Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, October 25, 2017

میری کسی سے دشمنی ہے نہ رشتے داری۔



میری شرجیل میمن  صاحب سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے، میں نے تو انہیں  دیکھا تک نہیںِ،میرا اور زرداری صاحب کا کیا مقابلہ، مگر میں جب کائرہ صاحب اور فرحت اللہ بابر جیسے   نسبتاً صاف ستھرے حضرات کو آنکھیں  بند کرکے مدافعت کرتے دیکھتا ہوں تو  افسوس ہوتا ہے کہ  ،کیا ایک پارٹی کی رکنیت  کا یہ مطلب  ہے کہ سفید کو سفید اور سیاہ کوسیاہ نہ کہا جائے؟۔

میرا مریم صفدر صاحبہ سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ہماری رشتہ داری ہے نہ مشترکہ  جائیداد  کا تنازع۔ہمارے کھیت بھی ایک جگہ نہیں ، کہ درمیان میں پڑنے والی  پگڈنڈی  کا مسئلہ عدالت میں جائے۔ہماری حویلیاں ایک دوسرے سے متصل نہیں  کہ میرے پرنالے  کا پانی ان کے صحن میں یا ان کے پرنالے کا پانے   میرے آنگن میں گر رہا ہو۔ میرا ایسا کوئی  ارادہ  نہیں کہ  میاں نواز شریف  صاحب کے بعد پارٹی  کی زمام  سنبھال لوں یا وزیر اعظم  بننے کی کوشش کروں ۔

میں تو صرف یہ چاہتا ہوں  کہ وہ پاکستان  کا  بڑا بننے کی کوشش نہ کریں ، وہ جب نصیحت  کرتی ہیں کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے تو  میں صرف یہ  پوچھنا چاہتا ہوں کہ  وہ یہ نصیحت اداروں کو کس حیثیت سے کررہی ہیں ؟ وہ پارٹی میں کس عہدے پر ہیں ؟۔ وہ تاحال  منتخب نمائندہ بھی نہیں ، پھر کیا وہ خود حدود کی خلاف ورزی نہیں کر رہیں ،؟  وزیراعظم  کا عہدہ  اور وزیراعظم  کا دفتر بھی  ایک ادارہ ہے۔ جب وہ وزیراعظم کی عدم موجودگی میں    کئی  ماہ حکومت  چلاتی رہیں ،غیرملکی سفیروں کو  ملتی رہیں ،وزراء کو احکام دیتی رہیں ،  تو کیا وہ خؤد  حدود کراس نہیں کررہی تھیں ۔ ؟

کیا سرکاری پروٹوکول  لینا حدود کی خلاف ورزی  نہیں ؟ آخر انہیں کیا حق  پہنچتا ہے  کہ جو وزرا  میرے ٹیکس سے تنخواہ  لیتے ہیں ، اور جو  پولیس و سرکاری  عہدیدار عوام کے دیے ہوئے  ٹیکسوں سے مشاہرے پارہے ہیں ۔، اور جو گاڑیاں  ان کی اپنی نہیں ، ریاست کی ملکیت  ہیں ، ان سب کو وہ  اپنے لیے استعمال  کریں ؟

کیا یہ سینہ زوری  ،یہ دھاندلی  ،دیکھ کر میرا دل نہیں کڑھتا ، ؟َکیا میں اس ملک کا شہری نہیں ؟۔ کیا میرےجذبات نہیں کھول سکتے؟تو کیا میں  ان سب معاملات سے لاتعلق ہوجاؤں ؟

 میں نے تو آج تک مریم صفدر صاحبہ اور ان کے  والد محترم  میاں محمد نواز شریف  صاحب کے منہ  سے  اس ملک کے مسائل  پر  کوئی  گفتگو نہیں سنیَ۔۔۔ انہوں نے  زرعی اصلاحات  پر اور تعلیمی  نظام کی فرسودگی پر کوئی بات نہیں کی کبھی،   آج تک معزول  وزیراعظم  نے اس بات پر تشویش  کا اظہار  نہیں کیا کہ  ٹیکس چوری  ہورہا یے اور  قرضے  بے تحاشا  بڑھ رہے ہیں ،

مریم صفدر صاحبہ کا موضؤع صرف اور صرف اپنے والدِ گرامی کی ذات ہے۔ وہ سوائے  اس کے کوئی بات ہی نہیں کرتیں ، کہ میاں صاحب  اب بھی دلوں پر حکمرانی  کرتے ہیں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی  ،ان کے ساتھ یہ ہوا، وہ ہوا۔۔۔ کیاکسی نے  اس کے علاوہ ان کے منہ سے کوئی بات سنی ہے؟۔۔۔

