Muhammad Izhar ul Haq
http://www.izharulhaq.net
ایک بہشت نظیر شہر تھا جسے ہم نے اجاڑدیا،اپنے تعصبات کے ذریعے،اپنی باہمی لڑائیوں سے اور افسوس یہ ہے کہ اس اجڑنے کا افسوس بھی نہیں،
کچھ عرصہ بعد اب کے کراچی جانا ہوا تو ہوائی اڈے سے لے کر پسندیدہ سروسز میس تک، چالیس پچاس منٹ کے سفر میں کیا کچھ یاد نہ آیا،ستر کے عشرے کا آغاز تھا،جب وہاں تعیناتی ہوئی، تاج ہوٹل تھا،
Excelsior
ہوٹل تھا۔ زندگی اپنی ساری دلچسپیوں اور خؤبصورتیوں کے ساتھ کراچی کے ہر کوچہ و بازار میں جلوہ فگن تھی۔ایمپریس مارکیٹ کے سامنے گلیوں میں ،بوہری بازار کے پیچھے پارسی او مسیحی برادریوں کی اکثریت تھی، عورتیں سائیکلیں چلاتی تھیں ، ان برادریوں کی تقریباً ساری خواتین ملازمت پیشہ تھیں ، چڑیا گھر ،گاندھی گارڈن کے سامنے سرکاری ہوسٹل میں قیام تھا۔ وہاں سے پیدل صدر تک جانا معمول کی سیر تھی۔،سکیورٹی کوئی ایشو نہ تھا، رات کے ایک بجے بہت آرام سے جیکب آباد لائنز بندو خان کی دکان میں جاکر کباب اور پراٹھے کھاتے تھے۔ ناظم آباد میں آغا کا جوس پیتے تھے۔ (اب آغا جوس کے نام سے ایک سیٹ اپ میلبورن آسٹریلیا میں بھی کام کررہا ہے) اریگل کی ایک دکان میں ٹھنڈے دودھ کی بوتلیں ہوا کرتی تھیں ، جو اکثر و بیشتر چڑھانا ہم دوستوں کا معمول تھا۔ ایمپریس مارکیٹ سے ریگل کی طرف آتے ہوئے بائیں طرف فرزند قلفی والا پڑتا تھا، برنس روڈ پر جاکر دھاگے والے کباب ،بھنا ہوا قیمہ اور تل والے نان کھائے بغیر چین نہ آتا تھا۔ شباب تھا ،جسم میں سکت تھی، گاؤں کی زندگی کے اثرات صحت پر ابھی بھی موجود تھے۔ معدے مضبوط تھے، سب کچھ کھا جاتے تھے،اور ڈکار تک نہ لیتے تھے۔
اس وقت دبئی اور بنکاک کو کوئی نہیں جانتا تھا، دنیا بھر کی ائیر لائنوں کے جہاز کراچی اترتے تھے مشرق بعید سے آئے ہوئے جہا ز،کراچی رک کر مغرب کی طرف جاتے تھے۔ اور یورپ کی طرف سے آئے ہوئے جہاز کراچی سے ہی مشرق بعید کی سواریاں ؛لیتے تھے۔ کراچی کیا تھا؟ امن و امان کا گہوارہ ،محبت کا صدر مقام، ایک ایسا شہر تھا جہاں رہنے کو بسنے کو دل کرتا تھا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں کا کراچی کے زوال میں کتنا حصہ ہے، مگر ایک بات یقینی ہے کہ موصوف ہی کے عہد میں اس شہر کے تیور بدلنا شروع ہوئے تھے،اس کے بعدپھر زوال ہمہ گیر تھا اور مسلسل بھی،بدامنی نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ گلیوں میں رکاوٹیں تن گئیں، گیٹ بن گئے ،ہر کوچہ ایک قلعہ تھا۔
الطاف بھائی نے اہلِ کراچی کو لکھنے پڑھنے سے روک دیا۔ کہا کہ ٹیلی ویژن بیچو اور اسلحہ خریدو،نوجوانوں کے ہاتھوں میں ریوالور دے دیے گئے۔ تعلیمی ،معاشی اور تہذیبی اعتبار سے الطاف بھائی کراچی کو سالہا سال پیچھے لے گئے۔
