Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 27, 2017

سیاسی پارٹیوں کے کھرب پتی مالک


‎سیاستدانوں کے دوغلے پن پر غور کیجئے تو گرہ کھل جاتی ہے کہ عام شہری کیو ں کہتا ہے کہ "اس سے تو مارشل لاء ہی بہتر ہے"،دوغلا پن!منافقت!اس قدر واضح اور برہنہ کہ ہنسی آتی ہے، اور رونا بھی، کیا اخلاقی پستی کا اس سے بدتر مظاہرہ ممکن ہے؟۔۔۔
‎ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پارٹی گائیڈ لائن نہیں ملی، دوسری طرف کہتے ہی کہ سعد رفیق نے کہا کہ آپ کی کمانڈ سے بات ہوگئی ہے، ووٹ ہمیں دینا ہے، گویا آپ بچے ہیں کہ فوراً بات مان لی، پارٹی نے گائیڈ لائن نہیں دی تو فاروق ستار،میاں عتیق کیخلاف ایکشن کیسے لے سکتے ہیں؟۔۔میاں عتیق یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑے میں مرحوم کے ان پر احسانات تھے، ساتھ ہی وہ عدالتی فیصلے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور دلیل وہی ہے،جو مسلم لیگ نون کی ہے،ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ ووٹ ذاتی حیثیت میں دیا،پارٹی کیساتھ مخلص ہوں، پنجابی میں کہتے ہیں کہ صدقے جاواں تے کم نہ آواں، یعنی زبانی طور پرقربان ہو سکتا ہوں لیکن یہ توقع مت کیجئے گا کہ کام بھی آؤں گا۔
‎اب حضرتِ واعظ کی طرف آئیے، مولانا سراج الحق اپنی پارٹی کی مرکزی مجلس ِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں، آئینی شق باسٹھ،تریسٹھ پر پورا نہ اترنے والے کو سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بنایا جاسکتا، فرمایا یہ بل نہ صرف قانون سے متصادم ہے بلکہ انتخابی قوانین کی بھی نفی کرتا ہے،حکومت فوری طور پر ا آئینی ترمیم کو واپس لے۔ مجلس عاملہ میں سامنے بیٹھے ہوئے گھگھو گھوڑوں میں سے کوئی یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کہ حضور!پارٹی نے آپ کو سینٹ میں بھیجا تھا جہاں سے آپ مراعات لے رہے ہیں، بطور سینیٹر یہ آپ کا اخلاقی،قانونی اور شرعی فریضہ تھا کہ آپ ووٹنگ کے موقع پر وہاں حاضر رہتے، اور ترمیم کیخلاف ووٹ دیتے۔اپنا رول تو آپ نے ادا کیا نہیں، یہاں آپ ترمیم کیخلا ف تقریر کر رہے ہیں،کیوں؟۔۔۔جہاں مولانا عبدالغفور حیدری،صلاح الدین ترمذی، عطا الرحمٰن،الیاس بلور، جان کینتھ ولیم،فروغ نسیم،اور فاٹا کے طالع آزما غائب ہوئے، وہاں حضرت سراج الحق بھی غائب ہو گئے۔ یعنی وقت آنے پر صالحین اور غیر صالحین میں کوئی فرق نہیں رہتا۔غالب نے کہا تھا کہ۔۔۔
‎ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ
‎دیتے ہیں دھوکہ،یہ بازی گر کُھلا! 
‎ناصر کاظمی نے کہا تھا۔۔۔
‎ سادگی سے تم نہ سمجھے،ترکِ دنیا کا سبب
‎ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!
‎ہمارے دوست جناب امجد شعیب نے کہا خوب کہا ہے کہ یہ ملک چلانے کے لیے لندن میں صرف ایک نجی دفتر کی ضرورت ہے۔اس سے پہلے سندھ کا صوبائی دارالحکومت کراچی سے دبئی منتقل کرنے کا اور وہاں سے صوبے کا نظم و نسق چلانے کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے، سندھ اسمبلی میں جان ہوتی تو پوچھتی کہ آنے جانے اور وہاں رہنے پر حکومتی کارندوں کا اور پارٹی کے "وفاداروں "کا صوبائی خزانے سے کتنا خرچہ ہوا ہے۔؟مگر ہماری پارلیمانی سیاست میں سب کچھ ہوتا ہے،جوڑ توڑ،لیڈر پرستی، سیاسی کاروبار بھی، نہیں ہوتا تو احتساب نہیں ہوتا بس!کوئی رکن بھی ایسا سوال نہیں پوچھتا جس سے کسی دوسرے رکن یا کسی حکومتی منصب دار کو مالی "گزند" پہنچے۔
‎یہاں پارٹی پالیٹکس کا مرکزی نکتہ قوم یا ملک کی فلاح و بہبود نہیں،مرکزی نکتہ جس کے گرد پارٹی گھومتی ہے اور جس کے گرد پارٹی کے ارکان گھومتے ہیں،پارٹی کے مالک کے ساتھ وفاداری ہے۔  
‎عدالت نے اسے سنائی ہے توعدا لت غلط ہوسکتی ہے۔ "مالک "غلط نہیں ہوسکتا۔قانون توڑا ہے تو قانون بدل دیجئے اور ،یہ ہوا۔
‎عدالت نے "مالک " کو نااہل قرار دیا تو قانون میں ترمیم ہو گئی۔مگر نااہلی کی بنا پر پارٹی قیادت کسی اور کو نہیں سونپی جاسکتی، شاہ ایران کی ذرا سی غلطی کو ناجائز ٹھہرانے کے لیے پورے ملک میں وقت بدل دیا گیا تھا۔ یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ارکان دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا یہ جمہوریت ہے یا خاندانی بادشاہت؟رضا ربانی،کائرہ صاحب،شہلہ رضا،خواجہ آصف،اعتزازاحسن،احسن اقبال،مشاہد اللہ خان،پرویز رشید،ان سب سیاستدانوں کے بال سفید ہوگئے،بھنویں برف کی بن گئیں،عمریں ڈھل گئیں،جیلوں میں گئے،ماریں کھائیں مگر حالت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پارٹی کی صدارت کے لائق نہیں۔ پارٹی کے مالک کی بیٹی یا بیٹا اجلاس میں پہنچے تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں،کیا یہ جمہوریت ہے؟۔۔
‎ برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اس عرصہ میں 1990سے لے کر اب تک نو سربراہ دیکھے۔ کنزرویٹو پارٹی کو اس عرصہ میں سات سربراہون نے چلایا،امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے 1990سے اب تک تیرہ چیئرمین گزرے۔ سنگا پور میں ایک چوکیدار کی بیٹی ملک کی صدر بن چکی ہے۔حلیمہ یعقوب آٹھ سال کی تھی جب اس کا ہندوستانی نژاد باپ اس دنیا سے رخصت ہوا۔بھارت میں چائے بیچنے والا وزیر اعظم بن گیا،اس کے کارخانے ہیں نہ بیرون ملک جائیدادیں،نہ آگے پیچھے بی ایم ڈبلیو۔انجم رومانی نے کہاتھا۔۔
‎انجم غریبِ شہر تھے،اب تک اسیر ہیں 
‎سارے ضمانتوں پر رہا کردیے گئے!
‎ صرف ہم ہیں جو پانچ سو سال پہلے کے دورِ اقتدار میں سانس لے رہے ہیں۔ تغلق خاندان،خلجی خاندان،لودھی خاندان،مغل خاندان،بھٹو خاندان،زرداری خاندان،شریف خاندان،بڑے بڑے دانشور کمال سنجیدگی اور مہارت سے جب ثابت کرتے ہیں کہ مریم صفدر کو ہی جانشیں ہونا چاہیے تو اس ملک کی قسمت پر رونا آتا ہے۔ زرداری صاحب کئی بار اپنی صاحبزادی اور صاحبزادے کا ذکر پارٹی قیادت کے حوالے سے یوں کرچکے ہیں پارٹی میں باقی سب اس خاندان کے زر خرید غلام ہیں۔
‎عمران خان نے جو دیا جلایا تھا اس میں سے خود ہی تیل نکال رہا ہے، دیا بھڑکتا ہے،لو کبھی تیز ہوتی ہے کبھی مدھم۔۔ پارلیمانی سیاست میں موصوف کی سنجیدگی اور کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سینٹ میں ترمیم پیش ہوئی تو تحریک انصاف کے ارکان غائب تھے،سب ہوتے تو ایک ووٹ سے مقتدر پارٹی کبھی نہ جیت پاتی۔ 
‎اب خلقِ خدا جو الزام لگا رہی ہے، اور جن وجوہ کے اندازے لگا رہی ہے، وہ اتنے غلط بھی نہیں، پیپلز پارٹی نے اپنے سینئر رکن اعتزاز احن کی پیش کردہ ترمیم اپنے ہاتھو ں سے قتل کی صرف اس لیے کہ پارٹی پر کسی وقت زرداری صاحب کی"ملکیت"متاثر ہی نہ ہو جائے۔یہ عجیب جمہوریت ہے جس کی بنیاد پارٹی پر مستقل قبضہ ہے، بہت سے دوست دلیل دیتے ہیں کہ فلاں ووٹ لے کر آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی پر کب سے قابض ہے۔ پارٹی کی صدارت کسی اور کو کیوں نہیں سونپی جاسکتی، سنگا پور کالی کوآن اور جنوبی افریقہ کا منڈیلا ناگزیر نہ ہوئے، جیتے جی پارتی دوسروں کو سونپ دی۔ اس کالم نگار کو یقین ہے کہ قائداعظم کو خدائے بزرگ و برتر لمبی زندگی دیتا تو ایک مرحلے پر آکر پارٹی اور اقتدار دونوں سے الگ ہوجاتے، ان کی قانون پسندی سے اور قوائد و ضوابط پر سختی سے کاربند رہنے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ 
‎اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہوئے، رپورٹ ہے کہ گم صم رہے، مقدمہ کی کارروائی اختتام کو پہنچی تو وہیں بیٹھے رہے، جج صاحب کو کہنا پڑا کہ جائیے،یہاں اور مقدمے بھی سنے جانے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ان کی ویڈیو چلی تو گھبرائے ہوئے،نظر آئے۔ سائیکل کی دکان سے دبئی کے ٹاور تک پہنچے،کیا فائدہ ہوا؟۔۔۔ دولت ہے یا مرض؟۔۔جو مسلسل دباؤ،اضطراب اور پریشانی میں رکھ رہا ہے۔ کیایہ عقل مندی ہے؟۔۔اگر آپ نے ہزار برس جینا ہے تو ہزار برس کا انتظام کرنا عقلمندی ہے مگر وارثوں کے لیے اس قدر ذلت،بے حرمتی،اتنی بدنامی؟۔۔۔
‎ایک صاحب علی رضا دس سال تک نیشنل بینک کے مالک و مختار رہے، اٹھارہ ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔انکے وکیل کی دلیل میرا موکل دس سال نیشنل بینک کا صدر رہا۔ بینک کے آڈیٹر نے کبھی صدر کو بتایا ہی نہیں کہ کرپشن ہو رہی ہے۔ "تو آڈیٹر نے ہی بتانا تھا تو پھر صدر بھی وہی بن جاتا "۔۔۔ وکیل کی دلیل سن کر جج نے کہا،یہ ہے نیشنل بینک کا ایوارڈ یافتہ صدر؟ ادارے میں کرپشن ہو رہی تھی اور صدر کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ان صاحب کی ضمانت منسوخ ہوئی تو پانچ گھنٹے تک عدالت ہی میں چھپے رہے۔ نیب کے حکام باہر کڑکی لگا کر بیٹھے رہے، باہر نکلے تو دبوچ لیے گئے۔
‎ہماری آنکھوں کے سامنے مال و دولت پلازے، فیکٹریاں،جائیدادیں،ڈالروں کے انبار چھوڑ کر، آئے دن لوگ خالی ہاتھ رخصت ہو رہے ہیں، مگر سمیٹنے والے اور جمع کرنے والے اور مزید سمیٹنے والے اور مزید جمع کرنے والے، سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی روش پر قائم ہیں۔ انکی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جب یہ فیصلہ کریں کہ بس!اتنی دولت بہت ہے۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
‎ عبرت کا مقام ہے کہ اتنی دولت کے باوجود نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا قوم کے لیے کچھ کرنے کا ریکارڈصفر ہے، ان حضرات نے کتنی یونیورسٹیاں بنائیں؟کتنے مستحق طلبہ کو خرچ دے کر باہر اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا؟کتنے خیراتی ہسپتا ل بنائے؟ یہ تو اپنے بچوں کی شادیوں پر ایک جہاز تک چارٹر نہیں کراسکتے اس کے لیے بھی قومی ائیر لائن استعمال ہوتی ہے۔ کیا کریں گے دولت کا پہاڑ؟کس لیے پوری دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں؟۔۔۔۔جتنے پاپڑ اس دولت کو اپنے پاس رکھنے کے لیے بیل رہے ہیں،اس سے آدھے بھی ملک کے لیے بیلے ہوتے تو یہ ملک سنگا پور بن چکا ہوتا۔ نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا۔۔
‎جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تیری رہ جاوے گی،
‎اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی،
‎یہ کھیپ جوتو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی،
‎دھی،پوت،جنوائی،بیٹا کیا،بنجارن پاس نہ آوے گی،
‎سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com