Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, March 31, 2019

مگرمچھ کے آنسو


کیا آپ نے کبھی مگر مچھ دیکھا ہے؟ 


اگر آپ کا جواب اثبات میں ہوتا تو اگلا سوال یہ تھا کہ کیا کبھی مگر مچھ کو آنسو بہاتے بھی دیکھا ہے۔ 


مگر مچھ کے آنسو بہانے کا محاورہ ہمارے ہاں براہ راست انگریزی زبان سے آیا ہے۔ کچھ محاورے فارسی سے بھی آئے ہیں۔ جیسے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی ’’سکندرنامہ‘‘ میں نظامی گنجوی کہتے ہیں ؎


 کلاغی تگ کبک را گوش کرد 


تگ خویشتن را فراموش کرد 


یعنی کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ مذہبی گروہوں نے سیاسی پارٹیوں کا روپ دھارنا چاہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی چال بھی بھول گئے۔ مذہبی رہے نہ سیاسی۔ پارٹی تو کیا بنتے گروہی حیثیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎ 


آج میں تہمتِ بے جا کے سوا کچھ بھی نہیں 


دس برس کاٹ کے پنجاب کے زندانوں میں 


یہ جتھے آج تہمت بے جا کے سوا کچھ نہیں۔ صرف تہمت ہونا ہی زمین کا بوجھ ہونے کے لیے کافی تھا۔ تہمت بے جا ہونا تو عبرت کا آخری درجہ ہے۔ 


بات محاوروں کی ہورہی تھی۔ مگر مچھ کے آنسو ہمارے ہاں براہ راست جزائر برطانیہ سے آئے۔ انگریزی میں یہ مکار محاورہ لاطینی سے آیا۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ بدبخت مگر مچھ زیادہ دیر پانی سے باہر رہتا ہے تو اس کی آنکھیں خشک ہونے لگتی ہیں۔ انہیں شدید خشکی سے بچانے کیلئے قدرت نے اشک آوری کا انتظام کیا ہے۔ انسانوں کو بھی ڈاکٹر آنکھوں میں ڈالنے کیلئے ’’مصنوعی قطرے‘‘ تجویز کرتے ہیں‘ اس میں کیا شک ہے کہ بنی آدم میں بھی مگر مچھ پائے جاتے ہیں۔ 


مگر مچھ کے رونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شکار کی موت پر روتا ہے۔ کھاتے ہوئے آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی ہیں۔ اس سے محاورے کا اطلاق ان منافق لوگوں پر ہونے لگا جو کسی کو مارنے کے بعد ماتم گساروں کے ساتھ مل کر آہ و فغاں کرنے لگتے ہیں۔ یہ محاورہ اتنا پرانا ہے کہ قدیم یونانی دانشور پلوٹارک کی تحریروں میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ وہی پلوٹارک ہے جس کا ذکر مختار مسعود نے بھی کیا ہے۔ اب لگے ہاتھوں ایڈورڈ ٹاپ سیل کا ذکر بھی سنیے۔ یہ شیکسپیئر کا ہم عصر تھا اور غالباً پہلا مصنف ہے جس نے درندوں اور سانپوں پر مستقل کتابیں لکھیں۔ ایسی کتاب کو انگریزی میں Bestiary یعنی ’’درندہ نامہ‘‘ یا قصص الحیوانات کہتے ہیں۔ ایڈورڈ ٹاپ سیل اپنے ’’درندہ نامہ‘‘ میں مگر مچھ کے آنسوئوں کا ذکر کرتا ہے جن کی مدد سے وہ شکار کو پھنساتا ہے اور پھر ہڑپ کرتے وقت بھی روتا ہے۔ ٹاپ سیل کو اس ضمن میں یہودا بھی یاد آتا ہے جس نے نصرانی عقائد کی رو سے مسیح سے غداری کی تھی مگر آنسو بھی بہاتا رہا۔ 


شیکسپیئر نے بھی ان خطرناک آنسوئوں کا ذکر کیا ہے۔ اوتھیلو کی یہ لائنیں معروف ہیں۔ ’’اگر عورت کے آنسوئوں سے زمین بھر جائے تو بس یہی سمجھیے کہ آنسو کا ہر قطرہ بذات خود‘ مگر مچھ سے کم نہ ہوگا۔‘‘ 


سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے پاس کوئی ملاقاتی آیا او ربتایا کہ فلاں صاحب آخر کس طرح غلط یا فریبی ہوسکتے ہیں۔ وہ تو دوران تقریر رو رہے تھے ۔شاہ جی نے ایک لحظہ توقف کئے بغیر قرآن پاک کی آیت پڑھی وَجاؤوَا اَبَاھُمْ عِشَائً یَِّبْکُوْن۔ برادران یوسف ؑ‘ یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال کر والد گرامی کے پاس آئے تو رو رہے تھے۔ یہ بھی مگر مچھ کے آنسو تھے۔ 


آج مگر مچھ بہت یاد آیا اور اس کے آنسو اس سے بھی زیادہ ع 


تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی 


اخبار کھولا تو وہ آنسوئوں سے تر تھا۔ افسوس کہ آنسو مگر مچھ کے تھے۔ یہ آنسو اساتذہ کی توہین پر بہائے گئے تھے۔ جنوب کے ایک شہر میں اساتذہ کو مارا پیٹا گیا۔ آنسو گیس چھوڑی گئی۔ دشنام طرازی کی گئی۔ 


فارسی کا محاورہ ہے


 اے باد صبا! این ہمہ آوردۂ تست 


یہ جاننے کے لیے ملک میں بالعموم اور پنجاب کے بڑے شہر میں بالخصوص اساتذہ کی بے حرمتی کی رسم کس نے شروع کی۔ کسی لمبی چوڑی تلاش و تحقیق کی ضرورت نہیں‘ کوئی مانے یا نہ مانے‘ امر واقعہ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو یرغمال بنایا گیا۔ اساتذہ کو جن کے ادب پر آج مقالے لکھے جا رہے ہیں‘ زدوکوب تک کیا گیا۔ شہرۂ آفاق تعلیمی اداروں پر یوں قبضہ کیا گیا کہ آج ان کی وقعت پرکاہ کے برابر بھی نہیں رہی۔ یہ کالم نگار ایسے کتنے ہی والدین کو جانتا ہے جنہوں نے اپنے لائق فائق ذہین فطین بچوں اور بچیوں کو ان بدنام زمانہ تعلیمی اداروں میں داخل کرانے سے صاف انکار کردیا جن میں غنڈہ گردی عام ہے۔ جہاں پالیسی سازی تک نام نہاد طلبہ کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں نئے طلبہ کو ’’رہنمائی‘‘ کے پردے میں گروہی اصول پسندی کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ جہاں طلبہ و طالبات کا ایک خودسر گروہ کلاسوں میں حاضر رہنے کے بجائے سیاست کرتا ہے اور کوئی استاد سمجھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ جہاں کینٹینوں کے بل نہیں ادا کئے جاتے۔ جہاں میلوں کی صورت میں قبضے کئے جاتے ہیں اور تعلیمی اداروں کا الحاق عملاً سیاسی سلطنت کے ساتھ کر لیا جاتا ہے۔ 


اسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ایک پروفیسر صاحب جو قریبی دوست تھے ہوسٹل کے انچارج تعینات ہوئے۔ نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کی کہ یہی ان کا کار منصبی تھا۔ ’’مقتدر‘‘ گروہوں کو یہ روش نہ بھائی۔ ایک دن گھر لوٹے تو ان کے بچے چھٹی سے پہلے ہی گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ گویا پیغام تھا کہ آج تو بچے سکول سے گھر لائے گئے ہیں۔ آئندہ کہیں اور بھی لے جائے جا سکتے ہیں۔ یونیورسٹی ہوسٹل میں مقیم طلبہ اپنے والد کے سوا کسی کو کمرے میں مہمان کے طور پر نہیں ٹھہرا سکتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ’’سردار‘‘ کے کمرے میں مہمان مقیم ہے۔ پروفیسر صاحب نے پوچھا کہ یہ نوجوان جو مہمان ہے کون ہے؟ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جواب دیا کہ یہ میرا والد ہے۔ 


یہ چھ برس پہلے کی بات ہے۔ تعلیمی ادارے کی اقامت گاہوں سے دہشت گرد پکڑے گئے۔ جامعہ کے رئیس نے میڈیا کو بتایا کہ یہ دہشت گرد تین دن اور تین راتیں طلبہ کے ہوسٹل میں قیام پذیر رہا۔ حکام نے ’’غیر طلبہ‘‘ عناصر کو ہوسٹلوں سے نکالنا شروع کیا۔ اس موقع پر اس کالم نگار نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر اپنی گنہگار آنکھوں سے ایک بزرجمہر کو بولتے دیکھا جو فرما رہے تھے کہ اسی فیصد ایسے متنازعہ کمرے تو ہم نے خالی کر ہی دیئے ہیں۔ 


ایک مرحوم وائس چانسلر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک مشہور قول بھی وابستہ ہے۔ 


کیا کیا دہرایا جائے اور کتنا ماتم کیا جائے۔ تن ہمہ داغ داغ شد! ستم ظریفی یہ ہے کہ جو تعلیمی ادارے اپنے ذاتی ہیں ان میں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے غریب کی جورو ہیں۔ ان کی تعلیمی شہرت‘ وقار‘ عزت‘ ریٹنگ سب کچھ خاک میں مل گیا۔ یہ واقعہ کالم نگار کے ذاتی علم میں ہے کہ دارالحکومت کی ایک ’’مقبوضہ‘‘ یونیورسٹی میں استاد ایک اور مضمون کا درکار تھا۔ مگر ایک صاحب جو اینتھرو پولوجی کے ایم اے تھے‘ صرف اس بنیاد پر تعینات کردیئے گئے کہ ’’اپنے‘‘ تھے۔ بعد میں وہ امریکہ چلے گئے۔ 


