Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 23, 2017

بے نشانوں کا نشاں!


لاہور جب بھی جانا ہو،مین بلیوارڈ پر واقع کتابوں کی ایک دکان میں کچھ وقت ضرور بسر ہوتا ہے ۔، اس کی ایک بڑی وجہ،نواسی زینب خان اور اس کے دونوں چھوٹے  بھائیوں ہاشم خان اور  قاسم خان کی طرف سے شدید انتظار بھی ہوتا ہے کہ نانا ابو آئیں گے تو بک شاپ پر لے کر جائیں گے۔ یہ بچے وہاں گھنٹوں کتابیں پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ، ہر بار  انہیں ایک ایک یا دو دو کتابیں نانا ابو کی طرف سے خرید کر دی جاتی ہیں ، یہ آٹھ آٹھ دس دس  کتابیں منتخب کرتے ہیں ، جن میں سے نانا ابو  تین کتابیں چنتے ہیں ، ایک اضافی  کشش بک شاپ میں واقع اس چھوٹے سے کافی ہاؤس کی وجہ سے بھی ہے، جہاں سے کتابوں کے ان ننھے شائقین کو  چپس کے پیکٹ  اور جوس کے ڈبے  لے کر دیے جاتے ہیں، انہیں وہاں سے نکال کر واپس لے آنا بڑآ مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ان کا بس چلے تو رات وہیں کتابوں کے بیچ گزار دیں ۔

گزشتہ مئی جانا ہوا تو وہاں ایک کتاب پر نظرپڑی"بے نشانوں کا نشاں "۔۔۔ مصنف کا نام  دیکھا تو  مظہر محمود شیرانی، تھا۔ کتاب کو الٹا پلٹا تو معلوم ہوا کہ مشہور محقق  حافظ  محمود شیرانی  کے پوتے ہیں ، بیاسی سالہ یہ بزرگ  شیخؤپورہ  میں رہتے ہیں ، غالباً وہیں  سےے بطور  پروفیسر ریٹائر ہوئے   - پروفیسر ڈاکٹر معین  نظامی سے بات ہوئی تو کچھ معلومات  انہوں نے  بھی بہم پہنچائیں ، معروف  شاعر شاہین  عباس سے  ،جو شیخؤپورہ  کے ہیں اور وہیں  رہتے ہیں ، بات  ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ  مظہر شیرانی  زیادہ  وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں ، شاہین عباس  کو بتایا  ہے کہ کالم نگار وہاں  آکر مظہر  صاحب کی زیارت  کرنا چاہتا ہے۔

حافظ محمود شیرانی  کے نام سے اردو  زبان و ادب  کا ہر طالب  علم بخؤبی  آگاہ ہے۔ ان کی معرکہ آرا کتاب"پنجاب میں اردو" ایک تاریخ  ساز تصنیف  ہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ  اردو کی جنم بھومی  پنجاب تھا ۔ اس تھیوری  کے بعد اردو کے علما  اور محققین  میں بحث کا ایک  طویل سلسلہ  چلا۔موافقت  اور مخآلفت  میں بہت کچھ  لکھا گیا۔
 پٹھانوں  کا یہ قبیلہ  محمود غزنوی  کے ساتھ  برصغیر میں آیا اور پھر یہیں  کا ہو رہا۔ حآفظ محمود خآن  شیرانی  کے فرزند اختر  شیرانی  اردو  کے مشہور  رومانی  شاعر  ہیں ۔"اے عشق کہیں لے چل" اور "اودیس سے آنے والے بتا" ان کی بہت  ہی مقبول نظموں  میں  سے چند ایک ہیں ۔ مظہر محمود شیرانی  اختر شیرانی  کے فرزند ہیں ، اپنے دادا  پر انہو ںنے  وسیع  اور وقیع  کام کیا ہے۔ مقالات حافظ  محمود شیرای  دس جلدوں مین مرتب کیے ہیں ۔

