Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, November 30, 2019

صرف زمین نہیں، ملکیت بھی گردش میں ہے



‎پجارو تھی یا لینڈ کروزر!جو بھی تھی فاخرہ سواری تھی! اور بالکل نئی نویلی! 

‎نئی نویلی گاڑی رواں دواں تھی، قصبوں، قریوں اور بستیوں کے درمیان، فراٹے بھرتی، ڈرائیور چلا رہا تھا، مالک گاڑی کا نشست پر یوں بیٹھا تھا جیسے گاڑی ہی کا نہیں، کرۂ ارض کا بھی مالک وہی ہو، لباس اس کا سفید لٹھے کی شلوار قمیض تھی، کلف سے کھڑ کھڑاتی ہوئی، انگلیوں میں سونے کی اور چاندی کی اور عقیق کی انگوٹھیاں پہنے تھا- گردن اس کی تنی ہوئی تھی۔ 

‎راستے میں ایک شخص نے گاڑی کو ہاتھ دیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک لی، عجیب آدمی تھا یہ گاڑی کو روکنے والا، قلاش، مفلس، سرپر چارخانے کا چیتھڑا نما رومال لپیٹے، پائوں میں ٹوی ہوئی چپلیں، ایک بوسیدہ تھیلا ہاتھ میں! ڈرائیور نے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا، کیا مجھے فلاں بستی تک لے جا سکتے ہیں؟ ڈرائیور نے سوالیہ نظروں سے مالک کی طرف دیکھا، سچ تو یہ ہے کہ مالک کو ڈرائیور کی یہ حرکت قطعاً پسند نہیں آئی تھی کہ وہ کسی کے ہاتھ لہرانے سے گاڑی روک لے، مگر نہ جانے اس کے دماغ میں کیا لہر اٹھی کہ اس بدحال راہگیر کو گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی تکبر سے پوچھا کیا کرتے ہو؟ اس نے مختصر جواب دیا، جی، بستی بستی گائوں گائوں پھر کر سیپارے بیچتا ہوں! پھر وہ زیر لب ذکر اذکار میں مشغول ہو گیا۔مالک کی گردن پھر تن گئی، گاڑی پھر فراٹے بھرنے لگی۔ 

‎جس گائوں میں سیپارے بیچنے والے مفلس نے اترنا تھا، اتر گیا، سفر رواں دواں رہا۔ یہاں تک کہ وہ قصبہ آ گیا جو اس خوشحال شخص کی منزل تھی۔ رات اس نے اپنے میزبان کے ہاں قیام کیا۔ المیہ یہ ہوا کہ صبح اٹھا تو گاڑی غائب تھی۔ 

‎فوراً پولیس رپورٹ کرائی گئی۔ یہ آسودہ حال لوگ مضبوط روابط رکھتے تھے۔ کیا ڈپٹی کمشنر اور کیا پولیس افسران، سب سے واقفیت تھی۔ ہر سطح پر کوشش ہوئی، گاڑی نہ ملنا تھی، نہ ملی! کسی نے رائے دی کہ پولیس تو تلاش کر ہی رہی ہے، اس قصبے میں ایک بزرگ ہیں۔ اللہ والے بے لوث! تشہیر اور پی آر سے یکسر بے نیاز! انہیں بھی مل لیا جائے تو کیا عجب، دعا بھی شاملِ حال ہو جائے۔ 

‎خوشحال شخص بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا! کیا ملائمت تھی بزرگ کے نرم ہاتھوں میں! یوں لگتا تھا روشنی کا ہالہ وجود کے گرد حصار باندھے ہے۔ پہلا سوال ہی بزرگ کا یہ تھا کہ راستے میں کون سوار ہوا تھا؟ اس نے بتایا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، پنج سورے فروخت کرنے والا ایک غریب شخص، فلاں بستی میں اتر گیا تھا۔ بزرگ نے سر اپنے گریبان میں جھکا لیا۔ آنکھیں بند کر کے سوچتے رہے۔ زیر لب ذکر جاری رکھا، پھر آنکھیں کھولیں اور خوشحال شخص سے مخاطب ہوئے

