Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, October 27, 2017

ہم کس عہد میں جی رہے ہیں !


دکھ کی بات تھی  اور دل میں خؤشی بھی انگڑائی لے رہی تھی، خؤشی اس لیے کہ  دوست گرامی رؤف کلاسرہ کا پرسوں والا کالم پڑھ کر  بے اختیار  اقبال کا شعر یاد  آگیا۔۔۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں !

پنجاب حکومت جس طرح  ٹامک ٹوئیاں  مار رہی  ہے،اس کی  وارننگ پہلی بار  اس کالم نگار نے اس وقت دی تھی  جب صوبے  کے حکمران اعلیٰ نے قصور ہسپتال  کا "معائنہ" کیا تھا۔ کچھ کو معطل  کیا،کچھ کو  جھڑکیاں دیں ، پھر کچھ عرصہ  بعد ایک  بار پھر "معائنہ "کیا ۔ مگر نتیجہ صفر نکلا۔ 13 اگست  2016 کو  ایک معروف  و مشہور انگریزی  معاصر  نے شہ سرخی جمائی۔

"قصور  ڈسٹرکٹ  ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ،چیف منسٹر کے  معائنوں  کے باوجود  کوئی تبدیلی نہ آئی"

 ملازموں نے بتایا کہ سٹاف مریضوں کو  پرائیویٹ ہسپتال جانے کا  مشورہ دیتا ہے،ٹریفک پولیس تک کے  مریض  کو اٹنڈ نہ کیا گیا، ڈاکٹر غائب رہتے ہیں ،محکمہ صحت  کے ای ڈی  او نے  خود  کہا کہ بھارت کی طرح  یہاں بھی نجی پریکٹس  ڈاکٹروں  کی ممنوع ہونی چاہیے،لیکن بھارت میں ایسا کرنے سے پہلے ڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں ، "معائنوں  "کے باوجود  ناکامی کی یہ ایک انتہائی مختصر داستان ہے، ورنہ  صفحوں  کے صفحے  بھر جائیں ۔

یہ سب اس لیے کہ وزیر اعلیٰ  کا طرزِحکومت شخصی  اور قبائلی ہے، وزیر سیکرٹری ساتھ ہوتے  اور معائنہ کے دوران  ذمہ داری  ان پر ڈالی جاتی ،سرزنش کی جاتی تو نتیجہ مختلف نکلتا ، سارے مسئلے کا لبِ لباب  کیا ہے؟

اصل معاملہ کیا ہے؟ وہ جسے انگریزی میں  
crux of the  matter


کہتے ہیں ۔

کیا ہے؟

 صرف اور صرف  یہ کہ وزیر اعلیٰ  صوبائی اسمبلی  کو کسی قابل نہیں سمجھتے  کابینہ عضوِ معطل ہے، پہاڑ سے لے کر رائی تک ہر فیصلہ خؤد کرتے ہیں اور ہاتھی سے لے کر چونٹی تک ہر ذی روح  صرف ان کے اشاروں کا محتاج ہے۔

مگر رؤف کلاسرہ نے کمال خؤبصورتی او جامعیت سے پنجاب  حکومت کی طرزِ بادشاہی کو بیان کیا ہے، اور بتایا ہے کہ بیوروکریسی کا ہر کل پرزہ  منتظر رہتا ہے، کہ وزیر اعلیٰ  "نوٹس" لیں تو  وہ حرکت کرے۔انگریزی  سے اردو صحافت میں آنے والے  رؤف کلاسرہ نے دکھا دیاہے کہ بغل میں ٹھوس مواد  ۔حقائق  اور دلائل ہوں تو لچھے  دار الفاظ اور مرصع  مرقع زبان  کے بغیر  سلیس اردو  میں بھی دلوں  کے اندر اترا جاسکتا ہے۔

92ٹی وی چینل پر اس شخص کو سن کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح  جرات و بے خؤفی سے  اور کس طرح قومی خزانے  کی تاخت و تاراج  کو کلاسرہ پبلک کی آنکھوں  کے سامنے یوں رکھ دیتا ہے، کہ اشتباہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

اس پر آشوب  دور میں  جب بڑے بڑے ستون دیمک  زدہ ہوگئے، اور کرنسی  اور مراعات  کا ٹڈی  دل بڑے بڑے  دماغ چاٹ  گیا۔ رؤف کلاسرہ جیسے صحافیوں کا  وجود نعمت سے کم نہیں ، یہ انگلیوں  پر گنے جا سکنے والے افراد  ساری کمیونٹی کی طرف  سے فرض  کفایہ ادا کرہے ہیں ۔