 دو جلدوں میں  "حافظ محمود شیرانی  کی علمی اور ادبی خدمات "محفوظ کی ہیں ، مکاتیب بھی  جمع  کرکے چھاپے ہیں 
اس تحریر کا اصل مقصد مظہر  صاحب کی کتاب" بے نشانوں کے نشاں"ہے جو خاکوں کا مجموعہ ہے یہ خاکے  مشاہیر کے نہیں بلکہ زندگی  کے  ان عام کرداروں کے ہیں ،جن کے ساتھ روزمرہ زندگی میں سابقہ  پڑتا ہے۔ یوں تو  تمام خاکے  انتہائی موثر اور عمدہ قوت  تحریر کے دلکش نمونے  ہیں ،اور  مصنف  کی باکمال قوت مشاہدہ کا ثبوت ہے۔ مگر وہ خاکے ایسے ہیں  جو دل لہو  سے بھر  دیتے ہیں ، ایک کا عنوان  "چک نمبر 17 کا شریفا" اس کے آخری دو پیرا گراف  یوں ہیں ۔۔۔ 
 "میں نے  دیکھا کہ حویلی کے آگے  چھوٹے  بڑے کتوں  کی ایک غیر معمولی  تعداد موجود تھی، میں نے ہنستے ہوئے کہا  کہ  یہ تم نے کتوں کا فارم کب سے بنا لیا ، ؟وہ چلم  میں آگ رکھتے ہوئے بولا ، ارد گرد کی بستیوں  سے دھتکارے ہوئے  خود ہی چلے آتے ہیں ، پھر جانے کا نا م نہیں لیتے ،اب انہیں مارنے سے تو رہا۔ اللہ کی مخلوق  ہے،صبح  روٹی کا  ٹکڑا ڈآل دیتا ہوں ، ابھی پرسوں یہ چتکبری کتیا  آٹھ پلے  لے کر اس ٹھسے  سے آئی جیسے میکے آرہی ہو ۔

میں نے کہا  بھی کہ تو سارا خانوادہ  لے کر کیوں  چلی آئی تو  وہ میرے پاؤں پر  لوٹنے لگی/۔ پڑے رہو، میرا کیا لیتے ہیں “


،مجھے شریفا اس دور کا دیو جانس قلبی نظر آیا،

 بس یہ ہماری اس سے  آخری ملاقات تھی، پھر ہم ایک دوسرے کو کبھی نہ دیکھ پائے۔، اور اس کی سناؤنی  آ گئی۔

شریفے کا  جنازہ جب قبرستان کی طرف چلا تو  اس کے پیچھے پیچھے ایک چتکبری کتیا بھی چل رہی تھی، تدفین کے بعد  سب واپس ہوگئے۔ لیکن کتیا قبر پر سر رکھ کر بیٹھ گئی، اگلے دن گھر والے  قبر پر آئے تو   وہ اسی طرح  بیٹھی  ہوئی تھی ، اسےپکڑ کر  واپس لایا گیا، روٹی ڈالی  اس نے سونگھی  تک نہیں اور پھر بھاگ کر  قبرستان پہنچ گئی، آخر تیسرے روز جب  اس کا بھوک سے برا حال ہوا  اور مرنے کا ندیشہ ہوا تو  اسے لاکر زنجیر  سے  باندھ دیا گیا۔ میں یہ فیصلہ شاید کبھی نہ کرسکوں  کہ وہ کتیا  شریفے کی زیادہ قدردان تھی یا  میں ؟۔”۔۔۔

 دوسرے خآکے  کا عنوان "بے نام " ہے۔مظہر  صاحب گھر میں بیٹھے  کھانا کھا رہے تھے، کہ گلی میں  کسی فقیر کی آواز  ابھری وہ گا رہا تھا ۔،

ذات بے پروا ہے  مولا تجھ کو  پرواہی نہیں ۔۔۔

 آواز اس قدر گمبھیر  تھی اور دردناک  اور لہجہ  اس قدر پراسرار اور غیر معمولی  کہ مظہر صاحب کا  لقمہ جو ہاتھ میں تھا منہ تک نہ جاسکا۔

