بات چار روپے کی نہیں،بات یہ ہے کہ کوئی زبردستی ایک روپیہ یا ایک پیسہ بھی کیوں رکھے،کسی نے لینا ہے تو مانگ کر لے،سو روپیہ دیں گے،استطاعت ہوئی تو ہزار بھی دیں گے۔دس ہزار بھی!
مگر سینے پر پاؤں اور گلے پر ہاتھ رکھ کر ایک روپیہ بھی چھینے گا تو نہیں دیں گے۔
پانی کا بِل تھا،رقم زیادہ نہ تھی،ملازم کو دیا کہ محلے کے بینک میں جاکر جمع کروا آئے،محلہ تو نہیں کہنا چاہیے،رہائشی کالونی ہے،نظم و ضبط اور قائدے قانون والی،ملازم جمع کرا آیا،کہنے لگا کہ بنک کلرک نے پیسے واپس کیے،نہ کچھ بولا،بقیہ چار روپے مانگے تو ادائے بے نیازی بلکہ کچھ کچھ رعونت سے کہنے لگا کہ ٹوٹے نہیں ہیں میاں۔۔
اس نے آکر بتایا تو کالم نگار کا شہری شعور پوری طرح بیدار ہو گیا، یوں کہیے کہ بھڑک کر بیدار ہوا،گھر والی کہتی ہے کہ بیرون ملک جتنا عرصہ رہتے ہو آرام سکون سے رہتے ہو،یہاں آئے دن کسی نہ کسی سے جھک جھک کررہے ہوتے ہو،فلاں نے وعدہ پورا نہیں کیا،فلاں وقت پر نہیں پہنچا،فلاں نے کہا تھا صوفہ پرسوں مرمت ہو جائے گا،پرسوں تو کیا،تین بعد جواب ملا کہ،جی بیمار ہو گیا تھا،بھائی بیمار ہوگئے تھے تو فون کردیتے۔وہ جی میں نے کہا کہ فون کیا کرنا،اگلے ہفتے ٹھیک ہوجاؤں گا تو خود ہی آجاؤں گا ۔
چنانچہ بنک سے جھک جھک شروع ہوئی،منیجر کو فون کیا،کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،ایکسچینج نمبر پر کال کی،ٹیپ کی آواز آئی،کسٹمر سروس آفیسر سے بات کرنے کے لیے پانچ دبائیں، پانچ دبایا- کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،منیجر آپریشن سے بات کرنے کے لیے چھ دبائیں،کوئی جواب نہیں۔آپریٹر بھی وجود نہیں رکھتا تھا۔اتفاق ہی کہیے کہ انٹر نیٹ پر زونل چیف کا نمبر مل گیا۔وہ درست بھی تھا اور زونل چیف صاحب نے اٹھا بھی لیا۔ان سے سیدھا سادہ سا سوال پوچھا۔۔زونل چیف صاحب ہماری رہائشی کالونی میں تقریباً دس ہزار گھر ہیں، ہر گھر نے پانی کا بل جمع کرانا ہے بجلی کا بھی،گیس کا بھی، فون کا بھی -اگر آپ کا بینک ہر بل پر چار روپے جگا ٹیکس لگاتا ہے تو چار بلوں پر سولہ روپے بنے،اور اسے دس ہزار سے ضرب دیجئے تو ماہانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں،یہ بتائیے ان ایک لاکھ ساٹھ ہزار میں آپ کا حصہ کتنا ہے۔؟
زونل چیف ہنس پڑا۔۔۔"سر ایسی کوئی بات نہیں "۔۔اس پر اسے مشورہ دیا کہ ایسے موقعوں پر ہنستے نہیں رونے کی اداکاری کرتے ہیں،پھر اس سے پوچھا،زونل چیف صاحب آپ کی جو فلاں برانچ ہے، کبھی فون کرکے اندازہ لگانے کی کوشش کہ وہاں فون کرنے والوں پر کیا بیتتی ہے؟ظاہر ہے اس کے پاس جواب نہ تھا۔
اگلا سوال پوچھا تو سن کر گنگ رہ گیا۔زونل چیف صاحب آپ کو بنک نے اتنی بڑی ذمہ داری دی ہے،اتنی ڈھیر سار ی برانچیں آپ کے چارج میں ہیں،کیا کبھی بھیس بدل کر عام کلائنٹ کے طور پر کسی برانچ میں بل جمع کرانے یا کسی اور کام کے لیے گئے ہیں؟۔۔۔
وہی گھسے پٹے جواب،تھوڑی دیر کے بعد بنک منیجر کا فون آیا،سر مجھے ابھی ابھی زونل چیف صاحب نے حکم دیا ہے کہ آپ سے رابطہ کروں،سر ہم آپ کی شکایت پر ایکشن لے رہے ہیں۔
