Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, October 11, 2017

اگر ابراہم ایرالی زندہ ہوتے۔


عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!

تیونس کے وزیر ِ صحت نے دوڑ میں شرکت کی  ادھر دوڑ ختم ہوئی،اور ان کی حالت بگڑ گئی، اور وفات پا گئے موت کا وقت،مقرر ہے یہ ہمارا ایمان  ہے، مگر لگتا ہے کہ  وہ دوڑ کے عادی نہیں تھے۔ 
ادھر چالیس سالہ خاتون  جے پور سے چلیں اور دہلی جا کر  دھرنا دے دیا ،کروڑ پتی  خاتون کا مطالبہ  معصوم ہے اور دلکش بھی۔۔۔ یہ کہ  وزیر اعظم مودی  ان سے شادی کر یں۔لگتا ہے پورے خاندان میں بزرگ کوئی نہ تھا جو مودی سے رابطہ کرتا  یہ کام بیچاری کو خود ہی کرنا پڑا۔
اس سے بھی زیادہ عجیب وہ  کمیٹٰی ہے جو حکومت نے حلف نامے میں ترمیم  کی تحقیقات کے لیے بنائی ہے،آپ کا کیا خیال ہے،اس کمیٹی میں حزبِ اختلاف کو نمائندگی دی گئی ہوگی؟۔۔۔جی نہیں!وہ کمیٹی ہی کیا جو حکومت بنائے اور اپوزیشن کو شامل کرے،کمیٹی کے  ارکان احسن اقبال،اور مشاہد  اللہ خان ہیں،سربراہ  راجہ ظفر الحق (صدر ضیا الحق  کے پسندیدہ اوپننگ بیٹس مین)ہیں۔یہاں یہ واضح  ہو کہ  بیٹس مین کو بیٹ مین سے خلط ملط نہ کیا جائے۔

کمیٹی جو کچھ  کر رہی ہے وہ کمیٹی کی تشکیل سے بھی زیادہ عجیب ہے،وزیر قانون  نے کمیٹی کو  بتایا کہ  "'حلف نامے میں تبدیلی جان بوجھ کر نہیں کی گئی،"غالباً ان کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے ایک پری اتری،جس کے ہاتھ میں قلم تھا،وہ آکر ترمیم کرگئی،ورنہ اور تو کوئی اس کا ذمہ دار ہی نہیں۔

اس سے بھی زیادہ عجیب بات  کالم نگار نے لکھی،اور مزاحیہ پیرائے میں بتایا کہ  پہلے ان کی داڑھی تھی پھر صاف کرا دی  بات یہ ہے کہ  داڑھی رکھنا  نہ رکھنا  اور بات ہے، رکھ کر منڈوا دینا بالکل الگ بات ہے۔ پھر اس کا مزاحیہ رنگ میں ذکر کرنا کہ اسلام تمھارے چہرے سے کہاں چلا گیا۔ایک ایسی حرکت ہے جو نہ کی جاتی تو بہتر تھا۔رسولﷺ کی بہر حال سنت ہے، آپ عدم پختگی یا  عدم استقامت  کی بنا پر جاری نہ رکھ سکے تو خاموش رہیے۔رہا اقبال کا واقعہ جو بیان کیا گیا، اور جس میں "خوچہ"کا لفظ لکھ کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،اگر کسی معتبر حوالے کیساتھ ہوتا تو اور بات تھی،رکھ کر منڈوا دینے والے حضرات اقبال کا سہارانہ لیں۔ہم یہ قطعاً  نہیں کہہ رہے کہ اسلام داڑھی میں ہے،یا اسلام کا سارا انحصار داڑھی  پر ہے، ہم یہاں اپنا موقف دہرائے دیتے ہیں کہ رکھ کر صاف کرانااور پھر اس کا ذکر ازراہِ تفنن کرنا قطعاً غیر ضروری ہے۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید  جنید و بایزید ایں جا!

