سرسبز و شاداب رہیے،
ہریالی آپ کے گرد بادِ نسیم کے جھونکو ں سی رقص کرے،
جہاں جائیں جھومتی شاخیں، خوشبو چھڑکتے پھول استقبال کریں،
دعا کا یہی برگِ سبز تحفہ درویش ہے،اور ذرا سی عرضگزاری بھی جو مسندِ انصاف کے سامنے جہاں آپ تشریف رکھتے فرما ہیں،دست بستہ کھڑے ہو کر،کرنی ہے۔۔
اس تنگدلی پر تاسف کا اظہار بھی کرنا ہے جو اہلِ دانش نے اور اربابِ نشر و اشاعت نے دکھائی ہے، ان کا کہنا کہ آپ نے ماضی میں کوئی طوفان انگیز یا حشر برپا کردینے والا فیصلہ نہیں کیا، قرین انصاف نہیں، معاملے کا اصل پہلو یہ ہے کہ آپ نے کوئی ایسا فیصلہ بھی صادر نہیں کیا جس سے آج ندامت ہو اور جس کا دفاع کرنا پڑے،تیس عشرو ں سے زیادہ مدت پر محیط ایک باعزت عرصہ کارکردگی آپ نے بسر کیا ہے، اس میں کیا شک ہے کہ نشیب و فراز زندگی کا جزو لاینفک ہیں،ہمیشہ ایک معیار پر تو اقطاب اور بطال بھی قائم نہ رہ سکے، جیسا کہ سعدی نے فرمایا۔۔۔
یکی پرسید آن گم کردہ فرزند
کہ ای روشن گہر پیرِ خرد
زمصرش بوئی پیراہن شنیدی
چرا در چاہ کنعانش ندیدی
بگفت احوال ِ ما برق ِ جہان است
دمی پیدا و دیگر رم نہان است
گہی برطارم اعلیٰ نشینم
گہی برپشت ِ پائی خود نبینیم
اس شخص سے جس کا فرزند گم ہوگیا تھا، کسی نے پوچھا کہ عالی جاہ ! مصر سے بیٹے کے کرتے کی خوشبو سونگھ لی،کنعان کے کنویں میں بھی جھانک لیتے، فرمایا ہمارا حال برق جیسا ہے،ابھی چمکی اور ابھی غائب، ہم لوگ کبھی تو بلندی پر ہوتے ہیں جہاں سے سب کچھ نظر آتا ہے، اور کبھی اپنے پاؤں کی پشت بھی دکھائی نہیں دیتی۔
یہ تو تھی تمہید۔۔۔۔۔
حفیظ جالندھری نے کہا تھا
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہیدطولانی
آمدم برسرِ مطلب!جسٹس صاحب!ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر کے دشت ِ خیال پر اندر کی نظر دوڑائیے،جو منصب آپ کو ملا ہے،سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں اس کی ہمسری ناممکن ہے۔ تخت پر تو صدر اور وزیر اعظم متمکن ہیں مگر زنجیرِ عدل کا سرا آپ کے محل میں ہے،آپ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں،اس طرف نظر دوڑائیے،روغنِ قاز مَلنے کے ماہر ،خوشامدی ہاتھوں میں پھول لیے دورویہ کھڑے ہیں،ترغیب ہے اور تحریص،حکمرانوں کی قربت ہے اور لاتعداد منافع اور مواقع،مگر جسٹس صاحب اس راہ پر پھول ہوں یا درہم و دینار کے انبار، یا حکومت کا جاہ وجلال جو کچھ بھی ہے اس راہ کے آخر میں ایک لق و دق صحرا پڑے گا، جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں،اور بکھری ہوئی ہڈیاں ہیں، آپ وہاں اکیلے ہوں گے، تن تنہا!آپ کے ارد گرد آپ کے پاؤں پکڑ کر رکاب میں ڈالنے والے خوشامدی پیادے سب غائب ہوں گے۔
دوسری طرف ایک کٹھن راستہ ہے، اس راستے پر آپ کا ضمیر آ پ کی رہنمائی کررہا ہے، اس راستے پر دھونس بھی ہے اور دھاندلی بھی ،کوئی بھی آپ کو پسند نہیں کرے گا، بعض تو دماغی حالت پر شکر کریں گے۔ کہ بڑا آیا عمر بن عبدالعزیزبننے کا شائق! مگر اس راہ کے آخر میں ایک باغ ہے جہا ں آپ کا استقبال کیا جائے۔باغ میں چشمے ہین جن میں آب ِ شیریں بہہ رہا ہے ٹھنڈی چھاؤں ہے اور ابدی کا میابی!
