شام ڈھلتی،رات کا دروازہ کھلتا تو دوستوں کی آمد شروع ہو جاتی،جام کھنکنے لگتے، ایک صراحی مے کی خالی ہوتی تو دوسری آجاتی،ہلکا ہلکا سرور،تیز نشے میں تبدیل ہوجاتا،پھر راگ رنگ کا دور آغاز ہوتا۔ موسیقی کی تانیں ابھرتیں اور سارے ماحول پر چھا جاتیں۔
رات بھر محفلِ رقص و سرور گرم رہتی،تھرکتے پیر وں اور اونچے سُروں کی آوازیں گھر کی حدود پار کرکے ارد گرد چھا جاتیں،صاحبِ خانہ پر کیفیت طارہ ہوجاتی اور وہ بلند آواز سے گاتا۔۔
اضا عونی و ای فتی اضا عوا
لیوم کریھۃ و سداد ثغر
مجھے ان لوگوں نے ضائع کردیا اور کیسا جوان انہوں نے ضائع کردیا،جو لڑائی کے روز اور سرحد کی حفاظت کے وقت کام آتا۔
پڑوس میں جو صاحب رہتے تھے وہ رات بھر مطالعہ،تصنیف و تالیف،عبادت و تلاوت میں مصروف رہتے، یہی ان کا معمول تھا،اذکار و وظائف یا پھر تحقیق و تصنیف، ایک دنیا ان سے مستفید ہورہی تھی، سینکڑوں ہزاروں شاگرد،ایک اشارہ کردیتے تو راگ رنگ کیا،راگ رنگ کرنے والے ہی نظر نہ آتے،مگر پڑوس ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، برداشت کرتے اور اپنا کام کرتے رہتے۔
ایک رات گانے بجانے کی آواز نہ آئی،یہ عجیب بات تھی،ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ صبح دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کوئی معاملہ تھا، پولیس اسے کل پکڑ کر لے گئی، اور اب وہ حوالات میں بند ہے، یہ سننا تھا،کہ الٹے پاؤں واپس گھر آئے،لباس تبدیل کیا، اور حاکم کے پاس پہنچے، اس نے استقبال کیا "آپ نے زحمت فرمائی،حکم دیتے میں خود حاضر ہوجاتا"۔
کہا میرے ہمسائے کو تمھاری پولیس پکڑ کر لے آئی ہے اور قید کردیا ہے۔میں اس کی سفارش کو آیا ہوں،حاکم وقت نے کہا،حضور۔وہ اوباش،اور بدقماش۔۔!آپ تو یوں بھی اس سے پریشان رہتے ہوں گے،
فرمایا وہ تو ٹھیک ہے،مگر میرا پڑوسی ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ اس کی مدد کروں،۔۔بزرگ اسے اپنے ہمراہ واپس لائے،رستے میں کہا،رات کو تم ایک شعر کہا کرتے ہو،وہ سناؤ ذرا، اس نے شعر پڑھ کر سنایا،انہوں نے مجھے ضائع کردیا اور کیسے نوجوان کو ضائع کیا،،بزرگ بولے یار ہم نے تو تمھیں ضائع نہیں کیا،۔۔۔یہ بزرگ امام ابو حنیفہ تھے!روایت ہے کہ وہ اوباش،بدقماش پشیمان ہوا، پھر ان کے حلقہ درس میں بیٹھنے لگا اور سکالر بن گیا۔
اس تحریر کا مقصد قصہ نگاری نہیں بلکہ عرضگزاری ہے کہ رات دن ہم اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، مگر ہمارا برتاؤ پڑوسیوں سے کیا ایسا ہی ہے؟۔۔ ہماری قوتِ برداشت امام جیسی نہیں تو کیا اس کے قریب بھی نہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ بظاہر جو افراد دیندار لگتے ہیں،
خلقِ خدا ان سے شاکی ہے،اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، بے حد غور کرنے کی ضرورت،غور کرنے سے معمہ حل ہوتا ہے،گتھی سلجھتی ہے، وہ یوں کہ معاملہ صرف ظاہری عبادات اور ظاہری شکل و صورت پر منحصر نہیں۔
چومی گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات ِ لا الہ را!
مسلمان کہلانے پر کانپ اٹھتا ہوں، اس لیے کہ اس راستے کی مشکلات سے خوب واقف ہوں،
اصل مسئلہ اخلاقِ رزیلہ سے نجات حاصل کرنے کا ہے، انہیں رزائل بھی کہتے ہیں۔ یہی مشکل ہے اور یہی مسلمان ہونے کا اصل امتحان ہے۔ان میں پہلی مصیبت زبان کی آفت ہے۔ یعنی جھوٹ اور غیبت، دوسری مصیبت بخل، تیسری بغض اور چوتھی تکبر،پانچویں حرص،چھٹی حسد،ساتویں غیض و غضب،آٹھویں اسراف و تبذیر، نویں مرتبے کا شوق اور دسویں عُجب(عُجب سے مراد اپنی صلاحیتوں اور کمال کو اپنا کارنامہ سمجھنا اور اس بات سے بے خوف ہوجا نا کہ یہ صلاحیتیں سلب بھی ہوسکتی ہیں)۔
اندازہ لگائیے ہاتھ میں تسبییح پکڑ کر بازار سے گزرنا کس قدر آسان ہے اور اپنے پڑوسی کو قیدسے چھڑانے کے لیے اپنی مصروفیات ترک کرنا کتنا مشکل،ذرا سوچیے اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر گرداننا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے اور اپنے عیوب سے بے نیاز ہونا اور دوسروں کے نقائص کو نمایاں کرکے بیان کرنا ہمارا پسندیدہ شغل ہے جس میں گھنٹے نہیں پہر گزر جاتے ہیں۔
مگر فرض کیجئے! مجھ میں واقعی بہت خوبیاں ہیں، اور آپ میں بہت عیب ہیں،تو اس کے باوجود مجھے کیا معلوم کہ میرا خاتمہ ان خوبیوں پر ہوگا یا نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ خوبیوں کے باوجود میرا خاتمہ گناہ پر ہو اور خامیوں کے باوجود آ پ کا خاتمہ خیر پر ہو۔
ایک صاحب ِ بصیرت نے کیا خوبصورت مثال دی، فیض حاصل کرنا ہو تو اپنے آپ کو دوسروں سے نیچے سمجھو۔
اس لیے کہ فیض پانی کی طرح ہے اور پانی نشیب کی طرف جاتا ہے، اونچائی کی طرف نہیں جاتا، نہ ہی اس سطح کی طرف بڑھتا ہے جو برابر ہو۔ اپنے آپ کو دوسروں سے بلند تر یا برابر سمجھنے والا کسی سے کوئی فیض حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کالم نگار نے ایک بہت بڑے سکالر کو دیکھا،یہ نہیں فرماتے تھے کہ پڑھاتا ہوں، ہمیشہ یہ کہاکہ کچھ حضرات کے ساتھ مل کر سبق کی تکرار کرتا ہوں۔
مگر یہاں سامنے ایک گڑھاہے،بعض اوقات انکسار بھی تکبر کی علامت بن جاتا ہے، کچھ لوگ اپنے آپ کو کمتر بنا کر اس لیے پیش کرتے ہیں کہ لوگ تردید کریں، اور کہیں کہ نہیں!آپ بڑے ہیں اور بہت لائق، صاحبِ علم ہیں۔ یہ سن کر نا م نہاد منکسر المزاج انسان اندر سے خوش ہوتاہے۔ اس کی انا گنے کا رس پی کر موٹی ہوتی ہے۔
کیا یہ بہت مشکل ہے کہ اپنے عیوب کو سامنے رکھا جائے ؟اپنے گناہوں کو یاد کرکے یہ گمان کیا جائے کہ جو ظلم نفس ڈھاتا رہا،دوسروں نے ایسا نہ کیا ہوگا۔؟
نہ روزنوں سے کسی نے جھانکا،نہ ہم ہی مانے
وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے!