 خؤشی کا ذکر تو ہوگیا۔ دکھ کیوں ہوا؟۔۔۔ اس لیے کہ اصل معاملہ دکھ کا ہی ہے۔ یہ طرزِ حکومت یہ جمہوریت کی عملی نفی ۔،یہ قبائلی سٹائل، یہ دکھ کی ہی بات ہے،

چھپن نام نہاد  کمپنیوں کی ناکامی  کا سکینڈل سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حکم صادر ہوا  کہ "تھرڈ پارٹی جائزہ" لیا جائے۔ اور ناکام کمپنیوں کو بند کردیا جائے، مگر اسی ارب روپے سے زائد  کی بے ظابطگیاں  جو  ہوچکی ہیں ،ان کی ذمہ داری کون قبول کرے گا، صاف پانی کمپنی نے کتنے لوگوں کو  صاف پانی مہیا کیا؟۔۔۔ اصل کمپنیوں کو سونپے گئے کام  بلدیاتی اداروں نے کرنے تھے،  ایک طرف بلدیاتی ادروں کو فدنڈز نہ دے کر عدم  فعا ل رکھا گیا دوسری طرف  پسندیدہ افراد کو  لاکھوں کروڑوں روپے سے نوازا گیا۔ بورڈ آف  گورنرز  میں سیاست  دان تک شامل کرلیے گئے ،
صرف ایک مثال سے ان کمپنیوں  کی شفافیت کا اندازہ لگائیے ۔کہ ؛لاہور پارکنگ  کمپنی کا ٹھیکہ ایک ایسی فرم کو دیا گیا۔ جو بلیک لسٹ  تھی۔ حکومت کو ماہانہ پانچ کروڑ  کا نقصآن ہوتا رہا۔
 چودھویں صدی کے حکمران محمد تغلق  اور  پنجاب  حکومت میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔محمد  تغلق نے بڑے بڑے منصوبے شروع  کیے اور  کرائے۔ مگر مشورہ  کسی سے نہ کرتا  تھا۔ مثلاً ایک منصوبہ بنایا کہ بنجر زمینوں   کو قابلِ کاشت بنایا جائے اور کسانوں  کو مجبور کیا جائے کہ عام فصلوں کے بجائے "قیمتی" فصلیں بوئی جائیں ۔ حکم ہوا کہ  باجرے  کے بجائے گندم بوئی جائے، گندم جہاں بوئی  جاتی ہے وہاں گنا بویا جائے۔اور جہاں گنا بویا جارہا تھا ،وہاں انگور اور  کھجور کاشت کی جائے ۔

یہ منصوبہ جن افراد کو  سونپا گیا  وہ اسی قبیل کے تھے جنہیں ان چھپن کمپنیوں  کی بارشاہی  عطا کی گئی ہے۔ کچھ نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ ایک لاکھ بیگھہ  زمین کو آباد کرکے دکھائیں گے، کچھ نے کہا کہ ہزاروں گھڑسوار ان زمینوں کی آمدنی سے تیارکریں گے۔ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا  امدادی رقوم  جن افسروں نے کسانوں میں تقسیم کرنا تھیں وہ بددیانت نکلے۔ دو سال کے عرصہ میں  ستر لاکھ ٹکا خزانے سے جاری ہوا مگر  اس کا ہزارواں حصہ بھی کسانوں تک نہ پہنچا۔

پھر محمد تغلق کے دماغ نے ایک  اور جھر جھری لی، لگان کو نیلام کردیا۔ یعنی جو زیادہ بولی  دے گا کہ میں فلاں علاقے سے اتنا لگان اکٹھا کرکے خزانے میں جمع  کراؤں گا   اسے وہ علاقہ  سونپ دیا گیا۔ یہ بولیاں  دینے والے ناتجربہ کار تھے، انہوں نے کسانوں کو لوٹنا شروع کردیا ، پھر بھی مطلوبہ رقوم اکٹھی نہ ہوئیں ۔ بادشاہ نے ان کے بازو مروڑے تو بغاوت ہوگئی، سکیم بری طرح ناکام ہوگئی۔

 پھر ایک اور سکیم آئی  چاندی کے سکوں  کی جگہ تانبے اور  پیتل کے سکے جاری کئے گئے ،سکیم  ناکام ہوگئی ،معیشت تباہ ہوگئی۔، پھر بادشاہ  نے اعلان کیاکہ لوگ پیتل کے سکے خزانے میں جمع  کرا کر سونے اور چاندی  کے سکے واپس لیں ۔