جو صاحب ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، ان سے مظہر  صاحب نے کہا  "یہ شخص  ہندوستان  کی کسی مسلمان  رہاست  سے تعلق رکھتا ہے” وہ صاحب  بجلی کی سی تیزی سے اٹھے او رباہر جاکر  فقیر سے پوچھا  ،اس  نے بتایا کہ وہ رام پور سے تھا ۔اگلی جمعرات  کو پھر  آیا،مظہر صاحب  نے جاکر  کچھ رقم اسے دی پھر  اس کا جائزہ لیا ۔، لکھتے ہیں ۔۔۔

 "کپڑے سادہ   مگر صاف  ستھرے، قمیض پر کالے  رنگ کی  پرانی صدری، نیچے چوخانے  دار تہہ بند۔ پاؤں میں خستہ  گرگابی  ،سر پر دوپٹے کا پھینٹا  ،ہاتھ  میں چھڑی  ،سانولی رنگت ،چہرے پر بچپن  میں نکلی ہوئی  چیچک  کے مدھم نشانات، نظر خاصی کمزور۔” 

 وہ ہرجمعرات کو آتا،مظہر صاحب ہر بار سوچتے کہ "اس سے  اس کے ماضی  کی سرگزشت سنیں ،لیکن خواہش  زبان تک نہ آنے پاتی،” اس کی آواز پر وہ غور  کرتے رہے اور اس نتیجے  پر پہنچے کہ وہ  "ہر نظم  کو کسی نہ کسی راگ کی آروہی امروہی  میں چست  کرکے  استھائی  انترے کی صحت کے ساتھ پڑھتا  تھا اور ساتھ ساتھ  وقت کی مناسبت  بھی ملحوظ رکھتا  تھا"

 جھونپڑی  فقیر کی   قبرستان  کے ایک کونے میں تھی،مظہر  صاحب سوچتے رہے کہ  "یہاں آکر باتیں کرنا زیادہ مناسب  ہوگا"۔

پھر اس  نے جمعرات کا پھیرا  لگانا چھوڑ دیا، مظہر صاحب  مکان کی تعمیر  میں پھنس گئے اور  خواہش  کے باوجود  اس کا پتہ نہ کرسکے  ۔جب  گئے تو  وہ جھونپڑی کے باہر بیٹھا تھا ،  اس کی بینائی ختم ہوچکی تھی،   مظہر صاحب اسے ماہرامراض چشم کے پاس لے گئے۔ اس نے معائنہ کرکے بتایا کہ کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔

مظہر صاحب ہر دوسرے چوتھے دن  مغرب کے بعد  کھانے کی  کوئی چیز لے جانے لگے۔ ،مگر  دے کر چپ چاپ چلے آتے،  ان کےایک اور ہمکار  بھی کچھ  نہ کچھ  پہنچانے لگے۔، ایک دن  انہوں نے کہا کہ یار  تمہارا وہ فقیر  عجیب آدمی ہے۔

زردہ لے کر گیا  ،کہا چاول ہیں ۔۔ فقیر نے پوچھا  چاول تو ہیں مگر ہے کیا ؟۔۔۔ کیا سفیدہ ہے  ؟قبولی ہے  ؟َطاہری  ہے ؟َچلاؤ ہے؟پلاؤہے؟زردہ ہے؟مزعفر ہے؟بریانی ہے؟  متنجن ہے؟۔۔۔آخر ہے کیا؟۔۔۔

بتایا گیا زردہ ہے۔


یہ سن کر مظہر صاحب کو یقین ہو گیا  کہ اس فقیر نے ضرور  اچھے دن دیکھے ہیں ،  اس کے حالات جاننے کی خؤاہش شدید تر ہوگئی۔