‎…’’اللہ کی مصلحتیں اسی کو معلوم ہیں، خدا کرے تمہارے نقصان کا ازالہ ہو جائے۔ مگر بظاہر جس مقصد کے لیے گاڑی تمہیں عطا کی گئی تھی وہ مقصد پورا ہو گیا۔ گاڑی واپس لے لی گئی!‘‘

‎ ’’میں سمجھا نہیں‘‘ خوشحال شخص نے استفہامیہ انداز میں کہا! 

‎بزرگ مسکرائے!’’اُس مفلس کو قدرتِ الٰہی نے تمہاری گاڑی کے ذریعے فلاں بستی تک پہنچانا تھا۔ سو پہنچا دیا! پھر قدرت نے یہ انتظام واپس لے لیا۔ مگر قدرت تمہارے نقصان کا ازالہ ضرور کرے گی! مطمئن رہو!‘‘ 

‎پس جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے، جو نہیں جانتا جان لے کہ خلاقِ عالم، صرف خلاق نہیں، مدبر الامر بھی ہے۔وہ تدبیریں کرتا ہے، پھر ان تدبیروں کے لحاظ سے واقعات رونما ہوتے ہیں، بظاہر الگ الگ واقعات! مگر اندر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، ایک دوسرے سے پیوستہ! 

‎کوئی یہ نہ سمجھے کہ دولت و ثروت اسے محنت سے ملی ہے اور اس کی اپنی ہے۔ یہ تو کسی مقصد کے لیے ملی ہے۔ مقصد پورا ہو گیا تو واپس لے لی جائے گی۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ افلاس اس کی بدنصیبی ہے۔ یہ کسی مقصد کے لیے ملا ہے۔ مقصد پورا ہو گیا تو افلاس دُور ہو جائے گا۔ کتنے ہی مفلس اور قلاش ہیں جن کے بچے پڑھ لکھ کر، ہنر سیکھ کر، ثروت مند ہوئے اور ستاروں کی طرح چمکے! یہ افلاس کے باعث ہوا۔ کتنے ہی آسودہ حال ہیں جن کی اولاد بگڑی اور ذلت کا باعث بنی! ماں باپ کو یہ سزا دینے کے لیے ہی تو آسودگی دی گئی تھی۔ 

‎وہ جو سمندر کی گہرائیوں میں پڑے ایک ایک موتی کو دیکھتا ہے اور بطن کے ظلمات میں گوشت کے لوتھڑے کو جسم بنا کر زندگی بخشتا ہے، اپنا حساب کتاب رکھتا ہے اور بالکل ٹھیک ٹھیک رکھتا ہے۔ زمین اس کی مُٹھی میں ہے اور آسمان اُس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہیں۔ محتسب ایسا کہ سارے حساب رکھتا ہے، منتقم ایسا کہ ظلم بھُولتا نہیں۔ 

‎کیا کیا تدبیریں ہیں، یہ وہی مدبر الامر جانتا ہے! جس کشتی کو بیگار سے بچانا ہو، اس کے پیندے میں سوراخ ہو جاتا ہے، جس کھنڈر میں یتیموں کا مال چھپا ہو، اس پر دیوار تعمیر ہو جاتی ہے۔ جو بڑا ہو کر فساد کا باعث بنے، اسے پہلے ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے جو چیز بری لگے وہ خیر کا باعث نکلتی ہے، جو اچھی لگے وہ آخر میں شر کا سبب بن سکتی ہے۔ 

