Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, November 10, 2019

…صلی اللہ علیہ وسلم


 

ابھی آپ نے اس تحریر کا پہلا فقرہ ہی پڑھا ہے۔ ان چند لمحوں میں کتنے افراد نے صلی اللہ علیہ وسلّم کہا ہو گا؟ لاکھوں کروڑوں نے! 

کاس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں ہزاروں لاکھوں اذانیں ہو رہی ہوں گی! کہیں صبح کی‘ کہیں ظہر کی کہیں عصر کی!کہیں غروب آفتاب کے بعد مغرب کی اذان ہو رہی ہو گی۔ کہیں عشا کی نماز کھڑی ہوئی ہو گی اور تکبیر کہہ رہے ہوں گے! یہ سب اشہدان محمد الرسول اللہ کہہ رہے ہیں! کیا تاریخ انسانی میں ایسی کوئی مثال اور بھی ہے؟ کیا کسی اور ہستی پر چوبیس گھنٹوں میں ہر لمحہ ‘ ہر گھڑی‘ ہر ثانیہ‘ درود بھیجا جاتا ہے؟ کیا کسی اور انسان‘ جن‘ یا فرشتے کا ذکر اس طرح مسلسل کیا جاتا ہے؟ 

اب آنکھیں بند کر کے ایک اور تصور کیجیے۔ اس وقت‘ عین اس لمحے‘ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں‘ کتنے لوگ مسجد نبوی میں حاضری دے رہے ہوں گے!کتنے روضہ اقدس کے سامنے‘ جالیوں کے آگے‘ دست بستہ‘ سر جھکائے کھڑے ہیں! کیا کوئی لمحہ ایسا ہے جس میں وہاں زائرین نہ کھڑے ہوں! سوچیے کہ اس وقت مسجد نبوی کے ہر دروازے سے کتنے لوگ‘ کتنے مرد‘ کتنی عورتیں‘ اندر داخل ہو رہی ہیں! ہر ملک سے ہر قوم سے‘ ہر رنگ کے‘ ہر زبان بولنے والے! 

پھر یہ تصور کیجیے کہ اس وقت کتنے قافلے شہرِ نبیؐ کی طرف رواں ہوں گے؟ انڈونیشیا سے‘ فجی سے‘ جاپان سے‘ امریکہ سے‘ افریقہ سے‘ یورپ کے ملکوں سے‘ جنوبی ایشیا سے‘ وسط ایشیا سے‘ خود مشرق وسطیٰ سے! کتنی پروازیں مدینتہ النبی کی طرف جا رہی ہوں گی! کوئی شخص جہاز کی طرف روانہ ہے۔ کوئی سوار ہو رہا ہے! کوئی بیٹھا ہوا ہے اور فضا میں محو سفر ہے! کتنے لاکھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف بسوں کاروں ویگنوں ٹرینوں میں جا رہے ہیں! کتنے اس وقت اس شہر کے مقدس کوچوں میں محوِ خرام ہیں! یہ بھی سوچیے کہ کتنے قافلے وہاں سے ہو کر‘ واپس اپنے اپنے وطن جا رہے ہیں اور ہر دل میں ایک ہی خواہش ہے کہ پھر کب آنا ہو گا! حافظ ظہور نے کہا تھا ؎ 

طیبہ جائوںاور آئوں‘ پھر جائوں 
عمر کٹ جائے آنے جانے میں 

کیا ایسا کوئی شہر اس روئے زمین پر اور بھی ہے؟ 

اب آنکھیں بند کر کے تصور کیجیے کہ چودہ صدیوں میں کتنے کروڑ‘ کتنے ارب‘ کتنے کھرب ہا کھرب لوگ اس شہر کی طرف عازم سفر ہوئے! گھوڑوں پر‘ اونٹوں پر‘ بحری جہازوں میں! پیدل! کیا یہ سفر کبھی رکا؟ نہیں! پیغمبر اقدسؐ کے وصال سے لے کر آج تک یہ سرگرمی رات دن جاری ہے! جب تک قیامت نہیں آتی‘ جب تک دنیا قائم ہے،خلق خدا شہرِ نبیؐ کی سمت سفر کرتی رہے گی! الگ الگ یا قافلوں کی صورت میں! کئی کئی دن وہاں رکنے کے لئے یا حاضری لگا کر واپس آنے کے لئے! یہ نام فضائوں میں‘ زمین کے ہر گوشے میں! ہر ملک میں‘ ہر وقت گونجتا رہے گا! کہیں لوگ سونے لگے ہیں اور سونے سے پہلے محمد الرسول اللہ کہہ رہے ہیں۔ کہیں سو کر اٹھے ہیں‘ اٹھ کر کلمہ پڑھتے ہیں اور رسالت پر ایمان تازہ کر رہے ہیں! کہیں کوئی پڑھ رہا ہے‘ کہیں کوئی پڑھا رہا ہے! تلاوت میں اذان میں‘ تکبیر میں‘ نماز میں! 

کوئی بچہ پیدا ہوا ہے تو محمدؐ کا نام نامی اس کے کان میں ڈالا جا رہا ہے۔ کہیں کوئی دنیا سے رخصت ہو رہا ہے تو رسالت کا اقرار کر رہا ہے۔ اس کے پاس جتنے افراد موجود ہیں رسالت کی گواہی دے رہے ہیں! اس وقت اس لمحے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں۔ کتنے بچے اپنی اپنی ماں کے بطن سے رخصت ہو کر دنیا میں وارد ہوئے ہیں۔ ان میںسے کروڑوں کا نام محمد پر رکھا جا رہا ہے کوئی مصطفی ہے‘ کوئی ان میں مجتبیٰ ہے۔ کوئی احمد ہے۔ پیدا ہونے والی لڑکی ہے تو اس کا نام اس مقدس ہستی کی والدہ ماجدہ پر یا آپ کی دختر نیک اختر کے نام پر یا آپ کی بیویوں کے نام پر رکھا جا رہا ہے! کیا اور کوئی ہستی ایسی ہے جس کے نام پر اتنے لوگوں کے نام ہیں؟ ماضی میں تھے؟ اور مستقبل میں ہوں گے؟ 

پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا معجزوں کا زمانہ چلا گیا۔ مگر غور کیجیے‘ ایک معجزہ آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے دن رات ہمارے سامنے برپا ہو رہا ہے اور ہم اس پر غور نہیں کرتے! آپ پر جو کتاب اتری کتنے افراد کے سینوںمیں محفوظ ہے؟ کیا دنیا میں کوئی کتاب ایسی اور ہے جسے لاکھوں کروڑوں افراد حفظ کرتے ہوں؟ پھر ہر سال رمضان میں اسے دہراتے ہوں؟ اور یہ دہرانا کیسا دہرانا ہے؟ ایک ایک لفظ‘ ایک ایک حرکت ‘ ایک ایک زبر‘ ایک ایک زیر‘ ایک ایک پیش کی صحت یقینی بنائی جاتی ہے۔سننے والے‘ ساکت گھنٹوں کھڑے ہو کر سنتے ہیں۔ 

پھر اس معجزے کا ایک اور کمال دیکھیے‘ ایک شخص نیوزی لینڈ کی مسجد میں جو سورہ‘جو آیت مبارکہ تلاوت کر رہا ہے‘ ایک اور شخص اس سے ہزاروں میل دور‘ سوڈان میں یا مراکش میں یا لندن میں‘ یا بحر اوقیانوس کے پار‘ امریکہ کے کسی دور افتادہ شہر میں‘ وہی سورہ ‘ وہی آیت پڑھتا ہے اور کہیں بھی اس میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں رونما ہوتی! ایک شوشے کی تبدیلی بھی ممکن نہیں! کیا کسی اور کتاب کے ساتھ ایسا ہوا ہے؟ یا ہو سکتا ہے؟ 

پوری انسانی تاریخ میں آپؐ کے علاوہ بھی کوئی ہوا ہے یا ہے یا ہو گا جس کے ماننے والے یہ دعویٰ کریں کہ وہ انہیں اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز ہے! ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو آپ پر‘ آپ کی حرمت پر قربان کرنے کو تیار ہے۔ اولاد کا تو ذکر ہی کیا! کیا اس سے بڑا معجزہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ پونے دو ارب‘ یا اس سے ذرا زیادہ مسلمان اس وقت دنیا میں سانس لے رہے ہیں! آج اگر حرمتِ رسول ؐ کو کوئی چیلنج درپیش ہو تو ان میں سے ہر مسلمان آپ کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہے! امیر ہے یا غریب ‘ گورا ہے یا کالا یا گندمی‘ قلاش ہے یا ارب پتی‘ افریقی ہے یا ایشیائی یا کسی اور خطے کا‘ گستاخی رسول کو برداشت کرنا اس کے لئے ناممکن ہے! گنہگار سے گنہگار مسلمان‘ بے عمل سے بے عمل مسلمان‘ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو‘ شان اقدس پر گرد کا ایک ذرہ برداشت نہیں کر سکتا! کیا کسی اور ہستی کو آج تک یہ امتیاز نصیب ہوا ہے! 

جب تک یہ دنیا قائم ہے‘ یہ نام سرافرز و سربلند رہے گا! یہ ہونٹوں سے پکارا جاتا رہے گا۔ دلوں میں زندہ رہے گا! پھر کل جب حشر کی چلچلاتی کڑکتی دھوپ‘ انسانوں پرکوڑوں کی طرح برسے گی‘ صرف آپ کے نام کا سایہ پناہ گاہ ہو گا! وہ سب جو آج تک پیدا ہوئے اور وہ جو قیامت تک پیدا ہوں گے‘ اس نام پر درود و سلام پڑھتے رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com