خیانت اور فسطائیت کی جنم بھومی آخر کہاں ہے؟ نہیں‘ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے تو ہے ہی نہیں۔ یہاں تو میرٹ ہی میرٹ ہے۔ دیانت ہی دیانت ہے۔ کھیتوں میں سچ اگ رہا ہے۔ کارخانوں میں سچ بن رہا ہے۔ ہماری تو برآمدات بھی سچ پر مشتمل ہیں۔ ہمارے ہادی و رہنما نے لکھا تھا کہ عورتوں کا پارلیمنٹ میں کیا کام۔ مگر دختر نیک اختر اپنی ہو یا زوجہ محترمہ اپنی ہوں تو پارلیمنٹ میں کیوں نہ آئیں۔ میرٹ میرٹ ہے‘ دیانت دیانت ہے‘ سچ آخر سچ ہے۔ ب



Saturday, March 30, 2019

پاکستان کا مطلب کیا



افسوس ہم اپنی بنیاد سے بے خبر ہو چکے۔

 ہیہات! ہیہات!ہم اپنی تاریخ بھول گئے۔ 

کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی قوم اپنی وجہ تخلیق فراموش کر بیٹھے؟ نرم ترین لفظ بھی اس عمل کے لیے خودکشی ہے، بنیاد گئی تو دیواریں گریں، دیواریں گریں تو چھت نیچے آ رہی، انجام موت، درد ناک۔ 

اے غفلت کیش گروہ، اے حال مست بے فکروں کے انبوہ، سوچو کہ وہ دھان پان پتلا دبلا انسان جس نے تپ دق کی پرواہ نہ کی، پاکستان کے لیے دن رات محنت کرتا رہا۔ وہ ایک اکیلا کانگرس سے اور بیک وقت انگریزی استعمار سے لڑتا رہا۔ اس کی کئی عشروں کی بے لوث کمائی پاکستان تھا۔ صرف اور صرف پاکستان۔ آخر اس پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ 

غور کرو کہ تقسیم ہوئی تو پنجاب اور یوپی خون مسلم سے سرخ ہو گئے۔ لاشوں سے بھری ٹرینیں آئیں۔ رینگتی بیل گاڑیوں پر خاندان کے خاندان سوار ہوئے اور کبھی نہ اترے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق ستر ہزار مسلمان خواتین نشے میں دھت سکھوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ عصمتیں لٹیں، دین ایمان برباد ہوئے، کیوں؟ تم کیوں نہیں غور کرتے کہ یہ عظیم الشان، یہ بے مثال قربانی کیوں دی گئی؟ 

پھر ساٹھ کی دہائی طلوع ہوئی۔ رات کے اندھیرے میں دشمن عفریت کی طرح بڑھا۔ چونڈہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔ پاکستانی جوان جسموں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ ان کی ہڈیاں پس گئیں، پرخچے اڑ گئے، مگر بھارتی سیلاب کے آگے بند باندھ گئے۔ آخر کیوں؟ مقصد کیا تھا؟ 

پھر نوے ہزار پاکستانی دشمن کی قید میں رہ گئے۔ یہ بھی قربانی تھی، اس قربانی کی غایت کیا تھی؟

 مائوں کے جگر گوشے وزیرستان سے لے کر کارگل تک کٹ گئے۔ سینکڑوں پاکستانی، کیا فوجی کیا پولیس، کیا عام شہری، دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ 

اے احمقوں کی جماعت، یہ ساری قربانیاں، یہ خون کے نذرانے، یہ شہادتیں، یہ رستے زخم یہ سب کیوں؟ 

یہ سب اس لیے کہ یہ ملک شریف خاندان کے لیے ایک محفوظ قلعہ بن سکے۔ یہ ان کی چراگاہ ہو، یہاں کوئی ان کا بال بیکا نہ کر سکے۔ 

اے طائفہ بے خبراں، غور کرو، کیا شریف خاندان کے علاوہ بھی اس ملک نے کسی فرد، کسی خانوادے کو ہر قسم کے قانون سے مکمل استثنا دیا؟ 

تم کہو گے آخر بھٹو خاندان نے بھی تو دولت کے پہاڑ کھڑے کئے، آخر آصف زرداری نے بھی تو زروسیم کے انبار اکٹھے کئے۔ مگر خدا کے بندو، آصف زرداری سالہا سال قید و بند میں رہا۔ جتنی سہولیات بھی میسر تھیں، تھیں تو زنداں ہی میں نا، پھر ایک بھٹو پھانسی چڑھا، دوسری بھٹو سر پر گولیاں کھا کر زمین کا رزق ہوئی۔ دو بھائی غیر طبعی موت مرے، اس کالم نگار کا پیپلزپارٹی سے دور کا تعلق بھی نہیں مگر کیا شریف خاندان نے اس ابتلا کا پچاسواں حصہ تو کیا، ہزارواں حصہ بھی برداشت کیا؟ 

جو جانتا ہے وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا جان لے کہ یہ ملک شریف خاندان کی چراگاہ ہے، یہ ان کی ذاتی جاگیر ہے۔ یہاں کا قانون ان کے بوٹوں کے نیچے بچھے ہوئے قالین سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہاں کا نیب، الٹا بھی لٹک جائے تو ان کے جسم کا ایک رئواں بھی نہیں اکھاڑ سکتا۔ یہاں کی بیوروکریسی اب بھی ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے اور اس پروردگار کی قسم! جو جسموں کو ننگا کرتا ہے، بیوروکریسی ان کی چوکھٹ پر اس طرح سجدہ ریز ہے کہ پیچھے سے کپڑا اٹھ گیا ہے اور اس ’’باعزت‘‘ اور ’’باضمیر‘‘ بیوروکریسی کی سرین برہنہ ہو کر سب کو دکھائی دے رہی ہے۔

 اس سرزمین کی پولیس آج بھی ان کی کنیز ہے۔ نوکر شاہی کے جن گماشتوں کو اس خاندان نے ذاتی ملازمتوں کی طرح اداروں پر مسلط کیا تھا، آج بھی وہ ان اداروں کی گردنوں پر سوار ہیں۔ اس ملک کے اینکر، کالم نگار، اخبار نویس اس خاندان کے دستر خوان کے آج بھی وفادار ہیں۔ ان میں سے کسی نے کبھی کرپشن یا ملک یا عوام کی بات نہیں کی۔ ان ٹوڈی لکھاریوں اور ان بکے ہوئے اینکروں کے سارے تجزیے مریم نواز سے شروع ہو کر حمزہ شہباز تک ختم ہوتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان رائے ونڈ سے شروع شروع ہو کر ماڈل ٹائون پر ختم ہو جاتا ہے۔ 

بھٹو خاندان اور زرداریوں نے بہت کمایا ہوگا، بہت لوٹا ہوگا مگر سارے بلاول ہائوس جمع کئے جائیں تو جاتی امرا کا عشر عشیر بھی نہ بنے۔ 

ایک بھائی دس سال تک سب سے بڑے صوبے کو ذاتی بٹوا بنا کر رکھتا ہے۔ چھپن متوازی حکومتیں چلا دیتا ہے۔ فرزند اس کا کسی سرکاری حیثیت کے بغیر ہر جگہ موجود ہو کر فیصلے کرتا اور کراتا ہے۔ پھر یہ بھائی جیل جاتا ہے مگر قانون منہ کی کھا کر منہ چھپا لیتا ہے۔ ملزم پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بن کر جیل سے سیدھا منسٹرز انکلیو میں آتا ہے۔ ریاست کے کروڑوں اس کے پروٹوکول پر لگ جاتے ہیں۔ دوسرا بھائی جیل جاتا ہے۔ ملزم نہیں، مجرم ہے۔ چار دن جیل میں رہنا شایان شان نہیں۔ ہزاروں قیدی جیلوں میں بیماریوں سے سسک رہے ہیں مگر پاکستان کا نظام انصاف صرف ایک قیدی کو علاج کے لیے باہر نکالتا ہے۔ کیا نظام ہے اور کیا انصاف ؎ 

لگا ہے دربار شمع بردار سنگ کے ہیں 

ہوا کے منصف ہیں موم کے ہیں گواہ سارے

 بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ملک کا قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پہلے اور دوسرے عہد حکومت میں ایف بی آر کے قوانین ہفتہ وار تبدیل ہوتے رہے۔ سب کو معلوم ہے کس کے لیے؟ رائیونڈ میں پورا شہر بھارت کے قصبے کے نام پر بس گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہزاروں پولیس کے جوان برسوں ذاتی محلات پر پہرے دیتے رہے۔ اخراجات ریاست پورے کرتی رہی۔ بیٹا صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ عدالت پوچھتی ہے کہ سرکاری اجلاسوں میں کس حیثیت سے شریک ہوتا رہا۔ باپ عدالت کو جواب دیتا ہے کہ مسلم لیگ کے ورکر کی حیثیت سے۔ عدالت خاموش ہو جاتی ہے، یہ نہیں پوچھتی کہ سینکڑوں ہزاروں ورکروں میں سے اس ایک کو کس بنیاد پر چنا گیا؟ منی لانڈرنگ سے پاکستانی بینک کی بیرون ملک واقع برانچ ٹھپ ہو جاتی ہے۔ سب کو وجہ معلوم ہے، کسی میں ہمت نہیں کہ مجرم کو سزا دے۔ 

عدلیہ  بیوروکریسی سب شریف خاندان کے خدمت گار ہیں مگر یاد رہے یہ لوگ کل ایک اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ وہاں بتانا ہوگا کہ ہزاروں بیمار، سسکتے، بلکتے، رینگتے، ریڑیاں رگڑتے قیدیوں میں سے صرف ایک کو علاج کے لیے رہا کیا گیا؟ کیوں؟ کس قانون کے تحت؟ 

یہ ملک شریف خاندان کا ہے۔ انہی کے لیے بنا تھا۔ انہی کے لیے رہے گا، بائیس کروڑ آدم زاد اس خاندان کے سامنے بے وقعت حشرات الارض ہیں، گمنام کیڑے  ہیں، تھوک ہیں، جھاگ ہیں، نالی کا گندا پانی ہیں، اس ملک میں انسان صرف وہ ہیں جو شریف خاندان کے رکن ہیں۔ باقی سب گاڑیوں کے پہیوں تلے آتے کنکر ہیں جو سڑک پر ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے ہیں۔ 

