Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, November 22, 2017

کوئی ہے جو وسطی پنجاب کو جگائے!


ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے اس ملک کے شہروں کو محاصروں  میں قید کردیا ہے، عوام  کو خانہ جنگی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ  کے بدترین دور سے گزر  رہا ہے۔ ملک کا  وزیراعظم ،وزیراعظم ہونے کا اقرار ہی نہیں کررہا۔اس کے خیال میں اس کا اپنا وزیرعظم کوئی اور ہے۔اس  کی کابینہ کے ارکان کا قبلہ کہیں اور ہے۔دارالحکومت یرغمال بنا ہوا ہے۔حکومت نظر  ہی نہیں آرہی۔ جڑواں شہروں  کے شہری سسک رہے ہیں ،بلک رہے ہیں ،ان کے اعصاب شل  ہوچکے ہیں ، ان کا کاربار تباہ و برباد ہوگیا ہے۔طلبہ  امتحان گاہوں میں نہیں پہنچ  پارہے۔ تاجروں کی دکانیں بند ہیں ۔مسافر ریلوےسٹیشنوں ،بسوں کے اڈوں اور ائیر پورٹوں تک جانے سے قاصر ہیں ۔ کوئی والی وارث نہیں۔ وزراء اپنے محلات میں آرام سے رہ رہے ہیں ۔ کم ہی ہیں ان میں سے جو ہر روز  اپنے دفاتر  میں حاضر ہوتے ہوں ، دوسرے لفظوں میں  یوں کہیے  کہ وہ اس عذاب سے بے خبر ہیں جس سے جڑواں شہروں  کے باشندے گزر رہے ہیں ۔

یہ اذیت ناک صورت حال شریف خاندان کو خوب راس آرہی ہے۔شریف خاندان ،مسلم لیگ نون کے نکتہ  نظر سے نہیں سوچتا ۔ پارٹی کا نکتہ نظر تو دور کی بات ہے۔ شریف خاندان ملک اور قوم کے نکتہ نظر سے بھی نہیں سوچتا۔ جتنی بدامنی ہو،شورش ہو،فساد ہو،عوام جس قدر پریشان حال ہوں، شریف خاندان کے چہرے  پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کی جھلک ابھرتی ہے۔ایک
sadistic

(اذیت رساں)تبسم ہونٹوں پر کھیلتا ہے ۔گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں  ۔۔۔۔دیکھا  !ہمیں نکالا تو اس کا بدلہ مل رہا ہے،یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم حکومت میں نہیں رہے۔اب بھگتو ،مزے لو
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا

میری بلاسے بوم رہے یا ہما رہے

 میاں صاحب نے تخت سے اترنے کے بعد  ایک دن کے لیے بھی نہیں تسلیم کیا کہ حکومت اب بھی ان کی پارٹی کے پاس ہےاور وہ پارٹی کے سربراہ ہیں ۔حکومت کسی اور پارٹی کے پاس ہوتی تب بھی ان کا رویہ یہی ہوتا۔ معاندانہ ،حریفانہ رویہ' یہ ہے شریف خاندان کا وہ رویہ جس کی بنا پر عوام یہ سمجھنے پہ مجبور ہیں کہ کہیں اس  بدامنی کی پشت پر انہی لوگوں کا ہاتھ تو نہیں ؟دھرنے والے لاہور سے روانہ ہوکر  'بغیر کسی رکاوٹ کے'دارالحکومت میں اترتے ہیں اور دونوں شہروں کی شہہ رگ پر بیٹھ  جاتے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کرتی؟آخر کیوں؟عوام یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ دھرنا دینے والے  چاند تو نہیں مانگ رہے ۔ان کا کون سا مطالبہ ہے جس کا پورا کرنا  حکومت کے لیے ناممکن ہے؟راجہ ظفر  الحق  کمیٹی کی  رپورٹ  کیوں نہیں منظر عام پر لائی جارہی؟وزیر قانون کو ہٹانے سے کیا حکومت کا تختہ الٹ جائے گا؟اگر وزیر قانون اس مسئلے کے ذمہ دار نہیں تو اور  کون ہے؟جو کوئی بھی ہے 'اسے سامنے لایاجائے۔آخر یہ کھیل کیوں کھیلا گیا؟ حلف نامے کے بجائے محض اقرار نامہ کس کے دماغ میں ابھرا تھا؟اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ دھرنا تو فیض آباد کے مقام پر دیا جارہا ہے' انتظامیہ نے باقی  راستوں  کو کیوں مسدود کررکھا ہے؟سارے راستے کیوں  بند ہیں ؟ہر طرف رُکی ہوئی،پھنسی  ہوئی ٹریفک کے اژدہام  میں پولیس کیوں نظر نہیں آرہی؟ یہی وہ  سوالات ہیں جن پر غور کیا جائے تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حکومت خود اس ٹہنی کو کاٹ رہی ہے جس پر  بیٹھی ہے۔

