یا اہلِ مکہ کی اشتعال انگیز شرائط سن کر اگر وہ فرما دیتے کہ ہم واپس جا رہے ہیں اور چند دنوں میں پوری قوت سے حملہ آور ہوں گے تو بہت سے سر کٹتے اور شہر فتح ہو جاتا۔
یا صلح کی شرائط سے ازحد بددل ہونے والے ساتھیوں کا دل رکھنے کے لیے موقف بدل لیتے!
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہادیٔ اسلام نے صلح حدیبیہ کے معاہدے پر دستخط فرما کر اپنے پیروکاروں کو بالخصوص اور پوری دنیا کو بالعموم یہ سبق دیا کہ ہوش مندی‘ صبر اور سفارت کاری جنگ سے بہت بہتر ہے۔ پھر جب معاہدہ ضبطِ تحریر میں لاتے وقت فریقِ مخالف نے ’’رسول‘‘ کے لفظ پر اعتراض کیا، تب بھی اشتعال پیدا کیا جا سکتا تھا۔ صرف اس ایک بات پر مسلمانوں کو مرنے یا مارنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اُس ہستیؐ نے نظامیؔ گنجوی جس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خرد آپ کی خاک تھی‘ اپنے ہاتھ سے رسول کا لفظ مٹایا۔
اضطراب! مایوسی! مسلمان اس معاہدے پر اضطراب اور یاس میں مبتلا تھے۔ وہ مغموم تھے، آزردہ تھے، یہاں تک کہ فاروق اعظمؓ نے پوچھا کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ پھر ہم کیوں یہ شرائط مان رہے ہیں؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی ذہنِ مبارک میں یہ امکان ابھرا کہ پیروکار ناراض نہ ہو جائیں؟ نہیں! قیادت اور پھر پیغمبرانہ قیادت یہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا بھی ایک طرف ہو جائے تو ہو جائے‘ کسی کی خوشی کے لیے موقف نہیں بدلا جا سکتا۔ صلح حدیبیہ ہی سے یہ اصول بھی ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ لیڈرشپ پیروکاروں کو اپنے پیچھے چلاتی ہے‘ خود پیروکاروں کے پیچھے نہیں چلتی۔ دیانت اور ایسی دیانت! جو مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ پناہ لینے پہنچے‘ معاہدے کی رُو سے واپس کر دیے گئے! اس سے یہ اصول بھی ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ بسااوقات جو باتیں شکست آسا لگتی ہیں‘ وہ کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد برتری کا سبب بنتی ہیں۔ کیا بدر‘ احد اور خندق کا انتقام لینے کے لیے ایک بار بھی مکہ پر چڑھائی کی گئی؟ نہیں! کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ ساری لڑائیاں دفاعی تھیں۔
پھر جب ایک صحابی ایک شخص کو قتل کرتے ہیں اور جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ تو جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا تو آپؐ نعرہ لگاتے ہیں نہ شاباش دیتے ہیں، فرمایا تو صرف یہ کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ کیوں کلمہ پڑھ رہا تھا۔غالباً پوری تاریخ میں اس فقرے کی اورکوئی مثال نہیں! معرکوں میں‘ مخالفتوں کے طوفانوں میں‘ ایک جان کی اہمیت ہی کیا ہوتی ہے‘ لیکن نہیں! ایک ایک جان کی حفاظت کا اہتمام تھا۔کچھ عرصہ پہلے ایک تکبر مآب انٹرویو لینے والے کو بار بار کہہ رہے تھے‘ ’’کلمہ پڑھیے‘ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ تو ان سطور کا لکھنے والا سوچ رہا تھا کیا جوش اور جذبہ ہے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے کا! اب تو دل چیر کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں‘ تکبر ایسی مافوق الفطرت طاقت فراہم کرتا ہے کہ ان حضرات کو ایک ایک دل کے اندرکی کیفیت معلوم ہوجاتی ہے!