اعتزاز احسن نے سچ کہا ہے… ’’1993ء سے ریاست پاکستان شریف خاندان کے بارے میں بے بس ہے۔ ایک مستقل ڈیل ہے جو اس خاندان کو ملی ہوئی ہے۔‘‘ ل

Thursday, March 28, 2019

خوشی کی خبر



‎سب سے پہلے خوشی کی یہ خبر صدر ٹرمپ کو وزیراعظم مودی نے ہاٹ لائن پر سنائی۔ 

‎صدر ٹرمپ نے اسی وقت اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کو فون کیا۔ یاہو اس وقت اسرائیل کے مذہبی رہنمائوں کے ساتھ خفیہ میٹنگ کر رہا تھا۔ اسے باہر بلا کر بات کرائی گئی۔ یاہو اجلاس میں واپس گیا اور یہودی علماء کو ’’ایک اچھی خبر‘‘ کی مبارک باد دی۔ یہ الگ بات کہ اس نے احتیاطاً خبر کی تفصیل نہ بتائی۔ 

‎نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ایک آسٹریلوی نسل پرست نے جب پچاس مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا تو نسل پرستوں اور مسلمان دشمنوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ٹرمپ اور مودی نے اطمینان کا اظہار کیا۔ قاتل کے نظریاتی مرشد، فرانس کے رہنے والے ریناڈ کیمو کو مبارک بادیں دی گئیں۔ اسی کی کتاب ‘‘گریٹ ری پلیس منٹ‘‘ سے قاتل نے اپنے منشور کا عنوان لیا تھا۔ 

‎ٹرمپ، مودی، بنجمن نتن یاہو اور ریناڈ کیمو کا خیال تھا کہ نیوزی لینڈ کا قتل عام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ مسلمان خوف زدہ ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات دوسرے مغربی ملکوں میں بھی رونما ہوں گے۔ مقامی آبادیاں بے نیازی کا ثبوت دیں گی۔ رفتہ رفتہ مسلمان تارکین وطن بوریا بستر سر پر رکھے واپس جانا شروع کردیں گے۔ یوں 
Great Replacement 
‎کا عمل نہ صرف رک جائے گا بلکہ تارکین وطن سے جان ہی چھوٹ جائے گی۔ 

‎لیکن نیوزی لینڈ کے قتل عام کے بعد جو کچھ ہوا اس سے نسل پرستوں اور اسلام دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ نیوزی لینڈ کی سفید فام نصرانی وزیراعظم بازی الٹ دے گی اور نیوزی لینڈ کے سفید فام نصرانی عوام اپنی وزیراعظم کا ساتھ دیں گے۔ 

‎جو کچھ ہوا وہ توقع کے عین برعکس تھا۔ وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن نے غم کا اظہار اس طرح کیا جیسے اس کے قریبی رشتہ دار قتل ہوئے ہوں۔ اس نے سیاہ ماتمی لباس زیب تن کیا۔ سر پر سکارف باندھا اور ایک ایک مقتول کے پسماندگان کے گلے لگی۔ وہ روئی۔ اس نے ماتم کیا۔ اس نے مظلوم کے سر اپنے کندھوں سے لگائے۔ ان کے ہاتھ پکڑے۔ ان کے ماتھے سہلائے۔ مسیحی اکثریت رکھنے والے ایک ملک میں تاریخ نے پہلی بار دیکھا کہ مسلمانوں کے مولانا نے پارلیمنٹ میں تلاوت کی۔ غیرمسلم عورتوں نے سر ڈھانک لیے۔ پھر انتہا یہ ہوئی کہ نماز جمعہ کی اذان، سرکاری طور پر پورے ملک میں دی گئی۔ وزیراعظم نے السلام علیکم کہنا شروع کردیا اور پیغمبر اسلام کا نام لے کر ان کے ارشادات کو اپنی تقریر کا حصہ بنایا۔ 

‎قتل عام کا منصوبہ بے کار نکلا۔ ٹرمپ سے لے کر مودی تک اور بنجمن نتن یاہو سے لے کر فرانسیسی نسل پرست دانشور ریناڈ کیمو تک سب نے آہ و فغاں شروع کردی۔ جیسنڈرا کی دیکھا دیکھی آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی مسلمان دوست بیان دیا، جس سفید فام آسٹریلوی لڑکے نے سینٹ کے رکن کے سر پر انڈا مارا اور مار کھائی راتوں رات آسٹریلوی عوام کاہیرو بن گیا۔ اس کے لیے عطیات جمع ہونے لگے۔ اس نے اعلان کیا کہ عطیات کی رقم نیوزی لینڈ میں شہداء کے خاندان کو بھیجے گا۔ 

‎مگر بازی ایک بار پھر الٹ جانے کے آثار اچانک ظاہر ہوئے۔ ایک مسلمان نوجوان نے جذباتی ہو کر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو مسلمان ہو جانے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد اس امکان پر بہت زیادہ گفتگو ہونے لگی کہ جیسنڈراکیا عجب مسلمان ہو جائے۔ 

‎یہی وہ خوشی کی خبر تھی جو مودی نے ہاٹ لائن کے ذریعے ٹرمپ کو سنائی اور ٹرمپ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسرائیلی وزیراعظم کو ایک اجلاس سے اٹھا کربتائی۔ جیسنڈرا مسلمان ہو جائے تو نیوزی لینڈ کا قتل عام بار آور ثابت ہوگا۔ نسلی اور مذہبی عصبیت پھیلانے والے شادکام ہوں گے۔ اس آخری جنگ میں مسلمان کھیت رہیں گے۔ 

‎ٹرمپ، مودی اور بنجمن نتن یاہو مسلمانوں کے زوال کے اصل اسباب سے بخوبی واقف تھے۔ پچپن مسلمانوں کے حکمران ہی تو عالم اسلام کے ناگفتہ بہ حالات کا سب سے بڑا سبب تھے۔ ان حکمرانوں کا صدر اول کے خلفاء راشدین کے طرز زندگی سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ خلفاء راشدین کا عملی اتباع تو نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور دوسرے غیر مسلم ملکوں کے حکمران کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب حافظ سعید جیسے پکے اور کٹر مسلمان نے عدالت میں جا کرنالش کی کہ پاکستانی حکمرانوں کا طرز زندگی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے تو اس نے مثال برطانوی وزیراعظم کے سرکاری گھر کی دی او رعدالت میں بیان دیا کہ برطانوی وزیراعظم کا گھر اسلامی تعلیمات کے مطابق چھوٹا ہے اورتزک و احتشام سے عاری ہے۔ 

‎ان مسلمان حکمرانوں کا رویہ بیت المال سے وحشیانہ ہے اور عوام سے ظالمانہ۔ انہوں نے سرکاری وسائل کو اپنے اور اپنے خاندانوں کو امیر تر کرنے کے لیے بے تحاشا استعمال کیا۔ ملکوں کے اندر جب ان کی ہوس انتہا تک پہنچ گئی اور کناروں سے باہر گرنے لگی تو انہوں نے تجوریوں کا رخ دوسرے دیاروں کی طرف موڑ دیا۔ جائیدادیں لندن میں، پینٹ ہائوس اپارٹمنٹ نیویارک میں۔ تین تین سو سالہ قدیم محلات پیرس کے نواح میں، کارخانے جدہ، دبئی، ویت نام، کوریا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش میں۔ پھر انہوں نے اپنی اولاد کو ممالک غیر میں مقیم کیا یہاں تک کہ وہ فخر سے کہنے لگے کہ ہم پاکستان کے یا ایران کے یا فلاں ملک کے شہری نہیں، ہم تو برطانیہ کے ہیں یا امریکہ کے یا فرانس کے۔ انہوں نے یونان کے جزیروں میں اور ہسپانیہ کے ساحلی شہروں میں محلات خرید لیے۔ کروڑوں کے سمندری بحرے، ہوائی جہاز ایسے جن کے اندر زریں خواب گاہیں اور نقرئی نشست گاہیں لگی ہیں۔ گاڑیاں سونے کی یہاں تک کہ ٹونٹیاں کنڈے چابیاں اور نلکے بھی سونے کے لگوائے۔ پاکستان کے حکمران نے سرکاری خزانے سے اپنے محلات کے گرد چار دیواری بنانے پر اسی کروڑ خرچ کردیئے۔ سرکاری ایئرلائنز کے جہاز ذاتی ٹیکسیوں کی طرح استعمال کئے۔ شرق اوسط کے شہزادوں نے دو دن کے لیے سفر کرنا ہو تو بیس بیس کنٹینر سامان کے اور جہاز سے اترنے کے لیے زر خالص سے بنی سیڑھیاں ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ 

‎اسلام دشمن نسل پرستوں کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے مسلمان دوست رویے سے جو دھچکا لگا تھا اس کا بہترین علاج یہی تھا کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ مسلمان حکمرانوں میں ایک اور حسنی مبارک، ایک اور بادشاہ، ایک اور نوازشریف، ایک اور زرداری، ایک اور عدی امین اور ایک اور شاہ برونائی کا اضافہ ہو جائے۔ پھرنیوزی لینڈ میں بھی نابالغ بچیوں  کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے -  پھر نیوزی لینڈ کے تھر میں بھی بچے العطش العطش کرتے بلک بلک کر موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ پھر نیوزی لینڈ کی شاہراہوں پر بھی ٹرالیاں ٹرک اور ڈمپر انسانوں کو کچلنا شروع کریں اور یہ کچلے ہوئے انسان وقعت میں مکھی مچھر اور بلی کتے سے زیادہ بے بضاعت گردانے جائیں۔ پھر نیوزی لینڈ میں بھی اپنے درشن سے اندھوں کی بینائی لوٹانے والے پیر اور مسلح جلوس عدالتوں کی طرف روانہ کرنے والے گدی نشین جاگزیں ہو جائیں۔ 

