Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, November 08, 2017

کتاب فروش اور میں !



کتاب فروش سے اردو کی بی اے کی کتابیں طلب کیں اور وضاحت کی کہ اردو کے مضمون کے لیے بی اے کی وہ کتابیں درکار ہیں جو خواتین کے لیے ہیں ،اس نے  کتابوں  کا  ایک  سیٹ دیا، اب اردو کی وہ کتابیں مانگیں جو بی اے میں مردوں کے لیے مخصوص ہیں ، اس نے کتابوں کا ایک اور سیٹ دیا۔دونوں کھول کردیکھے تو  ایک سے ہی تھے۔ وہی کتابیں اور اتنی ہی کتابیں ۔
اب ایم اے اردو خواتین کے لیے   کتابیں مانگیں  ،تو ایک سیٹ کاؤنٹر پر رکھ دیا گیا۔ پھر ایم اے اردو مردوں کے لیے کتابوں کا مطالبہ کیا۔ کتاب فروش  نے ایک اور سیٹ دے دیا۔ ان دونوں سیٹوں کو کھول کردیکھا تو  یہ بھی ایک جیسے ہی تھے۔

پوچھا ،خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ کتابیں کیوں نہیں ؟ ۔دنکاندار پڑھا لکھا تھا۔ عجیب دلیل دی۔

کہنے لگا  اردو شاعروں  ادیبوں  نے ادب  تخلیق کرتے وقت یہ تخصیص کب کی تھی کہ یہ تخلیق عورتوں کے لیے ہے اور  فلاں مردوں کے لیے؟۔ اب آپ بتائیے فسانہ ء  آزاد یا دیوان غالب یا باغ و بہار کیا  صرف مردوں کے لیے لکھے  گئے  ہیں ؟

یا صرف عورتوں کے لیے؟۔

اور آپ نے ابھی دو دو سیٹ  کتابوں کے مجھ سے نکلوائے ،پہلے یہ بتائیے کہ ادب میں یہ صنفی یا جنسی  تقسیم کب سے آئی؟بظاہر  آدمی آپ معقول لگتے ہیں ؟

حالات خراب ہوتے نظر آئے، کتاب فروش اب تقریباً غصے میں تھا،میں نے اس کی خوشامد کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔

ایک چرواہا ٹی وی چینلوں سے بہت بیزار  تھا، بات کا بتنگر  اور رائی کا پہاڑ  بنا کر، کھینچ تان کر ،معمولی سے واقعہ کو  "بریکنگ نیوز"بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور پھر سارا دن یہ بریکنگ نیوز ناظرین کی آنکھیں  پھوڑتی رہتی ہے ،ایک دن وہ اپنے مویشی  چرا رہا تھا اور آرام سے درخت کے نیچے بیٹھا  بانسری بجا رہا تھا، کہ ایک اینکر اس کا انٹرویو کرنے کے لیے آدھمکا۔

اینکر چرواہے سے ،آپ بکروں کو کیا کھلاتے ہیں ؟

چرواہا۔     کالے کو یا سفید کو؟

اینکر۔     سفید کو۔

 چرواہا۔    ۔گھاس

اینکر      اور کالے کو؟

 چرواہا۔   ۔اسے بھی گھاس

اینکر     ۔انہیں باندھتے کہاں ہو؟

 چرواہا۔     کالے کو یا سفید کو؟

 اینکر۔    ۔سفید کو

چرواہا۔   ۔ کمرے میں

اینکر۔   اور کالے کو۔؟

چرواہا۔   ۔اسے بھی کمرے میں

 اینکر۔    ۔انہیں نہلاتے کیسے ہو؟

چرواہا۔   ؟کسے ؟ کالے کو یا سفیدکو ؟

اینکر ۔     سفید کو؟

چرواہا۔    ۔پانی سے

اینکر۔    اور کالے کو؟

چرواہا۔   ۔اسے بھی پانی سے

 اینکر۔    (غصے سے،) بد بخت، جاہل جب دونوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہو تو  پھر بار بار کیوں پوچھتے ہو کہ  کالے کو یا سفید کو؟

چرواہا۔   ۔کیوں کہ سفید بکرا میرا ہے۔

اینکر۔     ،اور کالا؟

چرواہا۔   ۔وہ بھی میرا ہے!

