’’نادرا نے ایک لاکھ تیس ہزار افغان شہریوں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ سالِ رواں میں ایک لاکھ مزید افغانوں کے بارے میں چھان بین کی جائے گی۔ نادرا کے ذرائع سے وصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق افغان باشندوں نے ملک کے طول و عرض میں وسیع کاروبار اور جائیدادیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ اس میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ متعلقہ حکام کو افغانوں کی شناخت میں دقت ہو رہی ہے، تا ہم نادرا نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ موجودہ سال کے دوران ایک لاکھ مزید ایسے افغان دریافت کر لیے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب شناختی کارڈوں کو کمپیوٹرائز کیا جا رہا تھا تو اس وقت پچیس لاکھ افغانوں نے ناجائز ذرائع سے پاکستانی شہریت حاصل کر لی تھی۔ یہ بات وزارتِ داخلہ نے اور ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت( سیفران) نے حکومت کو بتائی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی نشاندہی ہو جائے‘‘۔
یہ عام سی خبر اُن سیکڑوں خبروں میں سے ایک ہے جو آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ سرخی پڑھتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں۔ بہت سے سرخی بھی نہیں پڑھتے۔ کچھ نادرا کا نام دیکھ کر ایسی خبروں کو پڑھنے کے قابل نہیں سمجھتے اور کچھ افغان کا لفظ دیکھ کر کسی اور خبر کی تلاش میں اگلا صفحہ کھول لیتے ہیں۔
دلچسپ ترین حصہ اس خبر کا آخری دو سطریں ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ سیفران نے ’’حکومت‘‘ کو بتایا ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی شناخت ہو جائے گی۔ کون پوچھے اور کس سے پوچھے کہ کیا یہ وزارتیں خود، حکومت نہیں ہیں؟ اور اگر انہوں نے ’’حکومت‘‘ کو بتایا ہے تو ’’حکومت‘‘ سے مراد کیا ہے؟ یہ ہے وہ طریقِ واردات جس سے حکومتِ پاکستان میں کسی کی ذمہ داری کا تعین نہیں ہوتا اور نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے! نادرا وزارت داخلہ کی سلطنت کا ایک حصہ ہے۔ وزارت داخلہ ہی حکومت ہے۔ اب اس نے جس اور حکومت کو بتایا ہے، وہ نہ جانے کون سی ہے؟
ایک گزشتہ کالم میں ہم نے دہائی دی ہے کہ اڑھائی ہزار کلومیٹر کا بارڈر افغانستان کے ساتھ، بارڈر نہیں بلکہ شاہراہِ عام ہے، جہاں سے پچاس ساٹھ ہزار مسلح افراد ہر روز سفری دستاویزات کے بغیر آتے اور جاتے ہیں۔ اس سارے معاملے کا دوسرا شرمناک ترین پہلو وہ لاکھوں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہیں جو متعلقہ محکموں نے کرپشن کی سیڑھی پر چڑھ کر افغان غیر ملکیوں کو پیش کیے ہیں! ہزاروں پاکستانیوں کی شہادت اور ہزاروں خاندانوں کے اجڑنے کے بعد اس قوم کوبتایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے کہ ان کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ افغانوں نے شہریت حاصل کی ہوئی ہے۔
تو کیا اس ’’دریافت‘‘ اور اس اعتراف کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا؟ ناجائز ذرائع کے ذکر سے یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ دستاویزات جاری کرنے والوں نے کرپشن کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ پچیس لاکھ دستاویزات فرشتوں نے آسمان سے پھینکی تھیں؟ یا پاکستانی دفتروں میں بیٹھے ہوئے پاکستانی اہلکاروں نے تیار کی تھیں؟ تیار کرنے والوں کے نام یقیناً دفتروں کے ریکارڈ میں موجود ہوں گے۔ تو کیا اِن مجرموں کو کوئی سزا ملے گی؟ یہ مجرم معمولی مجرم نہیں، یہ غدار ہیں۔ رشوت لے کر غیر ملکیوں کو پاکستانی شہریت دینے والے اِن دوزخیوں نے ملک سے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی کم از کم سزا یہ ہے کہ ان کی جائیدادیں ضبط کر کے انہیں پھانسی یا عمر قید کی سزائیں دی جائیں تا کہ آئندہ کوئی اس لعنت کا مرتکب نہ ہو۔
مگر آپ یقین کیجیے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کبھی ہوا بھی نہیں! اس لیے کہ ڈالر اور روپے وصول کر کے دوستوں کے ساتھ، اپنے مقتولین کے ساتھ اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کرنے کے لیے پاکستان پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جب اجمل کانسی کو گرفتار کرنے کے لیے امریکہ نے کانسی کے اُن دوستوں کو، جنہوں نے اُسے چھپایا ہوا تھا، 35 لاکھ ڈالر دیے اور انہوں نے یہ رقم لے کر اپنے دوست کو پکڑوایا تو امریکی وکیل نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ لوگ تو بیس ہزار میں بک سکتے ہیں، انہیں اتنی زیادہ رقم دینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ وہ موقع تھا جب اس وکیل نے وہ تاریخی فقرہ کہا جو ہماری پیشانیوں پر ثبت ہو چکا ہے۔۔۔۔ ’’پاکستانی ایک ڈالر کے لیے اپنی ماں کو بیچ دیں گے‘‘۔
مگر ہم غیرت مند بہت ہیں۔ اِس ریمارک پر ہماری غیرت جاگ اٹھی۔ اس وقت تھامس سائمن اسلام آباد میں امریکی سفیر تھا، اسے وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیا گیا کہ ہماری
غیرت پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ غالباً اُس نے معذرت بھی کی تھی۔ واشنگٹن میں بھی ہمارے سفارت خانے نے امریکی نائب وزیر خارجہ(انڈر سیکرٹری) سے شکوہ کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ چند برسوں بعد ہمارے ملک کے ایک صدر نے اپنی کتاب میں ببانگِ دہل اعتراف کیا کہ ’’ہم‘‘ نے القاعدہ کے 369 ارکان پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیے اور لاکھوں ڈالر لیے۔ اگر آپ انہیں پکڑ کر اپنے ملک کی خدمت کر رہے تھے تو معاوضہ کیوں لیا؟ اور اگر آپ نے معاوضہ لیا، جس کا آپ تحریری اعتراف کر رہے ہیں، تو پھر گویا آپ دوسروں کے ملازم تھے۔ امریکہ جاگیردار تھا اور آپ اس کے کارندے تھے۔ کارندے جاگیردار کے دشمنوں کو پکڑ کر جاگیردار کے حوالے کرتے ہیں اور معاوضے میں تنخواہ اور انعام پاتے ہیں۔ اور وہ رقم گئی کہاں؟ کیا وہ بیت المال میں جمع ہوئی؟ اگر جمع ہوئی تو کوئی ثبوت؟ نہیں جمع ہوئی تو کس کی جیب میں گئی؟ کیا اِس قوم کی سیاہ بختی کا کوئی کنارا نہیں؟ کہ اُسی سابق صدر کی ’’حفاظت‘‘ پر قوم کی خون پسینے سے حاصل کردہ آمدنی کروڑوں میں خرچ ہو رہی ہے۔ مگر اس کا بھی کیا غم کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والا ایک سابق چیف جسٹس، سیاسی جماعت بنا کر اس کا سربراہ بھی بن چکا اور ’’انصاف پسند‘‘ کا یہ عالم ہے کہ بلٹ پروف گاڑی ابھی تک سرکار کی رکھی ہوئی ہے! لاکھوں روپے کی رقم اس کی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک ہر ہفتے اور ہر مہینے خرچ ہو رہی ہے مگر الحمد للہ ضمیر مطمئن ہے!
اجمل کانسی کو فروخت کرنے والے تو چند گنے چنے افراد ہوں گے۔ مگر پچیس تیس لاکھ غیر ملکیوں کو شہریت فروخت کرنے والے تو چند گنے چنے افراد نہیں ہو سکتے۔ یہ تو کم از کم بھی سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گے۔ ان میں سے کثیر تعداد اب بھی نادرا کے دفتروں میں ’’کام‘‘ کر رہی ہو گی! جو ریٹائر ہو چکے، وہ بھی اس ملک کے اندر ہی ہوں گے اور پنشن اور دیگر مراعات سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے۔ مگر انہیں سزا دینے کا سوال اس لیے نہیں پیدا ہوتا کہ ماں اپنی ہو یا مادرِ وطن ہو، اسے بیچنے کی کالک ہمارے چہرے پر ملی جا چکی ہے!
ہم نے کیا فروخت نہیں کیا؟ کیا نوکریاں نہیں بیچی جاتیں؟ کیا تھانے نہیں فروخت ہوتے؟ چیلنج ہے وزیر اعظم کے لیے اور صدرِ مملکت کے لیے کہ بھیس بدل کر، گمنام شہری بن کر کسی کچہری میں جائیں اور کوئی مکان یا کھیت یا پلاٹ رشوت دیے بغیر کسی کے نام پر منتقل کر کے دکھائیں! اب تو محکموں کے نام ’’دبئی سیکشن‘‘ اور ’’کویت سیکشن‘‘ رکھے جا رہے ہیں۔ اب تو ترقیاتی اداروں میں روڈ بنوانے والے محکموں کو ’’گولڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں۔ انتخابات کے ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں فروخت ہوتی ہیں۔ بچے فروخت ہوتے ہیں۔ عورتیں فروخت ہوتی ہیں۔ جسم کے اعضا فروخت ہوتے ہیں۔ وزارتیں فروخت ہوتی ہیں۔ اور تو اور عزتیں فروخت ہوتی ہیں۔ اور انتظار کیجیے اس دن کا جب ولدیتیں بھی فروخت ہونے لگیں۔
پچیس لاکھ غیر ملکیوں کو شہریت کی فروخت تو محض نمونے کی فروخت ہے! شعر تو پامال ہو چکا ہے مگر اطلاق اس کا ہم پر مکمل ہو رہا ہے ؎
دہقان وکشت وجو و خیابان فروختند
قومی فروختند و چہ ارزان فروختند
قوم بیچ ڈالی اور کتنی سستی! ملک بیچا جا رہا ہے اور کتنا ارزاں!!
No comments:
Post a Comment