Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 17, 2017

ککی اور میں


جنوری 2013 کی ایک ٹھٹھرتی شام تھی،جب ڈین شمالی فرانس سے جنوبی فرانس کے ساحلی شہر گراسے پہنچی،اسکے ساتھ اس کا بہترین دوست دس ماہ کا بلا ککی تھا ۔
ڈین شاعرہ تھی اور آرٹسٹ ،جہاں کام مل جاتا وہاں چلی جاتی ۔مستقل قیام نارمنڈی میں تھا جو فرانس کا شمالی علاقہ ہے۔اگر نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسے جنوب مشرق سے اور نارمنڈی شمال مغرب میں یعنی دونوں مقامات کے درمیان جتنا زیادہ سے زیادہ فاصلہ فرانس کے طول و عرض کے حساب سے ممکن ہے۔اتنا ضرور ہے۔
گر اسے میں ڈین نے تین ماہ کے لیے ہوٹل میں کمرہ لے لیا ، ککی کا زیادہ وقت کمرے ہی میں مالکن کی معیت میں گزرتا تھا۔بہت دنوں بعد ایک دن ڈین کو خیال آیا کہ ہر وقت کمرے میں بند رہ رہ کر ککی بور ہو رہا ہوگا چنانچہ اس نے اسے باہر نکالا اور باہر چھوٹے سے صحن میں چھوڑ دیا ۔ بدقسمتی انتظار کررہی تھی،ککی وہاں سے گم ہوگیا ،یہ مارچ کا ساتواں دن تھا ۔
ڈین پر قیامت گزر گئی،روتی اور ککی کو ڈھونڈتی تھی،مقامیڈ اخبارات میں اشتہارات دیے ، گلی گلی پوسٹر لگائے۔ بینر نصب کرائے ۔ ہوٹل والوں نے بھی پوری ہمدردی کا اظہار کیا ، مگر ککی نے نہ ملنا تھا،نہ ملا ۔اب ڈین کا قیام اختتام پذیر ہورہا تھا۔ اس نے رختِ سفر باندھا او ر شکستہ دل اور بوجھل قدموں سے واپس شمالی فرانس کی طرف روانہ ہوئی۔دکھ بہت تھا۔ جب سوچتی کہ جانے دس ماہ کا ککی کہاں ہوگا ،کھانا ملا ہوگا کہ نہیں ،تو اس کا دل جیسے پگھل جاتا ، پھر اس نے دپ پر پتھر رکھ لیا ۔ نارمنڈی پہنچ کر دنیا کے دھندوں میں مصروف ہوگئی۔کوئی بلا یا بلی نظر آتی تو دل اداس ہوجاتا۔
ڈیڑھ سال گزر گیا ایک دن حیوانات کے ایک ڈاکٹر کی طرف سے اسے فون موصول ہوا ،ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ایک بلا علاج کے لیے لایا گیا ہے،اس پرمائیکرو چپ لگی ہے،جو آپ کے نام کی طرف رہنمائی کرتی ہے،ڈین بھاگم بھاگ پہنچی،اسے یقین نہ آتا ،مگر سامنے ککی تھا ۔ ازحد لاغر حالت میں بال جھڑ چکے تھے ،نحیف اتنا کہ ہڈیاں نظر آرہی تھیں ،کھڑا مشکل سے ہوپاتا ،گر کہا جائے کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا تو غلط نہ ہوگا،حیوانات کے ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک عورت علاج کے لیے اسے لائی،ڈاکٹر نے مائکرو چپ دیکھی تو جیساا س کا اخلاقی اور قانونی فریضہ تھا ،اس نے اصل مالکن کو بلا لیا۔جو عورت ڈاکٹر کے پاس لائی تھی،وہ دینا نہیں چاہتی تھی،ڈین نے پولیس سے مدد مانگی،پولیس نے اس عورت سے بات کی اور سمجھایا کہ اصل مالکن کا ملکیت کا دعویٰ مائکرو چپ سے تصدیق شدہ ہوچکا ہے ۔ڈین کو بلا واپس مل گیا ۔
