Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, November 07, 2019

ایک بار پھر استعمال ہو رہا ہوں



‎آٹھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا‘ استعمال ہو رہا ہوں۔مسلسل استعمال!!۔ 

‎کتنوں ہی کو تخت پر بٹھایا۔ کتنے ہی میرے طفیل حکمران بنے مگر میں صدیوں سے وہیں کا وہیں ہوں۔ جیسا تھا‘ ویسا ہی ہوں! ؎ 

‎ہر شب کواکب کم کنند از روزیٔ من پارہ ای 
‎ہر روز گردد تنگ تر سوراخِ این غربال ہا 

‎ہر رات ستارے آتے ہیں اور میری روزی سے ایک ٹکڑا کم کر دیتے ہیں۔ میری قسمت کی چھلنی کے سوراخ ہر روز زیادہ تنگ ہو رہے ہیں۔ 

‎آہ!میری حالت میں کوئی تبدیلی نہیں رونما ہو رہی۔ 

‎محمد غوری نے مجھے بتایا کہ ہند میں اسلامی سلطنت قائم کرے گا۔ ترائن کے میدانوں میں میں لڑا۔ پھر قطب الدین ایبک نے وعدہ کیا کہ دہلی کے تخت پر بیٹھ کر انصاف قائم کرے گا۔ میں پاپیادہ اس کے لشکر میں شامل رہا۔ کون سا اسلام اورکون سا انصاف؟ کیا ایبک کیا خلجی اور کیا تغلق۔ نام مسلمانوں کے تھے مگر انصاف کا عالم یہ تھا کہ مخالف کے جسم کے گوشت کا یہ لوگ پلائو پکواتے اور مقتول کے بیوی بچوں کو تحفے میں بھیجتے۔ محل کے صدر دروازے پر ہر وقت لاشیں لٹکی رہتیں۔ 

‎پھر میں نے بابر پر اعتبار کیا۔ اس نے لودھیوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ کیا تو میں ساتھ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بابر نے اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کرنا تھی۔ میں پیادے کا پیادہ رہا۔ 

‎ہر بادشاہ نے مجھے اپنے جلوس میں استعمال کیا۔ اپنا لشکری بنایا۔ کبھی بیگمات کے حفاظتی دستے میں دوڑتا رہا۔ کبھی ایندھن اکٹھا کرتا رہا۔ کبھی گھوڑوں کی مالش کرتا رہا۔ پھر انگریز آ گئے۔ میں کبھی ایک نواب کے محلات دھوتا کبھی دوسرے راجہ کے ہاتھوں کا بنائو سنگھار کرنے پر مامور کیا جاتا! پاکستان بنا تو ایک بیل گاڑی پر ہچکولے کھاتا اس ارض پاک میں پہنچا۔ جو لوگ پودینے کے خیالی باغات چھوڑ کر آئے تھے۔ حویلیوں پر قابض ہو گئے۔ میں اسی خوشی میں مست رہا کہ مملکت خداداد کا شہری ہو گیا ہوں۔ 

‎بھٹو صاحب نے غریبوں کے لئے پارٹی بنائی تو مجھے ایک بار پھر امید لگ گئی کہ اب کے میری حالت ضرور بدلے گی۔ میں نے کراچی سے لے کر لاڑکانہ تک لاہور سے لے کر پشاور تک ان کے جلسوں میں دریاں بچھائیں۔ سٹیج تیار کئے۔ مگر وہی ڈھاک کے تین پات ۔پھل کھانے کا وقت آیا تو نواب‘ جاگیردار‘ زمیندار‘ صنعت کار لے اڑے۔ میں روٹی کپڑا اور مکان تلاش کرتا رہ گیا۔ یہ بھی خلجیوں، لودھیوں، مغلوں کی طرح خاندانی بادشاہت تھی۔ 

‎جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نعرہ لگایا تو میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ دس سال چلتا رہا۔ اسلام نظر نہ آیا ہاں گیلانی، قریشی، لغاری، چودھری ضرور دکھائی دیتے رہے! 

‎پھر میں نے شریف خاندان سے امید وابستہ کر لی۔ ترقی کے خواب دکھائے گئے۔جائیدادیں اور کارخانے ان کے اپنے زیادہ ہوتے رہے۔ لندن سے جدہ تک۔ دبئی سے لاہور تک۔ اثاثے آسمان کو چھونے لگے۔ اسحاق ڈار نے الگ ایمپائر کھڑی کر لی۔ میں وہیں کا وہیں رہا۔ 

‎پھر عمران خان کی صورت میں ایک اور نجات دہندہ دکھائی دیا۔ اس نے کہا سفارش، چور بازاری، اقربا پروری‘ ختم کر کے میرٹ کی بالادستی قائم کرے گا۔ اتنے لاکھ نوکریاں ملیں گی۔ اتنے لاکھ مکان بنیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس گیا تو خود کشی کر لے گا۔ جو اٹھائی گیرے ہر حکومت کو چوستے، کاٹتے، بھنبھوڑتے رہے۔ ان سے نجات دلائے گا۔ 

