Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 30, 2023

چار کسوٹیاں


وہ تین تھے۔ ناصر اور اس کے دو دوست! یہ بذریعہ ریل کراچی سے راولپنڈی جا رہے تھے۔ ٹرین کا نام عوامی تھا۔ جو کراچی سے پشاور تک اور پشاور سے کراچی تک چلتی ہے۔ ناصر کا مزاج ذرا فیاضانہ تھا۔راستے میں اس کی کوشش رہی کہ چائے پانی کے اخراجات وہی برداشت کرے۔ ٹرین سندھ سے جنوبی پنجاب میں داخل ہوئی اور پھر مستقل مزاجی سے شمال کی طرف بڑھنے لگی۔ ایک سٹیشن پر گاڑی رکی تو اس کے دونوں ساتھی اسے کہنے لگے: تم سامان کا خیال رکھو۔ہم ذرا پلیٹ فارم کا چکر لگا کر آتے ہیں۔وہ اتر گئے۔ کافی دیر تک واپس نہ آئے تو ناصر کو فکر لاحق ہوئی کہ ٹرین چل پڑی تو کیا ہو گا۔گو مگو کی کیفیت میں وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ذرا آگے گیا تو ایک منظر دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔دونوں صاحبان ایک کھوکھے پر کھڑے کھانا کھا رہے تھے اور اس رفتار اور اس سراسیمگی سے کھا رہے تھے جیسے کھانا نہ ہو‘ کوئی سزا ہو! ناصر چپ چاپ واپس ٹرین میں آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھی آگئے۔ اس نے تذکرہ کیا نہ انہوں نے کوئی بات کی۔ تاہم رہ رہ کر اسے وہ بات یاد آرہی تھی جو بچپن میں بزرگوں سے سنی تھی کہ انسان کے خاندانی ہونے‘ یا نہ ہونے کی‘ پرکھ جن کسوٹیوں پر ہوتی ہے ان میں سے پہلی کسوٹی سفر ہے!
سفر جہاز کا ہو یا ٹرین کا‘ بس کا ہو یا پیدل‘ ایک آئینہ ہوتا ہے جس میں ہمسفر کا‘ یا ہمسفروں کا اصل چہرا دکھائی دیتا ہے۔ جب سفر قافلوں کی صورت میں ہوتا تھا اور ڈاکوؤں کے حملے ہوتے تھے‘ تب امتحان بھی کڑا ہوتا تھا۔ مگر وسیع الظرفی کی‘ اور تنگ دلی‘ فرو مائیگی اور پستی کی پہچان آج کل کے سفر میں بھی بخوبی ہو جاتی ہے۔ ہمسفر کی مدد کرنا اور اس کے لیے ایثار کا مظاہرہ کرنا صرف ان لوگوں کا وتیرہ ہوتا ہے جن کی تربیت کشادہ دل بزرگوں نے کی ہو! یہ جو آتش نے کہا ہے کہ 
سفر ہے شرط‘ مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
تو یہ مسافر نواز اور سایہ دار شجر‘ ہم سفر ہی تو ہوتے ہیں! سفر اُس مختصر قیام کو بھی کہتے ہیں جو گھر سے دور‘ پردیس میں کچھ ہفتوں‘ کچھ مہینوں یا کچھ برسوں کے لیے کرنا پڑتا ہے! اس میں بھی دوسروں کی شناخت ہو جا تی ہے۔ بیماری میں کس نے کتنا خیال رکھا؟ کھانے پینے کی مشکلات کس نے شیئر کیں؟ تہی دستی میں کس نے‘ احسان جتائے بغیر‘ دستگیری کی ؟ ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کس نے کیا؟ یہ سب کچھ‘ اور بہت کچھ اور بھی‘ آشکارا ہو جاتا ہے!
خاندانی پس منظر کی دوسری کسوٹی غربت ہے۔آپ نے کئی شرفا کا حال پڑھا یا سنا ہو گا کہ مفلسی میں بھی دستِ سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ قمیض پھٹی ہوتی تھی مگر باہر نکلتے وقت شیروانی ضرور پہنتے تھے جو اس زمانے میں شرفا کا شیوہ تھا۔غربت میں بھی خاندانی لوگ سائل کو خالی ہاتھ نہیں موڑتے۔ہمایوں کا جب شیر شاہ تعاقب کر رہا تھا اُس وقت ہمایوں سندھ کے ریگزار میں ناقابلِ بیان صعوبتیں اٹھا رہا تھا۔حالات اتنے خراب تھے کہ اس کے لیے اس کے ساتھی‘ گوشت خود ( ہیلمٹ) میں ابالتے تھے۔ بادشاہ ملبوس دھونے کے لیے دیتا تھا تو غسل کا گاؤن پہننا پڑتا تھا۔ اس حال میں اسے عمر کوٹ میں اکبر کی پیدائش کی اطلاع ملی۔ ایسی خبر سننے کے بعدبادشاہ‘ اظہارِ مسرت کے طور پر‘ حاضرینِ مجلس کو ہیرے جواہرات دیا کرتے تھے۔ ہمایوں اس وقت خالی ہاتھ تھا۔ اس کے پاس صرف ایک نافۂ مُشک تھا۔ اس نے اسے توڑا۔ خیمہ خوشبو سے بھر گیا۔ اس نے ساتھیوں سے کہا کہ اس وقت میں یہ خوشبو ہی تحفے میں دے سکتا ہوں!حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے فرزند‘ پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بہت بڑے محقق تھے۔ کئی تصانیف ان کی یادگار ہیں۔ ایک کتاب ان کی( بے نشانوں کا نشاں) خاکوں پر مشتمل ہے۔ مختصر مگر شہکار! اس میں وہ ایک فقیر کا حال لکھتے ہیں جو گلی میں گاتا پھرتا تھا۔ شیرانی صاحب اس کی آواز‘ اس کے الفاظ‘ اس کے بوسیدہ لباس اور اس کے اطوار سے پہچان گئے کہ یہ کسی بڑے خاندان کا بازماندہ ہے۔
خاندانی پس منظر کی تیسری کسوٹی ملازموں اور خدام سے حسنِ سلوک یا بد سلوکی ہے۔ عالی نسب خاندانوں میں بچوں کو اجازت نہیں ہوتی کہ ملازموں‘ خادموں یا خادماؤں کو نام سے بلائیں! پنجاب میں شرفا کے بچے خادمہ کو ماسی ( یعنی خالہ) کہہ کر بلاتے تھے۔ آج لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ماسی کا مطلب خادمہ ہے۔ کئی عشر ے پہلے لاہور میں ایک گھریلو ملاز م نے تنگ آکر ایک کمشنر انکم ٹیکس کو اور اس کے بیوی بچوں کو قتل کر دیا تھا۔ وہ زچ ہو گیا تھا۔ کمشنر کے بیوی بچے اسے گالیاں دیتے تھے یہاں تک کہ گلاس اس کے چہرے پر مارتے تھے۔یہ رویے پست خاندانوں کے ہوتے ہیں! حضرت امام حسنؓ کا مشہور واقعہ ہے۔ غلام سے سالن کی ڈ ش گر گئی جس سے آپ کا لباس خراب ہو گیا۔ اس نے کلام مجید کی آیت پڑھی '' اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں‘ اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ آپ نے نہ صرف معاف کیا بلکہ آزاد بھی کر دیا۔ آپ کے خاندان سے برتر خاندان کس کا ہو سکتا ہے! جو اصحاب سالہا سال تک آقائے دو جہاں کے ساتھ رہے اور خدمت کرتے رہے وہ کہتے ہیں کہ کبھی ڈانٹا نہ پیشانی مبارک پر کبھی شکن پڑی! نجیب خاندان اپنے ملازموں کو گھر کے فرد کی طرح رکھتے ہیں‘ انہیں وہی کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں! ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔
چوتھی کسوٹی خاندانی پس منظر پرکھنے کی یہ ہے کہ جو کرسی پر متمکن تھا جب وہ اقتدار سے محروم ہوا تو اس کے ساتھ وہی رویّہ رکھا یا آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور طوطا چشمی کا ثبوت دیا۔ دانا افراد وہ ہوتے ہیں جو کرسی سے اترنے سے پہلے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کون وفا دار رہے گا اور کون نہیں کہ بقول فردوسی : ز بد اصل چشم بہی داشتن/بود خاک در دیدہ انباشتن۔ بد اصل سے خیر کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے آنکھوں میں مٹی بھر لینا!! کسی محسن کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد رویہ تبدیل کر لینا پست ترین لوگوں کا وتیرہ ہے۔یہ لوگ ارذل الخلائق

(scum of the earth)

ہوتے ہیں۔ احسان فراموشی کم ظرفوں کی نشانی ہے۔ ایسے افراد کی شناخت یہ ہے کہ جب کوئی کرسی پر ہوتا ہے یہ اس کی حد سے زیادہ خوشامد اور چاپلوسی کرتے ہیں! اس کے گرد منڈلاتے ہیں!رکوع میں رہتے ہیں۔ اس لکھنے والے نے ایک صاحب کو دیکھا کہ ان کے افسر کی ایک عزیزہ کی تدفین تھی۔ وہ بہت پریشان اور غمزدہ تھے۔ یہاں تک کہ لگتا تھا وہ کھد ی ہوئی قبر میں لیٹ جائیں گے! کئی دن افسوس کے لیے جاتے رہے۔ مہمانوں کو چائے پلانے کی ڈیوٹی بھی سنبھال لی۔ قبر پر پھول بھی چڑھائے! جس دن ان کے افسر ریٹائر ہوئے‘ یہ دفتر کے برآمدے میں کھڑے ہو گئے اور بہ آوازِ بلند‘ انہیں بے نقط سنائیں! ایسے لوگ بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں مگر آخر کار خراب شہرت ان کا مقدر بنتی ہے۔
سفلہ پن کی نشانیاں کچھ اور بھی ہیں مگر بقول ظفر علی خان:
حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں
بتائے جاؤں گا تم کو فلاں فلاں سے بچو

Thursday, May 25, 2023

اب بھی توبہ کا وقت ہے


کوئی اسے توہم پرستی سمجھتا ہے یا مذہبی رویہ تو سمجھتا رہے! مگر یوں لگتا ہے کہ اس طائفے کی بربادی کا فیصلہ اُسی دن ہو گیا تھا جس دن اس طائفے کے سٹیج سے سرکارِ دو عالمﷺ کے مقدس والدین کی توہین کی گئی تھی!
اس طائفے کی خوش قسمتی تھی یا اس کا خوف کہ بے ادبی کے کئی واقعات کے باوجود کسی نے نوٹس لیا نہ گرفت کی!'' صادق اور امین‘‘ ایک اصطلاح ہے۔ایک ٹائٹل ہے۔ ایک لقب ہے جو آپؐ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب اس مقدس لقب کو ایسے لوگوں پر تھوپا جاتا ہے جن کا ماضی سب پر عیاں ہے تو اس پر کہیں سے مذمت کی صدا نہیں اٹھتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دینی فہم رکھنے والے حلقے بھی‘ کم و بیش‘ اس پر خاموش رہتے ہیں۔اس جماعت کے سربراہ نے عمرہ پر جانے والوں کی سرزنش کی‘ اس پر بھی کسی نے گرفت نہ کی۔پھر اسی سٹیج سے کہا گیا کہ قبر میں پوچھا جائے گا کہ اس کا ساتھ دیا تھا یا نہیں۔( الفاظ ہو سکتا ہے مختلف ہوں‘ مفہوم یہی تھا) تب بھی کسی نے گرفت نہ کی۔ پھر پارٹی کے سربراہ نے جہاد کی اصطلاح کوبارہا استعمال کیا۔ تب بھی مذہبی طبقات نے عوام کی رہنمائی نہ کی اور اس دعوے کی تائید یا تردید نہ کی۔اس سے حوصلے بڑھے۔ یہاں تک کہ اس پارٹی کے سٹیج سے ایک بچے کے منہ سے وہ بات کہلوائی گئی جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک پلے بوائے کے والدین کو ( میرے منہ میں خاک) اُس ہستی کے والدین کے ساتھ جا ملایا گیا جس ہستی کا ثانی کوئی ہے نہ ہو گا! انا للہ و انا الیہ راجعون!
تاریخ میں کیسی کیسی شخصیات گزری ہیں ! عظیم اور مقدس شخصیات!جنہوں نے راتیں عبادت میں گزاریں اور دن خدا کے راستے کی جدو جہد میں! کچھ نے جنگی معرکے سرانجام دیے۔ کچھ نے علم کے راستے میں ایسے نقوش پا چھوڑے جو قیامت تک جگمگاتے رہیں گے۔ خالدؓ بن ولید‘ ابو عبیدہؓ بن جراح‘اورحضرت عمر ؓبن العاص جیسے فاتحین ! صلاح الدین ایوبیؒ اور سلطان محمد فاتحؒ جیسے زعما! جنہوں نے مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار واپس لیا۔امام جعفر صادقؒ جن کے سامنے امام ابو حنیفہؒ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔امام احمد بن حنبلؒ جو عزیمت کی مثال تھے۔ عمر بن عبد العزیزؒ جنہیں راہِ حق پر چلنے کی پاداش میں زہر دیا گیا۔
ہمعصر تاریخ دیکھ لیجیے۔ کمال اتاترک نے ترکی کو آزادی دلوائی ورنہ یونانی اور دیگر اہلِ مغرب کچھ اور چاہتے تھے۔قائد ا عظم نے برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو غلبے سے نجات دلوائی۔ کیا کبھی کسی کو ہمت ہوئی کہ ان زعما کے والدین کے حوالے سے ایسا موازنہ کرے؟ وہ جو سٹیج پر پارٹی کے چار رہنما کھڑے تھے انہوں نے بچے کی زبان کیوں نہ پکڑی؟ نعوذ با اللہ کیوں نہ کہا ؟ صرف یہی نہیں‘ انہوں نے تالیاں بجائیں! مسکراہٹیں بکھیریں! بعد میں عذر لنگ سامنے آیا کہ وہ تو بچہ تھا۔ وہ چار جو سٹیج پر کھڑے تھے‘ کیا وہ بھی بچے تھے ؟ کیا ساری کی ساری پارٹی بچوں پر مشتمل ہے؟ کیا پارٹی کا سربراہ بھی بچہ ہے؟ سربراہ نے جواب طلبی کیوں نہ کی ؟ جو کھڑپینچ سٹیج پر کھڑے تھے انہیں سزا کیوں نہ دی ؟ یہ مائنڈ سیٹ ہی کیوں تیار کیا ؟ زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس پر کوئی گرفت کی گئی نہ حرفِ احتجاج ہی بلند کیا گیا۔ایک سیاسی جماعت نے بھی‘ جو مذہبی بھی ہے‘ خاموشی اختیار کی بلکہ اب وہ اس پارٹی کے ساتھ جنوب میں اتحاد و اشتراک بھی کر رہی ہے!!
اس بے ادبی پر جب اس لکھنے والے نے انہی صفحات پر اعتراض کیا تو اندھیرے میں ایندھن کے لیے لکڑیاں چننے والوں نے واویلا مچایا کہ یہ مذہب کا کارڈ کھیل رہا ہے اور زہر بکھیر رہا ہے! اول تو ان کا یہ اعتراض اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ انہیں اس پر نہ صرف رنج نہیں ہے بلکہ وہ بالواسطہ تائید بھی کر رہے ہیں ! اور پھر‘ مذہب کا کارڈ کون کھیل رہا ہے ؟ اپنے لیڈر کو کس نے لقمہ دیا تھا کہ اسلامی ٹچ دو ؟ کیا یہ مذہب کا کارڈ نہ تھا؟ کس نے کہا تھا کہ قبر میں پوچھا جائے گا کہ فلاں کا ساتھ دیا تھا یا نہیں؟ کیا یہ مذہب کا کارڈ نہ تھا؟ بیسیوں تقریروں میں اپنی نام نہاد جدو جہد کو جہاد کا نام دینا کیا مذہبی کارڈ نہ تھا؟ بزدار اور گجر کی حکومت کے سائے تلے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا گیا اور مسلسل لگایا گیا! کیا یہ مذہب کا کارڈ نہ تھا؟ تو اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم ہمارے پیغمبر ؐکے مقدس و مطہر والدین کی بے ادبی کرو اور ہم خاموشی کی چادر اوڑھ لیں اور حرفِ احتجاج بھی زبان پر نہ لائیں؟ اہلِ زمین جانتے ہیں اور اہلِ آسمان بھی گواہ ہیں کہ مذہب کا کارڈ جس طرح اس پارٹی نے کھیلا ہے پاکستان کی تاریخ میں کسی پارٹی نے نہیں کھیلا۔
ہم تو فانی انسان ہیں ! آقائے دو جہانؐ کی شان میں بے ادبی تو ربِِّ کائنات بھی نہیں معاف کرتا! تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ جس نے بھی اس طرف ہاتھ بڑھایا‘ وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا! جس نے بھی زبان چلائی‘ اُس زبان پر پھوڑے نکلے! جو قدم بری نیت سے اس طرف چلا‘ وہ توڑ دیا گیا! کیا اس کائنات میں کوئی اور ہستی بھی ہے جس پر اللہ تعالی خود درود بھیجتے ہوں؟ اور ان کے فرشتے بھی! حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ تو وہ مقدس جوڑا ہے کہ کوئی اور میاں بیوی ان کی شان اور ان کے مقام کے ہزارویں‘ کروڑویں‘ حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتے ! اور دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ قدرت نے یہ بے ادبی نہیں بخشی! ان کے حواری خود ہٹے یا کسی اور نے ہٹائے‘ اس خدائے برتر کے حکم سے ہٹے اور ہٹائے گئے جو آپ ؐ کی اور آپؐ کے والدین کی عزت کا محافظ ہے! آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے اپنے اونٹ مانگے تھے تو اس نے طعنہ دیا تھا کہ کعبہ کی فکر نہیں اور اونٹوں کی فکر ہے۔ جواب دیا کعبہ جس کا ہے وہ خود حفاظت کرے گا! تم ہمیں تو اپنی بد زبانی سے اور دشنام طرازی سے ڈرا لو گے مگر آپؐ کی اور آپؐ کے والدین کی عزت کا جو نگہبان ہے‘ اس کا کیا کرو گے؟
اب بھی وقت ہے! توبہ کرو! تمہارا لیڈر بھی بر سر عام توبہ کرے اور وہ جو سٹیج پر کھڑے تھے وہ بھی توبہ کریں اور اظہارِ ندامت کریں۔ورنہ اقبال کی یہ وارننگ ذہن میں رکھیں 
گمان مبر کہ بپایان رسید کارِ مغان
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
پیرِ مغاں کا کام ختم نہیں ہوا۔ ہزاروں قسم کی مے ابھی انگور کی بیلوں کے ریشوں اور رگوں میں موجود ہے!
ہمارے دامن میں اور ہے بھی کیا! صرف ناموسِ رسالت ہی تو بچا ہے! اسے ہم کسی قیمت پر نہیں کھو سکتے! کل اس ناموس پر حسینؓ قربان ہوئے تھے! آج حسین ؓکے غلام سر بکف ہیں !