آپ کا کیا خیال ہے ککی نے گراسے سے نارمنڈی تک کتنا فاصلہ طے کیا ہوگا؟۔۔سو دو سو میل؟۔۔نہیں ۔۔۔۔سات سو میل!پورے سات سو میل،کلو میٹر جس کے ایک ہزار ایک سو چھبیس بنتے ہیں ،ککی نے یہ فاصلہ ڈیڑھ سال میں طے کیا ،وہ چلتا رہا، اس جبلت کی رہنمائی میں ،جو قدرت نے اس کے اندر رکھی تھی،چلتا رہا،اس مخلوق کے ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ راتوں کو سفر کرتا اور دن کو کہیں چھپ کر سو جاتا،اٹھارہ ماہ بعد جب وہ اپنے شہر پہنچا، اور اپنی مالکن کے گھر کی طرف جارہا تھا ،تو اس کی حالت نا گفتہ بہ تھی ،ازحد نحیف،یوں چل رہا تھا جیسے اپنے آپ کو گھسیٹ رہا ہو ، عورت نے دیکھا تو لاوارث سمجھا - پکڑ کر اپنے گھر لے گئی، اور پھر باہر نہ جانے دیا ۔ یہ بھی اسے فکر تھی کہ اس کا علاج ہونا چاہیے۔ڈاکٹر کے پاس گئی تو معاملہ اور نکلا۔
بلے بلیوں کے علاوہ ہنس بھی راتوں کو اڑتے ہیں اور دن میں شکاریوں کے خؤف سے چھپے رہتے ہیں مگر ہنس اور بلے میں فرق ہے ،ہنس عام طور پر ڈار کی صورت میں اڑان بھرتے ہیں ،جبکہ ککی نے گیارہ سو کلو میٹر کا فاصلہ تن تنہا طے کیا ۔
میں نے ککی کا موازنہ اپنے آپ سے کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں وفاداری اور محبت کے حوالے سے ککی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا ۔حالانکہ کی ککی کی مالکن ڈین کے جو احسانات ککی پر تھے ،میرے مالک کے احسانات مجھ پر کئی گنا زیادہ ہیں ۔
پہلے یہی دیکھیے کہ ککی ڈین نے نہیں بنایا ،وہ اسے بنا بنایا ملا،دوسری طرف میرا وجود ہی نہ تھا، میرے مالک نے مجھے مٹی اور پانی سے بنایا۔پہلے میں لوتھڑا تھا ۔پھر اس نے مجھےشکل اور جسم میں تبدیل کیا ،پھر مجھ میں جان ڈالی،پیدا ہونے کے بعد اس نے مجھے ایک مرد اور ایک عورت کے سپر دکیا ، جو ہمہ وقتی میری دیکھ بھال کرتے تھے۔میں اس دیکھ بھال کے بدلے ایک پائی تک اس مرد اور عورت کو ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا ۔ وہ راتوں کو جاگتے ،میں تواپنے جسم پر بیٹھی مکھی تک نہ ہٹا سکتا ۔خاتون نے مجھے دودھ پلایا، میرا بو ل و براز صاف کیا ۔اس مرد نے میری ساری ضروریات کا ،نشو و نما کا تعلیم کا ،علاج کا ، شادی کا ،مالی اور سماجی بوجھ اٹھایا۔
غؤر کیجئے ،کہ ککی کے اندر جو مشینری نصب تھی جس کی مدد سے وہ کھاتا ،کھانا ہضم کرتا ۔،سانس لیتا ،حرکت کرتا ،چلتا ،سوتا ۔اس مشینری کا کوئی ایک پرزہ بھی ڈین کا عطا کردہ نہیں تھا ۔جبکہ میرے اندر جو مشینری ہے اس کا ایک ایک پرزہ ایک ایک کل، ایک ایک رگ، ایک ایک آرٹری ۔خون کا ایک ایک قطرہ،اندر جاتی اور باہر آتی سانس کی ایک ایک رمق، سب کچھ میرے مالک نے مجھ میں فکس کیا ہے۔ سات عشروں سے میں چل رہا ہوں ،کھانا کھا رہا ہو ں ،سانس لے رہا ہوں ،یہ مشینری مسلسل کام کر رہی ہے۔ان سات دہائیوں میں دل کی مشین نے ایک ثانیے کے لیے بھی چلنا بند نہ کیا ،آنکھیں دیکھ رہی ہیں ،پاؤں چل رہے ہیں ،ہاتھ ڈھیر سارے کام کررہے ہیں ،دماغ سوچ رہا ہے ،یہ سب کچھ میرا مالک کررہا ہے اور کیے جارہا ہے،اور میری نافرمانی دیکھیے کہ ککی ایک بے زبان جانور ہوتے ہوئے ،ایک معمولی بے حد چھوٹے سائز کا حیوان ہوتے ہوئے،گیارہ سو کلو میٹر چل کر اپنی مالکن کے پاس پہنچا،دوسری طرف میرا مالک کہیں زیادہ نزدیک ہے،
