پُتلی بنانے اور نچانے کا فن قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے، پانچویں قبل مسیح میں بھی پُتلیاں موجود تھیں۔ پُتلی کو پپٹ بھی کہتے ہیں،اس لفظ کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو کہیں گے"ڈوری سے نچایا جانا"۔
عام طور پر پُتلی نچانے والا نظر نہیں آتا،ڈوری بھی مہین اور باریک ہوتی ہے۔ صرف غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ چھت سے ڈوریاں آرہی ہیں۔ڈوریاں ہلتی ہیں تو پتلیاں حرکت کرتی ہیں، ڈوری ہلانے والا چھپا ہوا ہوتا ہے،پتلی بذاتِ خود بے جان ہوتی ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن پر فاروق قیصر نے پتلی تماشا شروع کیا۔ان کے دو کردار جو بہت مشہور ہوئے انکل سرگم اور ماسی مصیبتے، مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں کردار گھروں کا حصہ بن گئے۔لیکن سیاسی پتلیوں نے فاروق قیصر کو بھی لاجواب کردیا،صدر ایوب خان نے کونسل مسلم لیگ بنائی،بنا کر ڈوریاں ہلائیں تو سیاستدان دوڑے دوڑے آئے،صدر ضیاالحق نے پتلیوں کو بٹھایا اور مجلس شوریٰ کا نام دیا۔صدر ڈوریاں ہلاتا تھا،پتلیاں مجلس شوریٰ میں ناچتی گاتی اور بولتی تھیں۔جنرل مشرف بھی بہت بڑا پتلی باز تھا،اس نے ق لیگ بنائی،ڈوریاں ہلاتا رہا،پتلیاں نچاتا رہا۔
یہ ساری پتلیاں آج برسرِ اقتدار پارٹی کے ساتھ کھڑ ی ہیں۔نام لینے کی بھی ضروت نہیں،یہ سب جانتے ہیں کہ کینیڈا میں تعینات پاکستانی سفیر سے لے کر وزیر قانون تک،سب لوگ دفاع کرنے والے آمریت کو برا کہنے والے وہی ہیں جو جنرل مشرف کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے تھے۔
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کے رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا!
غور کیجئے کہ عمران خان الیکشن کے لیے باہر نکلا تو آخر کیا وجہ تھی کہ مڈل کلاس کے جو عوام دہائیوں تک ووٹ دینے کبھی نکلے تھے،پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ گئے، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بیرون ملک سے ڈگری لیے ہوئے،بیوروکریٹ،ریٹائرڈ،سرکاری ملازم،ڈاکٹر،وکیل سب ووٹ دینے قطار وں میں کھڑے ہوگئے۔
یہ لوگ پہلے تیس سال ہر الیکشن کے وقت گھروں میں کیوں سوئے رہے؟
اس لیے کہ جس قماش،جس ذہنیت،جس ڈیل ڈول،جس ثقافت،اور جس مائنڈ سیٹ کے چوہدری ،وڈیرے اور اب صنعت کار منتخب اداروں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور چن لیے جاتے ہیں۔ان سے تعلیم یافتہ مڈل کلاس نفرت کرتی ہے۔ شدید نفرت،! منتخب نمائندوں کی اکثریت ڈیروں پر جرائم پیشہ مفروروں کی پرورش کرتی ہے۔قانون توڑتی ہے۔تھانوں پر حملہ کرکے ملزم چھڑاتی ہے۔ ان نمائندوں کی اکثریت اس حقیقت سے بے نیاز ہے کہ اس کاکام قانون سازی ہے، سفارشی کلچر پروموٹ کرنا نہیں۔