Monday, May 22, 2023

سیاسی کالموں کی کڑی دھوپ میں


'' ملتان کے دور دراز علاقے موضع پیر تنوں میں چاہ کوڑے والا کے مقام پر میری پیدائش ہوئی جہاں صرف دو گھر تھے‘ ایک ہمارا دوسرا کسی اور کا تھا۔باقی دور دور تک صحرا تھا۔ایک کنارے پر ہماری کچھ زمین تھی۔میرے والد خود ہی کھیتی باڑی کرتے تھے۔ جب میں ساڑھے تین سال کا تھا تو ایک شام جب اندھیرا پھیل چکا تھا‘ میں اور میرے والد گھر کی طرف آ رہے تھے تو انہیں میرے سامنے قتل کر دیا گیا۔ میں کماد کے اس کھیت میں چھپ گیا جہاں وہ لوگ چھپے ہوئے تھے۔وہ انہیں مارنے کے بعد اٹھا کر لے گئے اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا اور ساری زندگی ڈھونڈنے کے باوجود میں اپنے والد کی قبر بھی تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اور نہ ہی والد کی شبیہ میرے ذہن میں محفوظ رہ سکی‘‘۔
یہ الفاظ طارق نعیم کے ہیں۔ تقریباً نصف صدی پیشتر جب میں طالب علم تھا اور اسلام آباد میں وارد ہوا تو '' گوشۂ ادب نامی تنظیم کے زیر اہتمام مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں یہ تنظیم ایک تاریخی ادارہ بن گئی اور آج بھی زندہ اور سرگرم ہے۔ جس اولین دور کی بات کی جا رہی ہے اس میں وفا چشتی‘ شیدا چشتی مرحوم‘اختر شیخ مرحوم‘ ناصر عقیل‘ رفیق سندیلوی‘ انجم خلیق اور بہت سے دوسرے احباب شامل تھے۔ طارق نعیم بھی انہی میں تھا۔ میں اسے گزشتہ پچاس برس سے دیکھ رہا ہوں‘ مل رہا ہوں۔یوں لگتا ہے آج بھی وہ اپنے مقتول اور مظلوم والد کی قبر تلاش کر رہا ہے اور کمال خاموشی اور متانت سے تلاش کر رہا ہے۔ اس تلاش میں اسے کامیابی تو نہ نصیب ہوئی مگر اس کی شاعری میں ایک دھیمی آنچ ضرور در آ ئی جو اسے تو جلا تی ہی رہی ہے‘ اس کے پڑھنے والوں کو بھی اداس کرتی رہی ہے۔اس عرصہ میں اس نے ملازمتیں کیں۔ کاروبار کیے۔ادبی جریدوں کا مدیر رہا‘ مگر جو کام اس نے جم کر کیا اور جو اس کا مستقل ساتھی رہا وہ شاعری تھی۔ شاعری میں اس نے اپنا مقام بنایا۔اس کی غزل چونکا دینے والی ہے۔جس طرح کسی دانہ دار شے کو پانی میں ڈالیں تو وہ اوپر سطح تک آجاتی ہے اسی طرح طارق نعیم کی شاعری بھی‘ ہجوم میں‘ اوپر آتی گئی یہاں تک کہ ممتاز ہو گئی۔ دو وصف اس کی شاعری میں نمایاں ٹھہرے۔ ایک تو اس نے اپنی شاعری کو مفرّس اور معرّب ہونے سے بچایا۔ اضافتوں کا ستعمال کم سے کم کیا۔دوسرے‘ اس نے مطالعہ تو سب شاعروں کا کیا مگر پَرتو کسی کا اپنی شاعری پر نہیں پڑنے دیا۔ اگر اس کی شاعری میں کوئی رنگ ہے تو اس کا اپنا رنگ ہے۔ کئی سال پہلے میں نے جب اس کا یہ شعر سنا 
یونہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی‘ شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے
تو مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا! کیا شعر ہے اور کیا طمطراق اور جلال ہے ! عباس تابش کے ایک شعر نے اسی طرح دم بخود کر دیا تھا 
حالتِ جنگ میں آدابِ خور و نوش کہاں
اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ
طارق نعیم نے شعری کلیات چھپوائی ہے۔'' آنکھ سے آسمان جاتا ہے‘‘۔صُوَری حسن اس کا معنوی حسن سے کم نہیں! سیاسی کالموں کی اس کڑکتی دھوپ میں‘ آئیے! کچھ دیر طارق نعیم کی شاعری کی ٹھنڈی گھنی چھاؤں میں چادر بچھا کر‘ بیٹھتے ہیں ! دیکھیے! نرم ہوا کے جھونکوں میں کتنا سکون ہے !! 
تم آئے تھے تو مجھے مل کے ہی چلے جاتے
یہیں زمین پہ تھا اور میں کہاں گیا تھا
پلٹ کے دیکھ نہ لیتا اگر وہ جاتے ہوئے
تو میرا جان سے جانا بھی رائگاں گیا تھا
٭......٭......٭
اب آسمان کی بابت نہ مجھ سے پوچھا کرو
بہت دنوں سے مرا آنا جانا ختم ہوا
عجب خراب سی عادت پڑی ہوئی ہے اسے
جہاں وہ ہوتا نہیں ہے‘ وہاں بتاتا ہے
٭......٭......٭
تری گلی کا پتہ جس کسی نے بھی پوچھا
میں ساتھ چلتا گیا راستہ بناتے ہوئے
٭......٭......٭
فرضِ محال تم ہی خدا بن گئے تو پھر
خلقِ خدا کے سامنے آیا کروگے کیا
٭......٭......٭
آسماں تو مرا ہدف نہیں تھا
میرے پیچھے زمیں پڑی ہوئی تھی
٭......٭......٭
میں کائنات کے بارے میں کیا بتاؤں تمہیں
مجھے تو ٹھیک سے اپنا بھی کچھ پتہ نہیں ہے
٭......٭......٭
ہم نے جس شخص کو مسند پہ بٹھایا ہوا ہے
اس نے تو ایک تماشا سا بنایا ہوا ہے
ایسے لگتا ہے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں
واعظِ شہر بھی فردوس میں آیا ہوا ہے
میں اسے دیکھ کے آیا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
شہر کا شہر مجھے دیکھنے آیا ہوا ہے
پہلے رہنے ہی نہ دیتے تھے مجھے شہر کے لوگ
اب مرے نام پہ اک شہر بسایا ہوا ہے
٭......٭......٭
تجھے قسم ہے مرے ہمسفر! سفر کے بعد
کوئی بھی بات کسی کو نہیں بتانی مری
عدو بھی ہو تو اسے خوش رخی سے ملتا ہوں
میں کیا کروں یہ روایت ہے خاندانی مری
٭......٭......٭
کچھ دنوں کے لیے یہاں میرا
عارضی انتظام ہو گیا ہے
٭......٭......٭
بادشاہی تو فقیری میں بھی ہو جاتی ہے
تخت سے تاج سے دربار سے ہوتا کیا ہے
٭......٭......٭
میں داستان سرائے میں جاتا رہتا ہوں
کہیں کہیں سے یہ قصہ مرا سنا ہوا ہے
ستارو آؤ ذرا دیر مل کے بیٹھتے ہیں
ستارہ ساز کہیں کام سے گیا ہوا ہے
٭......٭......٭
میں کائنات کو آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں
سنی سنائی پہ جاتا تو مار کھا جاتا
٭......٭......٭
ہوتی اگر نہ کوئی گواہی مرے خلاف
پھر بھی امیر شہر تو تھا ہی مرے خلاف
٭......٭......٭
پڑنے لگا تھا ایک خلل سا اڑان میں
رستے سے آسمان ہٹانا پڑا مجھے

