دوسری صدی عیسوی میں یہ رومنوں کا صدر مقام تھا ،آبادی اس وقت ساٹھ ہزار تھی،صرف ساٹھ ہزار!
یہ لندن کے عہدِ اقتدار کا آغاز تھا،اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ لندن ہمیشہ حکومتوں کا مرکز رہا۔، پھر وہ وقت بھی آیا کہ ملکہ برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ نیوزی لینڈ میں غروب ہوتا تھا تو کینیڈا میں طلوع ہورہاہوتا تھا، انتہائے جنوب میں ساؤتھ افریقہ سے لے کر ملائشیا تک اور مصر و سوڈان تک لندن ہی کا اختیار اور اقتدار تھا۔
1857 میں ہندوستانی لڑے مگر آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے زمام اقتدار ملکہ کو پیش کردی۔ "انڈیا آفس" وجود میں آیا تو اس کا کام ہندوستان کی انگریز حکومت کو کنڑول کرنا تھا۔ "انڈیا آفس " کا انچارج "وزیر ہند" تھا۔ وقتاً فوقتاً لندن کا "انڈیا آفس" دنیا کے دوسرے علاقوں کا بھی انچارج رہا۔
انیسویں صدی میں زنجبار،صومالیہ اور ایتھوپیا اس کے ماتحت تھے۔ عراق، ایران، خلیج، کی ریاستوں اور بحیرہ احمر پر بھی فرمانروائی کی۔نائجیریا اور سنگا پور پر لندن کی عملداری رہی۔یہ امریکہ جو آج کرہ ارض کا بادشاہ ہے،یہ بھی ایک زمانے میں لندن کا ہی غلام تھا۔
1919 اور 1935 کے ایکٹ آئے تو وائسرائے ہند کو کچھ اختیارات ملے، اب بھی وہ انڈیا آفس اور وزیر ہند کا محتاج تھا ،مگر کم !، سچ یہ ہے کہ وائسرائے لند ن کا اتنا دست ِ نگر نہ تھا جتنے پاکستان کے آج کے وزیر شاہد خاقان عباسی لندن کے محتاج ہیں ،
ذرا بھی اختیار ہوتا تو کم از کم ایسے وزیر خزانہ کو ضرور فارغ کردیتے جس کا بال بال کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں جکڑا ہوا ہے۔ اگر وزیر اعظم صحیح معنوں میں وزیر اعظم ہوتے تو معزول وزیراعظم کی بیٹی کو یہ ضرور کہتے کہ بی بی ! ہماری پارٹی کی حکومت ہے تو تم کس کے خلاف رات دن بیانات دے رہی ہواور کس کو للکارتی پھرتی ہو
لندن کی خؤش بختی دیکھیے کہ سترسال پہلے جس لندن سے قائداعظم نے رہائی دلوائی تھی، آج ایک شخص جو اپنے آپ کو قائداعظم ثانی سمجھتا اور کہلاتا ہےپھر پاکستان کو لندن کا غلام بنا رہا ہے۔، قائداعظم لندن میں رہے کوئی جائیداد نہ بنائی۔
واپس آگئے قائداعظم ثانی نے لندن میں جائیداد بنائی ،بیٹوں کو "مقیم" کیا وہاں کاروبار کیا،کرایا اور اب لندن بیٹھ کر پاکستانی حکومت کی باگیں کھینچ رہے ہیں ، !کبھی وزیراعظم کو طلب کرتے ہیں ،کبھی وفاقی وزراء کو !سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ،جو بھائی بھی ہے۔ وہیں جاکر کورنش بجا لاتاہے۔
معزول نہ کردیے جاتے تو اب تک روغن قاز ملنے والوں کا گروہ دختر نیک اختر " کو مادرِ ملت ثانی"کا خطاب دے بیٹھا ہوتا،کوشش اب بھی جاری ہے۔
امریکہ کے پڑھے ہوئے اور ایک عسکری خاندان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم لندن کی ماتحتی کیوں کر رہے ہیں ؟ ذہن میں وسوسے اٹھتے ہیں ۔پی آئی اے اپنے روٹ وزیراعظم کی ذاتی ائیرلائن کے سپرد کرتی جارہی ہے۔ تو پھر کیا حرج ہے،اگر لندن کی ماتحتی کی جاتی رہے؟ اپنا بزنس تو پھل پھول رہا ہے نا!
