Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 30, 2021

صدارتی ایوارڈ ؟ مولانا کو ؟؟


مہنگائی اپنی جگہ‘ اپوزیشن اور حزبِ اقتدار کی باہمی کشمکش اپنی جگہ‘پی ڈی ایم کا انتشار اپنی جگہ‘ اصل مسئلہ جو اس وقت مملکت کو درپیش ہے یہ ہے کہ مولانا کو تمغۂ حسن کار کردگی دے دیا گیا ہے۔آدھی سے زیادہ قوم اس پر پریشان ہے۔ دلوں میں اضطراب پَل رہا ہے۔ جسموں کے اندر روحیں بے چین ہیں کہ یہ کیا نئی بات ہو گئی۔ ایک مولانا کو ‘ ایک صاحبِ دستار و ریش کو‘ جس کا لباس ٹخنوں سے اوپر ہے‘ اتنا بڑا ایوارڈ مل گیا ہے!! حد ہو گئی!! اس سے پہلے بھی مولانا بہت سوں کی دل آزاری کا سبب بنے ہیں۔ ایک فاؤنڈیشن بنا ڈالی تاکہ اس کی آمدنی سے مدارس چل سکیں اور چندہ نہ مانگیں۔ اس پر بھی بہت سوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ تو کیا مدرسے اب ہمارے چندوں کے بغیر چلیں گے ؟ چندہ دینے والوں کا سٹیٹس جیسے اس سے مجروح ہو نے کا خدشہ تھا۔ صرف یہی نہیں ‘ ایک دوبار مولانا کسی لینڈ کروز سے اترتے دکھائی دیے۔اس سے بھی بہت سے دل دُکھے۔ بہت طبیعتیں رنجیدہ ہوئیں۔ بہت پیشانیوں پر لکیریں پڑیں!
سچ پوچھئے تو یہ کالم نگار بھی ناخوش ہے! تو کیا اب اس ملک میں مولانا حضرات کی بھی عزت افزائی ہو گی؟ ارے ہم تو انگریز آقاؤں کے وارث ہیں! انہوں نے ہمیں جو کچھ سکھایا تو کیا ہم اسے بھول جائیں ؟ انگریز تو ہمیں یہ سبق پکّا پکّا یاد کرا کر گئے تھے کہ ہمارے علما‘ ہمارے خطیب‘ ہماری مسجدوں کے امام‘ ہمارے فقیہ‘ ہمارے مجتہد‘ معاشرے کے نچلے طبقوں میں سے ہیں۔ انگریز تو انہیں کوڑی کوڑی کا محتاج کر کے گئے تھے۔ روٹی کھائیں تو محلے والوںکارپوریشطع سے مانگ کر! تنخواہ لیں تو چندوں کی بنیاد پر! ہر لمحہ ہمارے محتاج ہوں! تو کیا ہم اپنے آقاؤں کا یہ سبق فراموش کر رہے ہیں ؟ کتنی محنت کی تھی ہمارے انگریز مالکوں نے! ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کے کتنے طریقے نکالے تھے انہوں نے ؟ ہمارے شعائر کو‘ ہماری قدروں کو‘ہماری ثقافتی علامتوں کو‘ ہمارے ہر لقب اورہر خطاب کو کس طرح گھسیٹ کر نیچے لائے تھے وہ! ہمارے عہدوں کے نام کس طرح اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالے تھے ہمارے آقاؤں نے! صوبیدار جو گورنر تھا‘ کیسے اسے ایک لفٹین کا ماتحت کیا! رسالدار اور جمعدار جو بڑے عہدے تھے ‘ کیسے ان کی بے حرمتی کی۔ خانِ سامان جو ٹیپو کی حکومت میں سپلائی اور اجناس (provisions) کا وزیر ہوتا تھا‘کیسے اسے خانساماں بنا کر باورچی کر ڈالا‘ خلیفہ کا لقب حجام کو دے ڈالا اور آفرین ہے ہم پر کہ ہم ابھی تک اپنی عزت کے ان نشانوں کی تذلیل کیے جا رہے ہیں۔انگریز نے جوشِ انتقام میں اندھا ہو کر اپنے ویٹروں‘ بٹلروں‘ کو چوانوں اور چوبداروں کو ہمارے بلند مرتبہ عمائدین کا لباس پہنا دیا۔ ہمارے اسلاف‘ ہمارے سکالر‘ ہمارے حکمران ‘ ہمارے اشراف ‘ سر پر پگڑیاں باندھتے تھے۔ شیروانیاں اور واسکٹیں زیب تن کرتے تھے‘ انگریزوں نے یہ لباس نوکروں کو پہنا کر اپنی اَنا کو گنّے کا رس پلایا۔ مگر آفرین ہے ہم پر! ہمارے ایوانِ صدر میں‘ ہمارے حکمرانوں کے دفاتر اور محلات میں ‘ آج تک ہم اپنی تذلیل کیے جا رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے ملازم پگڑی واسکٹ اور شیروانی پہن کر غیر ملکی اور ملکی مہمانوں کے لیے دروازے کھولتے ہیں‘ جھُک کر سلام کرتے ہیں۔چائے اورکھانا پیش کرتے ہیں۔اس سے الحمدللہ ٹیپو‘ سراج الدولہ‘ جنرل بخت خان‘ حافظ رحمت خان روہیلہ اور دوسرے لیڈروں کی روحیں خوب تڑپتی ہوں گی اور کلائیو‘ ڈلہوزی اور جنرل اوڈوائر کو سکون ملتا ہو گا۔
مگر انگریز کا سب سے بڑا ٹارگٹ '' مُلّا‘‘ تھا۔ مُلّاکا لفظ جو مسلمانوں کے ہاں عزت و وقار کی علامت تھا! مُلّا کا لفظ جو علم کی نشانی تھا! مُلّا کا لفظ جو بہت بڑا منصب تھا! مسلمانوں کے معاشرے میں ممتاز ترین علما‘ مدرّسین اور سکالرز کومُلّا کہا جاتا تھا۔ ایران‘ ترکی ‘ وسط ایشیا‘ ہندوستان ہر جگہ ایسا ہی تھا۔ مُلّا صدرہ شیرازی کا فلسفہ آج تک نصاب میں شامل ہے۔مُلّا تفتا زانی‘ مُلّا فیض کاشانی‘مُلّاعلی قاری‘ اور کئی دوسرے مشہور سْنّی اور شیعہ علما مُلّاا کہلاتے تھے۔ شاہجہان کے عہد میںمُلّاعبدالحکیم سیالکوٹی کی شہرت مشرقِ وسطیٰ تک پہنچی ہوئی تھی۔ دو بار بادشاہ نے انہیں چاندی میں تولا۔ آگرہ اور لاہور کی یونیورسٹیوں کے وہ وائس چانسلر رہے۔انگریز کو بہت اچھی طرح معلوم تھا کہ عسکری ‘ علمی اور ثقافتی مزاحمت کا سب سے بڑا منبع ''مُلّا‘‘ہے چنانچہ اس نے ایک پلاننگ کے تحت مُلّاکے لفظ کو تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنایا۔اس کی تضحیک اور توہین کی۔ دو سو سال تک مسلسل بر صغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی رہی کہ مُلّا تمہارا ملازم ہے اور سٹیٹس میں اس کا درجہ سب سے نیچے ہے۔ مدارس اور مساجد کے ساتھ مسلمان حکمرانوں نے جن جاگیر وں کا الحاق کیا ہوا تھا‘ وہ انگریز سرکار نے چھین لیں یہاں تک کہ مدرسے اور علما چندوں اور عطیات کے محتاج ہو گئے۔ آپ خود غور کیجیے آج محلے میں مسجد کمیٹی کے ارکان خطیب اور امام کو کیا سمجھتے ہیں اور کیا رویہ رکھتے ہیں!
توپھر تعجب ہی کیا ہے اگر آج ایک عالم ِدین کو صدارتی ایوارڈ ملا ہے اور ہم اس پر گردابِ حیرت میں غوطے کھا رہے ہیں! ہم میں سے کچھ کو تو اس سے بہت ذہنی اذیت ہوئی ہے۔ کچھ تو باقاعدہ دردِ قولنج میں مبتلا ہیں! ہم تو اداکاروں‘ کھلاڑیوں‘ موسیقاروں اور صداکاروں ہی کو ان اعزازات کا مستحق سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہیرو تو وہ جینئس ہیں جو کبھی موٹر سائیکل '' جیتنے‘‘ کے لیے اچھے بھلے شریف لوگوں کو اپنے چہروں پر کیک کی کریم تھوپنے کا حکم دیتے ہیں اور کبھی ایک ریفریجریٹر کے لیے کسی بھی مرد یا خاتون کو مسخرہ بننے پر آمادہ کر تے ہیں۔ ہم تو گویّوں کو ایوارڈ دیتے یا دلوا تے وقت یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس نے گیت نئے گائے ہیں یا پہلے سے گائے ہوئے نغموں کی دیدہ دلیری سے جگالی کی ہے۔لیکن ایک عالم ِدین‘ ایک مقرر‘ ایک مبلّغ اور فرقہ واریت کے خلاف جدو جہد کرنے والے ایک سماجی رہنما کو ایوارڈ ملے تو پوچھتے ہیں کہ کیوں ملا ہے ؟ پھر فتویٰ دے دیتے ہیں کہ مولانا کو ایوارڈ وصول ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بجا! بالکل درست! مولانا کو کیا‘ کسی بھی عالمِ دین کو کوئی ایوارڈ نہیں ملنا چاہیے! کسی باعزت سواری پر بیٹھنے کا انہیں کوئی حق نہیں!ان حضرات کو تو لباس بھی پرانا اور میلا پہننا چاہیے۔انہیں کسی قسم کی فاؤنڈیشن بنانے کا‘ بزنس کرنے کا ‘ عطیات سے بے نیاز ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ان مراعات پر‘ اس معیار ِزندگی پر ‘ ان قال اللہ اور قال الرسولؐ پڑھنے اور پڑھانے والوں کا کیا حق؟ ان پر تو ہارورڈ اور برکلے پلٹ‘ مسٹر حضرات کا حق ہے جنہوں نے ریشمی نکٹائیاں لگا کر‘ ایک ایک فُٹ لمبے سگار پیتے ہوئے‘ مغربی علم اقتصاد کا آنکھیں بند کرکے اس ملک پر اطلاق کیا اور اسے اس حال تک پہنچا یا کہ آج یہ صومالیہ کے برابر کھڑا ہے! جو ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر ‘ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے‘ خوراک کی پالیسیاں وضع کرتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔ جو مولوی پر حلوہ کھانے کا الزام عائد کرتے ہیں اور خود‘ چھری کانٹا استعمال کرتے ہوئے ‘ سینڈوچ اور پیسٹری کے ساتھ ‘ آدھا ملک بھی کھا جاتے ہیں! بقول ظفر اقبال ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت خاک اُڑا اور بہت

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, March 29, 2021

ہر سو سال بعد… (آخری حصہ



''سات اکتوبر کی شام چند مرکزی وزیر قصر صدارت میں جمع تھے اور وہسکی کے ساتھ شغل فرما رہے تھے۔ صدر سکندر مرزا ان کا ساتھ بھی دے رہے تھے اور بار بار گھڑی کی جانب بھی دیکھ رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ تھوڑی دیر میں فوجی دستے اپنے اپنے مقام سنبھالنے کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔ خدا خدا کر کے مہمان آٹھ بجے کے قریب رخصت ہوئے۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب فوجی دستوں کا مارچ شروع ہوا اور ایک گھنٹے کے اندر انہوں نے اپنے اپنے مقررہ مقام سنبھال لیے۔ بارہ بجے شب سے تھوڑی دیر بعد صدر سکندر مرزا کی جانب سے آئین کی منسوخی‘ مارشل لا کے نفاذ اور مارشل لا کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل ایوب خان کے تقرر کا اعلان ہو گیا اور وزارتیں اور اسمبلیاں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں‘‘ ( کتاب: مارشل لا سے مارشل تک‘ مرتبہ: سید نور احمد)
میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں غداری کی اور بر صغیر پر انگریزوں کو مسلط کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی کی ذریت سے یہ سکندر مرزا تھا جس نے 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے سو سال بعد 1956-57-58 میں اس ملک کو ایک نئے عذاب سے دوچار کیا اور جمہوریت کے عدم استحکام اور پہلے مارشل لا کے نفاذ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ میر جعفر کو بنگال کا حکمران بننے کا لالچ تھا۔ اسی لالچ میں اس نے ہندوستان پلیٹ میں رکھ کر انگریزوں کو پیش کر دیا۔ یہ لالچ اس خاندان کے اندر سے کبھی نہ نکلا۔
سکندر مرزا 1899 میں بنگال میں پیدا ہوا۔ خاندان استعماری حکومت کا پسندیدہ تھا اور مراعات یافتہ! انگریز اپنے محسنوں کا خوب خیال رکھتے تھے۔ اپنے وفادار خانوادوں کی اولاد کے لیے انہوں نے مخصوص تعلیمی ادارے بنائے تھے‘ جیسے میو کالج اجمیراور راج کوٹ کالج کاٹھیاواڑ ۔ بر صغیر کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے ہی ادارے بنائے گئے۔ کچھ میں تو ہوسٹل کے بجائے نوابوں اور مہاراجوں کے صاحب زادوں کے لیے کوٹھیاں بنائی گئیں جہاں ان کے خدام‘ گھوڑے اور ہاتھی بھی رہ سکتے تھے۔ لاہور کے ایچی سن کالج کا اصل نام چیفس کالج تھا یعنی پنجاب کے حکمران خانوادوں کے لیے! ان اداروں کا مقصد عوام کی فلاح تھی نہ تعلیم کا پھیلاؤ۔ مقصد تھا اپنے وفادار خاندانوں کی دیکھ بھال اور ان کی ذریت کو خوئے غلامی میں پختہ تر کرنا! سکندر مرزا نے بھی بمبئی کے ایک ایسے ہی کالج میں تعلیم پائی۔ پھر اسے انڈین برطانوی فوج میں کمیشن دیا گیا۔ (آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کمیشن میرٹ پر دیا گیا تھا؟) سکندر مرزا اپنے آقاؤں کی گُڈ بُکس میں رہنے کی بدولت ترقی کے مدارج طے کرتا رہا یہاں تک کہ وزارت دفاع دہلی میں جوائنٹ سیکرٹری تعینات ہو گیا۔
ہندوستان تقسیم ہوا تو مرزا پاکستان کے حصے میں آیا۔ اسے وزارت دفاع کا سیکرٹری لگایا گیا جہاں اس نے پاکستانی فوج میں اپنی پی آر کا ڈول ڈالا۔ بیوروکریسی کے گھنے جنگل میں یہ شاطر راستہ بناتا‘ 1954 میں مشرقی پاکستان کا گورنر لگ گیا۔ جاتے ہی مولانا بھاشانی کو گولی مارنے کی دھمکی دی۔ صوبائی اسمبلی برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا۔ سیاسی ورکروں اور سیاست دانوں کر گرفتار کرانا شروع کر دیا یہاں تک کہ گرفتار شدگان کی تعداد ایک ہزار سے بھی بڑھ گئی‘ جن میں شیخ مجیب‘ اسمبلی کے ارکان اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر بھی شامل تھے۔ میر جعفر کے اس سپوت نے نفرت کے بیج بونے کی وہاں پوری پوری کوشش کی۔ پھر واپس بلا لیا گیا۔ اس ملک کی بد بختی دیکھیے کہ وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور پھر پاکستان کا صدر! آئین کی رُو سے صدر صرف رسمی (ceremonial) سربراہِ ریاست تھا اور ایگزیکٹو طاقت وزیر اعظم کے پاس تھی‘ مگر مرزا نے حکومت میں مداخلت شروع کر دی اور ریشہ دوانیاں‘ سازشیں اور غیر آئینی اقدامات! ناکام جنگ آزادی کے پورے سو سال بعد 1957 میں صدر سکندر مرزا نے وزیر اعظم سہروردی کو اتنا زچ کیا اور آئے دن کی مداخلت سے کارِ سرکار میں اس قدر رخنے ڈالے کہ سہروردی نے اکتوبر میں استعفا دے دیا۔
اب وزارت عظمیٰ کا ہما آئی آئی چندریگر کے سر پر بیٹھا‘ مگر صدر مرزا نے دو ماہ کے بعد ان سے بھی استعفا لے لیا۔ پھر فیروز خان نون وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے گوادر کو سلطنت عمان سے خریدا اور پاکستان میں شامل کیا۔ سکندر مرزا پارلیمانی جمہوریت کی قدروں سے عاری تھا‘ جب ایک اور ٹرم صدارت کی نا ممکن نظر آئی تو آئین منسوخ کر کے اسمبلیاں برطرف کر دیں اور مارشل لگا کر جنرل ایوب خان کو اپنے ساتھ شریک اقتدار کر لیا۔ مرزا کا یہ اقدام سو فی صد ذاتی غرض کے لیے تھا کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی گروپوں میں مکمل ہم آہنگی تھی اور وہ سکندر مرزا کی صدارت جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔ ایوب خان نے مرزا کے ساتھ کیا سلوک کیا اور مرزا کا انجام کیا ہوا‘ یہ اس کالم کے سکوپ سے باہر ہے۔
سکندر مرزا نے پہلا مارشل لا لگا کر اس ملک کو جو زخم دیا وہ آج تک رِس رہا ہے۔ اس مکروہ اور ظالمانہ اقدام نے پاکستان کو قوموں کی قطار میں سب سے پیچھے لا کھڑا کیا۔ عسکری حوالے سے اس نے ایک ایسی روایت قائم کی جس نے آگے چل کر ملک کے لیے بہت مسائل پیدا کیے۔ اس کے بعد ہماری تاریخ نے کم از کم تین مزید مارشل لا دیکھے۔ جن میں سے دو ایک ایک دہائی تک جاری رہے۔ ایوب خان کے دور اقتدار کے اقدامات کا سب سے بڑا اور سب سے بُرا نتیجہ جو ہم نے بھگتا وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔
یہ کالم نگار جب ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اس وقت ایوب خان کی ڈکٹیٹرشپ کو پورا عشرہ گزر چکا تھا۔ بنگالی دوستوں کے اس سوال کا کوئی جواب ممکن نہ تھا کہ اگر دس دس سال تک ایک آمر حکومت کرے گا تو کسی مشرقی پاکستانی کی باری کب آئے گی جب کہ کوئی بنگالی اس رینک تک پہنچ بھی نہیں رہا تھا؟ ایوب خان نے عبدالمنعم جیسے اوسط سے کم ذہانت والے خوشامدی کو وہاں کا گورنر بنایا تاکہ وہ 'جی ہاں جی ہاں‘ کہتا رہے۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا۔ الیکشن میں وہ ایوب خان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان اور کراچی میں جیت گئی تھیں۔ اس کی پاداش میں کراچی میں لسانی فسادات کا آغاز کیا گیا۔ یہ بیج تھا جو بویا گیا اور پھر جب یہ درخت بنا تو اس کا کڑوا پھل پورے ملک کو کھانا پڑا۔
جمہوریت اور جدید نظام حکومت کے حوالے سے ہم بدستور قطار میں سب سے پیچھے ہیں اور معاشی طور پر عالمی اداروں کی بد ترین غلامی میں گرفتار! ہم آج بھی پلاسی کے‘ ناکام جنگ آزادی کے اور سکندر مرزا کے مسلط کردہ پہلے مارشل لا کے نتائج بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔کون جانے 2057 میں کیا ہو گا؟ ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت نہیں ہوں گے۔ کیا عجب اس بار کوئی مصیبت نہ ٹوٹے!
ہمارے دور میں ڈالیں خرد نے الجھنیں لاکھوں
جنوں کی مشکلیں جب ہوں گی آساں‘ ہم نہیں ہوں گے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, March 25, 2021

