Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 30, 2017

واہ !سردار مہتاب عباسی صاحب ،واہ!


یہ صبح ساڑھے تین بجے کا وقت تھا،ابو ظہبی کے ائیر پورٹ پر پاکستان کی قومی ائیر لائن کا  جہاز پشاور  جانے کے لیے پر تول رہا تھا،غالب تعداد ان پاکستانیوں کی تھی جو محنت مزدوری کرنے آئے تھے،ان کا تعلق خیبر پختونخوا کی بستیوں اور قریوں سے تھا۔۔

ساڑھے سات بجے جہاز پشاور کی سرزمین پر اترا ،مسافر باہر نکلے  ،جنگلے  کے اس طرف ان کے  ماں باپ بیوی بچے دوست  احباب  بے تابی سے انتظار کررہے تھے، گھومتی ہوئی پٹی پر سامان آجارہا تھا۔،لوگ اپنا اپنا آئٹم پہچانتے اور ،بیگ اس  صندوق  اٹیچی کیس  یا کسی  بھی اور شکل میں ، اٹھاتے ،ٹرالی پر رکھتے اور باہر کا رخ کرتے۔
پھر پٹی چلنی بند ہوگئی، سامان ختم ہوگیا، تاہم تقریباً  اٹھارہ بیس  مسافر اب بھی  اپنے سامان کا انتظار کررہے تھے، وہ کھڑے رہے، ایک دوسرے  سے پوچھتے رہے، سول ایوی ایشن کے کچھ  ورکر نظر آرہے تھے ،ان سے پوچھا مگر وہ کیا بتاتے، پھر ان میں سےایک  دو نے ہمت کی،پی آئی اے  کے ایک اہلکار سے پوچھا ،اس نے نہایت اطمینان  سے جواب دیا، بھائی یہ جہاز چھوٹا ہے،ہم اٹھارہ بیس مسافروں کا سامان  ابو ظہبی میں چھوڑ آئے ہیں ، وہ بعد میں آئے گا، پوچھا گیا کب آئے گا۔  پی آئی اے کے اہلکار نے ایک ادائے بے نیازی سے ،جس میں  تغافل بھی تھا اور  حقارت بھی، جواب دیا کہ یہ کچھ  نہیں کہا جاسکتا،آج یا کل یا کچھ دنوں بعد۔

 آپ کا کیا خیال ہے ان مسافروں کی حالت اس وقت کیا ہوگی؟۔۔۔۔ یہ مزدور تھے، اپنے وطن سے دور رہ کر کفیل سسٹم کے ظلم و ستم سہہ کر انہوں نے  جسمانی مشقت برداشت کی،سامان اٹھایا ،چوکیداریاں کرتے رہے، مشینیں چلائیں ،ریستورانوں میں برتن مانجھے، خود بھوکے رہے،بچت کرکے گھر والوں کے لیے کچھ نہ کچھ خریداری کی، کسی کی جوان بہن انتظار کررہی تھی کہ بھائی کچھ لائے گا، اس کے جہیز کے لیے، کسی کی بیوی جدائیاں  برداشت کرکے منتظر تھی کہ  میاں  آئے گا تو گھر  کےاستعمال کی فلاں فلاں  شئے لیتا آئے گا،بوڑھے ماں باپ انتظار کرہے تھے،بیٹے نے ان کے لیے کچھ تحفے خریدے تھے، بچے اپنے کھلونوں اور چاکلیٹوں کے منتظر تھے،یہ سب سامان پی آئی اے والے ابوظہبی میں چھوڑ آئے تھے،انہیں کسی کی کچھ پروانہ تھی۔

سردار مہتاب عباسی سول ایوی ایشن کے مشیر ہیں ، ان کا رتبہ  عہدہ اور مراعات  وفاقی وزیر کے برابر ہیں ، کیا انہیں معلوم ہے کہ یہ پشاور میں پہلی بار نہیں ہوا، ان بیس مسافروں میں دو تین  پاکستانی ایسے بھی تھے جو یورپ امیریکہ سے آئے تھے، اور ابوظہبی سے فلائیٹ بدلی تھی، عام طور پر اتحاد ائیر لائن والے ابو ظہبی پہنچ کر اپنے مسافر پی آئی اے والوں کے حؤالے کردیتے ہیں ، جہاں تک پشاور کا تعلق ہے، پی آئی اے کا معمول ہے کہ  سامان چھوڑ آتے ہیں ، مزدور قسم کے سادہ لوح  پاکستانی احتجاج  کرتے ہیں نہ شکایت،

پشاو رپی آئی اے کے ایک  سینٹر عہدیدار  نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر  تفصیل سے آگاہ کیا  کہ یہ ظلم  ایک عرصہ سے پشاور  اور ارد گرد  کے علاقوں میں ہورہا ہے، جہاز چھوٹے ہیں ، کرایہ کی لالچ میں مسافر بٹھا لیے جاتے ہیں ، ان کا سامان  جان بوجھ کر  ایک پالیسی کے تحت چھوڑ دیا جاتا ہے، چونکہ مسافر  زیادہ تر  مزدور ، ان پڑھ  نیم خؤاندہ ہوتے ہیں ، وہ تحریری احتجاج تو کر ہی نہیں سکتے۔ زبانی احتجاج  کرتے ہیں مگر  اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، پی آئی اے والے ہنس کر  ،کبھی خاموشی  رہ کر ،کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرکے  ان لوگوں کو چپ کروا دیتے ہیں ۔