‎یہاں کوئی صورت آخری نہیں، کوئی حرف، حرفِ آخر نہیں، ترکستان میں ایک بے یارو مددگار لڑکا فروخت ہوتا ہے۔ کئی ہاتھوں میں بکتا، وسط ایشیا سے نیشاپور جا پہنچتا ہے جہاں ایک صاحب قاضی فخر الدین اسے خرید لیتے ہیں اور اپنے گھر میں اولاد کی طرح پالتے اور پڑھاتے ہیں۔ اُن کا کوئی بیٹا اسے پھر منڈی میں لا کر بیچ دیتا ہے۔ اب کے خریدنے والا غوری خاندان تھا۔ ایک دن وہ غلام اصطبل کا انچارج بن جاتا ہے۔ غوریوں اور خوارزم کے بادشاہ کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو خوارزم کی فوج اصطبل کے اس انچارج کو گرفتار کر کے لوہے کے پنجرے میں بند کر دیتی ہے۔ غوریوں نے فتح پائی اور اپنے ملازم کو پنجرے میں دیکھا تو رہا کر کے منصب دار بنا دیا۔ کس کو معلوم تھا کہ ترکستان میں خریدا اور بیچا جانے والا یہ غلام سلطنتِ دہلی کا پہلا بادشاہ بنے گا۔ قطب الدین ایبک کی قائم کی ہوئی سلطنت 1208 ء سے لے کر 1857ء تک زندہ رہی۔ قطب مینار اُس نے بنوایا جو آج بھی دہلی کا لینڈ مارک ہے، وقت وقت کی بات ہے۔ جس قطب الدین ایبک کے جرنیل بختیار خلجی نے اٹھارہ گھوڑ سواروں کے ساتھ بنگال کے دارالحکومت کو زیر کر لیا تھا، وہ ایبک آج انار کلی بازار کے ایک نیم خوابیدہ کوچے میں مدفون ہے۔ لاہور کے کتنے باشندوں کو معلوم ہے کہ یہاں کون دفن ہے۔ 

‎پولو کھیلتے ہوئے گرا، زین کا نوکیلا حصہ چھاتی میں پیوست ہو گیا۔ کیا موت تھی جو بسترِ مرگ پر نہ آئی کھیل کے میدان میں آئی۔ 

‎فرشتے حیران ہوتے ہیں اور خندہ کرتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ لوگ دولت کو اپنی دولت اور محل کو اپنا محل کہہ کر بات کرتے ہیں۔ پہلی بات وہی ہے جو آخری ہے اور وہ یہ ہے کہ زمین کے ساتھ ملکیت بھی گردش کر رہی ہے! اور کرتی رہے گی۔

Thursday, November 28, 2019

اور اب ریلوے


کھانا آپ نے کرسی پر رکھ دیا اور خود میز پر بیٹھ گئے۔ حجام کے پاس جوتے مرمت کرانے چلے گئے۔ انگریزوں کے زمانے میں والیانِ ریاست اسی طرح کے کام کرتے تھے۔ چیف انجینئر رخصت پر گیا تو اس کی جگہ پر چیف میڈیکل افسر کو تعینات کر دیا۔ چیف انجینئر واپس آیا تو اسے قاضی القضاۃ لگا دیا۔ 

یہ سب کیا ہے؟ جہاں کوئی شے رکھنی ہے وہاں نہ رکھی۔ کسی اور جگہ رکھ دی جہاں کسی کو تعینات کرنا ہے‘ وہاں اسے تعینات نہ کیا۔ کسی نااہل کو کر دیا یہی ظلم ہے۔ ظلم کی تعریف ہی یہی ہے وَضع شی فی غَیرِ محلّہِ کسی شے کو وہاں رکھنا جہاں اسے نہیں رکھنا چاہیے۔ 