آپ کا کیا خیال ہے۔۔کتنا نزدیک ہوگا ؟۔۔پانچ سو کلو میٹر؟نہیں !دوسو کلو میٹر؟نہیں ! ،چند گز دور؟،میرے گھر کے باہر گیٹ کے پاس ؟،گھر کے اندر بالائی منزل پر؟نہیں ،گراؤنڈ فلور پر،میرے اپنے کمرے میں ،نہیں ! وہ میرے دل سے بھی زیادہ قریب ہے۔اس کی موجودگی میری شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔وہ میرے اور میرے دل کےدرمیان حائل ہے۔پھر بھی میں اس کی طرف نہیں جاتا ،ہر رات صبح کاذب سے پہلے ایک فرشتہ پکارتا ہے،ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا ؟۔۔مگر میری سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ میں سویا رہتا ہوں ،اس نرم بستر پر جو اسی نے مہیا کیا ہے۔حالانکہ ککی کی نسبت میری صحت کہیں زیادہ بہتر ہے،وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔،نحیف و نزار ہوگیا ،پھر بھی اپنی مالکن کی طرف چلتا رہا ،چلتا رہا۔۔۔
دوسری طرف میں تندرست ہوں ،مالک نے ہر آسائش عطا کی ہے مگر میں اس کی طرف چلنے کے بجائے دوسرے دھندوں میں گرفتار ہوں ، کوئی انسان مجھ پر ذرا احسان کردے تو میں اس کے گھر جا پہنچتا ہوں ، ہاتھ میں تحائف لیے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو کوئی کام پڑے گا تو جان لڑا دوں کا مگر مالک ، جس کے احسانات کا شمار نہیں ، مجھے یاد نہیں آتا وہ کوئی تحفہ بھی نہیں مانگتا ۔اسے اپنے کسی کام کے لیے میری ضرورت بھی نہیں اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ میں اس کی طرف بڑھوں،اس کی طرف بڑھنے کے لیے مجھے ایک قدم بھی نہیں چلنا ،اپنی شہہ رگ کی طرف کیسے چلوں گا؟۔۔
۔مجھے تو بس یاد کرنا ہے،نام لینا ہے ،اس کا ذکر کرنا ہے،شکر کرنا ہے۔اسکی تعریف ،تسبیح ،تحمید کرنی ہے۔اس کا یہ مطالبہ بھی نہیں کہ سارے کام چھوڑ دوں اور بس تعریف ،تسبیح ،تحمید اور تہلیل کے لیے بیٹھ جاؤں ،اس نے تو یہاں تک اجازت دی ہے کہ دنیا کے سارے کام کرتا رہوں ،بس دل میں اسے یاد کروں ،یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غلط کام نہ کروں ،اپنے بچوں کے لیے روزی کماؤں ،غلط طریقے سے نہیں ،حلال اور جائز طریقے سے،تو یہ بھی اس کے ذکر میں شمار ہوگا ۔وقت پر دفتر جاؤں ،دیانتداری سے کام کروں ،اپنی ڈیوٹی کا وقت کسی اور کو نہ دوں ،تعجب یہ ہے کہ اسکا معاوضہ ملے گا،مگر ساتھ ہی یہ نیکی میں شمار ہوگا ،اس لیے کہ مالک کے احکام کے مطابق دیانتداری سے کام کرتا ہوں ،یہ بھی ذکر میں شمار ہوگا ۔
آپ دیکھیے کہ ککی کی نسبت میرا کام کس قدر آسان ہے، کہاں سینکڑوں کلومیٹر کا سفر اور کہاں شہہ رگ سے بھی قریب،او تقاضا کیا ہے؟۔۔۔صرف اتناکہ کوئی غلط کام نہ کروں ،کسی کو دھوکہ نہ دوں ،کسی سے وعدہ خلافی نہ کروں ،دفتر کارخانےمیں وہ کام جس کا معاوضہ لینا ہے پورا پورا کروں ،تاجر ہو ں تو ملاوٹ نہ کروں ،جھوٹ نہ بولوں ،فروخت کرتے وقت شئے کا نقص نہ چھپاؤں ،رشتہ دار ہوں تو صلہ رحمی کروں ،باپ ہوں تو اولاد کو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے تیار کروں ،مزے کی بات یہ ہے کہ مالک سے بے خبر رہوں تب بھی یہ کام تو کرنے ہیں ،کرتے وقت مالک کی ہدایات پر عمل کروں تو مالک خوش، اور انعامات اس قدر دے کہ سنبھالے نہ سنبھلیں ،
افسوس ! میں ککی سے بھی بدتر ہوں ،حالانکہ وہ چوپایہ ہے،اور میں اشرف المخلوقات انسان۔کاش میں ککی سے ہی کچھ سبق سیکھ لوں !


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com