وہ دیکھیے،قائداعظم کھڑے ہیں۔اور آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، قائداعظم جنہو ں نے خوشامد ،دولت،دھونس،دھاندلی سازش سب کو شکست دی۔گاندھی کی منافقت پارہ پارہ کردی ۔وہی قائداعظم آپ سے کہہ رہے ہیں جاوید !! اس موقع کی ضائع نہ کرنا،اس ملک کی قسمت تمھارے ہاتھ میں آئی ہے،اسے ایسا بناؤجیسا میں چاہتا تھا زبردست کو نہ چھوڑو او ر زیرِ دست کو نہ جھڑکو!گردن بلندوں کو قانون کے شکنجے میں کسو، جو فرعون بنے پھرتے ہیں انہیں قانون کے کڑ کڑاتے کوڑوں سے درست کرو،اس مملکت میں کوئی شہزادی ہو نہ شہزادہ، نیب بلائے اور کوئی نہ آئے،تو اسے زنجیروں میں باندھ کر بلواؤ،کوئی استثنا مانگے تواسے کہوپہلے سانس لینے میں استثنا مانگے۔مسند اور بوریا کا فرق مٹا ڈالو!۔
جسٹس صاحب!کچھ لوگ تاریخ کے پیچھے بھاگتے ہیں اور تاریخ انہیں پکڑائی نہیں دیتی،آپ خو ش بخت ہیں،کواڑ کھول کر باہر دیکھیے،تاریک آپ کی دہلیز پر کھڑی ہے،اس کے ہاتھ میں قلم ہے اور قرطاس،کہہ رہی ہے،جاوید اقبال،جو چاہو گے لکھوں گی،انصاف کرو گے تو منصف قرار دوں گی، جانبداری کرو گے تو ظالم کا خطاب دوں گی، ملک کا خزانہ بھرو گے تو عادل کہلاؤ گے،خزانہ لوٹنے والوں کے لیے نرم گوشہ رکھو گے تو سارا صفحہ ہی سیاہ کردوں گی۔،ایسی سیاہی جو کھرچی نہ جا سکے گی،ہمیشہ رہنے والی سیاہی۔
جسٹس صاحب آپ اس شہر میں یقیناً گئے ہوں گے جس کی مٹی اڑاتی گلیوں میں امام مالک برہنہ پا پھر اکرتے تھے،اور درس دیتے وقت نام نہیں لیتے تھے،فقط اس طر ح فرماتے تھے کہ اس قبر میں استراحت فرمانے واے نے یہ فرمایا،اس شہر پر سبز گنبد ہے،گنبد پر آسمانی پرندے ہیں زمین پر بہشت سے اترے ہوئے کنکر ہیں،اب کے جائیں تو سنبھل کر،اب کے معاملہ پہلے والا نہ ہوگا۔ اب کے پوچھا جائے گا جاوید اقبال!میں نے تو یہ کہا تھا کہ میری لخت جگر فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹ دوں گا،تم نے کہیں کسی حکمران کی اولاد کو تو نہیں چھوڑ دیا،جسٹس صاحب یہ سوال قیامت ڈھائے گااس سوال کا جوا ب دینے کے لیے اپنے آپ کو ضرور تیار کیجئے،اس سوال سے مفر نہیں!آپ اس زندگی میں ،یہ منصب سنبھالنے کے بعد وہاں نہ بھی گئے تو یہ سوال حوضِ کوثر کے کنارے پوچھا جائے گا،
اب اس سوال سے بچنے کی کوئی صورت نہیں!آپ یہ سوال اپنے گلے میں ڈال چکے ہیں،آپ انصاف کی میزان ہاتھ میں پکڑ چکے ہیں آپ نے اس وادیء پُر خار کا سفر اپنی مرضی سے اختیار کیا ہے، اب سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
جسٹس صاحب! آپ کے بچے پوتے،پوتیاں،نواسیاں سلامت رہیں، آپ ان سے پھولوں تتلیوں ،خوش رنگ طائروں سے جی بھر کر کھیلیں،ذرا ذہن میں رکھیے گا کہ ان پوتوں،نواسوں اور ان کی اولادوں کا سر فخر سے بلند کرنے یا ندامت سے جھکانے کا انتخاب آپ کی مٹھی میں ہے،آپ کی مٹھی میں !!!
