Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, January 30, 2016

آ بیل مجھے مار

کُچھ عرصہ کے لیے انگلستان کے ایک دلکش قصبے گلوسٹر میں قیام تھا۔ فراغت تھی‘ موسم خوشگوار تھا‘ میلوں پیدل چلنے سے جو فرحت حاصل ہوتی تھی‘ بے مثال تھی۔ ٹائون سنٹر میں قدیم عمارتیں تھیں‘ بُک شاپیں تھیں‘ ٹائون لائبریری تھی‘ مسجد تھی‘ پاکستانی سینڈوچ فروش تھے۔
ایک صبح معمول کے مطابق نکلا اور فُٹ پاتھ پر چلتا جا رہا تھا کہ آگے راستہ بند ملا۔ سڑک کھودی جا رہی تھی‘ سُرخ رنگ کے فیتے ہر طرف رکاوٹ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو ایک طرف لکھا تھا: ’’پیدل چلنے والوں کے لیے‘‘۔ سُرخ رنگ کے فیتوں کے درمیان ایک راستہ بنایا گیا تھا جو تنگ تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ ایک راہگیر آسانی سے چل سکے‘ یہ اہتمام کئی فرلانگ تک کیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا اُس جگہ پہنچ جاتا تھا جہاں فُٹ پاتھ کا راستہ کلیئر تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں کے لیے اس قدر اہتمام تھا تو گاڑیوں کو متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کیا گیا تھا۔
یہ بُھولے بسرے دن آج یوں یاد آئے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مقدمہ سنتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ متبادل رُوٹ اختیار کیا جائے اور متبادل رُوٹ کی تخصیص کیے بغیر کام جاری نہ رکھا جائے۔ کوئی ڈھنگ کا ملک ہوتا تو کام شروع کرنے سے ہفتوں کیا مہینوں پہلے‘ متبادل راستے متعین کئے جاتے اور پبلک کو اخبارات‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے تمام تبدیلیوں سے آگاہ کیا جاتا۔
جن بیماریوں میں ہم قومی اعتبار سے مبتلا ہیں‘ ان میں سرفہرست بیماری یہ ہے کہ ہم صحیح کام کو غلط طریقے سے کرتے ہیں۔ یہ فیشن بن چکا ہے کہ عوام کو اصل حقائق سے مطلع نہ کیا جائے۔ عوام کے نمائندے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ جیسے بھی ہیں‘ بُرے یا بھلے‘ لائق یا گزارا‘ نمائندے تو ہیں‘ اتنا بڑا پروجیکٹ پنجاب اسمبلی کے سامنے لایا ہی نہیں گیا۔ اب تک ہر فورم پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اورنج لائن ٹرین‘ اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ نہیں‘ مگر عدالت میں سرکاری وکیل دہائی دے رہا ہے کہ حکومت کے چین کے ساتھ معاہدے ہیں‘ اگر منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی تو نقصان ہو گا۔
شفافیت کا یہ عالم ہے کہ عدالت کو جب بتایا گیا کہ گیارہ تاریخی عمارتوں کے بارے میں این او سی لیا جا چُکا ہے تو مخالف وکیل نے پول کھول کر بیچ چوراہے کے رکھ دیا۔ ڈائریکٹر آثار قدیمہ سلیم الحق تھے‘ اُنہوں نے این او سی دینے سے انکار کر دیا کیونکہ 1975ء کا متعلقہ ایکٹ این او سی کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ کُچھ عمارتوں کا این او سی چیف سیکرٹری نے دیا جو دینے کے مجاز ہی نہ تھے۔ مانا کہ ڈائریکٹر آثار قدیمہ چیف سیکرٹری کا ماتحت ہوتا ہے مگر تکنیکی پیچیدگیوں سے چیف سیکرٹری نہیں‘ ڈائریکٹر واقف ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ اگر چیف میڈیکل آفیسر کسی مریض کو لاعلاج قرار دے دے تو چیف سیکرٹری صاحب اُس مریض کا خود علاج کرنا شروع کر دیں۔ نیّر علی دادا فن تعمیر کا ایک معتبر نام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب اس پائے کے معتبرین سے خود صلاح مشورہ کرتی‘ وہ بھی نہ کیا اور جب نیّر علی دادا اور دوسرے ماہرین تعمیرات نے این او سی دینے کی مخالفت کی تو سرکاری افسروں نے یہ مخالفت بُلڈوز کر کے ’’آل کلیئر‘‘ کی اطلاع اُوپر پہنچائی اور کام شروع ہو گیا۔ اس وقت لاہور کا جو حال ہے‘ اُس پر لاہور کے شعراء کو شہر آشوب لکھنی چاہیے تھی۔
ایک شاعر نے مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ایک دوست کو دو غزلیں دکھائیں اور پوچھا کون سی سنانی چاہیے۔ دوست نے جس غزل کی سفارش کی‘ شاعر نے اُسے پھاڑ کر پھینک دیا‘ دوسری غزل سنائی اور خوب داد سمیٹی۔ پنجاب کے حکمران اعلیٰ نے بھی کم و بیش ایسا ہی کیا لیکن المیہ یہ ہوا کہ جو غزل رد کی‘ وہی کام کی تھی۔ آپ دہلی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں زیر زمین ریلوے (دہلی میٹرو) کا معائنہ کیا۔ معروف ترین سٹیشن دیکھا۔ سواری بھی کی۔ مگر لاہور میں میٹرو بس کا قوی ہیکل منصوبہ، جس کا آغاز ہو چکا تھا، بہرطور پر مکمل کیا گیا۔ ایک خطیر رقم کی سالانہ امداد میٹرو بس کو سرکار کی طرف سے ملنا ضروری ہے۔
بچے کو بھی معلوم ہے کہ دہلی‘ ممبئی‘ کراچی‘ لاہور‘ لندن‘ نیویارک‘ سنگاپور اور اس قبیل کے بڑے عفریت نما شہروں کے لیے زیر زمین ریلوے ہی بنائی جاتی ہے۔ لندن کی زیر زمین ریلوے کی شروعات 1863ء میں ہوئی۔ 1907ء تک یہ ریل بجلی سے چلنا شروع ہو گئی تھی۔ مگر لندن کو چھوڑیے‘ وہ تو سفید فام ہیں‘ پیرس میں زیر زمین ریلوے بنانے پر 1845ء میں غور شروع ہوا۔ پیرس کو بھی چھوڑ دیجیے کہ وہ تو فرانسیسی بولتے ہیں‘ دہلی زیر زمین کی مثال لے لیجیے۔ دہلی والوں کا رنگ بھی ہمارے جیسا ہے‘ زبان بھی ملتی جلتی ہے اور عادات حسنہ اور عادات قبیحہ میں بھی اشتراک پایا جاتا ہے۔ دہلی زیر زمین ریلوے کی منصوبہ بندی 1984ء میں شروع ہوئی۔ اس کی خاص بات جو ہمارے لیے سبق آموز ہے‘ یہ ہے کہ یہ اصلاً زیر زمین ہے مگر جہاں جہاں ضرورت پڑی اور صورتحال نے مجبور کیا یا اجازت دی تو زمین کے اُوپر بھی چل رہی ہے۔ عدالت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایل ڈی اے اورنج ٹرین منصوبے کی نگرانی کر رہا ہے۔ ترقیاتی اداروں کی جو شہرت ہمارے ہاں عام ہوئی ہے‘ اس کے پیش نظر ایسا کوئی بھی منصوبہ کے ڈی اے یا ایل ڈی اے یا سی ڈی ای کے حوالے کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ دہلی میٹرو کے منصوبے کا تصور دہلی کے ترقیاتی ادارے (ڈی ڈی اے) نے پیش کیا تھا مگر انڈین گورنمنٹ نے اسے ڈی ڈی اے کے حوالے نہیں کیا۔ ایک خاص ادارہ ’’دہلی میٹرو ریل کارپوریشن‘‘ اس مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یکم نومبر 2015ء کے اعداد و شمار کی رُو سے دہلی میٹرو اس وقت ایک سو ساٹھ سٹیشن پر رُک رہی ہے۔ ایک سو بتیس میل اس کی کُل لمبائی ہے۔ ایئرپورٹ کے خصوصی رُوٹ کے علاوہ یہ ریل بنفشی لائن‘ سبز لائن‘ نیلی لائن‘ زرد لائن اور سُرخ لائن کے راستوں پر مشتمل ہے۔ 2002ء میں ابتدا ہوئی تو روزانہ اسّی ہزار مسافر سفر کر رہے تھے۔ 2015ء میں روزانہ کے مسافروں کی تعداد چھبیس لاکھ ہو چکی ہے۔
مزید تفصیلات یہاں بیان کرنا کار لاحاصل ہے۔ دل سلگانے والی بات ہے۔ دہلی سمیت جہاں جہاں زیر زمین ریلوے کے منصوبے بروئے کار لائے گئے‘ ان میں شفافیت تھی۔ جہاں جہاں جمہوریت تھی‘ عوامی نمائندوں کی شمولیت نے اسے سوچا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سالہا سال پہلے ازبکستان جیسے ممالک نے‘ جو ہم سے کئی فرسنگ پیچھے ہیں‘ زیر زمین ریلوے چلا دی جو کامیابی سے چل رہی ہے۔
ہم کب تک صحیح کام غلط طریقوں سے کر کے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جاتے رہیں گے؟ اگر اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جاتا‘ اگر نیّر علی دادا جیسے ماہرین فن کو اوّل دن سے ساتھ رکھا جاتا‘ اگر کار سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لیے متبادل رُوٹ کا بروقت اہتمام کر لیا جاتا‘ اگر ہر معاملے میں حد درجہ شفافیت اختیار کی جاتی تو یہ منصوبہ اس وقت تنقید‘ تردید اور تنقیص کا شکار ہونے کے بجائے تعریف کا مستحق ہوتا۔ مگر شاید ہمارے اہل اقتدار کو عوام کی محبت راس نہیں آتی۔ ہر ممکن کوشش سے ایک ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور پھر وضاحت در وضاحت کا ایک لامتناہی سلسلہ!!    ؎
کھنچیں میر تُجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ہماری تو قُدرت نہیں

Wednesday, January 27, 2016

خوب! بہت خوب!!

سازش اقتدار کی بہن ہے!
یہ دونوں بھائی بہن ہمیشہ مل جل کر رہتے ہیں۔ بھائی خطرے میں ہو تو بہن اس کی مدد کرتی ہے۔ بھائی کا جب بھی بس چلے، بہن کو چُپڑی دیتا ہے اور دو دو! اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازش کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ پھر اقتدار اپنے آپ کو طول دینے کے لیے سازشوں کے جال بچھا دیتا ہے اور جب تک بس چلے، بچھاتا رہتا ہے۔
ساموگڑھ کی لڑائی میں اورنگ زیب اور مراد نے دارا کو مل کر شکست دی۔ کریڈٹ سارا اورنگ زیب کو مل رہا تھا۔ مراد کو کھٹکا لگ گیا۔ دہلی کی جانب بڑھے تو دونوں بھائیوں کی رفتار سست تھی۔ آگے آگے اورنگ زیب کی سپاہ۔ پیچھے پیچھے مراد کا لشکر، اس قدر سست رفتاری کہ متھرا پہنچنے میں بارہ دن لگ گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف۔ ایسے مواقع پر سازش ہمیشہ اقتدار کی مدد کرتی ہے۔ مراد شکار سے واپس اپنی لشکر گاہ کو جا رہا تھا کہ ایک مصاحب نے ’’تجویز‘‘ پیش کی کہ ساتھ ہی اورنگ زیب کا کیمپ ہے دو گھڑی وہاں رک جاتے ہیں۔ گپ شپ ہو جائے گی۔ اورنگ زیب نے چھوٹے بھائی کے مشاغل کا پاس کرتے ہوئے اس کا پسندیدہ مشروب پیش کرایا۔ مراد نیم مدہوش ہوا تو ساتھ والے خیمے میں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ خیمے میں ایک سیم تن زہرہ وش بھی جلوہ گر تھی! دوسرے دن سورج ابھی اپنی کرنیں زمین کی طرف بھیجنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ اورنگ زیب کے لشکر سے تین ہاتھی مختلف سمتوں کو روانہ ہوئے۔ ان کے کجاوے ڈھکے ہوئے تھے۔ جیسے شاہی حرم کے ہوتے تھے۔ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ تینوں میں سے مراد کس پر سوار ہے۔ کسی نے چھڑانے کی کوشش بھی نہ کی۔ مراد کو رہائی اس وقت ملی جب کچھ عرصہ بعد گوالیار کے قلعے میں اس کی روح کو بدن سے رہائی ملی!
ایک برس پہلے اچانک یہ معاملہ ہرطرف کیوں پھیل گیا کہ سپہ سالار کو توسیع ملے گی یا نہیں؟ کیا کچھ حلقے مضطرب ہو رہے تھے؟ کیا توسیع کچھ سروں پر خوف کی تلوار بن کر لٹک رہی تھی؟ کیا سوشل میڈیا پر توسیع کی مہم خودبخود چل گئی؟ کیا کچھ خواب گاہوں میں نیند کی پری غمزہ وعشوہ نہیں دکھا رہی تھی؟ اطمینان حاصل کرنے کے لیے لازم تھا کہ یہ اونٹ درست کروٹ پر بیٹھ جائے؛ چنانچہ بیٹھ گیا۔ عسکری اطلاعات کے محکمے نے واشگاف اعلان کر دیا کہ توسیع کی ضرورت ہے نہ لی جائے گی۔ چلیے! مسئلہ حل ہو گیا۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ شاعر نے معشوق کو کہا تھا   ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی 
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
مطلع صاف ہو گیا ہے۔ کالے بادل چھٹ گئے ہیں۔ اب دور دور تک پھول ہی پھول ہیں۔ خوش رنگ مناظر ہیں۔ سونا سی دھوپ پھیل گئی ہے سرخ پرندے باغ میں اڑتے پھرتے ہیں۔ سکون کی چادر تن گئی ہے۔ اطمینان نے دلوں کو آسودہ کر دیا ہے۔ ہرا ہی ہرا نظر آ رہا ہے۔ مگر کائنات کے اسرار عجیب و غریب ہیں۔ حافظ ظہور الحق ظہور کا شعر یاد آ رہا ہے   ؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِ نہاں کا راز داں کوئی
پینتیس چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے، کالم نگار ایک بس میں بیٹھا راولپنڈی سے واہ جا رہا تھا۔ راستے میں بس رکی۔ ایک سفید ریش بزرگ سوار ہوئے اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہو گئے۔ سامنے ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے ایک اور نوجوان کو ’’نصیحت‘‘ کی کہ تم کھڑے ہوجائو اور اپنی سیٹ باباجی کو دے دو! وہ شریف لڑکا فوراً اٹھا اور بابا جی کو بٹھا دیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے نصیحت کرنے والے نوجوان سے پوچھا۔ آپ نے خود اپنی سیٹ کیوں نہ پیش کی؟ تا ہم اس نے تاثر یہ دیا کہ اسے سوال سمجھ میں نہیں آ رہا۔ سابق صدر سمیت ہر کوئی توسیع قبول نہ کرنے کے فیصلے کی تعریف کر رہا ہے۔ ہر طرف سے خراجِ تحسین پیش ہو رہا ہے۔ ’’فوج ملک کا ایک باوقار اور عظیم ادارہ ہے اور یہ بات بہت ہی بہتر ہے کہ کوئی ملازمت میں توسیع کی روایت کو نہ دہرائے‘‘ یہ وہ حضرات ہیں جو خود اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں، اور دوسروں کے ایثار پر خوش ہو رہے ہیں۔ مانا کہ فوج ایک عظیم اور اہم ادارہ ہے۔ مگر کیا سول سروس ایک عظیم اور اہم ادارہ نہیں؟ ان حضرات کا انپا کیا طرزِ عمل ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے وفاقی محتسب کے آئینی منصب پر جو صاحب تشریف فرما ہیں ان کی عمر کیا ہو گی؟ 75 سے یقینا زیادہ بلکہ اسی کے لگ بھگ! وزیر اعظم کے دفتر میں جو ریٹائرڈ افسر اِس وقت پورے ملک کی افسر شاہی کو کنٹرول کر رہے ہیں انہیں ریٹائر ہوئے دس سال سے کم کیا ہوئے ہوں گے!
صدر جنرل پرویز مشرف نے جب سول کے اداروں کو ’’فوجیا‘‘ دیا تو سول سروس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے، سٹاف کالج لاہور، پر بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل کو بٹھادیا۔ ایک اجلاس میں جہاں بہت سے سول سرونٹس موجود تھے، ان جرنیل صاحب نے پھبتی کسی کہ یہ کیسی سول سروس ہے، جہاں افسروں کو کہا جاتا ہے کہ جہاں تعیناتی کرانی ہے، وہاں سے کہلائو، یعنی کوئی وزیر یا سیکرٹری فرمائش کرے کہ فلاں نام کے افسر کو ہمارے ہاں تعینات کیجیے۔ جرنیل صاحب کو کون بتاتا کہ گیارہ سال جنرل ایوب خان کے، تین سال جنرل یحییٰ کے، پھر گیارہ سال جنرل ضیاء الحق کے اور پھر نو سال جنرل پرویز مشرف کے۔ یہ کل چونتیس برس بنتے ہیں، قیامِ پاکستان کے بعد اڑسٹھ برسوں میں سے پورا نصف عرصہ جرنیلوں کی حکومت رہی، تو پھر بیوروکریسی اگر کھنڈر بن کر رہ گئی ہے تو پچاس فی صد ذمہ داری ان جرنیلوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اس عرصہ میں برسرِ اقتدار رہے اور صرف برسرِ اقتدار نہیں رہے۔ کلی طور سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
فوج کا ادارہ کیوں باوقار ہے؟ اس کی ساکھ کیوں بہتر ہے؟ اس لیے نہیں کہ فوج کو فرشتے چلا رہے ہیں۔ فوج کو چلانے والے بھی پاکستانی ہیں۔ ایک بھائی فوج میں ہے تو دوسرا سول سروس میں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سول سروس والے بھائی کو کہا جاتا ہے کہ تعیناتی کرانی ہے تو کہلوائو۔ پھر اس کی تعیناتی ہوتی ہے تو چار ماہ بعد یا ایک سال بعد یا چند ہفتوں بعد اسے اٹھا کر کہیں اور تعینات کر دیا جاتا ہے۔ گویا وہ لکڑی کا ایک بے جان ٹکڑا ہے۔ جہاں چاہیں رکھ دیں۔ فوجی افسروں کی تعیناتیاں فوج کے جس محکمے کی تحویل میں ہیں۔ اسے ملٹری سیکرٹری برانچ کہا جاتا ہے۔ ملٹری سیکرٹری کے پاس ایک کمپیوٹر پڑا ہے۔ اس میں ہر فوجی افسر کی ماضی کی تعیناتیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ روزِ اول سے لے کر آج تک پورا کیریئر سامنے پڑا ہے۔ اس کے مستقبل کی تعیناتیاں بھی واضح ہیں۔ اگر کمانڈ پوسٹ پر ہے تو آئندہ تعیناتی سٹاف پوسٹ پر ہو گی۔ ملک کے شمالی حصے میں ڈیوٹی دے رہا ہے تو آئندہ تعیناتی جنوبی حصے میں ہو گی۔ اِس وقت نان فیملی مقام پر تعینات ہے تو اس کے بعد اسے ایسی جگہ لگایا جائے گا جہاں وہ فیملی کو ساتھ رکھ سکے۔ کیا سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس سول سروس کے ارکان کے متعلق یہ ساری معلومات موجود ہیں؟ کیا وہ بھی ایک بٹن دبا کر کسی پولیس افسر یا ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کے بارے میں مستقبل کے خطوط بتا سکتا ہے؟ یہاں تو اڑسٹھ سالوں میں یہی نہیں طے ہوا کہ مرکزی سیکرٹریٹ میں فیلڈ سے آنے والے کتنے آیا کریں گے اور کتنا عرصہ رہ کر واپس جائیں گے۔ بھارت میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ فیلڈ سے وفاق کے سیکرٹریٹ میں آ کر کتنے عرصہ کے لیے کام کرنا ہو گا۔
چار کام فوج میں ایسے ہو رہے ہیں جو سول سروس میں ہمارے سیاست دان خاص طور پر وہ سیاست دان جو حکومت میں ہوتے ہیں، نہیں کرنے دیتے۔ اول، فوجی افسر کو جہاں لگایا جاتا ہے، وہاں وہ مقررہ میعاد، دو سال یا تین سال پوری کرتا ہے۔ یہ بات اسے بھی معلوم ہے اور اس سے اوپر والوں کو بھی۔ دوم، تعیناتی کرنے والوں کے پاس ہر افسر کا کیریئر چارٹ موجود ہے جس میں اس کے پورے کیریئر کی منصوبہ بندی درج کی جاتی ہے۔ سوم، فوج میں ترقی(پروموشن) دینے کا ایک منظم طریقہ ہے جو نیچے سے شروع ہوتا ہے اور اوپر تک جاتا ہے۔ اس میں یونٹ سے لے کر ٹاپ تک تمام مراحل ایک طریقِ کار کے مطابق طے پاتے ہیں۔ چہارم، ان تعیناتیوں اور ترقیوں میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جاتی۔
آج فوج کے ادارے کی تعریف کرنے والے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ سول سروس کو کس طرح داشتہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں ایک سو ایک فیصد سفارش اور روابط پر ہوتی ہیں۔ کیریئر پلاننگ کا وجود ہی نہیں۔ کوئی ’’اپنا‘‘ ہے تو اس کا خیال رکھا جائے گا ورنہ وہ جانے اور اس کی قسمت! جنرل راحیل شریف کے فیصلے کو خراجِ تحسین وہ حضرات پیش کر رہے ہیں جو آدھی افسر شاہی کو توسیع کی تاروں سے نچاتے رہے ہیں اور نچا رہے ہیں! خوب! بہت خوب!!

