رضا شاہ ماژندران کے ایک ضلع "سوادِ کوہ"میں پیدا ہوا ،ماں جارجیا کی مسلمان مہاجر تھی، باپ کا نام عباس علی خآن تھا جو فوج میں میجر تھا ۔ اس کا انتقال ہوا تو رضا شاہ مشکل سے آٹھ ماہ کا تھا، بیوہ ماں اپنے بھائی کے گھر تہران منتقل ہوگئی جلد ہی اس نے دوسری شادی کرلی اور بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کردیا ۔ماموں نے بچے کو ایک دوست کے ہاں بھیج دیا جو فوج میں افسر تھا ۔ رضا شاہ سولہ سال کا ہوا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔
ایران پر اس وقت خاندان قاچار کی بادشاہت تھی، رضا خان نے مشین گن چلانے کی خصوصی مہارت حاصل کرلی۔ پہلے کپتان اور پھر کرنل ہوا۔پھر بریگیڈئر بنا دیا گیا۔قسمت رضا خان کا ساتھ دے رہی تھی ۔1917 کا بالشویک انقلاب آیا تو روسیوں کی نظر تہران پر تھی، ادھر برطانیہ کو فکر تھی کہ روسی جنوب کی طرف آئے تو ہندوستان خطرے میں گِھر جائے گا ۔رضا خا ن نے برطانیہ کی شہہ پر چار ہزار فوجیوں کے ساتھ تہران پر قبضہ کرلیا ، نئی حکومت بنی تو رضا خآن کمانڈر ان چیف بھی بنا اور وزیر جنگ بھی بنا۔برطانوی اسے اسلحہ دے رہے تھے،تہران سے برطانوی سفارت خانہ اس کے بارے میں مثبت رپوٹیں بھیج رہا تھا ۔
1923 میں وہ وزیر اعظم بن گیا ،اور خاندان قاچار کا آخری چشم و چراغ احمد شاہ یورپ بھاگ گیا ۔س جہا ں سے وہ کبھی واپس نہ
آسکا۔"مجلس"(پارلیمنٹ )میں رضا خان کی مٹھی میں تھی۔دسمبر 1925 میں مجلس نے اسے ایران کا بادشاہ قرار دے دیا ۔یوں پہلوی خاندان کی بنیاد پڑی۔اس کے بیٹے محمد رضا نے1941 میں باپ کی جگہ بادشاہت سنبھالی۔اور 1979 تک بادشاہت کرتا رہا ۔باپ بیٹے دونوں کی بادشاہت کا عرصہ تقریباً 54 برس بنتا ہے ۔
غور کیجئے یہ نصف صدی کا عرصہ ایران کے استحکام کا عرصہ تھا ، دونوں بارشاہوں نے ملک کے امن و امان کو مضبوط کیا ۔اس کے مقابلے میں ہم جو ایران کے پڑوسی ہیں ،ستر سال سے عدم استحکام کا شکار ہیں ۔چار تو ہم نے عسکری آمر بھگتائے،جمہوری حکومت جب بھی بنتی ہے تو مخالف سیاسی جماعتیں اس کے درپے ہوجاتی ہیں، بے نظیر کی ہر حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا ،یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے معزول کیا ۔ تو مسلم لیگ نون نے اطمینان کا اظہار کیا ۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف آج بھی عدالتوں میں حاضریاں دے رہے ہیں ،میاں محمد نواز شریف جب بھی آئے ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ۔پہلے جنرل پرویز مشرف نے انہیں اقتدار سے ہٹایا ۔اب کے عدلیہ سے نااہل قرار پاکر وزارتِ اعظمیٰ سے الگ ہوگئے ہیں ۔
دوسرا رخ معاملے کا دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاق میں ،بالخصوص پنجاب میں ادارے ،بیوروکریسی اور پولیس شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔کسی دوسری جماعت کے لیے پنجاب سے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔چنانچہ تصویر جو بنتی ہے یہ ہے کہ پنجاب کا صوبہ مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہے گا ۔حکومت وہی بنائے گی،اور اس کے بعد پھر وہی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ یعنی حکومت ختم کرنے کے لیے تحریکیں ،دھرنے،الزامات ،مقدمے عدالتیں ،نیب،پیشیاں ، اور ہر پیشی کے بعد فریقین کی دھواں دھار تقریریں، یوں ملک عدم استحکام کا ہی شکار رہے گا۔