Thursday, May 11, 2023

استغاثہ


مردان کے مقام پر تحریک انصاف کے جلسے میں جو واقعہ پیش آیا وہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جو بویا گیا‘ وہ کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ سروں کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ درانتیاں سنبھال لی گئی ہیں! خچر ہانکے جا رہے ہیں۔
بیج بونے اور فصل پکنے کے درمیان چند دنوں اور چند راتوں کا فاصلہ نہیں! بیج بہت عرصہ پہلے بو دیا گیا۔ پھر اس فصل کی خوب آبیاری کی گئی۔ کھاد ڈالی گئی۔ باڑ لگائی گئی۔ نگہداشت کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ لاہور کی ریلی میں ایک بچے نے جو کچھ کہا‘ یا اس سے جو کچھ کہلوایا گیا‘ اس پر‘ وہاں سٹیج پر کھڑے چار معزز و معتبر‘ ذمہ دار افراد نے تالیاں بجائیں‘ مسکرا کر بچے کو داد دی۔ یہ منظر ساری دنیا نے دیکھا مگر یہ منظر صرف ساری دنیا نے نہیں‘ اُن فرشتوں نے بھی دیکھا جو آسمان اور زمین کے درمیان ہر وقت موجود رہتے ہیں! اور آسمانوں سے اوپر بھی حاضر رہتے ہیں اور جن کے پر ایک اُفق سے دوسرے اُفق تک چھائے ہوئے ہوتے ہیں! ان فرشتوں نے بھی‘ اور ان کے درمیان دمکتے چمکتے ستاروں نے بھی‘ اور گردش کرتے سیاروں نے بھی اور دودھیا رنگ کی کہکشاؤں نے بھی اور ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر ثانیہ‘ پھیلتی کائنات نے بھی یہ منظر دیکھا! ایسے جملے جو اس بچے نے کہے‘ یا اس سے کہلوائے گئے‘ اور جن جملوں پر‘ سٹیج پر کھڑے چار آدمیوں نے اظہارِ مسرت کیا اور تالیاں بجائیں‘ ایسے جملے اس دنیا میں اور اس کائنات میں اس سے پہلے شاید کسی نے نہیں کہے تھے! جس مقدس جوڑے کیساتھ ایک عام جوڑے کو ملایا گیا اور پھر اظہارِ مسرت کیا گیا‘ اُس مقدس جوڑے کے قدموں سے اُٹھتی گرد کے ساتھ بھی کسی جوڑے کو نہیں ملایا جا سکتا! کیا گلِ لالہ کا موازنہ ناگ پھنی سے کیا جا سکتا ہے؟ کوئی اندھا ہی ایسا کر سکتا ہے اور کوئی تیرہ بخت ہی اس پر خوش ہو کر داد دے سکتا ہے! آمنہ کی گود کا‘ جس میں آمنہ کا لال اترا‘ ابتدائے آفرینش سے لے کر‘ صورِ قیامت تک‘ کسی اور گود سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا! اور عبد اللہ؟ عقل کے اندھو! سیاہ بختو! وہ محمدﷺ کے والدِ گرامی تھے۔ جس شخص کا نام تم نے لیا‘ وہ اربوں سال بھی چلتا رہے‘ اُڑتا رہے‘ محمدﷺ کے والدِ گرامی کے قدموں کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا!
پھر اس کے بعد آپؐ کا اور حضرت خدیجہؓ کا جوڑا بے مثال ہے! روشنی کا مرقع! نور کا منبع! اگر یرقان زدہ آنکھوں کو خاتونِ جنت فاطمہ زہرا ؓ کے ماں باپ نہیں دکھائی دیے تو ان آنکھوں پر ماتم کرنا چاہیے! چشم فلک نے محمدﷺ جیسا کوئی اور باپ دیکھا نہ خدیجہؓ جیسی کوئی اور ماں اور نہ فاطمہؓ جیسی کوئی اور بیٹی! زمانوں اور جہانوں نے فاطمہؓ کے بعد حیا اور عفت کو‘ تقدس اور پاکیزگی کو پاک دامنی اور پرہیزگاری کو کسی دہلیز پر ادب سے جھکتے نہیں دیکھا۔ کیا شان تھی سیّدہ کی کہ تشریف لاتیں تو خدا کی طرف سے بھیجے گئے آخری پیغمبر اُٹھ کھڑے ہوتے! بیٹی کے لیے اپنی چادر بچھاتے! سفر پر تشریف لے جا رہے ہوتے تو سب سے آخر میں سیّدہ کو ملنے آتے اور واپسی ہوتی تو سب سے پہلے سیّدہ کو دیکھ کر مبارک آنکھیں ٹھنڈی کرتے۔ کیا دنیا سے رخصت ہوتے وقت پیغمبر نے کسی اور کو بھی یہ خوشخبری دی جو سیّدہ کو دی کہ سب سے پہلے آپ انہیں جا ملیں گی!! مسلمان خواتین کا مقبول ترین نام فاطمہ ہی تو ہے!! سیّدہ فاطمہؓ کے عہدِ مبارک سے لے کر آج تک‘ تصور کیجئے کتنی بچیوں کے نام فاطمہ پر رکھے گئے ہوں گے! کوئی کیلکولیٹر‘ کوئی کمپیوٹر ان بچیوں کی تعداد کا تعین نہیں کر سکتا! اور وہ بھی جو آج سے لے کر قیامت تک پیدا ہوں گی اور ان کے نام سیدہ کے نام پر رکھے جائیں گے!! فجی سے لے کر چلی تک اور آئرلینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ تک! کوئی شمار؟ کوئی حد؟
اور پھر‘ نفاق کے پتلو! تمہیں فاطمہؓ اور علیؓ بھی نہیں نظر آئے؟ کیا اس میں کسی کو رمق بھر بھی شک ہو سکتا ہے کہ جناب عبداللہ اور حضرت آمنہ کے بعد‘ اور محمدﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے بعد‘ اس کائنات کا خوش قسمت ترین اور افضل ترین اور برگزیدہ ترین اور فوق النظیر جوڑا شیر خدا اور سیّدہ کا ہے۔ کیا جلال اور مرتبہ ہو گا اس جوڑے کا جس کی شادی آقائے دو جہاںؐ نے خود کرائی ہو گی! کیا ہی کہنے! اور کیا ہی کہنے اس والد اور اس والدہ کے جن کے بچے حسنؓ اور حسینؓ اور زینبؓ اور ام کلثومؓ ہوں!! شاید ہی اس کرۂ ارض پر کوئی ایسا سنی گھرانہ ہو اور شاید ہی کوئی ایسا شیعہ گھرانہ ہو جس میں زینب نام کی بچی نہ ہو! یہ سیّدہ اور شیرِ خدا کی تربیت تھی کہ حسینؓ نے سر نہیں جھکایا اور زینبؓ نے یزید کے دربار میں کلمۂ حق کہا!
تم ہو کون جو فلاں اور فلاں کو کائنات کے مقدس ترین اور مکرّم ترین شخصیات سے جا ملاتے ہو! تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تمہاری اوقات کیا ہے؟ تم کس کھیت کی مولی ہو؟ تم رسالت مآبﷺ کے والدین کو سمجھتے کیا ہو؟ اور پھر تمہاری یہ جرأت‘ یہ مجال کہ اس یاوہ گوئی کو روکنے کے بجائے بتیسیاں نکال نکال کر تالیاں بجاتے ہو! کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے اپنے مقدر پر مہر لگا دی! تم نے اپنے پَیروں پر کلہاڑی مار لی! کاش! تم آگے بڑھ کر اُس بچے کو روک لیتے! کاش تم نعوذ باللہ کے الفاظ کہتے! کاش تم اسی سٹیج سے معذرت کر لیتے! مگر یہ سب تو توفیق سے ہوتا ہے! مہر جوں جوں لگتی جاتی ہے‘ توفیق دور ہوتی جاتی ہے! ستم بالائے ستم یہ کہ ایک صاحب نے وضاحت کی اور یہ وضاحت عذر گناہ بدتر از گناہ سے بھی زیریں سطح کی تھی۔ کہا کہ وہ تو بچہ تھا اور بچہ مکلَّف نہیں ہوتا! (مکلَّف کو وہ بار بار مکلِّف کہہ رہے تھے)۔ ارے بھئی! وہ جو چار ذمہ دار‘ بالغ افراد سٹیج پر کھڑے تھے اور مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے‘ کیا وہ بھی بچے تھے؟ کیا وہ بھی مکلَّف نہیں تھے؟ اور بچے سے ذرا پوچھا جائے کہ یہ مہلک الفاظ کس نے اس کے منہ میں ڈالے؟ یہ آتشیں جملے کس نے اسے رٹوائے؟ کون ذاتِ شریف ہے اس بچے کی پشت پر؟ اسے سامنے لایا جائے!
مردان میں جو کچھ ہوا‘ وہ قدرت کی بے آواز لاٹھی کی گونجتی‘ کڑکتی آواز ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ جنگی ہاتھی پلٹ کر اپنی سپاہ ہی کو روند دیتے ہیں! ہر معاملے کی ایک حد ہوتی ہے اور حد کراس ہو چکی‘ کبھی کہا گیا کہ قبر میں پوچھ ہوگی کہ فلاں کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ کبھی کہا گیا کہ عمرے پر جانے کا نہیں‘ میرے پاس آنے کا وقت ہے۔ کبھی صادق اور امین کی مقدس اصطلاح کی توہین کی گئی اور اب نبی آخر الزمانؐ کے محترم والدین کے ساتھ جا ملانا! نعوذ بااللہ! صد ہزار بار نعوذ بااللہ! کہاں ہمعصر سیاست کی کثافت‘ آلائش اور آلودگی اور کہاں یہ مقدس اور متبرک نام! یہ استغاثہ ہے جو بہت اوپر‘ آسمانوں میں درج ہوا ہے! اور یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا! 

بفضلِ ایزدی مضبوط ہے یہ استغاثہ
بحقِّ مصطفی و فاطمہ دعویٰ کیا ہے

Tuesday, May 09, 2023

انتقام


میں نے ہمیشہ اس کام سے اسے منع کیا۔ افسوس! ماننا تو دور کی بات ہے‘ اس نے میری بات پر کبھی سنجیدگی سے غور تک نہ کیا! 


