ڈاکٹر آفتاب احمد 1923ء میں پیدا ہوئے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس میں آ گئے۔ اُس وقت پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس سی ایس ایس کی ایک الگ سروس تھی۔ 1973ء میں بھٹو صاحب نے پاکستان ملٹری اکاؤنٹس سروس اور پاکستان ریلوے اکاؤنٹس سروس کو پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں ضم کر دیا۔ بھارت میں یہ تینوں سروسز اب بھی الگ الگ ہیں۔ جمہوری تسلسل کی وجہ سے یہ سروسز بھارت میں طاقتور سروسز ہیں اور ان کےClientsانہیں آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ بھٹو صاحب نے سیاسی بنیادوں پر بیورو کریسی میں اپنی پسند کے افراد داخل کیے۔ یہ افراد کسی مقابلے کے امتحان کے ذریعے تو آئے نہیں تھے‘ اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ کسی سروس کا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔ اس کا علاج بھٹو صاحب کی حکومت نے یہ کیا کہ جو مقابلے کا امتحان دے کر آئے تھے انہیں بھی اپنے نام کے ساتھ سروس کا نام لکھنے سے منع کر دیا۔ یعنی کھیلیں گے‘ نہ کھیلنے دیں گے۔ بھارت میں اب بھی اپنی اپنی سروس کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب احمد بنیادی طور پر ادیب تھے۔ اُس زمانے کی جو ادبی کہکشاں تھی‘ صوفی تبسم‘ ن م راشد‘ فیض صاحب‘ تاثیر صاحب‘ غلام عباس‘ اسی کہکشاں کا ایک ستارہ ڈاکٹر آفتاب احمد بھی تھے۔ پی ایچ ڈی کرنے لندن گئے۔ وہاں ٹی ایس ایلیٹ اور دیگر مشاہیر سے ملاقاتیں رہیں۔ عزیز داری مولانا ظفر علی خان سے بھی تھی! ڈاکٹر آفتاب احمد کی کئی ادبی تصانیف ہیں۔ ''بنامِ صحبتِ نازک خیالاں‘‘ ان میں زیادہ مشہور ہے۔
یہ سب تو تمہید ہے۔ اصل بات جو بتانا مقصود ہے‘ اور ہے! اوپر جو کچھ لکھا ہے اس لیے لکھا ہے کہ بہت سوں کو‘ بالخصوص نژادِ نو کو ان باتوں کا‘ ان مشاہیر کا علم نہیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا کا اس ملک میں بد ترین استعمال ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ای ریڈر عام ہو رہا ہے۔ کتابیں بصری کے بعد اب سمعی سہولت کے ساتھ بھی میسر ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا‘ اس لیے فراموش شدہ مشاہیر کا ذکر بھی ضروری ہے اور اداروں کی بدلتی یا بگڑتی‘ شکلوں کا بیان بھی! ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب کی خدمت میں ایک دن حاضر تھا تو گفتگو کے دوران انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ممکن ہو تو ہمیشہ کسی بڑے شہر میں رہنا چاہیے کہ اس کے فوائد بہت ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ کس طرح لاہور اور لندن رہنے سے انہیں مشاہیر سے ملاقاتوں کے مواقع ملے اور لائبریریوں سے استفادہ کیا۔
اس کالم نگار کو ڈھاکہ میں رہنے سے جو علمی اور ثقافتی فوائد حاصل ہوئے وہ کسی چھوٹے شہر یا قصبے میں رہنے سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ وہیں طارق علی سے ملنے اور اس کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر عندلیب شادانی کو دیکھا۔ خواجہ خیر الدین کے محل میں‘ زندگی میں پہلی بار نواب زادہ نصر اللہ خان سے ملاقات ہوئی۔ ڈھاکہ کا مشہورِ عالم پنیر بھی وہیں کھایا۔ مولانا مودودی‘ مولانا عبدالستار خان نیازی‘ چودھری رحمت علی‘ حکیم سعید‘ مولوی فرید احمد اور دیگر کئی شخصیات سے ملاقات‘ یا ان کی دید کا موقع ملا۔ پروفیسر غلام اعظم سے تو کئی بار ملاقات ہوئی۔ چاند پر جانے والے خلابازوں (آسٹر و ناٹس) کو دیکھا۔ اسی طرح اُس زمانے کا اسلام آباد آج کے شہر سے مختلف تھا۔ بڑے بڑے اہلِ علم آتے تھے اور ان کی تقریریں سننے کے مواقع ملتے تھے۔ معروف شاعر‘ محب عارفی کے گھر میں‘ جو وزارتِ خزانہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے‘ ہر ہفتے کی شام کو شعرا کی محفل برپا ہوتی تھی۔ تقسیم سے پہلے جب محب عارفی‘ شملہ میں‘ مرکزی حکومت کے ایک معمولی ملازم تھے‘ اُس وقت اُن کے گھر میں اس ہفتہ وار مجلس کا انعقاد شروع ہوا۔ شملہ سے یہ روایت ان کیساتھ ہی کراچی پہنچی۔ کراچی سے راولپنڈی آئی۔ ساتھ ساتھ محب صاحب کی ترقی بھی ہوتی گئی۔ چنانچہ جب وہ پنڈی سے اسلام آباد منتقل ہوئے تو وزارتِ خزانہ میں جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جوائنٹ سیکرٹری کا ایک مقام تھا اور اہمیت تھی۔ بیورو کریسی سیاست زدہ نہیں ہوئی تھی۔ محب صاحب مالیات کے قوانین پر غیرمعمولی عبور رکھتے تھے۔ ان کی رُولنگ فائنل ہوتی تھی۔ اسی لیے ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ''جسے دے اللہ‘ اس سے لے محب اللہ‘‘۔ ان کے گھر جو ہفتہ وار نشست ہوتی تھی اس میں ہم نے‘ کہ اس وقت طالبعلم تھے‘ بہت سے ممتاز شعرا کو پہلی بار دیکھا۔ یوسف ظفر‘ ڈاکٹر سید صفدر حسین‘ ڈاکٹر ظہیر فتحپوری‘ صادق نسیم‘ باقی صدیقی اور کئی دیگر مشاہیر کو وہیں پہلی بار سنا۔ محب صاحب حاضر شعرا کی تواضع پُر تکلف چائے سے کرتے۔ خود آخر میں اشعار سناتے۔ مابعد الطبیعیاتی موضوعات پر انہوں نے کمال درجے کی شاعری کی۔ انہیں اردو شاعری کا John Donneکہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
تہہ سطح تک آپہنچی‘ اک موج نہ ہاتھ آئی
کب تک یہ مہم آخر‘ اب کھینچ لوں جال اپنا
٭......٭......٭
محبؔ ملی ہے مجھے ایک عمرِ سعی کے بعد
وہ موت لوگ جسے ناگہاں سمجھتے ہیں
ان کی یہ غزل مشہور ہے:جو زخموں سے اپنے بہلتے رہیں گے/ وہی پھول ہیں شہد اگلتے رہیں گے۔ گھٹائیں اٹھیں سانپ ویرانیوں کے/ انہی آستینوں میں پلتے رہیں گے۔ شریعت خس و خار ہی کی چلے گی/ علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے۔ نئی بستیاں روز بستی رہیں گی/ جنہیں میرے صحرا نگلتے رہیں گے۔ مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے/ دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے۔ رواں ہر طرف ذوقِ پستی رہے گا/ بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے۔ جسے سانس لینا ہو خود آڑ کر لے/ یہ جھونکے ہوا کے تو چلتے رہیں گے۔ یہ پتے تو اب پھول کیا ہو سکیں گے/ مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہیں گے۔ محب ؔراستی ہے عبارت کجی سے/ مرے بل کہاں تک نکلتے رہیں گے۔
یہ بڑے شہر ہی ہیں جہاں ٹیلنٹ دریافت ہوتا ہے‘ نکھرتا ہے اور ٹیلنٹ رکھنے والے کو اس کا حق ملتا ہے۔ ادیب ہوں یا بزنس کرنے والے افراد‘ سائنسدان ہوں یا کسی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ سب نے ہمیشہ نیو یارک یا لندن کا رُخ کیا۔ دلّی ایک عرصے تک نہ صرف برصغیر کے ٹیلنٹ کی پناہ گاہ رہی بلکہ ایران اور وسط ایشیا سے بھی ادیب‘ شاعر‘ سپاہی اور تاجر دلّی ہی کی طرف ہجرت کرتے رہے۔ پھر جب لکھنؤ اور حیدرآباد دکن نے‘ دہلی کے مقابلے میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی تو دنیا کا رُخ ان شہروں کی طرف ہو گیا۔ لاہور کے حوالے سے جتنے بڑے بڑے لوگ مشہور ہیں‘ ان میں سے بہت کم ایسے تھے اور ایسے ہیں جواصلاً لاہور کے ہیں۔ ان کی بھاری اکثریت ان اصحاب پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے شہروں‘ بستیوں اور قریوں کو چھوڑ کر لاہور میں آبسے۔ محمد حسین آزاد تھے یا علامہ اقبال‘ مولانا ظفر علی خان تھے یا فیض صاحب یا احمد ندیم قاسمی یا قتیل شفائی‘ سب اپنی اپنی بستیوں اور شہروں سے اُٹھ کر لاہور آئے۔ آج کے مشاہیر کا بھی جائزہ لے لیجیے۔ ظفر اقبال‘ عطاالحق قاسمی‘ مجیب الرحمن شامی‘ اصغر ندیم سید‘ خورشید رضوی‘ نجم سیٹھی اور کئی اور مشاہیر لاہور میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ لاہور کو انہوں نے اپنایا۔
ہر سال ہزاروں لاکھوں افراد لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان شہروں میں اتنی گنجائش ہے؟ کیا سب کو روزگار مل جائے گا؟ کیا مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ کیا بجلی‘ پانی‘ گیس سب کو میسر آسکے گی؟ کیا سیوریج کے نظام میں وسعت کی گنجائش ہے؟ کیا کوڑا کرکٹ کو سمیٹنے اور ٹھکانے لگانے کا بندو بست ہو جائے گا؟ جب ان ضروریات کے حساب سے پلاننگ نہیں ہوتی تو بڑے شہر جرائم کا گڑھ بن جاتے ہیں!
No comments:
Post a Comment