حماقت کی یہ داستاں سن کر کتاب فروش کے چہرے پر مسکراہٹ  آئی،اب اسے وہ دعوت نامہ دکھایا جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی نے بھیجا تھا۔ اس میں دنیا کی عجیب و غریب بات یہ تھی کہ اردو کے دو شعبے تھے،ایک کے آگے (F)۔دوسرے کے آگے ا(M) لکھا تھا۔

پہلے تو میں اور دکاندار سوچتے رہے کہ اس "ایف اور ایم "کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، چونکہ "ایف" کے سامنے خاتون پروفیسر کا نام لکھا تھا۔اور "ایم"کے ساتھ مرد پروفیسر کا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو اس سے مراد  مرد اور عورت ہی ہے۔

اب یہ نہیں معلوم کہ  جو شعبہ اردو عورتوں  کے لیے ہے اس میں کون سی کتابیں  پڑھائی جاتی ہیں  اور جو شعبہ مردوں کے لیے ہے اس میں کون سی کتابیں پڑھائی جاتی ہوں گی، کافی دیر سوچنے کے بعد ہم اس  نتیجے پر پہنچے کہ عورتوں کے شعبہ اردو  میں بہشتی زیور او رحقوق الزوجین ضرور نصاب کا حصہ  ہوں گے ، مردوں کے لیے اردو ادب کے کورس میں موت کا منظر  اور حسن پرستوں کا انجام معہ ضمیمہ پڑھائی جاتی ہوں  گی۔

لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ  کیا انگریزی ادب ،سائنس،معاشیات ،بین القوامی تعلقات، اور دیگر تمام مضامین کے شعبے بھی صنفی اور جنسی بنیادوں پر الگ الگ قائم کیے گئے ہیں ؟اور کیا  نصاب بھی الگ الگ ہیں ؟

 کچھ مشکلات  جو ہمارے ناپختہ ذہنوں  میں در آئیں  یہ تھیں کہ اکاؤنٹسی،کیمسٹری ،فزکس، اور اس قبیل کے دوسرے علوم کو مردوں اور عورتوں میں کس طرح تقسیم کیا گیا ہوگا؟مثلاً کون سے اجزاعلمِ فزکس کے یا اکاؤنٹنسی یا قتصادیات کے خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ؟

اکنامکس میں ،توازن تجارت" یا تامین  

protection

جیسے موضوعات  غالباً خواتین کو نہ پڑھائے جارہے ہوں  ا۔اس لیے کہ خواتین کو پروٹیکٹ کرنے کلے لیے کچھ یونیورسٹیوں میں باقاعدہ مسلح جتھے موجود ہوتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اکنامکس میں تامین (پروٹیکشن) کا لڑائی جھگڑے  سے یا مرد عورت کی صنفی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ۔

کتاب فروش  کو اور مجھے اس سے بھی زیادہ پیچیدہ امر یہ درپیش  ہوا کہ سر سید  پر یونیورسٹی جو سیمینار کرا رہی تھی،اس میں  مردوں اور عورتوں  کی یہ تقسیم  ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئی تھی۔ مقالات پڑھنے والوں میں  مرد بھی تھے، اور عورتیں بھی۔،یہ تو  "اختلاطِ  مرد و زن " کا ارتکاب ہوا ،جس کا سدِ باب  کرنے لے لیے یونیورسٹی ایک عرصہ سے کام کرہی ہے،بلکہ  یہی کام کرہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سیمینار منعقد کیے جاتے ،ایک "مطالعہ،سرسید برانے خواتین"اور دوسرا  "مطالعہ ۔سرسید برائے مرد حضرات" ۔اگر اردو ادب  اس بنیاد پر دو  مختلف حصوں میں بٹ سکتا ہے تو سرسید کے مطالعے کی کیا جسارت  ہوسکتی ہے کہ بٹ جانے سے انکار کرے۔

دوسرا تکنیکی سوال یہ  پیدا ہوا کہ اگر سیمینار میں  عورتوں  اور مردوں کو اکٹھا کردیا گیا تو مقالہ پیش  کرنے والوں میں دونوں اصناف  نے شرکت کی اور گمان غالب ہے کہ سامعین میں سامعات بھی ہوں گی، اور اگر اس  دوران مملکت پاکستان پر کوئی  پہاڑ آن گرا نہ آسمان۔ اور سنان اور سننے والی خواتین ون پیس میں  شام کو اپنے اپنے گھروں میں پہنچ گئیں تو اردو شعبے  کو مردوں اور عورتوں کے لیے ایک کردینے میں ،سوائے چند  مذہبی دکانداروں کے،کسے نقصان ہوگا؟

مگر یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ اصل مشکل آگے پیش  آرہی تھی،کتاب فروش اور میں نے جب دعوت نامے کا بغور مطالعہ کیا تو خواتین کے بارے میں احساس کمتری کے علاوہ ایک اور  شدید نفسیاتی عارضہ بھی کارڈ سے قطرہ قطرہ نچڑ کر نیچے زمین میں جذب ہورہا تھا۔ وہ یہ تھا کہ  صاحب علم ہونے  کے لیے خاص طور پر سر سید احمد  کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دو شرائط پر پورا اترنا  لازم نظر آیا۔

ایک یہ کہ مقرر پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹر ہو،دوسرے یہ کہ کسی نہ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہو۔ پچانوے فیصد مقررین کو اسی حوالے سے بلایا گیا تھا۔ کل ہی عطا الحق قاسمی صاحب نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ مشاعرہ ہال میں ایک سامع  دندناتا  ہوا داخل ہوا۔اسے منیر نیازی نظر آئے۔

ان سے پوچھا کیا آپ بھی شاعر ہیں ؟منیر نیازی نے کہا نہیں، میں قتیل شفائی ہوں  ۔

اب اگر اسی طرح کا کوئی حاطب اللیل کسی سیمینار میں گھس جائے اور کسی معززشخص سے جو معنک بھی ہو، کوٹ پتلون اور نکٹائی  میں بھی ملبوس ہو اور سیاہ جوتے جس کے پالش  سے چمک بھی رہے ہوں ، پوچھ  بیٹھے کہ کیا آپ بھی صاحب علم ہیں ؟ تو منیر نیازی کی طرح  جواب میں وہ یہ نہ کہہ دے کہ نہیں" میں تو "اردو میں پی ایچ ڈی ہوں "۔

ویسے ایک کھیپ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی ایسی بھی نکلی جو فی الواقع  صاحبان علم پر مشتمل تھی ،داکٹر معین نظامی کو دیکھیے، ان کے شاگرد بھی کہاں  کہاں  پہنچ چکے ،ڈاکٹر  شعیب  احمد ہیں، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ہیں ، داکٹر ارشد ناشاد ہیں ،جو صیحٰح معنوں میں محقق کہلانے کے مستحق ہیں ۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ہیں ، ساری زندگی  پوری سنجیدگی سے کام کیا  اور تحقیق کا حق ادا کیا۔