اہل سیاست کی جو قبیل آج ن لیگ میں جمع ہے اور جس کی ڈوریاں نوازشریف خاندان کا جوڑ توڑ ہلا رہا ہے،اس کا مائنڈ سیٹ دیکھیے کہ کسی ایک شخص میں بھی اس کا احساس ہے نہ ادراک ،نہ جرات کہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں یا قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑا ہوجائے اور کہے کہ حضور!یہ وہی عدالت ہے جس نے آپ کو معزولی کے بعد بحال کیا تھا۔یہی وہ عدالت ہے جس نے یوسف رضا گیلانی کو نکالا تھا، تو آپ نے خیر مقدم کیا تھا،اور اسی عدالت نے جب بھٹو کو پھانسی دی تو آپ کے مربی اور دریافت کنندہ ضیا الحق نے اسے قانونی عمل قرا ر دیا تھا۔
یہ سب پتلیاں ہیں۔کٹھ پتلیاں!شریف خاندان ان کو ڈور سے نچا رہا ہے، یہ وہ "آزاد "مخلوق ہے جو حمزہ شہباز اور مریم صفدر کے حضور بھی دست بستہ کھڑی رہتی ہے،
وزیر داخلہ برہم ہوئے اور یہ اعلان کیا کہ ایک قانون چلے گا اور ایک ریاست کے اندر دوسری ریاست نہیں ہوگی۔ بجا ارشاد فرمایا۔ مہینوں وزیر اعظم علاج کے سلسلے میں لندن مقیم رہے،ان کی عدم موجودگی میں کاروبارِ سلطنت ان کی بیٹی چلا رہی تھی، یہاں تک کہ غیر ملکی سفیر اسی کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے،یہ کون سا قانون تھا؟۔۔کیا یہ ریاست کے اندر شہزادی کی ریاست نہ تھی؟
وزیر اعظم مری کے اندر بھارتی تاجر سے ملے،وزارتِ خارجہ کو علم ہی نہ ہوا،کیا یہ ریاست کے اندر ایک اور ریاست نہ تھی؟آخر وہ کیا گفتگو تھی،جو ایک وزیر اعظم دشمن ملک کے بااثر تاجر سے تنہائی میں کررہا تھا؟پھر جب صرف ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ آپ کے ہمراہ بیرونی دوروں پر جاتا رہا،یہ کون سا قانون تھا؟ کس قانون کے تحت صوبائی وزیر اعلیٰ فیڈریشن کی طرف سے قطر جاکر گیس کے معاملات طے کرتا رہا؟کیا یہ ریاست کے اندر ریاست نہ تھی؟بھتیجا ایم این اے ہو کر پنجاب پر حکومت کرے۔داماد کروڑوں اربوں کی رقوم پر اختیار حاصل کرے،بیٹی وزیر اعظم ہاؤس میں سرکاری وسائل سے متوازی وزارت اطلاعات قائم کرلے تو یہ سب قانون کے مطابق!سب جمہوریت سے ہم آہنگ،واہ کیا منطق اور کیا انصاف ہے۔اور موازنہ مولوی تمیز الدین کے ساتھ!حیرت ہے،زمین سے پتھر کیوں نہیں گرتے اور زمین دھنس کیوں نہیں جاتی،
مولوی تمیز الدین عدالت رکشے میں بیٹھ کر گئے تھے،چالیس گاڑیوں کے جلو میں نہیں،اکثریت جنکی بی ایم ڈبلیو ہے،مولوی تمیز الدین ہر عید پر لندن نہیں جاتے،تھے انہوں نے اربوں روپے بیرون ملک جمع کرکے اس پر سانپ نہیں بٹھا دیے تھے!انسان کو بات کرتے وقت خلقِ خدا کا نہیں تو خدا کا ہی خوف کرلینا چاہیے، ایکطرف مولوی تمیز الدین سپیکر،دوسری طرف ایاز صادق سپیکر،ایک طرف قائداعظم اور ان کی مسلم لیگ،اوردوسری طرف نواز شریف اور ان کی ن لیگ!
بسی دیدنی ر ا دیدہ ام
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی!