شاید اس کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ جس میں سچ اور جھوٹ‘ ایمانداری اور بے ایمانی‘ اخلاص اور خود غرضی میں کسی قسم کے فرق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جن گھرانوں میں اخلاقی اور دینی قدروں کا خیال رکھا جاتا ہے ان گھرانوں کے بچے بڑے ہو جائیں تو جتنے بھی غلط نکلیں‘ ان قدروں کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور باقی رہتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا گھرانہ کسی اور ہی قسم کا تھا۔ جب بھی بات کرتا‘ اس میں کچھ نہ کچھ گنجلک‘ کچھ نہ کچھ پیچ ضرور رکھتا۔ ایک بات کہہ کر‘ دوسرے دن‘ اس سے الٹ بات کہہ دینا اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ کبھی کبھی ہم‘ اس کے رفقائے کار‘ اس کی حرکتیں دیکھ کر ششدر رہ جاتے!
ایک بار اس نے ہم سب کو کھانے کی دعوت دی۔ ہم ریستوران میں پہنچ گئے۔ کھانا کھا چکے تو اس نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ اپنے اپنے حصے کے پیسے دو۔ ہم بہت حیران ہوئے۔ دھچکا بھی لگا۔ یقین نہیں آرہا تھا۔ جب وہ اپنے حصے کی رقم رکھ کر ریستوران سے باہر نکل گیا تب ہم نے حیرت پر قابو پایا اور صورتحال کو قبول کیا۔ ایک بار وہ کسی صندوکڑی میں کچھ رقم ڈال رہا تھا۔ یاد نہیں‘ یہ صندوکڑی کسی مسجد کی تعمیر کے لیے تھی یا کسی اور فلاحی کام کے لیے۔ اس نے کرنسی نوٹ صندوکڑی کے سوراخ میں رکھے۔ آدھے اندر۔ آدھے باہر! ادھر فوٹوگرافر نے کڑِک کرکے تصویر بنائی‘ اُدھر اس نے نوٹ باہر نکالے اور جیب میں ڈال لیے۔ جب میں یا دوسرے ساتھی اُس سے ان باتوں پر سوال جواب کرتے تو اسے حیرت ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے اسے ان تمام حرکتوں پر کوئی ندامت نہیں تھی۔ جواز اور عدم جواز کے حوالے سے اُس کے تصورات ہی عجیب و غریب تھے۔ اگر ایک بچے کو‘ جو ماں کے پیٹ میں ہو‘ آپ سمجھانے کی کوشش کریں کہ جب تم دنیا میں آؤ گے تو وہاں ٹرین ہو گی جو اس طرح کی ہو گی اور ہوائی جہاز ہو گا جو اس طرح کا ہو گا‘ تو اس بچے کے پلے کچھ بھی نہیں پڑے گا کیونکہ اس کے ذہن میں ان چیزوں کا کوئی تصور ہی نہیں۔ بالکل اسی طرح‘ جس دوست کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ اس کے ذہن میں بھی جائز ناجائز کا کوئی تصور نہیں تھا۔
ہم جس ادارے میں کام کر رہے تھے‘ وہاں کے قوانین سخت تھے۔ سال میں معینہ تعداد سے زیادہ چھٹیاں نہیں ہو سکتی تھیں۔ کسی معقول وجہ کا ہونا بھی لازم تھا۔ ہمارا یہ دوست کبھی کسی عزیز کی شدید بیماری کا بہانہ بناتا‘ کبھی کسی کی فرضی موت کو بنیاد بنا کر گھر بیٹھ جاتا! خالہ سے لے کر پھپھی تک‘ دادی سے لے کر نانی تک‘ چچا سے لے کر ماموں تک‘ کزن سے لے کر بھابی کی تائی تک سب کو نہ جانے کتنی بار بیمار کیا‘ مارا‘ ان کے جنازوں میں شامل ہوا اور ان کی برسیاں منائیں! پھر وہ وقت بھی آیا جب اس ظالم نے چھٹی لینے کے لیے اپنے باپ کو مارا۔ اس دن میرا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ میں نے اسے شرم دلائی کہ خدا کا خوف کرو! قدرت کے کاموں میں اس حد تک دخیل نہ ہو جاؤ کہ کل تم پچھتاؤ! مگر وہ آگے سے ایسے ہنس رہا تھا جیسے اس کے لیے یہ ایک بالکل عام سی بات ہو! کرنا خدا کا کیا ہوا کہ کچھ دن کے بعد اس کا والد حقیقت میں وفات پا گیا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو! یہ تمہارے لیے ایک خدائی وارننگ ہے۔ دروغ گوئی اور جعل سازی سے توبہ کرو۔ مگر اس کے دل پر شاید مہر لگ چکی تھی۔ والد کی اچانک وفات بھی اس کا دل نرم نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ وہ وفات کے دوسرے دن کھیل تماشے کے لیے کسی دوسرے شہر کو جانے لگا تھا۔ سب نے روکا کہ ابھی تو ہر چہار طرف سے لوگ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے مرحوم کے بیٹے کا پوچھیں گے۔ تمہیں نہ پا کر مایوس ہوں گے اور پھر یہ بھی ہے کہ جتنے منہ‘ اتنی باتیں! بہت مشکل سے رُکا۔ یوں بھی تعزیتیں اور جنازے اس کے نزدیک لاحاصل کام تھے۔ قریب ترین احباب کے جنازوں میں شریک ہوا نہ تعزیت ہی کے لیے کبھی کسی کے پاس گیا۔
کرنا خدا کا‘ انہی دنوں ایک حادثے میں اس کا بازو زخمی ہو گیا۔ کچھ دن تک تو اس حادثے کی وجہ سے اس کی غیر حاضری جائز تھی اور منطقی بھی! مگر کافی عرصہ بعد جب اس کا بازو تندرست ہو گیا تب بھی اس نے اس حادثے کو اپنے مقاصد کے لیے خوب خوب استعمال کیا اور یوں استعمال کیا کہ دیکھنے والے اور جاننے والے ششدر رہ گئے۔ اب تو گویا ایک سِحر‘ ایک طلسم‘ اس کے ہاتھ آگیا۔ اب اس کے بازو پر ہمیشہ پٹی بندھی ہوئی نظر آتی۔ بازو کی وجہ سے اب چھٹی لینا اس کا خاص حربہ بن گیا۔ کبھی کہتا کہ ٹانکے کھل گئے ہیں! کبھی کہتا اس میں پیپ پڑ گئی ہے۔ کبھی کہتا کہ جھٹکا لگنے سے زخم پھر ہرا ہو گیا ہے۔ جب بھی ادارے کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی‘ یا کوئی خاص موقع ہوتا یا بیرونِ ملک سے کلائنٹ آئے ہوئے ہوتے وہ غائب ہو جاتا۔ اس کی درخواست آ جاتی کہ حضور! بندہ پرور! میں تو بازو ہلا تک نہیں سکتا! چہ جائیکہ ڈیوٹی پر آؤں اور بالکل ہی کام سے جاؤں! اتفاق سے اس کے ایک قریبی عزیز کا اپنا نجی ہسپتال بھی تھا۔ وہ اپنی بیماری اور زخمی بازو سے متعلق تمام مشکوک رپورٹیں اور سرٹیفکیٹ اسی ہسپتال سے بنوا کر حاضر کرتا!
پھر گردشِ زمانہ نے مجھے اس سے جدا کردیا۔ شکم پروری کے لیے میں کئی اقلیموں‘ کئی ولایتوں اور کئی شہروں میں باد پیمائی کرتا رہا اور جزیروں اور سمندروں میں مسافرت جھیلتا رہا۔ اب جب سر اور مونچھوں اور بھوؤں کے بال برف کی طرح سفید ہو گئے ہیں تو وطن واپس لوٹا ہوں۔ اہلِ خانہ ایک عمر کے بعد مجھے اپنے درمیان پا کر بہت ہی خوش ہوئے ہیں۔ بچے‘ جو اس عرصہ میں جوان ہو کر اپنے اپنے کام میں لگے ہیں‘ مجھ سے سفر کی داستانیں اور غربت کے تجربے سنتے رہے ہیں۔ کئی دنوں بعد پرانے دوستوں کا خیال آیا۔ ایک ایک کو ڈھونڈ نکالا۔ خوب صحبتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے کی آپ بیتیاں سنیں اور سنائیں۔ گُل شدہ چراغوں کے دھوئیں یاد کیے۔ اچانک مجھے اُس کا خیال آیا۔ احباب سے پوچھا کہ اس کی کیا خیر خبر ہے؟ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ تعجب ہوا کہ میرے استفسار پر سب خاموش ہو گئے۔ پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر نیچے زمین کی طرف! ایک دو نے سرد آہیں بھی کھینچیں! دوبارہ پوچھا تو کہنے لگے: ہم سے کیا پوچھتے ہو‘ خود جا کر مل لو اور حال احوال جان لو۔ دوسرے دن صبح ہی میں اسی قدیم محلے میں پہنچا جہاں اس کا‘ پرانی وضع کا‘ آبائی گھر تھا۔ کُنڈی کھڑکائی تو اندر سے ایک منحنی سا آدمی نکلا۔ پہلی نظر میں پہچاننے کا سوال ہی نہ تھا۔ غور سے دیکھا تو وہی تھا۔ مجھے اندر لے گیا۔ اس کی آنکھوں میں سے عجیب بجھی بجھی سی زندگی جھانک رہی تھی۔ بازو پر‘ کندھے سے لے کر ہاتھ تک‘ پٹی بندھی تھی۔ حیرت ہوئی۔ پوچھا تو شکستہ آواز میں بولا کہ تم درست کہتے تھے۔ بازو حقیقت میں خراب ہو گیا ہے۔ بہت علاج کرائے مگر رستا رہتا ہے۔ پیپ ایسی پڑی ہے کہ خشک ہی نہیں ہوتی۔ قدرت نے مجھے انتقام کے نشانے پر رکھ لیا ہے!!

