سب سے پہلے خوشی کی یہ خبر صدر ٹرمپ کو وزیراعظم مودی نے ہاٹ لائن پر سنائی۔
صدر ٹرمپ نے اسی وقت اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کو فون کیا۔ یاہو اس وقت اسرائیل کے مذہبی رہنمائوں کے ساتھ خفیہ میٹنگ کر رہا تھا۔ اسے باہر بلا کر بات کرائی گئی۔ یاہو اجلاس میں واپس گیا اور یہودی علماء کو ’’ایک اچھی خبر‘‘ کی مبارک باد دی۔ یہ الگ بات کہ اس نے احتیاطاً خبر کی تفصیل نہ بتائی۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں ایک آسٹریلوی نسل پرست نے جب پچاس مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا تو نسل پرستوں اور مسلمان دشمنوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ٹرمپ اور مودی نے اطمینان کا اظہار کیا۔ قاتل کے نظریاتی مرشد، فرانس کے رہنے والے ریناڈ کیمو کو مبارک بادیں دی گئیں۔ اسی کی کتاب ‘‘گریٹ ری پلیس منٹ‘‘ سے قاتل نے اپنے منشور کا عنوان لیا تھا۔
ٹرمپ، مودی، بنجمن نتن یاہو اور ریناڈ کیمو کا خیال تھا کہ نیوزی لینڈ کا قتل عام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ مسلمان خوف زدہ ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات دوسرے مغربی ملکوں میں بھی رونما ہوں گے۔ مقامی آبادیاں بے نیازی کا ثبوت دیں گی۔ رفتہ رفتہ مسلمان تارکین وطن بوریا بستر سر پر رکھے واپس جانا شروع کردیں گے۔ یوں
Great Replacement
کا عمل نہ صرف رک جائے گا بلکہ تارکین وطن سے جان ہی چھوٹ جائے گی۔
لیکن نیوزی لینڈ کے قتل عام کے بعد جو کچھ ہوا اس سے نسل پرستوں اور اسلام دشمنوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ نیوزی لینڈ کی سفید فام نصرانی وزیراعظم بازی الٹ دے گی اور نیوزی لینڈ کے سفید فام نصرانی عوام اپنی وزیراعظم کا ساتھ دیں گے۔
جو کچھ ہوا وہ توقع کے عین برعکس تھا۔ وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن نے غم کا اظہار اس طرح کیا جیسے اس کے قریبی رشتہ دار قتل ہوئے ہوں۔ اس نے سیاہ ماتمی لباس زیب تن کیا۔ سر پر سکارف باندھا اور ایک ایک مقتول کے پسماندگان کے گلے لگی۔ وہ روئی۔ اس نے ماتم کیا۔ اس نے مظلوم کے سر اپنے کندھوں سے لگائے۔ ان کے ہاتھ پکڑے۔ ان کے ماتھے سہلائے۔ مسیحی اکثریت رکھنے والے ایک ملک میں تاریخ نے پہلی بار دیکھا کہ مسلمانوں کے مولانا نے پارلیمنٹ میں تلاوت کی۔ غیرمسلم عورتوں نے سر ڈھانک لیے۔ پھر انتہا یہ ہوئی کہ نماز جمعہ کی اذان، سرکاری طور پر پورے ملک میں دی گئی۔ وزیراعظم نے السلام علیکم کہنا شروع کردیا اور پیغمبر اسلام کا نام لے کر ان کے ارشادات کو اپنی تقریر کا حصہ بنایا۔
قتل عام کا منصوبہ بے کار نکلا۔ ٹرمپ سے لے کر مودی تک اور بنجمن نتن یاہو سے لے کر فرانسیسی نسل پرست دانشور ریناڈ کیمو تک سب نے آہ و فغاں شروع کردی۔ جیسنڈرا کی دیکھا دیکھی آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی مسلمان دوست بیان دیا، جس سفید فام آسٹریلوی لڑکے نے سینٹ کے رکن کے سر پر انڈا مارا اور مار کھائی راتوں رات آسٹریلوی عوام کاہیرو بن گیا۔ اس کے لیے عطیات جمع ہونے لگے۔ اس نے اعلان کیا کہ عطیات کی رقم نیوزی لینڈ میں شہداء کے خاندان کو بھیجے گا۔
مگر بازی ایک بار پھر الٹ جانے کے آثار اچانک ظاہر ہوئے۔ ایک مسلمان نوجوان نے جذباتی ہو کر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو مسلمان ہو جانے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد اس امکان پر بہت زیادہ گفتگو ہونے لگی کہ جیسنڈراکیا عجب مسلمان ہو جائے۔
یہی وہ خوشی کی خبر تھی جو مودی نے ہاٹ لائن کے ذریعے ٹرمپ کو سنائی اور ٹرمپ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسرائیلی وزیراعظم کو ایک اجلاس سے اٹھا کربتائی۔ جیسنڈرا مسلمان ہو جائے تو نیوزی لینڈ کا قتل عام بار آور ثابت ہوگا۔ نسلی اور مذہبی عصبیت پھیلانے والے شادکام ہوں گے۔ اس آخری جنگ میں مسلمان کھیت رہیں گے۔
