پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جس المناک صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں ،اس کاسنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے،نہ کہ ان کی بھد اڑانے کی ۔ یہ صورتحال المناک ہونے کے ساتھ ساتھ عبرتناک بھی ہے،پہلےرائے ونڈ کے ہسپتال میں ایک حاملہ عورت نے بچے کو جنم دیا، اور پہلا بچھونا جو اس نے دنیائے آب و رنگ میں اس نومولود کو نصیب ہوا فرش خاک کا تھا، ابھی "پنجاب سپیڈ" کے اس نمونے کی گونج فضآ میں تھی کہ گنگا رام ہسپتال میں ایک اور نومولود ماں کے جسم سے الگ ہوا اور راہداری میں ہسپتال کے سربراہ کے دفتر کے عین سامنے زمین پر لیٹ گیا۔
اس کے ساتھ ہی ترکی کی طرز پر بنائی گئی "کمپنیوں " کی کارکردگی کا سکینڈل منظر عام پر آگیا، اور وزیر اعلیٰ نے ان کمپنیوں کے کئی سربراہوں کو یکے بعد دیگرے معطل کردیا ۔
وزیر اعلیٰ کی مثال اس عورت کی سی ہے جو ہنڈیا چولہے پر چڑھاتی ہے، نیچے آگ جلاتی ہے اور چمچ ہلانے لگ جاتی ہے، کافی دیر کے بعد جب وہ ہنڈیا نیچے اتارتی ہے تو نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ،اس لیے کہ ہنڈیا میں تو صرف اور صرف پانی تھا ، اس میں گوشت اور دال ،سبزی ،نمک ،مرچ کچھ نہ تھا۔
وزیر اعلیٰ آٹھ سال سے محنت کررہے ہیں ،مسلسل ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں ، کبھی ہیٹ اوڑھ کر،کبھی لمبے بوٹ پہن کر، کہا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ الصبح "کام"شروع کرتے ہیں ،اور رات گئے تک"مصروف"رہتے ہیں ۔ افسروں کی سرزنش کرتے ہیں ، اداروں کے سربراہوں کو معطل کرتے ہیں ،کبھی قصور جارہے ہیں ، کبھی شیخوپورہ کا دورہ کررہے ہیں ، آٹھ سال کی اس "محنتِ شاقہ" کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے علاقوں کو تو چھوڑ ہی دیجئے،خؤد لاہور اور نواحِ لاہور میں پے در پے ایسے واقعات ہورہے ہیں جو عبرتناک اورافسوسناک ہیں ،اور مضحکہ خیز ہونے کے علاوہ سبق آموز بھی۔
اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ اس جدید دور میں شہباز شریف صاحب کا طرزِ حکومت ہے، جو قدیم زمانوں میں تو کامیاب ہوسکتا تھا مگر اب میڈیا کے زمانے میں یہ شخصی طرزِ حکومت ناکامی اور شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں پیدا کرسکتا ۔ دو ادارے اسی لیے جمہوریت کا جزو لاینفک ہیں ۔ ایک منتخب اسمبلی اور دوسرے کابینہ ۔۔۔یہ دونوں ادارے مل کر ،بحث کرتے ،سوچ سمجھ کر ،پالیسیاں بناتے ہیں اور نافذ کرتے ہیں ۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ان دونوں اداروں کو مکمل طور پر غیر فعال کرکے رکھ دیا ۔صوبائی اسمبلی میں وہ شاید صرف اس دن آتے ہیں جب بجٹ پیش ہوتا ہے۔ کابینہ ہے بھی او رنہیں بھی۔وہ کابینہ کو خاطر میں نیہں لاتے۔رانا ثنا اللہ صاحب کے علاوہ کسی صوبائی وزیر کا نام شاید ہی سنا ہوگا،وزیر اعلیٰ جب قصور کے ہسپتال میں دو بار گئے،اور شیخؤپورہ میں بھی، تو ان کے ہمراہ وزیر صحت تھے نہ سیکرٹری صحت،عملی طور پر وہ ہسپتالوں کے سربراہوں کے ساتھ براہ راست پیش آرہے تھے۔ اس کے بجائے اگر وہ متعلقہ وزیر کو وارننگ دیتے کہ اگر کسی ہسپتال میں خرابی نظر آئی تو قلمدان تم سے لے لیا جائے گا ، اور کابینہ سے آؤٹ ہوجاؤ گے تو وزیر چوبیس گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہوگا ، لیکن کابینہ کے اجلاسوں میں تو وزراء کی کارکردگی کا جائزہ وزیراعلیٰ کی کتاب میں سرے ہی سے مفقود ہے۔
صوبے کی ترجیحات وہ خود طے کرتے ہیں ، اس میں اسمبلی اور کابینہ کی اجتماعی عقل و دانش سے فائدہ اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،۔ ان کا سارا زور ان "ترقیاتی "منصوبوں پر ہے جو بنیادی طور پر انفراسٹرکچر سے تعلق رکھتے ہیں ، جیسے پل،انڈر پاس، شاہراہیں ، یا میٹرو اور اورنج ٹرین ،
انہیں اس حقیقت کا قطعاً ادراک نہیں کہ سوشل سیکٹرز ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ۔اس ضمن میں کوئی پالیسی ہی نہ بن سکی۔