آپ اس ملک کی بدبختی دیکھیے  کہ وزیر اعظم  خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ  نواز شریف کےخلاف فیصلہ  عوام نے قبول نہیں کیا ،گویا  خود حکومت  کا سربراہ  عدلیہ کے خلاف ہے۔،تو پھر کیاعدالتیں بند کردی جائیں ؟۔۔۔۔

وزیر اعظم بتائیں  کہ آخر  عدالت کو کیا کرنا چاہیے تھا ؟۔۔ تو پھر کیا  ہر وہ شخص  یا فریق  جس کے خلاف  عدالت  فیصلہ  کرے۔یہی  موقف اپنائے  کہ فیصلہ  عوام قبول کریں گے تو مانا جائے گا۔؟تو پھر آئین  میں یہ لکھ دیجئے کہ  عدالتیں  فیصلے کرنے سے پہلے اس کے بارے  میں عوام سے رائے لیا کریں ۔

سیاست دانوں  کا مائنڈ سیٹ  ملاحظہ فرمائیے  کہ سینٹ  چیئرمین وزیر تعلیم  کو حکم دے رہے ہیں ، کہ قائداعظم  یونیورسٹی کے  گرفتار  طلبہ  کو فوراً رہا  کیا جائے۔ چیئرمین یہ پوچھنے کا تکلف نہیں  فرماتے کہ  گرفتاری کا سبب کیا  ہے؟۔۔۔

یونیورسٹی میں  "سابق  طلبہ  "کا کیا کام ؟اور سینٹ  کے ایک رکن طلبا کے احتجاجی جلوس میں کیا کررہے تھے۔

یونیورسٹی کے چانسلر صدر مملکت ہیں ، ان کےمحل سے  یونیورسٹی  کا فاصلہ  تین چار کلو میٹر  سے زیادہ  نہ ہوگا، مگر غالباً  کام کی "زیادتی
"کے باعث  انہیں یہ جاننے  کا موقع نہ ملا کہ  جس یونیورسٹی  کے وہ چانسلر  ہیں اس میں کیا ہورہا ہے؟۔۔۔

ایک تعلیمی ادارے میں نسلی اور لسانی  بنیادوں  پر گروہوں  کو منظم  کرنے کی کیا منطق  ہے،؟کیا پہلے کراچی  یونیورسٹی  میں یہ سب کھیل تماشے  ہم بھگت  نہیں  چکے؟

کیا پنجاب یونیورسٹی طلبہ کی سیاست کی وجہ سے  اصطبل نہیں بن چکی؟۔ ٹی وی پروگرام میں  ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) کے سربراہ  سے پوچھا  گیا  کہ یہ ہڑبونگ ،یہ ہڑتالیں ،یہ لسانی گروہ  بندی، یہ کلاسوں کا تعطل یہ سب کچھ پرائیویٹ  یونیورسٹیوں  میں کیوں  نہیں ہورہا  ؟تو جواب ملاحظہ فرمائیے

 فرمایا کہ  پرائیویٹ یونیورسٹیاں  تو اتنی بھاری  فیسیں لیتی ہیں ،یعنی ماروں گھٹنا ،پھوٹے آنکھ۔۔

 ارے بھائی فیسوں کی مقدار کا اس سے کیا تعلق،  اور پھر  پرائیویٹ  یونیورسٹیاں  ،سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح قومی خزانے پر بوجھ  تو نہیں،جس سیاسی جماعت  نے مذہب  کے نام پر  پنجاب کی سب سے بڑی  سرکاری  یونیورسٹی  کو یرغمال بنا رکھا ہے، اس جماعت  کے اپنے  نجی تعلیمی  اداروں میں ایسی سرگرمیوں  کی اجازت ہی نہیں ۔  پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں کسی  کسی استاد کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ  طلبہ کوشہ دے رہا ہے، تو شام سے پہلے اسے نکال دیاجاتاہے۔

 مگر قائداعظم یونیورسٹی ،کراچی یونیورسٹی، اور پنجاب یونیورسٹی میں براجمان اساتذہ یا نام نہاد  اساتذہ کو معلوم  ہے کہ انہیں کوئی  نہیں نکالے گا۔ اس لیے وہ اپنے اپنے سیاسی ،مذہبی،اور مسلکی  نکتہ نظر  سے ہمیشہ طلبا کی حوصلی افزائی کرتے ہیں ، اور ڈٹ کر کرتے ہیں ، اور یہ خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

 بات یونیورسٹیوں کی طرف چلی گئی، سیاست دانوں  کاتذکرہ  ہورہاتھا، اس ضمن  میں  ایک اور وضاحت یہ کرنی ہے ،کہ عمران خان سے بھی کوئی  رشتہ داری نہیں ،ہم ایک علاقے  سے ہیں ، نہ قبیلہ  ذات برادری کا تعلق ہے۔مجھ سے تو وہ  متعارف  تک نہیں ۔

 مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ  کے پی کے  کی پولیس  میں سیاسی  مداخلت  نہ ہونے کے برابر ہے، روایت ہے کہ اے ڈی خواجہ صاحب  نے کہا کہ  انہیں اہنے  صوبے میں  کے پی کے کا پولیس سسٹم چاہیے ،اگر  یہ روایت صحیح ہے تو  کیا یہ امر  قابل  تعریف  نہیں ؟

کرپشن کیخلاف ابھی تک اس کے علاوہ کس نے محاذ بنایا،اور پھر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا؟۔۔۔ وہ فرشتہ نہیں ،غلطیوں کا پتلا ہے۔ انسان ہے۔ ولی نہیں ،نہ صوفی۔

جب اس نے ایک مخصوص  مدرسہ کو تیس کروڑ روپے دیے تو میں نے تنقید کی،شدید تنقید۔

کئی اور معاملات میں اختلاف  کیا،مگر اور کس سےامید رکھی جائے  ؟مولانا فضل الرحمن سے؟ اسفند یار ولی سے؟نواز شریف  صاحب سے؟۔زرداری صاحب سے،اچکزئی صاحب سے؟

میں تو اس ملک کا عام باشندہ ہوں ،میری وفاداری اس ملک کی مٹی سے ہے، میرے لیے وطن کی سرحدیں مقدس ہیں ،مجھے اس سے کیا غرض کہ سرحد پار کون آلو گوشت کھاتا ہے ،یا نہیں ؟۔۔۔۔۔میری وفاداریاں افغانستان سے ہیں نہ ایران سے، نہ سعودی

عرب سے،نہ کسی اور ملک سے۔ مجھے تو کسی خاندان سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ، میں اس غم میں اپنے آپ کو کیوں دبلا کروں کہ  کہیں بادشاہت نواز یا زرداری خاندان سے نکل نہ جائے۔،

میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ  تمام صوبوں کو  اور تمام نسلوں کو اور ساری قومیتوں کو  برابری کی سطح پر  رکھاجائے۔

ایسا نہ ہو کہ  کچھ تو چھینک آنے پر لندن کا رخ  کریں او ر کچھ بچے  جنم دیں تو بچے کا بچھونا  زمین کا  فرش ہو۔

کچھ ملزم جرم ثابت ہوئے بغیر ،ساری زندگی جیل میں  گزار دیں  اور کچھ عدالت  میں پیش  ہوتے وقت  چالیس چالیس  گاڑیوں  کے جلوس میں بادشاہوں  کی طرح آئیں ۔مجھے انڈر پاسوں ،پلو ں، شاہراہوں ،میٹرو بسوں،اور ٹرینوں سے کیا  لینا دینا ۔جب میری  بستیوں اور قریوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ میرے بچے سکوکوں میں بیٹھنے کے بجائے مویشی  چرا رہے ہیں ، ریستورانوں میں برتن مانجھ  رہے ہیں ، دوسروں کے گھروں میں جسمانی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں ،اور ورکشاپوں میں کپڑے اور ہاتھ کالے کرکے چند سکے شام کو گھر لاتے ہیں ،

میرا مسئلہ تو وہ ہزاروں  سکول ہیں جن کی چھتیں نہیں اور نہ ہی چار دیواری۔جن میں سے بہت سے گودام اور بھینسوں کے باڑوں میں  تبدیل ہوچکے ہیں ،

بھائی میری کسی سے کوئی  کشمنی نہیں ، خاندانی  نہ مذہبی،نہ مسلکی نہ سیاسی، لیکن مجھے کوئی ان لوگوں سےتو نجات دلوا دے  جو اپنے  بچوں کو  شہزادے اور دوسروں کو رعایا سمجھتے ہیں س اور جن کے ہوم کنٹری برطانیہ اور یو اے ای ہیں ۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com