ستر سال سے ہم بھٹک رہے ہیں، دشت و بیاباں کی خاک چھان رہے ہیں،کبھی ایک پہاڑپر چڑھتے ہیں کبھی دوسرے سے چھلانگ لگاتے ہیں،منزل کاسراغ ہے نہ راہ میں کوئی سنگ میل،ہم عزیزبلوچوں ،عیان علیوں،کو پکڑتے ہیں مگر انہیں نہیں پکڑتے جن کے یہ کارندے ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے ٹیکسوں سے دولت کے انبار کھڑے کرنے والے بددیانت حکمران سمندر پار اپنے ٹھکانے بنا چکے،محلات جائیدادیں گراں بہا اپارٹمنٹ خرید چکے،ان کی عیدیں،ان کے تہوار،ان کے علاج معالجے،ان کی قومیتیں،سب دساور کی ہیں،ہم بے بس ہیں،ہم پر ان کے بچے،ان کی بیٹیاں،یہاں تک کہ ان کے داماد حکومت کررہے ہیں،پورا ملک مزارع بن چکا ہے، پوری قوم ہاریوں کی صورت اختیار کرچکی ہے، مگر کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا،ایک عامی حکم سے سرتابی کرے تو نیب اسے مدتوں پسِ زنداں رکھتی ہے،مگر یہ حکمراں،یہ امرا،یہ عمائدین، یہ طبقہ بالا کے خود سر ،خود نگر، اور خود پسند نمائندے،
افسوس! ان پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،یہ ملزم بن کر پیش ہوں تب بھی سینکڑوں پہریداروں اور بیسیوں لیموزینوں کے ساتھ شاہانہ کروفر میں سر سے پا تک ڈوبے ہوئے پیش ہوتے ہیں، گردیں ان کی اکڑی ہوئی ہیں، جبینیں ان کی شکنو ں سے بھری ہوئی ہیں پاؤں ان کے زمین پر یوں پڑتے ہیں جیسے زمین کو پھاڑ ہی تو دیں گے، ریاست کے ملازموں کو یہ ذاتی غلام سمجھتے ہیں اور اپنے کروفر کو دوبالا کرتے ہیں،عدالتوں کی تضحیک کرتے ہیں،قانون ان کے لیے وہ قالین ہے جس پر بوٹوں سمیت چلتے ہیں،آئین ان کے لیے وہ گیند ہے جسے ہوا میں اچھا ل کر یہ لطف اندوز ہوتے ہیں،
جسٹس صاحب! قوم آپ کی خدمت میں ہاتھ باندھ کر،ادب سے التماس کرتی ہے ،کہ ان سے رہائی دلوائیں، مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک شہری کو مارا،مارتے وقت کہتا رہا " میں بڑوں کی اولاد ہوں "اس مظلوم کے ہاتھ میں حضرت عمرؓ نے درہ دیا اور کہا کہ اسے مار ،وہ مارتا جاتا اورآپ کہتے جاتے، اسے مار،یہ بڑوں کی اولاد ہے۔
جسٹس صاحب ،بڑوں کی اولاد کو جوا اس قوم کے نحیف کندھوں سے اتار پھینکئے آپ کے پاس اختیار ہے،موقع بھی اور وقت بھی۔
خیری کن ان فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآں فلاں نماند
یہ وقت جو ملا ہے اسے غنیمت جانیے اس سے پہلے کہ لہور گوں میں سرد ہوجائے اور آواز دینے والا آواز دے کہ معاملہ ختم ہوچکا!
No comments:
Post a Comment