Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, September 10, 2017

یہ عذر تراشنے والے پرندے!

‎حضرت خواجہ فرید الدین عطار کے والد گرامی حضرت قطب الدین حیدر کے مرید تھے،جو مشہور مجذوب بزرگ تھے،خود خواجہ صاحب کو فقیر ی کا خرقہ حضرت مجددالدین بغدادی سے حاصل ہوا۔
‎آپ نے طویل عرصہ سیاحت میں گزارا،حجاز،شام،مصر،خراسان،"(آج کا افغانستان اور کچھ حصہ ایران کا")وسط ایشیاء،چین اور ہندوستان کی سیر کی۔آخر میں نیشا پور مقیم ہوگئے،اس زمانے کا نیشا پور ایسا ہی تھا جیسا آج کا لندن اور پیرس یا نیویارک،زمانے بھرکے علوم و فنون کا مرکز،
‎انتالیس سال تک خواجہ صاحب صوفیا اور بزرگوں کے اقوال جمع کرتے رہے،مگر کسی حکمران کا قصیدہ لکھنا گوارا نہ کیا۔کم درجے کے گھسیارے اور پھسڈی شاعر درباروں میں قصیدے پیش کرکے جاگیریں اور انعامات وصول کر رہے تھے،مگر آپ اَکلِ حلال کے راہ راست سے ایک انچ نہ ہٹے،کیمسٹ تھے،عطریات اور خوشبوئیں بھی فروخت کرتے تھے، اس زمانے میں عطریات سے منسلک شخص کو عطار کہتے تھے۔ہر عطار دوا فروش بھی ہوتا تھا، میر کا مشہور زمانہ شعر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
‎میر کیا سادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
‎اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!
‎روایت ہے کہ ایک دن خواجہ صاحب دکان پر تشریف فرما تھے ایک فقیر آنکلا،ان کی دکان کی آرائش اور اشیاء کو غور سے دیکھنے لگا،خواجہ صاحب کو اچھا نہ لگا،ذرا سخت لہجے میں اسے اپنا راستہ لینے کا کہا،فقیر نے کہا میرا جانا کیا مشکل ہے،تم اپنی فکر کرو،میں تو چلا،یہ لو!
‎یہ کہا اور وہیں دکان کے سامنے چادر اوڑھ کر جان،جان آفریں کے سپرد کردی۔خواجہ صاحب کی حالت غیر ہوگئی۔اس کے بعد فقیری اختیار کرلی۔
‎ان کی وفات کا واقعہ بہت دردناک ہے،تاتاریوں کی یلغار عروج پر تھی،غارت گری نے عالم ِ اسلام پر ہلاکت کی مہیب چادر تان رکھی تھی۔مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ ہورہا تھا،جو آج یمن سے لے کر شام تک اور بغداد سے لے کر جلال آباد تک ہو رہا ہے۔نفسیاتی طور پر مسلمان اس قدر شکست خوردہ تھے کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا پھر رہا تھا،ایک تاتاری نے اسے ایک ہزار اشرفیوں کی (یادینار یا جو کچھ بھی اس زمانے میں رائج تھا)پیش کش کی کہ اس کے حوالے کردیا جائے،
‎خواجہ صاحب نے تاتاری کو منع کیا کہ یہ دام کم ہیں،میری تو قیمت اس سے زیادہ ہے،تاتاری مان گیا۔اب ایک اور تاتاری نے گھاس کے گٹھر کے عوض خواجہ صاحب کو خریدنا چاہا۔خواجہ صاحب نے کہا فوراً لے لو،میرے دام توا س سے بھی کم ہیں۔