‎ایک مثالی حکمران خاتون، ——-بے لوث اور دل سوز حکمران خاتون ——-اگر مسلمان ہو جائے اور پھر مسلمان حکمرانوں کی طرح قتل عام پرمنہ دوسری طرف کر لے تو ٹرمپ، مودی اور بنجمن نتن یاہو کو اور کیا چاہیے۔ 

‎نوٹ: اس کہانی میں سچائی کا عنصر اتنا ہی ہے جتنا مسلمان حکمرانوں کی زندگیوں میں اسلام کا۔

Tuesday, March 26, 2019

سوہنی دھرتی اللہ رکھے


 

‎وہ بچپن تھا جب صحن ایک تھا۔ بہت بڑا صحن، سب اس میں مل کر کھیلتے۔ گرمیوں میں ڈیوڑھی ٹھنڈی لگتی اور جاڑوں میں اندر کا نیم تاریک کمرہ گرم ہوتا۔ بڑے اس میں گھنٹوں بیٹھتے۔ بچے اندر جاتے تو انہیں دکھائی کچھ نہ دیتا۔ فوراً باہر نکل آتے۔ 

‎پھر صحن تقسیم ہوگیا۔ درمیان میں دیوار اٹھا دی گئی۔ اب یہ دو گھر الگ الگ ہو گئے مگر جن کا بچپن بڑے صحن میں گزرا تھا، وہ چشم تصور سے اسی معدوم صحن کو دیکھتے۔ انہی برآمدوں، اسی ڈیڑھی اور اس نیم تاریک بڑے کمرے کو یاد کرتے رہتے۔

‎متحدہ پاکستان کی دو ثقافتی علامتیں تھیں۔ شبنم اور شہناز بیگم جو مشرقی اور مغربی پاکستان کا مشترکہ سرمایہ تھیں۔ ان میں سے شہناز بیگم د نیا سے کوچ کر گئی ہیں۔ تین دن پہلے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ مغربی پاکستان سے شہرت پانے والی شہناز بیگم ڈھاکہ میں دفن ہوئیں جس کی شہرت بحر بے کراں تھی، اسے ایک جوئے کم آب تک محدود کر دیا گیا۔ عروج تھا، پاکستان کی نامور گلوکارہ تھیں۔ دفن ہوئیں توبنگلہ دیش کی فنکارہ تھیں۔ پہلے صحن ایک تھا۔ بہت بڑا صحن، پھر دیوار اٹھی، وہ دیوار کے اس طرف رہ گئیں، ہم اس طرف، مگر ہماری نسل کے لوگ کبھی نہ مان سکے کہ وہ صرف بنگلہ دیش کی تھیں، ہم تو آنکھیں بند کرتے، پرانے صحن کا سوچتے ہیں۔ اسی میں چلتے پھرتے ہیں، اسی میں کھیلتے ہیں۔ 

‎ان کی وفات پر جب بنگلہ دیشی میڈیا نے ان کا سوانحی خاکہ چھاپا یا نشر کیا ہو گا تو کیا ان دو معرکہ آرا گیتوں کا ذکر بھی اس میں مثال ہو گا جنہوں نے شہناز بیگم کو شہرت کی چوٹی پر پہنچایا تھا؟ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد … اور …جیوے جیوے پاکستان، امکان اس کا بہت کم ہے۔ غالباً پاکستان کا حوالہ ہی غائب ہو گیا ہوگا۔ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش کو ہر اس اثاثے سے نفرت ہے جو مشترکہ ہے۔ حیرت ہے کہ شہناز بیگم کے خلاف حسینہ واجد کی حکومت نے مقدمہ کیوں نہ دائر کیا؟ شاید کسی نے توجہ نہ دلائی وگرنہ پاکستان کے گیت گانے پر فرد جرم عاید کی جاسکتی تھی۔ 

‎شبنم ابھی حیات ہیں۔ تقریباً ایک برس پہلے پاکستان آئیں، لاہور میں یادوں کا ایک سمندر تھا جس میں وہ ڈوب کر 
‎روئیں۔ پرانے ساتھیوں سے ملیں، پاکستانی ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں شرکت کی، جوان کی فلمیں دیکھ کر جوان اور پھر بوڑھے ہوئے تھے، ان کی آنکھیں شبنم کو ٹی وی سکرین پر دیکھ کر ٹھنڈی ہوئیں۔ حیرت ہے کہ حسینہ واجد نے ابھی تک شبنم کو اس جرم میں قید نہیں کیا کہ متحدہ پاکستان میں وہ اردو کی لاتعداد فلموں میں ہیروئن کیوں بنیں؟ 

‎شہناز بیگم نے ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ اور ’’جیوے جیوے پاکستان گائے‘‘ تو ان کی آواز ایک زرفشاں پرچم کی طرح افق تا افق لہرانے لگی۔ پھر یہ پرچم وقت پر چھا گیا۔ وقت اس آواز کے ساتھ ان گیتوں کے ہم آہنگ ہوا۔ یہ گیت امر ہیں۔ حسینہ واجد کا اقتدار عارضی ہے مگر یہ گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ شہناز بیگم کی آواز ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ہوگی۔ پاکستان کی ہر نئی نسل یہ گیت گائے گی۔ پاکستان ہمیشہ جیوے گا، سوہنی دھرتی کو اللہ قدم قدم آباد رکھے گا۔ شہناز بیگم ہماری ثقافتی تاریخ کا مستقل باب رہیں گی۔ ایک صفحے کے چند حروف تو کھرچے جا سکتے ہیں مگر پورا صفحہ، پورا باب کیسے ختم کیا جا سکتا ہے 

‎مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہمارا جغرافیائی اور سیاسی نقصان تو ہے ہی، جو ثقافتی خسارہ ہوا ہے، اس کا حساب کتاب یہاں کون کرتا؟ مشرقی پاکستان ایسا لینڈ سکیپ تھا جس کا ذکر اب کتابوں ہی میں پڑھا جایا کرے گا۔ کبھی یہ لینڈ سکیپ ہمارا اپنا تھا، ایک مربع انچ بھی ہریالی سے محروم نہ تھا۔ میلوں تک ساتھ چلتے بانس کے گھنے جنگل، ناریل، آم، املی، لیچی، کھجور، کیلے اور کٹھل کے درخت، ان درختوں کے بیچ میں تالاب، تالابوں کے اندر جاتی اینٹوں کی سیڑھیاں، تالاب کے گرد، درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے، صبح صبح اشنان کر کے واپس آتے دھوتی پوش ہندو۔ حد نگاہ تک دھان کے کھیت، انناس کے پودے، سلہٹ کے قرب و جوار میں چائے کے باغات ،حضرت شاہ جلال ؒ یمنی کا شہرہ آفاق مزار، رانگامتی اور کپتائی کی جھیلیں، کاکس بازار میں آباد خوبصورت قبائلی، بوری گنگا اور میگھنا کے بپھرتے دریا، ان کے سینوں پر چلتی فیریاں، کشتیوں میں پیدا ہونے والے، انہی میں زندگیاں گزار دینے والے مانجھی، فردوسی بیگم کے لمبی تان اڑاتے لوک گیت۔ اس لینڈ سکیپ کا کوئی ایک پہلو ہو تو ماتم کیا جائے، یہاں تو پوری دنیا تھی، ساری ہی چلی گئی ؎ 

‎عصا در دست ہوں اس دن سے بینائی نہیں ہے 

‎ستارہ ہاتھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا 

‎شہناز بیگم اس مشترکہ لینڈ سکیپ کا حصہ تھیں اور یوں ہمارے قومی اثاثے کا جزو۔ ہم انہیں یاد رکھیں گے، اس لیے کہ تاریخ بدلی جا سکتی ہے نہ ختم کی جا سکتی ہے۔ 

‎پس تحریر۔ کل کے روزنامہ 92 نیوز میں جناب سجاد میر نے سود کے ضمن میں برمحل سوالات اٹھائے ہیں یہ کہہ کر کہ ’’معاملہ سود سے انکار کا نہیں، اس کی تعریف اور اس کے تعین کا ہے۔‘‘ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے، یہ کالم نگار ان کی توجہ اور علماء معاشیات کی توجہ محمد اکرم خان کی معرکہ آراء تصنیف What is wrong with Islamic Economics کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے۔ دس سال کی تحقیق کے بعد لکھی گئی اس کتاب نے دنیا بھر کے ثقہ ماہرین معاشیات کو چونکا دیا ہے۔ ایڈورڈ ایلگر پبلشنگ برطانیہ سے شائع ہونے والی اس کتاب کے تراجم ترکی اور انڈونیشیا کی بھاشا میں ہو چکے ہیں عربی ترجمہ اس وقت مصر اور لبنان کی بک شاپس میں آ چکا ہے۔ یہ کتاب تحقیق کے بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق لکھی گئی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جس ملک میں مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا طالب علم بینک میں ’’مفتی‘‘ کے عہدے پر لگ جاتا ہے اور اسے اکنامکس کی عالمی تحقیق کے ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی، اس ملک میں اکرم خان کے نام سے کون آشنا ہوگا، کچھ عرصہ پہلے انڈونیشیا میں اور 2018ء میں ترکی میں ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے موضوع پر جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں اور جن میں عالم اسلام اور عالم مغرب کے نمایاں معیشت دان شریک ہوئے، ان دونوں کانفرنسوں میں کلیدی خطاب جناب اکرم خان کا تھا۔ سجاد میر صاحب نے درست کہا ہے کہ یہ مسائل اخباری کالموں میں جذبات برانگیختہ کر کے حل نہیں کئے جاسکتے، ان کے لیے خالص علمی اور تحقیقی رویہ بروئے کار لانا پڑے گا۔

Sunday, March 24, 2019

زمیں سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے

 








سچ کہا تھا منیر نیازی نے کہ شاعر ہی تصورات پیش کرتے ہیں‘ جنہیں دوسرے عملی شکلوں میں ڈھالتے ہیں۔ یہاں تک کہ چاند پر پہنچنے کا آئیڈیا بھی سائنسدانوں کو شاعروں ہی نے دیا۔ 


چالیس سال بنی اسرائیل صحرا میں بھٹکتے پھرے۔ کبھی نخلستانوں کی تلاش میں‘ کبھی سرابوں کے پیچھے‘ بہتر برس ہو گئے ہیں پاکستانی قوم کو بھٹکتے ہوئے‘ کبھی سیٹو کے قافلے کا حصہ بنے‘ کبھی سینٹو کی گرد راہ‘ ایوب خان کے عہد میں آر سی ڈی کا ڈول ڈالا گیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے مگر کوئی تیر نہ مارا گیا۔ کوئی پہاڑ آر سی ڈی (موجودہ 

ECO)


 نے نہ کھودا ؎ 


سر ہو سکی نہ ان کی مدد سے کوئی مہم 


دیوار دل پہ عشق کے نقشے لگے ہوئے 


سارک بنا اور بھارت کی کم ظرفی نے اسے ترقی کا زینہ نہ بننے دیا۔ 


غالب نے گمراہی کا جو تصور پیش کیا‘ ہم اسے عملی جامہ پہنانے پر تلے ہیں ؎


 چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ 


پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں 


کبھی مہاتیر کا ملائیشیا ہمارا آئیڈیل بنتا ہے‘ کبھی ہم سنگاپور کے لی کوآن یو کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر پہنچتے کہیں بھی نہیں۔ سعدی ہمارے بارے میں کہہ گئے تھے ؎


 ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرابی 


کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است 


دعویٰ کعبہ کی طرف جانے کا اور راستہ وسط ایشیا کا۔ 


کل اسلام آباد میں مہاتیر محمد نے جو ٹیکس فری صنعتکاری کی بات کی وہ کون سسی راکٹ سائنس ہے جس کا کسی کو پتہ نہ ہو مگر بیرونی سرمایہ کاروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ابھی تک خود پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے کوئی موثر صنعتی زون نہیں بن سکا۔ تین عشرے ایک صنعت کار خاندان اس ملک پر حکومت کرتا رہا۔ صنعت کاروں کی طرح نہیں جاگیرداروں کی طرح کہ کسی کا بھلا نہ ہو۔ پاکستان ان کا پنجاب تک محدود تھا اور پنجاب ان کا رائے ونڈ سے چل کرلاہور تک ختم ہو جاتا تھا۔ کیا مشکل تھی ان کے لیے اگر پنجاب کے بجائے پورے ملک پر توجہ دیتے؟ مناسب مقام پر صنعتی شہر بساتے۔ دہشت گردی کے خطرے سے اسے محفوظ رکھتے۔ شاہراہوں کا اس کے گرد جال بچھاتے۔ 


مہاتیر اور لی جیسے لیڈروں کے بھی دوہی کان تھے اور دو ہی ٹانگیں مگر فرق یہ ہے کہ ان کے معدے جہنم کے سائز کے نہ تھے کہ کبھی نہ بھرتے۔ 


اور اب ہماری آئیڈیل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہے۔ شرم نہیں آتی ہمیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی تعریف کرتے ہوئے۔ ایک بے بضاعت اقلیت کے لیے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ آبادی کے ایک فیصد مسلمانوں کی دلجوئی کے لیے پوری قوم نے خاموشی اور احترام سے جمعہ کی اذان سنی۔ جس گن کنٹرول کے لیے امریکہ دو سو سالوں سے سسک رہا ہے‘ زخم زخم ہورہا ہے ‘اس گن کنٹرول کو یہ خاتون وزیراعظم چند دنوں میں قانون کا حصہ بنا رہی ہے


 اور ہمارے منہ نہیں تھک رہے خاتون وزیراعظم کی ستائش کرتے ہوئے۔ حالت یہ ہے کہ صرف سندہ کا ایک ضلع گھوٹکی کافی ہے ہماے منہ پر زناٹے کا تھپڑ مارنے کیلئے۔ آئے دن کوئی غیر مسلم لڑکی اسلام ’’قبول‘‘ کرتی ہے۔ مسلح جلوس اسے عدالت تک لاتے ہیں۔ جج اسکے بے یارومددگار ماں باپ کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں تو وکیلوں کے جتھے جج کو مبارک دیتے ہیں۔ پورے پاکستان کو معلوم ہے کہ درگاہوں کا علاقہ کچھ ٹھیکیداروں نے علاقہ غیر بنا رکھا ہے۔ کبھی کوئی مرد‘ کوئی بوڑھی‘ کوئی بڈھا مسلمان نہیں ہوتا۔ ہوتی ہے تو ہمیشہ نوجوان دوشیزہ۔ جس کی فوراً شادی کردی جاتی ہے۔ کوئی ہے جو قومی اسمبلی میں سوال پوچھے کہ صرف گھوٹکی ضلع سے گزشتہ ایک یا دو عشروں میں کتنے غیر مسلم ملک چھوڑ کر گئے ہیں؟


 کیا نیوزی لینڈ کی یونیورسٹیوں پر سیاسی پارٹیوں کی ذیلی جماعتوں کے قبضے ہیں؟ کیا وہاں اساتذہ کو زدوکوب کیا جاتا ہے؟ کیا کتاب میلوں کی آڑ میں فسطائیت کے علم لہرائے جاتے ہیں؟ 


ہم تو اگلے ہزار سال میں نیوزی لینڈ نہیں بن سکتے۔ دارالحکومت کے عین وسط میں راتوں رات سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے مدرسے بنالیے جاتے ہیں۔ خطیب جو سرکار کا ملازم ہے‘ سرکاری خزانے سے مشاہرہ پاتا ہے‘ وفات پاتا ہے تو مسجد خاندان کی جاگیر بن جاتی ہے۔ راولپنڈی کے ایک ثقہ عالم دین نے بتایا کہ متین علما نے راتوں رات قبضے کرنے سے منع کیا تھا۔ فوج کے خلاف فتوے جاری ہوتے ہیں۔ داعش کو دعوت عام دی جاتی ہے۔ ماں باپ کی اجازت تودور کی بات ہے‘ ان کے علم کے بغیر طالبات کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ آسمان سے پتھر برستے ہیں نہ زمین دھنستی ہے۔ 


فرقہ واریت اور تکفیر کے مکروہ درخت کو زہریلا پانی دے دے کر اتنا تناور کردیا گیا ہے کہ غیر مسلم تو کیا‘ اختلاف کرنے والے مسلمانوں کو خنجروں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ 


نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم حدیث نبویؐ سناتی ہے۔ حجاب کر کے آتی ہے۔ دوسری غیر مسلم عورتیں بھی سر ڈھانک کر مسجدوں میں آتی ہیں۔ پوری قوم اذان سنتی ہے۔ اخبارات اپنا پہلا صفحہ مسلمانوں کی نذر کردیتے ہیں اور اس طرز عمل کی تعریف وہ ملک کر رہا ہے جس کا وزیراعظم غیر مسلم پاکستانیوں کی مذہبی تقریب میں چند گھنٹے بھی گزارے تو ہر طرف آگ لگ جاتی ہے۔ اس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے۔ 2015ء میں انہوں نے دیوالی کے تہوار میں شرکت کی اور اپنے آپ کو پاکستان کے تمام گروہوں‘ تمام برادریوں کا وزیراعظم کہا۔ آن کی آن میں فتوے جاری ہو گئے‘ تیروں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ شریفوں کے دستر خوان پر رات دن راتب کھانے والے اور ان کی وساطت سے روزگار حاصل کرنے والے مہر بہ لب ہو گئے۔ اس کالم نگار نے نقار خانے میں طوطی کا کردار ادا کرتے ہوئے وزیراعظم کے اقدام کا دفاع کیا ؎ 


کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی 


کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے


 آپا کشور ناہید نے نصیحت کی ہے کہ یہ کالم نگار بچوں کو تنبیہ کرے مگر قضیہ نہ بنائے۔ دل میں آپا کا بہت احترام ہے۔ ماہ نو کی ایڈیٹر تھیں تو ڈانٹ کر بلکہ مارکٹ کر جدید فارسی نظموں کے تراجم کرائے۔ ماہ نو کا وہ سنہری دور تھا۔ پھر کبھی ایسا نہ ہوا۔ پورے دارالحکومت میں دو ہی تو ٹھکانے ہیں آزاد منش انسانوں کے۔ افتخار عارف کا تکیہ ہے یا کشور ناہید کا (بقول امریکی انگریزی کے) جوائنٹ! سفر درپیش تھا۔ ایک تو آپا نے فیئر ویل نہیں دیا۔ اوپر سے میٹھی میٹھی کھٹی کھٹی ڈانٹ بھی پلا دی۔ حالانکہ ’’بچوں‘‘ کو صرف یہ کہا تھا کہ پلے کارڈز میں سے کچھ ایسے تھے کہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کرنہیں دیکھے جاسکتے تھے۔ اسی تحریر میں اس بیوہ کا بھی ذکر تھا جو ٹیکسلا کے کھنڈرات میں انگریزی ’’سیکھ‘‘ کر بچوں کا پیٹ پال رہی ہے اور اس ضعیف چپڑاسن کا بھی جو بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہی ہے۔ ویسے آپا ہمیشہ ان عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں جو مردوں کی دنیا میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ امید ہے کہ وہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کی بھی حوصلہ افزائی کریں گی۔ 


پوری دنیا خاتون وزیراعظم کی تعریف میں رطب اللسان ہے مگر نمایاں ترین خراج تحسین نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں پیش کیا۔ 

America deserves a Leader as good as jacinda arderan. 


کا عنوان دے کر اداریہ نویس آخری سطر میں لکھتا ہے: 


’’یہ جو ظلم ہوا ہے اس کے بعد عالمی لیڈروں کو متحد ہو جانا چاہیے تاکہ وہ نسل پرستی کی مذمت کرسکیں‘ جو ظلم کانشانہ بنے ہیں ان کا درد بانٹ سکیں اور نفرت کرنے والوں سے ان کے ہتھیار چھین سکیں اور عالمی رہنمائوں کو یہ راستہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے دکھایا ہے۔‘‘ 


نیوزی لینڈ تاریخ کا بے بس حصہ نہیں بنا۔ کرہ ارض کے کنارے پر واقع اس چھوٹے سے ملک نے اپنی تاریخ الگ بنائی ہے اور ایسی بنائی ہے کہ خود تاریخ اس پر ناز کرے گی ؎ 


الگ بنائیںگے ہم یہاں کائنات اپنی 


زمیں سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے 



Thursday, March 21, 2019

اور کچھ نہیں تو ساحل کی قدر ہی کر لو



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بے گھر انسان پر کیا گزرتی ہے! 


سعدیؔ کے پاس جوتے نہیں تھے۔ سفرکر رہے تھے شاکی اورنالاں ! راستے میں دیکھا کہ ایک مسافر کا پائوں ہی نہیں تھا! شکر بجا لائے کہ پائوں تو سلامت ہیں! 


باپ گھر بناتا ہے: پیسہ پیسہ جوڑ کر! جوانی اور بڑھاپے کی ہڈیوں کا سفوف‘ گارے میں مکس ہوتا ہے تب مالِ حلال سے مکان بنتا ہے۔ پھر بیٹے‘ بیٹیاں‘ پوتے ‘ نواسے‘ اس میں نقص نکالتے ہیں! یہ کمرہ فلاں جگہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ یہ برآمدہ مناسب نہیں! باپ خاموشی سے سنتا ہے! دل میں ہنستا ہے۔ جماعت اسلامی کے فراموش شدہ شاعر نعیم صدیقی نے کہا تھا ؎ 


یہ لاالہ خوانیاں جائے نماز پر!! 

سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے


 کہ تم کبھی بنائو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ سو میں بیس کتنے ہوتے ہیں اور آٹے دال کا بھائو کیا ہوتا ہے! 


وطن بھی مکان کی طرح ہے! وہ شخص جس کے پھیپھڑے تپ دق سے مسموم ہو چکے تھے۔ ایک پہاڑ کی طرح ڈٹا رہا۔ کانگرس اور برٹش حکومت اس کی استقامت کے سامنے عاجز آ گئے۔ وطن ظہور پذیر ہوا پھر ایک دن خاموشی سے اس نے بیماری کے سامنے ہتھیار ڈالے اور دنیا سے رخصت ہو گیا! اب سپوت‘ سارے نہیں‘ مگر کچھ‘ کپوت بنے پھرتے ہیں! کیوں بنایا؟غلط بنایا! 


حیرت ہوتی ہے ڈاکٹر مبارک علی جیسے دانش وروں پر۔ پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ تقسیم ان کے نزدیک غلط تھی۔ پھر بھی پاکستان میں بیٹھے ہیں! ارے بھئی! بھارت سے آنے کی کیا ضرورت تھی! منطق تو یہی پوچھتی ہے کہ اگر غلط بنا تھا تو آپ یہاں کیوں مکین ہیں؟ مسلمان تارکین وطن جب میزبان ملکوں میں جا کر شریعہ لا مانگتے ہیں تو انہیں یہی تو کہا جاتا ہے کہ آپ کو دعوت نامہ دیکر یہاں بلایا تو نہیں تھا! کیوں آ گئے؟ 


چشمِ تصور سے نیوزی لینڈ کے حادثے کو دیکھیے! جو زندہ ہیں‘ وہاں کس ذہنی حالت میں رہ رہے ہوں گے؟ان سے پوچھیے‘ وطن کتنی بڑی نعمت ہے! 


وطن!!جہاں آپ سے کوئی پاسپورٹ نہیں مانگتا! جہاں آپ کی زبان سب سمجھتے ہیں! جہاں آپ کا رنگ کروڑوں ہم وطنوں کے رنگ جیسا ہے۔ آپ ہجوم میں الگ نہیں لگتے! آپ توجہ کا مرکز نہیں بنتے۔ آپ سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ پیچھے سے کہاں کے ہیں؟ باپ کی پیدائش کہاں ہوئی تھی؟آپ اپنے گائوں جاتے ہیں یا پرانے شہر کی گلیوں کو پلٹتے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے آپ کا باپ کون تھا؟ دادا کون تھا؟ قصبے کی ایک ایک اینٹ کی تاریخ سب کو معلوم ہوتی ہے!


 ’’کس محلے کے ہو؟‘‘


 ’’اچھا!تم فلاں کے پوتے تو نہیں؟‘‘


 ’’کس گائوں سے ہو؟‘‘


 ’’اچھا‘ تمہارے نانا کا نام یہ تھا؟‘‘ 


آپ کی جڑیں آپ کی مٹی میں ہیں۔ آپ کا تنا مضبوط ہے۔ آپ کی شاخیں سبز اور پتے سرسبز ہیں! 


تارکین وطن کے بیٹے جو پیدا ہی امریکہ برطانیہ ناروے اور آسٹریلیا میں ہوئے۔ وہ تو گملوں میں اُگے درخت ہیں! جتنے بھی بڑے ہوجائیں‘ تنا مضبوط نہیں ہو سکتا! رنگ سے جان نہیں چھوٹتی! مذہب کو کمبل سمجھ کر پھینکنا بھی چاہیں توکمبل نہیں چھوٹتا! بوسنیا اورکسووو کے مسلمان کون سے باعمل مسلمان تھے؟ کسی نے نہ پوچھا کہ مسلک کیا ہے؟ کس امام کو مانتے ہو، نماز ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے ہو یا باندھ کر! بکروں کی طرح لٹا کر ذبح کئے گئے۔ نصرانی عورتوں نے قیدی مردوں کے پیٹ ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے نوکیلے ٹکڑوں سے پھاڑے! 


اس بھارتی مسلمان کا جواب کبھی نہیں بھولتا جس سے آسٹریلیا کی ایک مسجدمیں پوچھا کہ بھارت میں مسلمانوں کا مجموعی احوال کیسا ہے! کہا‘ اچھا ہے‘ پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور اضافہ کیا کہ…’’اقلیت میں ہیں!‘‘ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ۔ اقلیت میں ہیں۔ کئی کتابوں پر بھاری ہے! بھارتی مسلمان سے پوچھیے پاکستان کی کیا قدروقیمت ہے! صرف یوپی کا وزیر اعلیٰ ہی کافی ہے یہ باور کرانے کے لئے کہ پاکستان کتنی بڑی نعمت ہے!فیض صاحب کی بیٹی کو اور آپا کشور ناہید کو ویزے نہ دیے۔ نہیں دیکھا کہ روشن خیال ہیں! بس پاکستانی اور مسلمان ہونا کافی تھا!! 


تارکین وطن کو ملزم یا مجرم نہیں گردانا جا سکتا! جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے‘ ہجرت اس کے ساتھ ساتھ ہے! آدم نے جنت سے ہجرت کی! موسیٰ علیہ السلام نے مصر چھوڑا۔ سرکار ﷺ نے مکہ کوخیر باد کہا اور یوں خیر باد کہا کہ فتح مکہ کے بعد بھی اہل مدینہ کو نہ چھوڑا۔ کرۂ ارض کی تاریخ ہجر اور ہجرتوں سے اٹی پڑی ہے! چینی کہاں کہاں نہیں گئے۔ امریکہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر انڈونیشیا اور ملائشیا تک! آج کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کی دوسری سرکاری زبان ہی پنجابی ہے! کینیڈا کا وزیر دفاع سکھ ہے۔ 


مسلمان تارکین وطن کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں! وہ طعن و تشنیع کے نہیں‘ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ دعائوں کے محتاج ہیں! ہاں یہ بات اپنی جگہ پتھر پر لکیر ہے کہ وطن کا کوئی نعم البدل نہیں! اپنی مٹی کہیں اور نہیں مل سکتی! سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ آپ دوسروں سے الگ نہ دکھائی دیں! آپ اُن لاکھوں کروڑوں میں سے ایک ہوں جو آپ جیسے ہیں! آپ کو اقلیت کوئی نہ کہے! 


اپنا گریبان کتنا نزدیک ہوتا ہے مگر جھانکتے وقت کتنا دور لگتا ہے! سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا کسی کی ماں بیٹی دیکھی تو اپنی ماں بیٹی یاد آئی پھر غالب کا شعر پڑھا اور یوں اطلاق کیا کہ سننے والے عش عش کر اٹھے ؎ 


ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ 

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا! 


جنہیں ہم پاکستان میں اقلیت کہتے ہیں‘ ان سے معاملات کرتے وقت ان پاکستانیوں اور مسلمانوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو نیوزی لینڈ میں ہیں‘ اور ان دوسرے ملکوں میں جہاں کے پاسپورٹ ان کی جیبوں میں ہیں مگر یہ پاسپورٹ انہیں دوسرے مکینوں کے ہم رنگ اور ہم مذہب کرنے سے قاصر ہیں! 


ہمیں سوچنا ہو گا کہ سندھ میں ہمیشہ نوجوان ہندو لڑکی ہی کیوں اسلام’’قبول‘‘ کرتی ہے؟ مرد اور بوڑھی عورتیں کیوں نہیں مسلمان ہوتیں؟مغربی ملکوں میں مسلمان‘ عملاً اقلیتیں ہیں مگر کم از کم سرکاری طور پر انہیں اقلیت نہیں قرار دیا جاتا! ہم جب فخر سے کہتے ہیں کہ برطانیہ کا وزیر داخلہ یا لندن کا میئر پاکستانی نژاد اور مسلمان ہے تو کیا ہم غیر مسلموں کو اپنے وطن میں ایسے مناصب دینے کے لئے برضا و رغبت آمادہ ہیں؟ 


وطن میں بیٹھ کر۔وطن کی قدر ہوتی ہے نہ غریب الوطنی کا درد سمجھ میں آتا ہے! حافظ شیرازی کا شعر اس سیاق و سباق میں حرف آخر ہے ؎


 شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین حائل 

کجا دانند حالِ ماسبک سارانِ ساحل ہا 


رات کالی ہے! لہروں کا خوف دامن گیر ہے! سامنے بھنور ہے! وہ جو ساحلوں پر بیٹھے موج مستی کر رہے ہیں انہیں ہمارے حال کا کیا اندازہ!! 