Monday, January 25, 2016

غیرت مند

’’نادرا نے ایک لاکھ تیس ہزار افغان شہریوں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ سالِ رواں میں ایک لاکھ مزید افغانوں کے بارے میں چھان بین کی جائے گی۔ نادرا کے ذرائع سے وصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق افغان باشندوں نے ملک کے طول و عرض میں وسیع کاروبار اور جائیدادیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ اس میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ متعلقہ حکام کو افغانوں کی شناخت میں دقت ہو رہی ہے، تا ہم نادرا نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ موجودہ سال کے دوران ایک لاکھ مزید ایسے افغان دریافت کر لیے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب شناختی کارڈوں کو کمپیوٹرائز کیا جا رہا تھا تو اس وقت پچیس لاکھ افغانوں نے ناجائز ذرائع سے پاکستانی شہریت حاصل کر لی تھی۔ یہ بات وزارتِ داخلہ نے اور ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت( سیفران) نے حکومت کو بتائی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی نشاندہی ہو جائے‘‘۔
یہ عام سی خبر اُن سیکڑوں خبروں میں سے ایک ہے جو آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ سرخی پڑھتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں۔ بہت سے سرخی بھی نہیں پڑھتے۔ کچھ نادرا کا نام دیکھ کر ایسی خبروں کو پڑھنے کے قابل نہیں سمجھتے اور کچھ افغان کا لفظ دیکھ کر کسی اور خبر کی تلاش میں اگلا صفحہ کھول لیتے ہیں۔
دلچسپ ترین حصہ اس خبر کا آخری دو سطریں ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ سیفران نے ’’حکومت‘‘ کو بتایا ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی شناخت ہو جائے گی۔ کون پوچھے اور کس سے پوچھے کہ کیا یہ وزارتیں خود، حکومت نہیں ہیں؟ اور اگر انہوں نے ’’حکومت‘‘ کو بتایا ہے تو ’’حکومت‘‘ سے مراد کیا ہے؟ یہ ہے وہ طریقِ واردات جس سے حکومتِ پاکستان میں کسی کی ذمہ داری کا تعین نہیں ہوتا اور نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے! نادرا وزارت داخلہ کی سلطنت کا ایک حصہ ہے۔ وزارت داخلہ ہی حکومت ہے۔ اب اس نے جس اور حکومت کو بتایا ہے، وہ نہ جانے کون سی ہے؟
ایک گزشتہ کالم میں ہم نے دہائی دی ہے کہ اڑھائی ہزار کلومیٹر کا بارڈر افغانستان کے ساتھ، بارڈر نہیں بلکہ شاہراہِ عام ہے، جہاں سے پچاس ساٹھ ہزار مسلح افراد ہر روز سفری دستاویزات کے بغیر آتے اور جاتے ہیں۔ اس سارے معاملے کا دوسرا شرمناک ترین پہلو وہ لاکھوں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہیں جو متعلقہ محکموں نے کرپشن کی سیڑھی پر چڑھ کر افغان غیر ملکیوں کو پیش کیے ہیں! ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت اور ہزاروں خاندانوں کے اجڑنے کے بعد اس قوم کوبتایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے کہ ان کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ افغانوں نے شہریت حاصل کی ہوئی ہے۔ 
تو کیا اس ’’دریافت‘‘ اور اس اعتراف کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا؟ ناجائز ذرائع کے ذکر سے یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ دستاویزات جاری کرنے والوں نے کرپشن کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ پچیس لاکھ دستاویزات فرشتوں نے آسمان سے پھینکی تھیں؟ یا پاکستانی دفتروں میں بیٹھے ہوئے پاکستانی اہلکاروں نے تیار کی تھیں؟ تیار کرنے والوں کے نام یقیناً دفتروں کے ریکارڈ میں موجود ہوں گے۔ تو کیا اِن مجرموں کو کوئی سزا ملے گی؟ یہ مجرم معمولی مجرم نہیں، یہ غدار ہیں۔ رشوت لے کر غیر ملکیوں کو پاکستانی شہریت دینے والے اِن دوزخیوں نے ملک سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی کم از کم سزا یہ ہے کہ ان کی جائیدادیں ضبط کر کے انہیں پھانسی یا عمر قید کی سزائیں دی جائیں تا کہ آئندہ کوئی اس لعنت کا مرتکب نہ ہو۔
مگر آپ یقین کیجیے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کبھی ہوا بھی نہیں! اس لیے کہ ڈالر اور روپے وصول کر کے دوستوں کے ساتھ، اپنے مقتولین کے ساتھ اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کرنے کے لیے پاکستان پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جب اجمل کانسی کو گرفتار کرنے کے لیے امریکہ نے کانسی کے اُن دوستوں کو، جنہوں نے اُسے چھپایا ہوا تھا، 35 لاکھ ڈالر دیے اور انہوں نے یہ رقم لے کر اپنے دوست کو پکڑوایا تو امریکی وکیل نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ لوگ تو بیس ہزار میں بک سکتے ہیں، انہیں اتنی زیادہ رقم دینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ وہ موقع تھا جب اس وکیل نے وہ تاریخی فقرہ کہا جو ہماری پیشانیوں پر ثبت ہو چکا ہے۔۔۔۔ ’’پاکستانی ایک ڈالر کے لیے اپنی ماں کو بیچ دیں گے‘‘۔
مگر ہم غیرت مند بہت ہیں۔ اِس ریمارک پر ہماری غیرت جاگ اٹھی۔ اس وقت تھامس سائمن اسلام آباد میں امریکی سفیر تھا، اسے وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیا گیا کہ ہماری 
غیرت پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ غالباً اُس نے معذرت بھی کی تھی۔ واشنگٹن میں بھی ہمارے سفارت خانے نے امریکی نائب وزیر خارجہ(انڈر سیکرٹری) سے شکوہ کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ چند برسوں بعد ہمارے ملک کے ایک صدر نے اپنی کتاب میں ببانگِ دہل اعتراف کیا کہ ’’ہم‘‘ نے القاعدہ کے 369 ارکان پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیے اور لاکھوں ڈالر لیے۔ اگر آپ انہیں پکڑ کر اپنے ملک کی خدمت کر رہے تھے تو معاوضہ کیوں لیا؟ اور اگر آپ نے معاوضہ لیا، جس کا آپ تحریری اعتراف کر رہے ہیں، تو پھر گویا آپ دوسروں کے ملازم تھے۔ امریکہ جاگیردار تھا اور آپ اس کے کارندے تھے۔ کارندے جاگیردار کے دشمنوں کو پکڑ کر جاگیردار کے حوالے کرتے ہیں اور معاوضے میں تنخواہ اور انعام پاتے ہیں۔ اور وہ رقم گئی کہاں؟ کیا وہ بیت المال میں جمع ہوئی؟ اگر جمع ہوئی تو کوئی ثبوت؟ نہیں جمع ہوئی تو کس کی جیب میں گئی؟ کیا اِس قوم کی سیاہ بختی کا کوئی کنارا نہیں؟ کہ اُسی سابق صدر کی ’’حفاظت‘‘ پر قوم کی خون پسینے سے حاصل کردہ آمدنی کروڑوں میں خرچ ہو رہی ہے۔ مگر اس کا بھی کیا غم کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا ایک سابق چیف جسٹس، سیاسی جماعت بنا کر اس کا سربراہ بھی بن چکا اور ’’انصاف پسند‘‘ کا یہ عالم ہے کہ بلٹ پروف گاڑی ابھی تک سرکار کی رکھی ہوئی ہے! لاکھوں روپے کی رقم اس کی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک ہر ہفتے اور ہر مہینے خرچ ہو رہی ہے مگر الحمد للہ ضمیر مطمئن ہے!
اجمل کانسی کو فروخت کرنے والے تو چند گنے چنے افراد ہوں گے۔ مگر پچیس تیس لاکھ غیر ملکیوں کو شہریت فروخت کرنے والے تو چند گنے چنے افراد نہیں ہو سکتے۔ یہ تو کم از کم بھی سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گے۔ ان میں سے کثیر تعداد اب بھی نادرا کے دفتروں میں ’’کام‘‘ کر رہی ہو گی! جو ریٹائر ہو چکے، وہ بھی اس ملک کے اندر ہی ہوں گے اور پنشن اور دیگر مراعات سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے۔ مگر انہیں سزا دینے کا سوال اس لیے نہیں پیدا ہوتا کہ ماں اپنی ہو یا مادرِ وطن ہو، اسے بیچنے کی کالک ہمارے چہرے پر ملی جا چکی ہے!
ہم نے کیا فروخت نہیں کیا؟ کیا نوکریاں نہیں بیچی جاتیں؟ کیا تھانے نہیں فروخت ہوتے؟ چیلنج ہے وزیر اعظم کے لیے اور صدرِ مملکت کے لیے کہ بھیس بدل کر، گمنام شہری بن کر کسی کچہری میں جائیں اور کوئی مکان یا کھیت یا پلاٹ رشوت دیے بغیر کسی کے نام پر منتقل کر کے دکھائیں! اب تو محکموں کے نام ’’دبئی سیکشن‘‘ اور ’’کویت سیکشن‘‘ رکھے جا رہے ہیں۔ اب تو ترقیاتی اداروں میں روڈ بنوانے والے محکموں کو ’’گولڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں۔ انتخابات کے ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں فروخت ہوتی ہیں۔ بچے فروخت ہوتے ہیں۔ عورتیں فروخت ہوتی ہیں۔ جسم کے اعضا فروخت ہوتے ہیں۔ وزارتیں فروخت ہوتی ہیں۔ اور تو اور عزتیں فروخت ہوتی ہیں۔ اور انتظار کیجیے اس دن کا جب ولدیتیں بھی فروخت ہونے لگیں۔ 
پچیس لاکھ غیر ملکیوں کو شہریت کی فروخت تو محض نمونے کی فروخت ہے! شعر تو پامال ہو چکا ہے مگر اطلاق اس کا ہم پر مکمل ہو رہا ہے    ؎
دہقان وکشت وجو و خیابان فروختند
قومی فروختند و چہ ارزان فروختند
قوم بیچ ڈالی اور کتنی سستی! ملک بیچا جا رہا ہے اور کتنا ارزاں!!