اس سے بھی زیادہ عجیب قصہ یہ ہوا کہ ایک صبح مسلم لیگ ن کے ارکان کو ہوش آگیا۔ حیران ہوئے اور تاسف  میں سر پر بار بار  ہاتھ مارنے  لگے  کہ یہ کیا ستم  ہے  یہ ہم ایک خاندان  کے حلقہ بگوش  کیوں ہو گئے۔۔۔ (ان ،پڑھے لکھے ارکان کو  حلقہ بگوش کا مطلب معلوم تھا  پرانے زمانے میں جس کے کان میں بالی ہوتی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ  وہ کسی کا غلام ہے)۔وہ ارکان  محوِ حیرت  ہو کر ایک دوسرے سے  پوچھتے کہ یہ ہماری عقل کو کیا ہوگیا۔تیس سال سے ہم ایک خانوادے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں،وزیر اعلیٰ کا  فرزند ممبر  وفاقی  اسمبلی کا ہے مگر  حکومت صوبے پر کرتا ہے،صاحبزادی  پارٹی کی عہدیدار  ہے نہ حکومتی  منصب رکھتی ہے  مگر تمام اختیارات  کی باگ دوڑ  ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان ارکان نے فیصلہ کیا کہ  مہذب  اور ترقی یافتہ  ملکوں کی طرح پارٹی  میں انتخابات کرائے جائیں  اور جھلو  انتخابات نہیں بلکہ اصلی اور باقائدہ  انتخابات ہوں گے، چنانچہ میاں محمد نواز شریف کے مقابلے  میں چوہدری نثار  علی خان  اور پروفیسر  احسن اقبال  نے پارٹی  کی صدارت  کے لیے  پارٹی کے الیکشن کمشنر  کے ہاں  کاغذات نامزدگی  داخل کرا دیے،جیسا کہ  خاندان کا دستور ہے۔۔پہلے کوشش کی گئی کہ منت سماجت کرکے باز رکھا جائے  یہ حیلہ کارگر نہ ہوا ۔پھر دھونس دھاندلی کی باری آئی۔، یہاں ریاض پیرزادہ  نے دونو ں کو  تسلی دی کہ  کچھ نہیں ہوگا، اپنا تجربہ  انہوں نے  بیان کیا کہ  دہشتگردوں کے ساتھ نتھی  کرنے کی کوشش کی گئی
مگر  کامیاب نہ ہوسکی۔اب انتخابات کی گہما گہمی کا  آغاز ہوا  عجیب بات یہ ہوئی کہ میاں صاحب کو  ارکان کی اکثریت  نے سنجیدگی سے نہ لیا،چوہدری  نثار  علی خان اور پروفیسر  احسن اقبال  کے مقابلے  میں تعلیم تھی نہ ذہانت ۔قوت تقریر  نہ طاقتِ تحریر!

چوہدری نثار علی کا پلہ بھاری نظر آرہا تھا۔ایک تو طویل سیاسی کیرئیر میں  کسی مالی  سکینڈل نے ان کا پیچھا نہ کیا۔ دوسرے وہ اعتدال  پسند ٹھہرے جب کہ  پروفیسر احسن اقبال  اداروں  کو للکارتے  پھرتے تھے۔
پھر وہ  دن بھی آیا کہ چوہدری نثار  علی خان  پارٹی کے صدر چن لیے گئے،ارکان نے خانوادے کا جوا گردن سے اتار پھینکا۔ان دنوں غور اس بات پر ہو رہا ہے کہ نون کے لاحقے سے جان کیسے چھڑا ئی جائے۔

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے،پیپلز پارٹی کے ارکان نے مسلم لیگ کو رنگ بدلتے دیکھا تو  سوچنے پر مجبور ہو گئے ،چلیے،بھٹو صاحب کے بعد  بی بی نے زمام اقتدار سنبھال لی،آخر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں،مگر شہادت کے بعد ان کے میاں اور میاں کی بہن کا مالک و مختار ہونا کس منطق سے جائز ٹھہرا؟۔۔اور پھر اب صاحبزادے کو تیار کیا جارہا ہے، یہ سرگوشیاں تحریک میں تبدیل ہونے لگیں۔ایک دن پیپلز پارٹی کے ارکان نے خانوادے  کے خلاف بغاوت کردی ،ان کا موقف تھا کہ  پارٹی  کے اندر آزادانہ   انتخابات  کرائے جائیں ۔آخر رضا ربانی۔اعتزاز  احن اور قمر زمان کائرہ  جیسے رہنما ؤں میں کس شئے کی کمی  ہے!  چنانچہ  انتخابات ہوئے،اور قمر زمان کائرہ  پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے،شہر شہر تعمیر ہوتے بلاول ہاؤسوں سے جان چھوٹی۔زرداری صاحب مستقل دبئی منتقل ہوگئے۔بلاول کو کائرہ صاحب نے ہدایت کی کہ اپنے آبائی حلقے سے  مقامی قیادت کے لیے انتخاب لڑے، چنانچہ وہ ضلعی صدر منتخب ہوئے۔بلاول کو یہ نکتہ سمجھ آگیا کہ مرحلہ وار اوپر آئے  وراثت  کے طور  پر پارٹی کو جاگیر  نہ سمجھے۔  اس لیے کہ قطرہ  ایک دن میں موتی نہیں بنتا۔سنائی نے کہا تھا۔۔۔
سالہا باید کہ تایک  سنگِ اصلی زافتاب
لعل گردو  دربدخشاں یا عتیق اندر یمن!
عمر ہا باید کہ تایک  کود کی از روئی  طبع
عالمی گردو نکو  یا  شاعری  شیریں  سخن!
پتھر کو لعلِ بدخشاں یا عتیقِ یمنی بننے کے لیے سالہاسال  درکار ہین۔ایک بچے کو عالم یا شاعر بننے کے لیے پوری عمر چاہیے!