ہر سو سال بعد …(2



1657ء میں مغلوں کی ہولناک جنگِ تخت نشینی شروع ہوئی۔دو سال تک یہ خونریزی جاری رہی جس نے ہندوستان کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔ ٹھیک ایک سو سال بعدایک اور افتاد آ پڑی۔لارڈ کلائیو اور سراج الدولہ کے مابین لڑائی ہوئی جسے ہم سب جنگِ پلاسی کے نام سے جانتے ہیں۔میر جعفر نے غداری کی۔اس کا نام آج بھی ایک گالی ہے۔ اقبال کا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے ؎
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملّت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن
میر جعفر اور اس کے جانشینوں کا جو حشر ہوا تاریخ کے صفحوں پر موجود ہے۔اس لڑائی کی تفصیلات میں جائے بغیر ہم اس کے خوفناک نتائج کا ذکر کریں گے۔پلاسی نے لوٹ مار کا ایک دروازہ کھولا جس میں پہلے بنگال کو اور پھر پورے برصغیر کو انگریزوں نے بھنبھوڑ ڈالا اور ہڈیاں تک چبا گئے۔اگلے آٹھ سالوں میں میر جعفر اور اس کی جانشین کٹھ پتلیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ( اُس وقت کے ) پچیس لاکھ پاؤنڈ دیے۔ کلائیو کی ذاتی دولت آج کے حساب سے اربوں تک پہنچ گئی مگر بد ترین نتیجہ پلاسی کی جنگ کا یہ نکلا کہ ایک تجارتی کمپنی عسکری اور سیاسی طاقت میں تبدیل ہو گئی۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے باقاعدہ حکمرانوں میں شامل ہو گئی۔ مستقبل کی اکھاڑ پچھاڑ میں اس نے کبھی ایک مقامی حکمران کا ساتھ دیا کبھی دوسرے کا۔ پلاسی کی فتح کے بعد انگریز جان گئے کہ اگر وہ ایک منظم فوج رکھیں تو ہندوستان کو براہ راست تسخیر کر لیں گے یا کٹھ پتلیوں کے ذریعے بالواسطہ حکومت کر سکیں گے۔ پلاسی کے بعد یہ معمول بن گیا کہ جو مقامی حکمران کمزور پڑتا وہ اپنے مقامی حریف کو زیر کرنے کے لیے کمپنی کی مدد مانگتا اور آخر کار خود بھی کمپنی کے جبڑوں میں آجاتا۔پلاسی کے بعد پورے ہندوستان کو معلوم ہو گیا کہ مغل بادشاہ اور دیگر نواب اور راجے کمپنی کی منظم فوج اور سازشوں کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے؛ چنانچہ سپاہی‘سول سرونٹ‘ بینک کار‘ آرٹسٹ‘ تاجر‘ معمار اور دیگر شعبوں کے ماہرین ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک طاقتور آجر کے طور پر دیکھنے لگے۔ ایک فقرے میں بات کہنی ہو تو یوں سمجھیے کہ پلاسی کے بعد انگریزوں کی خود اعتمادی میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا اور مقامی حکمران شکست خوردہ ذہنیت کا شکار ہو گئے۔
پلاسی کے بیالیس سال بعد کمپنی نے سلطان ٹیپو کو شکست دی۔ چار سال مزید گزرے تو کمپنی کا نمائندہ دہلی میں آموجود ہوا اور مغل بادشاہ شاہِ شطرنج میں تبدیل ہو گیا۔ رنجیت سنگھ پنجاب میں آخری رکاوٹ تھا۔1849ء میں پنجاب استعمار کے سامنے دم توڑ گیا۔اب ٹھہراؤ آچلا تھا۔کمپنی ایک نظام کے تحت حکمرانی کر رہی تھی مگرجیسے ہی جنگِ پلاسی کو سوسال ہوئے تو روایت کے مطابق ایک نیا عذاب آ گیا۔
185ء میں میرٹھ میں چنگاری بھڑکی اور چند سپاہیوں کی بغاوت سے جو معاملہ شروع ہوا وہ پورے شمالی اور وسطی ہند میں آگ بن کر پھیل گیا۔ حکمرانوں کی نظر میں یہ بغاوت تھی اور محکوم اسے جنگِ آزادی سمجھ کر لڑ رہے تھے‘ مگر انگریز ایک سنٹرل کمانڈ کے نیچے منظم تھے جبکہ ہندوستانی مجاہدین کئی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ کوئی ترتیب تھی نہ تنظیم۔ مغل بادشاہ کمزور تھا اور ہمت اور جذبے سے محروم۔ انگریز جیت گئے۔ اس کے بعد جو کچھ اہلِ ہندوستان کے ساتھ ہوااور جس طرح انتقام لیا گیا اس کی مثال شاید ہی ملے۔ مسلمان خاص طور پر نشانہ بنے۔ ہر درخت صلیب بن گیا۔ گھروں‘ حویلیوں‘ محلات بلکہ پورے پورے محلوں کو کھود کر ان پر ہل چلادیا گیا۔ کچھ کو توپوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اڑایا گیا‘ بہت سے گولیوں کی نذر ہوئے۔ ہزاروں کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔ اُمرا‘ شرفا اور عمائدین راتوں رات قلاش ہوگئے‘ جنہوں نے غداریاں کیں وہ نوازے گئے۔ انہیں جاگیریں دی گئیں‘مناصب عطا ہوئے۔ انکی موجودہ نسلیں آج بھی پاکستان کے طاقتور طبقات میں شمار ہوتی‘ اور ہر حکومت میں جگہ پاتی ہیں!
ناکام جنگ ِآزادی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر پڑا۔ اس کی دو وجوہ تھیں‘ ایک تو حکومت ان سے چھینی گئی تھی۔ یہ دشمنی کا ایک بڑا اور منطقی سبب تھا۔غاصب قوت کی ہر ممکن پلاننگ اور کوشش تھی کہ کسی طور بھی مسلمان منظم ہو پائیں نہ انگریزی تعلیم حاصل کریں نہ کسی اور شعبے میں آگے بڑھیں۔ اب وہ صرف نفرت اور حقارت کے مستحق سمجھے گئے۔ قدرتی طور پر‘ ان کے مقابلے میں ہندو ؤں کو ترجیح دی گئی۔ انہیں سہولیات زیادہ دی گئیں‘ ملازمتوں میں انہیں اولیت دی جاتی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ'' غدر‘‘ کا زیادہ الزام مسلمانوں پر لگا؛ چنانچہ انتقام کا نشانہ زیادہ انہی کو بنایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی نسلوں کو بھی یہ انتقام بھگتنا پڑا۔ حالی ''حیات ِجاوید ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ناکام جنگ ِآزادی کے بیس برس بعد حالت یہ تھی کہ پورے برصغیر میں ہندو گریجو ایٹ سات آٹھ سو تھے اور مسلمان گریجوایٹس کی تعداد مشکل سے بیس تھی۔
1857 ء کی اس مصیبت کا ایک منفی اثر مسلمانوں پر یہ ہوا کہ ان میں مایوسی اور دل شکستگی بڑھ گئی۔ وہ دروں بینی کا شکار ہو کر introvertہو گئے۔ منفی رد عمل ان پر حاوی ہو گیا۔وہ اپنی مسجدوں‘ مدرسوں اور خانقاہوں کے اندر بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان کے ذ ہنوں سے یہ بات نکل نہیں رہی تھی کہ وہ آٹھ سو سال تک یہاں کے حکمران رہے تھے۔ انہوں نے انگریزی زبان نہ سیکھنے کا تہیہ کر لیا۔ تاریخی اعتبار سے بھی مسلمانوں نے کبھی کسی غیر زبان کو نہیں سیکھا تھا۔ ہسپانیہ تھا یا شمالی افریقہ یا ہندوستان‘ وہ ہر جگہ اپنی زبان ساتھ لے کر گئے تھے۔ اب وہ کیوں انگریزی سیکھتے؟ دوسری طرف ہندو ‘مسلمان حکومتوں کی ملازمت میں رہ کر فارسی اور عربی سیکھتے رہے تھے اور بیرونی زبانیں سیکھنے کی انہیں پریکٹس اورمہارت حاصل تھی۔ ایک مثال سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے رویوں کا فرق جانچا جا سکتا ہے‘ کلکتہ میں جب انگریز حکومت نے سنسکرت کالج قائم کیا تو ہندوؤں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں سنسکرت کی نہیں انگریزی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس جب انگریزی تعلیم متعارف کرائی گئی تو کلکتہ کے مسلمانوں نے احتجاجی عرضی دی کہ حکومت کا ارادہ ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کا ہے۔بظاہر ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔ یہ سرسید احمد خان تھے جنہوں نے اس صورت حال کو بھانپا اور پھر تن من دھن سے اسے تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہو گئے۔ سائنٹفک سوسائٹی تشکیل دی۔ اخبار نکالا۔ رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ پھر محمدن سول سروس فنڈ قائم کیا کہ جو لائق مسلمان مالی استطاعت نہیں رکھتے‘ لندن جا کر مقابلے کا امتحان دے سکیں جو اُس وقت صرف لندن میں دیا جا سکتا تھا۔ پھر گھر بار بیچ کر برطانیہ کا سفر کیا‘ انگریزوں کی معاشرت‘ اقتصاد اور تعلیم کا مطالعہ کیا۔ ولیم میور کی گستاخانہ کتاب کا جواب لکھ کر شانِ رسالت کا دفاع کیا اور سب سے بڑا کام یہ کیا کہ علیگڑھ کالج قائم کیا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی بنی۔اس کالج کے قیام کے لیے انہیں کیا کیا جتن کرنے پڑے‘ یہ ایک الگ داستان ہے!
آپ نے دیکھا کہ 1657ء میں ایک مصیبت ٹوٹی۔ اس کے سوسال بعد جنگ پلاسی کی قیامت برپا ہوئی۔ مزید ایک سو سال گزرے تو1857ء میں ایک اور تباہی آئی۔ اگلی نشست میں دیکھیں گے کہ اس کے ایک سو سال بعد کیا ہوا؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, March 23, 2021