Sunday, January 24, 2016

چار کاندھوں پر سواری

طاق صفیں 
چار تکبیریں
دائیں بائیں سلام
یہ ہے ساری کہانی!
ابھی ابھی جنازہ پڑھ کر‘ قبر پر مٹی ڈال کر‘ دعا مانگ کر‘ تھکے تھکے بوجھل قدموں سے گھر لوٹنا ہوا ہے۔
کیا یہ ہے زندگی کی حقیقت؟ زندگی‘ جس کے لیے ہاہاکار مچی ہے! جس کے لیے گلے کاٹے جا رہے ہیں! جائیداد کے بٹواروں پر مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں۔ چُھپ چُھپ کر چالیں چلی جاتی ہیں۔ فلاں کو معلوم نہ ہو پائے۔ فلاں کو کچھ نہیں بتانا!
دوست دیرینہ وحید بھٹی کے صاحبزادے کی شادی ایک ماہ پہلے تھی۔ پھول ابھی مرجھائے نہ تھے۔ مبارکبادیں ابھی ختم نہ ہوئی تھیں۔ حجلۂ عروسی ابھی جوں کا توں سجا تھا۔ دلہن کے ہاتھوں پر حنا کا رنگ ابھی بھڑک رہا تھا۔ جوانِ رعنا عفان کمرے میں داخل ہوا۔ لائٹر سے ہیٹر جلایا۔ پورا کمرہ آگ کے شعلوں سے بھر گیا۔ گیس لیک ہو رہی تھی۔ تنصیبات اس ملک میں غیر معیاری ہیں۔ پلگ ہیں یا پائپ‘ بجلی کے بورڈ ہیں یا گیس کے متعلقہ آلات کسی شے پر اعتبار نہیں۔ ٹھپّہ چین کا یا تائیوان کا لگا ہوتا ہے‘ چیز دھرم پورے میں بنی ہوتی ہے۔ انسانوں کی زندگی سے کھیلنا اس ملک میں ایسے ہی ہے جیسے مکھی مچھر کو مار دینا۔ چند سکوں کی خاطر‘ دوائیں جعلی اور غذا ملاوٹ والی بیچی جا رہی ہے۔ گھروں میں پیراسٹامول بنانے کی ’’فیکٹریاں‘‘ قائم ہیں! خدا ہی جانتا ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والا آٹا‘ گھی‘ دودھ‘ مرچ‘ مکھن‘ شہد‘ دہی اصل میں کیا ہیں۔ معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کیا جا رہا۔ دکانوں کے اوپر درود پاک لکھا ہے۔ شکلیں نورانی ہیں‘ وضع قطع‘ دیندار ہے مگر ہوس ایک ہی کہ‘ ہَل مِن مزید! ہم پاکستانیوں پر خدا رحم کرے‘ دروغ گوئی اور عہد شکنی میں ہمارا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ حرمتِ رسول پر جانیں نثار کرنے کے 
لیے تیار‘ مگر اطاعتِ رسول ترجیحات میں ہی نہیں! ہمارا حال تو اب یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے ہیں تو اسلام ساتھ آنا چاہتا ہے مگر ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس محراب کے پاس لے جاتے ہیں۔ اس سے گلے ملتے ہیں اور اسے کہتے ہیں آپ یہیں بیٹھیں۔ پھر ہم مسجد سے تنہا باہر نکلتے ہیں اور جہاں کا رُخ کرتے ہیں‘ بازار ہے یا کارخانہ‘ دفتر ہے یا کھیت‘ سکول ہے یا مدرسہ‘ اسلام کا وہاں عمل دخل نہیں۔ تولنا ہے یا ماپنا ہے‘ فائل نکالنی ہے یا میٹنگ اٹنڈ کرنی ہے‘ مصنوعات ہیں یا زرعی پیداوار‘ رشتہ داروں سے معاملات ہیں یا دوستوں کے حقوق‘ ماں باپ کی خدمت ہے یا اولاد کے حقوق‘ جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنی اغراض کو درمیان میں رکھ کر کرتے ہیں۔ پھر ظہر کے وقت مسجد جاتے ہیں تو اسلام کو وہیں بیٹھا دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ تعلق اسلام سے ہمارا قائم ہے! دھوکا! فریب! کس کو؟ اپنے آپ کو! خدا کو تو دے نہیں سکتے! رہی دنیا تو وہ بھی جان جاتی ہے اس لیے کہ نیکی ہو یا بدی‘ دیانت ہو یا خیانت‘ مالِ حرام ہو یا اکلِ حلال! چُھپتا کچھ نہیں! اگر ہمارے سامنے کوئی مروّت کی وجہ سے یا خوف سے یا وضع داری سے یا مصلحتاً خاموش رہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ہماری اصلیت نہیں معلوم! خدا نے ذہانت اپنی مخلوق میں کسی کی سفارش سے نہیں بانٹی! امرِ واقعہ یہ ہے کہ افسر یا وزیر یا صنعت کار یا جاگیردار جب گاڑی سے گردن اکڑا کر اترتا ہے تو اس کی گاڑی کا دروازہ کھولنے والا نائب قاصد اور اس کا بریف کیس اٹھا کر اس کے پیچھے پیچھے مودب ہو کر چلنے والا ملازم اس کی اصلیت‘ اس کی دیانت‘ اس کے فیملی بیک گرائونڈ‘ اس کی ذہنیت‘ غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے! ہمارے علماء بحث کر رہے ہیں کہ مردے سب کچھ جانتے ہیں یا نہیں‘ پہلے ہم یہ تو مانیں کہ زندوں کو ہمارے بارے میں سب کچھ معلوم ہے اور ملمّع سازیوں سے ہم اپنی رسوائی میں تو اضافہ کر سکتے ہیں عزت میں نہیں!
مقصود ذاتی غم کی تشہیر نہیں! ذات سے غم کائنات کا رُخ کرتا ہے۔ اگر ہم یہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ پہلے اپنی فلاں فلاں ضروریات پوری کر لیں‘ پھر اس کے بعد اہلِ حاجت پر توجہ دیں گے اور اُن ضرورت مندوں کی مدد کریں گے جن کا ہمارے ساتھ تعلق ہے‘ تو ہم احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں! اجل کا بٹ مار (قزاق) تاک میں ہے۔ جسم کا تار جو روح سے جُڑا ہے‘ حد درجہ ناپائدار ہے! اللہ کے بندو! اگر کسی ضرورت مند کو کچھ دینا ہے تو ابھی دو! انتظار کس چیز کا کر رہے ہو؟ آمدنی قلیل ہے تب بھی مہینے میں ہزار یا پانچ سو یا دس یا پانچ ہزار جو بھی کر سکتے ہو مختص کر لو۔ کتنے ہی سفید پوش تمہارے اردگرد عسرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عزتِ نفس انہیں مانگنے کی اجازت نہیں دیتی! کتنے ہی بچے تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ کتنوں ہی کی بیٹیاں استطاعت نہ ہو سکنے کی وجہ سے بالوں میں سیندور کے بجائے چاندی بھرے جا رہی ہیں! چلو مہینے میں ہزار روپے کا سودا سلف ہی کسی مستحق گھرانے کو دے دیا کرو!
سُوٹ مارک اینڈ سپنسر کا ہے یا کنالی کا‘ جوتا ’’کلارک‘‘ کا ہے یا ’’چرچ‘‘ کا ہاتھوں سے بنا ہوا! گاڑی آٹھ سو سی سی ہے یا بی ایم ڈبلیو‘ محل ڈیفنس میں ہے یا باتھ آئی لینڈ میں! جو کچھ بھی ہے خدا نصیب کرے مگر ساتھ نہیں جانے کا!
نظیر اکبر آبادی نے تنبیہ کی تھی؎
کیا کیا جہاں میں اب ہیں ہماری سواریاں
دلچسپ دلفریب ہیں پیاری سواریاں
کس کس طرح کی ہم نے سنواری سواریاں
پر ہم سے کچھ نہ کر گئیں یاری سواریاں
جب چار کاندھے پر ہوئیں بھاری سواریاں
جھک مارتی یہ رہ گئیں ساری سواریاں
دولت حاصل کرنا جرم نہیں! اگر جائز مراحل سے گزر کر آئی ہے اور اس میں سے محروم طبقے کا حصّہ الگ مختص کیا جا رہا ہے اور فیّاضی سے مختص کیا جا رہا ہے تو یہ دولت نعمتوں میں سے ہے۔ ایسی جائز دولت کے لیے محنت کرنا بھی کارِ خیر ہے! مگر حصولِ زر کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا‘ پھر اقربا کے حقوق سے روگردانی کرنا اور اہلِ حاجت کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنا‘ یہ تو دولت کو وبالِ جان بنا دے گا! زرد دھات کی چھینک اور سانپ کی پھنکار دونوں آوازیں ایک ہی لہر پر سوار آتی ہیں اب یہ انسان کی اپنی صوابدید پر ہے کہ اِس آواز کو نرم بشارت میں تبدیل کر لے یا عذاب کی کرخت چیخ میں ڈھال لے!
یہ ملک جس شخص نے دھوتی پوش برہمنوں اور سفید فام متکّبر آقائوں کے جبڑوں سے چھین کر ہمارے حوالے کیا تھا۔ اُس شخص کا رویّہ کیا تھا؟ مرض الموت تھا اور زیارت کے خوشبودار درختوں کا ماحول ! جورابوں کی قیمت پوچھی اور واپس کرا دیں کہ مہنگی ہیں! خدمت گاروں نے لاہور سے باورچی منگوایا کہ شاید قلیل خوراک میں تھوڑا سا اضافہ ہو جائے‘ واپس بھجوا دیا! سرکاری میٹنگ سے پہلے پوچھا گیا کہ چائے پیش کرنی ہے‘ جواب دیا اپنے اپنے گھر سے پی کر آئیں۔ کبھی وہ روداد پڑھیے کہ سرکاری جہاز اور گاڑی خریدنے سے پہلے کیا کیا سوال جواب اور کیا کیا احتیاط نہ کی‘ جیسے متوسط طبقے کا کوئی فرد جیب سے خریداری کرتے وقت کرتا ہے‘ حالانکہ کار کے مالک اُس وقت تھے جب خال خال ہی کسی کے پاس ہوتی تھی‘ دلہن کو رونمائی میں جو رقم دی‘ اُس کا اُس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا! پھر وہ اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوئے اس حال میں کہ سامان میں بیت المال کا ایک پیسہ نہ تھا۔ خیانت تھی نہ دروغ گوئی! مائونٹ بیٹن سے لے کر گاندھی تک ہر ایک کے سامنے وہی بات کی جو دل میں تھی اور جسے صحیح سمجھا! دشمن بھی دیانت اور صدق گفتاری پر الزام نہ لگا سکے!
آج کے رہنمائوں کو بھی دیکھ لیجیے۔ سندھ کے ریگزاروں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک ثروت مندی کے جھنڈے گڑے ہیں! ملکیت اور ملوکیت چار دانگِ عالم میں پھیلی ہے! مگر آہ! پیاس ہے کہ بجھ نہیں رہی!
کیا خبر ان حضرات نے یقین دہانی حاصل کر لی ہو کہ اس خاک دان میں چند ہزار سال قیام فرمائیں گے!

Friday, January 22, 2016

ماتم

ہم گروہوں کی صورت میں آئے۔
ہم گروہوں کی شکل میں مشہد سے آئے۔ نیشاپور سے آئے۔ بخارا اور ترمذ سے آئے۔ شہرِ سبز سے آئے۔ گردیز اور بلخ سے آئے غور اور غزنی سے آئے۔ گیلان اور تبریز سے آئے۔
ہم جہاں سے بھی آئے۔ ہمارے لیے پشاور نے اپنے دروازے کھولے۔ ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹا۔ ہمیں کھانے کو نان اور سونے کو بستر دیا۔ پھر ہم وہاں سے چلے۔ ہم میں سے کچھ لاہور بس گئے۔ کچھ دہلی، کچھ جونپور، کچھ پٹنہ، کچھ لکھنؤ، کچھ دکن۔ ہم نے اٹھارہ گھڑ سواروں کے ساتھ ڈھاکہ فتح کیا۔ ہم آسام گئے، اور آباد ہوئے۔ یہ سارے احسانات پشاور کے تھے۔
پشاور دروازہ ہے جو اب بھی ہمارا تعلق ان سرزمینوں کے ساتھ جوڑتا ہے جو ہم نے چھوڑیں۔ پشاور کھڑکی ہے جس سے ہمیں اب بھی ترمذ، بخارا، گیلان، مشہد اور تبریز کی ہوا آتی ہے۔ جس سے وسط ایشیا کے میدانوں کی دھوپ در آتی ہے۔ جس سے افغانستان کے چھوڑے ہوئے تاکستانوں اور ایران کے چھوڑے ہوئے زعفران زاروں کی خوشبو آتی ہے اور ہم سے اور ہم اس سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔
مگر آہ! پشاور کے ان احسانات کا بدلہ ہم نے کیا دیا؟ خون اور آگ۔ لوہے کی بارش، بارود کے انبار، اسلحہ کی یورش، گولیوں کی بوچھاڑ، مہاجرین کے ہجوم!
کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے جس نے اپنے شہر کو اور صوبے کو یوں چھوڑا کہ پچھواڑے کی دیوار ہی نہیں ہے۔ کیا کوئی ذی ہوش شخص اپنے مکان کو یوں رکھتا ہے کہ عقب کھلا ہو اور جو چاہے، اندر آ کر مکینوں کو قتل کرتا پھرے   ؎
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لیے
یہاں دیوار کیا گرتی، دیوار تو تھی ہی نہیں!
بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزا رتک غیر ملکی روزانہ خیبرپختونخوا میں داخل ہوتے ہیں جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں ہوتیں۔ پاسپورٹ کے بجائے کلاشنکوف ہوتی ہے۔ ویزے کی جگہ بارود ہوتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی اور ملک بھی ہے جس کا سوا دو ہزار کلومیٹر بارڈر دنیا بھر کے مجرموں، دہشت گردوں، ڈاکوئوں، لٹیروں، جاسوسوں کے لیے کھلا ہو؟ مشیرِ خارجہ نے کچھ عرصہ پہلے حسرت کا اظہار کیا کہ درمیان میں دیوار ہوتی! تو پھر دیوار آپ کیوں نہیں بناتے؟ سترسال میں ایک ایک اینٹ بھی لگائی جاتی تو اب تک دیوار چین بن چکی ہوتی۔ بارڈر سے اِس طرف تو آپ کا اپنا ملک تھا۔ آپ جو چاہتے کر سکتے تھے۔ پہریداروں کے لیے برج بنوا سکتے تھے۔ باڑ 
(Fence)
 لگوا سکتے تھے۔ حکمرانوں کے دوروں عیاشیوں، محلات، پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ ہوتے رہے، کھلے بارڈر کی کسی نے فکر نہ کی۔ اب یہ بارڈر دہشت گردوں کے لیے شاہراہِ عام ہے۔ اب ایک نہیں کئی فضل اللہ دن میں کئی بار آتے اور جاتے ہیں۔ 
جو ملک اپنے بارڈر مستحکم نہیں کر سکتا۔ اس کے بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بچوں کے ساتھ ہوا۔ ستر سال ہم نے وزیرستان اور فاٹا میں وہی پالیسی اپنائے رکھی جو گوری چمڑی والے آقائوں نے بنائی تھی۔ ہم نے اِن علاقوں کو راشی افسروں کے سپرد کیے رکھا۔ کروڑوں اربوں روپے پولیٹیکل ایجنٹوں کی صوابدید پر رکھے۔ جو انہوں نے اپنی مرضی سے سمگلروں، خانوں اور ملکوں کو دیئے اور کچھ ادھر ادھر کیے۔ عام قبائلی بیچارہ بنیادی سہولتوں کو ترستا رہا۔ ایک سیاست دان کا لختِ جگر وہاں تعینات کیا گیا جہاں ٹِمبر(عمارتی لکڑی) مافیا سے ہر روز تین لاکھ روپے وصول ہوتے تھے اور یہ سالہا سال پہلے کی بات ہے اور یہ صرف ایک مثال ہے۔ کوئی ہے جو اِس بے زبان قابلِ رحم قوم کو حساب دے کہ اڑسٹھ برسوں میں کتنے روپے پولیٹیکل ایجنٹوں کو دیئے گئے اور کتنے بانٹے گئے؟ اور کس کس کو بانٹے گئے؟ یہ رقوم آڈٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھی گئیں! کیوں؟ کیا یہ ملک جنگل ہے؟ کیا باجوڑ، مہمند،خیبر کے رہنے والے، کیا شنواری اور آفریدی،  وزیر اور محسود اس ملک کے باشندے نہیں؟ مانا وہ اتنے ’’عظیم‘‘ اور ’’سپیریئر‘‘ نہیں جتنے تمہارے لاہور اور کراچی کے باشندے ہیں لیکن اللہ کے بندو! وہ بھی پاکستانی ہیں، وہ بھی مسلمان ہیں، وہ بھی 
اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ تم نے ظلم یہ کیا کہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیں اور قبائلی بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں دیں۔ تم نے اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ دیئے اور قبائلی بچوں کو بندوقیں تھمائیں۔ تم نے اپنے بچوں کو پڑھنے امریکہ بھیجا اور قبائلی بچوں کو بہادر کہہ کر میدانِ جنگ میں جھونک دیا۔ تم نے اپنے بچوں کو بزنس مین بنایا اور قبائلی بچوں کو شہادت کے فضائل سنائے۔ تم نے جہادیوں کی وہ فصل بوئی جو آج آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے بچے کاٹ رہے ہیں۔ تمہیں چیچنیا سے لے کر عراق تک اور فلسطین سے لے کر افغانستان تک، ہر ایک کا غم کھاتا رہا مگر تم نے نہ کیا تو اپنے بچوں کا غم نہ کیا۔ تم نے دیوارِ برلن کے ٹکڑے اپنے قیمتی ڈرائنگ روموں میں سجا لیے مگر آہ! تم کوئی ایسی دیوار نہ بنا سکے جو تمہارے اپنے بچوں کے لیے اوٹ کا کام دیتی۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس پر قربان ہونے والے عساکر کو شہید ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔ انکار کرنے والے اسی سرزمین کی چاندنی، ہوا اور پانی سے حظ اٹھاتے ہیں۔ اس ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قاتلوں کے پھانسی چڑھنے پر واویلا مچتا ہے کہ ’’اسلام پسندوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ پھر واویلا مچانے والے مگرمچھ کے آنسو بہاتے پھرتے ہیں۔ آہ! نفاق! ہائے نفاق! یہ کیسے لوگ ہیں جو اِس طرف ہیں نہ اُس طرف!
مُذَبْدَبِیْنَ بَیْنَ ذٰالِکَ، لَا اِلٰی ھٰٓؤُلائِ وَلَا اِلٰی ھٰٓؤُلائِ
بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔ نہ اِن کی طرف نہ اُن کی طرف۔ مذمت کے لیے کہا گیا تو جواب دیا، یہ فتنوں کا زمانہ ہے۔ مذمت کی بھی تو ساتھ اگر مگر لگا کر۔ دودھ دیا بھی تو مینگنیاں ڈال کر۔ اسی ملک میں، جی ہاں اسی ملک میں ایسے رسائل بھی چھپتے رہے جن میں آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد جو حفاظتی اقدامات کیے گئے اور جو ایکشن لیا گیا اُس پر طنز کیے گئے، حملہ آوروں کا بین السطور دفاع کیا گیا، جی ہاں! اسی ریاست میں کئی ریاستیں بستی ہیں، کئی قانون ہیں۔ اسی ملک میں ایسے لوگ ہیں جو شہیدوں کو ہلاک اور قاتلوں کو مجاہد کہتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں ہیں اور ان ریاستوں کے سربراہ بھی ہیں!!
ماتم کرو! نوحہ خوانی کرو! بال کھول لو! سیاہ لباس پہن لو! سروں پر دو پتھر مارو! سینہ کوبی کرو۔ جو چاہے کر لو، مگر تمہارے بارڈر کھلے رہیں گے۔ غیر ملکی تمہارے شہروں، قصبوں، قریوں، بستیوں میں مسلح ہو کر دندناتے رہیں گے۔ تمہارے رشوت خور بے حیا اہلکار چند سکوں کی خاطر غیرملکیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیتے رہیں گے۔ مادرِ وطن کے دودھ سے غداری کرتے رہیں گے۔ تمہارے اندر وہ لوگ پنپتے اور مسکراتے رہیں گے جو تمہیں کافر سمجھتے ہیں اور تمہارے بچوں کو قتل کرنا اپنا مذہبی فریضہ گردانتے ہیں۔
جس ملک کے بارڈر کھلے ہوں اور جس ملک میں ’’اگر مگر‘‘ کرنے والے لوگ لاتعداد ہوں، اور وفاداریاں بکھری ہوئی ہوں اور تعلیمی نصاب بے شمار ہوں اور باشندے ’’نیکو کاروں‘‘ اور ’’گنہگاروں‘‘ میں بٹے ہوئے ہوں اور حکمران بے نیاز ہوں اور پالیسی سازوں کا وژن ناپید ہو اور سرداروں نے اپنے اپنے قبیلے کو رعایا اور جاگیرداروں نے ہاریوں کی عورتوں کو رکھیل بنایا ہوا ہو، اور لوگ بے سمت بھیڑوں کی طرح الگ الگ پگڈنڈیوں پر چل رہے ہوں، اُس ملک میں یہی کچھ ہو گا اور یہی کچھ ہوتا رہے گا۔