‎خواجہ صاحب اس وقت بھی تصوف کے اسرار و موز میں الجھے ہوئے تھے،یہ وہ عالم ہوتا ہے جب جان کی پرواہ نہیں ہوتی،مطلب ان کا یہ تھا کہ انسان ہی سب سے قیمتی ہے اور انسان ہی سب سے زیادہ ارزاں ہے۔کبھی یہ احسن ِ تقویم ہے اور کبھی اسفل السافلین۔۔
‎تاتاری کو کیا علم کہ یہ کون ہیں،اور ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں،اسے غصہ آگیا،سمجھا قیدی مذاق کر رہا ہے،اور اسے بیوقوف بنا رہا ہے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ انہیں شہید کرڈالا۔۔یہ الگ بات کہ بعد میں حقیقت ِ کا پتا چلا تو تائب ہوا،اور ان کے مزار کا مجاور بن گیا۔
‎خواجہ فریدی الدین عطار کی تصانیف بہت ہیں،تذکرۃ الاولیا نمایاں تصیف ہے،مشہور مستشرق ای جی براؤن نے گزشتہ صدی کے اوائل میں اسے چھپوایا مگر خواجہ صاحب کا تصوف میں اور ادب میں بالخصوص شاعری میں اصل کارنامہ "منطق الطیر "ہے۔قرآن پاک سے اس خوبصورت نام کو اخذ کرنا خواجہ صاحب کی ذہانت پر دال ہے۔سورہ نمل کی سولہویں آیت ہے
‎"اور وارث ہوئے سلیمان داؤد کے اور کہا اے لوگو!ہمیں منطق الطیر(پرندوں کی بولیاں)سکھائی گئی ہیں "۔
‎المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے آج تصوف سے مزین رنگا رنگ دکانیں کھول رکھی ہیں ان میں سے اکثر نے منطق الطیر کا نام سنا ہے نہ عطار کا۔
‎یہاں ہماری مراد ان صاحبان طریقت سے نہیں جو واقعی فقیر ہیں،سراپا فقر ہیں،تصوف کے اسرار سے آگاہ ہیں،مگر یاد رہے کہ ایسے حضرات اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے،چہ جائیکہ آج کل کے دکانداروں کی طرح اپنی تشہیر کراتے پھریں۔
‎منطق الطیر ساڑھے چار ہزارسے زائد اشعار پر مشتمل مثنوی ہے،یہ پینتالیس مقالات پر محیط ہے،آسمانی سفر ناموں میں منطق الطیر کا اپنا ہی مقام ہے،اس عظیم الشان علامتی کہانی میں پرندے اس خیالی طائر کو تلا ش کرتے ہیں جسے سیمرغ"(سی مرغ" ) کہا جاتا ہے،پرندے ہُد ہُد کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں،مگر جوں ہی ہُد ہُد انہیں کا م کرنے کی ہدایت دیتا ہے اور رزق تلاش کرنے کا حکم دیتا ہے تو پرندے قسم قسم کے عذر تراشنے لگتے ہیں،بلبل کا بہانہ ہے کہ وہ پھول سے جدا نہیں ہو سکتی،طوطے کو ڈر ہے کہ اسے پکڑ کر پنجرے میں قید کردیا جائے گا،مورخ اپنی مذمت کرنے لگتا ہے کہ اسے خلد سے نکلوانے میں اس کا نام بھی لیا جاتا ہے،بطخ پانی کو نہیں چھوڑ سکتی،چکور کے لیے پہاڑوں کی جدائی برداشت کرنا کارِ دارد ہے،بگلا جھیل کے پانی سے الگ نہیں ہونا چاہتاالو ویرانے سے نہیں نکل سکتا،باز بادشاہوں کے ہاتھ پر بیٹھتا ہے۔ وہ اس بلند مرتبہ عہدے کو خیر باد نہیں کہہ سکتا۔ہُما کہتا ہے کہ وہ تو لوگوں کے سروں پر بیٹھ کر انہیں بادشاہ بناتا ہے،ممولا کہتا ہے کہ وہ تو کمزور ہے اور بے بضاعت۔
‎ہُد ہُد ان سب پرندوں کو بہانوں کا ایک ایک کرکے جواب دیتا ہے،اس سفر میں پرندے سات وادیاں عبور کرتے ہیں،یہ سات وادیاں ہیں،جستجو،عشق،معرفت،بے نیازی،توحید اور فنا۔