ہر سَو سال بعد



بادل قسم قسم کی شکلیں بناتے ہیں۔کبھی ہاتھی تو کبھی عفریت بن کر چلنے لگتے ہیں۔ کبھی یوں لگتا ہے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ کبھی کشتیوں کی طرح تیرتے ہیں۔ کبھی پہاڑ بن جاتے ہیں۔ تاریخ بھی بادلوں کی مثال ہے۔ کئی شکلیں بناتی ہے۔ کئی پیٹرن بُنتی ہے۔ کئی سانچے ڈھالتی ہے۔ پھر ان سانچوں میں مستقبل کو فِٹ کرتی ہے۔
ہماری تاریخ نے ایک المناک شکل اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ ہر سَو سال کے بعد بر صغیر کے باشندوں پر بالعموم اور مسلمانوں پر بالخصوص کوئی نہ کوئی بھاری افتاد پڑتی ہے اور ایسا گزشتہ چار سو سال سے ہو رہا ہے۔ جب بھی صدی ستاون سال گزار چکتی ہے‘ تو ایک نہ ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 1657 ء کو دیکھ لیجیے۔ شاہ جہان کا دور نسبتاً استحکام کا دور تھا۔ اچھے بھلے پُر امن دن گزر رہے تھے۔1657ء ہی میں اس کے اقتدار کا تیس سالہ جشن منایا گیا مگر مغلوں کی جھروکہ درشن والی رسم اسے لے بیٹھی۔بادشاہ کے لیے ہر صبح جھروکے میں بیٹھ کر عوام کو اپنا دیدار کرانا لازم تھا۔جہانگیر کی راتیں جن مشاغل میں گزرتی تھیں‘ ان کے پیش نظر اس کے لیے صبح سویرے یہ ڈیوٹی بجا لانا آسان نہ تھا پھر بھی اسے درشن دینا پڑتا تھا۔ یہ ایک طرح کی یقین دہانی تھی جس کا مطلب تھا کہ بادشاہ زندہ و سلامت ہے اور ملک کا نظام اس کے کنٹرول میں ہے۔ بد قسمتی سے ستمبر میں شاہجہاں شدید بیمار پڑ گیا۔ ٹانگیں سوج گئیں۔ بخار شدت اختیار کر گیا۔ ایک ہفتہ کچھ بھی نہ کھا سکا۔ جھروکے میں بیٹھنا ممکن نہ رہا۔ بیماری کو چھپایا گیا؛ تاہم افواہ پھیل گئی کہ بادشاہ مر چکا۔ کچھ نے کہا دارا نے زہر دے دیا۔ سراسیمگی پھیل گئی۔ فسادات کے ڈر سے دارالحکومت میں بازار بند ہو گئے۔ پھر یہ افواہ‘ صوبوں تک پھیل گئی۔ سلطنت کی بنیاد لرزنے لگ گئی۔کسانوں نے لگان دینا بند کر دیا۔ زمیندار افسروں سے جھگڑنے لگے۔ شرپسند عناصر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کچھ ہفتوں بعد شاہجہان کی طبیعت سنبھلی تو وہ جھروکے میں ظاہر ہوا۔ عوام محل کی دیواروں کے نیچے جمع تھے مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نئی افواہ یہ پھیلی کہ کسی اور کو شاہجہان کے حلیے میں بٹھایا گیا ہے۔
شاہجہاںکے چار بیٹے تھے۔اس نے چاروں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رکھا ہوا تھا تا کہ مناقشت کا امکان ہی نہ رہے۔ دارا سب سے بڑا اور باپ کے دل کے قریب تھا۔ گورنری اس کے پاس ملتان اور کابل کی تھی مگر رہتا دارالحکومت میں تھا۔اس کے مراتب بلند تھے۔ دربار میں بیٹھنے کی اجازت صرف اسے ہی تھی۔ ہر کسی کو معلوم تھا کہ جانشینی اسی کو ملے گی۔ اس سے چھوٹا شجاع تھا‘ بنگال کا حاکم۔ تیسرے نمبر پر اورنگزیب تھا۔ دکن کا گورنر! سب بھائیوں میں زیادہ ذہین اور گہرا۔ مذہبی رجحان غالب تھا۔ فنِ سپہ گری میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ جنگی چالیں اس پر ختم تھیں۔ بلخ کی مہم میں جب مراد ناکام ہوا تو یہ اورنگزیب ہی تھا جو مغل افواج کو دانائی سے بچا کر واپس نکال لایا تھا۔ شاہجہان کو بھی نہاں خانۂ دل میں معلوم تھا کہ اورنگ زیب کے مقابلے میں کوئی بھائی نہیں ٹھہر سکے گا۔ سب سے چھوٹا مراد تھا۔ بہادر ‘ جری مگر شراب و شباب کا رسیا۔ وہ گجرات کا گورنر تھا۔ بادشاہ کی بیماری اور پھر موت کی خبر پھیلی تو چاروں بھائیوں نے تلواریں اٹھا لیں۔ سب کو معلوم تھا کہ بادشاہ جو بھی بنا‘ باقی تین زندہ نہیں رہیں گے۔ گویا قبریں تین تھیں اور اشخاص چار؛ چنانچہ چاروں نے ''یا تخت یا تابوت ‘‘ کا نعرہ لگایا اور تخت نشینی کی جنگ میں کود پڑے۔ تخت نشینی کی بدترین جنگ! جس کی کوئی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں موجود نہیں۔ یہ ہولناک جنگ تقریباً دو سال جاری رہی۔ نصف درجن کے قریب ہولناک لڑائیاں لڑی گئیں۔ ہزاروں افراد مارے گئے۔چھ ہزار تو دریائے نربدہ کے کنارے قتل ہوئے۔ سامو گڑھ کی فیصلہ کن لڑائی میں صرف دارا ہی کے دس ہزار لشکری کام آئے۔ راجپوتوں نے وہ وفاداری دکھائی کہ زمین ان کے خون سے سرخ ہو گئی۔ پوری مغل ایمپائر لہو میں نہا گئی۔اورنگ زیب نے تینوں بھائیوں ( اور بھتیجوں کو بھی ) راستے سے ہٹا دیا۔ باپ کو سات سال قلعے میں نظر بند رکھا۔ انچاس برس حکومت کی اور 1707 ء میں اٹھاسی سال کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہؤا۔
مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ! اورنگ زیب کی فتح کے اثرات ابھی تک چل رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں ‘ خاص طور پر ‘ بھارت میں اس موضوع پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ اور نگ زیب مجموعۂ اضداد تھا۔ سخت پرہیز گار ! مگر اقتدار حاصل کرنے اور پھر بچانے کی خاطر کسی کی بھی جان لینا اس کے لیے روٹین کا کام تھا۔ اس کا عہد آج تک متنازعہ چلا آرہا ہے۔ مسلمان اسے ولی اور ہندو دشمن قرار دیتے ہیں۔ یہ اور بات کہ خود ہندو مورخ لکھتے ہیں کہ ہندو دشمنی کا الزام اس پر غلط ہے۔ حال ہی میں امریکی مصنفہ Audrey Truschke نے اس کے دفاع میں کتاب تصنیف کی ہے جس پر بھارت میں کافی لے دے ہو رہی ہے۔اس کالم نگار کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہندؤوں کے ساتھ اورنگ زیب نے کوئی دشمنی نہیں برتی۔ ہاں سیاسی اقدامات کو مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کا نصف صدی دورِ حکومت سب سے زیادہ خود مغل سلطنت کے لیے اور اس کے بعد مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اول، اس نے آخری پچیس برس جنوبی ہند میں گزار دیے جبکہ سلطنت کی بنیادیں شمال میں تھیں۔ بنگال‘ بہار‘ پنجاب‘ شمالی ہند‘ کابل‘ موجودہ پاکستان کے علاقے‘ کشمیر‘ سب ''پراکسی ‘‘کے زور پر چلائے جاتے رہے۔ گورنر خود مختار ہو گئے۔ بیوروکریسی منہ زور ہو گئی۔ بادشاہ عوام سے عملی طور پر لا تعلق ہو گیا۔ سلطنت بظاہر عروج پر پہنچ گئی مگر اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور اورنگ زیب کی وفات کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ایک کام جو اورنگ زیب نے کیا وہ سراسر تباہ کُن تھا۔ اس نے جنوبی ہند کی تین طاقتور مسلمان ریاستوں( احمد نگر‘ بیجاپور‘ گولکنڈہ ) کو ختم کر کے سلطنت تو وسیع کر لی مگر ان ریاستوں کے انہدام سے مرہٹے ایک خطرناک جِن کی صورت میں بوتل سے باہر آگئے۔ یہ کہنا کہ یہ ریاستیں شیعہ تھیں اس لیے اورنگ زیب نے انہیں ختم کیا‘ درست نہیں اس لیے کہ اورنگ زیب جس طرح سلطنت کی وسعت پر کمر بستہ تھا ‘ اگر یہ ریاستیں سْنّی ہوتیں تب بھی اس نے انہیں چھوڑنا نہیں تھا۔ ان ریاستوں نے مرہٹوں کو قابو میں رکھا ہوا تھا۔ ملازمتیں بھی دی ہوئی تھیں اور زیر بھی کر رکھا تھا۔اب یہ ایک فورس بن گئے۔ مرہٹوں نے اورنگ زیب کو آخری عمر میں ناکوں چنے چبوا دیے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب دہلی کا مغل حکمران مرہٹوں کے رحم و کرم پر تھا۔ ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اگر بادشاہت دارا کو ملتی تو وہ اکبر کی پالیسیوں کو از سرِ نو جاری کر کے ایک مضبوط ہندوستان وجود میں لاتا جس میں ہندو برابر کے شریک ہوتے‘ یوں ایسٹ انڈیا کمپنی کو میدان خالی نہ ملتا اور تاریخ مختلف ہوتی! معروف مورخ سٹینلے لین پول بھی یہی رائے رکھتا تھا۔
تخت نشینی کی اس دور رس نتائج رکھنے والی جنگ کے پورے ایک سو سال بعد ایک نئی مصیبت آئی جس نے بر صغیر کا ناک نقشہ نہ صرف تبدیل کر کے رکھ دیا بلکہ مسخ بھی کر دیا۔ اس کا تذکرہ ہم اگلی نشست میں کریں گے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, March 22, 2021

منزل‘ اگر کہیں ہے تو‘ بہت دور ہے


پی ڈی ایم کا کانٹا نکل گیا۔ راستہ صاف ہو گیا! مگر کیا واقعی راستہ صاف ہو گیا؟
یونیورسٹی آف مالاکنڈ کے نئے بلاک کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر شریف اور زرداری خاندان اور ان کی اولاد کا بھرپور تذکرہ کیا۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ میں ان دونوں خاندانوں کو اَمر کرنے کا تہیہ جنابِ وزیر اعظم ہی نے کر رکھا ہے۔ اڑھائی تین سال کے دوران جتنی کوریج حکومت کے طفیل ان خاندانوں کو ملی ہے اتنی شاید تب بھی نہ ملتی اگر یہ دونوں خاندان کسی مشہور بین الاقوامی میڈیا کمپنی کو ہائر کرتے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ان خاندانوں کے بد ترین مخالف بھی دل میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے لگے ہیں کیونکہ مسلسل ایک ہی بات سن سن کو لوگ چڑنے لگے ہیں۔ ہر تذکرے کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد‘ بے حد ہو جائے تو اثر الٹا ہونے لگتا ہے۔ کامیابی دوسروں کی برائیاں کرنے سے حاصل ہوتی ہے یا خود کچھ کر کے دکھانے سے؟ شیر شاہ سوری کو کُل پانچ سال ملے۔ کیا یہ پانچ برس اس نے مغلوں کی برائیاں کرنے میں گزار دیے؟ بابر اگر لودھیوں کی مذمت ہی میں لگا رہتا تو چند ہفتوں میں بھاگ کر کابل پناہ لینا پڑتی۔
پی ڈی ایم کا کانٹا نکل گیا مگر یہ مسائل کا حل نہیں۔ اس سے اربابِ حکومت کو تو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے‘ عوام کو نہیں۔ اڑھائی سال باقی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بقیہ مدت کے ایک ایک دن‘ ایک ایک گھنٹے ‘ ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھائے۔ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ بیوروکریسی کی مُشکیں کسے۔ تاجروں کے خلاف سخت ایکشن لے اور ان کی بلیک میلنگ کو ہرگز خاطر میں نہ لائے۔ وزرا کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے‘ اور جو وزرا ڈلیور نہیں کر پا رہے ان کے محض قلمدان تبدیل نہ کرے بلکہ انہیں بیک بینی و دو گوش نکال باہر کرے۔ سب سے بڑا صوبہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کون سا اقدام ضروری ہے۔ اب بھی اگر مصلحتیں آڑے آتی رہیں تو بقیہ اڑھائی سال کی مدت بھی اسی طرح گزر جائے گی۔
حکومت کا رویہ اگر منفی ہے اور وہ صرف دو خاندانوں کا تعاقب کر رہی ہے تو اپوزیشن کا طرزِ فکر اس سے بھی زیادہ تخریبی ہے۔ پی ڈی ایم کا ون لائن ایجنڈا موجودہ حکومت کا انہدام ہے۔ وزیر اعظم کہہ سکتے ہیں کہ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
مگر پی ڈی ایم سے کوئی پوچھے کہ اس کے بعد کا پلان کیا ہے؟ کیا اس کے بعد بھی یہ اتحاد قائم رہے گا یا وہی صورت حال ہو گی جو روسیوں کے انخلا کے بعد افغانستان کی ہوئی تھی؟ اس ساری تحریک کے دوران پی ڈی ایم مرحوم و مغفور نے وزیر اعظم پر تنقید تو کی اور حکومتی اقدامات کی مخالفت تو کی مگر کوئی متبادل منصوبہ پیش نہیں کیا۔ یہ تو سب کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود کُشی کی بات کی تھی مگر اس کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس گئے‘ لیکن کیا پی ڈی ایم نے کوئی ایسا منصوبہ پیش کیا ہے جس پر عمل کرنے سے آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے؟ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ صرف یہی نہیں‘ بلکہ کسی بھی شعبے کے لیے پی ڈی ایم نے کوئی تعمیری پلان نہیں پیش کیا۔ اسے بتانا چاہیے تھا کہ برسر اقتدار آکر گرانی کے عفریت سے کیسے نمٹے گی؟ بیروزگاری کو کس طرح کم کرے گی؟ خارجہ امور کے حوالے سے اس کی پٹاری میں کیا ہے؟ اب تو خیر قصہ ہی تمام ہو چکا۔ مال تقسیم ہونے سے پہلے ہی جھگڑا ہو گیا اور اتحاد اُس انجام کو پہنچ چکا جو ابتدا ہی سے نوشتۂ دیوار تھا۔
پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور دوسری پارٹیوں پر وزیر اعظم کا اور عوام کی کثیر تعداد کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی قیادتیں موروثی ہیں۔ اس اعتراض کو یہ پارٹیاں اپنے عمل سے آئے دن درست ثابت کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ گرفتار ہوئیں تو میاں صاحب لندن سے تحریک کی کوچوانی کریں گے۔ یہی تو اصل بیماری ہے۔ یعنی لگام خاندان ہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں شاہد خاقان عباسی‘ رانا ثناء اللہ‘ احسن اقبال‘ سعد رفیق بال سفید کرنے کے باوجود ورکر کے ورکر ہی رہیں گے۔ یہی حال پی پی پی کا ہے۔ عنفوانِ شباب کے اسپِِ تازی پر سوار بلاول جب تقریر کرتے ہیں یا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں تو ان کے یمین و یسار پر بیٹھے اور ان کی پشت پر کھڑے عمر رسیدہ حضرات کو دیکھ کر نصرت بھٹو کا یہ قولِ زریں یاد آتا ہے کہ Bhuttos are born to rule کہ بھٹو خاندان کے افراد حکمرانی کرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوتے ہیں۔ شاید شاہ پرستی ہماری سرشت میں رچی بسی ہے یعنی؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اِک بادشاہ مانگتی ہے
تحریک انصاف بھی اس رجحان سے نجات کہاں پا سکی! رُبع صدی ہونے کو ہے کہ تحریک کی قیادت جن ہاتھوں میں تھی‘ انہی ہاتھوں میں ہے۔ مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں کہ یہ جماعت یورپ‘ امریکہ یا دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح‘ پارٹی کے سربراہ کو تبدیل کر سکے حالانکہ وعدے وعید اور بیان کردہ عزائم اسی قبیل کے تھے۔ صرف جماعت اسلامی ہی ہے جس کی قیادت موروثی نہیں اور انتخابات کے ذریعے تبدیل ہوتی ہے مگر ملکی سیاست میں جماعت کوئی فیصلہ کُن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی وجوہ کیا بیان کی جائیں۔ کالم کی تنگ دامانی آڑے آتی ہے۔ جماعت کے اصحابِ قضا و قدر‘ وجوہ سننے کی تاب بھی کہاں رکھتے ہیں!
جمہوریت کا دعویٰ تو ہے مگر جمہوریت کی منزل دور ہے‘ بہت دور! اتنی دور کہ حدِ نگاہ تک کسی بستی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ ایک دلیل خاندانی تسلط کی یہ دی جاتی ہے کہ ارکان کو صرف شریف خاندان یا زرداری صاحب یا چودھری یا باچا خان کی اولاد ہی متحد رکھ سکتی ہے ورنہ تتر بتر ہو جائیں! یہ دلیل ہی غیر جمہوری مائنڈ سیٹ کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ وہ جماعت ہی کیا جو ایک خاندان کی گَلّہ بانی کی محتاج ہو! یہ تو بھیڑ بکریاں ہوئیں جنہیں لیڈر نہیں‘ گڈریا درکار ہے۔ مائنڈ سیٹ کے اعتبار سے سب سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں خواہ اقتدار میں ہیں یا اقتدار سے باہر! لیڈر سے برملا اختلاف کی کسی میں جرأت نہیں۔ سب کا منشور آمنّا و صدّقنا ہے۔ جو کچھ پی ڈی ایم کہہ رہی ہے یا جو نکات میڈیا اٹھا رہا ہے ان میں سے کچھ‘ اگر کابینہ یا پارٹی کے ارکان‘ اپنے لیڈر سے کہہ دیتے تو اصلاحِ احوال ہو چکی ہوتی۔ ہمارے ہاں کی جمہوریت ذرا مختلف ہے۔ یہاں بندوں کو صرف گننے سے کام نہیں چلتا‘ ان کی نگرانی بھی کرنا پڑتی ہے۔ انہیں کمروں‘ گیسٹ ہاؤسوں‘ کنٹینروں اور ہوٹلوں میں مقفل بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ان پر پہرے بھی بٹھانے پڑتے ہیں۔ ان کے ''اعمال‘‘ کو محفوظ رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے بھی لگانے پڑتے ہیں۔ اتنا کڑا پہرا قیدیوں پر بھی نہیں دیا جاتا۔ پھر یہ حضرات اپنے چرواہوں کے سامنے قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ یقین دہانیاں بھی کرتے ہیں۔ صفائیاں بھی پیش کرتے ہیں! اس ساری ''عزت افزائی‘‘ کے باوجود یہ حضرات معززین میں شمار ہوتے ہیں۔ کس کی مجال ہے کہ اوقات یاد دلائے۔
منزل‘ اگر کہیں ہے تو‘ بہت دور ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, March 18, 2021