وزیراعلیٰ کی شخصی اور آمرانہ طرزِ حکومت کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا کہ بیورو کریسی میں جو عناصر منہ پر سچی بات کہہ سکتے تھے،وہ پس منظر میں چلے گئے۔ وزیر اعلیٰ کی پسند ناپسند شدید ہے۔ انہیں صرف ان افسروں کی موجودگی راس آتی ہے جو گونگے بہرے ہوکر آمنا صدقنا کہتے ہوں ،درست مشورہ دینے والے کو برداشت ہی نہیں کرتے ۔ بد انتظامی کی ایک اور مثال دیکھیے۔
صحت کے ایک سےزیادہ سیکرٹری ہیں ،مگر کارکردگی اتنی شرمناک ہے کہ ایک اسامی پر دو دو تعیناتیاں ہو رہی ہیں ، راولپنڈی میں مصر یال روڈ کے ہسپتال میں دو لیڈی ڈاکٹر تقرری نامہ لے کر پہنچ گئیں ، ایک کی شنوائی ہوئی نہ دوسری کی ۔
یہی نہیں معلوم کہ کون سے سیکرٹری کا محکمہ اس بدانتظامی اور نااہلی کا ذمہ دار ہے ،اگر کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہوں اور ان اجلاسوں میں وزیروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کون وزیر ہے جو رات دن محنت کرکے حالات کو درست نہیں کرے گا ، مگر جب کوئی فورم ہی نہیں جس پر وزیر صاحب کو ایکسپوز یا شرمندہ کیا جائے تو وزیر کو کیا پڑی ہے، کہ محنت کرے۔
یوں بھی وزیر اعلیٰ ہر محکمے کو براہ راست ڈیل کرنے کے عادی ہوں تو پھر ذمہ داری بھی وزیر کی نہیں ،وزیر اعلیٰ کی اپنی بنتی ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی مثال محمد تغلق کی سی ہے۔ جو اپنی ذاتی پسند کے فیصلے کرتا تھا ۔اور ناکامی سے دوچار ہوتا تھا ۔
ترکی وزیر اعلیٰ کے اعصاب پر سوار ہے۔ دودن پہلے کی خبر ہے کہ ترکی کی کمپنیوں کو مہنگے ٹھیکے دیے گئے ہیں ۔
پھر پنجاب حکومت میں ایک اور بیماری شروع ہوئی۔ ہر کام کے لیے کمپنی بنائی گئی۔
غالباً یہ بھی ترکی کی نقالی میں کیا گیا ہے۔
صاف پانی کمپنی ،پارکنگ کمپنی، ماڈل بازار۔ ہر شہر میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنی، محکموں کی نسبت ان کمپنیوں میں افرادی قوت زیادہ تھی۔ منظورِ نظر افراد بھرتی ہوئے، تنخواہیں لاکھوں میں ، پے در پے غیر ملکی دورے، لاہور پارکنگ کمپپنی نے ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا ، جو بلیک لسٹ تھی۔
ماہانہ پانچ کروڑ کا نقصان ہوا، صاف پانی کمپنی مشکل سے ہدف چوتھائی حصہ ہی حاصل کرپائی۔
56 کمپنیوں میں سے 48 ایسی ہیں جن کا ریکارڈ غائب ہے، اس کے بعد اب معطلی کا پرانا کھیل کھیلا گیا ، کچھ کمپنیوں کے سربراہوں کو معطل کردیا گیا ۔ اگر آٹھ سالوں کا حساب لگایا جائے کہ وزیراعلیٰ نے کتنے افسروں کو معطل کیا ہے تو یہ تعداد حیران کن حد تک کثیر ہوگی۔
معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ تفتیش انکوائری وغیرہ ہوتی ہے، جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ قصور وار ہے تو سزا ملتی ہے، بے قصور ہے تو بری ہوجاتا ہے، اور معطلی ختم ہوجاتی ہے، مگر یہاں کسی معطلی کا فائنل نتیجہ شاید ہی کبھی منظرِ عام پر آیا ہو۔
صدر مملکت نے بھی کہا ہے کہ "چار سال میں نہ ڈیم بنے نہ ہسپتال اور یہ عوام پوچھیں کہ 14 ہزار آٹھ سو ارب کا قرضہ کہاں گیا، "سندھ اور بلوچستان میں بھی حالات خراب ہیں مگر فرق یہ ہے کہ س پنجاب کے وزیراعلیٰ کے متعلق یہ تاثر بھرپور دیا گیا کہ حد درجہ فعال ہیں ۔ رات دن کام کرتے ہیں ، عجیب بات یہ ہے کہ تعریف پنجاب حکومت کی بہت کم اور وزیر اعلیٰ کی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ طرزِ حکومت شخصی ہے۔ جمہوری یا اجتماعی نہیں ۔
وزیر اعلیٰ کی نیت پر کسی کو شبہ نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے سب کچھ یقیناً نیک نیتی سے کیا ہوگا ، تاہم انہیں یہ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے کہ کابینہ جیسے مفید اور لازمی ادارے کو ساتھ لے کر چلیں ، صوبائی اسمبلی کو جس طرح عملی طور پر وہ حقیر سمجھے ہوئے ہیں ، وہ ہرگز درست رویہ نہیں ہے۔ اسمبلی کا اپنا استحقاق ہے،جسے وہ مجروح کرتے رہے ہیں ،اور کررہے ہیں ، وہ اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہیں ، ان کی عدم موجودگی میں ان کے وزرا اسمبلی کو کس طرح اہمیت دے سکتے ہیں ،
وزیراعلیٰ کو چاہیے کہ اسمبلی کے سامنے اعتراف کریں کہ ان کی پالیسیاں ،خاص طور پر صحت اور تعلیم کے میدانوںمیں اور بہت سی کمپنیاں بنانے میں ،ناکام ثابت ہوئی ہیں ، نئی پالیسیاں اسمبلی اور کابینہ کی مشاورت سے بننی چاہییں ۔
No comments:
Post a Comment