‎میں چار ماہ عمران خان کے دھرنے میں بیٹھا رہا۔ دن کو دھوپ کاٹی۔ رات کو مچھروں نے کاٹا۔ گرمی بارش طوفان سب کا مقابلہ کیا۔ نعرے لگائے۔ بھوک پیاس برداشت کی مگر افسوس! عمران خان کی حکومت آئی تو معلوم ہوا ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر میرے ساتھ دھوکہ ہوا۔ ایک بار پھر میرا استحصال کیا گیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان نے انہی عشرت حسینوں‘ انہیں عمر ایوبوں‘ انہی یوسف بیگوں اور انہی ثانیہ نشتروں کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا جن سے نجات دلانے کے عہد و پیمان کئے تھے۔ وہی فہمیدہ مرزا ،وہی زبیدہ جلال ۔ وہی شیخ رشید !!شفقت محمود جیسے لوگوں کو تعلیم اور قومی ورثہ کی وزارتیں مل گئیں۔ انہوں نے شریف خاندان کے وفاداروں کو باہر نکال پھینکنے کے بجائے، ان رسہ گیروں کو بیک وقت دو دو مناصب پر بٹھا دیا۔ بیورو کریسی کا ایک گروپ نکلا تو وزیر اعظم کے دفتر میں دوسرا گروہ براجمان ہو گیا۔ پورٹل کا ڈرامہ کھیلا گیا جسے ہائی بیورو کریسی نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ عمران خان نے شریف دشمنی میں (یا کسی نامعلوم پُراسرار وجہ سے) عوامی فلاحی منصوبے جہاں تھے وہیں روک دیے۔ دارالحکومت میں ایئر پورٹ میٹرو پر کام رک گیا۔ بڑے بڑے انفراسٹرکچر نامکمل پڑے رہ گئے اور شہریوں کا منہ چڑانے لگے۔ جن شاہراہوں کے لئے گزشتہ حکومت نے فنڈ جاری کئے تھے‘ وہ واپس لے لئے گئے۔ مجھے نوکری ملی نہ مکان! جس دن ایک وفاقی وزیر نے عوام کو صاف صاف کہہ دیا کہ نوکریاں دینا دلوانا حکومت کا کام ہی نہیں، اس دن آخری امید بھی مر گئی۔ عمران خان بھی خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں، مغلوں، انگریزوں، بھٹوئوں اور شریفوں سے مختلف نہ نکلا۔ 

‎ان دنوں میں مولانا کے دھرنے میں شریک ہوں! یہاں بھی مجھے امید کی کرن نہیں نظر آ رہی! مولانا کوئی معاشی روڈ 
‎میپ نہیں دے رہے۔ ان کے پاس کوئی پروگرام‘ کوئی ہوم ورک، کوئی اقتصادی تعلیمی یا سماجی منصوبہ نہیں! میں ہر روز ان کی تقریر سنتا ہوں مگر ابھی تک نہیں معلوم ہوا کہ وہ حکومت میں آ کر کیا کیا منصوبے شروع کریں گے۔ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ عمران خان کے نوکریوں اور مکانوں والے منصوبوں کی ناکامی کے اسباب پر روشنی ڈالیں گے اور عوام کو بتائیں گے کہ وہ اس ضمن میں کیا پروگرام رکھتے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم کے امکانات پر روشنی ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کم از کم مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے لئے ہی کسی پیکیج کا اعلان کریں گے۔ مگر افسوس ! ابھی تک کسی روڈ میپ کسی پروگرام کسی منصوبے کا کہیں کوئی وجود ہے نہ مولانا ذکر ہی کر رہے ہیں! 

‎آج حالت یہ ہے کہ بارش برس رہی ہے۔ دھرنے والا میدان دلدل میں تبدیل ہو رہا ہے۔ چولہے جل سکتے ہیں نہ کوئی سر چھپانے کی جگہ ہے۔ کپڑوں سے پانی اور امید سے ناکامی نچڑ رہی ہے۔ہر لیڈر کا اپنا جاتی امرا‘ اپنا بلاول ہائوس‘ اپنا بنی گالہ ہے۔ وہ رات دھرنے والوں کے ساتھ نہیں گزارتا۔ آج دارالحکومت کے اخبارات نے یہ خوش خبری بھی سنا دی کہ آٹے اورگندم کی قلت پیش آ رہی ہے کیوں کہ کئی ہزار روٹیوں کا اضافی بوجھ‘ ریستوران اور ڈھابے نہیں اٹھا سکتے۔ میرے ساتھ دھرنے میں شریک دوسرے ساتھیوں کی اکثریت بھی میری طرح غریب ہے۔ جوتے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ لباس بوسیدہ! زیادہ تر مدارس کے وہ نوجوان ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ مولانا کی حکمت عملی کیا ہے۔ ان کے سامنے مولانا اسرائیل اور قادیان کا ذکر کرتے ہیں۔ ختم نبوت اور ناموس رسالت کا نام لیتے ہیں۔ مگر جب دوسری پارٹیوں کے رہنمائوں سے بات کرتے ہیں تو موصوف مختلف ہوتے ہیں! 

‎میری حالت میں کسی مثبت تبدیلی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں! میں نے ابھی سے اگلے کسی دھرنے کے لئے ذہن بنا لیا ہے۔ کیا خبر کوئی دھرنا کسی دن میرے مسائل حل کر دیٖ!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com