دہلی سے لاہور تک



''ابھی ہم ڈیوڑھی میں کھڑے مولانا کا کمرہ دیکھ ہی رہے تھے کہ چبوترے سے ایک خاتون بی بی کی آواز آئی۔ میاں کچھ کام ہے؟ ہم نے عرض کیا‘ بی بی! ہم مولانا محمد حسین آزاد کا گھر دیکھنے آئے ہیں‘ وہم نہ کیجیے‘ دیکھ کر چلے جائیں گے۔ اللہ بھلا کرے اس بی بی کا۔ کہنے لگی‘ میاں چائے پیو گے؟ ہم نے کہا‘ کیوں نہ پئیں گے! لیجیے صاحبو! تھوڑی دیر میں ایک نیک دل آدمی تین کپ چائے لے کر زینوں سے اتر آئے۔ واللہ! ہم نے وہ چائے مولانا آزاد کی طرف سے سمجھ کے پی! دیکھیے کیسے مولانا نے تواضع کی۔‘‘
یہ اقتباس علی اکبر ناطق کی تازہ تصنیف 'فقیر بستی میں تھا‘ سے ہے۔ ناطق نے فکشن بھی لکھا ہے‘ شاعری کے مجموعے بھی اُس کے کریڈٹ پر ہیں مگر اس کالم نگار کی رائے میں معرکے کا کام اس کا یہی ہے۔ اس لیے کہ اردو کے بہت بڑے محسن، مولانا محمد حسین آزاد کو ہم بُھلا بیٹھے ہیں۔ نئی نسل تو ان کے نام اور کارناموں سے یکسر بے خبر ہے۔ ہم عصر ادیبوں اور محققین نے بھی ان کی طرف توجہ نہیں کی سوائے جناب اکرام چغتائی کے جن کا مجموعۂ مقالات مطالعۂ آزاد کے عنوان سے 2010 میں شائع ہوا۔ یہ آزاد کے حوالے سے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کی بھی مارکیٹنگ اس طرح نہیں ہوئی کہ یہ ہر متلاشی تک پہنچتا۔ علی اکبر ناطق کی تصنیف ایک مختلف انداز کی ہے۔ اسے ناول اور سوانح کا آمیزہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک کمال ناطق نے اس میں یہ دکھایا ہے کہ آزاد کے رنگ ہی میں نثر لکھنے کی کوشش کی۔ یوں تو آزاد کے انداز میں کون لکھ سکتا ہے! ایک نمونہ اس سٹائل کا دیکھیے جو ناطق نے قلم بند کیا ہے:
محل کے دائیں جانب جمنا کی طرف سنگ مرمر کی جالیاں اور جھروکے تھے جن کے اوپر شہزادوں کے سفید کبوتر محل کے جھروکوں سے جمنا اور جمنا سے جھروکوں تک پھریریاں لے کر اڈاریاں بھرتے اور ہم مزاجوں کو سبز باغوں کے سفید پھول دکھاتے۔ انہی جھروکوں سے جمنا کی ہوائیں چھن چھن کر اندر آتیں۔ جاڑے کے دنوں میں نہر بہشت بند کر دی جاتی اور اس میں پانی کی جگہ پارے کے بڑے بڑے طشت رکھے جاتے تھے۔ خواب گاہ کے ساتھ ایک بڑا مسقف دالان تھا... اسی نہر والے محل میں ہی جہاں پناہ خاص خاص لوگوں سے اور شہزادوں سے ملاقات فرماتے تھے۔ جیسے میرزا فخرو، حکیم احسن اللہ خان، یا استاد ذوق اور مولوی محمد باقر۔ بعد میں کچھ دنوں کے لیے میرزا نوشہ نے بھی یہاں کی حاضری دی اور بادشاہ کی اقبال مندی کا قصیدہ کہا۔
محمد حسین آزاد مجموعۂ کمالات تھے۔ کوئی ایک میدان نہ تھا! ان کی شخصیت اور فن کے کتنے ہی پہلو ہیں اور ہر پہلو دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ جدید تنقید، جدید شاعری، نثر نگاری کا اچھوتا اسلوب، پھر ادبی تحقیق، خاکہ نگاری، الفاظ کی اصل اور نسل کے لیے بے پناہ محنت، ان سب سے بڑھ کر صرف ایک کتاب ہی ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اور وہ ہے دربارِ اکبری! کتنی ہی راتوں کو انہوں نے اپنی آنکھوں کے چراغ اس کتاب کی تصنیف کے لیے جلائے، جگر کا خون دیا، روکھی سوکھی کھائی، عیش و آرام تج دیا اور ایک ایسا شہکار تصنیف کیا جو مغلوں کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک بیش قیمت خزانے سے کم نہیں‘ اور ہر محقق کے لیے بہترین ریفرنس بُک ہے! نو سو صفحات کی یہ کتاب تاریخ، ثقافت، ادب، شاعری، تحقیق اور تنقید کا ایک ایسا گل دستہ ہے جس میں رنگوں کی قوس قزح اور خوشبوؤں کے جھکورے آزاد کی عظمت کو دوام بخشتے ہیں۔
مولانا محمد حسین آزاد کی ساری زندگی، آلام، کرب، فقر، درویشی اور مشقت سے عبارت ہے۔ آغاز اتنا درد ناک کہ لڑکپن میں والد کو گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا۔ انجام ایسا تکلیف دہ کہ عمر عزیز کے آخری بیس سال عالم وارفتگی میں گزارے۔ اپنا ہوش تھا نہ علائق و متعلقین کا۔ یہ اور بات کہ اس عالم میں بھی تصنیف و تالیف کا فرض، جو قدرت نے ایک عالی شان دماغ دے کر سونپا تھا، سرانجام دیتے رہے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی۔ آزاد کے والد مولوی محمد باقر کو گولی مار دی گئی تھی۔ آخری ملاقات باپ بیٹے کی علی اکبر ناطق کی زبانی سنیے... آزاد سائیس کا لباس پہنے جرنیل سنگھ کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلے اور آخر اس مقام تک پہنچے جہاں باغی قیدی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔ کوئی بھوک پیاس سے رو رہا تھا۔ کسی کو موت اور بربادی کا الم نیم جان کیے تھا۔ انہی میں ایک طرف ایک مرد خدا خلوصِ دل میں عبادت میں مصروف تھا، یہ آزاد کے والد مولوی محمد باقر تھے۔ بہت دیر کے بعد نظر اٹھائی تو تھوڑے فاصلے پر اپنا پیارا لاڈوں کا پالا جگر گوشہ سائیس کے لباس میں کھڑا نظر آیا۔ ایک دم چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ ادھر یہی حالت بیٹے پر گزری۔ جب نظر نے یاوری کی تو دیکھا کہ ہاتھ کے اشارے سے مولوی محمد باقر اپنے بیٹے آزاد سے کہہ رہے ہیں کہ بس آخری ملاقات ہو گئی اب رخصت ہو اور دیر نہ کرو۔
اس درد ناک ملاقات کا اثر زندگی بھر آزاد کی طبیعت پر رہا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسی پُر ہول یاد کا شاخسانہ تھا کہ آخری بیس سال ناگفتنی حالت میں گزرے۔ باپ کے گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد ایک طویل عرصہ انگریزوں کی نظر سے بچتے رہے۔ ایک پُر خطر زندگی گزاری۔ پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر لگے تو ڈاکٹر جی ڈبلیو لائیٹنر، جو بظاہر مربّی تھا، بلیک میل کرتا رہا اور استحصال بھی۔ جو حضرات آزاد کے وسط ایشیا کے سفر پر جاسوسی کا لیبل لگا کر اعتراض کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزاد ایسا نہ کرتے تو مار دیے جاتے۔
اور پھر ایران کا سفر! اللہ اللہ! افلاس، زاد راہ کی کمی اور ساتھ ہی کتابیں خریدنے کا بے انتہا شوق جسے خبط ہی کہنا چاہیے! کبھی کتابیں بیل گاڑی پر لادیں اور کپڑا بچھا کر خود اوپر بیٹھ گئے۔ علی اکبر ناطق کے بقول قندھار سے کوئٹہ کا سفر صرف پانچ روز کا تھا لیکن آزاد نے یہ راستہ گیارہ روز میں طے کیا۔ ہر جگہ کتابیں ان کی جان کے ساتھ تھیں۔ ایک مقام پر بہت زور کی بارش ہوئی۔ زمین ایسی خراب تھی کہ اونٹ پھسلنے لگے۔ قافلہ ایک میدان میں اتر پڑا۔ آزاد نے سب سے پہلے کتابوں کو بچایا۔ ان پر موٹے موٹے گدیلے ڈال دیے اور خود توکل بخدا بیٹھ گئے۔
آزاد کی وفات کے بعد ان کی عظیم الشان نجی لائبریری پر کیا گزری یہ ایک اور طویل داستان ہے۔ اس داستان میں آنسوئوں کے سیلاب ہیں اور آہوں کے طوفان! کئی جانکاہ مراحل، اور ایک طویل خط و کتابت کے بعد، بچی کھچی، زخموں سے چور، یہ لائبریری پنجاب یونیورسٹی لائبریری کو منتقل کر دی گئی۔
دہلی دروازے کے اندر، آزاد کا اکبری منڈی والا مکان دیکھا ہے۔ کیا کوچے تھے جن میں یہ نابغہ چلتا ہو گا۔ گورنمنٹ کالج میں پڑھانے آتے تو گھوڑے پر سوار ہوتے۔ ارد گرد شاگرد کتابیں کھولے چل رہے ہوتے اور تدریس کا سلسلہ جاری رہتا۔ دہلی کا یہ سپوت لاہور کی خاک میں پیوند ہوا۔ ان کی وفات کو حالی نے اردو ادب کا خاتمہ قرار دیا۔ کربلا گامے شاہ میں محوِ استراحت ہیں۔ علی اکبر ناطق نے اچھا کیا کہ آزاد کی یاد تازہ کی اور یوں اپنا نام آزاد کے عشّاق میں لکھوا لیا
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, March 16, 2021

تاجروں کی حمایت میں



تاجر برادری نے ایک بار پھر قوم کے دل جیت لیے ہیں۔
اللہ اللہ۔ افراتفری اور نفسا نفسی کے اس دور میں ‘ مادہ پرستی کے اس چیختے ‘ چنگھاڑتے‘ بھنبھوڑتے زمانے میں‘ ایسے بے غرض افراد ‘ ایسے دھُن کے پکے لوگ! ایسا پُر عزم طبقہ !
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!
اقبال نے کہا تھا۔ یقیں محکم ‘ عمل پیہم ! قائد اعظم کی تلقین تھی اتحاد اور ایمان ! پوری قوم میں سے کوئی تو ہے جو اقبال اور قائد کے ان زریں اصولوں پر عمل کر رہا ہے! خدا خوش رکھے تاجر برادری کو ! سب غافل ہیں اور یہ خوش بخت سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں !
اپنے ٹارگٹ کو یہ برادری کبھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی! ٹارگٹ کیا ہے ؟ پیسہ کمانا! زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ! اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے یہ یکسو ہیں۔ یقین ان کا محکم ہے! عمل ان کا پیہم ہے ! اس کے لیے وہ متحد ہیں ! اسی پر ان کا فیتھ ہے! سبحان اللہ! سبحان اللہ ! یونیٹی ! فیتھ اینڈ ڈسپلن ! اتحاد‘ ایمان اور تنظیم ! اللہ اکبر ! جیسے ہی حکومت نے کہا کہ چھ بجے کاروبار بند کرنا ہو گا ‘ تاجر سیسہ پلائی دیوار بن گئے! اُٹھ کھڑے ہوئے ! احتجاج کیا!حکومت کا یہ حکم ان کے ٹارگٹ کے راستے میں رکاوٹ بنے گا! پیسہ کمانے کے نصب العین میں مزاحم ہو گا ! ناقابلِ برداشت! سر بکف ہو کر نکلیں گے! ہر دیوار کو گرا دیں گے ! پیسہ ! پیسہ اور پیسہ ! یقیں محکم ! عمل پیہم ! منافع ! منافع!اور منافع ! اتحاد ! ایمان ! تنظیم !
صراطِ مستقیم سے ہٹانے کی بہت کوششیں گزشتہ حکومتوں نے بھی کیں ! موجودہ حکومت بھی شوق پورا کر لے ! کیا کہا حکومت نے ؟ کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بازار پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں اور صبح نو بجے کھل جاتے ہیں ! توبہ کیجیے ! توبہ ! ہمیں کفار کے ملکوں کا تتبع کرنے کا کہا جا رہا ہے ! استغفار! استغفار! ہم تاجر تو دیگیں تقسیم کرتے ہیں‘ حج اور عمرے کرتے ہیں! با جماعت نمازیں ادا کرتے ہیں ! ہم اور کفار کی پیروی ؟ ناممکن ! نا ممکن! ہم دکانیں چھ بجے نہیں بند کریں گے ! کورونا یا نو کورونا ! کورونا تو اب آیا ہے سال ڈیڑھ سال ہوا ! یہ حکومتیں اس سے بھی پہلے سے ہمارے پیچھے لگی ہیں۔ کہتی ہیں بازار سرِشام بند کیجئے اور صبح جلد کھو لئے! اس سے توانائی کی بچت ہو گی ! بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ! توانائی کی بچت ہو گی تو ملک کا فائدہ ہو گا نا ! ارے بھائی! ہم تاجروں کا فائدہ تو نہیں ہو گا! خود سوچو! پیسہ کمانے کا ‘ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا ٹارگٹ متاثر ہوا تو یقیں محکم ‘ عمل پیہم کا اصول تو ٹوٹ گیا نا!
میں تاجر برادری کے اس عزمِ صمیم کی داد دیتا ہوں! میں امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک ‘ ناروے سے لے کر اٹلی تک‘ کوریا سے لے کر سنگا پور تک‘ ہانگ کانگ سے لے کر ملا ئیشیا تک بازار گھوما ہوں۔ ہر جگہ تاجروں سے بات کی ہے۔ تمام دکانداروں سے بحث کی ہے۔انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی کی کہ میرے ملک کے تاجروں کا اصول اپناؤ۔ دن کے بارہ ایک بجے دکانیں‘ سٹور کھولو۔ رات کو بارہ بجے تک بازار کھلے رکھو۔ واہ! کیا منظر ہوتا ہے رات کو! ایک ایک دکان میں دس دس ٹیوب لائٹیں‘ پانچ پانچ فانوس‘ بازار بقعۂ نور! جگمگ جگمگ روشنیاں! نور میں نہائے سٹور ! آ کر پاکستان کے بازار دیکھو تو سہی! رات کو ہمارے تاجر دن بنا دیتے ہیں! مگر افسوس! ان تاجروں پر کوئی اثر نہ ہوا! جواب میں ایک ہی رٹ لگا ئے رکھی کہ حکومت کے جاری کردہ قوانین پر عمل کریں گے! کہ ملک کا لاء سپریم ہے ! کہ اپنا ملک ہے !کہ اپنی حکومت ہے ! کہ تعاون کریں گے۔ سر شام بازار بند کریں گے‘ صبح جلد کھولیں گے۔ حد یہ ہوئی کہ ان تاجروں نے میرے ملک کے تاجروں کی شان میں نازیبا کلمات کہہ ڈالے ! کسی نے خود غرض کہا! کسی نے لالچی ! کوئی بولا تمہارے ملک کی تاجر برادری کو حکومت کی جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں سب کا فائدہ ہے! میں یہ فضول باتیں سنتا رہا۔ مگر متاثر نہ ہوا کیونکہ میرے ملک کے تاجر ‘ زیادہ عقل مند‘ زیادہ مخلص اور زیادہ دیانت دار ہیں !
میرا یہ بھی پختہ یقین ہے کہ ان ملکوں کے بیوقوف تاجروں کو میرے ملک میں آکر ‘ یہاں کی تاجر برادری سے کاروبار کے سنہری اصول سیکھنے چاہئیں ! ٹارگٹ پیسہ کمانا ہے تو پھر رَج کر کمائیں۔ کم از کم چھ ضابطے ایسے ہیں جو میرے ملک کی تاجر برادری ‘ ان ممالک کے تاجروں کو سکھا سکتی ہے۔ ان ضابطوں کو آپ ٹیکنیکس بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر جو کچھ بھی کہیں‘ کوئی سا نام دے دیں‘ اصول کہیں یا ضوابط‘ ہیں یہ سب سنہری ! پہلا اصول یہ ہے کہ صرف دکان کے ایریا پر قناعت نہیں کرنی! فٹ پاتھ اور سامنے والی ساری جگہ اپنے استعمال میں لانی ہے۔اگر دکان کے سامنے سرکاری زمین وافر ہے تو ریڑھی والوں سے کرایہ لے کر وہاں دو تین ریڑھیوں کو کاروبار میں لگا دیں۔ بلکہ ہو سکے تو سامنے جو پکی سڑک ہے ‘ اس کا بھی کچھ حصہ قابو کر لیں! کچھ لوگ یاوہ گوئی کریں کے کہ یہ تجاوزات ناجائز ہیں‘ ان کی باتوں پر کان دھرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ آوازِ سگاں کم نہ کند رزق گدا را! دوسرا اصول یہ ہے کہ ٹیکس دینے سے بچئے۔ اس محکمے سے کوئی اہلکار آئے تو اسے کرپٹ کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔ ٹیکس دینے کے بجائے مخصوص حلقوں کو چندے دیجئے کیونکہ یہ حلقے جو چندے وصول کرتے ہیں آپ کے قدرتی ہم نوا ہیں ! یہ ہمیشہ آپ ہی کے موقف کی حمایت کریں گے خواہ یہ حمایت خاموش ہی کیوں نہ ہو ! تیسرا زریں اصول ہے کہ گاہک کو الجھائے رکھیں‘ سچ نہ بولیں۔شے میں نقص ہے تو ہر گز نہ بتائیے! گاہک کی مطلوبہ شے آپ کے پاس نہیں تو اسے نہ بتائیے بلکہ کوئی اور شے ‘اپنی پسند کی‘ دکھائیے اور اصرار کیجیے کہ یہ زیادہ بہتر ہے۔ گاہک کو کنفیوز کیجئے۔ یہاں تک کہ وہ آپ کی باتیں ماننے پر مجبور ہو جائے۔ چہارم یہ کہ ریفنڈپالیسی نہ رکھئے۔ بڑے سے بورڈ پر یہ عبارت کہ '' خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہو گا‘‘لکھ کر لگا دیجئے تا کہ کوئی احمق آپ کو شے واپس کر کے ریفنڈ نہ مانگتا پھرے ! پانچواں سنہری اصول یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے مذہب کو ضرور استعمال میں لائیے۔ بے شک دکان کا نام کسی مقدس ہستی کے نام پر رکھیں مگر کاروباری معاملات میں وہی کچھ کرتے رہیں جس  سے منع کیا گیا ہے۔ یاد رکھئے مذہب کے نام پر پاکستانی صارف کا استحصال دنیا کا سہل ترین کام ہے۔ اس دُکھتی رگ سے ضرور فائدہ اٹھائیے۔ چھٹا اور آخری اصول ہے اپنی برادری کی ہر جائز ناجائز بات پر حمایت کرنا۔ کسی تاجر نے کوئی جرم کیا ہے اور قانون اسے اپنے دائر ے میں لانے کی کوشش کرتا ہے تو اپنے مجرم بھائی کا پورا پورا ساتھ دیجئے۔ ہڑتال کیجئے۔ جلوس نکالئے! اور ہاں! یاد رکھئے علم آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے اس لیے کتابوں کا بزنس کبھی نہ کیجئے۔ جو تھوڑے سے تاجر کتابوں کے اس ملک میں رہ گئے ہیں انہیں اپنی برادری سے خارج کرکے کوشش کیجئے کہ ان کی جگہ ٹائروں‘ یا ہارڈ ویئر‘ یا چکن کڑاہی والے تاجر آجائیں !
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, March 15, 2021