 ایک طرف دھرنے کی وجہ سے پورا ملک ذہنی تناؤ میں ہے'دوسری طرف میاں صاحب نے ایبٹ آباد کے جلسہ عام میں قوم کے ساتھ ایک اور مذاق کیا ہے ۔تازہ مذاق 'زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ اعلان کیا ہے کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے پوپ کہے کہ ویٹی کن مسلمانوں کا مسکن ہے ۔جیسے مورخ یہ  کہہ دے کہ ماؤزے تنگ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا حامی تھا ۔جیسے کوئی در فنطنی چھوڑے کہ قائداعظم 'تقسیم کے وقت کانگریس کے صدر تھے۔

جہاں تک اس کالم نگار  کو یاد پڑتا ہے 'تین عشروں  میں میاں صاحب نے پہلی بار نظریے کی بات کی ہے۔انہوں نے راز کی یہ بات کبھی کسی کو نہیں بتائی کہ ان کا نظریہ کیا ہے؟اس کے خدو خال کیا ہیں ؟کیا ملکی ترقی کے ضمن میں ان کا نظریہ کوئی نیا زاویہ پیش کرتا ہے؟میاں محمد نواز شریف نے آج تک کوئی ایسی بات نہیں کی جس میں گہرائی ہو،ترقی کے بارے میں وہ ہمیشہ یہی گھسا پٹا فقرہ دہراتے ہیں کہ" سڑکیں بن رہی ہیں' مک میں روشنیاں پھیل رہی ہیں "۔انہوں نے آج تک ملک کے تعلیمی نظام  کے بارے میں  بات نہیں کی ۔زرعی اصلاحات کا کوئی تصور  ان کے ذہن میں نہیں ۔کیا کسی وقت انہوں نےسوچا ہے کہ  بلوچستان کا  سرداری نظام کتنا فرسودہ  اور اذکار رفتہ ہے؟کیا کبھی کسی وقت انہوں نے بھولے سےبھی ذکر کیا کہ جنوبی پنجاب  میں کس قدر غربت ہے'بھوک ننگ  ہے' جاگیردارانہ نظام نے تمام لوگوں کو جکڑ رکھا ہے 'مدارس چھائے ہوئے ہیں 'تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے' کیا انہوں نے کبھی اس  کا کوئی حل سوچا ہے؟اگر سوچا ہے تو قوم کے سامنے پیش کیا ہے؟

جو شخص بطور وزیراعظم کوئی سنجیدہ اور طویل اجلاس نہیں  برداشت کرسکتا  'جو ای سی سی کی ایک میٹنگ کی صدارت کرنے کی قابلیت نہیں  رکھتا' جو خارجہ امور پر دس منٹ بات کرنے کی  اہلیت سے  عاری ہے؛جو ایک ایک لفظ کے لیے اپنے مشیروں  اور حواریوں  کا محتاج ہے 'جس نے کبھی کسی فائل پر  کچھ نہیں لکھا 'اس لیے کہ  اسے معلوم ہی نہیں کیا لکھنا ہے'وہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا نام نظریے کے مترادف ہے۔ کیا اس  سے زیادہ بھیانک مذاق ہوسکتا ہے؟