کیا کچھ دیکھنا پڑ گیا،اس سے تو بہتر تھا کہ دنیا میں ہی نہ وارد ہوتے،
عدالت اعظمیٰ کے فیصلے کی تضحیک کرکے جو خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے،اس کی لپیٹ میں کھیل کھیلنے والے بھی ایک دن آئیں گے،اور ضرور آئیں گے۔فرد واحد کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے قانون میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ہر ضابطے کو توڑا جارہا ہے۔عدلیہ کو منہ چڑایا جارہا ہے،اداروں کو نشانہ بنا کر مسلسل تیر اندازی ہو رہی ہے،محض ایک شخص کے لیے،صرف ایک خاندان کی خاطر!
جس جمہوریت کا جھنڈا بلند کرکے رقص کیا جارہا کیا یہ وہی درخت نہیں جسے جرنیل پانی دیتے رہے؟ابھی تو اصغر خان فیصلے کی روشنائی بھی ختم نہیں ہوئی،کیا میاں صاحب کو کامیاب کرنے کے لیے صدارتی محل میں جنگی محاذ نہیں کھولا گیا تھا؟
میاں نواز شریف عدالت کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں وہ تکبر پر دلالت کرتا ہے۔وہ اپنے آپ کو اتنا بلند سمجھ رہے ہیں کہ ان کے خیال میں عدالت،نیب،قانون،آئین سب ہیچ ہیں۔عدلیہ نطامِ حکومت اور نظامِ معاشرت کی بھی بنیاد ہوتی ہے۔اور میاں صاحب اس بنیاد کو ہٹا کر ساری عمارت کو گرانے کے درپے ہیں۔یہ راستہ انارکی کی طرف جاتا ہے۔کل کو کوئی بھی اپنے حمایتیوں کو جمع کرکے کہہ سکتاہے کہ عدالت مجھے نکال دیتی لیکن میرے ساتھی مجھے داخل کردیتے ہیں۔کل کو کوئی فیصلہ شریف خاندان کے حق میں آگیا تو مخالف اس فیصلے کو کیسے قبول کریں گے؟
ہماری تاریخ اس ضمن میں کیا مثالیں پیش کرتی ہے؟
حضرت عمر امیر المومنین ہیں،ایک شخص سے گھوڑے کا سودا کررہے ہیں،گھوڑے کی اہلیت دیکھنے کے لیے سواری کرتے ہیں،گھوڑے کو چوٹ لگتی ہے اور وہ لنگڑا ہوجاتا ہے،گھوڑے کا مالک اسے واپس لینے سے انکار کردیتا ہے، دونوں شریح بن حارث کو ثالث مقرر کرتے ہیں،شریخ حضرت عمر ؓ کو کہتے ہیں،امیر المومنین،گھوڑا اسی حالت میں واپس کیجئے،ورنہ خریدنا پڑے گا،امیر المومنین اپنے حامیوں کو اکٹھا کرکے سرکاری وسائل استعمال کرکے ثالث کیخلاف اعلان ِ جنگ نہیں کرتے،ثالث کو آفرین کہتے ہیں اور کوفہ کا قاضی مقرر کردیتے ہیں۔
اسی قاضی کی عدالت میں امیر المومنین علی المرتضیٰ بطور مدعی پیش ہوتے ہیں،ان کی زرہ ایک یہودی کے قبضے میں ہے،امیر المومنین واپس لینا چاہتے ہیں،قاضی گواہ طلب کرتا ہے،آپ دو گواہ پیش کرتے ہیں،جن میں سے ایک ان کے صاحبزادے حسنؓ ہیں،قاضی صاحب بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں کرتے،اور فیصلہ یہودی کے حق میں دیتے ہیں۔
حضرت علی ؓ کا کیا ردِعمل تھا؟
انہوں نے عدالت کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔یہ الگ بات کہ یہودی نے کہا کہ جس دین میں قاضی خلیفہ وقت کیخلاف فیصلہ سناتا ہے اور خلیفہ وقت بے چون و چرا اسے قبول کرتا ہے میں اسی دین میں داخل ہوتا ہوں۔
آج معزول وزیر اعظم عدلیہ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں،کسی قانون کسی ضابطے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں،یہ تکبر ہے،تکبر!اور تکبر کا انجام عبرتناک ہے!
No comments:
Post a Comment