پاکستان میں یہ ظلم دہائیوں سے ہو رہا ہے نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ ہر شاخ پر الو کو تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ بدبختی سے یہ رویہ ہر حکومت میں یکساں ہی رہا۔ کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ Right person for the right jobکے اصول پر کاربند ہو! آمریت کے زمانوں میں یہ ظلم انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ یادش بخیر‘ صدر پرویز مشرف نے وفاقی محکمہ تعلیم کا سربراہ ایک ایسے شخص کو بنا دیا جس کا وفاقی محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بس صدر صاحب سے مراسم تھے۔ اسے توسیع پر توسیع ملتی رہی۔ حق دار عدالتوں میں جوتے چٹخاتے ریٹائر ہوتے چلے گئے۔ کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پھر ڈاک کے محکمے کا ایک ایسے صاحب کو سربراہ بنا دیا جو محکمے سے نہیں تھے۔ بددعائوں کا ایک اور دروازہ اپنے لئے کھول لیا۔ 

کسی کی حق تلفی کر کے کسی ایسے فرد کو کوئی منصب عطا کرنا جو اس کا حق دار نہیں۔ کوئی معمولی ظلم نہیں! بہت بڑا ظلم ہے۔ آخرت کا حساب تو ہونا ہی ہے دنیا میں بھی ایسے حکمرانوں کو عجیب عجیب انجام دیکھنے پڑتے ہیں۔ زندگی ہی میں نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ کروڑوں اربوں کھربوں کے مالک ہونے کے باوجود زندگی ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ دنیا کی نعمتوں سے حظ نہیں اٹھا سکتے۔ کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے۔ بعض کو پراسرار امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ نااہل کو منصب پر بٹھانا قرآن کے حکم کی بھی نافرمانی ہے۔ تلقین کی گئی کہ اللہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں صرف ان کو پہنچائو جو ان کے اہل اور مستحق ہیں!اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے حکومت کے عہدوں اور مناصب کا ذکر بطور خاص کیا ہے۔ حدیث میں ذات اقدسؐ کا فرمان ہے کہ جسے مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی۔ پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی بنا پر اہلیت کے بغیر دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے۔ صحیح بخاری سے مفسرین یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ ارشاد ہوا جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو! 

تازہ ترین مثال اس حوالے سے ریلوے کے محکمے کی ہے۔ ریلوے کا سربراہ ریلوے کے محکمے سے نہیں لیا جا رہا۔ ایک اور گروپ سے لیا جا رہا ہے۔ ریلوے کے وزیر صاحب نے خود بنفس نفیس یہ خوش خبری ریلوے کے افسران کو سنائی۔ یعنی جس وزیر کو اپنے محکمے کے افسروں کے حقوق کی حفاظت کرنا تھی۔ وہی یہ کہہ رہا ہے کہ سربراہی محکمے کسی افسر کو نہیں‘ بلکہ سول سروس کے فلاں گروپ کو دی جائے گی۔ کھیت کے اردگرد لگی باڑ کھیت ہی کو کھا رہی ہے۔ چرواہا خود بھیڑوں کو شکار کے لئے پیش کر رہا ہے!

 ریلوے کا شعبہ ایک الگ دنیا ہے ،یہ ایک سمندر ہے اس کے قوانین ‘ ضابطے رولز ‘ روایات‘ کلچر سب اس کے 
اپنے ہیں ان قوانین ان روایات اور اس کلچر کو وہی بخوبی سمجھ سکتا ہے جس نے اس شعبے میں ایک مدت گزاری ہو! 

اہم ترین پہلو اس معاملے میں افرادی قوت سے شناسائی کا ہے۔ اگر سربراہ ‘ شعبے ہی سے تعینات ہو تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں افسر کی شہرت اچھی ہے، فلاں کی بری‘ فلاں کام میں ڈھیلا ہے فلاں چست‘ فلاں دیانت دار ہے فلاں خائن! باہر سے آنے والا بہت جلد خوشامدیوں کے نرغے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ اہل افسر کونوں کھدروں میں بیٹھے‘ محروم توجہ ہیں‘ وہ بات بات پر ان شعبوں‘ ان محکموں کی مثالیں دے گا جہاں وہ رہا ہے مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ مثالیں اس شعبے کے لئے غیر متعلق ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ حضرات اپنے معاونین بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یوں ٹاپ پر مکمل اجنبیت حاوی ہو جاتی ہے۔ شعبے کے اندر عملاً ایک اور شعبہ کھل جاتا ہے۔ 