Thursday, May 04, 2023

لیبر ڈے


آج گھر کی چھت پڑنی تھی۔
چند اعزّہ اور احباب کو بلایا ہوا تھا۔ کھانے کا بھی بند و بست تھا۔ صبح نو بجے تک مستری اور مزدوروں نے پہنچ جانا تھا مگر کوئی بھی نہ آیا۔ جب سے مکان کی تعمیر شروع ہوئی‘ لیبر کا یہی رویہ رہا۔ عید آئی تو ہر ایک نے عیدی وصول کی اور پھر کئی ہفتے غائب رہے۔ کبھی کسی کا چچا انتقال کر جاتا کبھی پھوپھی کا میاں! کبھی فصل کاٹنے کی وجہ سے غیر حاضری ہوتی کبھی کسی کے والد کی برسی آجاتی۔ جو مکان آٹھ دس مہینوں میں بن سکتا تھا اس کی تکمیل میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔
یہ تجربہ چند افراد کا نہیں‘ بے شمار لوگوں کا ہے۔ لیبر ڈے ہر سال منایا جاتا ہے مگر جو لوگ اس لیبر کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں‘ ان کا کوئی ڈے نہیں منایا جاتا۔ ایک دوست کا مکان زیرِ تعمیر تھا۔ ان کے شٹرنگ والے بندے نے کہا کہ اسے گاؤں جانا ہے کیونکہ اس کی ماں کو کینسر ہے۔ ہمارے دوست نے اسے گاؤں آنے جانے کا کرایہ دیا‘ اب تک جو رقم مزدوری اور معاوضے کی بن رہی تھی‘ وہ بھی ادا کی اور اس کے علاوہ کچھ ایڈوانس بھی دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کینسر اور گاؤں جانے کی کہانی جھوٹی تھی۔ وہ ساتھ والے محلے میں کسی اور مکان پر کام کرتا رہا۔ سزا کے طور پر اسے انہوں نے فارغ کر دیا مگر شٹرنگ والوں کا ایکا اتنا تھا کہ کسی نے بھی انہیں شٹرنگ مہیا نہ کی۔
آپ کے موبائل میں ایک ہی سم ہو گی مگر آپ کے ڈرائیور اور ملازم کے پاس دو یا تین سمیں ہوں گی۔ ایک صاحب‘ جو تعمیر کے شعبے میں ہیں‘ رو رہے تھے کہ یہ لوگ سارا سارا دن بیٹھے فون کرتے رہتے ہیں ''اور پھر سناؤ کیا حال ہے‘‘ یہ وہ ضروری بات ہے جو یہ پہروں کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ڈرائیور کے محتاج ہیں تو پھر یوں سمجھیے جیسے وہ آپ کا مالک ہے اور آپ اس کے ملازم ہیں۔ گھریلو بلی کے بارے میں ماہرینِ نفسیات کی رائے ہے کہ وہ گھر والوں کو اپنا ملازم سمجھتی ہے اور اگر ان سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو اسے غصہ آتا ہے۔ غصے کا اظہار کبھی وہ میز سے یا کچن کے کاؤنٹر سے چیزیں نیچے گرا کر کرتی ہے یا ضرورت کے وقت اپنے مخصوص ''بیت الخلا ‘‘ میں نہیں جاتی۔ ڈرائیور کی بھی کم و بیش یہی نفسیات ہے۔ ایک ڈرائیور نے آکر پہلے دن اعلان کیا کہ ٹھیک گیارہ بجے اسے چائے پینی ہوتی ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل ہوتی رہی۔ صرف ایک دن گھر میں کوئی ہنگامہ تھا‘ شاید کسی بچے کا عقیقہ‘ کہ چائے اسے دیر سے ملی۔ اس نے گاڑی کی چابی پھینکی اور چلا گیا۔ ان حضرات کی خاص ٹیکنیک یہ ہے کہ جس دن غیر حاضر رہنا ہو‘ اپنا فون بند کر دیتے ہیں۔ آپ نے دوسرے شہر کا سفر کرنا ہے۔ صبح سے تیار بیٹھے ہیں۔ ڈرائیور نہیں پہنچا۔ گھنٹے گزر جاتے ہیں۔ فون بند ملتا ہے۔ دوسرے دن فون بند رہنے کی وضاحت یہ ملتی ہے کہ بیٹری ختم ہو گئی تھی۔ اگر پوچھیں گے کہ بھئی! نہیں آنا تھا تو بتا تو دیتے! اس شکوے کا مستقل جواب یہ ہوگا کہ بیلنس نہیں تھا!
یہ تو وہ لیبر ہے جو گھروں میں کام کرتی ہے۔ رہی وہ لیبر جو پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے جیسے عظیم الجثہ اداروں میں کام کرتی ہے‘ تو وہ اتنی طاقتور ہے کہ ان اداروں کو چلنے دیتی ہے نہ بیچنے دیتی ہے۔ اعظم سہگل پی آئی اے کے واحد چیئرمین تھے جنہوں نے اخلاقی جرأت دکھائی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ پی آئی اے کی انتظامیہ‘ عملاً یونینوں کے ہاتھ میں یر غمال بنی ہوئی ہے۔ اس بے بسی کی سب سے بڑی مثال پی آئی اے میں جہازوں کی تعداد اور فی جہاز افرادی قوت کا تناسب ہے۔ جہاں چار ہزار افراد کی ضرورت ہے وہاں اٹھارہ ہزار لوگ تنخواہ لے رہے ہیں۔ چیئرمین نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انتظامیہ کارکردگی کی بنیاد پر کسی ملازم کو منتخب کر سکتی ہے نہ ہی نکال سکتی ہے۔ تفتیش کے بعد کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ جو ملازم ہڑتال میں ملوث تھے‘ ان کے خلاف کارروائی کر کے انہیں نکالا گیا مگر کچھ دنوں بعد آہستہ آہستہ سب اپنی اپنی سیٹوں پر واپس بیٹھ گئے۔
سرکاری دفتروں کے کلرک‘ ڈرائیوراور نائب قاصد اپنی حالتِ زار پر بہت کڑھتے ہیں اور واویلا بھی مچاتے ہیں مگر یہ سرکار ہی ہے جو ان کی ''کارکردگی‘‘ کو برداشت کیے جا رہی ہے۔ لاہور اور پنڈی اسلام آباد کے سرکاری محکموں کے ملازمین اپنے دفتری اوقات میں لاء کالجوں اور ہومیو پیتھی کالجوں کی کلاسیں اٹینڈ کرتے ہیں۔ پنڈی کے ایک معروف صراف کی متعدد دکانوں میں کم از کم دس بارہ سرکاری ملازم دن کے وقت ملازمت کرتے تھے۔ جب ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاتا تھا تو یونین حرکت میں آجاتی تھی اور منت سماجت‘ دھمکی‘ بلیک میلنگ سمیت ہر حربہ آزمایا جاتا تھا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست کا ایک پِک اپ والے سے جھگڑا ہو گیا۔ جب بات بڑھ گئی تو پک اَپ کے ڈرائیور نے دھمکی دی کہ وہ سرکاری ملازم ہے اور اس کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ وفاقی وزارتِ خزانہ کا ملازم ہے مگر دن بھر‘ دفتر سے غیر حاضر رہ کر‘ پرائیویٹ گاڑی چلاتا ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر معظم منہاس مرحوم نے ایک ڈرائیور رکھا۔ نئے مہینے کی یکم اور دو تاریخ کو وہ غائب ہو گیا۔ تیسرے دن آیا تو پوچھنے پر کہنے لگا کہ تنخواہ لینے گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اسلام آباد میں واقع ایک معروف سرکاری محکمے کا باقاعدہ ملازم ہے۔ طویل عرصے سے پرائیویٹ کام کر رہا ہے اور سرکار سے ماہانہ تنخواہ بھی لے رہا ہے۔ ظاہر ہے دفتر میں کوئی اس کی پشت پر ہوگا۔ یہ ہے وہ لیبر جو ہائے وائے کا شور مچاتی ہے اور لیبر ڈے پر ہر یکم مئی کو اس کی تالیفِ قلب کے لیے ملک بھر میں چھٹی بھی کی جاتی ہے۔
لیبر کے نام سے اکثر و بیشتر ہمارے ذہن میں وہ مزدور آتا ہے جو زیرِ تعمیر مکان میں اینٹیں ڈھو رہا ہے یا بجری بھری بالٹیاں اٹھا رہا ہے یا وہ مزدور جو کارخانے یا فیکٹری میں کام کر رہا ہے۔ یہ سب اصلاً طاقتور افراد ہیں۔ یہ سب اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ایک معروف صنعتی شہر میں ایک فیکٹری منیجر کو جس طرح ہلاک کیا گیا‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ نام نہاد مزدور کتنے طاقتور ہیں۔ وہ منیجر ڈسپلن کے معاملے میں سختی برتتا تھا اور اس کا اصل ''جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ کام صحیح کرتا تھا اور کراتا تھا! لیبر اور غیر لیبر کا فرق مصنوعی ہے اور دھاندلی پر مشتمل! لیبر کا مطلب اگر محنت ہے تو یہ محنت تو سرکاری افسر بھی کرتا ہے‘ فیکٹری کا مالک بھی کرتا ہے‘ کارخانے کا منیجر بھی کرتا ہے‘ بینک کا اے وی پی بھی کرتا ہے‘ زیرِ تعمیر مکان کا ٹھیکیدار اور نقشہ بنانے والا آرکیٹیکٹ بھی کرتا ہے اور سکول‘ کالج یونیورسٹی میں پڑھانے والا استاد بھی کرتا ہے۔ تو لیبر ڈے پر ان سب کو کیوں نہیں یاد رکھا جاتا؟ آخر میں لیبر سے متعلق ایک لطیفہ بھی سن لیجیے جو غالباً ایک واقعہ ہے اور ماضی بعید کے ایک وزیر صاحب سے منسوب ہے جن کا ایبٹ آباد اور گلگت کے درمیانی علاقے سے تعلق تھا۔ انہوں نے ہسپتال میں لیبر روم کا افتتاح فرمایا تو تقریر میں فخر کے ساتھ کہا کہ ہم مزدوروں یعنی لیبر کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ہسپتالوں میں بھی لیبر روم بنوا دیے ہیں!!