ڈاکٹر عزیز  ابن الحسن ہیں ،جنہیں  پڑھ کر عسکری اور سلیم احمد یاد  آجاتے ہیں ، برخوردار  ارشد معراج ہیں  کہ تحقیق کے لیے طویل چھٹی لی۔ مالی مشکلات برداشت کیں ۔  مگر ڈاکٹریٹ  اس طرح کیا جیسے کرنا چاہیے  تھا۔ یہی صورتحال ڈاکٹر روش ندیم کی ہے۔ رہے ڈاکٹر شاہد صدیقی تو اردو ان کی تحقیق کا موضوع ہی نہ تھا۔، مگر جس  طرح اوپن یونیورسٹی کو آکر جگایا۔ منہ ہاتھ دھلا کر پوشاک بدلوا کر میدان میں اتارا  اور مردہ رگوں میں جان پیدا کی،انہی کا حصہ ہے ۔

اور بھی نام ہیں !  معتبر نام! مگر اوپر سے بالائی کی  یہ تہہ اتار دیں تو نیچے حالت پتلی ہے اور  بہت پتلی ہے۔ ہم جیسے عامی جو ڈاکٹریٹ نہیں رکھتے اور  کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتے ،سُو ء اتفاق  سے اسی ملک میں  رہتے ہیں ، اور ان لاتعداد طلبہ اور طالبات سے ملتے رہتے ہیں ،جو یونیورسٹیوں  ،میں  زیر تعلیم ہیں، پڑھانے والے بھی ہمارے حلقہ احباب میں ہیں ، اس سے کون کافر انکار کرے گا۔ کہ یونیورسٹی میں کرنٹ اور انڈر کرنٹ عجیب و غریب چلتے ہیں ، یعنی پانی کی سطح کے نیچے چلنے والی بحری رویں  -استاد کی نگاہِ حسن شناس  اگر کسی طالبہء علم پر ٹھہر گئی ہے اور اس طالبہ کو اکثر و بیشتر  اپنے کسی  کلاس فیلو لڑکے کے ساتھ دیکھا گیا ہے، تو پھر  اس لڑکے کی خیر نہیں ، اس کی ڈویژن ،اس کا تھیسس اور اس کا بہت کچھ خطرے کی زد میں آجائے گا اور ایسا "انتقام" عام  ہے۔

پی ایچ ڈی کرانا اب ان  یونیورسٹیوں میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔  اس انڈسٹری  کے لیے سرمایہ مطوب ہے۔ تعلقات درکارہیں ،کوئی ضامن یا گارنٹر ہو۔ پھر دیکھئے ڈگری ہاتھ آتی ہے یا نہیں۔

ہمارے ایک جاننے والے صاحب نے حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ کہتے ہیں ، سپر وائزر یعنی نگران پروفیسر  صاحب کو مقالے کا مسودہ بھیجا تو ایک عرصہ تک جواب ندارد آخر تنگ آکر فون  کیا تو فرمانے لگے ،بھائی! میں نے کیا دیکھنا اور بتانا ہے،بس آپ اپنے شعبے کے ماہر ہیں ،سب ٹھیک ہے۔

لیکن اس یونیورسٹی کے سیمینار میں جو سرسید خان پر تھا۔ خود سر سید پر کیا بیتی ؟یہ ایک الگ داستان ہے، طویل اور الم ناک !اور افسوس بے تصویر بھی۔

اگر  آپ کے اعصاب فولادی ہیں ،اگر آپ کا دل مضبوط ہے اگر آپ کی ساعد، محض ساعد سیمیں نہیں ،اور اگر آپ اس چند روزہ زندگی سے عاجز نہیں آچکے تو حواس  مجتمع رکھیے اور دل مضبوط  اس حادثہ ء فاجعہ کی کچھ تفصیل  اگلی نشست  میں بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی جائے گی، ابھی، اس وقت تو میں  اور کتاب فروش دونوں سر سید احمد خان کی تربت کی طرف دوڑے  جارہے ہیں ،کیوں کہ یونیورسٹی سیمینار ختم ہوتے ہی  وہا ں سے کچھ لوگ ایک پیر صاحب کی قیادت میں کدالیں اور پھاوڑے لے کر سر سید  کی قبر کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں۔خدا خیر کرے!          

       


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com