالم نگار نے جب بلوچی سردار  کی پریس کانفرنس  کا ذکر کیا تو حاضرین میں اضطراب  کی لہر دوڑ گئی۔کچھ نے برملا اعتراض  کیا کہ ہمارے سردار  کے بارے میں کوئی بات کی جائے۔

اب آپ جان گئے  ہوں گے کہ چوہدری  اور مولو کے بیٹے کی مثال کس  عمدہ اور مکمل طریقے سے منطبق  ہورہی  ہے۔صورتِ حال اس مثال کے سانچے میں ٹھیک ٹھیک ،ترتیب سے فٹ ہورہی ہے۔

بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں

کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں !

بلوچستان کے سرداری  نظام کی بقا اس میں ہے کہ  قبائل کے عام لوگ تعلیمی اور اقتصادی میدان میں ترقی نہ کرسکیں ۔سکولوں اور کالجوں کی عمارات سرداروں  کے غلے کے لیے  گودام کاکام کرتی رہیں ۔ قبیلے کے افراد  اپنے خاندانی معاملات تک سردار کی مرضی سے نمٹاتے رہیں ۔سردار نئی بندوق چیک کرنے کے لیے گلی  میں سے گزرنے والے کسی بھی رہگیر کے سر  کا نشانہ لیتا رہے۔اسمبلیوں  اور سینٹ  میں ہمیشہ سردار ہی آئیں  ۔گورنری اور وزارت اعظمٰی انہی کی جاگیر  بنی رہے۔کچھ طلبہ اگر کسی یونیورسٹی تک پہنچ بھی جائیں تو "بلوچی" بن کر رہیں ۔نسلی اور لسانی  تفاخر میں پھنسے رہیں ۔مار دھاڑ کریں ۔  اگر انہیں سزا ملے تو سینٹ اور اسمبلی  میں بیٹھے ہوئے سردار  جاکر معاملہ"رفع دفع"کرادیں ۔جرمانے معاف ہوجائیں ۔سزائیں  موقوف ہوجائیں۔ یوں لڑنے والوں کی مزید حوصلہ افزائی  ہو۔پھر مستقبل کے لیے ان کے حوصلےاور بلند  ہوں ۔یوں وہ ایسے بلوچ  تو بن جائیں جن سے یونیورسٹیاں خوف زدہ رہیں مگر پی ایچ ڈی ،سائنسدان، انجینئراور ماہر اقتصادیات نہ بن سکیں ۔سرداری نظام کو چیلنج کرنے کے قابل کبھی  نہ ہوں ۔

ایک قریبی عزیز  نے دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں سات سال پڑھایا ۔ان کامشاہدہ یہ تھا کہ کے پی کے دور افتادہ ،پس ماندہ گوشوں سے آئے ہوئے پٹھان طلبہ،اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت  کچھ عرصہ ہی میں ،تعلیمی حوالے سے بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔یہ وہ تھے جو کسی نسلی مسلکی یا مذہبی گروہ سے وابستگی اختیار نہیں کرتےاور صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ مرکوز  کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کرتے تھے۔

پس ماندگی اور ناکامی  ان طلبہ کے لیے بھی اپنی بانہیں کھولے کھڑی رہتی ہے جو مسلکی بینادوں پر، تعلیمی اداروں میں گروہ بندی کرتے ہیں یا گروہ بندی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اس حقیقت کا ادراک  جن والدین کو ہوگیا ہےوہ اپنے بچوں  کو پنجاب یونیورسٹی یا دارالحکومت کی"بین الاقوامی"اسلامی یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیتے۔کئی والدین نے بتایا کہ ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کی اجارہ داری کی وجہ سے انہوں نے  اپنے ہونہار  بیٹوں بیٹیوں  کو ان درس گاہوں  میں نہیں جانے دیا۔سروے کرکے دیکھ لیجیے ،جو طلبہ دوران تعلیم مذہبی مسلکی،نسلی،لسانی اور سیاسی  تنظیموں سے وابستہ رہتے ہیں ،وہ ان درس گاہوں  سے کچھ بن کر کبھی نہ نکل سکے۔سیاسی جماعتوں  میں گئے بھی تو ان کی شہرت پراپرٹی ڈیلروں  ہی کی رہی!ایک کتا بچہ تک تصنیف نہ کرسکے۔دس منٹ کی اثر انگیز تقریر کسی علمی موضوع پر  کرنے سے قاصر ہیں۔ مستقبل انہی  طلبہ کا تابناک ہے جو دوران تعلیم ،بلوچی ہیں نہ پنجابی،پختون ہیں نہ سندھی،دیوبندی ہیں نہ بریلوی،سبز ہیں نہ سرخ،مذہبی ہیں نہ غیر مذہبی،صرف اور صرف طالب علم ہیں ۔




No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com