ادھر پیکنگ شروع ہوئی ‘ اُدھر سراسیمگی اُس پرسوار ہو گئی!کبھی کمرے کے اندر ‘ کبھی باہر ! بے چینی صاف جھلک رہی تھی!
اس بار اس کا قیام زیادہ دن رہا۔جتنے دن رہا‘ بے حد خوش! ایک تو یہ گھر ‘ اُس کے اپنے گھر سے زیادہ فراخ تھا۔ یہ کشادگی اسے خوب راس آتی تھی۔ کمروں ‘ برآمدوں اور لاؤنج میں بھاگتا پھرتا۔ محبوب مشغلہ اس کا بالائی منزل پر جانا تھا۔ پہروں غائب رہتا۔ ہم سب کو معلوم ہوتا کہ اوپر گیا ہوا ہے۔ پوری منزل کی باقاعدہ تلاشی لیتا۔ لائبریری‘ خوابگاہیں‘ رسوئی‘ ایک ایک کا جیسے معائنہ کرتا۔پھر نیچے آتا۔ کبھی میری گود میں ‘ کبھی نانو کی گود میں ! ایک عجیب بات اس کی یہ نوٹ کی گئی کہ جتنی دیر میں تلاوت کرتا‘ چپ چاپ پاس بیٹھا رہتا۔ سنتا رہتا۔ جیسے ہی تلاوت ختم ہوتی ‘ اُٹھ کر باہر نکل جاتا۔ کبھی میری طبیعت اداس یا پریشان یا خراب ہوتی تو میں بیٹھک میں جا بیٹھتا تا کہ کچھ دیر تنہا رہوں۔ پانچ دس منٹ ہی گزرتے کہ مجھے ڈھونڈتا ہوا وہاں پہنچ جاتا۔ میرے موڈ کو دیکھتا کہ میں خاموش بیٹھا ہوں‘ پڑھ لکھ نہیں رہا تو یہ بھی خاموشی سے پاس والی کرسی پر یا صوفے پر بیٹھ جاتا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھتا۔ اگر میں جواب میں مسکراتا تو فوراً گود میں آ کر بیٹھ جاتا۔ حیرت ہوتی کہ کس طرح موڈ شناسی میں طاق ہے۔
واپس اُس دن کی طرف چلتے ہیں جس دن اِن لوگوں کی اپنے گھر کو روانگی تھی۔ سفر کی تیاری کے دوران یہ مسلسل مضطرب رہا۔ پھر جب گاڑی میں سامان رکھا جارہا تھا تو ایک طرف کھڑا دیکھتا رہا۔آخر میں بیٹی بیٹھنے لگی تو یہ غائب تھا۔ سب ڈھونڈنے لگے۔ اوپر کی منزل میں‘ لائبریری کے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا ملا۔ جب بھی بیٹی کچھ دن گزار کر اپنے گھر روانہ ہو رہی ہوتی ہے‘ بڑی بھی اور چھوٹی بھی ‘ میں ایک امتحان سے گزرتا ہوں۔ ایک تو لمحۂ موجود کی اذیت ہوتی ہے۔دل ڈوبتا ہے۔ اس کیفیت کوایک بیٹی کا باپ ہی سمجھ سکتا ہے اس لیے کہ ابھی تک دنیا کی کسی زبان کی لغت میں ایسے الفاظ وجود میں نہیں آئے جو اُس کیفیت کو ادا کر سکیں جو بیٹی کی روانگی کے وقت ایک باپ پر طاری ہوتی ہے۔ یہ چند لمحے‘ جب ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کرتا ہے‘ جب بیٹی ‘ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے‘ ہاتھ ہلاتی ہے‘ جب پہیے حرکت میں آتے ہیں‘ پھر جب تک گاڑی نظر سے اوجھل نہیں ہو جاتی‘ آنکھیں اس پر جمی رہتی ہیں‘ یہ چند لمحے اُن برسوں کو ایک فلیش لائٹ کی طرح سامنے لے آتے ہیں جو بیٹی نے یہاں‘ اپنے ماں باپ کے گھر‘ گزارے ہوتے ہیں! کس طرح‘ مصلے پر بیٹھ کر باپ نے دعائیں مانگی ہوتی ہیں کہ تیرا شکر ہے کہ بیٹے عطا کیے ہیں! اس بار بیٹی عطاہو! پھر اس کی پیدائش پر کیا کیا جشن برپا ہوتے ہیں۔ چلنا شروع کرتی ہے تو باپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی انگلی پکڑ کراپنے چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ ‘ گلی میں ‘ اس کے ساتھ ساتھ ‘ چلے۔ پھر بڑی ہوتی ہے تو جیسے ایک فرشتہ آسمان سے اُترتا ہے باپ کا خیال رکھنے کے لیے! دوا سے لے کر لباس تک ہر شے کی اسے فکر ہوتی ہے۔
ایک تو روانگی کے وقت لمحۂ موجود کی اذیت! دوسرا یادوں کی واپسی!
وقت ری وائنڈ ہوتا ہے۔ کس طرح امی جان‘ کچھ دن اپنے ماں باپ کے ساتھ گزار کر‘ واپس آرہی ہوتی تھیں! اُس دن صبح ہی سے ہماری نانی جان کو چُپ لگ جاتی تھی۔ نانا جان ملازم کو گھوڑی تیار کرنے کا کہتے تھے۔ یہ ملازم ہماری پیدائش سے بہت پہلے کا ‘ یہاں رہتا تھا۔ اس کا نام آج بھی معلوم نہیں اس لیے کہ ہم اسے '' ماما ڈنگراں آلا‘‘ (مویشیوں والا ماموں ) کہتے تھے۔ یہی اس کا گھر تھا۔ کبھی سال دو سال بعد ایک بار اپنے اصل گاؤں کا چکر لگاتا تھا۔ یہ بھی یاد ہے کہ ہر عید پر بسیار خوری کرتا۔ مٹی کی بڑی پلیٹ کو طباق کہتے تھے۔ بھرا ہوا طباق‘ مکھڈی حلوے کی چوٹی نکلی ہوئی! اس سے عید کی دوپہر وہ کھانے کا آغاز کرتا۔ اسے ختم کرنے کے بعد چاول‘ گوشت ‘تنور کی روٹیاں اور کھیر ! ہر عید کے دوسرے دن ماما ڈنگروں والا ‘ باقاعدگی سے سوء ہضم کا شکار ہوتا! اُن دنوں گاؤں کیا شہر میں بھی اینٹی بائیوٹک ادویات متعارف نہیں ہوئی تھیں۔گاؤں میں تو آج بھی نہیں ! مامے کے لیے سونف اور اجوائن کے کاڑھے بنتے‘ بار بار سبز چائے پیتا! پھلکا اسے مونگ کی دال کے ساتھ دیا جاتا۔ تب گاؤں میں بیمار کے لیے صرف پیاز‘ لہسن اور اناردانے کا سالن سا بھی بنایا جاتا۔ اسے بھی کاڑھا ہی کہتے تھے۔ بہر طور‘ گھوڑی آراستہ کر کے‘ حویلی کے مین دروازے پر لائی جاتی۔ روانگی سے پہلے ‘ نانا جان سفر کی دعا کرتے جس میں سب ‘ ہاتھ اٹھا کر ‘ شامل ہوتے۔ ادھر سے بڑے یا چھوٹے ماموں ہماری امی جان کو سوار ہونے میں مدد دیتے۔ دوسری طرف ‘ نانا جان‘ رکاب کو پکڑ کر نیچے کی طرف رکھتے۔ آج کل تکریم کی نشانی یہ ہے کہ آپ دوسرے کو بٹھانے کے لیے کار کا دروازہ خود کھولیں اور جب سواری بیٹھ جائے ‘ تو دروازہ آپ خود بند کریں۔ جس زمانے کی بات اوپر ہو رہی ہے ‘ اُس وقت تکریم کی ایک علامت یہ بھی ہوتی تھی کہ گھوڑی کی رکاب دوسری طرف سے پکڑ کر نیچے کی جانب رکھی جائے۔ اس کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ زین ‘ ایک طرف سرک نہ جائے۔ گھوڑی جب تک اوجھل نہ ہو جاتی‘ نانا جان‘ ساکت کھڑے رہتے ‘ دیکھتے رہتے اور مسلسل کچھ پڑھتے رہتے۔
بات یہ ہورہی تھی کہ اوپر کی منزل میں‘ لائبریری کے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا ملا۔ اسے لا کر پچھلی سیٹ پر بٹھایا گیا۔ گاڑی چلی اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ اس کے بعد کی روداد بیٹی نے تین چار دن بعد فون پر بتائی۔ سارا راستہ اُس نے ادھر ادھر نہ دیکھا۔ چپ چاپ سیٹ پر ایک گٹھری کی مثال پڑا رہا۔ گھر پہنچ کر اسے گاڑی سے اتارا گیا۔ مگر اس نے چلنا پھرنا مکمل بند کر دیا۔ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ کبھی سامنے خلا میں دیکھتا کبھی یوں لگتا جیسے سو رہا ہے۔شام ہوئی‘ پھر رات آئی‘ اسی طرح بیٹھا رہا۔ کچھ کھایا نہ پیا! دوسری صبح بیٹی اُٹھی تو یہ غائب تھا۔ کچن میں گئی تو ریفریجریٹر کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پکڑ کر نیچے اتارا‘ چمکارا مگر کھانا بِلّے نے اس دن دوپہر کو بھی نہ کھایا۔ بیٹی پریشان ہو گئی۔ سلوتری کے پاس لے گئی اور سارا قصہ سنایا۔ سلوتری نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ بِلّا نانو گھر سے واپس نہیں آنا چاہتا تھا۔ اب وہ ڈپریشن (Feline Depression) میں ہے۔ ایک دو دن میں نارمل ہو جائے گا۔
چند دن بعد میں بیٹی کو ملنے گیا۔ کَیٹ ٹری پر ( ایک چبوترہ نما چیز ہوتی ہے) بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی میں بیٹھا‘ چھلانگ لگا کر میرے پاس آگیا۔ خر خر کرتے ہوئے پہلے میرا طواف کیا۔ پھر گود میں آگیا۔ بار بار اپنا منہ میرے ماتھے اور چہرے کے قریب کرتا۔ اتنا کہ اس کے بال مجھے چھو لیتے۔
اتنی محبت ! اتنی بے لوث محبت ! مجھ سے کوئی کام بھی نہیں۔ کسی کو ملازمت دلوانی ہے نہ کوئی اور غرض ہے۔ پھر بھی اتنی اہمیت ! اتنی عزت افزائی! خدا کا شکر ہے کہ پی آر کا مرض صرف انسانوں تک محدود ہے۔اور خدا کا مزید شکر ہے کہ ابھی اس دنیامیں چوپائے موجود ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment