Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, October 01, 2017

عرب کے صحرا سے تھر کے صحرا تک۔


تھر کا صحرا ریت کے مہیب ٹیلوں سے اٹا پڑا ہے،ان دم بدم جگہ بدلتے ٹیلوں کے نیچے پونے دو ارب ٹن کوئلہ پڑاہے۔ ٹرک ہر طرف چل رہے ہیں،انہی میں سے ایک ساٹھ ٹن وزنی ٹرک کو پچیس سالہ گلابن چلا رہی ہے، بھلا ہو اس کمپنی (سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی)کا جس نے تیس عورتوں کو ٹرک ڈرائیور بننے کے لیے چنا، اور اب انہیں ٹریننگ دے رہی ہے۔ گلابن ان میں سے پہلی عورت ہے جس نے  ٹرک ڈٖرائیوری جلد اس لیے سیکھ لی کہ کار چلانا جانتی تھی۔ 12ستمبر کو سندھ کے  وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ خود بنفس نفیس  تھوڑی دیر کے لیے اس ٹرک پر بیٹھے جسے خاتون ڈرائیور چلا رہی تھی۔یقیناً وزیر اعلیٰ کی طرف سے یہ ایک حوصلہ افزا قدم تھا۔ 

  اب دوسری انتہا دیکھیے، یہ 2017ہے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جدید کار سب سے پہلے ایک جرمن، کارل  بینز نے بنائی تھی، بہر طور بڑی تعداد میں کاریں 1901کے بعد ہی بننا شروع ہوئیں، 1901 سے لے کر اب تک ایک سو سولہ سال ہوچکے ہیں، سعودیہ میں عورتوں کو اب یعنی کہ ایک سو سولہ سال بعد کار چلانے کی اجازت دی گئی ہے،وہ بھی اگلے سال یعنی 2018سے!

  اس کی سب سے بڑی وجہ علماء دین کی مخالفت تھی، سعودی علما  نے طرح طرح کے نقصانات گنوائے جو ڈرائیونگ سے خواتین کو لاحق  ہوسکتے تھے۔ یا بچے بیمار پیدا ہوں گے۔2005 میں سو سے زیادہ سعودی علما اور اماموں نے  وارننگ دی کہ عورتوں کو ڈرائیونگ  کی اجازت  دینے سے خطرات لاحق ہوں گے۔نہیں معلوم کہ اب علما کو ردِ عمل کیا ہوگا۔ ایک خبر آئی ہے کہ انہوں نے نئی پالیسی پر رضا مندی  کاا ظہار کیا ہے۔

سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو عمل 2017 سے پہلے حرام تھا اب حلال کیسے ہوگیا؟کیا ایک عالمِ دین کسی کام کی حرمت یا حلت کا اختیار رکھتا ہے؟۔۔۔ درجنوں دوسرے مسلمان ملکوں میں عورتیں گاڑی چلا رہی تھیں،کیا وہاں کے علما اپنی آنکھوں کے سامنے حرام کام ہوتا دیکھ کر خاموش تھے۔

اس سوال کا جواب  یہ ہے کہ جو حضرات  مذہب کے اجارہ دار  بنے ہوئے ہیں ،وہ اپنے وژن کی کمی  اور ناقص علم کی وجہ سے عام مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، اور مسلسل کررہے ہیں۔ پریس آیا تو قسطنطنیہ  کے شیخ الاسلام نے مخالفت کی۔ لاؤڈ سپیکر آیا تو وہ ہاہا کار مچی کہ الحفیظ الامان۔ مگر صورتحال اب بھی مضحکہ خیز  ہے،ایک دینی گروہ کے ہاں بڑے سے بڑے اجتماع میں نماز با جماعت کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے لی اجازت نہیں۔ہاں نماز باجماعت کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتا ہے۔ایک شئے اذان کے جائز ہے،نماز کے لیے،لاکھوں کے اجتماع میں،ناجائز ہے، وہی شئے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں جائزہے،پاکستان۔بنگلہ دیش،اور بھارت میں ناجائز ہے۔ اس پر کوئی مکالمہ نہیں ہوسکتا۔کوئی سوال جواب  ممکن نہیں۔

یہی حال ٹیلی ویژن کاہے،لوگوں نے علما کے حکم پر گھروں سے ٹی وی ہٹا دیے، توڑ دیے،جلا دیے،طلاقیں ہوئیں،کنبے اجڑ گئے، بچے رُل گئے، اب جس چینل کو کھولیں،ماشااللہ وہی مفتیان ِ کرام جلوہ افروز ہوں گے۔ روایت ہے کہ ٹیلی فون کا آغاز ہوا تو نجد اور حجاز کے مفتیانِ کرام کا فرمان تھا کہ  یہ تو شیطان کی آواز ہے۔سعودی بادشاہ شاہ عبدالعزیز  نے دوسری طرف سے کسی کو تلاوت کرنے کو کہا،یہ آواز فون پر مولانا صاحب کو سنائی گئی، تو معاملہ جائز ہوگیا۔یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ وہ جو فرمایا گیا تھاکہ  مومن اپنے عصر کے تقاضوں  اور احوال سے آشنا ہوتا ہے، تو،ما شا اللہ اس کااطلاق ان حضرات پر نہیں ہوتا،(نہ ہوسکتا ہے)۔جو ہماری زندگیوں کو ناجائزکی سرخ اور جائزکی سبز بتی دکھانے پر مامورہیں۔

معروف مذہبی سکالر  اور دانشور جناب محمود احمد غازی مرحوم ایک عالم دین کا واقعہ سنایا کرتے تھے،کہ ان کا صاحبزادہ ان سے سائیکل میں پٹرول ڈلوانے کے لیے پیسے لیتا رہا،وہ دیتے رہے، ایک دن کسی کی موجودگی میں مانگے تو ان صاحب نے حضرات کو اطلاع دی کہ یا شیخ! سائیکل پٹرول کے بغیر چلتی ہے۔

ہمارے روزناموں میں جمعہ ایڈیشن میں مذہبی سوالوں کے جوابات دیے جاتے ہیں، ان گنہگار آنکھوں نے سوال پڑھا کہ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانا جائز ہے؟َ۔۔۔جواب تھا کہ بدعت ہے، رسالت مآب ْﷺ کے عہد میں جزیرہ عرب میں کھانے کی میز کا رواج نہ تھا۔ اسے بدعت قرار دینے والے حضرت کو کوئی بتائے کہ یا شیخ!یہ گرگابی جو آپ نے پائے مبارک پر پہنی ہوئی ہے اس کا بھی رواج نہ تھا۔ اس واسکٹ اور شلوار قمیض کا بھی رواج نہ تھا، کیا یہ سب بدعات ہیں؟۔۔صوفہ نہ تھا،مولٹی فوم نہ تھا،پینا ڈول کی گولی نہ  تھی،جھوٹ سے،غیبت سے،وعدہ خلافی سے منع کرنے کے بجائے کھانے کی میز سے منع کیا جا رہا ہے۔ ایک اجتماع میں دیکھا کہ آئسکریم بیچنے والوں کو نکل جانے کا حکم دیا جا رہا تھا۔

کار ٖڈرائیونگ سے خواتین کے اندر واقع ہونے والی تبدیلیوں سے وہ لوگ ڈراتے ہیں جنہیں میڈیکل سائنس کی الف ب کا علم نہیں  گھوڑ سواری میں کئی خطرات ہیں،درست نہ بیٹھا جائے تو ریڑھ کی ہڈی کو دائمی نقصان پہنچ سکتاہے۔مگر عہدِ رسالت مآبﷺ سے لے کر  بعد کے زمانوں تک کسی نے خواتین کو گھوڑ سواری سے منع نہیں کیا، نہ ہی اونٹ سواری سے،مسلمان خواتین شہسواری کے لیے معروف  تھیں،موئی بدبخت چڑیل کار کا واحد قصور یہ ہے کہ اس وقت اس کا وجود نہ تھا۔ 

2015میں اشرف غنی نے افغانستان کے صوبے دائکنیڈی میں ایک تعلیم یافتہ خاتون معصومہ مرادی کو گورنر لگایا۔مذہبی طبقات نے اسقدر احتجاج کیا کہ مجبوراً اسے ہٹانا پڑا،غور کے صوبے میں ایک خاتون سیما جوئندہ کو گورنر لگایا گیا، اس پر بھی احتجاج ہوا،اسے ہٹا کر کانل کا ڈپٹی گورنر تعینات کیا گیا،مگر سیما نے احتجاجاً نئی تعیناتی قبول کرنے سے انکار کردیا۔اسلام کے "گڑھ" افغانستان میں خواتین چار دیواری  سے باہر کی عملی  زندگی میں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔

پاکستان کی صورتحال افغانستان سے بہتر ہے مگر نجی عدالتوں "پنچائتوں،جرگوں  "کی روایت عورت ذات پر مسلمل ظلم ڈھا رہی ہے، عورت کو مالِ تجارت کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، قصور مرد کا ہوتا ہے،مگر اس کی بہن کی آبرو ریزی  پنچائیت کے حکم سے کی جاتی ہے، دس سالہ بچی ساٹھ سالہ بڈھے کے ساتھ باندھ جاتی ہے۔ ونی،اسوارہ اور کاروکاری کی لعنت عام ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جس مذہب نے عورت کو سب سے زیادہ حقوق دیے اس کے علم  بردار ان پنچایتوں اور جرگوں کے غیر اسلامی ظالمانہ فیصلوں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے،پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے تحفظ کابل پیش کیا گیا تو مذہبی طبقوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ایک مصیبت یہ آن پڑی کہ ان معاشروں میں مقامی ثقافت کو مذہب کا حصہ بنا دیا گیا۔سندھ،بلوچستان،اور جنوبی پنجاب میں خواتین کے ساتھ جو بدسلوکی ہو رہی ہے  وہ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ اور مقامی ثقافت کا تال میل ہے، مگر اس کے دفاع میں مذہبی طبقات سر گرم ہیں گویا یہ مائنڈ سیٹ اور ثقافت اسلام کا حصہ ہے۔

حالانکہ ایسا ہر گز نہیں!عورت جائیداد میں سے اپنا شرعی اور قانونی حصہ اگر بھائی کو نہ دے تو اسے  ڈائن کہا جاتا ہے، بڑے بڑے عماموں اور عباؤں والے شیوخ اور ہیٹ کوٹ  والے  لبرل،بیٹیوں کو جائیداد میں سے  حصہ دیتے وقت یوں بے حال ہوجاتے ہیں جیسے نزع کا عالم ہو۔ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ یہ کام نہ ہو۔بھاری اکثریت عورتوں کی آج بھی وراثت سے محروم ہے۔

بیٹی پیدا ہو تونرس اطلاع دیتے وقت ماتمی انداز اختیار کرتی ہے، اور تھپڑ کھانے کے لیے تیار ہوتی ہے، کم ہی لوگ ہیں جو ایسی خبر کا خوشی سے استقبال کریں، پنجاب کو زیادہ ماڈرن اور تعلیم یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے مگر آئے دن خبر ملتی ہے کہ بیٹی کو جنم دینے والی عورت کو ہسپتال میں ہی طلاق دے دی گئی۔ بیٹا نہ پیدا ہوا تو ماں نے بیٹے کی دوسری شادی کرا دی۔ حکومت کو فکر ہے نہ اہلِ مذہب کو،کہ اس مائنڈ سیٹ کو کیسے تبدیل کیا جائے،کوئی فلاحی ادارہ اس طرف توجہ دے تو  اسے این جی اور کہہ کر مشکوک قرار دیدیا جاتا ہے۔

بس یہ دعا کیجئے کہ  جو غریب عورتیں تھر میں ٹرک ڈرائیور ی شروع کررہی ہیں وہ اس قسم کے کسی فتوے کا شکار نہ ہو جائیں  کہ ٹرک چلانے سے عورت کی "ساخت"خراب ہوجائیگی!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com