دوسری شدید ترین ضرب محکمے کے مورال پر پڑتی ہے۔ سینئر افسر نے چیئرمین بننا تھا۔ وہ بن جاتا تو ترقیوں کا ایک سلسلہ چلتا۔ حقداروں کو حق ملتا ۔ مورال بلند ہوتا۔ استعداد کار میں اضافہ ہوتا۔ مگر جب ترقیوں کا سلسلہ رک گیا‘ سربراہ درآمد شدہ لگایا گیا تو سب قلم رکھ کر بیٹھ جائیں گے۔ یہ انسان ہیں! فرشتے نہیں! انہیں حوصلہ افزائی چاہیے! ساڑھے تین عشرے کام کرنے کے بعد جب سربراہ بننے کی باری آئی۔ یا سکینڈ اِن کمانڈ بننے کا وقت آیا تو سب کچھ رُک گیا کچھ لوگ ایسے دل شکن مواقع پر دیانت داری کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ ایسا تو پھر ایسا ہی سہی! کچھ ملازمت چھوڑنے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔ سروں پر مایوسی کی چادر تن جاتی ہے۔ دلوں پر ناامیدی چھا جاتی ہے۔ راستے بند ملتے ہیں۔ پورے شعبے کی کارکردگی دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے! کچھ عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ وہاں سے حکم امتناعی جاری ہوتا ہے۔ پھر مقدمہ چلتا ہے۔ عملاً سربراہ کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اس اثناء میں حقدار ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ کچھ دفتر شکایت کھولے عالم بالا کو چلے جاتے ہیں اور معاملہ اس عدالت میں لے جاتے ہیں جہاں کوئی ناانصافی نہیں ہوتی۔ 

تو پھر کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ؎ 

تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم 
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟ 

کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ہم اس ملک کو بادشاہت کی طرز پر چلانے کے بجائے ایک جدید ریاست کے طور پر چلائیں؟ضابطوں کی پابندی کریں اور ذاتی پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھ دیں! ان ناانصافیوں کے سبب ہم پہلے ہی  نصف سے زیادہ پاکستان کھو چکے ہیں۔ اب تو ہمیں سنبھل جانا چاہئے کب تک ہم گروہوں کو اپنے اوپر مسلط کرتے رہیں گے؟ کبھی سول سروس کا ایک مخصوص گروہ کبھی کوئی اور گروہ! کبھی کوئی اور ٹولہ! کبھی کوئی جتھہ! کبھی کوئی قبیلہ! 

یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں! یہ ملک ایک مزدور کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کسی حکمران کا!پہلے ہی اس ریاست کے اکثر شعبے رُوبہ زوال ہیں۔ ریلوے کا موازنہ سرحد پار کی ریلوے سے کر دیکھیے‘ قومی ائر لائن‘ اب سری لنکا جیسے ملکوں کی ائر لائنوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے۔ خدا کے لئے حق تلفیوں سے باز آ جائیے! خلقِ خدا سے نہیں ڈرتے تو خدا کا تو خوف کیجیے! ظلم اور دھاندلی ختم کیجیے۔ لوگوں کو روشنیوں کی ضرورت ہے! افسوس! آپ اندھیرے بانٹ رہے ہیں!