ہاتھ پر ہاتھ دھرے



 معروف ازبک ادیب اور صحافی ،دادا خان نوری ،   اس کالم نگار کے مہمان تھے۔ صبح اٹھا تو سیر کے لیے جا چکے تھے۔  واپس آئے تو سخت برہم !  دادا خان اردو میں کام چلا لیتے ہیں۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی زبان کا بہت بڑا شعبہ ہے۔ وہیں ہندی سیکھی۔ اس لحاظ سے اردو بھی بول لیتے ہیں، اگرچہ  اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے! کہنے لگے “ آپ پاکستانی عجیب ہیں! ہر گھر کے سامنے ،  پیچھے ، دائیں ، بائیں زمین ہے اور بیکار پڑی ہے ۔ ثمر دار پودے نظر آئے نہ سبزیاں۔  ساری زمین بیکار جا رہی ہے۔ آپ کیسے لوگ ہیں ؟”   ان کی خدمت میں عرض  کیا   کہ حضور!   ہم ایسے ہی ہیں۔ اور ہماری اس “ صفت” کا ذکر  آپ کے ہم وطن ظہیرالدین بابر صاحب بھی کرتے تھے۔  

دادا خان کو اچنبھا ہوناہی تھا۔ غصہ بھی ان کا بجا تھا۔  ان کے ہاں ، بلکہ ساری وسط ایشیائی ریاستوں میں ، تقریبا” ہر گھر پھلوں میں خود کفیل ہے۔ گھر کے درمیان واقع صحن درختوں اور پودوں سے بھرا ہوتا ہے۔ ، جسے حَولی کہتے ہیں۔ اخروٹ، سیب، آڑو ،خوبانی ، کے درخت لازم ہیں۔ سیب اور اخروٹ  ، عام طور پر، ناشتے کا جزو ہیں۔ہماری نالائقی اس حوالے سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہاں ہم ٹوٹل فروٹ پروڈکشن کی بات نہیں  کر رہے ،  نہ   کمرشیل پیدا وار کی اور نہ ہی  کنو، مالٹے اور آم کی، جس کے لیے پاکستان معروف ہے۔ نالائقی اور کم ہمتی کی بات  گھروں کے ضمن میں کی جا رہی ہے۔خال خال ایسے مکان ہیں جن کے مالک ، یا مالکنیں ،     گھروں  میں سبزیاں اور پھل اگا رہی ہیں۔ جن کو شوق ہے اورسرگرم و سخت کوش ہیں وہ پانچ مرلے کے مکان میں بھی   یہ کام بخوبی کر رہے ہیں اور جو اس میدان میں کورے ہیں یا غافل اور بے نیاز وہ کنال  کنال اور دو دو کنال کے گھروں میں بھی  کچھ نہیں اگا رہے۔ کورڈ 
( (covered
 ایریا کی بڑھتی ہوئی  بھوک بھی اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہے۔ مثلا” وفاقی دارالحکومت کے ابتدائی چند عشروں میں یہ پابندی تھی کہ کورڈ ایریا، پلاٹ کے کُل ایریا کے   ستر فی صد سے زیادہ نہ ہو۔  یوں دس اور بارہ مرلے کے مکان میں لان ( بیرونی صحن) کے لیے اچھی خاصی وسیع جگہ مل جاتی تھی جو سبزیوں اور پھلوں کی گھریلو ڈیمانڈ پورا کرنے کے لیے مناسب  تھی۔ بعد میں   رُول یہ بنا دیا گیا کہ کورڈ ایریا   نوّے فی صد تک ہو سکتا ہے۔ اس طرح اب پانچ سو مربع گز کے گھر میں بھی لان کی جگہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ بہر طور  جو مکین،  شہری  ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں وہ ، گھر کے سائز سے قطع نظر، سبزیاں اور پھل اگا رہے ہیں۔  چھتوں کو بھی اس  مقصد  کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔  مگر یہ تعداد بہت کم ہے۔ مہنگائی کا رونا رونے کے بجائے، اگر گھروں میں اپنی ضرورت کی سبزیاں اور پھل  اگالیے  جائیں تو  معاشی بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ اب انگور کی بیل لگانے کے لیے تو رقبہ بھی نہیں درکار۔ چھت تو ہر گھر  کو میسر ہے۔  ولائتی کھاد کے نقصان کا جو اندیشہ ہم نے ، بجا طور پر، یا غلط طور پر ، پالا ہؤا ہے اس سے بھی نجات مل سکتی ہے کیونکہ جو سبزیاں گھروں میں اگائی جائیں گی وہ دیسی  ( آرگینک) ہوں گی۔ جاپانیوں نے دوسرے شعبوں کی طرح اس میدان میں بھی حیران کُن کارنامے انجام دیے ہیں۔ ثمردار پودے  گملوں   میں لگا رہے ہیں۔  کئی قسم  کی  نئی تکنیکیں متعارف کرا رہے ہیں۔ بڑے درخت کی شاخ ، گملے میں یوں لگاتے ہیں کہ گملے والے چھوٹے پودے کی پیداوار ، عمر کے لحاظ سے ،  بڑے درخت  کے برابر ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ شوق اور ذوق اس معاملے میں اہم ہے مگر گرانی کی جو رفتار، خطرے کی طرح،  ہمارے سروں پر منڈلا  رہی ہے اور بڑھتی ہوئی  آبادی کا عفریت  جس طرح  دہانہ کھولے، چنگھاڑ رہا ہے، اس کے پیش نظر یہ کام، اب شوق کا نہیں  مجبوری کا ہے۔ میسّر اعداد و شمار کے  مطابق ملک میں   رہائشی یونٹس، یعنی گھروں کی تعداد 32.21  ملین ہے۔    اگر ہر  ، رہائشی یونٹ،  اس حوالے سے مستعد  ہو جائے تو مجموعی طور پر لاکھوں  ایکڑ رقبہ بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔آبادی کے بہت کم حصے کو پھل میسر ہیں۔ یوں  یہ تعداد بھی بڑھائی جا سکے گی۔

اور  یہ جو پانی کی قلت خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اور بجائے جا رہی ہے ، تو کیا اس سلسلے میں  ہمارے ہاں فرد اپنی شہری   ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے؟  نہیں ! بالکل نہیں ! سب سے پہلے  بارش کے پانی کو لیجیے۔ جرمنی، آسٹریلیا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں  بارش کا پانی ٹینکیوں میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ہم بھی کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے سائنس اور ٹیکنیک سے زیادہ دھیان اور وژن کی ضرورت ہے۔ چھتوں سے پانی براہ راست انڈر گراؤنڈ  ٹینکی میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔اندازہ لگائیے اس وقت کتنا پانی فلش کی ٹینکیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ بارش کا پانی اس کا متبادل ہے۔  گاڑیاں اور موٹر سائیکل دھونے کے لیے اور گھاس  اور پودے سینچنے کے لیے بھی بارش کا پانی استعمال کیا جانا چاہیے۔ پالتو جانوروں کو اس سے نہلایا جا سکتا ہے۔ پورچ اور فرش دھونے کے بھی کام آسکتا ہے۔  جس طرح ملکی سطح پر ہم نے ڈیم نہیں بنائے اور مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے بالکل  اسی طرح، انفرادی سطح پر بھی  ہم    پانی کے ہولناک ضیاع کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایک بار پھر وفاقی دالحکومت کی  مثال لیجیے۔  بارہ مرلے کا پلاٹ بھی کروڑوں  کی قیمت کا ہے۔ تعمیر پر مزید کروڑوں کا خرچ! ترقیاتی ادارہ اس مکان پر ٹیکس لے گا مگر پانی فراہم نہیں کرے گا۔مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے کر بھی نہیں سکتا!۔ٹینکر مافیا الگ  غارت گری کر رہا ہے۔   بور کر کر کے دھرتی کا سینہ زخمی کیا جا رہا ہے مگر زیر زمین پانی کی سطح  تحت الثریٰ کی طرف جا رہی ہے ! ایسے میں بارش کا پانی مسئلے کا جزوی حل ہے اور بہت ہی مناسب حل !  مسلمان ملکوں کو تو وضو کے پانی کا بھی کچھ کرنا چاہیے۔ جو پانی  وضو کے لیے استعمال ہو چکا ہے،   کیا وہ  گلیاں دھونے کے لیے اور پودوں کی آبیاری کے لیے  دوبارہ استعمال  نہیں ہو سکتا؟ اس پر غور ہونا چاہیے۔ مساجد کی تعداد کا اندازہ لگائیے۔ پھر اس پانی کا جو پانچ وقت وضو کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ نماز کا پابند شخص، عمومی طور پر صاف ستھرا ہوتا ہے۔ جس پانی سے اس نے چہرا،  ہاتھ، بازو اور  پاؤں دھوئے ہیں وہ پانی، جمع کر کے،  کئی مقاصد کے لیے  دوبارہ استعمال میں  لایا جا سکتا ہے۔ کئی ممالک تو سیورج کا پانی “ ری  سائیکل 
کر کے دوبارہ کار آمد کر رہے ہیں۔ پارکوں، گالف کے میدانوں، مِلوں ۔ فیکٹریوں  اور تعمیراتی  سر گرمیوں کو  یہی پانی دیا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں پانی  جس بے دردی سے  ضائع  کیا جارہا ہے،اس کی مثال دنیا میں  کم ہی  ملے گی!بہت کچھ کیا جاسکتا ہے جو ہم نہیں کر رہے یا کرنا نہیں چاہتے! حکومت کی طرف سے ترغیب ہے نہ تعلیم نہ تربیت نہ فکر نہ ہی دلچسپی! اس کی  ترجیہات اور ہیں! اس کی نظر عوام پر نہیں، کہیں اور ہے۔ اور یہ بھی نہیں معلوم نظر،  صحت مند ہے یا اس میں  کم فہمی ، یا  حماقت کا موتیا اترا ہؤا ہے۔ رہے ہم عوام !  تو ہماری کیا بات ہے !  ہم حکومت سے بھی دو قدم آگے ہیں۔صرف   دور  کی نہیں ہماری تو  نزدیک کی نظر بھی کمزور ہے۔ بس بیٹھے ہیں اور ۔؏
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں !
………………………………………………………………بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, March 11, 2021

…یہ بھی وہی ہیں



لکھ لکھ کر قلم گھِس چُکے۔ رِم کے رِم کاغذ کے سیاہ ہو چکے۔ روشنائی اتنی خرچ ہو چکی کہ چہروں پر ملی جاتی تو جتنی تعداد کالے دلوں کی ہے، اتنے ہی سیاہ رُو میسر آ جاتے! ٹائپ کر کر کے انگلیوں کی پوریں دُکھنے لگیں۔ غالب نے کہا تھا: ع
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
زمانہ اتنا بدل چکا کہ اب انگلیاں لکھنے ہی سے نہیں، ٹائپ کرنے سے بھی فگار ہوتی ہیں۔ آئی پیڈ کی سکرین پر نظریں جماتے جماتے، آنکھیں تھک گئیں‘ کاندھے درد کرنے لگ گئے‘ مگر افسوس! اس ساری کاوش، اس تمام جدوجہد کا نتیجہ صفر ہے۔ منڈیوں کی رونق میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی۔ بولیاں لگ رہی ہیں۔ آوازیں دی جا رہی ہیں: تیس کروڑ... تیس کروڑ... تیس کروڑ۔ ایک آواز آتی ہے: چالیس کروڑ۔ نیلامی والا اب کہتا ہے: چالیس کروڑ... چالیس کروڑ... چالیس کروڑ! ایک اور ہاتھ فضا میں بلند ہوتا ہے: پچاس کروڑ۔ یہاں تک کہ معاملہ ستر کروڑ تک جاتا ہے۔ نیلامی والا ہتھوڑا مارتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ ستر کروڑ پر سودا طے ہو گیا!
یہ نیلامی میں بکنے والے، مکان نہیں‘ پینٹگز نہیں‘ فرنیچر نہیں‘ انسان ہیں۔ انسان بھی عام انسان نہیں، معززین ہیں۔ معززین بھی وہ جو ارب پتی اور کھرب پتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پینٹگز اور فرنیچر پر قیمت کا ٹیگ (چٹ) لگا ہوتا ہے‘ اور یہ ٹیگ ان فروختنی معززین پر نہیں لگایا جاتا؛ تاہم دیدۂ بینا کو ایسے ہر معزز کی قیمتِ فروخت نظر آ جاتی ہے۔ گاہک کی نظر تیز ہو تو بکاؤ مال کو دور سے پہچان لیتا ہے۔
اپوزیشن شور مچا رہی ہے کہ فلاں جو منتخب ہوا ہے، ستر کروڑ کی اسامی ہے۔ یہ کہ اس کے مقابلے میں تحریک کے جس عام ورکر کو ٹکٹ دیا گیا تھا، اسے بٹھا دیا گیا اور یہ کہ منتخب ہونے کے بعد، اس کے گلے میں مخصوص گلوبند ڈال کر، تحریک میں باقاعدہ شامل کر دیا گیا۔ اپوزیشن سے کوئی پوچھے کہ اس کاروباری سرگرمی میں کیا آپ حکومت سے پیچھے ہیں؟ ایک قدم بھی پیچھے نہیں! شانہ بہ شانہ چل رہے ہیں! وفاقی دارالحکومت میں اپوزیشن نے سینیٹ کی سیٹ پر جو کچھ کیا، کیا وہ اس سرگرمی سے مختلف تھا جو نیلام گھروں میں ہوتی ہے؟ اور جو لوگ حزب اقتدار کو واقعتاً ریاستِ مدینہ کا پیروکار سمجھ رہے ہیں ان کا بھی کیا ہی کہنا! چلیے ابتدا میں تو ہماری طرح کے بہت سے سادہ لوح ان کے دعووں کو سچ سمجھ رہے تھے‘ مگر اب تو بلی تھیلے سے باہر آ چکی! جو لوگ اب بھی صرف اپوزیشن پر نیلامی کا الزام لگا رہے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ آنکھوں سے خوش گمانی کی پٹی اتاریں! کوئی کسی سے کم نہیں! اپوزیشن اور حکومت میں صرف نام کا فرق ہے۔ اہلِ سیاست ایک طبقہ ہیں۔ اس طبقے کی اخلاقیات، اسی قبیل کی ہیں جس قبیل کی اخلاقیات پوری قوم کی ہیں۔ یہ نیلام گھر جو سیاست کے میدان میں رات دن بولیوں اور ہتھوڑے کی آوازوں سے گونج رہے ہیں، کہاں نہیں ہیں! عام گلی محلوں میں نکل جائیے! کس پر اعتبار کریں گے؟ کیا آپ ریڑھی والے سے سبزی یا پھل لے کر اس قدر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ لفافے سے ایک ایک ٹماٹر یا ایک ایک سیب نکال کر اپنی تسلی نہیں کریں گے؟ کیا آپ اپنے خاکروب پر اعتبار کریں گے کہ وہ آپ کی بار بار تلقین کے بغیر ایک ایک کونہ خود ہی تسلی بخش طور پر صاف کر دے گا؟ ڈاکٹر ہے یا وکیل، تاجر ہے یا دفتری بابو، کس پر آنکھیں بند کر کے تکیہ کر سکتے ہیں؟ کل ایک دوست رو رہے تھے کہ خیرات کرنے کے لیے دیگ منگوائی تو چاول نیم بریاں اور گوشت کی کوالٹی تھرڈ کلاس! ریستوران میں قیمے کا سالن یا آملیٹ، خوف کے بغیر کھا سکتے ہیں؟ روٹی تک ڈھنگ کی نہیں ملتی۔ ربڑ کی ربڑ! چبائی ہی نہیں جاتی! استاد کلاس سے غیر حاضر! پرنسپل بے نیاز! سیکرٹری ایجوکیشن اگلی ترقی کے لیے کوشاں اور جو کچھ نیچے ہو رہا ہے اس سے بے خبر اور خبر مل بھی جائے تو
پھر اس چمن میں بُوم بسے یا ہما بسے!
ہاں اہل حکومت کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے! اس حکومت نے کچھ وعدے کیے تھے جن کی بنیاد پر لوگوں نے انہیں ووٹ دیے تھے۔ وعدہ کیا تھا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت سے گریز کریں گے۔ میرٹ کی پالیسی اپنائیں گے۔ مہنگائی ختم کریں گے۔ کابینہ مختصر رکھیں گے۔ موروثی اور خاندانی اقتدار کا خاتمہ کریں گے مگر شاید ہی کوئی وعدہ وفا ہوا ہو! نئے لیبل والی بوتل میں وہی دوا نکلی جو بیکار ہے۔ انگریز ایسے موقع پر کہتے ہیں: More of the same
اس حکومت کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ بادشاہ یاد آیا ہے جو رات کو گلیوں میں پھر رہا تھا کہ حالات کا جائزہ براہ راست لے۔ ایک دروازے کے نیچے سے روشنی باہر آ رہی تھی۔ کواڑ کی درز سے بادشاہ نے جھانک کر دیکھا تو اندر تین عورتیں کشیدہ کاری میں مصروف تھیں۔ ایک کہنے لگی: گیا! دوسری نے کہا: جانا ہی ہے، وہ جو نہیں ہے۔ تیسری نے کہا: وہ ہوتا تو جاتا ہی کیوں۔ یہ بھیدوں بھری گفتگو بادشاہ کے پلے کیا پڑنی تھی۔ یوں بھی قدرت اہل اقتدار کو کامن سینس سے محروم ہی رکھتی ہے۔ اسی لیے ہر بادشاہ کے تذکرے میں ایک دانا وزیر ہوتا ہے جو اسے عقل کی باتیں بتاتا ہے یا یہ کام شہزادی کے سپرد ہوتا ہے جو بادشاہ کی بیٹی ہوتی ہے۔ تینوں عورتوں کی اس پُر اسرار گفتگو سے بادشاہ نے ایک ہی نتیجہ نکالا کہ ہو نہ ہو، یہ کوئی سازش ہے جو اس کی بادشاہت کے خلاف تیار ہو رہی ہے اور گیا سے مراد یہی ہے کہ بادشاہ گیا! رات جوں توں جہاں پناہ نے کاٹی۔ صبح سویرے کارندوں کو حکم دیا کہ تینوں عورتوں کو حاضر کیا جائے! سُوت کاتنے اور کشیدہ کاری کرنے والی تینوں غریب عورتوں کو پکڑ کر لایا گیا! بادشاہ نے انہیں رات والی گفتگو یاد دلائی اور کڑک کر پوچھا کہ بتاؤ! میرے اقتدار کے خلاف کیوں سازش کر رہی تھیں! عورتیں پہلے حیران ہوئیں پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائیں! ایک بولی! یہ بھی وہی ہے! دوسری نے کہا: اس کے وہ جو نہیں! تیسری نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اُس کے بغیر بھی ہوتے ہیں! یہ مزید پُر اسرار گفتگو سن کر بادشاہ چکرا کر رہ گیا! اس سے پہلے کہ ظلِّ الٰہی تیورا کر گر پڑتے، وزیرِ با تدبیر نے انہیں سنبھالا اور ساتھ ہی عورتوں سے کہا کہ جہاں پناہ کو مزید پریشان نہ کرو اور بتاؤ کہ جو رات کو کہا اس سے کیا مراد تھی اور جو کچھ اب کہہ رہی ہو اس کا کیا مطلب ہے؟ عورتوں نے جواب دیا کہ رات کو ایک نے جب کہا کہ گیا تو مطلب یہ تھا کہ چراغ بجھنے کے قریب ہے۔ دوسری نے جب کہا 'وہ جو نہیں ہے‘ تو مطلب یہ تھا کہ چراغ میں تیل جو نہیں! تیسری نے کہا کہ تیل ہوتا تو بھڑکتا ہی کیوں! اور یہ جو، اب ہم میں سے ایک نے کہا کہ یہ بھی وہی ہے تو اس کا مطلب تھا کہ یہ بادشاہ بھی بَیل ہی ہے! (دیہی کلچر میں بڑے جُثے والے احمق کو بیل کہہ کر پکارتے ہیں)۔ دوسری نے جب کہا کہ اس کے وہ جو نہیں تو مطلب تھا اس کے سینگ جو نہیں۔ تیسری نے کہا: ان کے بغیر بھی ہوتے ہیں یعنی کچھ بَیل سینگوں کے بغیر بھی ہوتے ہیں!

