Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 06, 2017

مسٹر بُکس والے یوسف صاحب چلے گئے!


سب سے پہلے،رات گئے فیس بک پر عقیل صاحب کی پوسٹ پر نظر پڑ ی، یقین نہ آیا کہ چند روز پہلے ہی تو بات ہوئی تھی،وہیل چیئر پر کاؤنٹر کے پاس بیٹھے تھے،گلے ملے تو حسبِ معمول چوما۔
ان کے نمبر پر فون کیا،کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،دو تین ان کے سیلز مینوں کے نمبروں پر جو نئی کتابوں کی اطلاع دینے کے لیے ایس ایم ایس کرتے رہتے ہیں،فون کیے۔۔جواب نہ دارد!بیگم سے خبر شیئر کی تو اس نے اتنی زور سے "ہائے"کی کہ اضطراب میں اضافہ ہوگیا۔دل بار بار کہتا تھا کہ عقیل عباس جعفری کراچی میں ہیں۔ کسی نے انہیں غلط خبر دی ہوگی،پھر کچھ دیر بعد رؤف کلاسرا صاحب کی پوسٹ دیکھی، وہ ایک باخبر صحافی ہیں،اب صحیح معنوں میں خبر کا
 impact
محسوس ہوا۔دل جیسے مٹھی میں جکڑا گیا،سینے کے اندرگھٹن سی محسوس ہونے لگی، یوسف صاحب چلے گئے؟وہ کیسے ہار گئے؟وہ تو ہار ماننے والے نہیں تھے۔وہ تو دو اجزاء کا مرکب تھے،شکر اور حوصلہ، ہر تکلیف پر شکر ادا کیا اور حوصلہ اتنا بلند رکھا کہ ان سے ملنے والوں کو تعجب ہوتا تھا،کہ یہ انسان ہے یا پہاڑ۔۔۔؟
یوسف صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی،ماہ و سال کی دھند میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا،اصل گپ شپ ان کے بڑے بھائی یونس مرحوم سے تھی،راولپنڈی صدر میں کتابوں کی سب سے بڑی دکان"ورائٹی بک سٹور" یونس صاحب کی تھی۔اب تو ان کے فرزندان نے کتابوں کے علاوہ گفٹ اور متفرقات بھی رکھنی شروع کردی ہیں۔ مگر اس زمانے میں صرف کتابیں تھیں،اور بہت زیادہ تھیں۔جب بھی جانا ہوتا،گھنٹو ں کتابیں دیکھنے میں گزر جاتے۔زیادہ عرصہء ملازمت راولپنڈی میں گزرا۔اس سارے اثناء میں رہائش اسلام آباد میں رہی۔ملازمت کے دوران جس ادارے یا دفتر میں اترا،لائبریری نہیں تھی،تو قائم کی،تھی تو اس میں اضافہ کیا،پہلی بار ان کے سیلز مین نے پوچھا،رسید کتنے کی بنانی ہے؟مسکرا کر جواب دیا کہ جتنے کی خریدی ہیں اتنے کی ہی بنانی ہے۔یہیں سے تعلق کا آغاز ہوا۔
یہ تعلق تین عشروں پر محیط نکلا،بعض اوقات بتاتے کہ فلاں کتاب اسلام آباد میں مسٹر بکس کے پاس ملے گی۔یوں مسٹر بکس اور مسٹر بکس کے مالک یوسف صاحب سے آشنائی ہوئی جو بہت جلددوستی میں بدل گئی۔
یوسف صاحب کاروبار میں کامیاب تھے،الحمدللہ بہت کامیاب!مگرشخصیت ایسی تھی کہ کاروبار سے دور کا بھی تعلق محسوس نہ ہوتا تھا۔عا م طور پر ایک کاروباری شخص جتنا بھی بے نیاز اور "نان کمرشل " لگے،کوئی نہ کوئی پیچ درمیان میں ضرور نظر آجاتا ہے۔ مگر یوسف صاحب بالکل الگ مزاج رکھتے تھے،غالباً 1997 کی بات ہے,مجھے اور بیگم کو ایک ایمرجنسی میں سنگا پور جانا پڑا،باتوں باتوں میں یوسف صاحب سے سرسری سا ذکر ہوا،دوسرے دن ان کا فون آیا کہ سنگا پور میں فلاں بھارتی کتاب فروش سے اچھی دوستی ہے،اسے رات ٹیکسٹ کردیاہے کہ رہائش کے لیے آپ کی مدد کرے۔ وہ آپ کو اچھی رہائش مناسب دام پر دلوائے گا،،ہم نے سنگا پور پہنچ کر اس کا پتہ کیا تو معلوم ہوا وہ تو بیرون ملک گیا ہوا ہے،مگر اس نے اپنے منیجر کو تفصیلی ہدایات دے رکھی تھیں،اس نے بہت وقت دیا اور مساعدت بھی کی۔ 
عرصہ ہوا کہ ان سے کہا کہ ایک پورا سیشن ان کے ساتھ درکار ہے،ہم اوپر دفتر میں بیٹھ گئے،فرمائش کی کہ "کتاب چوروں "کے بارے میں تجربات سننے ہیں،خوب دلچسپ واقعات سنائے،ملک کی ایک نامی گرامی شخصیت کے بارے میں بتایاکہ انہیں کتابوں اور رسالوں کی چوری کا خبط 
(klepto mania)
ہے۔ یہ بھی بتایاکہ ملازموں کو ہدایت کی ہے کہ ان سے چشم پوشی کی جائے۔ایک معروف خاتو ن کا چیک انہوں نے سنبھال کر رکھا ہو اتھا۔جنہوں نے پکڑے جانے پر چوری شدہ کتابوں کی قیمت بذریعہ چیک ادا کی تھی۔ ایک بھاری بھرکم بیوروکریٹ کا بتایا کہ ان کی بیگم کی ہدایت تھی کہ ان کے میاں کو پکڑا نہ جائے۔ عزت کا معاملہ ہے۔ جتنی چوری کریں گے،شام کو وہ اتنی رقم پہنچا دیا کریں گی۔ چنانچہ ایسے ہی ہوتا رہا۔کیا وفا شعار رفیقہء حیات تھی۔ایک صاحب کا بتایاکہ سیلز مینوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ کتابیں غائب کرتے ہیں مگر پکڑے نہیں جا رہے تھے،اس لیے کہ ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا تھا،ان کی بہت باریک بینی سے نگرانی کی گئی۔معلوم ہوا کہ پشت پر،کوٹ کے اندر ایک بڑی سی جیب لگوائی ہوئی تھی جس میں کتا ب رکھ لیتے تھے،ان واقعات پر مشتمل کالم لکھا، یہ پہلا حصہ تھا،قارئین کے تقاضے بہت ہوئے کہ دوسرا حصہ لکھیے۔جب بھی یوسف صاحب ملتے ہم طے کرتے کہ اس خصوصی مقصد کے لیے ایک نشست رکھتے ہیں،بگٹٹ بھاگتی ہوئی زندگی نے اس کا موقع ہی نہ دیا،
یوسف صاحب سے وہ ملاقات کبھی نہیں بھلائی جاسکتی۔جو ان کی ٹانگ کٹنے کے بعد ہوئی،پہلی ٹانگ کئی سال پہلے ذیابطیس کی نذر ہوگئی تھی۔پھر ایک دن ڈاکٹروں نے دوسری ٹانگ کے بارے میں بھی یہی"علاج"تجویز کیا۔جس دن ہسپتال سے گھر لوٹے،عیادت کے لیے گیا،اندازہ یہ تھا کہ ملاقاتی خاموش بیٹھے ہوئے ہوں گے،دلگرفتہ یوسف صاحب لیٹے ہوئے ہوں گے،اور ایک قسم کا ماتمی ماحول ہوگا۔