Tuesday, November 26, 2019

سانحہء ناروے —-ایک پہلو یہ بھی ہے


ناروے میں قرآن پاک کے مقدس نسخے کو جلانے کی جو کوشش کی گئی، اس پر، اُسی شہر میں رہنے والے ایک صاحب محمد الیاس نے صورتِ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں، مگر بات سُن لینی چاہیے۔ الیاس صاحب رقم طراز ہیں:


 ’’ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ کی آبادی اسّی ہزار ہے جس میں دو ہزار تعداد مسلمانوں کی ہے ایک جامع مسجد ہے اور کچھ مصلے بھی۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ قانون کے مطابق مذہبی آزادی حاصل ہے، یورپ کے گنے چنے ملکوں میں ناروے ایسا ملک ہےi جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حجت ویزے جاری کرتا ہے۔ ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد میئر، پولیس اور دیگر ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کسی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کر نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔ 


ایک ستاسی سالہ ملحد آر نے تومیر نے کچھ سال پہلے مسلمانوں کے خلاف ایک تنظیم بنائی جس کا نام سیان 

Sian

(یعنی سٹاپ اسلام اِن ناروے) رکھا۔ اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی نہ ہی اس کے مظاہروں میں قابلِ ذکر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے آر نے تومیر نے مظاہرے کا اعلان کیا کہ قرآن پاک کو نعوذ باللہ جلایا جائے گا۔ مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ فوراً سرگرم ہو گئے کہ اسے روکا جائے۔ انہوں نے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ کے ساتھ میٹنگ کی۔ پوری سٹی کونسل نے بیک زبان کہا کہ ایسی کسی حرکت کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔ یہاں تک کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹ پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ وہ جلانے والے عمل کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ پولیس کمشنر نے سیان تنظیم کو بتایا کہ مظاہرہ آپ کا حق ہے لیکن قرآن پاک کو نہیں جلا سکتے۔ ایسا کرنے میں قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ 


سیان تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یہ مسلمانوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں نے ہمیشہ حکمت اور بصیرت سے اس کا جواب دیا۔ آر نے تومیر نے پہلے کوشش کی کہ نفرت کی باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں پھیلائے۔ ان مجلسوں میں وہ ذاتِ اقدسؐ پر رکیک حملے کرتا تھا۔ اس کی باتوں کو مدلل انداز میں رد کیا گیا۔ اس کا پبلک پر مثبت اثر پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مسجد میں ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد ایک نارویجن اسلام قبول کرتا ہے۔ آرنے تومیر کی نفرت انگیز باتوں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور چرچ نے پابندی لگا دی کہ اسے کسی تقریب میں نہیں بلانا تا کہ نفرت پھیلانے کے لیے یہ اِن فورمز کو استعمال نہ کر سکے۔ اس کے بعد اس تنظیم کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرہ کرے جس میں اسلام اور ذاتِ اقدسؐ کو ٹارگٹ کر سکے۔ اس تنظیم والے اپنے مظاہرے میں میڈیا کو بطور خاص بلاتے ہیں تا کہ کوئی مسلمان مشتعل ہو کر ان پر حملہ کرے تو وہ اس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل کر کے معاشرے کو بتائیں کہ یہ لوگ ہماری روایات سے مطابقت نہیں رکھتے؛چنانچہ ہمارے اکابر نے، جن میں جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی سرِ فہرست ہیں، پہلے دن ہی سے یہ مؤقف اپنایا کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اسے پکڑے گا لہٰذا مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگیختہ ہو کر اس کے پلان کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ 


مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر آر نے تومیر نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تو اسے روکنے کے لیے پولیس موجود ہو گی؛چنانچہ انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور مشتعل نہ ہوا جائے۔ ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف آٹھ افراد تھے جب کہ چار سو سے زیادہ لوگ مظاہرے کے خلاف موجود تھے جن میں نارویجنز کی قابلِ ذکر تعداد بھی تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند کیا ہوا تھا تا کہ لڑائی نہ ہو سکے۔ آرنے تومیر نے تقریر کے دوران کلام پاک کی ایک کاپی گرل 

(grill)