ایکشن کیا لیں گے؟خاک ایکشن ہوگا،قصور بنک کے منیجر اور کلرک کا پچیس فیصد ہے اور پچھتر فیصد قصور پبلک کا ہے،کلائنٹس کا ہے،شہری شعور کی اس قدر کمی ہے کہ ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے، چلیں،چھوڑیں جی،مٹی پاؤ۔پٹرول پمپوں والے اکثر و بیشتر باقی رقم نہیں دیتے،کوئی مانگتا نہیں،نہ تنبیہ کرتا ہے،نہ تقاضا۔تمام بڑے بڑے سپر سٹوروں کا یہی عالم ہے، کاؤنٹر لگے ہیں،کاؤنٹر پر مشینیں نصب ہیں،مگر بقیہ رقم پوری نہیں ملتی،اس کے برعکس عام انفرادی دکاندار ایسا نہیں کرتا،وہ ایک ایک پیسہ واپس کرتا ہے،کم ہی اتفاق ہوا ہے کہ وہ بہانہ بنائے۔یہاں ایک اور تبدیلی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے،کیا آپ کو کبھی محسوس ہوا ہے کہ عام چھوٹا دکاندار منظر سے غائب ہو رہا ہے،؟
پہلے لوگ کہتے تھے مہینے کا سودا فلاں دکان سے لیتے ہیں،اب لوگ کہتے ہیں گروسری فلاں سوپر مارکیٹ سے،کیش اینڈ کیری سے لیتے ہیں،وہ جو محلے میں کریانے والا تھا وہ منظر سے ہٹ گیا،جہاں ہے، وہاں سے بھی ہٹتا جا رہا ہے،ایک ہی چھت کے نیچے،انڈر ون روف کا تصور چھا گیاہے۔کیش اینڈ کیری میں یا مارٹ یا سپر سٹور میں ساری اشیاء میسر ہیں،ٹوتھ پیسٹ سے لے کر کر اکری تک۔آٹے سے لے کر دودھ تک،انڈوں سے لے کر گوشت تک،نئے ٹی وی بھی پرے ہیں،کھلونے بھی وہیں ہیں،جوتے اور پتلون بھی حاضر ہیں،بھوک لگی ہے تو فوراً کھانے کے لیے پزا یا چکن پیس بھی خریدے جا سکتے ہیں،کارپوریٹ سٹائل نے سب کچھ بدل دیا ہے،بیچارہ کریانے والا اپنی جیب سے شاپنگ بیگ خرید کر گاہک کو دیتا تھا،مانگنے پر دوسرا بھی دے دیتا تھا،اب سپر سٹور والا پوچھتا ہے،شاپنگ بیگ چاہیے؟۔۔۔جواب ہاں میں ہو تو فوراً اس کی انگلیاں مشین پر ٹھک ٹھک کرتی ہیں،اور شاپنگ بیگ کی قیمت آپ کے بل میں جمع ہوجاتی یں ہ
رقی یافتہ ملکوں نے "بقیہ رقم" کے بکھیڑے کو ہی ختم کردیا ہے،کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کیجئے۔کاؤنٹر والا آپ کے پیسے رکھ سکتا ہے،نہ آپ کم دے سکتے ہیں۔ان ملکوں میں کوئی گاہک ،کاؤنٹر والے کو سو ڈالر کا نوٹ دے تو کاؤنٹر والا اس نوٹ کے علاوہ گاہک کو بھی غور سے دیکھتا ہے،
ہر کام حکومت کرسکتی ہے نہ ہر شہری کے اوپر ایک پولیس والا متعین کیا جاسکتا ہے،شہری شعور پختگی کے مراحل طے کرے تو بے شمار مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ٹریفک کا مسئلہ لیجئے۔۔شاہراہوں پر کروڑوں کی حساب سے موٹر سائیکل رواں ہیں۔سب سنپولیے لگتے ہیں،سانپ کی طرح موٹروں کے بیچ سے زِگ زیگ کرکے دائیں بائیں ہوتے،ہر ایک کو ڈاج کرتے یہ جا وہ جا۔۔۔
ہمارے ایک دوست ہاشمی صاحب نے جو مزاح لکھتے ہیں،ایک دلچسپ کتاب تصنیف کی ہے"آنکھوں دیکھا جھوٹ "فرانس کے حوالے سے کیا عبرت انگیز جملہ لکھا،کبھی سڑک پر ہارن کی آواز نہیں سنی،ہارن بجا تو کسی پاکستانی پر ہی بجا۔۔۔کار سے جب بھی ٹکرایا تو موٹر سائیکل والا ہی ٹکرایا،اگر موٹر سائیکل،بس،ویگن،پک اپ،سوزوکی چلانے والا،شہری شعور اپنے زیادہ نہیں،کلو ڈیڑھ کلو ہی رکھ لے تو ٹریفک کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔
سب سے زیادہ آفت ٹرکوں کی ہے،اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری شاہراہیں ٹرکوں کے ہاتھوں کیوں اور کیسے یرغمال بنیں۔۔؟یہ "احسان "بھی اس قوم پر "اسلامی"آمر (اگر اس ملک میں اسلامی شہد کی اصطلاح چل سکتی ہے تو اسلامی آمر کی کیوں نہیں)جنرل ضیا الحق نے کہا۔۔این ایل سی اس کے عہد نا مسعودمیں تشکیل پذیر ہوئی۔ بندر گاہ سے سامان اندرون ملک لانے لیجانے کے لیے فوج کے مقدس ادارے کو استعمال کیا گیا۔این ایل سی بنائی گئی۔ظلم کے اوپر دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ضیا الحق نے اس جرنیل کو جو این ایل سی کا بِگ باس تھا،ریلوے کا بھی وزیر بنا دیا۔چنانچہ ریلوے کی کارگو سروس کمزور کی گئی۔شاہراہیں ایل این سی کے قوی ہیکل ٹرکوں سے اٹ گئیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کی سڑکوں پر ٹرک دادا گیری کرتے پھر رہے ہیں۔قانون کی دھجیاں کیسے اڑائی جاتی ہیں،اس کا اندازہ آئل ٹینکر کے حالیہ واقعات سے لگائیے۔قانونی تقاضے پورے کیے بغیر سڑکوں پر رواں ہیں۔حکومت نے کوشش کی کہ ضابطے کے دائرے میں لائے تو ملک گیر ہڑتال کرکے بلیک میلنگ کی گئی۔اور کامیاب بلیک میلنگ کی گئی۔
شہری شعور کا ماتم کرنا ہو تو ریلوے اسٹیشن جاکر دیکھیے،ٹرین سے اترنے والے مسافر دروازے سے باہر جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے صومالیہ کے مہاجر روٹی کے ٹکڑے لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں،وہ غریب مظلوم جو ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہے سامنے والے سے ٹکٹ لیتا ہے تو دو مسافر سامنے سے اور تین بغل سے گزر جاتے ہیں،ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں،جو پوری جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہمارے شہری شعور کا تابناک نظارہ وہ ہوتا ہے جب شادی کا کھانا کھلتا ہے اللہ اکبر!قیامت کا سماں ہوتا ہے۔تھری پیس سوٹ اور شیروانیوں والے سب ننگے ہوجاتے ہیں،آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں،یہ وہ محشر ہے جس میں کوئی کسی کو نہیں پہچان رہا،زندگی کا مقصد اس نازک لمحے میں یہ ہے کہ پلیٹ بھری جائے اور اس میں گوشت ہی گوشت ہو۔
ا ن بھکاریوں کا سچ پوچھیے تو حق بھی بنتا ہے یہ کئی گھنٹوں سے اس کھانے کے لیے بیٹھے تھے،دعوتی کارڈز پر ساڑھے سات بجے کا وقت تھا،کھانا گیارہ بجے کھلا ہے،شہری شعور ہوتا تو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ انتظار کرتے،اور میزبان سے مل کر چلے جاتے،میزبان کو بھی احساس ہوتا،یوں آہستہ آہستہ یہ ذلت آمیز رواج ختم ہوسکتا تھا،مگر وقت ہمار ے ہاں بہتات میں ہے،کھانے کے لیے پوری رات بھی بیٹھ کر انتظار کرسکتے تھے،کھانا شروع ہونے کا وقت ہوگا تو جانوروں کو موقع ملے گاکہ کانوں کو ہاتھ لگا کر جنگل کی جانب بھاگنا شروع کریں۔
شہری شعور؟کون سا شہری شعور؟
No comments:
Post a Comment