اس صورتحال سے جو جنگل کی طرح بے سمت اور خار دار ہے ،نکلنے کا راستہ کیا ہے،اگر ہم جذبات کو ایک طرف رکھ دیں تو اس مصیبت سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ ہم ایک کڑوا گھونٹ بھر یں ،اور 1925 کی ایرانی مجلس کی طرح میاں نواز شریف کو پاکستان کا شہنشاہ ڈکلیئر کردیں ،جس طرح 1925 کی ایرانی مجلس رضا شاہ کے قبضے میں تھی۔بالکل اسی طرح آج کی پاکستانی قومی اسمبلی بھی مسلم لیگ نون کی مٹھی میں ہے،اس کا ثبوت اس ترمیم کی صورت میں ہم دیکھ چکے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں میاں صاحب نااہل ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے،اتحادی ان کی پشت پر کھڑے ہیں ، رہی سہی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانا چندں مشکل نہیں ، ابھی کل کی ہی بات ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک معروف مذہبی جماعت نے مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا ۔جس دن ترمیم کے لیے ووٹنگ تھی۔اس دن بھی مذہبی رہنما دوسرے کاموں میں مصروف تھے۔یوں ایک ووٹ سے حکومت جیت گئی،اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلم لیگ نون جو چاہے ،اسمبلی سے منظور کروا سکتی ہے۔چنانچہ ملک کو استحکام بخشنے کے لیے میاں صاحب کو شہنشاہ قرار دیا جائے ،تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھا سکیں ،اگر اگلے پانچ برس میں وہ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیں اور سی پیک بھی منزل مقصود کی طرف فاصلہ طے کرلے تو ملک میں واقعی تبدیلی رونما ہوجائے گی ۔میاں صاحب کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ سوشل سیکٹرز یعنی تعلیم و صحت کی طرف بھی توجہ دیں ، اور زراعت کی ترقی کے لیے بھی انقلابی قدم اٹھائیں ۔شہنشاہ بننے کے بعد میں یقیناً ان میں مثبت تندیلیاں رو نما ہوں گی اور وہ اپنے اندر تعمیری سوچ پیدا کرلیں گے۔
مستقبل کے خلفشار سے بچنے کے لیے ان کی دختر نیک اختر مریم صفدر کو ان کا ولی عہد مقرر کیا جائے اس کے لیے آئین میں مناسب ترمیم کی جائے ۔اب رہا صوبوں کا معاملہ تو مزید استحکام کی خاطر انتظامی ڈھانچہ وہاں بھی تبدیل کرنا ہوگا ،ہم سب اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ الیکشن ہونے کی صورت میں بھی میاں شہباز شریف ہی پنجاب کے والی بنیں گے ،چنانچہ صوبے کے گورنر کو "شاہ" کا لقب دے کر موروثی کردیا جائے ۔حمزہ شہباز کو ولی عہد مقرر کردیا جائے۔ رہا وزیر اعلیٰ کا عہدہ تو اس کا تقرر صوبے کے شاہ کی صوابدید ہو کہ جسے مناسب سمجھے ،مقرر کرے ۔ سندھ میں زرداری صاحب کو صوبے کا شاہ مقرر کیا جائے ۔ انہیں معلوم ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں ان کی پارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس لیے وہ یہ منصب قبول کرلیں گے/۔ اب بھی عملی طور پر وہ سندھ کے شاہ ہی ہیں ۔ بلاول زرداری ان کے ولی عہد ہیں ، سیاسی ہم آہینگی پیدا کرنے کے لیے وہ لازماً وزیر اعلیٰ ایم کیو ایم سے لیں گے ،ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے کچھ اختیارات شاہ کو منتقل کردیے جائیں ،دوسرے صوبے میں معاملات طے کرنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ وہاں میاں صاحب کے اتحادی برسرِ اقتدار ہوں تاکہ مرکز اور صوبوں کے درمیان چپقلش کی لعنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔بلوچستان میں شاہ ہمیشہ اچکزئی خاندان کا ہو۔ اس طرح قبائلی نظام بھی جاری و ساری رہے گا ،اور کچھ بدبخت ،کوتاہ نظر ۔جو قبائلی نظام کو فرسودگی کی علامت سمجھتے ہیں ۔اپنی اوقات میں رہیں گے۔
رہا خیبر پختونخوا ،تو وہاں میاں صاحب کے دو اتحادی ہیں،اور دونوں مضبوط ہیں ،اسفند ولی یار اور مولانا فضل الرحمٰن ،مولانا دیکھنے میں ایک بارعب شخصیت لگتے ہیں ،قدرت نے سیاسی جوڑ توڑ کا ایک خاص ملکہ انہیں فیاض سے عطا کیا ہے۔ انہیں "کے پی کے "کا "شاہ"مقرر کیا جائے۔یہ منصب ان کے خاندان میں موروثی ہو ،اسے آئین کی پشتبانی حاصل ہوتاکہ کوئی طالع آزما خلل اندازی نہ کرسکے ۔ صوبے کا استحکام اور ترقی کی خاطر یہ اصول طے کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ ہمیشہ باچا خان کے خاندان سے ہو۔
انہی خطوط پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے صوبوں میں آئینی اقدامات اٹھائے جائیں ۔اس وقت ان دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔ان صوبوں کی شاہی ،اپنےخاندانوں میں موروثی قرار دی جاسکتی ہے۔ یاجس طرح شہنشاہ مناسب سمجھیں ۔
رہ گیا مسئلہ کباب میں ہڈی بن کر مزہ کرکرا کرنے والے عمران خآن کا ،جو شریف خاندان کے دوامی اقتدار کا دشمن ہے۔ تو حالات جس نہج پر جارہے ہیں، اس سے تو قوی امید ہے کہ وہ نااہل قرار دے دیا جائے گا ،اور گرفتار بھی کرلیا جائے گا ۔امید ہے کہ اس کے بعد اس کی پارٹی شدید خلفشار کا نشانہ بنے گی۔اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو ۔کے مطابق پارٹی کے عقلمند اور دوراندیش عناصر خؤد ہی شاہی خاندانوں سے وانستہ ہوجائیں گے۔
برصغیر کے مسلمان خاندانی بادشاہتوں کے یوں بھی عادی ہیں ،خلجی خاندان تغلق خاندان،لودھی خاندان، خاندانِ غلاماں، مغلیہ سلطنت کا مالک تیموری خاندان ، ماضی میں ان خاندانوں نے ملک و قوم کی بے پایاں خدمت کی،آج اگر نواز شریف خاندان اور باچا خان خآندان ہم ہر حکومت کرتا ہے تو تاریخی تسلسل بھی جاری رہے گا ۔ سیاسی استحکام بھی نصیب ہوگا ،
اور میا ں صاحب کے ذہن میں ترقی کا جو تصور ہے وہ بھی عملی جامہ پہن سکے گا۔
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تجویز کی تہہ میں کالم نگار کا کوئی ذاتی خاندانی یا سیاسی مفاد ہرگز پوشیدہ نہیں ، مقصد صرف اور صرف ملک اور قوم کی ترقی اور استحکام ہے۔
No comments:
Post a Comment