بادل قسم قسم کی شکلیں بناتے ہیں۔کبھی ہاتھی تو کبھی عفریت بن کر چلنے لگتے ہیں۔ کبھی یوں لگتا ہے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ کبھی کشتیوں کی طرح تیرتے ہیں۔ کبھی پہاڑ بن جاتے ہیں۔ تاریخ بھی بادلوں کی مثال ہے۔ کئی شکلیں بناتی ہے۔ کئی پیٹرن بُنتی ہے۔ کئی سانچے ڈھالتی ہے۔ پھر ان سانچوں میں مستقبل کو فِٹ کرتی ہے۔
ہماری تاریخ نے ایک المناک شکل اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ ہر سَو سال کے بعد بر صغیر کے باشندوں پر بالعموم اور مسلمانوں پر بالخصوص کوئی نہ کوئی بھاری افتاد پڑتی ہے اور ایسا گزشتہ چار سو سال سے ہو رہا ہے۔ جب بھی صدی ستاون سال گزار چکتی ہے‘ تو ایک نہ ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 1657 ء کو دیکھ لیجیے۔ شاہ جہان کا دور نسبتاً استحکام کا دور تھا۔ اچھے بھلے پُر امن دن گزر رہے تھے۔1657ء ہی میں اس کے اقتدار کا تیس سالہ جشن منایا گیا مگر مغلوں کی جھروکہ درشن والی رسم اسے لے بیٹھی۔بادشاہ کے لیے ہر صبح جھروکے میں بیٹھ کر عوام کو اپنا دیدار کرانا لازم تھا۔جہانگیر کی راتیں جن مشاغل میں گزرتی تھیں‘ ان کے پیش نظر اس کے لیے صبح سویرے یہ ڈیوٹی بجا لانا آسان نہ تھا پھر بھی اسے درشن دینا پڑتا تھا۔ یہ ایک طرح کی یقین دہانی تھی جس کا مطلب تھا کہ بادشاہ زندہ و سلامت ہے اور ملک کا نظام اس کے کنٹرول میں ہے۔ بد قسمتی سے ستمبر میں شاہجہاں شدید بیمار پڑ گیا۔ ٹانگیں سوج گئیں۔ بخار شدت اختیار کر گیا۔ ایک ہفتہ کچھ بھی نہ کھا سکا۔ جھروکے میں بیٹھنا ممکن نہ رہا۔ بیماری کو چھپایا گیا؛ تاہم افواہ پھیل گئی کہ بادشاہ مر چکا۔ کچھ نے کہا دارا نے زہر دے دیا۔ سراسیمگی پھیل گئی۔ فسادات کے ڈر سے دارالحکومت میں بازار بند ہو گئے۔ پھر یہ افواہ‘ صوبوں تک پھیل گئی۔ سلطنت کی بنیاد لرزنے لگ گئی۔کسانوں نے لگان دینا بند کر دیا۔ زمیندار افسروں سے جھگڑنے لگے۔ شرپسند عناصر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کچھ ہفتوں بعد شاہجہان کی طبیعت سنبھلی تو وہ جھروکے میں ظاہر ہوا۔ عوام محل کی دیواروں کے نیچے جمع تھے مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نئی افواہ یہ پھیلی کہ کسی اور کو شاہجہان کے حلیے میں بٹھایا گیا ہے۔
شاہجہاںکے چار بیٹے تھے۔اس نے چاروں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رکھا ہوا تھا تا کہ مناقشت کا امکان ہی نہ رہے۔ دارا سب سے بڑا اور باپ کے دل کے قریب تھا۔ گورنری اس کے پاس ملتان اور کابل کی تھی مگر رہتا دارالحکومت میں تھا۔اس کے مراتب بلند تھے۔ دربار میں بیٹھنے کی اجازت صرف اسے ہی تھی۔ ہر کسی کو معلوم تھا کہ جانشینی اسی کو ملے گی۔ اس سے چھوٹا شجاع تھا‘ بنگال کا حاکم۔ تیسرے نمبر پر اورنگزیب تھا۔ دکن کا گورنر! سب بھائیوں میں زیادہ ذہین اور گہرا۔ مذہبی رجحان غالب تھا۔ فنِ سپہ گری میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ جنگی چالیں اس پر ختم تھیں۔ بلخ کی مہم میں جب مراد ناکام ہوا تو یہ اورنگزیب ہی تھا جو مغل افواج کو دانائی سے بچا کر واپس نکال لایا تھا۔ شاہجہان کو بھی نہاں خانۂ دل میں معلوم تھا کہ اورنگ زیب کے مقابلے میں کوئی بھائی نہیں ٹھہر سکے گا۔ سب سے چھوٹا مراد تھا۔ بہادر ‘ جری مگر شراب و شباب کا رسیا۔ وہ گجرات کا گورنر تھا۔ بادشاہ کی بیماری اور پھر موت کی خبر پھیلی تو چاروں بھائیوں نے تلواریں اٹھا لیں۔ سب کو معلوم تھا کہ بادشاہ جو بھی بنا‘ باقی تین زندہ نہیں رہیں گے۔ گویا قبریں تین تھیں اور اشخاص چار؛ چنانچہ چاروں نے ''یا تخت یا تابوت ‘‘ کا نعرہ لگایا اور تخت نشینی کی جنگ میں کود پڑے۔ تخت نشینی کی بدترین جنگ! جس کی کوئی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں موجود نہیں۔ یہ ہولناک جنگ تقریباً دو سال جاری رہی۔ نصف درجن کے قریب ہولناک لڑائیاں لڑی گئیں۔ ہزاروں افراد مارے گئے۔چھ ہزار تو دریائے نربدہ کے کنارے قتل ہوئے۔ سامو گڑھ کی فیصلہ کن لڑائی میں صرف دارا ہی کے دس ہزار لشکری کام آئے۔ راجپوتوں نے وہ وفاداری دکھائی کہ زمین ان کے خون سے سرخ ہو گئی۔ پوری مغل ایمپائر لہو میں نہا گئی۔اورنگ زیب نے تینوں بھائیوں ( اور بھتیجوں کو بھی ) راستے سے ہٹا دیا۔ باپ کو سات سال قلعے میں نظر بند رکھا۔ انچاس برس حکومت کی اور 1707 ء میں اٹھاسی سال کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہؤا۔
مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ! اورنگ زیب کی فتح کے اثرات ابھی تک چل رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں ‘ خاص طور پر ‘ بھارت میں اس موضوع پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ اور نگ زیب مجموعۂ اضداد تھا۔ سخت پرہیز گار ! مگر اقتدار حاصل کرنے اور پھر بچانے کی خاطر کسی کی بھی جان لینا اس کے لیے روٹین کا کام تھا۔ اس کا عہد آج تک متنازعہ چلا آرہا ہے۔ مسلمان اسے ولی اور ہندو دشمن قرار دیتے ہیں۔ یہ اور بات کہ خود ہندو مورخ لکھتے ہیں کہ ہندو دشمنی کا الزام اس پر غلط ہے۔ حال ہی میں امریکی مصنفہ Audrey Truschke نے اس کے دفاع میں کتاب تصنیف کی ہے جس پر بھارت میں کافی لے دے ہو رہی ہے۔اس کالم نگار کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہندؤوں کے ساتھ اورنگ زیب نے کوئی دشمنی نہیں برتی۔ ہاں سیاسی اقدامات کو مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کا نصف صدی دورِ حکومت سب سے زیادہ خود مغل سلطنت کے لیے اور اس کے بعد مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اول، اس نے آخری پچیس برس جنوبی ہند میں گزار دیے جبکہ سلطنت کی بنیادیں شمال میں تھیں۔ بنگال‘ بہار‘ پنجاب‘ شمالی ہند‘ کابل‘ موجودہ پاکستان کے علاقے‘ کشمیر‘ سب ''پراکسی ‘‘کے زور پر چلائے جاتے رہے۔ گورنر خود مختار ہو گئے۔ بیوروکریسی منہ زور ہو گئی۔ بادشاہ عوام سے عملی طور پر لا تعلق ہو گیا۔ سلطنت بظاہر عروج پر پہنچ گئی مگر اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور اورنگ زیب کی وفات کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ایک کام جو اورنگ زیب نے کیا وہ سراسر تباہ کُن تھا۔ اس نے جنوبی ہند کی تین طاقتور مسلمان ریاستوں( احمد نگر‘ بیجاپور‘ گولکنڈہ ) کو ختم کر کے سلطنت تو وسیع کر لی مگر ان ریاستوں کے انہدام سے مرہٹے ایک خطرناک جِن کی صورت میں بوتل سے باہر آگئے۔ یہ کہنا کہ یہ ریاستیں شیعہ تھیں اس لیے اورنگ زیب نے انہیں ختم کیا‘ درست نہیں اس لیے کہ اورنگ زیب جس طرح سلطنت کی وسعت پر کمر بستہ تھا ‘ اگر یہ ریاستیں سْنّی ہوتیں تب بھی اس نے انہیں چھوڑنا نہیں تھا۔ ان ریاستوں نے مرہٹوں کو قابو میں رکھا ہوا تھا۔ ملازمتیں بھی دی ہوئی تھیں اور زیر بھی کر رکھا تھا۔اب یہ ایک فورس بن گئے۔ مرہٹوں نے اورنگ زیب کو آخری عمر میں ناکوں چنے چبوا دیے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب دہلی کا مغل حکمران مرہٹوں کے رحم و کرم پر تھا۔ ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اگر بادشاہت دارا کو ملتی تو وہ اکبر کی پالیسیوں کو از سرِ نو جاری کر کے ایک مضبوط ہندوستان وجود میں لاتا جس میں ہندو برابر کے شریک ہوتے‘ یوں ایسٹ انڈیا کمپنی کو میدان خالی نہ ملتا اور تاریخ مختلف ہوتی! معروف مورخ سٹینلے لین پول بھی یہی رائے رکھتا تھا۔
تخت نشینی کی اس دور رس نتائج رکھنے والی جنگ کے پورے ایک سو سال بعد ایک نئی مصیبت آئی جس نے بر صغیر کا ناک نقشہ نہ صرف تبدیل کر کے رکھ دیا بلکہ مسخ بھی کر دیا۔ اس کا تذکرہ ہم اگلی نشست میں کریں گے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment