Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, March 24, 2019

زمیں سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے

 








سچ کہا تھا منیر نیازی نے کہ شاعر ہی تصورات پیش کرتے ہیں‘ جنہیں دوسرے عملی شکلوں میں ڈھالتے ہیں۔ یہاں تک کہ چاند پر پہنچنے کا آئیڈیا بھی سائنسدانوں کو شاعروں ہی نے دیا۔ 


چالیس سال بنی اسرائیل صحرا میں بھٹکتے پھرے۔ کبھی نخلستانوں کی تلاش میں‘ کبھی سرابوں کے پیچھے‘ بہتر برس ہو گئے ہیں پاکستانی قوم کو بھٹکتے ہوئے‘ کبھی سیٹو کے قافلے کا حصہ بنے‘ کبھی سینٹو کی گرد راہ‘ ایوب خان کے عہد میں آر سی ڈی کا ڈول ڈالا گیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے مگر کوئی تیر نہ مارا گیا۔ کوئی پہاڑ آر سی ڈی (موجودہ 

ECO)


 نے نہ کھودا ؎ 


سر ہو سکی نہ ان کی مدد سے کوئی مہم 


دیوار دل پہ عشق کے نقشے لگے ہوئے 


سارک بنا اور بھارت کی کم ظرفی نے اسے ترقی کا زینہ نہ بننے دیا۔ 


غالب نے گمراہی کا جو تصور پیش کیا‘ ہم اسے عملی جامہ پہنانے پر تلے ہیں ؎


 چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ 


پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں 


کبھی مہاتیر کا ملائیشیا ہمارا آئیڈیل بنتا ہے‘ کبھی ہم سنگاپور کے لی کوآن یو کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر پہنچتے کہیں بھی نہیں۔ سعدی ہمارے بارے میں کہہ گئے تھے ؎


 ترسم نہ رسی بہ کعبہ ای اعرابی 


کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است 


دعویٰ کعبہ کی طرف جانے کا اور راستہ وسط ایشیا کا۔ 


کل اسلام آباد میں مہاتیر محمد نے جو ٹیکس فری صنعتکاری کی بات کی وہ کون سسی راکٹ سائنس ہے جس کا کسی کو پتہ نہ ہو مگر بیرونی سرمایہ کاروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ابھی تک خود پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے کوئی موثر صنعتی زون نہیں بن سکا۔ تین عشرے ایک صنعت کار خاندان اس ملک پر حکومت کرتا رہا۔ صنعت کاروں کی طرح نہیں جاگیرداروں کی طرح کہ کسی کا بھلا نہ ہو۔ پاکستان ان کا پنجاب تک محدود تھا اور پنجاب ان کا رائے ونڈ سے چل کرلاہور تک ختم ہو جاتا تھا۔ کیا مشکل تھی ان کے لیے اگر پنجاب کے بجائے پورے ملک پر توجہ دیتے؟ مناسب مقام پر صنعتی شہر بساتے۔ دہشت گردی کے خطرے سے اسے محفوظ رکھتے۔ شاہراہوں کا اس کے گرد جال بچھاتے۔ 


مہاتیر اور لی جیسے لیڈروں کے بھی دوہی کان تھے اور دو ہی ٹانگیں مگر فرق یہ ہے کہ ان کے معدے جہنم کے سائز کے نہ تھے کہ کبھی نہ بھرتے۔ 


اور اب ہماری آئیڈیل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہے۔ شرم نہیں آتی ہمیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی تعریف کرتے ہوئے۔ ایک بے بضاعت اقلیت کے لیے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ آبادی کے ایک فیصد مسلمانوں کی دلجوئی کے لیے پوری قوم نے خاموشی اور احترام سے جمعہ کی اذان سنی۔ جس گن کنٹرول کے لیے امریکہ دو سو سالوں سے سسک رہا ہے‘ زخم زخم ہورہا ہے ‘اس گن کنٹرول کو یہ خاتون وزیراعظم چند دنوں میں قانون کا حصہ بنا رہی ہے


 اور ہمارے منہ نہیں تھک رہے خاتون وزیراعظم کی ستائش کرتے ہوئے۔ حالت یہ ہے کہ صرف سندہ کا ایک ضلع گھوٹکی کافی ہے ہماے منہ پر زناٹے کا تھپڑ مارنے کیلئے۔ آئے دن کوئی غیر مسلم لڑکی اسلام ’’قبول‘‘ کرتی ہے۔ مسلح جلوس اسے عدالت تک لاتے ہیں۔ جج اسکے بے یارومددگار ماں باپ کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں تو وکیلوں کے جتھے جج کو مبارک دیتے ہیں۔ پورے پاکستان کو معلوم ہے کہ درگاہوں کا علاقہ کچھ ٹھیکیداروں نے علاقہ غیر بنا رکھا ہے۔ کبھی کوئی مرد‘ کوئی بوڑھی‘ کوئی بڈھا مسلمان نہیں ہوتا۔ ہوتی ہے تو ہمیشہ نوجوان دوشیزہ۔ جس کی فوراً شادی کردی جاتی ہے۔ کوئی ہے جو قومی اسمبلی میں سوال پوچھے کہ صرف گھوٹکی ضلع سے گزشتہ ایک یا دو عشروں میں کتنے غیر مسلم ملک چھوڑ کر گئے ہیں؟


 کیا نیوزی لینڈ کی یونیورسٹیوں پر سیاسی پارٹیوں کی ذیلی جماعتوں کے قبضے ہیں؟ کیا وہاں اساتذہ کو زدوکوب کیا جاتا ہے؟ کیا کتاب میلوں کی آڑ میں فسطائیت کے علم لہرائے جاتے ہیں؟ 


ہم تو اگلے ہزار سال میں نیوزی لینڈ نہیں بن سکتے۔ دارالحکومت کے عین وسط میں راتوں رات سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے مدرسے بنالیے جاتے ہیں۔ خطیب جو سرکار کا ملازم ہے‘ سرکاری خزانے سے مشاہرہ پاتا ہے‘ وفات پاتا ہے تو مسجد خاندان کی جاگیر بن جاتی ہے۔ راولپنڈی کے ایک ثقہ عالم دین نے بتایا کہ متین علما نے راتوں رات قبضے کرنے سے منع کیا تھا۔ فوج کے خلاف فتوے جاری ہوتے ہیں۔ داعش کو دعوت عام دی جاتی ہے۔ ماں باپ کی اجازت تودور کی بات ہے‘ ان کے علم کے بغیر طالبات کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ آسمان سے پتھر برستے ہیں نہ زمین دھنستی ہے۔ 


فرقہ واریت اور تکفیر کے مکروہ درخت کو زہریلا پانی دے دے کر اتنا تناور کردیا گیا ہے کہ غیر مسلم تو کیا‘ اختلاف کرنے والے مسلمانوں کو خنجروں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ 


نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم حدیث نبویؐ سناتی ہے۔ حجاب کر کے آتی ہے۔ دوسری غیر مسلم عورتیں بھی سر ڈھانک کر مسجدوں میں آتی ہیں۔ پوری قوم اذان سنتی ہے۔ اخبارات اپنا پہلا صفحہ مسلمانوں کی نذر کردیتے ہیں اور اس طرز عمل کی تعریف وہ ملک کر رہا ہے جس کا وزیراعظم غیر مسلم پاکستانیوں کی مذہبی تقریب میں چند گھنٹے بھی گزارے تو ہر طرف آگ لگ جاتی ہے۔ اس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے۔ 2015ء میں انہوں نے دیوالی کے تہوار میں شرکت کی اور اپنے آپ کو پاکستان کے تمام گروہوں‘ تمام برادریوں کا وزیراعظم کہا۔ آن کی آن میں فتوے جاری ہو گئے‘ تیروں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ شریفوں کے دستر خوان پر رات دن راتب کھانے والے اور ان کی وساطت سے روزگار حاصل کرنے والے مہر بہ لب ہو گئے۔ اس کالم نگار نے نقار خانے میں طوطی کا کردار ادا کرتے ہوئے وزیراعظم کے اقدام کا دفاع کیا ؎ 


کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی 


کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے


 آپا کشور ناہید نے نصیحت کی ہے کہ یہ کالم نگار بچوں کو تنبیہ کرے مگر قضیہ نہ بنائے۔ دل میں آپا کا بہت احترام ہے۔ ماہ نو کی ایڈیٹر تھیں تو ڈانٹ کر بلکہ مارکٹ کر جدید فارسی نظموں کے تراجم کرائے۔ ماہ نو کا وہ سنہری دور تھا۔ پھر کبھی ایسا نہ ہوا۔ پورے دارالحکومت میں دو ہی تو ٹھکانے ہیں آزاد منش انسانوں کے۔ افتخار عارف کا تکیہ ہے یا کشور ناہید کا (بقول امریکی انگریزی کے) جوائنٹ! سفر درپیش تھا۔ ایک تو آپا نے فیئر ویل نہیں دیا۔ اوپر سے میٹھی میٹھی کھٹی کھٹی ڈانٹ بھی پلا دی۔ حالانکہ ’’بچوں‘‘ کو صرف یہ کہا تھا کہ پلے کارڈز میں سے کچھ ایسے تھے کہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کرنہیں دیکھے جاسکتے تھے۔ اسی تحریر میں اس بیوہ کا بھی ذکر تھا جو ٹیکسلا کے کھنڈرات میں انگریزی ’’سیکھ‘‘ کر بچوں کا پیٹ پال رہی ہے اور اس ضعیف چپڑاسن کا بھی جو بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہی ہے۔ ویسے آپا ہمیشہ ان عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں جو مردوں کی دنیا میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ امید ہے کہ وہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کی بھی حوصلہ افزائی کریں گی۔ 


پوری دنیا خاتون وزیراعظم کی تعریف میں رطب اللسان ہے مگر نمایاں ترین خراج تحسین نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں پیش کیا۔ 

America deserves a Leader as good as jacinda arderan. 


کا عنوان دے کر اداریہ نویس آخری سطر میں لکھتا ہے: 


’’یہ جو ظلم ہوا ہے اس کے بعد عالمی لیڈروں کو متحد ہو جانا چاہیے تاکہ وہ نسل پرستی کی مذمت کرسکیں‘ جو ظلم کانشانہ بنے ہیں ان کا درد بانٹ سکیں اور نفرت کرنے والوں سے ان کے ہتھیار چھین سکیں اور عالمی رہنمائوں کو یہ راستہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے دکھایا ہے۔‘‘ 


نیوزی لینڈ تاریخ کا بے بس حصہ نہیں بنا۔ کرہ ارض کے کنارے پر واقع اس چھوٹے سے ملک نے اپنی تاریخ الگ بنائی ہے اور ایسی بنائی ہے کہ خود تاریخ اس پر ناز کرے گی ؎ 


الگ بنائیںگے ہم یہاں کائنات اپنی 


زمیں سے معشوق لیں گے چاند آسماں سے لیں گے 



No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com