پشاور کے اسٹیشن منیجر  ایاز خان  سے جو پورے  ہوائی اڈے  کے سب سے بڑے افسر ہیں ، ان کے فون نمبر  0333-9462411پر بات ہوئی، تعجب کی  انتہا یہ تھی کہ  سٹیشن منیجر کو بقول ان کے  اس پورے واقعے کا بلکہ المیے کا علم ہی نہیں تھا۔ ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے یہ پریکٹس ایک عرصہ سے چل رہی ہے، اور صرف پشاور میں ایسا ہو رہا ہے، انہوں نے ایسے لہجے میں ،جس کا  مطلب تھا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے،جواب دیا کہ  ہاں ہوجاتا ہے، ان سے پوچھا  کہ کیا  آپ کو معلوم ہے کہ  یہ لوگ  جو مزدوری کرکے واپس آتے ہیں  تین تین چار چار سال  بعد وطن واپس آتے ہیں ، ان کی بہنیں  ،بیوی بچے، ماں باپ، اپنے تحائف  کے منتظر ہوتے ہیں ، ایاز خان کے بقول  وہ اس قسم کے کسی  المیے سے  بے خبر تھے۔

اگر سٹیشن منیجر کی بات سچ تھی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ  ائیر پورٹ کے  نچلے درجے کے ملازمیں  او ر اہلکار  سٹیشن منیجر کو اصل صورتحال سے بے خبر رکھے ہوئے ہیں ،  مگر سٹیشن منیجر کی کارکردگی اور استعداد کار کا اندازہ لگائیے کہ جو کچھ اس کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے ،اسے اس کا  پتہ ہی نہیں ، تو پھر کیا عجب کہ پی آتی اے دنیا کی ناکام ترین  ائیر لائنوں میں سے ہے۔

چیئر مین  پی آئ اے عرفان الہی صاحب سے  کمنٹ لینے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے معاون  مسٹر اویس  نے کہا کہ انہیں  فون نمبر دینے کی اجازت نہیں ۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ چیئرمین جو سول ایوی ایشن ڈویژن کے  سیکرٹری ہیں  ،پبلک سرونٹ بھی ہیں ، عوام کا حق ہے کہ ان تک رسائی ہو۔ تاکہ وہ انہیں صورتحال سے آگاہ کرسکیں ، مگر ان کا ہر بار ایک ہی جواب تھا  کہ عرفان صاحب کا حکم ہے کہ  ان کا فون نمبر کسی کو نہ دیا جائے،  سوال یہ ہے کہ کیا ان کا موبائل فون سرکاری نہیں ہے؟ کیا  اس کا بل حکومت کے خزانے سے ادا نہیں ہورہا ؟  پھر وہ اسے پردہ اخفاء میں کیسے اور کیوں رکھے ہوئے ہیں ۔

مگر اصل  ذمہ داری سردار مہتاب عباسی صاحب کی ہے جو مشیر  بمرتبہ وزیر ہیں ۔، وہ سیاستدان ہیں  ،بیوروکریٹ نہیں ، کیا انہیں معلوم نہیں کہ اہلِ پشاور کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ؟ اب وہ بدعائیں سنیے جو اپنی حق حلال کی کمائی سے ،اپنے خؤن پسینے سے ۔خریدے ہوئے سامان سے محروم  ہونے والے دے رہے تھے 

اس کالم نگار کو بدقسمتی سے پشتو نہیں آتی،(یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے صوبوں میں دوسرے صوبے کی زبان پڑھائی اور نہ ہی سکھائی جارہی ہے۔) کچھ لوگ جو وہاں موجود تھے،ان کی محبت کہ ترجمہ کرکے بتاتے رہے۔۔۔

 خدا اس ائیر لائن کا بیڑہ غرق کرے،

 ان اہلکاروں کا ستیا ناس ہو،

 ان کے بیوی بچے بھی اسی طرح سامان کو ترسیں جیسے ہمارے ترسائے جارہے ہیں ،۔

یہ حرام خؤر کرایہ پورا لیتے ہیں ، مگر اپنا فرض  نہیں سر انجام دیتے۔

ایک نسبتاً پڑھے لکھے شخص  سے بات ہوئی جو دو سال  بعد  مشرقِ وسطیٰ سے واپس آرہا تھا۔ وہ اپنے بیمار ماں باپ کے لیے کچھ دوائیں  بھی لایا تھا، اس کا کہنا تھا کہ  اگر اس کے پاس آپشن ہوتا تو وہ کبھی اس نام نہاد ائیر لائن سے سفر نہ کرتا ۔
ان لوگوں میں ایک صاحب مشرق بعید سے آئے ہوئے تھے ،انہوں نے بتایا کہ تین چار سال پہلے بھی پشاور ائیر پورٹ   پر ان کے ساتھ یہی ڈرامہ کھیلا گیا تھا، اور سامان  انہیں کئی  دن بعد ملا تھا۔

سوال یہ ہے  کہ  سردار مہتاب عباسی صاحب اس  بدترین مذاق کو ختم کرسکتے  ہیں ؟اور کیا وہ چیئر مین صاحب  اور سیکٹری کو باور کراسکتے ہیں کہ وہ سات پردوں میں  چھپنے کی بجائے ان لوگوں کا سامنا کریں  جنہیں ان کی ائیر لائن زہر کے ساتھ ڈس رہی ہے۔ جن کی جیبوں  سے لاکھوں روپے نکال کر انہیں سامان کے بغیر بے یار و مدد گار  چھوڑدیا جاتا ہے۔ ؟

اگر سردار  صاحب اتنا  بھی نہیں کرسکتے تو  پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ  واہ ! سردار مہتاب عباسی صاحب۔  واہ!    


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com