ٹرمپ، مودی اور بنجمن نتن یاہو مسلمانوں کے زوال کے اصل اسباب سے بخوبی واقف تھے۔ پچپن مسلمانوں کے حکمران ہی تو عالم اسلام کے ناگفتہ بہ حالات کا سب سے بڑا سبب تھے۔ ان حکمرانوں کا صدر اول کے خلفاء راشدین کے طرز زندگی سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ خلفاء راشدین کا عملی اتباع تو نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور دوسرے غیر مسلم ملکوں کے حکمران کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب حافظ سعید جیسے پکے اور کٹر مسلمان نے عدالت میں جا کرنالش کی کہ پاکستانی حکمرانوں کا طرز زندگی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے تو اس نے مثال برطانوی وزیراعظم کے سرکاری گھر کی دی او رعدالت میں بیان دیا کہ برطانوی وزیراعظم کا گھر اسلامی تعلیمات کے مطابق چھوٹا ہے اورتزک و احتشام سے عاری ہے۔
ان مسلمان حکمرانوں کا رویہ بیت المال سے وحشیانہ ہے اور عوام سے ظالمانہ۔ انہوں نے سرکاری وسائل کو اپنے اور اپنے خاندانوں کو امیر تر کرنے کے لیے بے تحاشا استعمال کیا۔ ملکوں کے اندر جب ان کی ہوس انتہا تک پہنچ گئی اور کناروں سے باہر گرنے لگی تو انہوں نے تجوریوں کا رخ دوسرے دیاروں کی طرف موڑ دیا۔ جائیدادیں لندن میں، پینٹ ہائوس اپارٹمنٹ نیویارک میں۔ تین تین سو سالہ قدیم محلات پیرس کے نواح میں، کارخانے جدہ، دبئی، ویت نام، کوریا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش میں۔ پھر انہوں نے اپنی اولاد کو ممالک غیر میں مقیم کیا یہاں تک کہ وہ فخر سے کہنے لگے کہ ہم پاکستان کے یا ایران کے یا فلاں ملک کے شہری نہیں، ہم تو برطانیہ کے ہیں یا امریکہ کے یا فرانس کے۔ انہوں نے یونان کے جزیروں میں اور ہسپانیہ کے ساحلی شہروں میں محلات خرید لیے۔ کروڑوں کے سمندری بحرے، ہوائی جہاز ایسے جن کے اندر زریں خواب گاہیں اور نقرئی نشست گاہیں لگی ہیں۔ گاڑیاں سونے کی یہاں تک کہ ٹونٹیاں کنڈے چابیاں اور نلکے بھی سونے کے لگوائے۔ پاکستان کے حکمران نے سرکاری خزانے سے اپنے محلات کے گرد چار دیواری بنانے پر اسی کروڑ خرچ کردیئے۔ سرکاری ایئرلائنز کے جہاز ذاتی ٹیکسیوں کی طرح استعمال کئے۔ شرق اوسط کے شہزادوں نے دو دن کے لیے سفر کرنا ہو تو بیس بیس کنٹینر سامان کے اور جہاز سے اترنے کے لیے زر خالص سے بنی سیڑھیاں ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔
اسلام دشمن نسل پرستوں کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے مسلمان دوست رویے سے جو دھچکا لگا تھا اس کا بہترین علاج یہی تھا کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ مسلمان حکمرانوں میں ایک اور حسنی مبارک، ایک اور بادشاہ، ایک اور نوازشریف، ایک اور زرداری، ایک اور عدی امین اور ایک اور شاہ برونائی کا اضافہ ہو جائے۔ پھرنیوزی لینڈ میں بھی نابالغ بچیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے - پھر نیوزی لینڈ کے تھر میں بھی بچے العطش العطش کرتے بلک بلک کر موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ پھر نیوزی لینڈ کی شاہراہوں پر بھی ٹرالیاں ٹرک اور ڈمپر انسانوں کو کچلنا شروع کریں اور یہ کچلے ہوئے انسان وقعت میں مکھی مچھر اور بلی کتے سے زیادہ بے بضاعت گردانے جائیں۔ پھر نیوزی لینڈ میں بھی اپنے درشن سے اندھوں کی بینائی لوٹانے والے پیر اور مسلح جلوس عدالتوں کی طرف روانہ کرنے والے گدی نشین جاگزیں ہو جائیں۔
ایک مثالی حکمران خاتون، ——-بے لوث اور دل سوز حکمران خاتون ——-اگر مسلمان ہو جائے اور پھر مسلمان حکمرانوں کی طرح قتل عام پرمنہ دوسری طرف کر لے تو ٹرمپ، مودی اور بنجمن نتن یاہو کو اور کیا چاہیے۔
نوٹ: اس کہانی میں سچائی کا عنصر اتنا ہی ہے جتنا مسلمان حکمرانوں کی زندگیوں میں اسلام کا۔
No comments:
Post a Comment