مگر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا،یوسف صاحب بیڈ پر بیٹھے مسکرا رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے علاج کے لیے وسائل عطا فرمائے ہیں، کسی شئے کی کمی نہیں کی،یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ان ٹانگوں سے فائدے بھی تو بہت اٹھائے،مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ایک انگلی کٹ جائے تو دنیا اندھیر نظر آتی ہے،مگر یہ شخص دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگیا اور مسکرا رہا ہے۔اور خدا کا شکر ادا کرکے اس کی نعمتوں کا تذکرہ کیے جا رہا ہے۔اور ایک میرے جیسے تھر ڈلے ہیں کہ تھرما میٹر پر اگر سو کا ہندسہ نظر آجائے تو بیگم اور بچوں کو پاس بٹھا کر بتانے لگ جاتے ہیں کہ فلاں کی اتنی رقم ادا کرنی ہے اور فلاں سے اتنی رقم لینی ہے۔
ان کے آپریشن کے کچھ عرصہ بعد میرے بیٹے حسا ن کی شادی کا انعقاد تھا،"شہری"ولیمہ اسلام آباد میں لیکن اصل تقریب گاؤں میں رکھی گئی،یوسف صاحب کو دعوت نامہ پہنچایا،خیال تھاکہ ابھی چند ماہ ہی تو ہوئے ہیں آپریشن کو،نہیں آسکیں گے،تقریب کا آغاز ہو ا توایک ساتھی نے آکر بتایا کہ وہ کتابوں والے صاحب آئے ہیں۔اور گاڑی سے انہیں اتارا جارہا ہے۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ یوسف صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ایک پرانا ملازم ساتھ تھا۔انہیں شاعروں ادیبوں کے گروہ میں بٹھایا،یہی ان کی برادری تھی،انہی کے ساتھ خوش رہتے تھے۔ اس تقریب کے لیے پنڈی گھیب کا ایک باکمال باورچی بلوایا تھا۔اس نے بکرے کا گوشت اور مکھڈی حلوہ دونوں زبردست پکائے،یوسف صاحب کہنے لگے مٹن بہت جگہ کھایا ہے مگر اس کا ذائقہ اور شان الگ ہی ہے۔کئی بار تعریف کی۔کچھ روز پہلے ان کے دفتر بیٹھا تھا کہ کہنے لگے،میں نے ایک صاحب سے مکھڈی حلوہ بنوایا مگر بات نہیں بنی۔مجھے افسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے حکم نہیں دیا۔گھر آکر بیگم کو بتایا کہ یوسف بھائی کو مکھڈی حلوہ پہنچانا ہے،پھر وہی زندگی کی گاڑی اور وہی برق رفتاری۔آج کل آج کل کرتے وہ کوچ کرگئے۔
برسو ں پہلے ذیابطیس کی وجہ سے ان کی بصارت متاثر ہوچکی تھی،غالباً صرف ایک چوتھائی باقی تھا۔مگر کبھی تذکرہ نہ کرتے،کبھی انہیں شکوہ کناں نہ دیکھا۔ملتے وقت میں اپنا نام بتاتا،مگر غالباً زیادہ نزدیک سے وہ بخوبی پہچان لیتے تھے۔گلے لگاتے،بچوں کا پوچھتے،خاص طور پر ان بچوں کا جو بیرون ملک ہیں۔ان کی اپنی بیٹی لندن میں تھی۔اس لیے اس نوع کی جدائی کا غم خوب سمجھتے تھے۔ دفتر اوپر تیسری منزل پر تھا، وہا ں بیٹھتے تو مصنوعی ٹانگیں اتار کر بیٹھتے،اور نیچے کاؤنٹر پر بیٹھتے تو مصنوعی ٹانگیں لگا کر بیٹھتے،