اب کراچی شہر نہیں ،لسانی ،نسلی اور مسلکی گروہوں کا ٹھکانہ ہے۔ شہر وہ ہوتا ہے جس کے مکینوں میں ہم آہنگی ہو، جس کا نظم و نسق سب مل کرچلائیں ، جس سے جذباتی وابستگی ہو،اب اگر یہاں رہ کر، یہاں پیدا ہو کر، یہاں پل بڑھ کر بھی آپ نے امروہہ سے باہر نکلنا ہے نہ مردان سے،تو شہر میں کیسے ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔
سنگاپور یاد آرہا ہے، پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے کالم میں لکھا اور بجا لکھا کہ سنگا پور کا موازنہ پاکستان سے کیسے کرسکتے ہیں ، ایک سٹی سٹیٹ کا مقابلہ کئی گنا بڑے ملک سے نہیں ہوسکتا، مگر ہم ایک شہر کو تو سنگا پور کے خطوط پر چلاسکتے ہیں ،سنگاپور میں کئی نسلی اورلسانی گروہ ہیں ،چینی ،جن کی اکثریت ہے۔ملے،جو ملائشیا کے قدیم اصل باشندے ہیں ،اور مسلمان ہیں اور تامل،انڈین، سنگاپور نےیہ کیا کہ شہر کے کسی ایک کونےمیں بھی کسی ایک گروہ کی اکثریت نہیں بسنے دی۔ ایک اپارٹمنٹ میں چینی خاندان رہ رہا ہے ،دوسرے میں ملے ہیں ۔ ان سے آگے انڈین فیملی ہے۔،
کاش ہم بھی اتنا وژن رکھتے۔،کراچی کے سب علاقوں میں سب لوگ مل کررہتے۔ اب حالات یہ ہیں کہ فلاں علاقہ پٹھانوں کا ہے فلاں بلوچوں کا،فلاں پنجابیوں کاہے -یہ تو پیوند ہیں جو اس شہر کو لگے ہوئے ہیں ، یہی حماقت ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ ہجرت کرکے جو آئے تھے، انہو ں نے محمد پور اور میر پور کے نام سے الگ آبادیاں بنا لی تھیں ، کوئی اور رہنا چاہتا تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی۔ پھر جب فساد شروع ہوئے تو فسادیوں کا کام آسان تھا۔ حملے ہوئے،لوٹ مار ہوئی، آبادیاں جلا دی گئیں ،
اس کا بہر طور یہ مطلب نہیں کہ اگر مختلف گروہوں کی مختلف حصوں میں اکثریت نہ ہو تو سب اچھا ہوگا، نہیں ایسا نہیں ۔۔یہ تو صرف ایک صفت ہے۔، جو ایک کثیر النسل شہر میں لازمی ہونی چاہیے، سب سے مقدم یہ کہ جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس سیاسی مداخلت سے پاک ہو،اگر پولیس ایک فورس کی بجائے مختلف گروہوں کی داشتہ بن کر رہے گی تو امن خاک ہوگا؟
کراچی پولیس سیاسی مداخلت کی لعنت سے بچی ہوتی تو رینجرز کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔، کسی نے کوشش کی بھی تو حشر وہی ہوا جو اےڈی خواجہ کا ہوا۔کراچی پولیس کی حالت اس شہر کی ہی ہے جس کا ذکر مولانا رومی نے مثنوی میں کیا ۔ ایک آدمی کندھے پر شیر کی تصویر گودوانے گیا۔ گودنے والے نے کام شروع کیا تو سوئیاں چبھیں ، درد ہوا ۔پوچھا کیا بنا رہے ہو،جواب دیا دم ۔کہنے لگا یار درد بہت ہورہا ہے، یوں کرو دم نہ بناؤ، آخر شیر کی دم ضروری بھی تو نہیں ، اب پھر کام شروع ہوا، سوئیاں چبھیں ، پھر درد ہوا، پوچھا کیا بنا رہے ہو، اس نے کہا کان ۔کہنے لگا کان رہنے دو، قصہ مختصر ہی رکھو، گودنے والے نے کان بنانا بھی چھوڑدیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر سوئیاں چبھیں ۔اب کے پیٹ بن رہا تھا۔ کہنے لگا پیٹ رہنے دو، اب گودنے والے کو غصہ آگیا۔ اس نے سوئی زمین پر پھینک دی اور کہا کہ ایسا شیر جس کا کان ہو نہ پیٹ نہ دم ،ایسا شیر تو خود خدا نے نہیں بنایا۔ کراچی پولیس کا حال یہی ہے،یہ مجرم چھوڑ دو کیوں کہ لیاری سے ہے، وہ بھی چھوڑ دو ،اردو بولتا ہے، فلاں بندہ پنجابی ہے،،فلاں سے چشم پوشی کرنا ،پٹھان ہے اور اپنا بندہ ہے ،فلاں پنجابی ہے،فلاں سندھی ہے۔انہیں کچھ نہیں کہنا، یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ دن رات کی سیاسی مداخلت ،دباؤ اور سفارش سے تنگ آکر پولیس بھی اپنی سوئی پٹخ کر زمین پر دے مارتی ہوگی۔
ستر کی دہائی کا کراچی اس لیے قابل رشک تھا کہ بہت سی آبادیاں جو بعد میں ابھریں ، تب نہیں تھیں ، شہرمیں پانی،بجلی، اور گیس کے وسائل آبادی کے لیے کافی تھے۔ ہم ہر کتاب میں لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ مسولینی کو اقبال نے حدیث نبویﷺ کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہر ایک مخصوص حد سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے، پھر اس کے بعد نئےشہر بسا لینے چاہییں ، مگر ہم خؤد اس پر عمل نہیں کرتے، کراچی کی آبادی اور تعمیراتی پھیلاؤ روکنے کے لیے نئے شہر بسانے چاہییں تھے۔، موجودہ کراچی میں سے جو شہر کم اور عفریت زیادہ ہے،کم از کم چار پانچ شہر بن سکتے تھے۔
کراچی اب اپنے رہنے والوں کے لیے اذیت کا ساماں ہے،بے پناہ ٹریفک اور ،ہر طرف گندگی کے ڈھیر، دکان نما ورکشاپیں ، پورے شہر میں پھیلی ہیں ، ہر طرف لوہا جس سے تیل نچڑ رہا ہے، میٹرو پول ہوٹل اور فریر ہال کا علاقہ سیر کے لیے مثالی ہواکرتا تھا۔ وہاں سے زینب مارکیٹ جاتے ہوئے اس قیامت سے گرز نہ ہوتا تھا۔ جس سے اب گذرنا پڑتا ہے الحفیظ الامان ۔زیب النسا سٹریٹ کراچی کا پر رونق اور باعزت حصہ تھا، اس میں ریستوران تھے،ااور کافی شاپس ،کتابوں کی دکانیں ، تھیں ،ہم شہروں ،عمارتوں، اور شاہراہوں کے نام تبدیل کردیتے ہیں اور پھر انہیں اس قدر خراب کردیتے ہیں کہ اصل نام کے ساتھ ہر اصل چیز چلی جاتی ہے۔ زیب النسا کا الفنٹسن سٹریٹ سے کیا تعلق تھا؟وہی جو شاہ فیصل کا لائل پور سے تھا۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ
ہر بنائی کہنہ کاباد آن کنند
اول آن بنیاد را ویران کنند
پرانی یادگاروں کو اس وقت منہدم کرتے ہیں جب ان کی جگہ نئی یادگاریں اسی معیار اور اسی شان و شوکت کی بنانے کا ارادہ ہو، اور سکت بھی۔سجاد باقر رضوی یاد آرہے ہیں
جس کے لیے ایک عمر کنویں جھانکتے گزری
وہ ماہِ کراچی مہ کنعاں کی طرح تھا
کراچی کا چاند کنعان کے کنویں میں ڈوب چلا ہے، اسے پھر سے ابھارنا ہے،روشن کرنا ہے، کراچی کی روشنی پورے ملک کی روشنی ہے۔ کراچئی میں اندھیرا ہو تو پورے ملک میں ظلمت کا دود دورہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment