میاں محمد نواز شریف کے عہدِ حکومت میں اداروں کی تباہی کی بات اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اس کا تذکرہ کرنا عبث لگتا ہے۔ دونوں بھائیوں کو خدا سلامت رکھے 'اس قدر مستقل مزاج ہیں کہ کسی احتجاج' کسی اعتراض کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔اس کا ایک بڑا سبب دو بزرگ ترین اداروں کا بے اثر ہوجانا ہے یہ دو ادارے جو دوسرے تمام اداروں کی ماں کا درجہ رکھتے ہیں 'پارلیمنٹ اور کابینہ ہیں 'اگر یہی خاموش ہوجائیں تو عوام کا احتجاج اپنی قدرو قیمت کھو بیٹھتا ہے۔ ان دونوں اداروں کا گلا سب سے پہلے دبادیا گیا۔ کابینہ ربڑ کی مُہر بن کررہ گئی۔کئی کئی ماہ گزر جاتے تھے کہ میاں صاحب کے دور میں وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہی نہیں ہوتا تھا ۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کو وہ اس قابل ہی نہیں گردانتے تھے کہ اس میں آئیں 'اجلاس اٹینڈ کریں اور ارکان کے خیالات سے براہ راست استفادہ کریں ۔پنجاب میں صورت حال اس سے بھی ابتر ہے۔ جاتی امرا کو وزیراعظم کے کیمپ آفس کا درجہ حاصل رہا ۔ستر کروڑ چار دیواری پر لگ گیا۔ہزاروں اہلکار وہاں تعینات ہیں تمام جملہ اخراجات بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ وزارت اعظمیٰ گئی تو ان " خاندانی" ثروت مندوں نے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تو شروع ہی سے مالدار تھے ایک اور خفیہ دروازہ کھول لیا ۔حکم صادر ہوا کہ اب جاتی امرا کو وزیراعلٰی پنجاب کا دفتر قرار دیا جائے احتجاج ہوا تو حکم کو ذرا تعطل میں ڈال دیا گیا۔بچے بچے کو اس حقیقت کا علم ہے کہ "خاندانی"امرا اتنی چھوٹی اور خفیف حرکتیں نہیں کرتے۔ان کے ہاتھ دینے والے ہوتے ہیں لینے والے نہیں ہوتے۔جس طرح لاہور میں اپنی متعدد رہائش گاہیں یہ حضرات سرکاری خزانے سے پال پوس رہے ہیں اور جس طرح جاتی امرا کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کے بجائے عوام کے ٹیکسوں سے ادا کئے جارہے ہیں اس سے قوم کا بچہ بچہ جان گیاہے کہ یہ لوگ خاندانی امیر ہرگز نہیں ۔ یہ طرزِ عمل نودولتیوں کا شعار ہوتا ہے۔جنہوں نے سب کچھ دیکھا ہو،ثروت مندی جن کے خاندانوں میں مدتوں اور زمانوں سے راج کررہی ہو وہ قناعت پسند ہوتے ہیں ۔طارق نعیم کاشعر یاد آرہا ہے۔
یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی'شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!
خاندانی ثروت مند بیٹیوں نواسیوں کے نکاح مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے مقدس مقامات پر پڑھوائیں تو اس کا بار عوام پر نہیں ڈالتے'خود برداشت کرتے ہیں قومی ائیر لائن کے جہازوں کو ذاتی اور خاندانی مقاصد کے لیے بے دردی سے جس طرح استعمال کیا گیا' اس سے اصلیت کا بھی پتا چل گیا۔محمود غزنوی نے فردوسی کے ساتھ کیا گیا وعدہ جب پامال کیا تو فردوسی نے کہا کہ خاندانی لوگ اس طرح نہیں کرتے۔ اس موقع پر اس کے کہے گئے اشعار ایک باقاعدہ کلیہ کی صورت اختیار کرگئے ہیں ۔
جب ہم کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کا طرزِ حکومت شخصی اور قبائلی تھا'جمہوری نہیں تھا 'تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سارے فیصلے ذاتی پسند اور ناپسند کے حوالے سے کرتے تھے تازہ ترین نمونہ اس قبائلی اور شخصی طرزِ حکومت کا پی آئی اے کے سی ای او(چیف ایگزیکٹو آفیسر) کی تعیناتی ہے۔اس منصب کے لیے اسی کو تعینات کیا جاتا ہے جو ہوا بازی کی صنعت میں کم از کم پچیس سال کا تجربہ رکھتا ہو۔ہوا بازی کے مشیر (یا وزیر) نے اپنے سٹاف افسر کو اس عہدے کے لیے تجویز کیا ۔سٹاف افسر کا ہوا بازی کے شعبے سے کوئی تعلق نہ تھا۔نہ ہی ایک دن کا تجربہ اس میدان کا تھا۔اگر نواز شریف صاحب کا طرزِ حکومت جمہوری ہوتا تو وہ پوچھتے یا خود دیکھتے کہ تعیناتی کے قانونی تقاضے کیا ہیں اور کیا تجویز کیا ہوا شخص پیشہ ورانہ اہلیت رکھتا ہے۔ مگر چونکہ طرزِ حکومت قبائلی اور شخصی ہے' اس لیے وزیر کے کہنے پر سابق وزیراعظم نے یہ تعیناتی منظور کرلی ۔گویا قومی ائیر لائن کی تباہی میں ابھی کچھ کسر باقی تھی۔
اس غلط بخشی کے ضمن میں ایک ظلم اور بھی ہوا ۔وزیر کے چہیتے سٹاف افسر کی تعیناتی کے احکام پی آئی اے کے ایچ آر کے شعبے نے جاری کرنے تھے خبر یہ ہے کہ اس شعبے نے ایک جائز اعتراض کیا کہ شناختی کارڈ میںدی گٰئٰ تاریخ پیدائش میٹرک کی سند میں دی گئ تاریخ پیدائش سے مختلف ہے اعتراض کرنے والوں کو ملازمت سے برخواست کر دیا گیا !حالانکہ ان کا اعتراض کرنا ان کی ڈیوٹی کا تقاضا تھا۔"سٹاف افسری" پاکستان میں ایک ایسی علت ثابت ہوئی ہے جس نے اداروں کی تباہی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔مثلایہی دیکھیے کہ فوج سے آیا ہوا صدر یا وزیر اعظم کا سٹاف افسر جو اے ڈی سی کہلاتا ہے،باقی تمام فوجیوں سے زیادہ "لائق"اور"ممتازو منفرد"ثابت ہوتا رہا ہے۔سول سروسز میں عساکر پاکستان کا باقاعدہ کوٹہ ہے اس کا ایک طریق کار ہے ۔مسلح افواج سے جو افسر سول سروسز میں آتے ہیں،انہیںایک پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے ۔مگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیےکیا ہوتا رہا!
اسی طرح وزیراعظم کے "پرنسپل سیکرٹری " کے منصب کو ناانصافی اور ظلم کے لیےخوب خوب استعمال کیا گیا۔یوں لگتا ہے جو اہلکار وزیراعظم کا سٹاف افسر بنتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ لمبے ہاتھ مارنے کی کوشش کرتا ہے اور لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ مارنے کے لیے کھیل کھیلتا ہے ۔ایک صاحب جو سٹاف افسر (پرنسپل سیکرٹری)تھے ریٹائرمنٹ پر گھر جاتے جاتے پانچ سال کے لیے وفاقی محتسب بن گئے ۔پھر ایک اور صاحب نے ایل ریگولیٹری اتھارٹی کے عہدے پر شب خون مارا جو پروسیس پہلے سے چل رہا تھا اس میںان کا نام تھا نہ ذکر۔جن امیدواروں کے انٹرویو ہوئے تھے اور فائل میں جن کا مزکور تھا ،وہ سب بیک جنبش قلم منظر سے غئب ہو گئےاور حق "حقدار"کو مل گیا۔
تاریخ کو مزید کریدیے۔راولپنڈی،اسلام آباد،لاہور،کراچی کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران ،حکمرانوںسے متعارف ہو جاتے ہیں۔ائیر پورٹوں پراستقبال کرتے ہیںاور رخصت کرتے ہیں۔اگر سروے کیا جائے تو اس مضحکہ خیز حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ انہی اہلکاروں کی تعیناتیاں زیادہ تر بیرون ملک ہوتی رہیں۔پاکستان کے سفارتخانوں میں استقبال کرنے والے اور رخصت کرنے والے زیادہ ترتجارت اور زراعت کے "ماہرین "کے طورپر براجمان ہوتے رہے ۔"عمدہ ترین"مثال اس ناانصافی اور میرٹ کُشی کی وہ تعیناتی ہے جو ماڈل ٹاؤن 14 قتل کیس کے حوالے سے ایک اہلکار کی بطور "تجارتی سفیر"بیرون ملک کی گئی۔
قومیں انفراسٹرکچر سے ترقی نہیں کرتیں۔قانون پسندی سے ترقی کرتی ہیں۔اگر شاہراہوں کی تعمیر سے ملک ترقی یافتہ سمجھے جاتے تو آج سعودی عرب اور کویت جیسے ملک سوئٹزر لینڈ اور کینیڈا کے ہم سر گردانے جاتے۔ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں ملک کا سربراہ بھی قانون شکنی کا ارتکاب نہیں کرسکتا!
پس نوشت۔حضرت مولانا طارق جمیل نے ازراہ کرم رابطہ کر کے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے میا ں صاحب کو مشکلات کے حوالے سے وظیفہ نہیں بتایا ۔ ہاں ان کی علیل اہلیہ کے لئے انہوں نے دعائے صحت کی اور سالانہ عالمی اجتماع میں شرکت کی دعوت کی !اس کالم نگار نے مولانا کی خدمت میں عرض کیا کہ چونکہ کم و بیش سارے پرنٹ میڈیا میں وظیفہ بتانے کی خبر شائع ہوئی اس لئے مناسب ہے کہ ایسے مواقع پر مولانا کا کوئی ترجمان صورت حال کی وضاحت کر دیا کرے تا کہ ان کے معتقدین میں اضطراب نہ پھیلے۔بہر طور اس وضاحت کے لئے کالم نگار مولانا کا شکر گزار ہے۔
No comments:
Post a Comment