ساحل پر بیٹھے والو! اور کچھ نہیں تو ساحل کی قدر ہی کر لو۔ 


    

Sunday, March 17, 2019

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی۔ ایک زاویہ اور بھی ہے



’’کئی برسوں سے سن رہا تھا اور پڑھ رہا تھا کہ فرانس پر وہ لوگ ’’حملہ آور‘‘ ہورہے ہیں جو سفید فام نہیں ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ مبالغہ آرائی ہے اور اس کا مقصد سیاسی سکور حاصل کرنا ہے مگر فرانس جا کر دیکھا تو یہ سب کچھ نہ صرف سچ نکلا بلکہ یوں محسوس ہوا کہ اصل سے بھی کم ہے۔‘‘ 

نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں پر وحشیانہ حملہ کرنے والے دہشت گرد نے ٹوئٹر پر اپنا ’’منشور‘‘ نشر کیا ہے۔ مندرجہ بالا سطور اسی منشور کا حصہ ہیں۔ 

کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس منشور کا عنوان اس نے کیا رکھا ہے اور یہ عنوان کہاں سے لیا ہے؟ 

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ایک بار پھر فرانس جانا پڑے گا۔ 

ریناڈکیمو 1946ء میں پیدا ہوا۔ حصول تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ گیا۔ ادب کی طرف رجحان تھا مگر شروع ہی سے متنازعہ ہوگیا۔ اس کا موقف تھا کہ فرانس میں ادب کا تذکرہ ہو تو ترجیح یہودی النسل ادیبوں کو دی جاتی ہے۔ کھلم کھلا ہم جنس پرست بھی تھا۔ اس موضوع پر کتاب بھی لکھی۔ 2014ء میں ایک فرانسیسی عدالت نے اسے چار ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ جرم یہ تھا کہ اس نے مسلمانوں کو غنڈہ کہا تھا اور الزام لگایا تھا کہ یہ فرانس کو ’’فتح‘‘ کر نا چاہتے ہیں۔ 

مکروہ ترین کار نامہ ریناڈ کیمو کا ’’غیرمعمولی تبدیلی‘‘ کے نظریے کا فروغ ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ پورے یورپ میں پنپ رہا ہے مگر ریناڈ کیمو نے اسے سب سے زیادہ مشتہر کیا۔ ’’غیرمعمولی تبدیلی۔‘‘ انگریزی میں

‏ The Great Replacement 

سے مراد یہ ہے کہ عرب‘ بربر اور دیگر مسلمان فرانس آ کر فرانسیسی سرزمین پر قبضہ کر رہے ہیں اور سفید فاموں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ 2012ء میں ریناڈ کیمو نے ’’غیر معمولی تبدیلی‘‘ ہی کے عنوان سے باقاعدہ ایک کتاب تصنیف کی۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک نسل کے بعد سفید فام اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس نے اس خوف کو پھیلانے کی کوشش کی کہ یورپی کلچر اور یورپی شناخت کو دوسرے ملکوں سے آ کربس جانے والے لوگ ختم کردیں گے۔ ان میں اکثریت عرب اور افریقی مسلمانوں کی ہے۔ 

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والا اٹھائیس سالہ آسٹریلوی سفید فام ہیرلیسن ٹارانٹ‘ اسی فرانسیسی نسل پرست ریناڈ کیمو سے متاثر ہے۔ اس نے سوشل میڈیا پر جو 84 صفحات کا منشور پیش کیا ہے اس کا عنوان ’’غیرمعمولی تبدیلی‘‘ یعنی Great Replacement ہی رکھا ہے۔ وہ تارکین وطن کو حملہ آور قرار دیتا ہے۔ جب وہ فرانس کے 
ایک قصبے میں ٹھہرتا ہے تو ان ’’حملہ آوروں‘‘ کو دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اسی کی زبانی سنیے۔ 

’’میں پارکنگ میں بیٹھا‘ کرائے پر لی ہوئی کار سے دیکھ رہا تھا۔ شاپنگ سنٹروں کے دروازوں سے ’’حملہ آوروں‘‘ کی بڑی تعداد نکل رہی تھی۔ ہر فرانسیسی عورت اور مرد کے مقابلے میں حملہ آوروں کی تعداد دو گنا تھی۔ بہت ہو چکی۔ میں غصے سے بھناتا ہوا نکلا۔ اس لعنت زدہ قصبے میں میں مزید نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ میں اگلے قصبے کی طرف روانہ ہوگیا۔‘‘ اپنے منشور میں آگے چل کر ہیرلیسن ٹارانٹ لکھتا ہے: ’’کیوں کوئی کچھ نہیں کرتا؟ خود میں ایکشن کیوں نہ لوں؟‘‘

 ریناڈ کیمو جیسے آگ اگلنے والے اور نفرت کا زہر پھیلانے والے لوگ اس تحریک کو خوب زور و شور سے پھیلا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی دہشت گردی کے بعد جب میڈیا نے ریناڈ کیمو سے پوچھا کہ کیا اسے اس بات پر اعتراض ہے کہ اس کے ’’غیرمعمولی تبدیلی‘‘ کے نظریے کو کیا رنگ دیا جا رہا ہے اور انتہائی دائیں بازو اس کی تشریح کس طرح کر رہا ہے؟ تو کیمو کا واضح جواب تھا کہ ہرگز نہیں۔ یعنی اسے اس دہشت گردی‘ اس بربریت اور اس قتل عام پر کوئی اعتراض نہیں۔ ریناڈ کیمو کے بقول اسے امید ہے کہ جوابی انقلاب ضرور آئے گا۔ اس کا خیال ہے کہ افریقی‘ ایشیائی‘ عرب اور بربر‘ فرانس کو اپنی کالونی بنا رہے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس رجحان کی بازی الٹ جائے۔ 

جذبات سے ہٹ کر مسلم دانشوروں کو سفید فاموں کی اس تحریک کے اسباب پر غور کرنا ہوگا۔ امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا بڑے ممالک ہیں۔ وہاں تارکین وطن نمایاں نہیں نظر آتے۔ اس کے برعکس یورپ چھوٹے چھوٹے ملکوں کا مجموعہ ہے۔ نیدرلینڈ‘ بلجیم‘ لگزمبرگ جیسے ملک ہمارے ایک ایک صوبے سے بھی چھوٹے ہیں۔ جگہ کم ہے‘ تارکین وطن کی تعداد‘ سفید فاموں کو زیادہ لگتی ہے۔ اسلام دشمنی کو بھی نسل پرستی کے پردے میں چھپایا جارہا ہے۔ 

تاریخ کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے۔ یورپی طاقتوں نے افریقہ اور ایشیا کے ملکوں کو اپنا غلام بنایا۔ انہیں چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم در تقسیم کرتے رہے۔ خون چوستے رہے۔ نچوڑتے رہے۔ صرف ایک مثال سے واضح ہو جائے گا کہ استعما رنے کس طرح کھاتے پیتے ایشیائی اور افریقی ملکوں کی معیشت کو تباہ کیا۔ اورنگ زیب کا آخری عہد مغلوں کے زوال کا آغاز تھا۔ اُسی عہد زوال میں بھی برصغیر کی پیداوار‘ کل دنیا کی پیداوار کا 23 فیصد حصہ تھی۔ انگریز 1947ء میں گئے تو یہ 23 فیصد حصہ تین فیصد تک نیچے آ گیا تھا۔ 

تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا انتقام اب انہی ایشیائی اور افریقی ملکوں سے تارکین وطن اپنے سابق آقائوں کے Home Countries میں آن بسے ہیں۔ احساس جرم کسی کسی وقت ان سفید فاموں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے جسے وہ الٹے سیدھے خود ساختہ دلائل سے قتل کرتے ہیں۔ مثلاً ریناڈ کیمو کا یہ قول دیکھئے: 

’’اب افریقی جس طرح یورپ میں آ رہے ہیں‘ یہ ’’استعمار‘‘ اُس استعمار سے بیس گنا زیادہ اہم اور نمایاں ہے جو یورپ نے افریقہ میں قائم کیا تھا۔‘‘ 

یہاں ایک سوال اور بھی ہے جو مسلمانوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ پچپن مسلمان ملکوں میں ایک مسلمان ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان ہجرت کر کے اس طرح آباد ہو سکیں جس طرح وہ کینیڈا‘ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آباد ہورہے ہیں۔ صومالیہ سے لے کر افغانستان تک شام سے لے کر لبنان تک جہاں بھی جنگ کی تباہی پھیلی‘ مہاجرین نکلے اور مغربی ملکوں میں جا بسے۔ ان ملکوں نے انہیں پناہ دی‘ شہریت دی‘ ملازمتیں دیں‘ رہائش گاہیں دیں۔ 2015ء میں جب شام سے لاکھوں مہاجرین جرمنی پہنچے تو جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود انہیں قبول کیا۔ یہی وقت تھا جب سوشل میڈیا پر شام کے مہاجرین نے واضح طور پر لکھا:’’ہم اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر نزدیک تر تھے مگر پناہ ہمیں جرمنی نے دی۔‘‘ 

مسلمان اہل دانش کو سوچنا ہو گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم مغرب کے محتاج تو تھے ہی‘ اب ہم رہائش کے لیے‘ ملازمتوں کے لیے اور شہریت کے لیے بھی ان ملکوں کے محتاج ہیں۔ اس قدر محتاج کہ میزبان ملک اس خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ تارکین وطن کی تعداد اصل باشندوں کی نسبت زیادہ نہ ہو جائے۔ اس خوف ہی کو بنیاد بنا کر ٹرمپ نے سفید فاموں کو اپنا ووٹر بنایا۔ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والے ہیرلیسن ٹارانٹ نے اپنی پسندیدہ شخصیات میں ٹرمپ کا نام بھی لکھا ہے۔ 

جو سوال زیادہ غور و فکر کا متقاضی ہے‘ یہ ہے کہ ’’کیا تارکین وطن کا مستقبل ان ملکوں میں محفوظ ہے؟

Saturday, March 16, 2019

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں

 




کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں اس روئے زمین پر سب سے زیادہ حیرت انگیز انسان ہوں؟ سب سے زیادہ عجیب و غریب۔ میرا چیلنج ہے کہ مجھے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ میرا اگلا اقدام کیا ہوگا؟ میں کس طرف مڑوں گا؟ میری پالیسی کیا ہے؟ میرا مستقبل کا روڈ میپ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا میرے دشمن کون ہیں، میرے دوست کون ہیں؟ 


میں رات دن حرام کھاتا ہوں، تجارت میں، زراعت میں، دفتر میں، کارخانے میں، کم تولتا ہوں، کم ماپتا ہوں، خوراک کے نام پر زہر بیچتا ہوں، دوائوں کے نام پر موت فروخت کرتا ہوں، دفتر دیر سے جا کر، چھٹی سے پہلے چھٹی کر کے، سائلین کو اذیت پہنچا کر، اپنی تنخواہ کو حرام مال میں ڈھالتا ہوں، ٹیکس چراتا ہوں، ممبر ہوں تو اسمبلی میں نہیں جاتا۔ وزیر ہوں تو تنخواہ تیس دن کی لیتا ہوں، دفتر ہفتے میں ایک دن جاتا ہوں، اس مسلسل حرام خوری کے باوجود دنیا حیران ہے کہ بیرون ملک جائوں تو حلال گوشت کے لیے تلاش بسیار کرتا ہوں۔ نہ ملے تو تڑپتا ہوں، میرے اس دوغلے پن کا سبب کوئی سائنس دان، کوئی ماہر نفسیات آج تک نہ جان سکا۔ 


میرے پاس ملبوسات کے انبار ہیں۔ ڈنر سوٹ، ڈنر جیکٹس، سردیوں کے لیے بہترین کوٹ، ہیرس ٹویڈ، جوتے فرنگی، نکٹائیاں ریشمی، شام کی سیر کے لیے بہترین ٹریک سوٹ، گالف کھیلنے کے لیے خصوصی جوتے، چلتے ہوئے جن پر چمڑے کا پھول ناچتا ہے۔ مگر مسجد خدا کے حضور حاضر ہوتا ہوں تو کبھی دھوتی میں، کبھی گندے پاجامے میں کبھی سرکنڈوں سے بنی ہوئی سوراخوں والی ٹوپی میں جس کے اندر میل کی کئی تہیں اوپر نیچے جمی ہوئی ہیں۔ 


بچوں کے نکاح میں سادگی سے کرتا ہوں۔ وہ بھی مسجد میں، پھر یہ سادگی رنگ بدل لیتی ہے۔ مہندی، برات اور ولیمے میں فی کس کھانے کا خرچ پانچ چھ ہزار سے کم نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے گھر سے قالینیں اٹھوا دیں، کہیں ماربل لگوایا ہے اور کہیں خوبصورت ٹائلیں۔ تازہ ترین نظریہ یہ ہے کہ قالینیں ٹنوں کے حساب سے گرد اپنے اندر چھپا لیتی ہیں۔ جبکہ ماربل یا ٹائلوں کا فرش آپ اکثر و بیشتر دھو سکتے ہیں مگر خدا کے گھروں میں نام نہاد قالینی صفیں اسی طرح بچھی ہیں۔ گیلے پیروں کے ساتھ نمازی ان پر چلتے ہیں۔ مشکل سے خشک ہوتی ہیں۔ دھول سے اٹی ہیں۔ سجدہ کرتا ہوں تو سیلن کی، گرد کی بو دماغ تک جاتی ہے مگر مجھے یہ توفیق نہیں کہ اپنے گھر کی طرح خدا کے گھر سے بھی قالینی صفیں جو مجسم کثافت ہیں ہٹالوں۔ 


میں بڑے بڑے سپر سٹوروں میں جاتا ہوں۔ ٹرالیاں بھر کر سودا سلف خریدتا ہوں۔ بھائو تائو کرتا ہوں نہ تکرار۔ کائونٹر پر بیٹھا کیشیئر جو مانگتا ہے چوں تک کیے بغیر چپ چاپ فرماں برداری کے ساتھ ادا کر دیتا ہوں۔ پھر جب وہ رسید دیتا ہے تو منہ ٹیڑھا کر کے اسے تھینک یو کہتا ہوں مگر جب دو درجن کیلے یا ایک درجن مالٹے کسی ریڑھی والے سے خریدتا ہوں تو میری سوداگری کی رگ جاگ اٹھتی ہے۔ ریڑھی والے بوڑھے سے، دام کم کراتا ہوں اور فخر سے بیوی کو آ کر بتاتا ہوں کہ اتنے دام کم کرائے۔ 


حرمت رسولؐ پر میں کٹ مرتا ہوں لیکن حکم رسولؐ کی میں رات دن مخالفت کرتا ہوں۔ رسولؐ کا حکم تھا کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے۔‘‘ میں مسلمان عورت کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتا کہ اس نے کون سی نوکری کرنی ہے۔ رسولؐ کو بیٹیاں عزیز تھیں، مجھے ان میں نحوست نظر آتی ہے۔ بیٹی جنم دینے والی ماں کو ہسپتال کے بستر ہی پر طلاق دے دیتا ہوں اور اس مسلمان معاشرے میں کوئی میرا بال تک بیکا نہیں کرسکتا۔ رسولؐ کا فرمان تھا کہ آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ نماز میں اکٹھی پڑھتا ہوں یعنی ہفتہ وار یا تین سو ساٹھی یعنی عید کی یا کاٹھی، یعنی جس نماز کے ساتھ میت کی چارپائی ہو۔ رسولؐ کو عورتیں اور خوشبو عزیز تھیں۔ عورت کو میں ناقص العقل کہتا ہوں۔ ٹیڑھی پسلی کی پیداوار، خوشبو کا یہ حال ہے کہ میرے قریب سے گزریں تو بدبو کے بھبکے اٹھتے محسوس ہوتے ہیں۔ مسجد جائوں تو منہ سے پیاز اور لہسن کی بو آتی ہے اور سر کے بالوں سے کڑوے تیل کے بخارات اٹھ اٹھ کر نمازیوں کے نتھنوں میں گھستے ہیں۔ رسولؐ کا فرمان ہے کہ جو وعدہ نہیں پورا کرتا، اس کا ایمان ہی نہیں۔ میں عہد شکنی میں دنیا بھر میں اول آ رہا ہوں۔ کوئی شکوہ کرے تو داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ڈھٹائی سے فلسفہ بیان کرتا ہوں کہ ’’میں نے وعدہ نہیں کیا تھا، بس ایک بات کی تھی۔‘‘ رسولؐ نے بتا دیا تھا کہ ہندوئوں کے حقوق صرف اس صورت میں معاف ہوں گے جب متاثرہ بندہ خود معاف کرے گا مگر میں یہ 

Disinformation 

زور و شور سے پھیلا رہا ہوں کہ حج پر جائو گے تو سارے گناہ دھل جائیں گے۔ یعنی یتیموں کا مال کھائو، رشوت لو اور دو، ملاوٹ کرو، جھوٹ بول کر نفع زیادہ کمائو، نقص والا مال بیچو اور گاہک کو ہوا تک نہ لگنے دو، سائلوں کو دفتروں کے چکر لگوا لگوا کر ذلیل و خوار اور رسوا و ہلاک کرو۔ ماں باپ کی گستاخی کرو، ان کی خدمت کرو نہ ادب، قطع رحمی خوب خوب کرو اور دن رات کرو۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر آئو۔ یوں ہو جائو گے جیسے دودھ سے دھلے ہو۔ 



عجیب و غریب ہونے کی وجوہ اور بھی ہیں۔ میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے ہوں۔ گزشتہ پانچ سو برس کے دوران میں نے کچھ ایجاد نہیں کیا۔ ناخواندگی عروج پر ہے، تو ہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی میں اپنی مثال آپ ہوں۔ پھر بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ دنیا بھر میں میرا مقام بلند ترین ہے۔ پوری دنیا مجھ سے حسد کرتی ہے۔ اس روئے زمین پر رہنے والا ہر شخص میرے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ میں کسی صورت اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرتے ہوئے مجھے موت پڑتی ہے۔ مجھ میں کوئی عیب ہے نہ کمزوری۔ میں اپنے آپ کو اخلاقی برتری کے اس مقام پر متمکن سمجھتا ہوں جہاں پہنچنے کا کوئی تصور تک نہیں کرسکتا۔ 


میں ساری دنیا میں چیختا روتا بلکتا پھرتا ہوں کہ کشمیریوں کے ساتھ یہ ہوگیا، روہنگیا تباہ ہو گئے، فلسطینی دربدر ہو گئے، افغان برباد ہو گئے، جبکہ میرے بادشاہ کہیں جائیں تو چالیس چالیس کارٹن زاد سفر کے ساتھ لے جاتے ہیں۔ جہاز سے اترنے کے لیے برقی سیڑھی، خالص سونے سے بنی ہوئی ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ محلات کی کنجیاں ٹونٹیاں تالے، سونے کے ہیں۔ اڑتے جہازوں میں بنی ہوئی خواب گاہوں اور مہمان خانوں پر پرستان رشک کرتے ہیں۔ جکارتہ سے لے کر اسلام آباد اور کراچی تک کے اور کویت سے لے کررباط تک کے حکمرانوں اور امرا کی جائیدادیں اور بینک بیلنس مغربی ملکوں میں رکھے ہیں۔ ہے کوئی دنیا میں میرے جیسا؟ جون ایلیا نے میرے لیے ہی تو کہا تھا ؎ 


تو مرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے

 شوق کمال بھی نہیں! خوف زوال بھی نہیں 


غارت روز و شب تو دیکھ وقت کا یہ غضب تو دیکھ

 کل تو نڈھال بھی تھا میں، آج نڈھال بھی نہیں



 پہلے ہمارے ذہن میں حسن کی اک مثال تھی 

اب تو ہمارے ذہن میں کوئی مثال بھی نہیں 


میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس 

خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں 








 

powered by worldwanders.com