اسلام آباد کلب کھانے پر مدعو کرتا تو ضرور آجاتے۔جب بھی ان کے پاس بیٹھا،کسی نہ کسی صاحبِ علم،کسی نہ کسی قلم کار سے ضرور ملاقات ہوئی۔نئی کتابوں کا علم ہوا، جس کتاب کی فرمائش کی،پاس نہ ہوتی تو منگوا کر دیتے۔مشترکہ دوستوں کا ذکر محبت سے کرتے۔مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ضرور ہوتا۔پوچھتے"ملاقات کب ہوئی"؟پروفیسر ثمینہ یاسمین پرتھ سے آئیں ہوتیں تو ضرور بتاتے۔
ایک دنیا ان سے متعارف تھی،مگر شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ دریا دل کتنے تھے۔تاجروں میں کم ہی اتنے فیاض ہوتے ہیں۔ایک دن گیا تو ان کا ایک ملازم بہت پرجوش انداز میں ملا،چہرہ فرطِ مسرت سے جیسے تمتما رہا تھا،وہ اپنی مسرت شیئر کرنے کے لیے بے تاب تھا،کہنے لگا،مجھے یوسف صاحب نے یہاں اسلام آبادمیں مکان خرید کر دیا ہے،تاکہ گاؤں سے بچے یہاں لاؤں اور انہیں پڑھاؤں۔اس نے رقم بھی بتائی،جو خطیر۔۔۔بہت خطیر تھی۔یہی وجہ تھی کہ ان کے ملازم ان پر جان چھڑکتے تھے۔شاید ہی کوئی چھوڑ کر گیا ہو۔
جو اصحاب کتابیں پڑھنے کا ذوق اور شوق رکھتے ہیں،ان کے لیے یوسف صاحب کی رحلت بہت بڑا صدمہ ہے۔وہ اس شہر کی تہذیب اور ثقافت کے معماروں میں سے تھے۔ وہ اس شہر کا مینار تھے۔ہم اس مینار کو دور سے دیکھتے اور کھنچے چلے آتے۔کیا ہی مقدس پیشہ ہے جس سے وہ منسلک تھے۔ اور کیا ہی فیض رساں زندگی گزاری۔ایک دنیا ہے جس کی انہوں نے کتابوں سے پیاس بجھائی۔یوسف بھائی ایک چشمہ تھے۔ہمیشہ بہنے والا،ہمیشہ آبِ شیریں مہیاکرنے والا۔ان کے ہاں جاکر عجیب طمانیت کا احساس ہوتا۔کتابیں دیکھ کر خون بڑھ جاتا۔اطمینان ہوتا کہ سریے،سیمنٹ،زیورات،ملبوسات اور گراں بہا تعیشات کے اس بے انت سمندر میں ایک جزیرہ ایسا موجود ہے جہاں ہم جیسے فقیر آکر اپنے آپ میں اور اپنی ترجیحات میں خود اعتمادی تازہ کرتے ہیں۔انہوں نے جو دنیا بسائی تھی،وہ ہماری دنیا تھی۔مجھ جیسا بے بضاعت بھی خود کو وہاں طاقتور محسوس کرتا تھا۔خدا ان کی قبر کو منور کرے۔جو جسمانی تکالیف انہوں نے اٹھائیں ان کے بدلے میں راحت عطا فرمائے۔فیض کا جو دروازہ انہوں نے کھولا تھا۔ان کے بعد بھی کھلا رہے۔ان کے لیے دعا ہے کہ۔۔
ہر طلعتِ سحرمیں شعاؤں کے پھول ہوں 
ہر شام طشتِ قبر میں جگنو جلا کریں 
شاداب شاخچوں کے دوپہر کو سائے ہوں 
راتوں کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلا کریں 
آنو بہائیں پتیاں،گم سم ہوں تتلیاں 
بالیں پہ زرق برق پرندے بکا کریں 
بندے یہاں کچھ اس کے خدائی بھی کرگئے
کچھ نقشِ پا ء ہیں جن پہ فرشتے چلا کریں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com