Wednesday, January 20, 2016

نرسریوں کے شوقین

میٹرو بس راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے تو پہلی شاہراہ جو اس کا استقبال کرتی ہے نائنتھ
 (9th) 
ایونیو کہلاتی ہے۔ تقریباً دو تین منٹ کے بعد بائیں طرف قطار اندر قطار نرسریاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ پودوں، پھولوں سے بھری ہوئی! کہیں گملوں کے ڈھیر لگے ہیں، کہیں گاڑیاں کھڑی ہیں، بیگمات پسند کے پودے خرید رہی ہیں۔ ایک وسیع کاروبار ہے۔۔۔۔ پتوکی، ساہیوال اور اوکاڑہ سے اسلام آباد تک پھیلا ہوا۔ پرانے اسلام آباد پر چوریوں، ڈاکوں، پانی کی قلت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں نے پنجے گاڑے تو جو استطاعت رکھتے تھے، ایکسپریس وے کی آبادیوں کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں بحریہ اور عسکری رہائشی کالونیوں میں معیارِ زندگی پرانے اسلام آباد کی نسبت بہتر ہے۔ ساتھ ہی وہاں بھی نرسریاں نظر آنا شروع ہو گئیں؛ چنانچہ جیسے ہی اب ایئرپورٹ چوک سے بحریہ اور ڈیفنس کی طرف بڑھتے ہیں تو دائیں بائیں نرسریوں کی قطاریں شروع ہو جاتی ہیں۔
پھول، پودے، درخت انسانی زندگی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ مجید امجد نے کہا تھا  ؎
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور نغمے ندی تتلیاں گلاب کے پھول
اِس حقیر کا شعر ہے  ؎
پرندے، پھول، پانی گر خوشی سے اذان دے دیں
تو ہم اس باغ میں کچھ دن ٹھہرنا چاہتے ہیں
بابر نے تزکِ بابری میں شکوہ کیا ہے کہ اہلِ ہند کو پھولوں اور پودوں کا شوق نہیں۔ آگرہ میں پہلی’’ہائوسنگ کالونی‘‘جو اس نے بسائی اس کا نام کابل رکھا، پھر باغات لگانے کا سلسلہ شروع کیا جو شاہجہان کے عہد تک جاری رہا! ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستانیوں کو یہ شوق مسلمان بادشاہوں سے ورثہ میں ملا ہے۔ خواتین اس معاملے میں مردوں سے آگے ہیں۔ گائوں ہو یا قصبہ یا شہر، کوشش کرتی ہیں صحنوں اور لان میں سبزہ و گل ضرور نظر آئیں۔
یہ تو عوام کا ذکر تھا مگر خواص بھی پیچھے نہیں۔ بلند مرتبہ خواص کا ایک گروہ سینیٹ میں تشریف فرما ہے۔ ان حضرات کو بھی نرسریوں کا بہت شوق ہے۔ یہ خواص عوام سے مختلف ہیں۔ ان کے شوق اور مشغلے بھی عوام سے الگ ہیں۔ اسی حساب سے ان کی نرسریاں بھی مختلف واقع ہوئی ہیں۔ ان کی دلچسپی ان نرسریوں میں نہیں جہاں عوام پودے اور پھول خریدنے جاتے ہیں۔ یہ بلند مرتبہ خواص، سیاست کی نرسریوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس طبقے کے کچھ حضرات نے سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو مویشی خانوں اور غلے کے گوداموں میں بدل ڈالا۔ یہ حضرات جو سینیٹ میں ہیں، اپنے طبقے کی روایات کی پاسبانی کرتے ہوئے یونیورسٹیوں، کالجوں کو سیاست کی نرسریاں سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہاں سے سکالر، سائنس دان، پروفیسر، ڈاکٹر، ٹیکنالوجی کے ماہرین نکلیں یا نہ نکلیں، سیاست دان ضرور نکلیں۔
گزشتہ ہفتے سینیٹ کے معزز ارکان نے فرمایا کہ ’’طلبہ تنظیموں کی بحالی، مستقبل کی سیاست کی نرسریوں کی ضرورت ہے‘‘۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ ’’طلبہ تنظیموں کا سیاست میں بہت اہم کردار ہے‘‘۔
الحمد للّٰہ! تعلیم کے عالمی میدان میں پاکستان دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہے۔ ٹاپ کی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شاید ہی کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ مشرقِ بعید کے طلبہ بھی پاکستانی یونیورسٹیوں میں آ کر پڑھتے تھے۔ اب ان ملکوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ تعلیمی نہیں سیاسی نرسریاں ہیں۔ سینیٹ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے، تعلیم کے میدان میں جو تنزل کارفرما ہے، اُسے سینیٹ کے خواص نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ غم ہے تو صرف یہ کہ طلبہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تاکہ وہاں سے افرادی قوت آتی رہے اور سیاسی جماعتوں میں داخل ہوکر بلاولوں اور حمزہ شہبازوں کے سامنے دست بستہ کھڑی ہوتی رہے! طلبہ یونینوں کی بحالی کے غم میں دُبلے ہونے والے اِن حضرات میں یہ دم خم تو ہے نہیں کہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا مطالبہ کریں۔ ہاں تعلیمی اداروں کو بد سے بدتر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ فلاں فلاں سیاست دان طلبہ یونینوں کی دین ہیں۔ کون فلاں فلاں؟ معاف کیجیے، ان میں کچھ تو پراپرٹی ڈیلر ہیں، کچھ ہر ہفتے پارٹیاں بدلتے ہیں۔ کچھ پاکستان کے کم اور امریکہ کے زیادہ وفادار ہیں۔ دوسرے ملکوں میں فخر سے یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں یونیورسٹی نے فلاں سائنس دان، فلاں نوبل انعام یافتہ مصنف اور فلاں پروفیسر پیدا کیا۔ فلاں لائف سیونگ دوائی دریافت کرنے والا فلاں یونیورسٹی کا سپوت تھا۔ فلاں سائنسی عجوبہ ایجاد کرنے والا فلاں یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔ یہاں شہنائیاں اس بات پر بجائی جا رہی ہیں کہ فلاں فلاں اوسط درجے کے سیاست دان طلبہ تنظیموں کی پیداوار ہیں۔ اِنّا للّٰہ واِنّا اِلیہ راجعون!
ڈکٹیٹر اگر این آر او کا تحفہ پلیٹ میں رکھ کر دے تو وہ تو قبول کر لینا چاہیے مگر ڈکٹیٹر اگر طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائے تو وہ آمریت کی وراثت ہو جاتی ہے۔
اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی سیاست ختم کب ہوئی؟ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کراچی یونیورسٹی پرکس سیاسی جماعت کا قبضہ ہے، پنجاب یونیورسٹی کو کس سیاسی جماعت نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور دارالحکومت کی یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے؟ نئے آنے والے طلبہ پر کون کس طرح جھپٹتا ہے؟ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے ٹیلی ویژن پر آ کر قوم پر باقاعدہ احسان جتایا کہ ’’ہوسٹل اسی فیصد تو خالی کر دیا گیا تھا‘‘۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ ایک یونیورسٹی میں تقابلِ ادیان کا استاد چاہیے تھا مگر اس شعبے کے لیے اینتھروپالوجی کی ڈگری رکھنے والے شخص کو رکھا گیا اس لیے کہ وہ ’’اپنا‘‘ تھا! گویا میرٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا ہو۔ اسی بنیاد پر بھرتیاں کر کر کے پی آئی اے جیسے قومی اداروں کو نوچا گیا۔ تعلیمی اداروں میں بھی یہی ہوتا رہا اور اب تک ہو رہا ہے۔
کیا کوئی شخص ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے انکار کر سکتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی طلبہ تنظیمیں، سیاسی جماعتوں کے دم چھلے ہیں؟ پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ تک، جماعتِ اسلامی سے جے یو آئی تک، اے این پی سے ایم کیو ایم تک سب کی پراکسی جنگیں یونیورسٹیوں کے میدانوں میں لڑی جا رہی ہیں۔ قائدِ اعظم نے تو کہا تھا:
"Let me give you this word of warning: you will be making the greatest mistake if you allow yourself to be exploited by one political party or another.''
’’میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ اگر تم کسی ایک یا دوسری سیاسی جماعت کے استحصال کا شکار ہوئے تو سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھوگے‘‘۔
پشاور یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:
Do not be exploited and do not be misled.
’’خبردار استحصال کا شکار نہ ہونا، نہ ہی تمہیں کوئی غلط راستے پر لگائے‘‘۔
پھر کہا:
Your main occupation should be, in fairness to yourself, in fairness to your parents, in fairness to the state, to devote your attention to your studies. If you waste away your energies now, you will always regret.
’’اگر تم اپنے آپ سے، اپنے والدین سے اور ملک سے انصاف کرنا چاہتے ہو تو تمہارا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ پوری توجہ تعلیم پر دو۔ اس وقت اگر تم نے اپنی توانائیوں کو ضائع کر دیا تو ہمیشہ پچھتاتے رہو گے‘‘۔
کیا ایوانِ بالا میں تشریف فرما معزز نمائندوں کو معلوم ہے کہ ان کے صوبوں میں خواندگی کی شرح کیا ہے؟ آبادی میں اضافے کا کیا ریٹ ہے؟ کتنے فیصد بیروزگار ہیں؟ ہر سال کتنے افراد سائنس، ٹیکنالوجی اور میڈیسن میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں؟ کن تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی ہے؟ پچھلے تین سال یا پانچ سال کے دوران کتنے کارخانے لگائے گئے؟ کتنی زراعت کو مشینی
 (Mechanised)
 کیا گیا؟ چلیے، یہ تو دور کی باتیں ہیں، کبھی اسی پر بحث کر لیجیے کہ پشاور اسلام آباد، لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں ہر روز کتنی گاڑیاں چوری ہوتی ہیں؟ کتنے ڈاکے پڑتے ہیں؟ دن دہاڑے سڑکوں پر کتنے لوگ لوٹے جا رہے ہیں؟ یہ سب مسائل حل ہو جائیں تو پھر طلبہ کو سیاست دان بنانے کا عظیم الشان فرض بھی سرانجام دے دیجیے گا! ایک صاحب ہو گزرے ہیں، سینیٹ میں بیٹھے ہوئے دانش وروں سے ذرا سے سینیٔر، تھوڑے سے زیادہ عقل مند! نام ان کا سعدی تھا، شیراز سے تعلق رکھتے تھے۔ فرماتے ہیں:
تو کارِ زمین را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی؟
کیا تم نے زمین کے کام مکمل کر لیے ہیں کہ آسمان کو سنوارنے چل نکلے ہو؟