دارالحکومت میں پیتل کے سکون کے پہاڑ جمع ہو گئے ،رہا سہا خزانہ خالی ہوگیا۔ پھر بادشاہ  نے دارالحکومت دہلی سے دیواگری (موجودہ  مہاراشٹر صوبے میں ) منتقل کرنے کا حکم دیا۔ دیواگری کا  نام دولت آباد رکھا گیا۔ یہ دہلی سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر  دور تھا۔ فوائد ضرور تھے مگر  یہ منصوبہ  اس بری طرح ناکام ہوا کہ  محمد تغلق  کو تاریخ نے پڑھا  لکھا بے وقوف  کا خطاب دیا۔

وجہ یہ تھی کہ  یہ فیصلہ  اچانک کیا اور صرف بادشاہ  کا اپنا  فیصلہ تھا، کسی سے  مشورہ لیا نہ  منصوبے کے مختلف  پہلوؤں پر غؤر کیا گیا۔ ممکنہ نقصانات کا سوچا ہی نہ گیا۔ پھر حکم دہا کہ دہلی کی ساری کی ساری آبادی دولت نگر منتقل ہو۔ لوگ راضی نہ ہورہے تھے۔ صدیوں سے یہ خاندان  دہلی میں مقیم تھے۔ کیسے جاتے۔۔۔بادشاہ نے  سفر کے دوران  بھاری مراعات  کا اعلان کیا پھر بھی  لوگ راضی نہ ہوئے۔
پھر محمد تغلق نے شہر میں منادی  کرادی کہ تین  راتوں کے بعد شہر  میں کوئی نہ دکھائی دے۔ بہت سے لوگ چل پڑے ،کچھ چھپ گئے۔ شہر کی تلاشی لینے  کا حکم ہوا، ایک گلی میں ایک اندھا  اور ایک اپاہج ملا، اپاہج کے بارے حکم ہواکہ اسے  منجنیق میں ڈال کر اس طرح پھینکا جائے جیسے  پتھر پھینکتے ہیں ، اندھے کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اسے دہلی سے دولت آباد تک گھسیٹ کر لیجایا جائے۔، یہ فاصلہ چالیس دن کا تھا۔ اندھا بیچارہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ دولت آباد اس کی صرف ایک ٹانگ ہی پہنچ پائی، ظفر اقبال نے شاید اسی کے بارے میں لکھا تھا۔۔۔

میں نے کب دعویٰ کیا ہے،سربسر باقی ہوں میں

پیش خڈمت ہوں تمھارے،جس قدر باقی ہوں میں !

اس سے دہشت اس قدر پھیلی کہ چھپے ہوئے لوگ بھی دولت آباد روانہ ہوگئے، بہت سے بیمار ہوکر راستے میں مرکھپ گئے، بہت سے نئی زمین،نئی آب و  ہوا ،نئی زبان  اور نئے ماحؤل سے سمجھوتہ نہ کرسکے ،ذہنی بیماریاں لاحق ہوگئیں ۔ آٹھ سال گزرے تھے کہ بادشاہ کو یہ ساری سکیم ناکام اور حماقت آمیز نظر آئی۔ اب حکم ہوا کہ سب واپس چلو۔ دہلی کو دوبارہ دارالحکومت قرار دے دیا گیا،اور رہی سہی کسر واپسی کے سفر نے پوری کردی۔

حکومت پنجاب  کی کچھ سکیموں  کے تو اب نام ہی سننے میں نہیں آتے۔ سستی روٹی، دانش سکول، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ۔صرف دانش سکولوں کا معاملہ چھان کر دیکھ لیجئے، اربوں روپے ان پر لگ گئے، دوسری طرف سرکاری سکولوں میں  63 ہزار  اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں ، تیرہ سو سکولوں میں بیت الخلا کوئی نہیں ، پونے پانچ ہزار سکولوں کی عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں ، ساڑھے پانچ ہزار سکولوں میں پینے کاپانی مفقود ہے۔ پونے تین ہزار سکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں  اور ڈیسک موجود نہیں ۔

اور اب چھپن کمپنیوں  کی سکیم  کی ناکامی، ہر طرف احتجاج کا شور اور مقدمہ بازی  ،ان کمپنیوں کے نام پڑھ کر انسان  فرطِ حیرت سے انگشت بدنداں  رہ جاتا ہے۔

اے ارض سیہ روز  !کوئی اور ہی سورج

 شاید کہ بد ل جائیں یہ ایام ہمارے!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com