یہ کالم نگار کبھی کبھی سوچتا ہے کہ اگر قدرت ہمارے جسم شفاف یعنی See-throughبنا دیتی تو ہر شخص دوسرے کو دیکھ کر بھاگتا،کیونکہ جسم کے اندر کی انتڑیاں اور گردے پھیپھڑے نظر آرہے ہوتے۔اگر آپ لغت دیکھیں تو See-Throughکے معنی میں "بھانپ جانا"اور "اصلیت جان جانا"بھی دکھائی دیں گے، اسی لیے اس باریک لباس کو جس میں جسم دکھائی دے،سی تھرو کہتے ہیں۔مگر جس طرح ہمارے جسم خلاقِ عالم نے جلد چڑھا کر اندر کی صورتحال کو دوسروں سے چھپا دیا ہے۔ اس طرح ہمارے عیوب اور گناہوں کو بھی دوسروں سے پوشیدہ رکھنے کا بندوبست کیاہے۔ ویسے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم خود بھی ان عیوب سے بے نیاز ہوجائیں،اگر کوئی انکسار سے اپنے آپ کو "ننگِ سلف"کہے تو اس کایہ مطلب نہیں کہ دوسرے بھی اسے ننگِ سلف کہنا شروع کردیں۔ بالکل اسی طرح اگر دوسرے لائق فائق ذہین اور نیک کہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خود بھی انسان اپنے آپ کو ایسا سمجھے، رہا ماتھے پر نشان،تو کسی نے کہا خوب کہا تھا کہ وہ تو سگریٹ بجھانے سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔
ایک بظاہر نیک شخص جس کی نیکی کا چرچا بہت تھا، ایک دعوت پر بلایا گیا۔ اس کا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ ریاکاری زور پر تھی، دوسروں کے سامنے حضرت نے کھانا بہت کم کھایا اور کہا کہ تزکیہ نفس کے لیے بہت کم کھانا چاہیے،وہیں نمازکاوقت ہوا تو خوب خشوع خضوع سے نماز پڑھی، گھر آیا تو بیوی سے کہا،کھانا دو،وہاں تو برائے نام کھایا تھا، بیٹے نے لقمہ دیا،ابا جی نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجئے وہاں تو آپ نے دکھاوے کو لمبی نماز پڑھی تھی۔
مشہور افسانہ نگار غلام عباس کا شہکار افسانہ "اوور کوٹ " اسی نکتے کی تشریح کرتا ہے، نوجوان کے خوبصورت اوور کوٹ اور گلے میں لپٹے مفلر کے نیچے کالر تھا نہ قمیض۔بس سوراخوں والا سویٹر تھا اور میلی کچیلی بنیان، پتلون پیٹی کی بجائے کپڑے کی بوسیدہ دھجی سے کسی گئی تھی،
ہم میں سے ہر ایک نے لیاقت نیکی اور شرافت کا اوور کوٹ اوڑھ رکھا ہے، یہ بھول گئے ہیں کہ اس اوور کوٹ نے ایک دن اترنا ہی اترنا ہے۔ اس لیے اوور کوٹ کے نیچے جو کچھ ہے اس کی فکرکریں۔ پیدا کرنے والا یہ بھی کرسکتا تھا کہ جب بھی کوئی جھوٹ بولے تو ایک آوازا ابھرے کہ جھوٹ کہہ رہا ہے، یا بولنے والے کے ماتھے پر سرخ نشان نمودار ہوجائے،۔
ایک صاحب نے ایک روبوٹ خریدا اس کی یہ صفت تھی کہ جھوٹ بولنے والے کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا، بیٹا رات دیر سے واپس آیا،پوچھا کہاں رہے،بولا لائبریری میں پڑھائی کررہا تھا۔روبوٹ آگے بڑھا اور صاحبزادے کو ایک تھپڑ رسید کیا۔ باپ نے بیٹے کو مخاطب کرکے شیخی بگھاری کہ میں تمھاری عمر میں ساری رات پڑھتا تھا، اس پر روبوٹ نے باپ کو تھپڑ دے مارا۔ ماں کو غصہ آیا،کہنے لگی اس کے کرتوت آپ پر گئے ہیں، آخر آپ کی اولاد ہے۔اس پر روبوٹ نے ایک تھپڑ ماں کوٹکا دیا۔
اگر ہر جھوٹ پر ایک آواز ابھرتی،اگر ہماری اصلیت دوسروں پر واشگاف ہوتی تو یہ دنیا دارالامتحان نہ ہوتی، یہی تو امتحان ہے،یہی تو اصل ٹیسٹ ہے، غلطی کی معافی مانگنا اور کم تر سے بھی مانگنا، رنجش ہوتو آگے بڑھ کر تعلق کی تجدید کرنا،مزدور اور ریڑھی والے کو اپنے سے کم تر نہیں بلند سمجھنا،بھکاری اور فقیر کے اصرار اور ضد پر صبر کرنا، دوسرے کی ترقی پر حسد کو قابو کرنا،یہی تو اصل اسلام ہے،بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر،رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر،تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا!
یہی تو مشکل ہے، ہاں۔ تسبیح یوں پکڑناکہ دوسروں کو دور سے اور آسانی سے دکھائی دے،یقینا! آسان نسخہ ہے!
No comments:
Post a Comment