وہ بچپن تھا جب صحن ایک تھا۔ بہت بڑا صحن، سب اس میں مل کر کھیلتے۔ گرمیوں میں ڈیوڑھی ٹھنڈی لگتی اور جاڑوں میں اندر کا نیم تاریک کمرہ گرم ہوتا۔ بڑے اس میں گھنٹوں بیٹھتے۔ بچے اندر جاتے تو انہیں دکھائی کچھ نہ دیتا۔ فوراً باہر نکل آتے۔
پھر صحن تقسیم ہوگیا۔ درمیان میں دیوار اٹھا دی گئی۔ اب یہ دو گھر الگ الگ ہو گئے مگر جن کا بچپن بڑے صحن میں گزرا تھا، وہ چشم تصور سے اسی معدوم صحن کو دیکھتے۔ انہی برآمدوں، اسی ڈیڑھی اور اس نیم تاریک بڑے کمرے کو یاد کرتے رہتے۔
متحدہ پاکستان کی دو ثقافتی علامتیں تھیں۔ شبنم اور شہناز بیگم جو مشرقی اور مغربی پاکستان کا مشترکہ سرمایہ تھیں۔ ان میں سے شہناز بیگم د نیا سے کوچ کر گئی ہیں۔ تین دن پہلے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ مغربی پاکستان سے شہرت پانے والی شہناز بیگم ڈھاکہ میں دفن ہوئیں جس کی شہرت بحر بے کراں تھی، اسے ایک جوئے کم آب تک محدود کر دیا گیا۔ عروج تھا، پاکستان کی نامور گلوکارہ تھیں۔ دفن ہوئیں توبنگلہ دیش کی فنکارہ تھیں۔ پہلے صحن ایک تھا۔ بہت بڑا صحن، پھر دیوار اٹھی، وہ دیوار کے اس طرف رہ گئیں، ہم اس طرف، مگر ہماری نسل کے لوگ کبھی نہ مان سکے کہ وہ صرف بنگلہ دیش کی تھیں، ہم تو آنکھیں بند کرتے، پرانے صحن کا سوچتے ہیں۔ اسی میں چلتے پھرتے ہیں، اسی میں کھیلتے ہیں۔
ان کی وفات پر جب بنگلہ دیشی میڈیا نے ان کا سوانحی خاکہ چھاپا یا نشر کیا ہو گا تو کیا ان دو معرکہ آرا گیتوں کا ذکر بھی اس میں مثال ہو گا جنہوں نے شہناز بیگم کو شہرت کی چوٹی پر پہنچایا تھا؟ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد … اور …جیوے جیوے پاکستان، امکان اس کا بہت کم ہے۔ غالباً پاکستان کا حوالہ ہی غائب ہو گیا ہوگا۔ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش کو ہر اس اثاثے سے نفرت ہے جو مشترکہ ہے۔ حیرت ہے کہ شہناز بیگم کے خلاف حسینہ واجد کی حکومت نے مقدمہ کیوں نہ دائر کیا؟ شاید کسی نے توجہ نہ دلائی وگرنہ پاکستان کے گیت گانے پر فرد جرم عاید کی جاسکتی تھی۔
شبنم ابھی حیات ہیں۔ تقریباً ایک برس پہلے پاکستان آئیں، لاہور میں یادوں کا ایک سمندر تھا جس میں وہ ڈوب کر
روئیں۔ پرانے ساتھیوں سے ملیں، پاکستانی ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں شرکت کی، جوان کی فلمیں دیکھ کر جوان اور پھر بوڑھے ہوئے تھے، ان کی آنکھیں شبنم کو ٹی وی سکرین پر دیکھ کر ٹھنڈی ہوئیں۔ حیرت ہے کہ حسینہ واجد نے ابھی تک شبنم کو اس جرم میں قید نہیں کیا کہ متحدہ پاکستان میں وہ اردو کی لاتعداد فلموں میں ہیروئن کیوں بنیں؟
شہناز بیگم نے ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ اور ’’جیوے جیوے پاکستان گائے‘‘ تو ان کی آواز ایک زرفشاں پرچم کی طرح افق تا افق لہرانے لگی۔ پھر یہ پرچم وقت پر چھا گیا۔ وقت اس آواز کے ساتھ ان گیتوں کے ہم آہنگ ہوا۔ یہ گیت امر ہیں۔ حسینہ واجد کا اقتدار عارضی ہے مگر یہ گیت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ شہناز بیگم کی آواز ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ہوگی۔ پاکستان کی ہر نئی نسل یہ گیت گائے گی۔ پاکستان ہمیشہ جیوے گا، سوہنی دھرتی کو اللہ قدم قدم آباد رکھے گا۔ شہناز بیگم ہماری ثقافتی تاریخ کا مستقل باب رہیں گی۔ ایک صفحے کے چند حروف تو کھرچے جا سکتے ہیں مگر پورا صفحہ، پورا باب کیسے ختم کیا جا سکتا ہے