ابو بکر صدیق نے حکمرانی کا چارج سنبھالا ۔دوسرے دن حسبِ معمول کپڑے کا گٹھا اٹھایا اور تجارت کرنے لگے، عمر فاروق رض نے پوچھا "امیر المومنین !کہاں جارہے ہیں ،
جواب دیا تجارت کرنے،جو کرتا تھا، عمر فاروق رض نے اتنا ہی کہا کہ "حاکمِ وقت کپڑا فروخت کررہا ہوگا تو کوئی کسی اور سے کیوں خریدے گا"۔۔
صدیق اکبر رض نے گٹھر رکھ دیا، تب سے یہ اصول دنیا میں رائج اور راسخ ہےکہ حکمراں ،ریاست یا حکومت یا عوام کے مقابلے میں کاروبار نہیں کرے گا، ساری مہذب دنیا میں اس اصول پر عمل ہورہا ہے، سوائے اس مملکت خدادادمیں جو بہت سوں کے بقول اسلام کے نا م پر وجود میں آئی تھی۔
یہاں اس اسلامی اصول کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے گئے۔، ایک کمرے میں وزیراعظم میزبان ملک کے سرمایہ کاروں کی منت کررہی ہوتی تھی کہ پاکستان آکر انوسٹمنٹ کرو، دوسرے کمرے میں شوہر پوچھ رہاہوتا تھا کہ وہ سرمایہ کاری میزبان ملک میں کرنا
چاہتا ہے۔یہ بھی اسی اسلامی جمہوریہ میں ہوا کہ ریاستی سٹیل مل ایڑیاں رگڑتی رہی اور حکمرانوں کا لوہے کا کاروبار زمین سے آسمان تک جاپہنچا ۔اور اب قومی ائیرلائن جاں بلب ہے۔سانس اکھڑ چکی ہے۔تیرہ ارب روپے کی آکسیجن دی جارہی ہے۔ تاکہ مردہ آنکھیں کھولے۔
دوسری طرف حکمران اعلیٰ کی ائیرلائن دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ جہا ں جہاں قومی ائیر لائن کی پروازیں موت سے ہم کنار ہورہی ہیں ، وہیں اپنی ائیرلائن کو نئی پروازیں مل رہی ہیں ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہونے کا دعویدار ہے، مگر احتیاج اس قدر ہے کہ ہندو دیوتاؤں کی طرح دو نہیں ، درجنوں بازو اور ہاتھ ہیں اور ہر ہاتھ، ہاتھ نہیں ، دستِ سوال ہے۔ ایک ہاتھ سعودی عرب کے سامنے پھیلا ہوا ہے۔ تو دوسرا قطر کے سامنے، تیسرا یواے ای کے سامنے جو وفاقی وزیروں کو اور وزراء کو ملازمتیں مہیا کر رہا ہے۔ چوتھا ہاتھ امریکہ کےسامنے پھیلا ہے، پانچواں ہاتھ چین کے سامنے پھیلا ہے۔ چھٹا ترکی سے مانگنے میں مصروف ہے،سندھ حکومت دبئی سے چلائی جاتی ہے۔
وفاقی حکومت کا بازو لندن سے مروڑا جاتا ہے، آئی ایم ایف والوں نے کشکول میں کچھ ڈالنا ہوتو پاکستان آکر اجلاس تک نہیں منعقد کرتے۔ کسی دوسرے ملک میں منعقد کرتے ہیں ، اور گداگر کشاں کشاں جاتے ہیں ۔
وزیر خزانہ کھرب پتی ہے،معزول وزیراعظم کی دولت کا ذکرکرنے کے لیے"کھرب" کا لفظ ناکافی ہی نہیں مذاق ہے۔سابق صدر کی دولت کا اندازہ لگانے والا کمپیوٹر ابھی تک شاید ایجاد ہی نہیں ہوسکا۔
وزیراعظم اسمبلی میں کھڑے ہو کر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بزنس کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں ،
وفاقی وزیر اقامے جیبوں میں لیے، دوسرے ملکوں میں ملازمتیں کررہے ہیں ، اگر کسی اور ملک میں یہ سب کچھ ہوتا ہو تو کوئی اس کانام بتائے،کہیں نہیں ہوتا،حمیت نام ہے جس کا وہ صرف تیمور کے گھر سے گئی ہے۔
ہمیں آقا بنانے اور غلام بننے کا اتنا شوق ہے کہ پہلے بادشاہوں کو تلور کا (غیر قانونی) شکار کراتے ہیں ،اب چینی بغیر کاغذات کے گاڑیاں ، چلاتے پھر رہے ہیں ۔پہلے امریکی ویزوں کے بغیر آکر دندناتے رہے۔ اب غلامی کی بھوک چینیوں کی دریوزہ گری اور چاکری کرکے مٹا رہے ہیں ۔
کچھ لکھاریوں کے لیے ممدوح کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔، تاکہ مداح کرنے کی رگ کو غذا ملتی رہے۔ بالکل اسی طرح ہم پاکستانی غلامی میں اتنے پختہ ہیں کہ ایک نہیں ،بیک
وقت کئی آقا درکار ہوتے ہیں ،ہم نے تو
polyandry
کی مردہ رسم زندہ کرکے رکھ دی،یعنی ایک عورت اور کئی شوہر، یہ قبیح رسم پہلے صرف نیپال میں تھی ،اور اکا دکا بھارتی اور افریقی قبیلوں میں ۔مگر اب ہمارے دارالحکومت کے پتی اوقیانوس کے اس
پار سے لے کر خلیج اور بحیرہء جاپان اور بحرِ مشرقی چین تک پھیلے ہوئے ہیں ۔
ہماری مثا ل تو اس ڈیرہ داران کی ہے جو چند عشرے قبل ایک مغرور مغلانی تھی مگر اب اس کی شان و شوکت ہوا ہوگئی، زمینیں بک گئیں تخت و تاج چھن گیا اب پپیٹ بھرنے کے لیے وہی کچھ کرتی ہے جو کرنا پڑتا ہے۔ جس ملک میں ہر بچہ اپنی ناف کٹوانے اور ماں کا دودھ پہلی مرتبہ پینے سے بھی پہلے ڈیڑھ دو لاکھ کا مقروض ہوچکا ہوتا ہے، وہ ملک غلام نہیں ہوگا تو کیا مالک ہوگا ۔ ہمارے تو جسم تک گروی رکھ دیے گئے ہیں ، انترڑیاں ،جگر، پھیپھڑے تک اپنی قیمت وصول کر چکے ہیں ، ہمیں شہبازوں اور اسحاق ڈاروں نے قطر سے لے کر بیجنگ تک رہن رکھ دیا ہے۔
ہماری مثال ان خاندانوں کی ہے جو اینٹوں کے بھٹے پر نسل در نسل کام کرتے ہیں اور مالک کی منشی گیری سے رہائی پاسکتے۔ ہمارے مالک سفید فام ہیں مگر ان کے منشی خلیج اور بحرِ قلزم کے ارد گرد بیٹھے ہیں ۔
ہمارے اخلاس کا کیا کہنا ! وفاقی وزیر ہیں مگر کسی کو صرف نارووال کی فکر ہے تو کوئی مری سے باہر نکلنے کو تیارنہیں ، مسلم لیگ ن کے ثقہ لیڈر خود کہہ رہے ہیں کہ ان کے قائد کو صرف اپنی ذات کی فکر ہے۔ اگر لیڈر اپنی ذات کے سوا کچھ نہیں سوچ سکتا تو اس کے پیروکار کیسے مختلف ہوسکتے ہیں ؟
ان میں سے ہر ایک کو صرف اور صرف یہ فکر ہے کہ اس کا بل اناج کے دانوں سے بھرا ہوا اور بھرا رہے۔
پہلے جہاز بھرے ہوئے دبئی جاتے تھے، کرایہ سندھ حکومت ادا کرتی تھی اب یہ مہنگے اڑن کھٹولے لندن جایا کریں گے، پانی کے قطرے سے لے کر روٹی کے نوالے تک ۔ہم ہر شئے پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ، تاکہ لندن کے غلام لندن آتے جاتے رہیں
No comments:
Post a Comment