Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, March 08, 2021

-کے لیے ہی کچھ کہہ دیجیے Face Saving



گلیوں محلوں میں عورتیں جھگڑتی ہیں تو ایک خاص تکنیک استعمال کرتی ہیں! یہ تکنیک منجنیق کا کام کرنے کے علاوہ لڑائی کو طول دینے کے کام بھی آتی ہے۔ تکنیک یہ ہے کہ الزام کا جواب نہیں دینا‘ اپنی صفائی نہیں پیش کرنی! اس کے بجائے، الٹا، فریق مخالف پر جوابی الزام عائد کرنا ہے۔ ایک عورت دوسری کے میاں پر الزام لگاتی ہے تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ اس کے میاں پر زیادہ بھیانک الزام لگا دو!
ہمارے سیاست دانوں نے بھی ہمیشہ یہی تکنیک استعمال کی۔ الزام لگا تو اس پر شرم محسوس کی نہ حیا‘ الٹا جوابی الزام داغ دیا۔ ایک فریق نے سرے محل کا الزام لگایا تو الزام کا انکار کیا نہ اقرار! بس جواب میں لندن اپارٹمنٹس کا الزام لگا دیا۔ اپنا دفاع کسی نے نہ کیا۔ گویا وتیرہ، عملاً یہ رہا کہ ہاں! میں نے ایسا کیا ہے تو تم نے بھی تو یہ کیا ہے!
عمران خان صاحب جب اس سیاسی دنگل میں داخل ہوئے تو انہیں یہ فائدہ تھا کہ کبھی حکومت میں نہیں رہے تھے۔ الزام لگا سکتے تھے۔ ان پر الزام نہیں لگ سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ دوسروں کو دیکھ چکے ہیں، اب انہیں آزمانا چاہیے۔ بیس بائیس سال ان کی سیاست الزامی سیاست ہی رہی! حکومت ملی تو ان کے مداح توقع کر رہے تھے کہ وہ الزامی سیاست کے ساتھ اب دفاعی سیاست بھی کریں گے اور دوسروں کے برعکس، اپنے پر لگے الزامات کا جواب دیں گے، اپنی صفائی پیش کریں گے اور یوں ایک نئی طرز ڈالیں گے‘ مگر افسوس ایسا نہ ہوا! ہر کہ در کانِ نمک رفت، نمک شد! حکومت میں آئے تین سال ہونے کو ہیں۔ اس عرصے میں ان پر کئی الزام لگے جن میں سے کچھ بہت سنجیدہ ہیں‘ مگر عمران خان صاحب ایک روایتی سیاستدان ہی ثابت ہوئے۔ آج تک کسی الزام کا جواب دیا نہ جواب دینے کی ضرورت ہی محسوس کی۔ حکومت میں آنے سے پہلے ان کی سب سے بڑی طاقت اخلاقی برتری کا دعویٰ تھا۔ یہ کہ وہ وعدے پورے کریں گے۔ یہ کہ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ یہ کہ وہ کرپٹ عناصر کو اپنے گروہ میں نہیں شامل کریں گے وغیرہ؛ تاہم عہد و پیمان کے یہ سارے چاند، بادل کے ٹکڑے ثابت ہوئے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ کسی الزام کا جواب دینا پسند نہیں کرتے! اب الزام کا جواب نہ دینے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں! ایک وجہ یہ ہے کہ الزامات سچے ہیں! جواب کیا دیا جائے! دوسری وجہ استکبار بھی ہو سکتا ہے کہ حریف کو جواب دینے کے قابل ہی نہ سمجھا جائے! یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب وزیر اعظم کے معاملے پر دونوں وجوہ کا اطلاق ہو رہا ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ کیا کیا الزامات ہیں۔
٭ حال ہی میں منتخب عوامی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کا اعلان ہوا تو معاملہ عدالت تک گیا۔ حکومت نے کہا کہ کوئی فنڈز نہیں دیے جا رہے؛ تاہم ایک معزز جج نے کہا کہ این اے 65 میں، حکومت کے اتحادیوں کو بھاری فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ اس کا جواب کسی نے نہیں دیا۔ اس پر مستزاد، قومی اسمبلی کے نمائندے جناب عبدالاکبر چترالی کا بیان ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔ چترالی صاحب نے کہا ہے ''سینیٹ کے انتخاب میں وزیر اعظم نے مجھے آفر کی۔ وزیر اعظم نے نمائندے کے ذریعے پیغام دیا کہ جہاں کہیں گے‘ ملاقات کرنے آؤں گا۔ مجھے ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا گیا۔ میں نے کہا‘ آپ جھوٹ بول رہے ہیں‘ اور یہ رشوت ہے‘‘۔ اگر یہ الزام غلط ہے تو اس کی تردید آنی چاہیے۔ اگر درست ہے تو دعویٰ کہاں گیا؟
٭ کچھ ہفتے پہلے کئی اینکرز نے پے در پے وزیر اعظم کے انٹرویوز، مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کیے۔ ایک اینکر نے پوچھا کہ پنجاب کی فلاں شخصیت کو آپ نے ڈاکو کہا تھا مگر اب وہ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اب یہ عجیب صورت حال ہے کہ کچھ کو آپ اب ڈاکو کہہ رہے ہیں اور رات دن کہہ رہے ہیں‘ مگر جنہیں آپ نے ماضی میں ایسا کہا، وہ آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں اور آپ کے سپورٹر ہیں۔ اس کی کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟ اخلاقی برتری اس میں تھی کہ مان لیا جاتا کہ پہلی بات، یہ بھی، اور چپڑاسی والی بھی، غلط کہہ دی تھی!
٭ سولہ ارکان کا فروخت ہونا اور پھر انہی سے اعتماد کا ووٹ مانگنا‘ ایک سیریس الزام ہے۔ دعووں کی رُو سے تو ان ارکان کے خلاف فوری ایکشن ہونا چاہیے تھا‘ مگر اب انہی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اعتماد کی سیڑھی پر چڑھا گیا۔
٭ وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد سترہ سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اب تعداد نصف سنچری کو عبور کر چکی ہے۔ اس کے بارے میں وہ کوئی بات نہیں کرتے۔
٭ جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔ ہاں! ایک مضحکہ خیز اقدام یہ کیا گیا ہے کہ دو افسر تعینات کر دیے گئے ہیں۔
٭ شد و مد سے دعویٰ کیا گیا تھا اور وعدہ بھی کہ گورنر ہاؤس پنجاب اور وزیر اعظم ہاؤس قسم کی عمارتوں میں یونی ورسٹیاں کھولی جائیں گی۔ یہ وعدہ بھی وعدۂ معشوق ثابت ہوا۔
٭ ان پر چینی مافیا، پٹرول مافیا، آٹا مافیا اور میڈیسن مافیا کے حوالے سے بہت سنجیدہ الزامات ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، وہ ان میں سے کسی الزام کا جواب نہیں دے رہے۔ آخر چینی کو پچاس سے ایک سو بیس پر لانے کا کوئی تو ذمہ دار ہو گا۔ تو خاموشی کیوں؟ جن صاحب پر ادویات کی گرانی کا الزام تھا انہیں وزارت سے ہٹا کر پارٹی کا اہم منصب دے دیا گیا۔
٭ وزیر اعظم کے ایک قریبی ساتھی کے بارے میں عدالت نے دو دن پہلے تفصیلی فیصلہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ سربراہِ حکومت کی اخلاقی برتری کے دعوے پر ایک نہایت سنجیدہ سوال اٹھا رہا ہے۔ فیصلے کی رُو سے ان کے ساتھی کا بیان حلفی بادی النظر میں جھوٹا ہے۔ یہی کچھ تو اس بد قسمت ملک میں موجودہ حکومت سے پہلے بھی ہو رہا تھا۔ کیا جناب وزیر اعظم اپنے ساتھی سے اعلان برأت کریں گے؟
الزامات اور بھی ہیں۔ آج تک کسی الزام کا جواب نہیں دیا گیا۔ نہلے پر دہلا یہ کہ جب ان الزامات کا ذکر کیا جاتا ہے تو آگے سے کہا جاتا ہے کہ ماضی کے حکام کون سے فرشتے تھے؟ ارے بھائی! کس بد بخت نے ماضی کے حکمرانوں کی طرف داری کی ہے؟ ان کا بُرا ہونا تو مسلمہ ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ یہ سب کچھ جو آپ انہی کی طرح کر رہے ہیں، اس کا کیا جواز ہے؟ اور یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کے چہرے پر سے نقاب اٹھانے والا ہر شخص زرداری صاحب کا یا نواز شریف صاحب کا ہم نوا ہے؟
افسوس! صد افسوس! اخلاقی برتری، دیانت، سچائی اور ایفائے عہد کا جو خواب اس کالم نگار سمیت، بہت سوں نے دیکھا تھا، اس کی تعبیر تیرہ بختی کے سوا کچھ نہیں نکلی!؎
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟
زمانے سے لڑائی مول لے، تجھ سے بُرا بھی ہو؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com