Monday, January 18, 2016

’’انکشاف‘‘

کچے رستے پر لینڈ کروزر آ کر رُکی۔ قیمتی فرنگی سوٹ میں ملبوس ایک خوش شکل نوجوان اترا۔ اس نے باس کی گراں بہا قمیض پہنی ہوئی تھی۔ نکٹائی ریشمی تھی، سمسونائٹ کا چرمی بیگ کاندھے سے لٹکائے تھا۔ اس میں ایپل کا تازہ ترین ٹیکلنالوجی سے بھرپور لیپ ٹاپ تھا۔
ایک طرف پہاڑی تھی، لہلہاتا کھیت جس کی ترائی پر نظروںکو سرسبز تازگی بخش رہا تھا۔ دوسری طرف ندی تھی، خراماں خراماں چھوٹے چھوٹے پتھروں میں راستہ بناتی! پہاڑی اور ندی کے درمیان وسیع سبزہ زار تھا۔ گھاس تھی اور درخت، جن کے ہرے پتے ہوا میں ہلتے تھے تو زمین پر سائے کا قالین بچھ بچھ جاتا تھا۔ بھیڑیں بے خوف پھر رہی تھیں۔ گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے کہا تھا  ؎
کسان دلشاد، کھیت آباد ہیں وہاں کے
سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے
شیشم کے درخت تلے کسان بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ مجید امجد یاد آ گیا  ؎
نخیلِ زیست کی چھائوں میں نَے بلب تری یاد
فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جُو ترا غم
لینڈ کروزر سے اترنے والا خوش پوش نوجوان سبزہ زار پر چلتا کسان کے پاس پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے عجب فیاضانہ پیش کش کی: ’’میں حساب کتاب کر کے تمہیں بتا دیتا ہوں کہ تمہارے پاس کتنی بھیڑیں ہیں، بدلے میں تم سے ایک بھیڑ بطور فیس لوںگا‘‘۔
کسان راضی ہو گیا۔ نوجوان نے لیپ ٹاپ نکالا، کسان کی بچھائی ہوئی چادر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ انگلیاں کی (KEY)
 بورڈ پر مہارت سے رقص کرنے لگیں۔ سکرین پر اعداد و شمار کا ڈھیر لگ گیا۔ دو تین گھنٹوں کی محنتِ شاقہ کے بعد اس نے بھیڑوں کی صحیح تعداد بتا دی اور حسبِ معاہدہ اپنی مرضی کی بھیڑ اٹھا کر لینڈ کروزر کے پچھلے حصے میں لاد دی۔ اب کسان کی باری تھی۔ اس نے پوچھا: ’’میں اگر تمہارے بارے میں بتا دوں کہ تم کون ہو توکیا تم مجھے میری بھیڑ واپس کر دوگے؟‘‘ نوجوان مان گیا۔ کسان نے کہا، تم امریکی ہو۔ تم نے تازہ تازہ ایم بی اے کیا ہے اور تم ورلڈ بینک میں کام کرتے ہو۔ نوجوان حیران ہو گیا۔ پوچھا کیسے معلوم ہوا؟ کسان نے جواب دیا، اس لیے کہ ایک تو تم بن بلائے میری چراگاہ میں گھس آئے، دوسرے مجھے وہ اطلاع فراہم کرنا چاہتے ہو جو مجھے پہلے ہی معلوم ہے، آخر میں بھیڑوں کا مالک ہوں۔ اب مہربانی کر کے میرا کتا واپس کر دو جسے تم نے بھیڑ سمجھ کر اٹھا لیا ہے!
ایک امریکی نے ہم پاکستانیوں کو بھی ایک ایسی ہی اطلاع فراہم کی ہے جو بچے کو بھی معلوم تھی اور اندھے کو بھی نظر آ رہی تھی۔ امریکی کا نام صدر اوباما ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں میں پاکستانی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ ویسے لگے ہاتھوں اگر موصوف یہ راز بھی آشکار کر دیتے کہ سائبیریا روس کے شمال میں ہے اور سعودی عرب کی زبان عربی ہے اور گائے دودھ دیتی ہے تو ہمارے علم میں اضافہ ہو جاتا!
اگر صدر اوباما یہ فرماتے کہ پاکستان جلد ہی عدم استحکام سے نجات حاصل کر لے گا تو یہ ایک غیر متوقع خبر ہوتی اور ہم پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ اوباما کے قبضے میں کوئی مافوق الفطرت ذریعہ ہے جو ایسی حیران کن پیش گوئیاں کرتا ہے یا صدر اوباما خود مستقبل میں جھانکنے کی غیر معمولی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
جس ملک کی سوا دو ہزار کلو میٹر (تقریباً چودہ سو میل) لمبی سرحد سے ساری دنیا کے لوگ کسی روک ٹوک کے بغیر آتے جاتے ہوں، اور روزانہ سفری دستاویزات کے بغیر بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار افراد تک بارود اور ہتھیاروں سمیت بارڈر پار کرتے ہوں، وہاں کے بارے میں کیا صرف صدر اوباما ہی کو معلوم ہے کہ عدم استحکام جاری و ساری رہے گا؟ واہگہ بارڈر پر دھماکہ کرنے والا دہشت گرد افغان سرحد سے در آتا ہے۔ پورا خیبرپختونخوا روندتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور لاہور کے اضلاع کے آر پار منزلوں پر منزلیں مارتا، پاکستان انڈیا بارڈر پر آ کر دھماکہ کر دیتا ہے۔ کوئی عسکری یا سول یا پولیس یا رینجر کی ایجنسی مشکوک جان کر اسے روک نہیں پاتی۔
ماضی قریب میں دارالحکومت کی ایک غیر قانونی آبادی میں ایکشن لے کر مکان گرائے گئے۔ سارے پریس نے خبر دی کہ وہاں افغان خفیہ پولیس کے اہلکار اہل و عیال سمیت مقیم تھے اور ’’ڈیوٹی‘‘ بھی سرانجام دے رہے تھے۔ تین دن صدر اشرف غنی نے اسلام آباد میں گزارے، ان تین دنوں کے دوران بارہ کہو سے لاکھوں ٹیلی فون کالیں افغانستان کی گئیں۔ یہ بارہ کہو وہی جگہ ہے جو ایوان وزیر اعظم سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ فرض کیجیے آپ دارالحکومت کے حکام سے اس بات پر ایک کروڑ ڈالر (روپے نہیں!) کی شرط لگاتے ہیں کہ بارہ کہو، ترنول اور سکیٹر جی 12 کی آبادیوں میں غیر ملکیوں کی تعداد سے یہ حکام مکمل طور پر بے خبر ہیں تو یقین کیجیے ایک کروڑ ڈالرکی شرط آپ جیت چکے، اس لیے کہ اس تعداد کے بارے میں ان حکام کے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم!
کرۂ ارض پر جہاں بھی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے، 
پاکستانیوں کے دل اس خدشے سے لرز اٹھتے ہیں کہ الزام پاکستان پر لگے گا۔ کوئی کہتا ہے طالبان شوری،ٰ کوئٹہ میں ہے۔ ملا عمر کی وفات کی خبر عام ہوئی تو کراچی کا نام خبروں میں آنے لگا۔ تاشفین ملک پاکستان کی نکلی۔ اسامہ بن لادن پاکستان سے برآمد ہوا۔ ہزاروں پاکستانی عساکر اپنے ہی ملک کے اندر شہید ہوگئے۔ کراچی کے کور کمانڈر پر حملہ ہوا۔ صدر پرویز مشرف پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے۔ شوکت عزیز کو مارنے کی کوشش ہوئی۔ میاں نواز شریف، عمران خان، سب کو دھمکیاں دی گئیں۔ مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ آفتاب شیر پائو کئی بار نشانہ بنتے بنتے رہ گئے۔ میاں افتخار الدین کا اکلوتا فرزند دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ بشیر بلور نے جام شہادت نوش کیا۔ پشاور میں مولانا حسن جان اور لاہور میں مولانا نعیمی گولیوں کی نذر ہو گئے۔ درجنوں سنی اور شیعہ علماء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پولیس کے بیسیوں جوان اور جرأت مند افسر اپنے ہی شہروں کی سڑکوں پر خون میں نہلا دیے گئے۔ سکول جلا دیے گئے۔ مزارات کے پرخچے اڑ گئے۔ مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ بازاروں میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی بوٹیاں کٹ کٹ کر ہوا میں اڑیں۔ پشاور سکول میں ڈیڑھ سو افراد کے سروں میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا جن میں غالب اکثریت معصوم بچوں کی تھی۔ عساکر کے نوجوانوں کو مار کر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا۔ سابق وزیر اعظم کا بیٹا اغوا ہو کر بارڈر کے اس پار پہنچا دیا گیا۔ جس ملک میں یہ سب کچھ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اوباما صاحب اپنی طرف سے دور کی کوڑی لائے ہیں کہ یہ عدم استحکام کا شکار رہے گا! واہ جناب صدر اوباما! کیا بات ہے آپ کے اس ’’انکشاف‘‘ کی!
پھر اس حقیقت پر غور کیجیے کہ یہ وہ قوم ہے جس کی آدھی آبادی جنہیں ہیرو سمجھتی ہے، آدھی انہیں مجرم اور قاتل قرار دیتی ہے۔ ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو پاکستان کے شہری ہیں مگر اپنا امیرالمومنین کسی اور کو کہتے ہیں۔ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے فوجی جوانوں کو ایک پارٹی کا رہنما شہید ہی نہیں مانتا۔ ملک کے لاکھوں افراد اس رہنما کے پیروکار ہیں۔ جنوری 2015ء میں دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع ہوا تو ایک رہنما نے برملا کہا کہ حکمران اسلام پسندوں کو پھانسیاں دے رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جن افراد کو مجرم سمجھ کر پکڑنا چاہتے ہیں، ہزاروں تعلیمی ادارے انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ لاہور کے قریب دھماکہ کرنے والے دہشت گرد نے ایسے ہی ایک ادارے میں رات گزاری تھی۔ ملک کے علماء کی نصف تعداد جنہیں مجاہد اور اسلام کے غازی قرار دیتی ہے، علماء کی اتنی ہی تعداد فتویٰ دیتی ہے کہ وہ مجرم ہیں۔ کچھ علما خوف کی وجہ سے منقار زیر پر ہیں، کچھ مصلحتاً اور کچھ اس لیے کہ وہ نظریاتی حوالے سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔
امریکیوں سے زیادہ کسے معلوم ہے کہ پاکستان ایک ایسا گودام ہے جس میں اسلحہ کے ذخائر کے ذخائر موجود ہیں۔ جس ملک کے بازاروں میں راکٹ اور گرنیڈ ٹافیوں کی طرح فروخت ہوتے ہوں، اس ملک میں عدم استحکام نہیں ہوگا توکیا امن کی چاکلیٹ بکے گی؟ وزارتِ داخلہ ہزار سال بھی لگی رہے تو جان نہ پائے کہ ملک میں کتنے لاکھ کلاشنکوفیں ہیں اور کتنے لاکھ ریوالور اور بندوقیں!
مشیر خارجہ نے صدر اوباما کی تردید کی ہے اور ان کی پیش گوئی کو ’’زمینی‘‘ حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ اوپر جو حقائق بیان کیے گئے وہ گویا ’’آسمانی‘‘ حقائق ہیں! یعنی بلی انڈے دیتی ہے، آلو درختوں پر لگتے ہیں۔ ابن انشاء کے بقول بچہ بیٹھا حقہ پی رہا ہے، باپ انگوٹھا چوس رہا ہے! کسان کو تو اپنی بھیڑوں کی تعداد معلوم تھی، ہمیں کوئی بتائے تب بھی نہیں مانتے!

Saturday, January 16, 2016

صحرا میں اذان دے رہا ہوں

سال 1951ء کا تھا۔ پارلیمنٹ مصر کی تھی۔ حکومت شاہ فاروق کی تھی۔ وزارت تعلیم اُس ڈاکٹرطٰہٰ حسین کے پاس تھی جو بچپن میں ایک ڈاکٹر کی نا اہلی کی وجہ سے بصارت کھو بیٹھا تھا۔ جس نے فرانس سے پی ایچ ڈی کی اور تاریخ پر اور عربی کے کلاسیکی اور جدید ادب پر درجنوں نہیں بیسیوں کتابیں تصنیف کیں۔
اُس دن ڈاکٹرطٰہٰ حسین پارلیمنٹ میں آیا اور تقریر کے لیے کھڑا ہوا تو اُس نے ایوان کو بتایا کہ ایک کاغذ اس کے کوٹ کی دائیں جیب میں ہے اور ایک کاغذ اس کے کوٹ کی بائیں جیب میں ہے۔ اس نے ایوان کے ارکان کو حق دیا کہ وہ چاہیں تو دائیں جیب والا کاغذ منظور کر لیں اور چاہیں تو بائیں جیب والا کاغذ پسند کر لیں۔ دائیں جیب والے کاغذ پر تجویز تھی کہ مصر میں پرائمری تعلیم مفت کر دی جائے۔ بائیں جیب میں اس کا استعفیٰ تھا۔ ایوان نے مفت پرائمری تعلیم کی تجویز منظور کر لی۔ آنے والے وقت میں اسے میٹرک تک بڑھا دیا گیا۔ نابیناطٰہٰ حسین نے قرآن پاک پڑھانے والے مدارس کو پرائمری تعلیم کا کام بھی سونپ دیا۔ سکولوں کو کالج اور کالجوں کو یونیورسٹیاں بنایا۔ کئی نئی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ آج مصریوں کی اکثریت کو جانے معلوم ہے یا نہیں کہ طٰہٰ حسین نے ستر سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں مگر مصری یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہر مصری بچہ بستہ اٹھائے سکول جا رہا ہے توطٰہٰ حسین کی وجہ سے جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بیان کے مطابق پرائمری سکول جانے والی لڑکیوں کا تناسب اس وقت 99.2 فیصد ہے۔ 98.9 فیصد بچے اور بچیاں پرائمری سکول کے آخری درجے تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو جا تی ہیں۔ 71 فیصد بچے اور بچیاں سکینڈری سکول کی تعلیم مکمل کر رہے ہیں!
مصریوں کو یہ سہولت تھی کہ ان کے ملک نے انگریزی زبان کا ہیٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ ہمارے ہاں یقینا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ لاکھوں بچے پرائمری سکولوں میں نہیں جا رہے۔ پتیلے اور دیگچیاں مانجھ رہے ہیں۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹے کپڑے اور ہاتھ کالے کر رہے ہیں یا گھروں میں صاحبوں اور بیگمات کی جھڑکیاں اور بعض اوقات تشدد سہہ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بڑا ضرور ہے مگر بنیادی نہیں! اصل مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کی پوٹلی قوم کے کاندھے سے کیسے اتار جائے؟
اس کا حل یہ نہیں کہ سپریم کورٹ یا حکومت کہہ دے کہ کل سے اردو زبان کا نفاذ ہو جائے یا ہو جائے گا۔ فرمایا تو قائد اعظم نے بھی تھا کہ ملک کی زبان اردو ہو گی۔ مگر کیا ان کے کہنے سے ہو گئی؟ نہیں! اس لیے کہ بیورو کریسی حائل ہے اور بیورو کریسی کو کنٹرول کرنے والے سیاست دانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے نہ بیورو کریسی کے حربوں کا مقابلہ کر سکتی ہے! ریاست یا حکومت کے سربراہ کے اردو میں تقریر کرنے پر بغلیں بجانے والے سادہ دل اردو دوست یہ نہیں جانتے کہ اردو کے نفاذ کا مطلب وفاقی اور صوبائی حکومت کے دفتروں اور خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں فائلوں پر سارا کام اردو میں کرنا ہے۔ اس کام کی نزاکتوں اور باریکیوں سے وزیر اعظم آشنا ہیں نہ ان کے وزراء۔ نتیجہ یہ ہے کہ چند ماہ پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر اردو کے نفاذ کا جو غلغلہ برپا ہوا تھا، وہ حکومتی ناواقفیت اور بیورو کریسی کی لاپروائی کی دھول میں گم ہو چکا ہے! ہوا میں اڑتے ہوئے مٹی کے چند ذرات کے سوا پیش منظر پر کچھ بھی نہیں نظر آ رہا!
ہمارے محترم دوست اور سینئر جناب عرفان صدیقی کی قلمرو گزشتہ ہفتے وسیع سے وسیع تر کر دی گئی ہے۔ ان کی سلطنت میں اب تمام ادبی، تحقیقاتی، تاریخی اور لسانی اداروں کی اقلیمیں شامل ہو گئی ہیں۔ عرفان صدیقی کی مرصع اور مسجع اردو کی ایک دنیا رطب اللسان ہے الفاظ پر ان کی حکمرانی ہے اور فقروں کو نوک قلم سے زر وسیم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ شاعر تُھڑ دلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے نثر نگاروں کی تعریف کم ہی کی ہے۔ حافظؔ نے تو شاعری میں بھی اپنی ہی کی  ؎
غزل گفتی و دُر سفتی، بیا و خوش بخوان حافظؔ
کہ برنظم تو افشاند فلک عقدِ ثریا را
حافظ! تو نے غزل کیا کہی، موتی پرو دیے۔ اب آ کر خوش الحانی سے سنا اس لیے کہ آسمان، ثریا کا ہار تیری شاعری پر قربان کرتا ہے۔
ظفر علی خان نے خواجو کرمانی کی غزل گوئی کو خراجِ تحسین پیش کیا  ؎
تو غزل خوانی پہ آ جائے تو ہے خواجوئے وقت
زلفِ عنبر بار سے کژدم بکھیر، اژدر نکال
ہاں! حسرت موہانی نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا  ؎
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرتؔ میں کچھ مزا نہ رہا
کیا عرفان صدیقی یہ بھاری پتھر اٹھائیں گے؟
اس وقت کابینہ میں وہ واحد رکن ہیں جو اردو کے ادیب ہیں۔ وہ اس پیڈسٹل پر بیٹھے ہیں جو افسر شاہی کی مسندوں سے بلند تر ہے۔اُن کے پاس اختیار ہے، اقتدار ہے۔ وزیر اعظم کا کان ان کے نزدیک ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستانی نوکر شاہی کے دو پُرزے بیٹھے ہوں تو سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ سائل کی موجودگی میں اسی سائل کے کیس پر انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تا کہ برتری قائم رہے اور سائل رکاوٹوں کی نوعیت نہ سمجھ پائے۔ غریب اور ان پڑھ شخص کا بیٹا پائلٹ بنا تو باپ نے حسرت بھرے لہجے میں پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہو گا کون سا جہاز اس کا بیٹا اڑا رہا ہے۔ بیٹے نے کہا وہ باپ کے مکان پر بم گرائے گا تا کہ جان جائے۔ انگریزی سے ناآشنا عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات ہڑپ کرنے والے اہلکار، انہی عوام پر انگریزی کا رعب جھاڑتے ہیں! تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
مقتدرہ قومی زبان کو قائم ہوئے عشرے گزر گئے۔ تین سال بعد اس کے قیام کو چالیس برس ہو جائیں گے۔ اس نے سارا بنیادی کام کر لیا۔ معروف ادیب اس کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی، جمیل جالبی، افتخار عارف، پروفیسر فتح محمد ملک، دوستِ دیرینہ ڈاکٹر انوار احمد، سب لائق فائق لوگ تھے۔ اردو زبان و ادب کے اساتذہ اور رہنما! ہر ایک نے بساط بھر حصہ ڈالا۔ تراجم ہوئے۔ کتابیں چھپیں۔ مگر بیورو کریسی کے بیل کو سینگوں سے پکڑنا اور بات ہے۔ یہاں وفاقی سیکرٹری تو دور کی بات ہے، سیکشن افسر اپنے آپ کو پروفیسروں، پی ایچ ڈی ڈاکٹروں اور دیگر اہلِ علم پر فائق گردانتا ہے۔
اصل مسئلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے معاملات طے کرنا ہے۔ ان معاملات کی تفصیل یہ کالم نگار روزنامہ دنیا کی سترہ ستمبر 2015ء کی اشاعت میں بیان کر چکا ہے۔ جناب عرفان صدیقی مقتدرہ قومی زبان کے ادارے کا اس انداز میں احیا کریں اور کرائیں کہ یہ کمیشن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور افسر شاہی کے دیگر ارباب قضاو قدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ پہلے مرحلے میں مقابلے کے مرکزی امتحان (سی ایس ایس) میں اردو کا مضمون اسی طرح لازمی قرار دیا جائے جس طرح انگریزی زبان کا ہے۔ دوسرے مرحلے میں سارا امتحان اردو یا انگریزی دونوں میں دینے کا آپشن ہو۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں سارا امتحان اردو میں ہو مگر ساتھ ہی انگریزی جانچنے کا کڑا امتحان ہو تا کہ سول سرونٹس انگریزی پر اسی طرح دسترس رکھتے ہوں جیسے اردو پر۔ بیورو کریسی میں اِس وقت ڈاکٹر وحید احمد، یاسر پیرزادہ اور شکیل جاذب جیسے مستعد افسر موجود ہیں جو اردو زبان و بیان پر مہارت رکھتے ہیں۔ نفاذِ اردو کے تقاضوں سے آشنا ہیں اور اپنے قبیلے یعنی افسر شاہی سے نمٹنے کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔
یہ فقیر تو یہی صدا لگا سکتا ہے کہ  ؎
خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشترکہ بانگ برآید فلان نماند
سلیم احمد یاد آ رہا ہے  ؎
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں

Friday, January 15, 2016

پروفائل

ٹرین کراچی سے روانہ ہوئی، ہم دو تھے، دونوں رفقائے کار(کولیگ) اور دوست بھی! غالباً لاہور اور راولپنڈی کے درمیان کوئی سٹیشن تھا۔ شام ڈھل چکی تھی اور رات اپنا بستر کھول رہی تھی۔ رفیقِ کار نے کہا ’’تم بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ میں کچھ توجہ کتاب پر مرکوز کرتا جو جھولی میں کھلی پڑی تھی اور کچھ پلیٹ فارم کی چہل پہل دیکھتا۔ اچانک خیال آیا کہ باہر نکلوں اور ٹانگیں سیدھی کروں جو بیٹھے بیٹھے اکڑ سی گئی تھیں۔ ٹہلتے ٹہلتے کیا دیکھتا ہوں کہ ہم سفر ایک سٹال پر کھڑا کھانا کھا رہا ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس کی پشت میری طرف تھی۔ جو بات نوٹ کرنے والی تھی یہ تھی کہ وہ ایک حیرت انگیز سرعت کے ساتھ کھا رہا تھا۔ میں الٹے پائوں واپس آ کر نشست پر بیٹھ گیا۔ ٹرین نے وسل دی تو وہ واپس آیا۔ اُس نے ذکر کیا نہ ہی میں نے آنے والے تین عشروں کی رفاقتِ کار کے دوران جتایا، تا ہم اُسی وقت اُس کا ایک پروفائل ذہن میں بن گیا۔ گھر کی اٹھان اچھی ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔ جو تنگ دل نہ ہو وہ کہتا ہے اٹھو یار کچھ کھا پی لیں، یا سٹال سے کھانا لے آتا ہے۔ جبھی تو فرمایا گیا کہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ محمد اسد اسلام قبول کرنے کی داستان میں لکھتے ہیں کہ فلسطین میں سفر کر رہے تھے۔ ریل رُکی تو سامنے بیٹھا ہوا بدو پلیٹ فارم سے روٹی لے کر آیا۔ اس کے دو حصے کیے۔ ایک محمد اسد کو پیش کیا۔ یورپ کے رہنے والے اسد کے لیے یہ رویہ نیا اور عجیب تھا۔ لینے میں ہچکچاہٹ کی تو بدو نے کہا تم بھی مسافر ہو، میں بھی، تو تردد کیسا؟ یہ پہلا دروازہ تھا جو اسد کے دل میں عربوں کی طرف، یا یوں کہیے کہ اسلام کی طرف کھلا!
رفیقِ کار کا پروفائل اس واقعہ سے ذہن میں خود بخود بن گیا۔ رفاقتِ کار کے اگلے تین عشرے اس پروفائل کی تصدیق کرتے رہے۔ کھانا ہمیشہ اس قدر سرعت سے کھاتے کہ یا وحشت! ماتحتوں کو نوکری سے نکال کر فاتحانہ مسرت محسوس کرتے۔ یہاں صرف اِن دو پہلوئوں کا ذکر ہی کافی ہے!(باقی زیر تعمیر خود نوشت میں!!) تو پھر کیا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ مزاج، شخصیت اٹھان، تربیت، فیملی بیک گرائونڈ، جینز
(Genes)
، یہ سب کچھ ظاہر سے نہیں معلوم کیے جا سکتے۔ خوش قامتی، خوش لباسی، چہرے کی معصومیت، دل کشی، بجا، مگر یہ تو معاملات ہیں جو اٹھان، تربیت، خاندانی پس منظر اور جینز کی اصل حقیقت واشگاف کرتے ہیں۔ مجبوری میں بھی دستِ سوال دراز کرنے میں ہچکچاہٹ، ملازموں کے خورونوش کا خیال، ماتحتوں پر اتنی ہی شفقت جتنا اوپر والوں کا احترام، مری کے رہنے والے خاندانی پس منظر کا بیان کرتے وقت کہا کرتے ہیں کہ سیب کے درخت پر سیب ہی لگیں گے۔ فردوسی نے محمود غزنوی پر یہی تو طنز کیا تھا    ؎
اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تا بزانو بُدی
بادشاہ کی ماں اچھے خاندان کی ہوتی تو بادشاہ مجھے اس قدر نوازتا کہ سیم و زر گھٹنوں تک ہوتا!
تخت و تاج اور لباسِ فاخرہ کا تہذیب اور شائستگی سے کیا تعلق؟ سقراط کے سامنے ایک شخص، خوبرو، خوش لباس، اتراتا ہوا آیا تو سقراط نے کہا کچھ بولیے تا کہ آپ کی قابلیت معلوم ہو۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے کہ پطرس بخاری نے کیا کہا تھا۔ پطرس دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ ایک صاحب آئے پطرس نے اوپر نگاہ کیے بغیر کہا تشریف رکھیے، ملاقاتی نے کہا ’’میں ایم این اے ہوں‘‘ پطرس کام کرتے رہے اور کہا: ’’تو پھر آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیے‘‘!
گفتگو کی سواری دوسری سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ مہار کھینچتے ہیں اور اصل موضوع کو پلٹتے ہیں۔ پروفائل ملکوں کا اور قوموں کا بھی بنتا ہے۔ ظاہری حسن، بڑے بڑے منصوبے، دمکتی وسیع شاہراہیں، ساحلوں پر جلوہ افروز محلات، نہروں کے کنارے خوش نما وسیع رہائش گاہیں، حکمرانوں کا تزک و احتشام۔ یہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود، قوم کی ذہنی پختگی، ملک کی ترقی، اِس ظاہر پر انحصار نہیں کرتی! جدہ، رباط، قاہرہ، دوحہ، تاشقند، اشک آباد، لاہور اور کراچی کے محلات قابل رشک ہیں۔ ایسے کہ اوباما اور ڈیوڈ کیمرون کیا، ملکہ الزبتھ کے نصیب میں بھی نہیں، مگر ان میں سے کسی ایک ملک میں بھی رول آف لا ہے نہ فرد کی عزت یقینی ہے۔
ہمارے ملک کا پروفائل کیسا ہے؟ عالی قدر ہے یا اسفل؟ بلند مرتبہ ہے یا پست؟ آسمان کی طرف جا رہا ہے یا کھائی کی طرف؟ چہرہ تابناک ہے یا اس پر نحوست صاف دکھائی دے رہی ہے؟ گزشتہ ہفتے ہمارا ملکی پروفائل لاہور میں ایک بار پھر منظرِ عام پر آ گیا۔ ہمارے سربراہِ حکومت کے صاحبزادے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیرونِ ملک سے لاہور پہنچے۔ وی آئی پی لائونج کے راستے لفٹ میں داخل ہوئے تو بجلی بند ہو گئی۔ لفٹ جہاں تھی، وہیں رک گئی۔ آپ کا کیا خیال ہے شہزادے کو کتنی دیر لفٹ میں رکنا پڑا؟ گھنٹہ؟ آدھا گھنٹہ؟ نہیں، پانچ منٹ نصف جس کے اڑھائی منٹ ہوتے ہیں! پھر کیا ہوا؟ سول ایوی ایشن حکام کی، اخباری زبان میں، دوڑیں لگ گئیں۔ کچھ جنریٹروں کی طرف لپکے، کچھ نے یو پی ایس کے گوڈے گٹے پکڑے، لفٹ چلائی گئی، صاحبزادے اور اہلِ خانہ باہر نکلے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ اُس کے بعد تین واقعات رونما ہوئے۔ اول، صاحبزادے نے موقع پر عملہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ دوم، مشیر برائے ہوا بازی نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔ سوم، اس واقعہ پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
اب یہاں ایک عام شہری کے پست اور تخریبی ذہن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ اول، صاحبزادے نے عملے پر شدید برہمی کا اظہار کس حیثیت سے کیا؟ اُن کے پاس سرکاری عہدہ ہے نہ سیاسی منصب۔ وہ ایک شہری ہیں، کیا کوئی اور شہری برہمی کا اور وہ بھی شدید برہمی کا اظہار کر سکتاہے؟ دوم، بجلی بند ہونے کی ذمہ داری ایئر پورٹ کے افسروں یا کارکنوں پر کیسے عاید کی جا سکتی ہے؟ برہمی کا نشانہ انہیں بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ صاحبزادے کو اس برہمی کا اظہار اپنے بزرگوں پر کرنا چاہیے تھے جو تین دہائیوں سے صوبے پر حکمرانی کر رہے ہیں، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کی قدرت رکھتے رہے ہیں اور اب بھی یہ قدرت ان کے پاس ہے۔ اس طویل عرصہ میں وہ اتنا بھی نہیں کر سکے کہ کم از کم ایئر پورٹوں، ہسپتالوں، ریلوے سٹیشنوں اور تعلیمی اداروں میں برقی رو کا تعطل نہ ہونے پائے۔ سوم، عوام اس صورت حال سے ہر روز کئی بار گزرتے ہیں۔ کاش! صاحبزادے کو شعری ذوق ہوتا کہ بقول میرؔ   ؎
اس سے راہِ سخن نکلتی تھی
شعر ہوتا ترا شعار اے کاش!
تو عوام ان کی خدمت میں ڈرتے ڈرتے عرض کرتے    ؎
اے شمع! تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
چہارم، اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بجلی بند ہونے سے ڈیڑھ گھنٹہ تک کام متاثر ہوتا رہا اس دوران جنریٹر بھی نہ چلے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔ تین پروازوں کے مسافر سینکڑوں کی تعداد میں ہوں گے! کیا مشیر ہوا بازی نے اس کی بھی رپورٹ طلب کی؟ اور کیا اس حوالے سے بھی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی؟ نہیں! یقینا نہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تہذیب سے دور ہیں۔ مہذب وہ نہیں ہوتا جو امیر ہو، مہذب وہ ہوتا ہے جو قانون کا پابند ہو۔ خواہ وہ فرد ہو یا قوم یا ملک! لاکھوں کروڑوں مسلمان، سروں پر بستر اور کاندھوں پر پوٹلیاں رکھے جن ملکوں کی طرف قافلہ در قافلہ، ہجرت کر رہے ہیں، ان ملکوں کے پروفائل میں ذرائع روزگار کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ قانون کی حکمرانی ہے، رول آف لا ہے۔ ان ملکوں میں سربراہ حکومت یا سربراہِ ریاست کا صاحبزادہ عملے پر برہمی جھاڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا! وی آئی پی لائونج اگر ہو بھی تو، استعمال کرنے کا مجاز نہیں۔ ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر وی آئی پی لائونج، ایئر لائنوں کے ہیں۔ آپ کے پاس بزنس کلاس یا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ ہے تو استعمال کر سکتے ہیں۔ یا قیمت ادا کیجیے اور لائونج استعمال کیجیے۔ ان ملکوں میں مشیر اور وزیر، رپورٹ اس لیے طلب کرتے ہیں اور ان ملکوں میں انکوائری کمیٹیاں اس لیے تشکیل پاتی ہیں کہ عوام کو کیوں زحمت اٹھانا پڑی؟ تین پروازیں تاخیر کا کیوں شکار ہوئیں؟ ان 
ملکوں میں، ایسا ہو جائے تو مسافروں سے معذرت کی جاتی ہے۔ جاپان میں ٹرین تین منٹ تاخیر سے پہنچی تو ایک ایک مسافر سے فرداً فرداً معافی مانگی گئی۔ یہ ہے تہذیب! یہ ہے شائستگی! یہ ہے پروفائل کی تابناکی! شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی خاندانی بادشاہتوں میں اور پاکستان کے مقتدر خاندانوں کی بادشاہت میں کیا فرق ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سندھ میں شاہی خاندان کی صاحبزادیاں ووٹ ڈالنے نکلتی ہیں تو پروٹوکول عروج پر ہوتا ہے۔ راستے مسدود کر دیئے جاتے ہیں۔ گاڑیوں کے میلوں لمبے قافلے جلال و جمال دکھا رہے ہوتے ہیں۔ بلیاں جہازوں پر سوار ہیں۔ ان کے لیے گاڑیاں الگ مخصوص ہیں۔ پنجاب میں پانچ منٹ لفٹ میں رہنا پڑا تو غلام ہر طرف بھاگنے لگ گئے اور یوں لگا جیسے صحرا میں اچانک بگولوں کا رقص شروع ہو جائے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور جمہوریت ہے تو احمق ہے ، گائودی ہے۔ جمہوریت آپ کے قریب ہے، بس اگلے موڑ پر رکی کھڑی ہے۔ ان خاندانی بادشاہتوں سے جان چھڑائیے تو جمہوریت آگے بڑھے۔ پروفائل کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں جھانکا جا سکتا ہے۔ یہ پروفائل ہی تو تھا جس کی بنیاد پر عقل مندوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اقتصادی راہداری میں ضرور رخنہ اندازی ہو گی، گند پڑے گا، سو پڑا۔ جب استاد بچے کو کہتا ہے کہ تم امتحان میں پٹ جائو گے تو اس کے سامنے بچے کا پروفائل ہوتا ہے ورنہ اسے طالب علم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ امریکہ میں پروفائل تھیوری سے بڑے بڑے سیریل قاتل پکڑے جا رہے ہیں۔ مجرم کا پروفائل تیار کیا جاتا ہے۔ وہ پروفائل جس پر منطبق ہو جائے، وہ پکڑا جاتا ہے۔ آپ ایمرجنسی میں جن چند مخصوص دوستوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں، ان کا پروفائل آپ کے ذہن میں ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہنچ جائیں گے۔ جن سے آپ رابطہ نہیں کرتے، ان کا پروفائل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے، رابطہ نہ کیجیے۔!
ہمارا موجودہ ملکی پروفائل بتا رہا ہے کہ صاحبزادوں اور صاحبزادیوں پر مشتمل ایک اقلیت اس ملک سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ عوام ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پروفائل تبدیل کرو! اللہ کے بندو! ملک کا پروفائل بدلو۔ اس سے پہلے کہ شہزادوں اور شہزادیوں کی تیسری نسل تمہاری گردنوں پر سوار ہو جائے!