تین عشروں سے ایران اذیت پراذیت سہہ رہا تھا،گھائو پرگھائو کھا رہا تھا، عوام پِس رہے تھے، شرحِ مبادلہ آسمان کو چھونے لگی تھی۔ اس کہانی کی ابتدا 1979ء میں ہوئی جب 52 امریکیوں کو 444 دنوں کے لیے یرغمال بنا لیا گیا۔ سفارتی تعلقات ٹوٹ گئے۔ کارٹر نے ایران کے بارہ ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے۔ 1983ء میں ریگن حکومت نے ایران کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی روک لی۔ امریکہ نے ’’دُہرے استعمال‘‘ کی اشیا کی فروخت بھی منع کردی۔’’دُہرے استعمال‘‘ کی اشیا وہ تھیں جو جنگی اورغیر جنگی مقاصد دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی تھیں۔ 1995ء میں امریکہ نے ہر اُس چیز سے تعلق توڑ لیا جس کا ایرانی تیل سے دور کا بھی واسطہ تھا۔ 1997ء میں بہت خفیف سی تجارت امریکہ اور ایران کے درمیان باقی رہ گئی اورامریکہ نے دوسرے ملکوں کو بھی تجارت ختم کرنے کے لیے کہنا شروع کردیا۔ پھر بُش آیا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ شکنجہ مزید کس دیا گیا۔ اوباما نے کانگرس کے ساتھ مل کر مزید پابندیاں عائد کردیں۔ غیر امریکی کمپنیوں کو گیسولین بیچنے سے منع کردیا جو ایران کی تیل کی صنعت کے لیے ازحد ضروری تھی! پھر ہر اُس کمپنی کے لیے امریکی بینک شجرِ ممنوعہ ہو گئے جو ایران کے ساتھ ذرا سا کاروبار بھی کر رہی تھی۔ اُن مالی اداروں سے بھی تعلق توڑ لیا گیا جو ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ لین دین کر رہے تھے۔
ان پابندیوں کا اثر ایرانی عوام پر کیا پڑا؟ ہم پاکستانی شاید اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایرانیوں کو پچاس پچاس سال پرانے
ٹھیکرا نما روسی جہازوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ جہازوں کے پرزے ناپید ہیں،ان کواکثر و بیشتر کریش لینڈنگ کرنا پڑتی ہے،ایک ہزارسات سوافرادکریش لینڈنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ افراطِ زر پچاس فی صد تک پہنچنے والا ہے، نئی کار خریدنا ناممکن ہے، ہسپتالوں میں جان بچانے والے آلات درآمد نہیں کیے جا سکتے، مریض مسلسل موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ جس دوا کی قیمت ایک ریال تھی‘ اب تین سوآٹھ ریال ہے۔تھیلاسیمیا کے بیس ہزار مریض تیزی سے مر رہے ہیں۔ سات سال پہلے دانت کی ’’روٹ کینال‘‘ پندرہ تومان میں ہوجاتی تھی،اب تین لاکھ تومان لگتے ہیں۔ زیادہ مشہور ڈاکٹر دس لاکھ بھی مانگتے ہیں۔ جن گھروں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے وہاں ہر روز قیامت سروں سے گزرتی ہے۔ ایلومینیم کی درآمد بند ہو جانے کے بعد ویل چیئر اور واکر نہیں بن رہے۔ ایک مریض کا معلوم ہوا کہ کینسر کے علاج کے لیے اسے ماہانہ ایک کروڑ دس لاکھ تومان کی ادویات درکار ہیں جب کہ گھر کے تمام افراد مل کر چھیانوے لاکھ تومان کما رہے ہیں۔غذائی اجناس فروخت کرنے والی دکانیں تو ٹوٹی پھوٹی چل ہی رہی ہیں لیکن اخبارات ورسائل‘ کھیلوں کے سامان‘ میک اپ اورملبوسات کی دکانیں ایک ایک کر کے بند ہو رہی ہیں۔
یہ ایرانی عوام کی حالتِ زار کی محض ایک جھلک ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ بنیادی حقوق اورجمہوریت کے لیے جدوجہدکرنے والی تنظیمیں اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی مہم چلا رہی تھیں!
قومیں نعروں سے ترقی نہیں کرتیں۔ ’’مرگ بر امریکہ‘‘، ’’شیطانِ بزرگ‘‘، ’’گو امریکہ گو‘‘، ’’ماریں گے مر جائیں گے‘‘، ’’ایک ہزار سال تک گھاس کھائیں گے‘‘… ان میں سے کوئی ایک نعرہ بھی ایسا نہیں جسے حقیقت میں بدلا جا سکے۔ ایرانی عوام سے ان کے سیاست دان تیس سال… جی ہاں‘ پورے تین عشرے مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگواتے رہے لیکن امریکہ نہ مر سکا۔ جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے، فتح اورشکست کے تصورات تبدیل ہو چکے ہیں، شکست خوردہ جاپان اورجرمنی آج اقتصادی لحاظ سے امریکہ کی حکومت اور امریکی عوام پر راج کر رہے ہیں۔ چین نے دوسروں کے معاملات میں سیاسی مداخلت سے مکمل طور پرگریز کیا لیکن آج کوئی ایک بین الاقوامی کمپنی بھی ایسی نہیں جو اپنا دفتر چین میں نہ رکھتی ہو۔کیا عجب آئندہ تیس سالوں میں ایران امریکہ کو اقتصادی میدان میں اسی طرح سرنگوں کر لے جس طرح جرمنی جاپان اورچین نے کیا ہے۔
کاش کوئی حسن روحانی افغانستان کو بھی میسر آتا۔کاش محمد جواد ظریف جیسا وزیر خارجہ افغانستان کے مقدر میں بھی ہوتا! کاش کوئی افغان رہنما‘ افغان بچوں کے ہاتھوں سے بندوقیں لے کر ان کوکتابیں اورلیپ ٹاپ پکڑاتا۔کاش افغان عورتیں اور بوڑھے بھی دنیا میں عزت سے زندگی گزار سکتے۔
پاکستانی دارالحکومت میں پشاور موڑکے بارونق گنجان بازار میں چنددکانیں افغان نانبائیوں کی تھیں، اہلِ خیران دکانداروں کو کچھ رقم دے جاتے تھے کہ مستحقین میں روٹیاں تقسیم کردیں، ان دکانوں کے سامنے گھنٹوں انتظار کرتی اور پھرروٹی کے لیے قطار میں کھڑی ہوئی افغان عورتوں کو دیکھ کر کالم نویس کے دل میں ایک ہُوک اُٹھتی۔ لیکن افغانوں کو غیرت مند کہہ کر مروانے والا کوئی دانش ور یہاں کبھی نظر نہ آیا۔نہیں معلوم، یہ دکانیں اب بھی ہیں یا بڑھا دی گئیں!
No comments:
Post a Comment