Tuesday, May 02, 2023

بڑے شہر


ڈاکٹر آفتاب احمد 1923ء میں پیدا ہوئے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس میں آ گئے۔ اُس وقت پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس سی ایس ایس کی ایک الگ سروس تھی۔ 1973ء میں بھٹو صاحب نے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس اور پاکستان ریلوے اکاؤنٹس سروس کو پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں ضم کر دیا۔ بھارت میں یہ تینوں سروسز اب بھی الگ الگ ہیں۔ جمہوری تسلسل کی وجہ سے یہ سروسز بھارت میں طاقتور سروسز ہیں اور ان کےClientsانہیں آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ بھٹو صاحب نے سیاسی بنیادوں پر بیورو کریسی میں اپنی پسند کے افراد داخل کیے۔ یہ افراد کسی مقابلے کے امتحان کے ذریعے تو آئے نہیں تھے‘ اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ کسی سروس کا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔ اس کا علاج بھٹو صاحب کی حکومت نے یہ کیا کہ جو مقابلے کا امتحان دے کر آئے تھے انہیں بھی اپنے نام کے ساتھ سروس کا نام لکھنے سے منع کر دیا۔ یعنی کھیلیں گے‘ نہ کھیلنے دیں گے۔ بھارت میں اب بھی اپنی اپنی سروس کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب احمد بنیادی طور پر ادیب تھے۔ اُس زمانے کی جو ادبی کہکشاں تھی‘ صوفی تبسم‘ ن م راشد‘ فیض صاحب‘ تاثیر صاحب‘ غلام عباس‘ اسی کہکشاں کا ایک ستارہ ڈاکٹر آفتاب احمد بھی تھے۔ پی ایچ ڈی کرنے لندن گئے۔ وہاں ٹی ایس ایلیٹ اور دیگر مشاہیر سے ملاقاتیں رہیں۔ عزیز داری مولانا ظفر علی خان سے بھی تھی! ڈاکٹر آفتاب احمد کی کئی ادبی تصانیف ہیں۔ ''بنامِ صحبتِ نازک خیالاں‘‘ ان میں زیادہ مشہور ہے۔
یہ سب تو تمہید ہے۔ اصل بات جو بتانا مقصود ہے‘ اور ہے! اوپر جو کچھ لکھا ہے اس لیے لکھا ہے کہ بہت سوں کو‘ بالخصوص نژادِ نو کو ان باتوں کا‘ ان مشاہیر کا علم نہیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا کا اس ملک میں بد ترین استعمال ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ای ریڈر عام ہو رہا ہے۔ کتابیں بصری کے بعد اب سمعی سہولت کے ساتھ بھی میسر ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا‘ اس لیے فراموش شدہ مشاہیر کا ذکر بھی ضروری ہے اور اداروں کی بدلتی یا بگڑتی‘ شکلوں کا بیان بھی! ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب کی خدمت میں ایک دن حاضر تھا تو گفتگو کے دوران انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ممکن ہو تو ہمیشہ کسی بڑے شہر میں رہنا چاہیے کہ اس کے فوائد بہت ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ کس طرح لاہور اور لندن رہنے سے انہیں مشاہیر سے ملاقاتوں کے مواقع ملے اور لائبریریوں سے استفادہ کیا۔
اس کالم نگار کو ڈھاکہ میں رہنے سے جو علمی اور ثقافتی فوائد حاصل ہوئے وہ کسی چھوٹے شہر یا قصبے میں رہنے سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ وہیں طارق علی سے ملنے اور اس کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی کو دیکھا۔ خواجہ خیر الدین کے محل میں‘ زندگی میں پہلی بار نواب زادہ نصر اللہ خان سے ملاقات ہوئی۔ ڈھاکہ کا مشہورِ عالم پنیر بھی وہیں کھایا۔ مولانا مودودی‘ مولانا عبدالستار خان نیازی‘ چودھری رحمت علی‘ حکیم سعید‘ مولوی فرید احمد اور دیگر کئی شخصیات سے ملاقات‘ یا ان کی دید کا موقع ملا۔ پروفیسر غلام اعظم سے تو کئی بار ملاقات ہوئی۔ چاند پر جانے والے خلابازوں (آسٹر و ناٹس) کو دیکھا۔ اسی طرح اُس زمانے کا اسلام آباد آج کے شہر سے مختلف تھا۔ بڑے بڑے اہلِ علم آتے تھے اور ان کی تقریریں سننے کے مواقع ملتے تھے۔ معروف شاعر‘ محب عارفی کے گھر میں‘ جو وزارتِ خزانہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے‘ ہر ہفتے کی شام کو شعرا کی محفل برپا ہوتی تھی۔ تقسیم سے پہلے جب محب عارفی‘ شملہ میں‘ مرکزی حکومت کے ایک معمولی ملازم تھے‘ اُس وقت اُن کے گھر میں اس ہفتہ وار مجلس کا انعقاد شروع ہوا۔ شملہ سے یہ روایت ان کیساتھ ہی کراچی پہنچی۔ کراچی سے راولپنڈی آئی۔ ساتھ ساتھ محب صاحب کی ترقی بھی ہوتی گئی۔ چنانچہ جب وہ پنڈی سے اسلام آباد منتقل ہوئے تو وزارتِ خزانہ میں جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جوائنٹ سیکرٹری کا ایک مقام تھا اور اہمیت تھی۔ بیورو کریسی سیاست زدہ نہیں ہوئی تھی۔ محب صاحب مالیات کے قوانین پر غیرمعمولی عبور رکھتے تھے۔ ان کی رُولنگ فائنل ہوتی تھی۔ اسی لیے ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ''جسے دے اللہ‘ اس سے لے محب اللہ‘‘۔ ان کے گھر جو ہفتہ وار نشست ہوتی تھی اس میں ہم نے‘ کہ اس وقت طالبعلم تھے‘ بہت سے ممتاز شعرا کو پہلی بار دیکھا۔ یوسف ظفر‘ ڈاکٹر سید صفدر حسین‘ ڈاکٹر ظہیر فتحپوری‘ صادق نسیم‘ باقی صدیقی اور کئی دیگر مشاہیر کو وہیں پہلی بار سنا۔ محب صاحب حاضر شعرا کی تواضع پُر تکلف چائے سے کرتے۔ خود آخر میں اشعار سناتے۔ مابعد الطبیعیاتی موضوعات پر انہوں نے کمال درجے کی شاعری کی۔ انہیں اردو شاعری کا John Donneکہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
تہہ سطح تک آپہنچی‘ اک موج نہ ہاتھ آئی
کب تک یہ مہم آخر‘ اب کھینچ لوں جال اپنا
٭......٭......٭
محبؔ ملی ہے مجھے ایک عمرِ سعی کے بعد
وہ موت لوگ جسے ناگہاں سمجھتے ہیں
ان کی یہ غزل مشہور ہے:جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے/ وہی پھول ہیں شہد اگلتے رہیں گے۔ گھٹائیں اٹھیں سانپ ویرانیوں کے/ انہی آستینوں میں پلتے رہیں گے۔ شریعت خس و خار ہی کی چلے گی/ علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے۔ نئی بستیاں روز بستی رہیں گی/ جنہیں میرے صحرا نگلتے رہیں گے۔ مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے/ دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے۔ رواں ہر طرف ذوقِ پستی رہے گا/ بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے۔ جسے سانس لینا ہو خود آڑ کر لے/ یہ جھونکے ہوا کے تو چلتے رہیں گے۔ یہ پتے تو اب پھول کیا ہو سکیں گے/ مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہیں گے۔ محب ؔراستی ہے عبارت کجی سے/ مرے بل کہاں تک نکلتے رہیں گے۔
یہ بڑے شہر ہی ہیں جہاں ٹیلنٹ دریافت ہوتا ہے‘ نکھرتا ہے اور ٹیلنٹ رکھنے والے کو اس کا حق ملتا ہے۔ ادیب ہوں یا بزنس کرنے والے افراد‘ سائنسدان ہوں یا کسی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ سب نے ہمیشہ نیو یارک یا لندن کا رُخ کیا۔ دلّی ایک عرصے تک نہ صرف برصغیر کے ٹیلنٹ کی پناہ گاہ رہی بلکہ ایران اور وسط ایشیا سے بھی ادیب‘ شاعر‘ سپاہی اور تاجر دلّی ہی کی طرف ہجرت کرتے رہے۔ پھر جب لکھنؤ اور حیدرآباد دکن نے‘ دہلی کے مقابلے میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی تو دنیا کا رُخ ان شہروں کی طرف ہو گیا۔ لاہور کے حوالے سے جتنے بڑے بڑے لوگ مشہور ہیں‘ ان میں سے بہت کم ایسے تھے اور ایسے ہیں جواصلاً لاہور کے ہیں۔ ان کی بھاری اکثریت ان اصحاب پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے شہروں‘ بستیوں اور قریوں کو چھوڑ کر لاہور میں آبسے۔ محمد حسین آزاد تھے یا علامہ اقبال‘ مولانا ظفر علی خان تھے یا فیض صاحب یا احمد ندیم قاسمی یا قتیل شفائی‘ سب اپنی اپنی بستیوں اور شہروں سے اُٹھ کر لاہور آئے۔ آج کے مشاہیر کا بھی جائزہ لے لیجیے۔ ظفر اقبال‘ عطاالحق قاسمی‘ مجیب الرحمن شامی‘ اصغر ندیم سید‘ خورشید رضوی‘ نجم سیٹھی اور کئی اور مشاہیر لاہور میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ لاہور کو انہوں نے اپنایا۔


 ہر سال ہزاروں لاکھوں افراد لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان شہروں میں اتنی گنجائش ہے؟ کیا سب کو روزگار مل جائے گا؟ کیا مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ کیا بجلی‘ پانی‘ گیس سب کو میسر آسکے گی؟ کیا سیوریج کے نظام میں وسعت کی گنجائش ہے؟ کیا کوڑا کرکٹ کو سمیٹنے اور ٹھکانے لگانے کا بندو بست ہو جائے گا؟ جب ان ضروریات کے حساب سے پلاننگ نہیں ہوتی تو بڑے شہر جرائم کا گڑھ بن جاتے ہیں!