Wednesday, January 13, 2016

وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ

ان میں سے اکثر نے عمران خان کو دیکھا‘ نہ کبھی ملے۔
ان کی جیبوں میں دنیا کے بہترین ملکوں کے پاسپورٹ ہیں۔ ان ملکوں میں سکیورٹی ہے۔عزتِ نفس ہے۔ پولیس ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ آگے بڑھنے کے لیے سفارش درکار ہے نہ خوشامد! رہنے کے لیے صاف ستھرے‘ دیدہ زیب شہر، میلوں ڈھونڈ لیجیے کوڑا کرکٹ نظر نہ آئے۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ نوجوان اس فکر میں غلطاں ہیں کہ آبائی ملک کی قسمت بدلے اور اس غم میں پریشان کہ خود غرضی ملک کو نوچے جا رہی ہے۔ بحرالکاہل کے مشرقی کنارے آباد وینکوور سے لے کر، کرۂ ارض کے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ان نوجوانوں کو تحریک انصاف کی روشنی کے سوا اُفق پر کچھ نہیں دکھائی دیتا! جس ملک میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا صدر ملک سے باہر پڑائو ڈالے ہو، اس کی زندگی کا مقصد کرپشن کے مقدمات کو ہوا میں اڑانا اور ڈاکٹر عاصموں اور ایانوں کو بچانا ہو اور دوسری پارٹی پر قابض خاندان اپنے بزنس کو فوقیت دیتا ہو، وہاں اگر ان تارکینِ وطن کو عمران خان کے سوا روشنی کی اور کوئی کرن نظر نہ آتی ہو تو کیا کریں؟ دو دن پہلے ہی ایک کالم نگار نے خبر دی ہے کہ سرکاری دوروں میں اعزہ و اقربا ساتھ ہوتے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ شوگر مافیا، اقتدار کے کاندھے پر سوار، بزنس ایمپائر کو ’’برآمد‘‘ کرنے میں لگا ہے۔
میلبورن سے پرتھ کا سفر عناصر کی بے تاج بادشاہی دکھا رہا تھا۔ زمین کا جنوبی کنارہ، پانیوں پہاڑوں اور ریگستانوں کی حکمرانی! جہاں انسان بے کنار وسعتیں دیکھ کر پروردگار کی قوتِ تخلیق پر حیران ہوتا ہے۔ برسوں پہلے کا صومالیہ کا سفر یاد آ گیا۔ اُن دنوں ہمارے عساکر، اقوامِ متحدہ کی طرف سے صومالیہ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مزدوری کی نوعیت ایسی تھی کہ جانا پڑا۔ سی ون تھرٹی جہاز نو گھنٹے اڑتا رہا۔ جھاگ اور ریت کی کائناتیں! کہیں دلدلیں تو کہیں بادلوں کو چیرتے کہستانوں کے نوکیلے کنارے! اور موگادیشو کیا تھا! جھونپڑیوں اور کچے پکے کوٹھوں پر مشتمل ایک بڑا گائوں!
پرتھ ااور میلبورن کے وقت میں تین گھنٹوں کا فرق ہے! بادل نیچے تھے اور اڑن کھٹولا اُوپر، ہوا میں اڑتے قالین پر شعر یاد آتے رہے   ؎
ہوا میں تخت اڑتا آ رہا ہے اُس پری رُوکا
محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے
کہیں دُور سے اُڑ کر اک غالیچہ آتا ہے
یا شہزادہ یا لال پری، کوئی آئے گا!
پرتھ پہلے بھی دو بار جانا ہوا مگر اِس بار نوجوانوں سے گفتگو کر کے شکیب جلالی یاد آ گیا   ؎
یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا
معین ارشد‘ عمر شیخ اور عثمان سے تو ایک عرصہ سے رابطہ تھا، عمیر چوہدری سے بھی ملاقات ہوئی جو انتہائی متحرک نوجوان ہے۔ یہ نوجوان پاکستانیوں کے ایک بڑے اور مؤثر گروہ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں او رتنظیمی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے کے طفیل انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا بھی کر رکھا ہے۔ یہ نوجوان مضطرب ہیں، بے چین ہیں۔ ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ آنکھیں اُس پاکستان کو دیکھنا چاہتی ہیں جہاں احتساب ہو اور بے لاگ ہو۔ یہ اُس نظام کو لانا چاہتے ہیں جس میں نوجوان ملک سے ہجرت نہ کریں بلکہ بیرونِ ملک سے وطن واپس آئیں۔ تحریکِ انصاف سے اور عمران خان سے ان کی رشتہ داری ہے نہ کوئی غرض! انہوں نے عہدے لینے ہیں نہ الیکشن لڑنے ہیں۔ انہیں صرف یہ لگن ہے کہ وہ اور ان کے بچے ترقی یافتہ ملکوں کے جس ماحول میں رہ رہے ہیں، تمام پاکستانیوں کو ملک کے اندر وہی ماحول ملے۔ان کی گفتگو میں تلخی بھی تھی اور شکوے بھی، وزیرستان کے حضرت حسین نے قبائلی علاقوں کے جو آنکھوں دیکھے واقعات سنائے، افسوسناک تھے! جس بے رحمی سے ملک کے وسائل ایک چھوٹا سا طبقہ لوٹ رہا ہے، وہ اِن نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک حقیقت ہے۔ پارٹیوں پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ خاندان کیا ہیں؟ کوئی بزنس مافیا ہے، 
کوئی صنعت کاری کی سلطنت ہے، کچھ مذہب کو استعمال کر کے بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمران خان میں ان نوجوانوں کو امید نظر آ رہی ہے۔ کے پی میں، ان کے بقول، تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان پر اقربا پروری کا الزام نہیں لگ سکتا۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ختم ہو گئی ہے۔ مجموعی طور پر صوبہ رُول آف لا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ رُول آف لا پورے ملک پر سایہ فگن کیوں نہیں ہو رہا؟
ان نوجوانوں کو پاکستانی میڈیا سے بہت زیادہ شکوے ہیں۔ معصوم اور سادہ دل لوگ میڈیا کو فرشتہ خصلت سمجھ بیٹھے ہیں اور پھر جب توقعات کو ٹھیس لگے تو رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جس معاشرے میں اہل سیاست سے لے کر اہلِ مذہب تک، ڈاکٹروں سے لے کر وکیلوں تک اور تاجروں سے لے کر عام لوگوں تک، سب خود غرضی کے سمندر میں ڈوب رہے ہوں، وہاں صرف میڈیا معصوم نہیں ہو سکتا کہ میڈیا بھی اُسی معاشرے کا حصہ ہے، اس کے باوجود میڈیا، سر ہتھیلی پر رکھے، جو کچھ اس کے بس میں ہے، اُس سے زیادہ ہی کر رہا ہے! میڈیا ہی کرپشن کے سکینڈل بے نقاب کر رہا ہے اور پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کے دوسرے گروہوں کا مؤقف عوام تک پہنچا رہا ہے!
عمیر چوہدری نے ایک شام اُن اصحاب کو جمع کیا جو نوجوان تھے لیکن ماضی قریب میں! ان سابق نوجوانوں میں بھی تحریکِ انصاف کے لیے جوش و خروش اتنا ہی تھا، جتنا ’’حاضر سروس‘‘ نوجوانوں میں! مسعود محمود خان، اقبال خان، نذر خان اور دوسرے احباب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ قابل رشک معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں مگر ساتھ ساتھ ملک کے لیے فکر بھی کر رہے ہیں اور حتی المقدور فلاحی اور تنظیمی میدانوں میں جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ اِن ترقی یافتہ ملکوں میں جب پاکستانی دیکھتے ہیں کہ کوئی مزدوری مزدوری نہیں اور معاشرے میں ہر شخص کو، خواہ وہ بس ڈرائیور ہے یا سکیورٹی کا کام کر رہا ہے یا چوٹی کا سرجن ہے یا چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہے، یکساں حرمت و مقام حاصل ہے تو وہ کڑھتے ہیں کہ ایسا اپنے ملک میں کیوں نہیں ہو سکتا! پاکستانی بچے کب تک ریستورانوں میں برتن مانجھتے رہیں گے۔ ورکشاپوں میں کب تک ہاتھ کالے کرتے رہیں گے اور ننھے ننھے ہاتھوں سے کب تک جوتے پالش کرتے رہیں گے؟ صبح تو آنی ہے مگر کب آئے گی؟  ع
اے زہرِ غم یار! بہت ہو چکی ‘بس بھی!
میلبورن میں نوجوان کاشف بونس
 اپنی ذات میں پورا ادارہ ہے! اس نے پہلے تو پاکستانی طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ اب اس تنظیم کے ارکان کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ پھر اس نے ’’شاہین‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی جو مسلمان نوجوانوں کو بالعموم اور پاکستانی نوجوانوں کو بالخصوص کھیلوں کے میدان میں آسٹریلیا کے مقامی نوجوانوں کی سطح پر لا کھڑا کر رہی ہے۔ وکٹوریہ صوبے کی حکومت بھی اُس کی اِس مساعی کو تسلیم کرتی ہے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسیم جان، ملک راشد علی اور کئی اور نوجوان معاشی ذمہ داریوں سے وقت نکال کر کمیونٹی کے لیے اور پاکستان کے لیے دردمندی اور دلسوزی سے مصروفِ عمل ہیں۔ 
تارکین وطن کی اکثریت پاکستان کی پرانی سیاست گری سے تنگ آ چکی ہے۔ جہاں بینی اور دشت نوردی نے اِن تارکین وطن کے اذہان کو وسیع کر دیا ہے یہ جان چکے ہیں کہ جاگیرداروں اور سیاسی جماعتوں پر قابض صنعت کاروں اور تاجروں نے جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ تارکین وطن اپنے ملک میں ووٹ کا حق مانگتے ہیں! آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان کے اہلِ اختیار ان تارکین وطن کو یہ حق دیں گے! نہیں! ان کی پوری کوشش ہے کہ اس حق کے راستے میں کوئی نہ کوئی دیوار کھڑی کرتے رہیں۔ کبھی عدلیہ کی! کبھی نوکرشاہی کی اور کبھی کسی اور عذرِ لنگ کی! ان کا اپنا مفاد ہو تو غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد کو ملک کے اعلیٰ ترین آئینی مناصب پر بٹھا دیتے ہیں مگر تارکین وطن کو یہ ووٹ کا حق نہیں دیتے اس لیے کہ تارکین وطن ان کی سفارشوں اور کرم فرمائیوں کے محتاج نہیں۔ انہیں ترقی اور تبادلوں کے لیے سیاست دانوں کے رُقعے درکار نہیں نہ ٹیلی فون، یہ لوگ ووٹ میرٹ کی بنیاد پر دیں گے۔ انہیں اگر ایان علی سے نفرت ہے تو گلوبٹ سے بھی محبت نہیں! 
پردیس میں رہنے والے یہ دردمند پاکستانی مایوس نہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مستقبل کے گلدستے ہیں! یہ اُس صبح کے منتظر ہیں جب وہ اپنے ملک میں واپس آبسیں گے مگر اُس وقت جب شاہراہوں پر شاہی سواریوں کے لیے شہریوں کو غلاموں کی طرح کھڑا کرنے کی قبیح رسم ختم ہو چکی ہو گی۔ جب ایوانِ وزیر اعظم سے ہیلی پیڈ تک چند فرلانگ کی سڑک پر کروڑوں روپے نہیں جھونکے جائیں گے۔ وہ وقت آئے گا ۔ضرور آئے گا! وقت کے پہیے کو اُلٹا نہیں چلایا جا سکتا۔ دریا نشیب کی طرف بہتا ہے ۔چند خاندانوں کا گٹھ جوڑ، پانی کو واپس بلندی کی طرح نہیں لے جا سکتا  ؎
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سربکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے

Saturday, January 09, 2016

تنی ہوئی رسّی

نہیں! ہر گز نہیں!
نہیں! حضور! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ہمیں تنی ہوئی رسّی پر چلنا ہو گا! ہمیں جذبات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ پاکستان کے طول و عرض میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ(تھیلے) ہر طرف اُڑتے پھرتے ہیں! شمالی علاقہ جات کا حُسن اِس گندگی کی وجہ سے زائل ہو رہا ہے۔ ہم ان تھیلوں کو، اِن اُڑتے ہوئے شاپنگ بیگز کو کام میں لائیں، ہم اپنے بے مہار، برافروختہ، جذبات کو اِن تھیلوں میں بند کر دیں اور تھیلے بند کمروں میں پھینک دیں۔ نہیں! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ایران کی طرف نہ عربوں کی طرف! پاکستان اگر قلعہ ہے تو اِس قلعے کی ہر صورت میں، ہر حال میں، حفاظت کرنا ہو گی! ہمیں غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ کینیڈا کی طرح، سوئٹزر لینڈ کی طرح اور مسقط(عمان) کی طرح!
اس میں کیا شک ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے۔ ایران کبھی بھی وہ ماں نہیں بنی جو دہی کے ساتھ روٹی دیتی ہے۔ اس نے کبھی ہمارے منہ میں گھی شکر نہیں ڈالا۔ سارے گلے شکوے بجا ہیں۔ مگر یہ وقت گلوں، شکووں کا نہیں! یہ وقت زمینی حقیقتوں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ہے۔
پاکستان ترکی کا دوست ہے۔ اس دوستی کی جڑیں گہری ہیں۔ ترکی شاید ان ایک دو ملکوں میں سے ہے جہاں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ترکی اس وقت سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے۔  شیخ نمرالنمر کو پھانسی دینے پر ترکی نے برملا کہا ہے کہ یہ جزیرہ نمائے عرب کا اندرونی معاملہ ہے۔ مگر ایران کے معاملے میں ہم آنکھیں بند کر کے ترکی کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ وجہ آگے بیان کی جا رہی ہے! مت بھولیے کہ ترکی اور ایران کا جھگڑا آج کا نہیں۔ اس کی تفصیل یہ کالم نگار اپنے کالم ’’پرانے شکاری نیا جال‘‘ کے عنوان سے بیان کر چکا جو اٹھارہ دسمبر 2015ء کو روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔
سعودی عرب پاکستان کا دوست ہے۔ ہمارے حکمرانوں پر اپنی سرزمین تنگ ہوتی ہے تو وہ سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ سعودی عرب ہمارا دوسرا گھر ہے۔ ہمارا دوسرا وطن ہے۔ اُس سرزمین پر خدا کا وہ گھر ہے جو ہمارا پاسبان ہے اور جس کے ہم پاسبان ہیں۔ اُس دیارِ خوش آثار میں وہ سبزگنبد ہے جس کے تصور ہی سے ہماری آنکھیں وفورِ عقیدت میں بند ہونے لگتی ہیں۔ مدینتہ النبی کے گلی کوچوں میں ہمارے نبی اقدسؐ کے قدم پڑے۔ امام مالکؒ جیسے کتنے ہی بطلِ جلیل، زمین کا نمک، مدینہ کی گلیوں میں ننگے پیر چلتے رہے تا کہ بے ادبی نہ ہو۔ اُس سرزمین جنت نشان میں خدا کے اُس محبوب کی مبارک قبر ہے جس کی خاطرپندرہ صدیوں سے قافلے، زمین کے ہر گوشے سے، مدینہ کا رُخ کیے ہوئے ہیں اور قیامت تک جتنے مسلمان پیدا ہوں گے، اُس مبارک قبر کی طرف گامزن رہیں گے۔ حجازِ مقدس کا کیا ہی کہنا! درخت اُس کے آسمانی ہیں۔ چٹانیں اس کی سنہری ہیں۔ مٹی اس کی ہمارے لیے سرمہ ہے۔ کنکر اس کے ہمارے لیے ہیرے ہیں۔ زمزم اس کا ہمارے لیے آبِ حیات ہے۔ کھجور اس کی ہمارے لیے بہشتی میوہ ہے۔ پرندے اس کے ہمارے لیے ہما ہیں۔ وہاں حاضر ہونے کی آرزو ہماری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ ہم تو وہاں مرنا اور دفن ہونا اپنے لیے کامرانی اور ظفریابی سمجھتے ہیں۔ وہاں مقام ابراہیم ہے۔ صفا اور مروہ ہے۔ حجرِ اسود ہے جو ہمارے لیے سنگ نہیں، سنگِ میل ہے۔ ملتزم ہے جس سے ہم چمٹ چمٹ جاتے ہیں! مگر ایران کے معاملے میں ہم آنکھیں بند کر کے جزیرہ نمائے عرب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیوں؟ وجہ آگے بیان کی جا رہی ہے۔ مت بھولیے کہ عربوں اور ایرانیوں کا جھگڑا آج کا نہیں! یاد رکھیے کہ عجم سے، عرب ساری غیر عرب دنیا مراد لیتے ہیں مگر خاص طور پر ایران، ذہن میں رکھیے کہ ایرانی دربار تھا جہاں مٹی کے ٹوکرے عرب ایلچیوں کے سروں پر رکھے گئے اور واپس بھیجے گئے۔ عربوں 
نے ایران فتح کیا۔ یہ فتح ایران کے ذہن پر نہیں، دل پر نقش ہے! بنوامیہ کی سلطنت کے خلاف بغاوت کا پودا ایران کی سرزمین میں بویا گیا۔ وہیں اسے پانی دیا گیا، وہیں یہ تناور درخت بنا۔ پھر عباسی سلطنت آئی جسے برامکہ نے مضبوط کیا۔ کون برامکہ؟ جو بلخ کے آتش پرستوں میں سے تھے! مگر ہم! اللہ کے بندو! ہم عرب ہیں نہ ایرانی۔ نہ ترک! ہم پاکستانی ہیں۔ ہم نے اپنا گھر دیکھنا ہے۔ کھیل کود میدان میں اکٹھی، مگر ڈیرہ اپنا اپنا۔
ہمیں اپنے جغرافیائی محلِ وقوع پر غور کرنا ہو گا۔ مشرق میں بھارت ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں نہ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات قابلِ رشک ہیں۔ ایران کی سرحدیں مغربی سمت ہم سے گلے مل رہی ہیں! ہم اگر غیر جانب دار، مکمل غیر جانب دار نہ رہے تو ہمارے لیے بھارت اور ایران چکی کے دو پاٹ بن سکتے ہیں۔ ہم سینڈوچ ہو کر رہ جائیں گے۔ ہماری سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں نہ کسی عرب ملک سے۔ ہماری آبادی پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہم پہلے ہی عقیدوں، زبانوں، نسلوں اور قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونکے کھڑے ہیں! ہم عرب اور ایران 
کے اِس تنازعہ سے دور نہ رہے تو بکھر کر رہ جائیں گے۔ ہمیں ہر پاکستانی کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ایران ہماری ایک آنکھ ہے تو عرب دوسری آنکھ۔ چند دن پہلے کی بات ہے کہ مودی نے یو اے ای کو سفارتی محاذ پر اپنی جیب میں ڈالا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ کیا ہم یہ پسند کریں گے کہ کل بھارت ایران اتحاد ہمارے سینے پر مونگ دلنا شروع کر دے۔ خدانخواستہ، اللہ نہ کرے، ایسا ہوا تو ترکی کچھ کر سکے گا نہ مشرق وسطیٰ والے دوست! زبانی جمع خرچ ضرور کریں گے مگر اوکھلی میں سر تو پاکستانیوں کا ہو گا۔
سلطنتِ عثمانیہ کا اپنا ماضی ہے۔ عربوں کا اپنا ماضی ہے۔ پاکستان کا اپنا ماضی ہے! ہمایوں پر سُور کے افغانوں نے زمین تنگ کی تو وہ ایران گیا۔ شاہ طہماسپ نے اس کی پذیرائی کی۔ محل میں رکھا۔ خدام دیئے۔ سواریاں مہیا کیں۔ پھر اپنی فوج کے جوان دیئے جنہوں نے سر ہتھیلیوں پر رکھے اور کابل اور پھر آگرہ اور دہلی واپس دلوانے میں معاونت کی۔ درست کہ شاہ طہماسپ نے ہمایوں کو مسلک تبدیل کرنے کا کہا مگر ہمایوں نے انکار کر دیا۔ تو کیا پھر ایرانیوں نے اس کے باوجود مدد نہیں کی؟ اڑھائی تین سو سال تک ایران اور مغل سلطنت کی گاڑھی چھنتی رہی! اتنا قریبی ثقافتی، تجارتی اور معاشرتی ربط ایران کا کسی اور ملک سے نہیں رہا۔ صائب تبریزی سے لے کر، نظیری نیشاپوری تک، طالب آملی سے لے کر درجنوں نہیں، سینکڑوں اہلِ علم تک سب ایران سے چلے اور دہلی آ کر دم لیا۔ ان میں جرنیل بھی تھے اور تاجر بھی۔ رشتے ہوئے۔ برادریاں تشکیل ہوئیں۔ پھر مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرا۔ حیدر آباد اور لکھنؤ سامنے آئے۔ ایران سے آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ حیدر آباد میں ایرانی گلی آج بھی موجود ہے اور آباد ہے۔ فارسی زبان و ادب پر ہمارا ملکیتی حق ہے۔ ایرانیوں نے، ہمارے ساتھ ثقافت کے میدان میں وہ سلوک نہیں کیا جو عرب کرتے ہیں۔ کسی مجلس میں پاکستانی کہہ اٹھے کہ ہم نے سپین فتح کیا تھا۔  عرب اُٹھ کر اُن کے پاس آئے اور کہا تم نے نہیں، ہم عربوں نے فتح کیا تھا! ایرانیوں نے ہمارے خسرو سے لے کر ہمارے بیدل تک، ہمارے غالب سے لے کر ہمارے اقبال تک سب کو تسلیم کیا۔ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ نصابوں میں شامل کیا۔ ایرانیوں کی تیار کردہ ویب سائٹس دیکھ لیجیے۔ خسرو بھی موجود ہے، بیدل بھی، فیضی بھی اور اقبال لاہوری بھی! اقبال لاہوری پر وہ جان چھڑکتے ہیں!
قندھار ایک عرصہ تک ایران کے صفویوں اور ہندوستان کے مغلوں کے درمیان باعثِ نزاع رہا۔ 1605ء میں اکبر کی آنکھ بند ہوئی۔ ہرات کے ایرانی گورنر حسین خان نے قندھار پر چڑھائی کر دی۔ شاہ عباس نے جہانگیر کو خط لکھا اور حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ قندھار مغلوں کے پاس ہی رہا۔ 1622ء میں ایرانیوں نے قندھار پر حملہ کیا۔ جہانگیر نے شاہ جہان کو حکم دیا کہ جا کر دفاع کرے۔ شہزادے نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ اس کی نظر جانشینی پر تھی۔ قندھار چلا گیا مگر جہانگیر نے اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا۔ ایلچی بھیجا۔ ایرانیوں کا قبضہ تسلیم کیا اور تعلقات معمول کے رکھے!
تاریخ قصہ گوئی نہیں! سبق ہے جو سیکھنا ہو گا! ہمارا ماضی ترکوں اور عربوں کا ماضی نہیں۔ ہمارا اپنا ہے اور مختلف ہے۔
یہ تنی ہوئی رسّی ہے جس پر ہمیں چلنا ہے۔ غیر جانب داری کے ساتھ! ہم آبگینہ ہیں۔ جسے پہلے ہی ٹھیس لگ چکی ہے، مزید برداشت نہیں کر پائیں گے! دوسروں کا نہیں، اپنا گھر دیکھیے! معاملات حساس ہیں! پلڑے کو کسی ایک طرف نہ جھکنے دیجیے   ؎
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں! اختیار ہے!

Friday, January 08, 2016

از راہِ کرم اُونٹ سے پنگا نہ لیجیے

شام ڈھل رہی تھی۔ آخری کشتی گھاٹ سے روانہ ہو چکی تھی۔
میراثی بھاگتا بھاگتا گھاٹ پر پہنچا۔ اگر اُسے آخری کشتی نہ ملی اور اپنے گائوں نہ پہنچ سکا تو رات کہاں گزارے گا؟ اُس نے کنارے پر کھڑے ہو کر پوری قوت سے کشتی والوں کو پکارا۔ ہاتھ لہرائے، پھر کندھے سے چادر اتار کر اسے ہوا میں لہرایا۔ بالآخر ملاح کو اُس پر رحم آ گیا۔ کشتی والوں نے بھی ہمدردی کرتے ہوئے کشتی کو واپس کرنے کا مشورہ دیا۔ کشتی واپس گھاٹ پر لگائی گئی۔ میراثی نے سوار ہونے سے پہلے ایک نظر مسافروں پر ڈالی۔ اچانک ٹھٹھک گیا۔ اُلٹے پائوں واپس ہوا اور کشتی میں سوار ہونے سے انکار کر دیا۔
ملاح کے ساتھ مسافروں نے بھی اُسے برا بھلا کہا۔ اب کیا ہو سکتا تھا! میراثی نے نہ سوار ہونا تھا، نہ ہوا۔ کشتی دوبارہ روانہ ہو گئی۔ دریا کے عین درمیان میں پہنچی تو ہچکولے کھانے لگی۔ توازن بگڑ گیا۔ پھر پانی بھرنے لگا۔ جو اچھے تیراک تھے، پانی میں کود پڑے۔ باقی ٹوٹے ہوئے تختوں کے ساتھ چمٹ گئے۔ بہر طور کنارے پر واپس پہنچے تو میراثی ریت پر آلتی پالتی مارے مسکرا رہا تھا۔ سب اس سے پوچھنے لگے کہ تم سوار نہیں ہوئے اس کا مطلب ہے تمہیں معلوم تھا کشتی ڈوب جائے گی۔ بتائو، کیسے معلوم ہوا۔ میراثی ہنسا ۔کہنے لگا کشتی قریب آ کر رُکی اور میں سوار ہونے کے لیے آگے بڑھا تو دیکھا کہ کشتی کے مسافروں میں ایک بندر اور ایک اونٹ بھی شامل تھا۔ مجھے دو اور دو چار کی طرح یقین ہو گیا کہ بندر نے شرارت سے باز نہیں آنا۔ یہ پھدک کر اونٹ کی پشت پر سوار ہو جائے گا۔ پھر اچھل کود شروع کر دے گا۔ کبھی اونٹ کی گردن پر پنجے مارے گا کبھی اس کی دم سے لٹکنے کی کوشش کرے گا اور کبھی کوہان پر بیٹھے گا۔ اونٹ کو غصہ آئے گا۔ وہ جان چھڑانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے گا۔ جھلا کر کودے گا۔ کشتی کا توازن خراب ہو جائے گا۔ افراتفری مچے گی۔ مسافر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اونٹ مزید خوف زدہ ہو کر پورے زور سے اچھل کود کرے گا اور کشتی ڈوب جائے گی!
پاک چین اقتصادی راہداری کی کشتی گھاٹ سے روانہ ہوئی تو جاننے والے جان گئے تھے کہ اس پر پنجاببلوچستان اور کے پی کے اونٹ اور بندر سوار ہیں۔ بندر نے شرارت سے باز نہیں آنا اور اونٹ نے احتجاج کرنا ہی کرنا ہے۔ اب کشتی کا توازن اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ دو دن پہلے پشاور میں ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے گورنر نے بھی کے پی کے اونٹ کا ساتھ دیا۔ وفاقی وزیر کی کسی یقین دہانی پر کسی نے اعتبار نہ کیا۔ معاملہ جہاں تھا وہیں رہا۔ کے پی کے نمائندوں نے فنڈنگ کے ذرائع، وفاقی بجٹ اور چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی مکمل تفصیلات مانگیں۔ اس اجلاس کی جو خبریں موصول ہوئی ہیں ان سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وفاقی وزیر معترضین کی تسلی نہ کر سکے۔ مبینہ طور پر ان کی وضاحتیں اطمینان بخش نہ تھیں۔ پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ ہاں اجلاس کے خاتمے کو ’’باعزت‘‘ رنگ دینے کے لیے گورنر کی تجویز پر مرکز کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس میں تمام پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈروں کو شامل کر لیا گیا۔ گویا نشستند و گفتندو برخاستند سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ان تیرہ سوالوں کے جواب انہوں نے دے دیئے ہیں جو کے پی کے وزیر اعلیٰ نے سرکاری مراسلے میں اٹھائے تھے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ ان جوابات کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے۔ آن را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک۔ جوابات تسلی بخش ہیں تو وفاقی وزیر کو چاہیے کہ یہ تیرہ سوالات اور ان کے جواب پریس کو جاری کر دیں۔ عوام خود ہی جان لیں گے کہ مرکز طفل تسلیاں دے رہا ہے یا صوبہ ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔
عجیب و غریب اور پراسرار معاملہ یہ ہے کہ 30 دسمبر کو وزیر اعظم نے جو افتتاح کیا اس کے بارے میں اُس وقت یہ بتایا گیا کہ یہ ژوب مغل کوٹ ہائی وے(این50) اور قلعہ سیف اللہ واگم ہائی وے(این 70) کا افتتاح تھا۔ اب پشاور میں وفاقی وزیر نے اس ضمن میں یہ وضاحت کی ہے کہ افتتاح تو کوئٹہ اور گوادر کے درمیان اُس حصے کا ہوا تھا جو خراب بلکہ غائب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ژوب اور مغل کوٹ اُس شاہراہ پر واقع ہی نہیں جو کوئٹہ سے گوادر جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ افتتاح کوئٹہ اور گوادر کے درمیان Missing روڈ کا تھا تو یہ بات اُس وقت کیوں نہ بتائی گئی؟ ہائی وے اور موٹروے کے فرق کے حوالے سے بھی صحافیوں نے کالم لکھے اور وضاحتیں طلب کیں۔ جن کا ابھی تک وفاقی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ 35بلین ڈالر کی سرمایہ کاری چینی کمپنیوں نے پنجاب ہی میں کیوں کی؟
اصولی طور پر، پشاور میں منعقدہ اجلاس کی کارروائی پوری قوم کو دکھائی جانی چاہیے تھی۔ وفاقی وزیر نے اُس اجلاس میں اپنا یہ مشہور مؤقف دہرایا کہ ’’اگر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازع بنایا گیا تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی‘‘۔ اس کا جواب اے این پی کے رہنما سردار حسین بابک نے وہیں دے کر حساب صاف کر دیا کہ ’’اگر کسی صوبے یا علاقے کا حق مارا گیا تو آج کی نسل نہیں بخشے گی‘‘۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ   ؎
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
وفاقی وزیر اگر مناسب سمجھیں تو آئندہ نسلوں سے پہلے، موجودہ نسل کو مطمئن کرنے کی فکر کریں۔ اب تک کے معاشی مسائل کا ذمہ دار تو تحریک انصاف کے دھرنے کو ٹھہرایا جاتا رہا تھا۔ یہ جو اقتصادی راہداری کے سلسلے میں یُدھ آن پڑا ہے، اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟ مکا بازی کی مشق کرنے کے لیے ایک غلاف میں گندم کے دانے، ریت اور چیتھڑے ڈال کر اُسے لٹکا دیا جاتا ہے۔ مُکہ باز اُسے اپنے مُکوں اور گھونسوں کا ہدف بناتا ہے اور تربیت کے مراحل طے کرتا ہے۔ اسے پنچنگ بیگ
(Punching Bag) 
کہا جاتا ہے۔ دھرنے کے بعد تحریکِ انصاف کو پنچنگ بیگ بنا لیا گیا۔ جاپان میں زلزلہ آیا یا برازیل میں سیلاب، الزام دھرنے پر دھرا گیا۔ وفاقی حکومت کے لیے اب غیر خوشگوار صورتِ حال یہ آن پڑی ہے کہ اقتصادی راہداری کے جھگڑے میں حکومت کے دیرینہ سرپرست مولانا فضل الرحمن سے لے کر اے این پی تک اور آفتاب شیرپائو صاحب تک سب یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی سوچتا ہے کہ جب یہ سب یک زبان ہو کر چیخ رہے ہیں کہ مغربی روٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تو کیا یہ سارے عقل کے کچے ہیں؟ یا کند ذہن ہیں؟ یا کیا وفاق سے ان کی دشمنی ہے؟ آخر انہیں مطمئن کیوں نہیں کیا جا رہا؟ آخر مسلم لیگ نون کے اپنے گورنر، وفاقی وزیر کی وضاحتوں سے کیوں مطمئن نہیں ہوئے؟

ازراہِ کرم کشتی کو پار لگانے کی فکر کیجیے۔ بندر کو باندھ کر رکھیے، اونٹ کو آرام سے سفر کرنے دیجیے۔ وفاقی حکومت عوام کو ثالث بنائے۔ کے پی کے اٹھائے گئے تیرہ سوالات اور ان کے جوابات کو برقع نہ پہنائے۔ جس شاہراہ کا افتتاح وزیر اعظم نے کیا، اُس کے بارے میں مؤقف تبدیل نہ کرے یا تبدیلی کی وضاحت کرے اور لگے ہاتھوں قوم کو یہ راز بھی بتا دے کہ چینی کمپنیاں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ایک ہی صوبے میں کیوں کر رہی ہیں؟ کیا یہ فیصلہ ان کمپنیوں نے کیا ہے یا ان سے کرایا گیا ہے؟
 

powered by worldwanders.com