‎ہُد ہُد کی رہنمائی میں پرندے یہ سات وادیاں عبور کرتے ہیں،اور آخر کار سیمرغ تک پہنچتے ہیں۔مگر اسے دیکھتے ہیں تو اپنے جیسا لگتا ہے،جیسے ان میں اور سیمرغ میں کوئی فرق نہیں،گویا وہ اپنی ہی تلاش میں نکلے تھے،
‎ارد گرد دیکھیے!یہ بہانہ باز پرندے آپ کو پیش منظر پر چھائے نظر آئیں گے۔ان میں سے کوئی اپنے کارخانوں کی قربانی نہیں دے سکتا،کوئی ڈرامے کرتا ہے،حبیب جالب کے شعر لہک لہک کر گاتا ہے،خونی انقلاب کی باتیں کرتا ہے مگر اپنا پروٹوکول نہیں چھوڑ سکتا،اپنے متعدد محلات کو سرکاری رہائش گاہیں قرار دیتا ہے،ظلم کی انتہا دیکھیے کہ ایک صوبائی حاکم نے صوبے کے بجٹ سے لندن کے پاکستانی سفارت خانے کو "صوفی میوزیکل عشق" کے لیے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی خطیر رقم جاری کی ہے،گویا سفارتخانہ وفاق کا نہیں پنجاب کا ہے،ایسی حرکت ایم کیو ایم،پی ٹی آئی یا پی پی سے سرزد ہوتی تو حکومتی پار ٹی کے ڈھول بجانے والے آسمان سر پر اٹھا لیتے،اور طعن و تشنیع سے جسم چھلنی کردیتے،مگر خود انہیں ہر غلط،ہر غیر قانونی کام کرنے کے لیے کھلی چھٹی ہے، کیوں کہ سیاں جی کوتوال ہیں،پکڑے کون؟
‎کوئی اپنے کھیتوں پر ٹیکس نہیں دینا چاہتا کسی کو پشتینی گدی عزیز ہے،کوئی رشوت سے کنارہ کش نہیں ہوسکتا ،کسی کو اپنے پارٹمنٹ،اپنی کمپنیاں،اور بینک اکاؤنٹ اتنے پیارے ہیں کہ ان کے لیے حکومت کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔
‎یہاں تک کہ اپنے خاندان کی خواتین کوکچہری تک لانے کو بھی تیار ہے مگر افسوس!ہُد ہُد کوئی نہیں! کوئی ایسا رہنما نہیں نظر آرہا جو ان سب جان چھرانے والے سیاستدانوں اور لیڈروں کو قائل کرکے سیدھی راہ پر ڈالے۔
‎سنا ہے کہ بابائے سفر نامہ اور معروف مصنف ناول نگار حضرت مستنصر حسین تارڑ ایک کتاب تصنیف کررہے ہیں جس کا نام وہ منطق الطیر جدید رکھیں گے،نہیں معلوم اس میں پرندوں کی بولیا ں ہیں یا انسانوں کی،اور اس کی کہانی کا پلاٹ کیا ہے،مگر اس سے ایک فائدہ ضرور ہوگا،کہ پڑھنے کاشوق رکھنے والے منطق الطیر قدیم سے بھی واقف ہوجائیں۔مستنصر حسین صاحب سے دست بستہ گزارش ہے کہ بابیو!ہم آپ کی کتاب کا انتظار کر رہے ہیں،بقول اقبال
‎بیاد بادہ کہ گردوں بکامِ ماگردید
‎مثالِ غنچہ نواہاز شا خسار دمید!
‎شراب لائیے،کہ آسمان ہماری مرضی کے مطابق گردش کررہا ہے
‎اب تو نغمے ٹہنیوں سے کلیوں کی صورت پھوٹ رہے ہیں!
‎قاآنی سے بھی سفارش کرادیتے ہیں 
‎درقم شراب نسیست،عزیزاں!خدائی را!
‎برتر نہید گامیِ وازری بیاورید
‎عزیزو! اگرقُم میں شراب میسر نہیں تو خدا کا واسطہ ہے،قدم تیز تیز رکھو اور مجھے رے سے سے شراب لادو! 


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com