Monday, May 01, 2023

نعمان کا دردناک انجام


خبر سنتے ہی میں سناٹے میں آگیا۔
کل ہی گلی کے نکر والے ریستوران میں ہم سب دوست بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ سیاسی صورتحال پردھواں دار بحث ہو رہی تھی۔ نعمان بھی موجود تھا۔ ہم نے گفتگو تو اپنے پوتوں‘ نواسوں‘ پوتیوں اور نواسیوں سے شروع کی۔ کون کس کلاس میں ہے۔ کون پاکستان میں ہے‘ کون ملک سے باہر ہے۔ مگر ہوتے ہوتے‘ جیسا کہ ہر روز‘ ہر جگہ‘ پاکستان میں ہوتا ہے‘ گفتگو کا رُخ سیاست کی طرف مُڑگیا۔نعمان نے بھی اس بحث میں پورا حصہ لیا۔اس کی گفتگو سے یہ تو مترشح ہو رہا تھا کہ وہ سیاسی صورتحال سے مایوس ہے مگر ہمارے خواب و خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ ایسا انتہا پسندانہ اقدام کرے گا۔
ہم تین دوست اس کے گھر پہنچے۔وہی منظر تھا جو ایسے مواقع پر ہوتا ہے۔سا ئبان تنے ہوئے تھے۔ کرائے پر لی ہوئی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ لوگ آرہے تھے اور جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے‘ گم سم تھے۔ ہم بھی پہلے تو جا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے مگر ہم مسلسل اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ اصل واقعہ کیا ہوا ہے۔ ہم نے اندر پیغام بھیجا کہ بھابی سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں تھوری دیر بعد بیگم نعمان بھی تشریف لے آئیں۔ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ گلا رندھا ہوا تھا۔ہم نے پرسہ دیا اور متقاضی ہوئے کہ اصل واقعہ یا واقعات سے آگاہ کریں کیونکہ ہم نعمان کے قریبی اور بے تکلف دوست تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔
بھائی! کیا بتاؤں ! کیا اچھے زمانے تھے جب ہم‘ ساری فیملی‘ شام کو ٹی وی پر کوئی ڈرامہ یا مزاحیہ پروگرام دیکھتے تھے۔ جب سے ملکی سیاستPolarisationکا شکار ہوئی‘ اور فریقین میں قطبین کا فرق در آیا تو نعمان بہت پریشان رہنے لگے۔ ان کی شامیں پہلے بے مزہ اور پھر بد مزہ ہونے لگیں۔عمران خان کی حکومت کے آخری ایام تھے جب ٹی وی دیکھ کر وہ چڑ چڑ ے ہونے لگے۔ معیشت ڈانواں ڈول ہو رہی تھی۔ اُس وقت کی اپوزیشن یہ تاثر دے رہی تھی جیسے اس کے پاس کوئی اسم یا طلسم ہو اور وہ عمران خان کے جاتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گی۔ پھر تحریک عدم اعتماد آئی۔ جن دنوں عمران خان حکومت چھوڑ نہیں رہے تھے اور عدالتیں احکام صادر کر رہی تھیں‘ نعمان شدید عالمِ یاس میں تھے۔ پھر حکومت بدل گئی۔ مفتاح اسماعیل صاحب کو جس طرح ہٹایا گیا اور اسحاق ڈار صاحب کو جس طرح لایا گیا وہ ایک خوفناک مذاق سے کم نہیں تھا۔جو کھیل دونوں طرف سے کھیلا جا رہا تھا اس سے نعمان سخت دل برداشتہ تھے۔جو کچھ عدالتوں میں ہو رہا تھا‘ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔یہ جو بنچوں کا حساب کتاب تھا وہ اسے سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے۔ تین اور چار‘ کبھی چار اور تین‘ کبھی تین اور سات‘ یہ سب ان کے لیے عجیب سا تماشا تھا۔ کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ الیکشن کب ہوں گے؟ ہوں گے یا نہیں ؟ کیا پہلے پنجاب میں ہوں گے؟ خیبر پختونخوا میں کب ہوں گے؟ عمران خان نے ٹکٹ بھی دے دیے جبکہ حکومتی پارٹیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے یوں بیٹھی تھیں جیسے الیکشن کا دور دور تک امکان نہ تھا۔
جو کچھ آئی ایم ایف کے حوالے سے قوم کے ساتھ ہو رہا تھا‘ نعمان اسے دیکھ کر اور سُن کر اور پڑھ کر سر پکڑ لیتے تھے۔ ہر روز نیا اعلان‘ نئی امید! کبھی کہا جاتا تھا کہ آئی ایم ایف کو چین اور سعودی عرب کی گارنٹی مطلوب ہے۔ پھر بتایا جاتا تھا کہ سٹاف کی سطح پر سب کچھ طے ہو گیا۔ پھر کچھ اور شرطیں نکل آتیں۔ مہینوں پر مہینے گزرتے گئے اور کچھ بھی نہ ہوا۔پھر یہ پکڑ دھکڑ! الامان و الحفیظ !! پہلے عمران خان کی حکومت نے ساری اپوزیشن کو زندانوں میں ڈال دیا۔ اب یہ حکومت وہی کام کر رہی ہے۔ اس کھیل سے نعمان سخت دل برداشتہ تھے۔کل شام کو ٹی وی پر متضاد دعوے سن کر اچانک ان کا بلڈ پریشر زیادہ ہو گیا۔ انہوں نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ ان کا چہرا خوفناک حد تک سرخ ہو گیا۔وہ اٹھے۔ ٹی وی کے پاس گئے اور اپنا سر پورے زور سے ٹی وی کی سکرین سے ٹکرانے لگے۔ میں اور بچے انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے مگر ان میں ایک ناقابلِ بیان اور ناقابلِ یقین طاقت آگئی تھی۔ وہ اس وقت تک سر ٹکراتے رہے جب تک کہ سکرین ٹوٹ نہ گئی اور ان کا سر پھٹ نہ گیا۔ یہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ آپ تصور ہی نہیں کر سکتے۔ ان کا بھیجا باہر نکل آیا تھا اور سکرین کے نوکیلے ٹکڑے ان کے جبڑوں‘ رخساروں اور آنکھوں میں پیوست ہو گئے تھے!
نہیں معلوم یہ واقعہ سچ ہے یا فرضی ! مگر دل پر ہاتھ رکھ کر‘ اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر‘ اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا ایسی ہی صورتحال نہیں ہے ؟ کیا پوری قوم ایک انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دو چار نہیں ؟ کیا حکومتی دعوے اور اپوزیشن کی تردید سن سن کر لوگوں کے کان پک نہیں گئے؟ عمران خان نااہل ہو رہے ہیں۔ عمران خان نا اہل نہیں ہو رہے! نواز شریف آ رہے ہیں۔ نواز شریف نہیں آرہے! الیکشن ہو رہے ہیں ! الیکشن نہیں ہو رہے!حکومت جا رہی ہے‘ حکومت نہیں جا رہی! عمران خان کال دے رہے ہیں! عمران خان کال نہیں دے رہے! عدالت میں پیش ہو رہے ہیں! عدالت میں پیش نہیں ہو رہے! حکومت امریکہ نے گرائی تھی۔ حکومت امریکہ نے نہیں گرائی تھی۔ آئی ایم ایف ہمارے کشکول میں سکے ڈال رہا ہے! آئی ایم ایف نے مزید شرائط عائد کر دی ہیں ! تحریک انصاف والے اسمبلی میں واپس آرہے ہیں۔ تحریک انصاف والے اسمبلی میں واپس نہیں آرہے! صدر صاحب دستخط کر رہے ہیں! صدر صاحب دستخط نہیں کر رہے! اپوزیشن اور حکومت میں بات چیت ہو رہی ہے! بات چیت نہیں ہو رہی!زرداری صاحب مان گئے ہیں۔ مولانا نہیں مان رہے۔ پرویز الٰہی گرفتار ہو گئے‘ پرویز الٰہی ہاتھ نہیں آئے! استعفے منظور کر لیے گئے۔ استعفے منظور نہیں کیے گئے!ہر روز یہ تماشے ہوتے ہیں۔ایک سال سے زیادہ کا عر صہ بیت چکا۔ ابھی تک اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ بلکہ غور کیجیے تو اونٹ تو درمیان سے نکل ہی گیا ہے۔ کجاوے زمین پر پڑے ہیں۔ وہ جو عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا دردناک نغمہ ہے ''اُنٹھاں والے ٹُر جان گے‘‘ تو اونٹوں والے چلے گئے ہیں! اب تو '' دست خود دہان خود‘‘ والا معاملہ ہے۔اہلِ دیہہ کا محاورہ ہے کہ وہ ماں جا چکی جو دہی کے ساتھ روٹی دیتی تھی۔
حرام ہے جو کوئی پارٹی ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کوئی پروگرام رکھتی ہو یا کسی نے سوچا ہو کہ یہ جو ہم گلی گلی‘ شہر شہر‘ ملک ملک‘ بھیک مانگتے ہیں‘ اس بے غیرتی سے بچنے کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ امور ِخارجہ پر کوئی سیاستدان‘ کیا حکومت‘ کیا اپوزیشن‘ متین گفتگو نہیں کرتا! ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں۔توشہ خانے کے حمام میں ایک دوسرے کو بے لباس کر رہے ہیں! ہر روز نئے مقدمے! عدالتیں الگ پریشان ہیں کہ یہ کیسے سیاستدان ہیں جن سے حکومت چل رہی ہے نہ ڈھنگ سے اپوزیشن ہی کا کردار ادا کر رہے ہیں! صرف اور صرف ایک دوسرے کی مذمت! الزامات! جوابی الزامات! عوام کی کسی کو فکر نہیں ! ملک کا کوئی سوچتا ہی نہیں! ایسے میں بھائی نعمان اگر سر نہ پھوڑتا تو کیا کرتا!!

 

powered by worldwanders.com