پر رکھی جسے پولیس نے فوراً اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس دوران سیان کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے جیب سے دوسرے نسخے کو نکال کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ آگ بجھانے کے لیے پولیس فوراً دوڑی۔ انہی لمحوں میں عمردھابہ نے جسے سوشل میڈیا میں عمر الیاس لکھا جا رہا ہے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو مارنے دوڑا۔ لارس کو پولیس والوں نے گرفتار کر لیا۔ 


اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے دیئے اور ٹھڈے مارے کہ وہ لارس تک پہنچ سکیں۔ بالآخر آرنے تومیر کو وہ موقع مل گیاجو اسے چاہیے تھا یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کرنا کہ یہ مسلمان قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ آج ان نوجوانوں کی تصاویر اور ویڈیو پورے ناروے میں وائرل ہو رہی ہیں جن پر لکھا ہے… ’’مسلمان رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں‘‘ اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعہ پر قانونی گرفت کی جا سکتی تھی۔ اگرچہ اس کی کوشش اب بھی جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا تا ہم ہمارا کیس کمزور بھی ہو گیا ہے کیونکہ حملہ آور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا تھا جو قابل گرفت ہے۔ 


ہمیں اس سارے سانحہ کو ایک بڑے پرسپیکٹو میں دیکھنا ہو گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتظامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی طور پر مثبت تاثر حاصل کیا ہے۔ ناروے کے لوگ بھی آرنے تومیر کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی یہاں کوئی پذیرائی نہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ننانوے فیصد آبادی اس مسئلے پر مسلمانوں کی حامی ہے لیکن اگر ہم یہاں کے قانون پر عمل نہ کریں تو یہ سب ملیامیٹ ہو سکتا ہے۔ یہ یہاں کا قانون ہی تو ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی آزادی دی ہوئی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ مگر اس حمایت کو جاری رکھنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہنا لازم ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے لوگوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔‘‘ 








ناروے میں قرآن پاک کے مقدس نسخے کو جلانے کی جو کوشش کی گئی، اس پر، اُسی شہر میں رہنے والے ایک صاحب محمد الیاس نے صورتِ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں، مگر بات سُن لینی چاہیے۔ الیاس صاحب رقم طراز ہیں:


 ’’ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ کی آبادی اسّی ہزار ہے جس میں دو ہزار تعداد مسلمانوں کی ہے ایک جامع مسجد ہے اور کچھ مصلے بھی۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ قانون کے مطابق مذہبی آزادی حاصل ہے، یورپ کے گنے چنے ملکوں میں ناروے ایسا ملک ہےi جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حجت ویزے جاری کرتا ہے۔ ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد میئر، پولیس اور دیگر ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کسی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کر نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔ 


ایک ستاسی سالہ ملحد آر نے تومیر نے کچھ سال پہلے مسلمانوں کے خلاف ایک تنظیم بنائی جس کا نام سیان 

Sian

(یعنی سٹاپ اسلام اِن ناروے) رکھا۔ اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی نہ ہی اس کے مظاہروں میں قابلِ ذکر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے آر نے تومیر نے مظاہرے کا اعلان کیا کہ قرآن پاک کو نعوذ باللہ جلایا جائے گا۔ مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ فوراً سرگرم ہو گئے کہ اسے روکا جائے۔ انہوں نے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ کے ساتھ میٹنگ کی۔ پوری سٹی کونسل نے بیک زبان کہا کہ ایسی کسی حرکت کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔ یہاں تک کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹ پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ وہ جلانے والے عمل کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ پولیس کمشنر نے سیان تنظیم کو بتایا کہ مظاہرہ آپ کا حق ہے لیکن قرآن پاک کو نہیں جلا سکتے۔ ایسا کرنے میں قانون کی گرفت میں آئیں گے۔ 