تو جناب! بنیادی حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی وہی ہیں

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, March 09, 2021

نانو گھر



ادھر پیکنگ شروع ہوئی ‘ اُدھر سراسیمگی اُس پرسوار ہو گئی!کبھی کمرے کے اندر ‘ کبھی باہر ! بے چینی صاف جھلک رہی تھی!

اس بار اس کا قیام زیادہ دن رہا۔جتنے دن رہا‘ بے حد خوش! ایک تو یہ گھر ‘ اُس کے اپنے گھر سے زیادہ فراخ تھا۔ یہ کشادگی اسے خوب راس آتی تھی۔ کمروں ‘ برآمدوں اور لاؤنج میں بھاگتا پھرتا۔ محبوب مشغلہ اس کا بالائی منزل پر جانا تھا۔ پہروں غائب رہتا۔ ہم سب کو معلوم ہوتا کہ اوپر گیا ہوا ہے۔ پوری منزل کی باقاعدہ تلاشی لیتا۔ لائبریری‘ خوابگاہیں‘ رسوئی‘ ایک ایک کا جیسے معائنہ کرتا۔پھر نیچے آتا۔ کبھی میری گود میں ‘ کبھی نانو کی گود میں ! ایک عجیب بات اس کی یہ نوٹ کی گئی کہ جتنی دیر میں تلاوت کرتا‘ چپ چاپ پاس بیٹھا رہتا۔ سنتا رہتا۔ جیسے ہی تلاوت ختم ہوتی ‘ اُٹھ کر باہر نکل جاتا۔ کبھی میری طبیعت اداس یا پریشان یا خراب ہوتی تو میں بیٹھک میں جا بیٹھتا تا کہ کچھ دیر تنہا رہوں۔ پانچ دس منٹ ہی گزرتے کہ مجھے ڈھونڈتا ہوا وہاں پہنچ جاتا۔ میرے موڈ کو دیکھتا کہ میں خاموش بیٹھا ہوں‘ پڑھ لکھ نہیں رہا تو یہ بھی خاموشی سے پاس والی کرسی پر یا صوفے پر بیٹھ جاتا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھتا۔ اگر میں جواب میں مسکراتا تو فوراً گود میں آ کر بیٹھ جاتا۔ حیرت ہوتی کہ کس طرح موڈ شناسی میں طاق ہے۔
واپس اُس دن کی طرف چلتے ہیں جس دن اِن لوگوں کی اپنے گھر کو روانگی تھی۔ سفر کی تیاری کے دوران یہ مسلسل مضطرب رہا۔ پھر جب گاڑی میں سامان رکھا جارہا تھا تو ایک طرف کھڑا دیکھتا رہا۔آخر میں بیٹی بیٹھنے لگی تو یہ غائب تھا۔ سب ڈھونڈنے لگے۔ اوپر کی منزل میں‘ لائبریری کے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا ملا۔ جب بھی بیٹی کچھ دن گزار کر اپنے گھر روانہ ہو رہی ہوتی ہے‘ بڑی بھی اور چھوٹی بھی ‘ میں ایک امتحان سے گزرتا ہوں۔ ایک تو لمحۂ موجود کی اذیت ہوتی ہے۔دل ڈوبتا ہے۔ اس کیفیت کوایک بیٹی کا باپ ہی سمجھ سکتا ہے اس لیے کہ ابھی تک دنیا کی کسی زبان کی لغت میں ایسے الفاظ وجود میں نہیں آئے جو اُس کیفیت کو ادا کر سکیں جو بیٹی کی روانگی کے وقت ایک باپ پر طاری ہوتی ہے۔ یہ چند لمحے‘ جب ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کرتا ہے‘ جب بیٹی ‘ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے‘ ہاتھ ہلاتی ہے‘ جب پہیے حرکت میں آتے ہیں‘ پھر جب تک گاڑی نظر سے اوجھل نہیں ہو جاتی‘ آنکھیں اس پر جمی رہتی ہیں‘ یہ چند لمحے اُن برسوں کو ایک فلیش لائٹ کی طرح سامنے لے آتے ہیں جو بیٹی نے یہاں‘ اپنے ماں باپ کے گھر‘ گزارے ہوتے ہیں! کس طرح‘ مصلے پر بیٹھ کر باپ نے دعائیں مانگی ہوتی ہیں کہ تیرا شکر ہے کہ بیٹے عطا کیے ہیں! اس بار بیٹی عطاہو! پھر اس کی پیدائش پر کیا کیا جشن برپا ہوتے ہیں۔ چلنا شروع کرتی ہے تو باپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی انگلی پکڑ کراپنے چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ ‘ گلی میں ‘ اس کے ساتھ ساتھ ‘ چلے۔ پھر بڑی ہوتی ہے تو جیسے ایک فرشتہ آسمان سے اُترتا ہے باپ کا خیال رکھنے کے لیے! دوا سے لے کر لباس تک ہر شے کی اسے فکر ہوتی ہے۔
ایک تو روانگی کے وقت لمحۂ موجود کی اذیت! دوسرا یادوں کی واپسی!
وقت ری وائنڈ ہوتا ہے۔ کس طرح امی جان‘ کچھ دن اپنے ماں باپ کے ساتھ گزار کر‘ واپس آرہی ہوتی تھیں! اُس دن صبح ہی سے ہماری نانی جان کو چُپ لگ جاتی تھی۔ نانا جان ملازم کو گھوڑی تیار کرنے کا کہتے تھے۔ یہ ملازم ہماری پیدائش سے بہت پہلے کا ‘ یہاں رہتا تھا۔ اس کا نام آج بھی معلوم نہیں اس لیے کہ ہم اسے '' ماما ڈنگراں آلا‘‘ (مویشیوں والا ماموں ) کہتے تھے۔ یہی اس کا گھر تھا۔ کبھی سال دو سال بعد ایک بار اپنے اصل گاؤں کا چکر لگاتا تھا۔ یہ بھی یاد ہے کہ ہر عید پر بسیار خوری کرتا۔ مٹی کی بڑی پلیٹ کو طباق کہتے تھے۔ بھرا ہوا طباق‘ مکھڈی حلوے کی چوٹی نکلی ہوئی! اس سے عید کی دوپہر وہ کھانے کا آغاز کرتا۔ اسے ختم کرنے کے بعد چاول‘ گوشت ‘تنور کی روٹیاں اور کھیر ! ہر عید کے دوسرے دن ماما ڈنگروں والا ‘ باقاعدگی سے سوء ہضم کا شکار ہوتا! اُن دنوں گاؤں کیا شہر میں بھی اینٹی بائیوٹک ادویات متعارف نہیں ہوئی تھیں۔گاؤں میں تو آج بھی نہیں ! مامے کے لیے سونف اور اجوائن کے کاڑھے بنتے‘ بار بار سبز چائے پیتا! پھلکا اسے مونگ کی دال کے ساتھ دیا جاتا۔ تب گاؤں میں بیمار کے لیے صرف پیاز‘ لہسن اور اناردانے کا سالن سا بھی بنایا جاتا۔ اسے بھی کاڑھا ہی کہتے تھے۔ بہر طور‘ گھوڑی آراستہ کر کے‘ حویلی کے مین دروازے پر لائی جاتی۔ روانگی سے پہلے ‘ نانا جان سفر کی دعا کرتے جس میں سب ‘ ہاتھ اٹھا کر ‘ شامل ہوتے۔ ادھر سے بڑے یا چھوٹے ماموں ہماری امی جان کو سوار ہونے میں مدد دیتے۔ دوسری طرف ‘ نانا جان‘ رکاب کو پکڑ کر نیچے کی طرف رکھتے۔ آج کل تکریم کی نشانی یہ ہے کہ آپ دوسرے کو بٹھانے کے لیے کار کا دروازہ خود کھولیں اور جب سواری بیٹھ جائے ‘ تو دروازہ آپ خود بند کریں۔ جس زمانے کی بات اوپر ہو رہی ہے ‘ اُس وقت تکریم کی ایک علامت یہ بھی ہوتی تھی کہ گھوڑی کی رکاب دوسری طرف سے پکڑ کر نیچے کی جانب رکھی جائے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ زین ‘ ایک طرف سرک نہ جائے۔ گھوڑی جب تک اوجھل نہ ہو جاتی‘ نانا جان‘ ساکت کھڑے رہتے ‘ دیکھتے رہتے اور مسلسل کچھ پڑھتے رہتے۔
بات یہ ہورہی تھی کہ اوپر کی منزل میں‘ لائبریری کے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا ملا۔ اسے لا کر پچھلی سیٹ پر بٹھایا گیا۔ گاڑی چلی اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ اس کے بعد کی روداد بیٹی نے تین چار دن بعد فون پر بتائی۔ سارا راستہ اُس نے ادھر ادھر نہ دیکھا۔ چپ چاپ سیٹ پر ایک گٹھری کی مثال پڑا رہا۔ گھر پہنچ کر اسے گاڑی سے اتارا گیا۔ مگر اس نے چلنا پھرنا مکمل بند کر دیا۔ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ کبھی سامنے خلا میں دیکھتا کبھی یوں لگتا جیسے سو رہا ہے۔شام ہوئی‘ پھر رات آئی‘ اسی طرح بیٹھا رہا۔ کچھ کھایا نہ پیا! دوسری صبح بیٹی اُٹھی تو یہ غائب تھا۔ کچن میں گئی تو ریفریجریٹر کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پکڑ کر نیچے اتارا‘ چمکارا مگر کھانا بِلّے نے اس دن دوپہر کو بھی نہ کھایا۔ بیٹی پریشان ہو گئی۔ سلوتری کے پاس لے گئی اور سارا قصہ سنایا۔ سلوتری نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ بِلّا نانو گھر سے واپس نہیں آنا چاہتا تھا۔ اب وہ ڈپریشن (Feline Depression) میں ہے۔ ایک دو دن میں نارمل ہو جائے گا۔
چند دن بعد میں بیٹی کو ملنے گیا۔ کَیٹ ٹری پر ( ایک چبوترہ نما چیز ہوتی ہے) بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی میں بیٹھا‘ چھلانگ لگا کر میرے پاس آگیا۔ خر خر کرتے ہوئے پہلے میرا طواف کیا۔ پھر گود میں آگیا۔ بار بار اپنا منہ میرے ماتھے اور چہرے کے قریب کرتا۔ اتنا کہ اس کے بال مجھے چھو لیتے۔
اتنی محبت ! اتنی بے لوث محبت ! مجھ سے کوئی کام بھی نہیں۔ کسی کو ملازمت دلوانی ہے نہ کوئی اور غرض ہے۔ پھر بھی اتنی اہمیت ! اتنی عزت افزائی! خدا کا شکر ہے کہ پی آر کا مرض صرف انسانوں تک محدود ہے۔اور خدا کا مزید شکر ہے کہ ابھی اس دنیامیں چوپائے موجود ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, March 08, 2021