 اس ملک نے بہت سے حادثے دیکھے ہیں۔اس ملک کے عوام نے بہت انہونیوں کا سامنا کیا ہے مگر تاریخ جن بڑے حادثوں پر حیرت کا اظہار کرے گی وہ تین ہیں ۔قائداعظم کے ملک پر آصف زرداری نے صدارت کی۔ میاں نواز  شریف تین بار وزارت عظمٰی کی گدی پر  بیٹھے اور سلمان فاروقی محتسب اعلیٰ رہے۔ فارسی کے شاعر  نے اسی لیے کہا تھا کہ

بسی نا دیدنی را دیدہ ام من

 مرا ای  کاشکی مادر نہ زادی!

جن انہونیوں کو دیکھنا پڑا، اس سے تو بہتر تھا کہ شاعر دنیا ہی میں وارد نہ ہوا ہوتا۔

 مستقبل کی وزیر اعظم ،دختر نیک اختر نے آج تک  سوائے اپنے والد کی بے گناہی کے اور  شریف خاندان  کے اقتدار کے جواز کے کوئی بات نہیں کی۔

 شریف خاندان کا زوال ،برامکہ کے اس  زوال سے زیادہ اہم ہے جس نے عباسیوں  کو سکون کا سانس مہیا کیا تھا۔ برامکہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔خلیفہ کو وہ خاطر میں نہ لاتے تھے۔ باپ اور بھائیوں  نے محلات ایسے تعمیر کرائے تھے آسمان دنگ تھا اور زمین انگشت بدنداں !ان کی شہرت چار دانگ ِ عالم میں پھیل گئی ۔یہاں تک  کہ دوسرے ملکوں کے سفیر ان سے ملاقات کے لیے منتظر رہتے۔ پھر ایک رات ایک گمنام شخص گلی میں گاتا گزرا

؎تدبر  بالنجرم و لست تدری

 ورب النجم یفعل ما یشاء 

ہر کام "مبارک ساعت" دیکھ کر کرنے والے برامکہ کو اس گمنام شخص نے دھمکی دی یا پیش گوئی کی کہ ۔۔۔۔"ستاروں  سے تدبیر کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمھیں کچھ نہیں  معلوم !ستاروں کا پروردگار جو چاہے کرتا ہے"۔

پھر برامکہ سے بھی کئی ہاتھ آگے بڑھ گیا تھا۔سابق وزیراعظم علالت کے دوران لندن تھے تو دختر نیک اختر تکبر کی آخری سیڑھی پر چڑھ گئیں ۔وہ غیر ملکی سفیروں  کو بادشاہ  کی طرح ملتی تھیں ۔ وہ سرخ قالین پر چلتی  تھیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر،قالین سے ہٹ کر پاؤں رکھتے تھے۔قومی وسائل ان کی مٹھی میں تھے۔ ملک ان کے قدموں میں  پڑا تھا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا فرزند بے تاج حکمران تھا۔ وہ تمام امور  میں دخیل تھا ۔بیوروکریسی دست بستہ کھڑی تھی ۔صوبائی وزراء کی حیثیت صفر تھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ خاندان رُو بہ زوال ہوگا؟ان سے پوچھ گچھ ہوگی؟ عدالتوں  میں حاضر ہوں گے؟انگلی نچا کر مضحکہ خیز تقریریں  کرنے والے وزیراعلٰی کی 56 کمپنیاں  کرپشن کی علامت بن کر رہ گئی ہیں !ابھی تو اقربا پروری اور دوست نوازی کے ایسے ایسے مناظر سامنے آئیں گے کہ خلقِ خدا حیران رہ جائے گی۔ لاہور ڈاکوؤں کے نرغے میں ہے اور شور  پنجاب  سپیڈ کا مچایا جارہا ہے۔ 2018 ء کے  انتخابات میں وسطی پنجاب نے اگر اسی بے حسی کا ثبوت دیا  جس کا گزشتہ انتخابات میں دیا تھا تو اس ملک  پر ایک اور لمبی کالی رات چھا جائے گی۔ کوئی ہے  جو وسطی پنجاب کو جھنجھوڑے 'جگائےاور سیاسی شعور دے؟           


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com