ایک دن  گئے تو  وہ موڈ میں تھا ۔ نعت سنائی  

کھنچا کچھ اس نرالی شان  سے نقشہ محمد کا

 کہ نقاش ِ ازل  خود  ہوگیا  شیدا محمد کا ۔

 مظہر صاحب لکھتے ہیں  

"نجانے  اس نے کتنے شعر  پڑھے اور  کتنی دیر  پڑھے۔ میں مبہوت تھا۔ وقت کی نبض  رک سی گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا ہوں ، جب اس نے نعت  ختم کی تو میں اس سحر زدہ  کیفیت سے نکلا۔”

 اب کچھ کہنے سننے کی گنجائش  نہ تھی۔، میں گھر کی طرف چل دیا۔  راستے میں میں نے مصمم ارادہ کیا کہ اب جس دن  اس کے پاس آؤں گا  اس کے ماضی کا قصہ ضرور چھیڑوں گا ۔ اطمینان سے بیٹھ کر،کرید کرید کر سوال پوچھو ں گا ،نامعلوم کسیے کیسے انکشافات ہوں گے ،اس سے کچھ  میرے اشتیاق ہی کی تسکین نہیں  ہوگی ،اپنا دکھڑا سنا کر  اس کے دل کا  بوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا۔

 پھر موسم  گرما کی تعطیلات  آگئیں ۔ مظہر صاحب  اپنے اہل خآنہ  کے ہمراہ  تفریحی  ٹرپ  پر  سوات چلے گئے، واپس آئے تو یکم کو تنخواہ ملی،کچھ رقم  لے کر اس کے پاس گئے، آخری احوال مظہر صاحب ہی کے الفاظ میں بتایا جاسکتا ہے۔۔۔

“ تیسرے پہر طارق روڈ  پہنچا تو  میرے تعجب کی انتہا نہ رہی  ،جھونپڑی کا نام نشان تک نہ تھا ، یاالہی یہ کیا ماجرا ہے؟۔۔۔۔

آخر ہمت کرکے  سامنے  کی دکانوں  پر گیا۔ ایک بھلا سا آدمی  دیکھ کر دریافت کیا ۔۔یہ بابا کہاں گیا؟۔

 آپ کو پتا نہیں ؟۔۔۔اسے تو مرے ہوئے ایک مہینہ ہونے کو آیا۔۔

مگر کیا ہوا تھا۔۔۔؟
 ہونا کیا تھا ؟۔۔۔فقیر تھا !آگے پیچھے کوئی تھا نہیں ،ایک دن صبح  سے شام تک  دروازہ بند رہا،شام کو کسی نے روٹی دینے کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا، تو جواب ندارد۔۔۔

ہمیں شک پڑا  ،دروازے کی بساط ہی کیا تھی، توڑا تو بستر پر مرا پڑا تھا ۔ رات ہی کو دفنا دیا۔ اور کیا جی؟۔۔۔رات بھر اس کے پاس کون بیٹھتا۔۔۔۔۔

"محلے کے لوگ جھونپڑی اور اس کے آگے کی جگہ پر قبضہ جمانے کی فکرمیں تھے۔ دنگے فساد  تک نوبت  پہنچی  آخر کچھ بھلے مانسوں  نے بیچ میں پڑ کر  فیصلہ کروایا، کہ یہ رقبہ قبرستان کا ہے، چنانچہ  جھونپڑی صاف کرکے قبرستان  میں شامل کردی گئی۔

اس کی بات ختم ہوتے ہوتے  ادھر ادھر سے  کچھ لوگ  ہمارے گرد جمع  ہوگئے تھے ،ان کی  نگاہوں سے شک  جھانک رہا تھا ۔، شاید وہ  مجھے بھی اس جگہ کے طلبگاروں میں سے  ایک سمجھ رہے تھے۔  میں ان کی نظروں  کی تاب نہ لاسکا۔ اور کھسک جانا ہی مناسب سمجھا۔

 اس کی قبر کا نشان بھی نہ پوچھ سکا کہ دعا کے لیے ہاتھ ہی اٹھا لیتا۔ گھر آتے ہوئے  غالب کی غزل کا آخری  شعر  ذہن میں گردش  کررہا تھا

داغ ِ فراق  صحبتِ  شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی  خموش ہے۔!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com