پھر ایک دن مولانا حیدری نے اپنے ایک دوست سے سرگوشی کی ،یہ سرگوشی پھیلتی گئی،مولانا کے مقابلے میں کوئی پارٹی کا صدر بننے کا سوچتا ہی نہ تھا،اب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے اندر جمہوریت کا ارتقا دیکھ کر ان حضرت کو بھی ہوش آیا،آزادانہ  انتخابات ہوئے،خاندان  سے جان چھوٹی ،حافظ حسین احمد پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے۔
یہ خواب ہے یا حقیقت،کچھ پتا نہیں 
راز کھلتا ہی نہیں ہے انتہائے ہجر کا
کوئی ایسے میں لگا لیتا ہے باتوں میں ہمیں 
اگر یہ خواب ہے تو کیا ہی مبارک خواب ہے!

خواب دیکھنے پر کوئی پابند ی نہیں،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی خواب دیکھتا پکڑا جائے،ہاں اگر پارٹیوں میں وراثت اسی طرح چلتی رہی تو کیا عجب کہ کوئی رکن کسی دن سوچتا ہوا پکڑا جائے۔

ابراہام  ایرالی جنوبی  ہندوستان  کی ریاست کیرالہ  میں پیدا ہوئے  مدراس (موجودہ چنائی) کے مدراس  کرسچیئن  کالم میں تعلیم پائی،وہیں پروفیسر ہو گئے۔ مغربی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا،ایک دن انہیں احساس ہواکہ اپنے طلبا کو جو کتابیں وہ پڑھنے کے لیے بتاتے ہیں خود ان سے مطمئن نہیں،چنانچہ   تاریخ کی کتابیں لکھنا شروع کیں، اور ہر کتاب  مشہور ہوئی۔ دو کتابیں معرکہ آرا ء لکھیں  دہلی سلطانیٹ،یعنی سلاطین ِ دہلی کے بارے میں  اور دوسری مغل تھرون۔جو بابر  سے اورنگزیب  تک کے عہد  پر مشتمل ہے۔سلاطین  ددہلی کا ذکر  ابراہام  ایرالی  قطب الدین  ایبک سے شروع کرتے ہیں جو 1208میں دہلی کا بادشاہ  بنا۔یہ خاندان غلاماں کا آغازا تھا، پھر خلجی خاندان برسرِ اقتدار آیا۔پھر تغلق آئے تغلقوں کو زوال آیا تو  سید خاندان تخت نشیں ہوا،سید کو لودھیوں  نے گرایا، ابراہیم کو پانی پت کے میدان میں  بابر کے توپ خانے نے شکست دی،غالباً ابراہیم لودھی واحد بادشاہ تھا  جو میدان ِ جنگ میں لڑتا ہوا مارا گیا۔یہاں ابراہیم ایرالی کی کتاب  دہلی سلطنت ختم ہوتی ہے۔مغل تاریخ پر انہوں نے الگ کتاب لکھی۔

 پروفیسر ابراہیم ایرالی آخری عمر میں بھارت  کے مشہور ساحلی  شہر پانڈی چری میں منتقل ہوگئے،اس کالم نگار کو حسرت ہی رہی انہیں دیکھنے اور ان سے ملنے کی۔کیا موتی پروتے تھے اور کیا سحر انگیز انگریزی لکھتے تھے،اصل فارسی منابع سے استفادہ کیا،کوئی پست فہم ہی ان پر  تعصب اور جانبداری کاالزام لگا سکتا ہے،2015میں انتقال ہوگیا!

اگر ابراہیم ایرالی زندہ ہوتے تو  ان سے یہ طالبعلم درخواست کرتا کہ ایک کتاب  "سلاطین پاکستان " پر لکھتے،اس کتاب کا نام " پاکستان کے شاہی خاندان "بھی مناسب ہوتا۔زرداری اور شریف خاندان،ان خانوادوں کے تذکرے میں  فریال تالپور ،حمزہ شہباز،مریم صفدر پر بھی الگ الگ باب باندھے جاتے،مستقبل کے طلبایہ تاریخ پڑھ کر حیران ہوتے،کہ دونوں خاندانوں کے ہیڈ کوارٹر ملک سے باہر سے تھے۔

ابراہیم ایرالی اس نکتے پر ضرور بحث کرتے کہ قائداعظم  اور خان لیاقت علی خان نے یہ ملک اپنے وارثوں کے لیے جاگیر کیوں نہ بنایا! 


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com