سیان تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یہ مسلمانوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں نے ہمیشہ حکمت اور بصیرت سے اس کا جواب دیا۔ آر نے تومیر نے پہلے کوشش کی کہ نفرت کی باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں پھیلائے۔ ان مجلسوں میں وہ ذاتِ اقدسؐ پر رکیک حملے کرتا تھا۔ اس کی باتوں کو مدلل انداز میں رد کیا گیا۔ اس کا پبلک پر مثبت اثر پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مسجد میں ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد ایک نارویجن اسلام قبول کرتا ہے۔ آرنے تومیر کی نفرت انگیز باتوں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور چرچ نے پابندی لگا دی کہ اسے کسی تقریب میں نہیں بلانا تا کہ نفرت پھیلانے کے لیے یہ اِن فورمز کو استعمال نہ کر سکے۔ اس کے بعد اس تنظیم کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرہ کرے جس میں اسلام اور ذاتِ اقدسؐ کو ٹارگٹ کر سکے۔ اس تنظیم والے اپنے مظاہرے میں میڈیا کو بطور خاص بلاتے ہیں تا کہ کوئی مسلمان مشتعل ہو کر ان پر حملہ کرے تو وہ اس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل کر کے معاشرے کو بتائیں کہ یہ لوگ ہماری روایات سے مطابقت نہیں رکھتے؛چنانچہ ہمارے اکابر نے، جن میں جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی سرِ فہرست ہیں، پہلے دن ہی سے یہ مؤقف اپنایا کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اسے پکڑے گا لہٰذا مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگیختہ ہو کر اس کے پلان کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ 


مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر آر نے تومیر نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تو اسے روکنے کے لیے پولیس موجود ہو گی؛چنانچہ انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور مشتعل نہ ہوا جائے۔ ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف آٹھ افراد تھے جب کہ چار سو سے زیادہ لوگ مظاہرے کے خلاف موجود تھے جن میں نارویجنز کی قابلِ ذکر تعداد بھی تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند کیا ہوا تھا تا کہ لڑائی نہ ہو سکے۔ آرنے تومیر نے تقریر کے دوران کلام پاک کی ایک کاپی گرل 

(grill)

پر رکھی جسے پولیس نے فوراً اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس دوران سیان کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے جیب سے دوسرے نسخے کو نکال کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ آگ بجھانے کے لیے پولیس فوراً دوڑی۔ انہی لمحوں میں عمردھابہ نے جسے سوشل میڈیا میں عمر الیاس لکھا جا رہا ہے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو مارنے دوڑا۔ لارس کو پولیس والوں نے گرفتار کر لیا۔ 


اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے دیئے اور ٹھڈے مارے کہ وہ لارس تک پہنچ سکیں۔ بالآخر آرنے تومیر کو وہ موقع مل گیاجو اسے چاہیے تھا یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کرنا کہ یہ مسلمان قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ آج ان نوجوانوں کی تصاویر اور ویڈیو پورے ناروے میں وائرل ہو رہی ہیں جن پر لکھا ہے… ’’مسلمان رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں‘‘ اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعہ پر قانونی گرفت کی جا سکتی تھی۔ اگرچہ اس کی کوشش اب بھی جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا تا ہم ہمارا کیس کمزور بھی ہو گیا ہے کیونکہ حملہ آور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا تھا جو قابل گرفت ہے۔ 


ہمیں اس سارے سانحہ کو ایک بڑے پرسپیکٹو میں دیکھنا ہو گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتظامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی طور پر مثبت تاثر حاصل کیا ہے۔ ناروے کے لوگ بھی آرنے تومیر کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی یہاں کوئی پذیرائی نہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ننانوے فیصد آبادی اس مسئلے پر مسلمانوں کی حامی ہے لیکن اگر ہم یہاں کے قانون پر عمل نہ کریں تو یہ سب ملیامیٹ ہو سکتا ہے۔ یہ یہاں کا قانون ہی تو ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی آزادی دی ہوئی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ مگر اس حمایت کو جاری رکھنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہنا لازم ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے لوگوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔‘‘ 




 

powered by worldwanders.com