-کے لیے ہی کچھ کہہ دیجیے Face Saving



گلیوں محلوں میں عورتیں جھگڑتی ہیں تو ایک خاص تکنیک استعمال کرتی ہیں! یہ تکنیک منجنیق کا کام کرنے کے علاوہ لڑائی کو طول دینے کے کام بھی آتی ہے۔ تکنیک یہ ہے کہ الزام کا جواب نہیں دینا‘ اپنی صفائی نہیں پیش کرنی! اس کے بجائے، الٹا، فریق مخالف پر جوابی الزام عائد کرنا ہے۔ ایک عورت دوسری کے میاں پر الزام لگاتی ہے تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ اس کے میاں پر زیادہ بھیانک الزام لگا دو!
ہمارے سیاست دانوں نے بھی ہمیشہ یہی تکنیک استعمال کی۔ الزام لگا تو اس پر شرم محسوس کی نہ حیا‘ الٹا جوابی الزام داغ دیا۔ ایک فریق نے سرے محل کا الزام لگایا تو الزام کا انکار کیا نہ اقرار! بس جواب میں لندن اپارٹمنٹس کا الزام لگا دیا۔ اپنا دفاع کسی نے نہ کیا۔ گویا وتیرہ، عملاً یہ رہا کہ ہاں! میں نے ایسا کیا ہے تو تم نے بھی تو یہ کیا ہے!
عمران خان صاحب جب اس سیاسی دنگل میں داخل ہوئے تو انہیں یہ فائدہ تھا کہ کبھی حکومت میں نہیں رہے تھے۔ الزام لگا سکتے تھے۔ ان پر الزام نہیں لگ سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ دوسروں کو دیکھ چکے ہیں، اب انہیں آزمانا چاہیے۔ بیس بائیس سال ان کی سیاست الزامی سیاست ہی رہی! حکومت ملی تو ان کے مداح توقع کر رہے تھے کہ وہ الزامی سیاست کے ساتھ اب دفاعی سیاست بھی کریں گے اور دوسروں کے برعکس، اپنے پر لگے الزامات کا جواب دیں گے، اپنی صفائی پیش کریں گے اور یوں ایک نئی طرز ڈالیں گے‘ مگر افسوس ایسا نہ ہوا! ہر کہ در کانِ نمک رفت، نمک شد! حکومت میں آئے تین سال ہونے کو ہیں۔ اس عرصے میں ان پر کئی الزام لگے جن میں سے کچھ بہت سنجیدہ ہیں‘ مگر عمران خان صاحب ایک روایتی سیاستدان ہی ثابت ہوئے۔ آج تک کسی الزام کا جواب دیا نہ جواب دینے کی ضرورت ہی محسوس کی۔ حکومت میں آنے سے پہلے ان کی سب سے بڑی طاقت اخلاقی برتری کا دعویٰ تھا۔ یہ کہ وہ وعدے پورے کریں گے۔ یہ کہ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ یہ کہ وہ کرپٹ عناصر کو اپنے گروہ میں نہیں شامل کریں گے وغیرہ؛ تاہم عہد و پیمان کے یہ سارے چاند، بادل کے ٹکڑے ثابت ہوئے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ کسی الزام کا جواب دینا پسند نہیں کرتے! اب الزام کا جواب نہ دینے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں! ایک وجہ یہ ہے کہ الزامات سچے ہیں! جواب کیا دیا جائے! دوسری وجہ استکبار بھی ہو سکتا ہے کہ حریف کو جواب دینے کے قابل ہی نہ سمجھا جائے! یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب وزیر اعظم کے معاملے پر دونوں وجوہ کا اطلاق ہو رہا ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ کیا کیا الزامات ہیں۔
٭ حال ہی میں منتخب عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کا اعلان ہوا تو معاملہ عدالت تک گیا۔ حکومت نے کہا کہ کوئی فنڈز نہیں دیے جا رہے؛ تاہم ایک معزز جج نے کہا کہ این اے 65 میں، حکومت کے اتحادیوں کو بھاری فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ اس کا جواب کسی نے نہیں دیا۔ اس پر مستزاد، قومی اسمبلی کے نمائندے جناب عبدالاکبر چترالی کا بیان ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔ چترالی صاحب نے کہا ہے ''سینیٹ کے انتخاب میں وزیر اعظم نے مجھے آفر کی۔ وزیر اعظم نے نمائندے کے ذریعے پیغام دیا کہ جہاں کہیں گے‘ ملاقات کرنے آؤں گا۔ مجھے ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا گیا۔ میں نے کہا‘ آپ جھوٹ بول رہے ہیں‘ اور یہ رشوت ہے‘‘۔ اگر یہ الزام غلط ہے تو اس کی تردید آنی چاہیے۔ اگر درست ہے تو دعویٰ کہاں گیا؟
٭ کچھ ہفتے پہلے کئی اینکرز نے پے در پے وزیر اعظم کے انٹرویوز، مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کیے۔ ایک اینکر نے پوچھا کہ پنجاب کی فلاں شخصیت کو آپ نے ڈاکو کہا تھا مگر اب وہ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اب یہ عجیب صورت حال ہے کہ کچھ کو آپ اب ڈاکو کہہ رہے ہیں اور رات دن کہہ رہے ہیں‘ مگر جنہیں آپ نے ماضی میں ایسا کہا، وہ آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں اور آپ کے سپورٹر ہیں۔ اس کی کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟ اخلاقی برتری اس میں تھی کہ مان لیا جاتا کہ پہلی بات، یہ بھی، اور چپڑاسی والی بھی، غلط کہہ دی تھی!
٭ سولہ ارکان کا فروخت ہونا اور پھر انہی سے اعتماد کا ووٹ مانگنا‘ ایک سیریس الزام ہے۔ دعووں کی رُو سے تو ان ارکان کے خلاف فوری ایکشن ہونا چاہیے تھا‘ مگر اب انہی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اعتماد کی سیڑھی پر چڑھا گیا۔
٭ وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد سترہ سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اب تعداد نصف سنچری کو عبور کر چکی ہے۔ اس کے بارے میں وہ کوئی بات نہیں کرتے۔
٭ جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ ہاں! ایک مضحکہ خیز اقدام یہ کیا گیا ہے کہ دو افسر تعینات کر دیے گئے ہیں۔
٭ شد و مد سے دعویٰ کیا گیا تھا اور وعدہ بھی کہ گورنر ہاؤس پنجاب اور وزیر اعظم ہاؤس قسم کی عمارتوں میں یونی ورسٹیاں کھولی جائیں گی۔ یہ وعدہ بھی وعدۂ معشوق ثابت ہوا۔
٭ ان پر چینی مافیا، پٹرول مافیا، آٹا مافیا اور میڈیسن مافیا کے حوالے سے بہت سنجیدہ الزامات ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، وہ ان میں سے کسی الزام کا جواب نہیں دے رہے۔ آخر چینی کو پچاس سے ایک سو بیس پر لانے کا کوئی تو ذمہ دار ہو گا۔ تو خاموشی کیوں؟ جن صاحب پر ادویات کی گرانی کا الزام تھا انہیں وزارت سے ہٹا کر پارٹی کا اہم منصب دے دیا گیا۔
٭ وزیر اعظم کے ایک قریبی ساتھی کے بارے میں عدالت نے دو دن پہلے تفصیلی فیصلہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ سربراہِ حکومت کی اخلاقی برتری کے دعوے پر ایک نہایت سنجیدہ سوال اٹھا رہا ہے۔ فیصلے کی رُو سے ان کے ساتھی کا بیان حلفی بادی النظر میں جھوٹا ہے۔ یہی کچھ تو اس بد قسمت ملک میں موجودہ حکومت سے پہلے بھی ہو رہا تھا۔ کیا جناب وزیر اعظم اپنے ساتھی سے اعلان برأت کریں گے؟
الزامات اور بھی ہیں۔ آج تک کسی الزام کا جواب نہیں دیا گیا۔ نہلے پر دہلا یہ کہ جب ان الزامات کا ذکر کیا جاتا ہے تو آگے سے کہا جاتا ہے کہ ماضی کے حکام کون سے فرشتے تھے؟ ارے بھائی! کس بد بخت نے ماضی کے حکمرانوں کی طرف داری کی ہے؟ ان کا بُرا ہونا تو مسلمہ ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ یہ سب کچھ جو آپ انہی کی طرح کر رہے ہیں، اس کا کیا جواز ہے؟ اور یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کے چہرے پر سے نقاب اٹھانے والا ہر شخص زرداری صاحب کا یا نواز شریف صاحب کا ہم نوا ہے؟
افسوس! صد افسوس! اخلاقی برتری، دیانت، سچائی اور ایفائے عہد کا جو خواب اس کالم نگار سمیت، بہت سوں نے دیکھا تھا، اس کی تعبیر تیرہ بختی کے سوا کچھ نہیں نکلی!؎
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟
زمانے سے لڑائی مول لے، تجھ سے بُرا بھی ہو؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, March 04, 2021

…ایسا نہ ہو مولانا کا نام بھی



مولانا صاحب کے کاروبار شروع کرنے والا مسئلہ ٹاک آف دی ٹاؤن بن چکا ہے جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، کچھ تبصرے موافقت میں تو کچھ مخالفت میں آ رہے ہیں۔
سیاست کی طرح کاروبار میں بھی مذہب کا استعمال اس معاشرے کے لیے کوئی انوکھی چیز نہیں۔ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ دنیا میں آج تک کوئی غیر اسلامی یا مسیحی یا یہودی یا ہندو شہد نہیں دیکھا گیا۔ ایسی اصطلاحات شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں؛ تاہم ہمارے ہاں ''اسلامی شہد‘‘ بیچا جاتا ہے۔ اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے
کیا مولانا صاحب کا تجارتی برانڈ بھی اسی قبیل کا کاروبار ہے؟ کیا یہ بھی مذہب کو بزنس کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے؟ سچ پوچھیے تو ہے تو سہی۔ مولانا کے لاکھوں عقیدت مند والہانہ طور پر اس برانڈ کی طرف لپکیں گے‘ مگر مولانا کو شک کا فائدہ دینا پڑے گا‘ اس لیے کہ وہ اسے اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لیے نہیں لانچ کر رہے۔ ان کا تعلق، ماشااللہ، ایک خوشحال گھرانے سے ہے۔ ارادہ ان کا نیک ہے۔ وہ مدارس کو زکوٰۃ اور چندے کی بیساکھی سے ہٹا کر اپنے پَیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی کو وہ مدارس پر خرچ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک لائق تحسین بلکہ انقلابی کاوش ہے۔ خدا کرے‘ ایسا وقت آئے کہ اسلامی مدارس مخیّر حضرات کے محتاج نہ رہیں۔
مگر مولانا صاحب کے حوالے سے جو سوال ایک متفکر پاکستانی کو درپیش ہے وہ اور ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو مولانا کے طرزِ تقریر اور اندازِ تبلیغ کو پسند کرتے ہیں وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور گومگو کی کیفیت میں ہیں؛ تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ زیادہ دیر انتظار نہ کریں! موجودہ وزیر اعظم نے جب ملک کو ریاست مدینہ کے خطوط پر چلانے کا اعلان کیا تو مولانا نے اپنا پورا وزن وزیر اعظم کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی اقدام تھا۔ یہ ایک خطرناک فیصلہ بھی تھا۔ جو لوگ مولانا کے شیدائی تھے ان کا تعلق کسی ایک سیاسی پارٹی سے نہ تھا۔ وہ پی پی پی سے بھی ہو سکتے تھے، مسلم لیگ سے بھی اور تحریک انصاف سے بھی‘ کیونکہ مولانا سے وابستگی کی وجہ مولانا کا سیاسی میلان نہ تھا بلکہ ان کی دینی خدمات تھیں۔ پھر وہ موڑ آ گیا جب مولانا ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی حمایت میں واضح طور پر، کسی ابہام کے بغیر، میدان میں اتر آئے۔ اب ان کے شیدائی ( فَین) دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے ان کے اس جھکاؤ کو سراہا اور دوسرے نے نا پسند کیا۔ یقیناً ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے صرف مولانا صاحب کی اتباع میں وزیر اعظم سے امیدیں وابستہ کر لیں! یہ آخری طبقہ اخلاقی لحاظ سے مولانا کی ذمہ داری (liability) بن گیا‘ یعنی اب وہ مولانا صاحب سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے ریاست مدینہ کے جس اعلان کی وجہ سے وزیر اعظم کی حمایت کی تھی اور پھر آپ کی اتباع میں ہم نے بھی حمایت کی، کیا اُس اعلان کے تقاضوں پر وزیر اعظم پورے اتر رہے ہیں؟ کیا مولانا اس حوالے سے مطمئن ہیں؟ اگر مطمئن ہیں تو ہمیں بھی اس اطمینان کا سبب بتائیں! اور اگر مولانا مطمئن نہیں تو وہ اس عدم اطمینان کا اظہار کیوں نہیں کر رہے؟
مولانا نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بھاری ذمہ داری اپنے سر لے لی! ان کے وابستگان پوچھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے پنجاب کی حکمرانی کے لیے جن صاحب کو چنا، کیا مولانا اس سے مطمئن ہیں؟ شاید ہی ملک کا کوئی طبقہ ہو جس نے اس انتخاب پر مایوسی کا اظہار نہ کیا ہو۔ خود تحریک انصاف کے لوگ اس کا دفاع نہیں کرتے‘ نہ کر سکتے ہیں۔ مولانا کا کیا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے اس ضمن میں ''اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی اَہْلِھا‘‘ کا خدائی تقاضا پورا کیا ہے؟ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے ''جمع الفوائد‘‘ کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے، اسے مولانا صاحب نے ضرور دیکھا ہو گا۔ یہ جسم پر کپکپی طاری کر دینے والی حدیث ہے! مفتی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ''جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی!‘‘
ریاست مدینہ کی بنیاد تو اس ارشاد نبوی پر قائم تھی کہ ''لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہ‘‘ تو کیا بلند ترین سطح پر کیے گئے وعدے پورے کیے جا رہے ہیں؟ اس وعدے کا کیا ہوا کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد سترہ سے زیادہ نہ ہو گی؟ اس وعدے کا کیا بنا کہ پٹرول سستا کیا جائے گا؟ اس وعدے کا کیا ہوا کہ عوام کی جیبوں سے ہر سال جو دس ارب پی ٹی وی کے لیے نچوڑا جاتا ہے وہ نہیں لیا جائے گا؟ سرکاری رہائش گاہوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کا وعدہ کہاں گیا؟ ذاتی دوستوں کو، جو پاکستان میں پیدا ہوئے نہ یہاں ان کا بزنس ہے نہ کچھ اور، بڑے بڑے طاقت ور مناصب کس حساب سے دیے گئے؟ کیا ریاست مدینہ میں جنہیں ڈاکو کا خطاب دیا جاتا تھا، انہیں بعد میں بڑے بڑے عہدے دیے جاتے تھے؟ جنہیں چپڑاسی رکھے جانے کے قابل بھی نہیں قرار دیا جاتا تھا، کیا بعد میں انہیں حساس نوعیت کی وزارتیں دے دی جاتی تھیں؟ اگر یہ سب کچھ غلط ہے ، اور یقیناً غلط ہے تو ان تمام معاملات پر مولانا صاحب کی خاموشی ان کے وابستگان کے لیے شدید صدمے کا باعث ہے۔ امر بالمعروف کے ساتھ، دوسرا جزو، نہی عن المنکر بھی ضروری ہے۔ اور مولانا صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ
اگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم گناہ است
اگر نابینا کے راستے میں کنواں ہے تو خاموش رہنا گناہ ہے۔ اور اگر کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کنویں کی طرف جا رہا ہے تو روکنے کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔
مولانا کی خدمات دینی اور معاشرتی سلسلے میں کسی تعارف یا تعریف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے فرقہ واریت کم کرنے کے لیے بھی بہت کوشش کی ہے۔ ہر مکتبِ فکر کے علم برداروں میں ان کا نام عزت اور محبت سے لیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نظام میں حقوق العباد کا حصہ کمزور ہے، اسے مولانا نے مسلسل اپنے بیانات کا موضوع بنایا اور کمی ایک حد تک دور کی۔ اہل بیت عظامؓ پر ان کی حالیہ تالیف بھی ایک بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے ہمیشہ محبت اور برداشت کا درس دیا ہے مگر خوگرِ حمد سے یہ شکوہ بھی سماعت فرمائیں کہ وزیر اعظم صاحب کی برملا حمایت کر کے جو ذمہ داری انہوں نے اپنے اوپر لی ہے اسے از راہ لطف و عنایت پورا بھی کریں۔ وزیر اعظم آپ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کو بھی ان پر مان ہے۔ انہیں بتائیے کہ پانی سر سے اونچا ہونے کو ہے۔ عہد و پیمان کی کیاریاں پھولوں کے بجائے جھاڑ جھنکاڑ سے اٹتی جا رہی ہیں۔ جن شاخوں پر زرق برق طائر بٹھانے کا وعدہ تھا وہاں زاغ و زغن براجمان ہیں۔ یوں نہ ہو کل باغ کی لمبی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر قسمت رو رہی ہو، ہر طرف خشک پتوں کا راج ہو اور سبزے پر شبنم کی جگہ ماتھے پر پچھتاوے کے قطرے ہوں!
ایسا نہ ہو کل کا مورخ مولانا صاحب کا نام بھی خزاں کے باب میں لکھ رہا ہو۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, March 02, 2021

“ میں نہ مانوں “ والا رویّہ


جتنے مضبوط اعصاب ہم مسلمانوں کے بالعموم اور ہم پاکستانیوں کے بالخصوص واقع ہوئے ہیں ‘ کم ہی کسی کے ہوں گے! یہ ایک تقریر تھی جو وڈیوپر میں نے سنی‘ مگر افسوس تقریر پر نہیں‘ اُن بیشمار کمنٹس پر ہوا جو ناظرین اور سامعین نے نیچے دیے تھے۔ کس کس سے بحث کریں گے اور کس کس کو سمجھائیں گے ! ۔
تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں
حضرت یہ سمجھا رہے تھے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے والی بات میں کوئی حقیقت نہیں۔ دلیل ایسی تھی کہ سن کر سکتہ طاری ہو جائے۔ ہنسی آجائے یا گریہ طاری ہو جائے۔فرمایا کہ جہاں تک ہسپانیہ اور بغداد کے زمانۂ عروج کا تعلق ہے تو اُس زمانے کی سائنسی ایجادات میں مسلمانوں کا کنٹری بیوشن اور مسلمانوں کی کامیابیاں مسلمہ ہیں۔ جغرافیہ تھا یا الجبرا‘ ستارہ شناسی تھی یا میڈیکل سائنس‘ قیادت ہر شعبے کی مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں تھی۔ رہا موجودہ دور تو بقول ان کے‘ سائنسی کامیابیاں تمام دنیا کے لوگوں کی مشترکہ ہیں۔ برہانِ قاطع جو اس کے حق میں انہوں نے پیش کی یہ تھی کہ امریکی ادارہ ''ناسا‘‘ ( نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن ) جو خلائی ریسرچ اور پروگراموں پر کام کرتا ہے ‘ تمام دنیا کے سائنسدانوں پر مشتمل ہے اور ان میں مسلمان بھی شامل ہیں !چنانچہ موجودہ عہد کی سائنسی ترقی کا سہرا صرف اہل ِمغرب کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ اس سنہری دلیل پر کمنٹس کرنے والے جوشیلے اہلِ ایمان نے داد و تحسین کے وہ ڈونگرے برسائے تھے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ایک صاحب قمار بازی میں لگے ہوئے تھے اور مسلسل ہار رہے تھے۔ جو نقدی پاس تھی ‘ لٹا چکے تو مکان داؤ پر لگا دیا۔ وہ بھی ہار گئے اور باقی کچھ نہ بچا تو بیوی کو داؤ پر لگا دیا ‘ بیوی نے سمجھایا کہ ایسا نہ کرو‘ آج جیت تمہاری قسمت میں نہیں‘ یہ مجھے لے جائیں گے۔ اعصاب ان صاحب کے ہم لوگوں کی مثال تھے۔مضبوط ! بے حد مضبوط! کہا: نیک بخت ! میں ہار مانوں گا تو لے جائیں گے نا ! میں تو مانوں گا ہی نہیں ! منطق ہم لوگوں کی عجیب و غریب ہے۔ اب نئی نئی دلیلیں سننے میں آرہی ہیں۔ کسی سے پوچھئے آپ نے وعدہ کیا تھا‘ کیوں نہیں پورا کیا؟ جواب ملے گا ‘ وعدہ نہیں کیا تھا بس ایک بات کی تھی۔ غلطی انفرادی ہو یا اجتماعی‘ ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ! اور ایسے ایسے عذر پیش کرتے ہیں کہ سننے والے کا دل چاہتاہے گریباں چاک کر کے جنگل کی طرف نکل جائے۔
ہسپانیہ اور بغداد کے عہد ِعروج کی کامیابیاں تو آپ ساری کی ساری اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور آج کے مغرب کی سائنسی فتوحات میں اپنا حصہ جتاتے ہیں۔ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا۔ عباسیوں کے بغداد میں اہلِ ہند بھی موجود تھے اور قرطبہ‘ غرناطہ‘ طلیطلہ اور اشبیلیہ میں یہودی سکالر اور سائنسدان بھی سرگرم عمل تھے کیونکہ مسلمان حکومتیں اس معاملے میں لبرل تھیں اور غیر مسلموں کے حقوق برابر کے تھے۔ تو پھر اُس زمانے کی ترقی اور ایجادات کا کریڈٹ بھی صرف مسلمانوں کو کیوں دیا جائے۔ پھر بات قیادت کی بھی ہوتی ہے۔ کولمبس جب نئی دنیا کی تلاش میں نکلا تو اس کے بحری بیڑے میں ہسپانیہ کے مسلمان جہاز ران اور نیوی گیٹر بھی شامل تھے مگر قیادت کولمبس کے ہاتھ میں تھی اس لیے کریڈٹ اسی کو ملا۔ ناسا کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے؟ آخر ہم اپنے سائنسدانوں کیلئے کسی مسلمان ملک میں ناسا جیسا ادارہ کیوں نہیں بنا سکے ؟ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ ایسے ادارے مسلمان ملکوں میں بنتے اور مغرب کے سائنسدانوں کو ان میں کام کرنے کے مواقع دیے جاتے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ کے ناسا میں مسلمان اہلِ علم کو مواقع میسر آرہے ہیں۔ اور یہ بھی ماننے کو ہم کہاں تیار ہوں گے کہ مغرب کے حکمرانوں کی ترجیحات اور ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں تو جزیرے خریدے جاتے ہیں۔ ایک ایک یاٹ ( تفریحی بجرا) کروڑوں ڈالر میں لیا جاتا ہے۔ خالص سونے کی کاریں بنوائی جاتی ہیں۔ لندن کا سپر سٹور اتوار کو بند ملے تو اسی دن اپنی ملکیت میں لے لیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک بادشاہ سلامت انڈونیشیا کے دورے پر گئے تو وہاں کے تفریحی مقام بالی بھی تشریف لے گئے۔ درجنوں پروازوں میں تو ان کا ذاتی سامان گیا۔ ہزار کے لگ بھگ شاہی خاندان کے ارکان ساتھ تھے۔ مرسڈیز کاریں جہازوں پر ساتھ لے جائی گئیں۔ یہاں تک کہ جہاز سے اُترنے کی سنہری سیڑھی بھی اپنی لے کر گئے۔ فرانس میں پورا ساحل بُک کرا لیا۔ وہاں کے عوام نے احتجاج کیا تو لوٹ آئے۔ مراکش کے ساحلوں پر ان بادشاہوں کے میلوں تک پھیلے ہوئے قطار اندر قطار محل اس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ دل کا علاج کرانے امریکی ہسپتالوں میں جاتے ہیں تو پورے پورے فلور ہوٹلوں کے بُک کرا تے ہیں اور کمروں کے کنڈے تالے اور باتھ روموں کی ٹونٹیاں سونے کی لگواتے ہیں۔ مغرب کے حکمران سرّے محلات خریدتے ہیں نہ لندن کے مہنگے اپارٹمنٹس۔ بجائے اس کے کہ آپ اپنے حکمرانوں کو پر تعیش زندگی سے روکیں اور ذاتی جاگیریں اور جہاز خریدنے سے منع کریں‘ مسلمانوں کو یہ کہہ کر خواب آور گولیاں کھلا رہے ہیں کہ آج کی ایجادات میں سب کا حصہ ہے۔ پینسلین کس کی دریافت ہے ؟ ہوائی جہاز بنانے والے رائٹ برادران کیا اوکاڑہ کے تھے یا بصرہ کے ؟ ٹرین کس نے بنائی؟ دنیا کی پہلی کار کہاں بنی اور کہاں چلی ؟ پریس پہلے پہل کہاں لگا؟ٹیلیفون کس کا کارنامہ ہے ؟ بلب بنانے والا ایڈیسن کیا اصفہان کا رہنے والا تھا ؟بھاپ سے چلنے والا ( سٹیم ) انجن کہاں وجود میں آیا؟ ٹرانزسٹر کہاں بنا؟ غالب دیاسلائی پر کیوں حیران ہوئے کہ فرنگی جیب میں آگ لیے پھرتے ہیں !اینٹی بایوٹک دوائیں جو کروڑوں اربوں انسانوں کی جانیں بچا رہی ہیں ‘ لوئی پاسچر اور رابرٹ کوچ نے 1877ء میں سب سے پہلے تجویز کیں۔ ریفریجریٹر اور ٹیلی وژن کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ پھر ہم میں ایک اور اندرونی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ کالجوں یونیورسٹیوں والے اہل ِمدرسہ کو مطعون کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ہیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ جو درسِ نظامی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ اہلِ مدرسہ جواب دیتے ہیں کہ تم کالج یونیورسٹی والوں نے کیا تیر مار لیا اور کیا ایجاد کیا؟ دونوں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ مدرسہ اور غیر مدرسہ کی تفریق بے معنی ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ زوال مسلمانوں کاہوا ہے۔ مدرسہ والوں کا یا کالج والوں کا نہیں ہوا۔اور اہلِ مدرسہ ہی کو کیوں طعنہ دیا جائے ؟ جو ہارورڈ اور آکسفورڈ گئے انہوں نے کیا کیا؟ آج تک آئی ایم ایف سے نجات کیوں نہ حاصل کی ؟ اتنی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر‘ پاکستان ریلوے کے ساتھ کیا کیا ؟ سٹیل مل اور قومی ایئر لائن کو نشانِ عبرت کس نے بنایا ؟ خدا کے بندو آپس میں جھگڑا نہ کرو! مغرب کے مقابلے میں صرف مدرسہ والے یا کالج والے پسماندہ نہیں‘ صرف شیعہ یا سْنّی پیچھے نہیں رہ گئے۔ صرف عرب‘ صرف ایران ‘ صرف ترکی یا صرف پاکستان کا معاملہ نہیں۔ جب بھی اہل ِمغرب الزام لگاتے ہیں ‘ درست الزام یا غلط الزام‘ عسکریت پسندی کا یا اقتصادی اور سائنسی پسماندگی کا‘ تو مدرسہ پر یا کالج پر یا شیعہ پر یا سنی پر نہیں لگاتے۔ صرف اور صرف مسلمانوں پر لگاتے ہیں اور مسلمان ‘ ہم سب ہیں۔ کم از کم غیر مسلم ہم سبھی کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔
اپنی غلطی ‘ اپنا تنزل ‘ تسلیم کرنے میں کوئی توہین نہیں۔یہی تو حالی مسدسِ حالی میں رونا روتے رہے۔ کاش یہ کتاب‘ مدرسوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کر لی جاتی! کاش ہم جاگ اُٹھتے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, March 01, 2021

تو پھر یہ لیجیے


کچھ قارئین نے شکوہ کیا ہے کہ روتے دھوتے ہی رہتے ہو، کبھی کوئی خوش ہونے والی بات بھی لکھ دیا کرو۔ سو، آج ایک روح افزا قسم کا کالم پیش خدمت ہے۔
ڈسکہ میں اول تو کچھ ہوا ہی نہیں، اور اگر کچھ ہوا ہے تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ اور یہ ہوائی تو کسی دشمن نے اڑائی ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ حکومت کا وعدہ تھا کہ اداروں کو مضبوط کرے گی۔ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہو رہا ہے تو یہ تو حکومت کی کامیابی ہے۔ سہرا تو اسی حکومت کے سر ہی بندھے گا کہ اس کے زمانے میں الیکشن کمیشن نے اتنا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور حزب اقتدار نے اس فیصلے کو برضا و رغبت قبول کر لیا۔ یوں بھی موجودہ حکومت کے تھیلے میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ کون سا وعدہ ہے جو اس نے پورا نہیں کیا۔ حسب وعدہ کابینہ کی تعداد سترہ سے اوپر نہیں ہونے دی گئی۔ وزیر اعظم نے اپنے کسی دوست کو اقتدار کے نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ ملک کے ذہین ترین، قابل ترین، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دان کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران مقرر کیا۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے عہد کیا تھا، پی ٹی وی کا ماہانہ ٹیکس، جو بجلی کے بلوں کے ذریعے، عوام سے اینٹھا جاتا تھا اور جو سالانہ اربوں تک پہنچتا تھا، ختم کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو سلوک اس حکومت نے کیا ہے، تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ آتے ہی اسے چلتا کیا۔ دوسرے ترقی پذیر، مقروض، ملکوں کو چاہیے کہ ہماری تقلید کریں۔
یہ خوش خبریاں تو حکومتی حوالے سے تھیں۔ معاشرتی اعتبار سے بھی ہم اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ قوموں کی برادری میں ہمارا نام اب احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی سچ بولنے میں سر فہرست ہیں۔ وعدہ خلافی کی وبا، الحمدللہ ہم میں نہیں پائی جاتی۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی پاکستانی کسی فنکشن میں تاخیر سے پہنچا ہو۔ جتنی تقاریب ہوتی ہیں، ان میں پاکستانیوں کی آمد دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر، ہمارے افسر، ہمارے ورکر، اپنی اپنی ڈیوٹی پر بر وقت حاضر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے محترم وزیر اعظم بھی! اِدھر قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتا ہے، اُدھر وزیر اعظم اجلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے تاجر تابندہ ستاروں کی طرح ہیں۔ توانائی بچانے کے لیے، صبح نو بجے دکانیں کھول لیتے ہیں۔ ٹھیک غروبِ آفتاب کے وقت بازار بند ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ری فنڈ پالیسی ہمارے تاجروں کی بے مثال ہے۔ آپ چھ ماہ بعد بھی خراب مال لے کر دکان دار کے پاس واپس جائیں، خندہ پیشانی کے ساتھ، بسم اللہ بسم اللہ کہہ کر رقم آپ کو واپس کر دے گا۔ پاکستان میں یہ مکروہ فقرہ آپ کو کسی دکان پر لکھا ہوا نظر نہیں آئے گا کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ صرف یہی نہیں ہمارے تاجر ٹیکس بچانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، ہر گاہک کو رسید دیتے ہیں۔ شے بیچتے وقت شے کا نقص ضرور بتاتے ہیں‘ اور کیا مجال جو فٹ پاتھ پر، یا سامنے والی جگہ پر، ناجائز قبضہ کریں۔ اسی لیے ناروا تجاوزات کی بیماری سے ہمارے شہر اور قصبے محفوظ ہیں۔ صرف تاجر برادری ہی نہیں، ہمارے سماج کے تمام طبقات اخلاقی لحاظ سے قابل رشک رویہ رکھتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی شہر میں چلے جائیے، کاغذ کا ٹکڑا اور گھاس کا تنکا تک نہیں دکھائی دے گا۔ چلتی ہوئی قیمتی گاڑیوں سے پھلوں کے چھلکے، چپس کے خالی پیکٹ اور جوس کے خالی ڈبے باہر نہیں پھینکے جاتے۔ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور سگریٹ سلگا کر دیا سلائی باہر سڑک پر پھینکنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ جو مشہور ہے کہ انگریز ایک بھی ہو تو قطار بنا کر کھڑا ہوتا ہے تو اصل میں یہ کہاوت ہم پاکستانیوں کے بارے میں تھی۔ انگریزوں نے ہماری نقل اتارتے ہوئے قطار بندی کا اصول اپنایا اور امتدادِ زمانہ سے یہ محاورہ ان پر چسپاں کر دیا گیا۔
بہت سی معاشرتی برائیاں جو مغربی اقوام میں عام ہیں ہمارے ہاں نہیں پائی جاتیں۔ یہ جو امریکہ اور یورپ میں بیٹی کی پیدائش کا سن کر موت پڑ جاتی ہے، اور عورتوں کو اس جرم میں گھر سے نکال دیا جاتا ہے یا مارا پیٹا جاتا ہے، تو ہمارے ہاں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ سنا ہے کاروکاری، ونی اور سوارہ جیسے پتھر کے زمانے کے رواج یورپ میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ پنچایتیں چھوٹی چھوٹی بچیوں کی شادیاں بوڑھے مردوں سے کرنے کا حکم دیتی ہیں یا عورتوں کو قتل کرا دیتی ہیں تو یہ سارے قابل نفرت اور قابل نفرین دھندے پاکستان میں نہیں چلتے۔ ہمارے ہاں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اپنی پسند سے شادی کرنے کا جو حق مذہب نے عورت اور مرد دونوں کو دیا ہے، اس کی خلاف ورزی کی جائے۔ جہیز کی رسم کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ وہ زمانے گئے جب ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں لڑکیوں کے بالوں میں چاندی چمکنے لگتی تھی۔ غیرت کے نام پر قتل کی ہولناک اور سفاک رسم ختم ہو چکی ہے۔
ہمارے وکیل قانون کے رکھوالے ہیں۔ ججوں کا احترام کرتے ہیں۔ وکیلوں کی جتھہ بندی ہمارے ہاں بالکل نہیں پائی جاتی۔ کچھ عرصہ ہوا ہمارے وکیل بھائی ایک ہسپتال میں گئے اور مریضوں اور ڈاکٹروں کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کیے۔ پولیس ہماری مثالی ہے۔ غریب سے غریب آدمی تھانے جائے تو اس کی درخواست پر ایف آئی آر، ایک لمحہ تاخیر کے بغیر، درج کر لی جاتی ہے۔ جب تک چوری برآمد نہ ہو جائے یا قاتل پکڑا نہ جائے، ہماری پولیس اپنے اوپر آرام حرام کر لیتی ہے۔ تھانوں کے پاس سے گزرتے وقت لوگ تھانوں کی دیواروں کو چومتے ہیں اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر پولیس کو دعائیں دیتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہماری پولیس سیاسی مداخلت سے پاک ہے۔ حکومت سوچ بھی نہیں سکتی کہ پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر سکے۔ یہی حال ڈاکٹروں کا ہے۔ انسانیت کا درد ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں صبح ساڑھے سات بجے ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ انسان نما فرشتے اپنے نجی کلینکس کو آباد کرنے کے لیے ہسپتال آئے ہوئے مریضوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے‘ اور پرائیویٹ کلینک میں پریکٹس کریں بھی تو بہت معمولی فیس لے کر خدمت خلق کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ نرسوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ دوائیں ہمارے ملک میں سستی ہیں اور عوام کی دسترس میں ہیں۔ اتائیوں کے خلاف سخت قوانین ہیں۔
رہے سیاست دان تو دیانت، صداقت اور امانت ان پر ختم ہے۔ اکثر غریب ہیں۔ سادہ لباس پہنتے ہیں۔ عام بسوں اور ٹرینوں میں عوام کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ وزیر بن کر بھی پروٹوکول سے احتراز کرتے ہیں۔ بہت سے تو سائیکلوں پر سوار ہو کر اپنے دفتروں میں آتے ہیں۔ عام محلوں میں چھوٹے چھوٹے سادہ گھروں میں رہتے ہیں۔ غلط کام کے لیے کسی ووٹر کی سفارش نہیں کرتے۔ اکثر سیاست دانوں کے بچے عام ملازمتیں کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ غرض ہمارا ملک ایک مثالی ملک ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنا، ہر امریکی، جاپانی اور یورپین کا خواب ہے۔ یہ اور بات کہ ہماری حکومت نے اس ضمن میں قوانین سخت بنا رکھے ہیں ورنہ دنیا بھر سے آنے والے آبادکار ہم پاکستانیوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیں!
قارئین کی خدمت میں گزارش ہے کہ، اس کالم سمیت، کالم نگار کے گناہوں کی معافی کے لیے دعا کر دیں۔
 

powered by worldwanders.com