کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں اس روئے زمین پر سب سے زیادہ حیرت انگیز انسان ہوں؟ سب سے زیادہ عجیب و غریب۔ میرا چیلنج ہے کہ مجھے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ میرا اگلا اقدام کیا ہوگا؟ میں کس طرف مڑوں گا؟ میری پالیسی کیا ہے؟ میرا مستقبل کا روڈ میپ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا میرے دشمن کون ہیں، میرے دوست کون ہیں؟
میں رات دن حرام کھاتا ہوں، تجارت میں، زراعت میں، دفتر میں، کارخانے میں، کم تولتا ہوں، کم ماپتا ہوں، خوراک کے نام پر زہر بیچتا ہوں، دوائوں کے نام پر موت فروخت کرتا ہوں، دفتر دیر سے جا کر، چھٹی سے پہلے چھٹی کر کے، سائلین کو اذیت پہنچا کر، اپنی تنخواہ کو حرام مال میں ڈھالتا ہوں، ٹیکس چراتا ہوں، ممبر ہوں تو اسمبلی میں نہیں جاتا۔ وزیر ہوں تو تنخواہ تیس دن کی لیتا ہوں، دفتر ہفتے میں ایک دن جاتا ہوں، اس مسلسل حرام خوری کے باوجود دنیا حیران ہے کہ بیرون ملک جائوں تو حلال گوشت کے لیے تلاش بسیار کرتا ہوں۔ نہ ملے تو تڑپتا ہوں، میرے اس دوغلے پن کا سبب کوئی سائنس دان، کوئی ماہر نفسیات آج تک نہ جان سکا۔
میرے پاس ملبوسات کے انبار ہیں۔ ڈنر سوٹ، ڈنر جیکٹس، سردیوں کے لیے بہترین کوٹ، ہیرس ٹویڈ، جوتے فرنگی، نکٹائیاں ریشمی، شام کی سیر کے لیے بہترین ٹریک سوٹ، گالف کھیلنے کے لیے خصوصی جوتے، چلتے ہوئے جن پر چمڑے کا پھول ناچتا ہے۔ مگر مسجد خدا کے حضور حاضر ہوتا ہوں تو کبھی دھوتی میں، کبھی گندے پاجامے میں کبھی سرکنڈوں سے بنی ہوئی سوراخوں والی ٹوپی میں جس کے اندر میل کی کئی تہیں اوپر نیچے جمی ہوئی ہیں۔
بچوں کے نکاح میں سادگی سے کرتا ہوں۔ وہ بھی مسجد میں، پھر یہ سادگی رنگ بدل لیتی ہے۔ مہندی، برات اور ولیمے میں فی کس کھانے کا خرچ پانچ چھ ہزار سے کم نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے گھر سے قالینیں اٹھوا دیں، کہیں ماربل لگوایا ہے اور کہیں خوبصورت ٹائلیں۔ تازہ ترین نظریہ یہ ہے کہ قالینیں ٹنوں کے حساب سے گرد اپنے اندر چھپا لیتی ہیں۔ جبکہ ماربل یا ٹائلوں کا فرش آپ اکثر و بیشتر دھو سکتے ہیں مگر خدا کے گھروں میں نام نہاد قالینی صفیں اسی طرح بچھی ہیں۔ گیلے پیروں کے ساتھ نمازی ان پر چلتے ہیں۔ مشکل سے خشک ہوتی ہیں۔ دھول سے اٹی ہیں۔ سجدہ کرتا ہوں تو سیلن کی، گرد کی بو دماغ تک جاتی ہے مگر مجھے یہ توفیق نہیں کہ اپنے گھر کی طرح خدا کے گھر سے بھی قالینی صفیں جو مجسم کثافت ہیں ہٹالوں۔
میں بڑے بڑے سپر سٹوروں میں جاتا ہوں۔ ٹرالیاں بھر کر سودا سلف خریدتا ہوں۔ بھائو تائو کرتا ہوں نہ تکرار۔ کائونٹر پر بیٹھا کیشیئر جو مانگتا ہے چوں تک کیے بغیر چپ چاپ فرماں برداری کے ساتھ ادا کر دیتا ہوں۔ پھر جب وہ رسید دیتا ہے تو منہ ٹیڑھا کر کے اسے تھینک یو کہتا ہوں مگر جب دو درجن کیلے یا ایک درجن مالٹے کسی ریڑھی والے سے خریدتا ہوں تو میری سوداگری کی رگ جاگ اٹھتی ہے۔ ریڑھی والے بوڑھے سے، دام کم کراتا ہوں اور فخر سے بیوی کو آ کر بتاتا ہوں کہ اتنے دام کم کرائے۔
حرمت رسولؐ پر میں کٹ مرتا ہوں لیکن حکم رسولؐ کی میں رات دن مخالفت کرتا ہوں۔ رسولؐ کا حکم تھا کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے۔‘‘ میں مسلمان عورت کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتا کہ اس نے کون سی نوکری کرنی ہے۔ رسولؐ کو بیٹیاں عزیز تھیں، مجھے ان میں نحوست نظر آتی ہے۔ بیٹی جنم دینے والی ماں کو ہسپتال کے بستر ہی پر طلاق دے دیتا ہوں اور اس مسلمان معاشرے میں کوئی میرا بال تک بیکا نہیں کرسکتا۔ رسولؐ کا فرمان تھا کہ آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ نماز میں اکٹھی پڑھتا ہوں یعنی ہفتہ وار یا تین سو ساٹھی یعنی عید کی یا کاٹھی، یعنی جس نماز کے ساتھ میت کی چارپائی ہو۔ رسولؐ کو عورتیں اور خوشبو عزیز تھیں۔ عورت کو میں ناقص العقل کہتا ہوں۔ ٹیڑھی پسلی کی پیداوار، خوشبو کا یہ حال ہے کہ میرے قریب سے گزریں تو بدبو کے بھبکے اٹھتے محسوس ہوتے ہیں۔ مسجد جائوں تو منہ سے پیاز اور لہسن کی بو آتی ہے اور سر کے بالوں سے کڑوے تیل کے بخارات اٹھ اٹھ کر نمازیوں کے نتھنوں میں گھستے ہیں۔ رسولؐ کا فرمان ہے کہ جو وعدہ نہیں پورا کرتا، اس کا ایمان ہی نہیں۔ میں عہد شکنی میں دنیا بھر میں اول آ رہا ہوں۔ کوئی شکوہ کرے تو داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ڈھٹائی سے فلسفہ بیان کرتا ہوں کہ ’’میں نے وعدہ نہیں کیا تھا، بس ایک بات کی تھی۔‘‘ رسولؐ نے بتا دیا تھا کہ ہندوئوں کے حقوق صرف اس صورت میں معاف ہوں گے جب متاثرہ بندہ خود معاف کرے گا مگر میں یہ
Disinformation
زور و شور سے پھیلا رہا ہوں کہ حج پر جائو گے تو سارے گناہ دھل جائیں گے۔ یعنی یتیموں کا مال کھائو، رشوت لو اور دو، ملاوٹ کرو، جھوٹ بول کر نفع زیادہ کمائو، نقص والا مال بیچو اور گاہک کو ہوا تک نہ لگنے دو، سائلوں کو دفتروں کے چکر لگوا لگوا کر ذلیل و خوار اور رسوا و ہلاک کرو۔ ماں باپ کی گستاخی کرو، ان کی خدمت کرو نہ ادب، قطع رحمی خوب خوب کرو اور دن رات کرو۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر آئو۔ یوں ہو جائو گے جیسے دودھ سے دھلے ہو۔
عجیب و غریب ہونے کی وجوہ اور بھی ہیں۔ میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے ہوں۔ گزشتہ پانچ سو برس کے دوران میں نے کچھ ایجاد نہیں کیا۔ ناخواندگی عروج پر ہے، تو ہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی میں اپنی مثال آپ ہوں۔ پھر بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ دنیا بھر میں میرا مقام بلند ترین ہے۔ پوری دنیا مجھ سے حسد کرتی ہے۔ اس روئے زمین پر رہنے والا ہر شخص میرے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ میں کسی صورت اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرتے ہوئے مجھے موت پڑتی ہے۔ مجھ میں کوئی عیب ہے نہ کمزوری۔ میں اپنے آپ کو اخلاقی برتری کے اس مقام پر متمکن سمجھتا ہوں جہاں پہنچنے کا کوئی تصور تک نہیں کرسکتا۔
میں ساری دنیا میں چیختا روتا بلکتا پھرتا ہوں کہ کشمیریوں کے ساتھ یہ ہوگیا، روہنگیا تباہ ہو گئے، فلسطینی دربدر ہو گئے، افغان برباد ہو گئے، جبکہ میرے بادشاہ کہیں جائیں تو چالیس چالیس کارٹن زاد سفر کے ساتھ لے جاتے ہیں۔ جہاز سے اترنے کے لیے برقی سیڑھی، خالص سونے سے بنی ہوئی ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ محلات کی کنجیاں ٹونٹیاں تالے، سونے کے ہیں۔ اڑتے جہازوں میں بنی ہوئی خواب گاہوں اور مہمان خانوں پر پرستان رشک کرتے ہیں۔ جکارتہ سے لے کر اسلام آباد اور کراچی تک کے اور کویت سے لے کررباط تک کے حکمرانوں اور امرا کی جائیدادیں اور بینک بیلنس مغربی ملکوں میں رکھے ہیں۔ ہے کوئی دنیا میں میرے جیسا؟ جون ایلیا نے میرے لیے ہی تو کہا تھا ؎
تو مرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوق کمال بھی نہیں! خوف زوال بھی نہیں
غارت روز و شب تو دیکھ وقت کا یہ غضب تو دیکھ
کل تو نڈھال بھی تھا میں، آج نڈھال بھی نہیں
پہلے ہمارے ذہن میں حسن کی اک مثال تھی
اب تو ہمارے ذہن میں کوئی مثال بھی نہیں
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
No comments:
Post a Comment