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہمارا جغرافیائی اور سیاسی نقصان تو ہے ہی، جو ثقافتی خسارہ ہوا ہے، اس کا حساب کتاب یہاں کون کرتا؟ مشرقی پاکستان ایسا لینڈ سکیپ تھا جس کا ذکر اب کتابوں ہی میں پڑھا جایا کرے گا۔ کبھی یہ لینڈ سکیپ ہمارا اپنا تھا، ایک مربع انچ بھی ہریالی سے محروم نہ تھا۔ میلوں تک ساتھ چلتے بانس کے گھنے جنگل، ناریل، آم، املی، لیچی، کھجور، کیلے اور کٹھل کے درخت، ان درختوں کے بیچ میں تالاب، تالابوں کے اندر جاتی اینٹوں کی سیڑھیاں، تالاب کے گرد، درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے، صبح صبح اشنان کر کے واپس آتے دھوتی پوش ہندو۔ حد نگاہ تک دھان کے کھیت، انناس کے پودے، سلہٹ کے قرب و جوار میں چائے کے باغات ،حضرت شاہ جلال ؒ یمنی کا شہرہ آفاق مزار، رانگامتی اور کپتائی کی جھیلیں، کاکس بازار میں آباد خوبصورت قبائلی، بوری گنگا اور میگھنا کے بپھرتے دریا، ان کے سینوں پر چلتی فیریاں، کشتیوں میں پیدا ہونے والے، انہی میں زندگیاں گزار دینے والے مانجھی، فردوسی بیگم کے لمبی تان اڑاتے لوک گیت۔ اس لینڈ سکیپ کا کوئی ایک پہلو ہو تو ماتم کیا جائے، یہاں تو پوری دنیا تھی، ساری ہی چلی گئی ؎
عصا در دست ہوں اس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ ہاتھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا
شہناز بیگم اس مشترکہ لینڈ سکیپ کا حصہ تھیں اور یوں ہمارے قومی اثاثے کا جزو۔ ہم انہیں یاد رکھیں گے، اس لیے کہ تاریخ بدلی جا سکتی ہے نہ ختم کی جا سکتی ہے۔
پس تحریر۔ کل کے روزنامہ 92 نیوز میں جناب سجاد میر نے سود کے ضمن میں برمحل سوالات اٹھائے ہیں یہ کہہ کر کہ ’’معاملہ سود سے انکار کا نہیں، اس کی تعریف اور اس کے تعین کا ہے۔‘‘ انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے، یہ کالم نگار ان کی توجہ اور علماء معاشیات کی توجہ محمد اکرم خان کی معرکہ آراء تصنیف What is wrong with Islamic Economics کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے۔ دس سال کی تحقیق کے بعد لکھی گئی اس کتاب نے دنیا بھر کے ثقہ ماہرین معاشیات کو چونکا دیا ہے۔ ایڈورڈ ایلگر پبلشنگ برطانیہ سے شائع ہونے والی اس کتاب کے تراجم ترکی اور انڈونیشیا کی بھاشا میں ہو چکے ہیں عربی ترجمہ اس وقت مصر اور لبنان کی بک شاپس میں آ چکا ہے۔ یہ کتاب تحقیق کے بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق لکھی گئی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جس ملک میں مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا طالب علم بینک میں ’’مفتی‘‘ کے عہدے پر لگ جاتا ہے اور اسے اکنامکس کی عالمی تحقیق کے ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی، اس ملک میں اکرم خان کے نام سے کون آشنا ہوگا، کچھ عرصہ پہلے انڈونیشیا میں اور 2018ء میں ترکی میں ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے موضوع پر جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں اور جن میں عالم اسلام اور عالم مغرب کے نمایاں معیشت دان شریک ہوئے، ان دونوں کانفرنسوں میں کلیدی خطاب جناب اکرم خان کا تھا۔ سجاد میر صاحب نے درست کہا ہے کہ یہ مسائل اخباری کالموں میں جذبات برانگیختہ کر کے حل نہیں کئے جاسکتے، ان کے لیے خالص علمی اور تحقیقی رویہ بروئے کار لانا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment