دارالحکومت میں شاہراہ دستور پر ایک عظیم الشان عمارت ہے، جس
کے اوپر پستہ قد گنبد مغل دور کی یاد دلاتے ہیں ،چند قدم کے فاصلے پر وزیر اعظم کی رہائش گاہ ہے،ایسی رہائشگاہ ! برطانیہ امریکہ اور کینیڈا جیسے ملکوں کے حکمران جس کا محض خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ۔
اگر آپ وزیراعظم کے دفتر سے نکل کر شاہراہ پر ،مغرب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں تو بائیں طرف دس منٹ پیدل مسافت پر ایک معروف فائیو سٹار ہوٹل ہے،گاڑی پر یہ فاصلہ دو منٹ میں طے ہوگا ۔،مگر ابھی آپ حرکت نہ کیجئے۔
شاہراہ پر مغرب کی طرف منہ کرکے بدستور کھڑے رہیے،آپ کے دائیں ہاتھ بھی دس منٹ کی پیدل مسافت پر ایک فائیو سٹار ہوٹل ہے۔گویا یہ دونوں ہوٹل وزیراعظم کے دفتر اور رہائشگاہ سے دو دو منٹ کی ڈرائیو پر اور بارہ بارہ منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہیں ۔
دارالحکومت کے ضلعی ہیلتھ افسر ، سینٹ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ یہ قائمہ کمیٹی صحت کے معاملات کو دیکھ رہی ہے۔،ہیلتھ افسر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ دارالحکومت کے تمام" معروف و مشہور ہوٹلوں ، ریستورانوں ،اور بیکریوں میں انتہائی غیر معیاری اور مضر صحت کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ ان کیفے ہوٹلز، ریسٹؤرانٹس اور بیکریوں کے کچن اس قدر گندے ہیں کہ اگر انسان ایک بار ان کے کچن میں گھس جائے تو زندگی بھر کے لیے ان کے تیار شدہ اشیا کھانے سے توبہ کرلے۔
ضلعی ہیلتھ افسر نے اجلاس کو یہ بھی بتایا کہ جہاں ان کے کچن میں گندگی اور غلاظت ہے وہیں ان میں استعمال ہونے والا گوشت چھ ماہ پرانا ہوتا ہے۔،معروف ہوٹلوں میں مردہ مرغیوں اور مضر صحت گوشت سپلائی ہوتا ہے۔یہ معروف ہوٹل اور ریستوران انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں ، ان کے خلاف متعدد بار چھاپہ مار کا رروائیاں ہوچکیں مگر یہ لوگ اس قدر بااثر ہیں کہ اگلے لمحے ہر طرف سے سفارشیں آ آتی ہیں ،"
ضلعی ہیلتھ افسر نے اعلیٰ ترین منتخب ادارے ،سینٹ کی منتخب قائمہ کمیٹی کو جو بیان دیا ان میں یہ سارے نام شامل ہیں ۔
باقی ریستورانوں اور بیکریوں کو ایک لمحہ کے لیے چھوڑ دیجیے،ان فائیو سٹار ہوٹلوں کی بات کرتے ہیں جووزیراعظم کے عظیم الشان ،طمطراق اور تزک و احتشام سے بھرپور دفتر کے دائیں بائیں بغل میں واقع ہیں ، وزیراعظم پورے ملک کے عوام کی جان و مال کا محافظ ہے، مگر حالت یہ ہے کہ وہ ان ہوٹلوں میں بھی مضر صحت کھانے اور مردہ جانوروں کے گوشت کا کچھ نہیں کرسکتا ۔یہی دو بڑے ہوٹل ہیں ،جہاں غیر ملکی بھی آکر ٹھہرتے ہیں ۔پورے دارالحکومت میں یہی حال ہے خاص کر جن معروف ریستورانوں کاہیلتھ افسر نے نام لیا ہے، ان میں دو بہت مشہور ہیں ان کی روزانہ کی سیل کروڑوں میں ہے۔ جڑواں شہروں میں ان کی متعدد شاخیں ہیں ،جو ہر وقت گاہکوں کے ہجوم سے چھلکتی رہتی ہیں ۔
جو وزیراعظم اور جس کی حکومت صرف ایک شہر، یعنی اپنے دارالحکومت میں ،باقی اداروں اور بازارو نکو تو چھوڑ ہی دیجئے ،صرف ریستورانوں کو کنٹرول نہیں کرسکتی ،اس سے آپ دیگر توقعات کیا رکھیں گے۔
معزول وزیراعظم کے بارے میں یہ عام روایت ہے کہ اپنے خاص باورچی سفر کے دوران ساتھ رکھتے ہیں ، یعنی اپنی صحت اور خوراک کے بارے میں اتنا اہتمام والتزام اور رعیت کے بارے میں اس قدرلا پرواہی ،غفلت اور بے نیازی ،لندن رہائش پذیر ہونا ہرگز باعثِ تعجب نہین ،انہیں اس ملک میں رہنے کی کیا ضرورت ہے، جہاں فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی بیمار گوشت اور غلیظ باورچی خانے قتلِ عام کررہےہوں ۔یہ رونا کئی بار رویا جا چکا ہے کہ موصوف کا ترقی کا تصور صرف ان منصوبوں میں ہے جہاں لوہا استعمال ہوتا ہے۔ رہے انسان یا افرادی قوت ، یاصحت اور تعلیم جیسے سوشل سیکٹر ،تو ان کی ترجیحات میں شامل ہیں نہ انہیں ان کاادراک و فہم ہے۔
ہیلتھ افسر نے یہ بھی بتایا کہ پولٹری کی غذا میں ایسی اشیا شامل کی جارہی ہیں جو دل گردوں جگر کی اور دیگر بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں ، شیور اور برائلر مرغی کے استعمال سے خؤاتین کے پوشیدہ امراض میں اضافہ ہورہا ہے،بچیاں وقت سے پہلے بلوغت کی حدود میں داخل ہورہی ہیں ، دوسرے ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ پولٹری فارموں میں جو خؤراک استعما ل ہوتی ہے اسے سختی سے چیک کیا جاتا ہے،ان تمام مسائل کا حل سابق وزیراعظم نے یہ نکالا کہ خود اور ان کا کنبہ لندن منتقل ہوگیا ، اب یہ بائیس پچیس کروڑ عوام کہاں جائیں ۔؟
مگر ان کا دردِ سر تھوڑی ہے۔
وہ تودساور سے حکومت کرنے آتے ہیں ،لارڈ کرزن، میکالے اور ویلزلے کی طرح ۔یہاں رہتے بھی انہی کی طرح ہیں ۔الگ محلات میں ۔، پہرے داروں کے حصار میں -کھانا پینا ،سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، انگریز وائسرائے کی طرح عوام الناس سے جدا ۔
وائسرائے عام طور پر اپنے کنبے برطانیہ ہی میں رکھتے تھے۔حکومت کرنے کے لیےآتے تھے، یہی معزول وزیراعظم نے طریقہ اپنایا۔ کنبہ لندن میں ، حکومت کے لیے آِئے، حکومت گئی تو سامان اٹھایا ،باورچی ساتھ لیا اور ہوم کنٹری واپس۔امداد آکاش کا شعر یاد آگیا۔
مجھ میں مقیم شخص مسافر تھا دائمی
سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا۔
اب معاملے کا دوسرا پہلو دیکھیے۔۔۔
عدالت اعظمیٰ نے مافیا کا لفظ استعمال کیا تو حواریوں نے اعتراض کیا ،اعتراض کیا کِیا ،بس سر آسمان پر اٹھا لیا ،
سوال یہ ہے کہ مافیا کا طریق کار کیا ہے۔ ؟مافیا اس لیے مافیا کہلاتا ہے کہ مخالف کو سمجھاتے ہیں ، نہ مانے تو طاقت استعمال کرکے راستے سے ہٹا دیتے ہیں ،روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ بتاتی ہے کہ معزول وزیراعظم اس طریقہ کار کے عین مطابق "باغیوں " کو سمجھانا چاہتے ہیں ، اور نہ سمجھیں تو راستے سے ہٹانے کا بندوبست فرما رہے ہیں ، حکم ہے کہ باغیوں کو مناؤ یا ان کے متبادل تیار کرو، اس سلسلے میں یہ مہم پارٹی اہم رہنماؤں کو سونپی جاچکی ہے، یہ مہم تین مراحل پر مشتمل ہوگی۔ پہلے مرحلے میں پارٹی رہنما جنہیں مہم سونپی گئی ہے، باغیوں سے رابطے کرکے انہیں "منانے"کی۔کوشش کریں گے۔ باغی ان کے قابو میں نہ آئے تو معزول وزیراعظم اور پارٹی کے 'نومنتخب"صدر خؤد ان سے بات کریں گے۔
یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو تیسرا مرحلہ بروئے کار لایا جائے گا ۔، پولیس اور بیوروکریسی کو ان کے پیچھے لگایا بلکہ"چھوڑا" جائے گا ۔ ان کی پوزیشن اتنی خراب اور عبرتناک کردی جائے گی کہ الیکشن لڑنے کے قابل نہ رہیں ۔ ان کے متبادل افراد کو ترقیاتی فنڈ فیاضی سے دیے جائیں گے تاکہ ان کی پوزیشن خراب سے خراب تر ہو۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جو باغی مان جائیں گے،ان کے ناموں پر بھی نشان باقی رہے گا۔
بغاوت کی ابتدا وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے کی۔ انہوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا ان کے ہمراہ چند وزرا اور دیگر ارکان بھی ساتھ تھے ،پھر ظفر اللہ جمالی صاحب نے تقریر کی اور معزول وزیر اعظم کو عقل کی چند باتیں بتائیں مگر اگر مشیر ،دختر نیک ہیں ، جو کسی قسم کی مصالحت یا مفاہمت کے سخت خلاف ہیں ، تو جمالی صاحب کی بات کون سنے گا ۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اور ایم این اے شیخ فیاض نے بھی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کو خؤب جھنجھوڑا ۔ایک ایم این اے کو برین ہیمرج ہوا۔ انہیں دارالحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال پمز میں لے جایا گیا ۔ وہاں وینٹی لیٹر ہی میسر نہ آسکا ،اس پر ایم این اے حضرات پھٹ پڑے ،اور کہا کہ عام آدمی پر کیا گزر رہی ہوگی۔
ان ایم این اے حضرات کو،جو مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، کون بتائے کہ عوام کو تو ہسپتالوں میں وینٹی لیٹڑ تو دور کی بات ہے، قینچی اور کاٹن تک نہیں ملتے۔ پہروں برآمدوں میں بیٹھ بیٹھ کر عام مریض ،پہلے سے بھی زیادہ بیمار ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر حضرات دس گیارہ بجے آتے ہیں ۔ فوراً ہی چائے کا وقفہ آجاتا ہے۔ پھر راؤنڈ اور میٹنگز شروع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ منتخب نمائندے گزشتہ چار سالوں کے دوران ہسپتالوں کی حالت زار کے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کرتے اور پھر حکومت کو بیدار کرتے تو آج ان کے طبقے کے ایک فرد کے ساتھ یہ سلوک نہ ہوتا ۔،وینٹی لیٹر نہیں ملا تو عوام یاد آگئے۔ عوام تو زبان حال سے کہہ رہے ہیں ۔
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح !
شاہی خاندان کی دیکھا دیکھی اب دوسرے سیاستدان اور حکمران بھی کوشش کرتے ہیں کہ علاج کے لیے بیرون ملک ہی جائیں ۔خؤاہ زکام یا چھینک کی شکایت ہی کیوں نہ ہو۔
پس نوشت ۔۔ان دنوں مولانا ظفر علی خان کا ایک شع تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ ساور مسلسل بن رہا ہے۔ معزول وزیراعظم نے ایک تقریر میں اسے اقبال کے نام سے منسوب کیا ۔پھر سوشل میڈیا پر خؤب بحث ہوئی، ہمارے محترم دوست نے بھی اسے اقبال ہی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مولانا ظفر اللہ خان کا ہے۔یہ ان کی ایک نظم کا آخری شعر ہے۔ نظم کا عنوان وہی قرآنی الفاظ ہیں ، جن کا ترجمہ اس شعر میں مولانا نے کیا ہے۔
آٹھ شعروں کی یہ نظم یہاں نقل کی جارہی ہے،
کچھ اس کی بھی خبر ہے تجھ کو اے مسلم کہ آپہنچی
وہ ساعت جو نہ بھولے سے بھی لے گی نام ٹلنے کا،
بھڑک اٹھی وہ آگ اسلام نے جس کی خبر دی تھی ،
کیا ہے کفر نے ساماں ترے خرمن کے چلنے کا،
جمی ہیں پپڑیاں تیرے غبار آلود ہونٹؤ ں پر ،
تماشا دیکھ لے حسرت سے زمزم کے ابلنے کا،
تجھے تہذیب مغرب سبز باغ اپنا دکھاتی ہے،
یہ ساماں ہورہا ہے۔ تیری نیت کے پھسلنے کا،
اگر قرآں کے وعدے سچ ہیں اور کچھ شک نہیں سچ ہیں ۔
تو وقت آہی گیا ہے کفر کے سورج کے ڈھلنے کا،
رسول اللہ خؤد گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں
تجھے اے خبر ہر وقت موقع ہے سنبھلنے کا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
یہ نظم ظفر اللہ خان کے شعری مجموعے "بہار ستان"میں شامل ہے۔
No comments:
Post a Comment