Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, January 18, 2013

سوجی کا خصوصی حلوہ

مانا کہ طاہر القادری ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں، ان کا ماضی قابلِ رشک نہیں ہے اور وہ ایک زمانے میں شریف فیملی کے اور بعد میں پرویز مشرف کے حلقہ دوستی میں رہے ہیں لیکن وہ ہزاروں بچے اور عورتیں اور ہزاروں عام شہری، کیا وہ بھی کینیڈا سے آئے ہیں؟ اور کیا ان کا ماضی بھی غیر شفاف ہے؟ کیا پورے پاکستان کی اشرافیہ کے پاس اُس عورت کا سامنا کرنے کی جرأت ہے جس نے یہ کہہ کر اُن کے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ یہاں دھرنے میں سردی ہے تو ہمارے گھروں میں کون سی گیس اور بجلی ہمارا انتظار کر رہی ہے!
 
عربی کا محاورہ ہے اُنْظُرْ اِلیٰ مَا قاَلَ وَ لَا تَنظُر اِلٰی مَنْ قَالَ ۔ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے؟ اللہ کے بندو! طاہر القادری کی نقل جنگل میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر پھدکنے والے جانور کی طرح لگانے سے پہلے اُن باتوں کا تو ذکر کرو جو اس نے کہی ہیں۔ دھرنے کے شرکا ایک ہزار تھے یا ایک لاکھ اور گھروں میں ٹیلی ویژن پر سننے والے ایک لاکھ تھے یا ایک کروڑ، اس الزام کا جواب کون دے گا کہ اسمبلیوں میں ٹیکس چور براجمان ہیں اور جعلی ڈگریوں والے نوسرباز اشرافیہ کی صفوں میں سب سے آگے بیٹھے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ الیکشن کمیشن کا صرف چیئرمین اچھی شہرت کا مالک ہے، اس کا صرف ایک ووٹ ہے، باقی ارکان سیاسی پارٹیوں کے نامزد کردہ ہیں اور غیر جانبدار نہیں ہیں۔ پندرہ جنوری کو عمران خان نے جو سات نکات پیش کیے، ان میں بھی ایک نکتہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے۔ جاوید ہاشمی نے اُسی دن ٹیلی ویژن پر اس نکتے کی مزید وضاحت کی اور یہی دلیل دی کہ فخرو بھائی تو غیر جانبدار ہیں لیکن باقی ارکان کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ کیا عمران خان کا مطالبہ بھی غیر آئینی ہے؟ کیا اب یہ لوگ عمران خان اور جاوید ہاشمی کا بھی منہ چڑائیں گے؟ ؎
لگے مونہہ بھی  چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

 
زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
اس کالم نگار کی تحریریں گواہ ہیں کہ اسے طاہر القادری سے کوئی عقیدت نہیں، بلکہ کئی اعتراضات ہیں۔ وہ بسا اوقات شعبدہ بازی کے قریب آ جاتے ہیں، اس قدر قریب کہ شعبدہ بازی کو چھُو بھی سکتے ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ دھرنے کے دونوں دن اُن کی تقریر میں دلائل مضبوط تھے۔ نام نہاد عوامی نمائندوں پر ان کے اعتراضات سچائی پر مبنی تھے اور وہ جو کچھ کہہ رہے تھے، زیریں طبقات اس کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کر رہے تھے۔
 
ذرا دھرنے کے شرکاء کا اُن امرا اور عمائدین سے موازنہ کیجیے جو لاہور میں اپنے اور اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے جمع تھے۔اخبارات میں ان شرکاء کا گروپ فوٹو شائع ہوا ہے۔ آپ ان کے چہروں کو غور سے دیکھیے، کیا آپ کو کسی چہرے پر اس تشویش کا اظہار نظر آتا ہے کہ ستر فیصد عوامی نمائندوں نے ٹیکس ریٹرن ہی جمع نہیں کرائی؟ کیا آپ کو کسی ایک چہرے پر بھی اس شرمناک حقیقت پر ندامت کی کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ ان جماعتوں کے نمائندے سفید جھوٹ بول کر جعلی ڈگریوں کے ساتھ حقِ ’’نمائندگی‘‘ ادا کرتے رہے؟
یہ عمائدین جو لاہور میں جمع ہو کر قوم کے غم میں بریانی، پالک، گوشت، حلیم، دیسی مرغی، پاستا اور گراں بہا چینی ماکولات تناول فرماتے رہے اور چوڈا پہلوان کا پکایا ہوا سوجی کا خصوصی حلوہ اپنے مقدس معدوں میں اتارتے رہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی لوڈشیڈنگ کی اذیّت کبھی نہیں برداشت کی۔ ان میں سے کوئی ایک بھی تین گھنٹے تو دُور کی بات ہے، پندرہ منٹ بھی سی این جی یا پٹرول کے لیے قطار میں نہیں کھڑا ہوا۔ ان میں سے ایک بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کبھی نہیں گیا یہ تو وہ حضرات ہیں جو چھینک آنے پر لندن کا رُخ کرتے ہیں، کھانسنے کے بعد دبئی کا ٹکٹ خریدتے ہیں اور ڈکار مارنے کے بعد چوڈا پہلوان کو نیا آرڈر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کس کا بچہ یا پوتا سرکاری سکول میں پڑھ رہا ہے اور کس کے اہلِ خانہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر رہے ہیں؟ بخدا یہ معززین اُن ہزاروں افراد کی نمائندگی نہیں کرتے جو دھرنے میں جمع تھے اور اُن لاکھوں لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے جو گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹوں کے ساتھ جُڑ کر بیٹھے تھے۔ عمران خان اور طاہر القادری میں لاکھ برائیاں سہی، وہ کم از کم بات تو اُن عوام کی کر رہے ہیں زندگی جن کے لیے بوجھ بن گئی ہے۔ گروپ فوٹو میں کھڑے اِن عمائدین سے تو الطاف حسین ہی بازی لے گیا جو مانا کہ لندن میں ہزاروں پائونڈ ماہانہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس نے طاہر القادری کے مطالبات کی تائید تو کی اور دھرنے کے شرکاء پر طاقت کے استعمال سے منع تو کیا۔ قوم کے غم میں حکومتِ پنجاب کے سرکاری جہاز پر سوار ہو کر آنے والے اور چوڈا پہلوان کا پکا خصوصی حلوہ کھانے والے ان شرفاء میں سے ایک نے طاہر القادری کو جے سالک سے تشبیہ دی اور اپنی دانست میں بذلہ سنجی کا مظاہرہ کیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک معزز رہنما کا مذاق اُڑایا۔ یہ ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جے سالک نے جی ایچ کیو سے زرعی زمین کبھی نہیں حاصل کینہ ہی اس بیچارے نے کبھی فخر سے یہ اعلان کیا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں۔ ہمارے لیڈروں کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ ایک طرف پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ ہونے کا فخریہ اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ڈالتے ہیں۔ ایک بھائی وزیر تو دوسرے ناظم۔ ایک زمانے میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے پنجابی کے شاعر سعید الفت بہت مشہور تھے۔ اُن کی یہ نظم عام لوگوں کی زبان پر تھی جس کا ایک شعر یوں تھا۔ کھائی جائو بھئی کھائی جائو۔ ڈھڈاں نوں ودھائی جائو۔۔ اس موضوع پر کمال کی نظم تو منیر نیازی نے لکھی ہے جو تین سطروں پر مشتمل ہے ؎
بندے نہیں سَن، جانور سَن

روٹیاں کھائی جاندے سن
تے رولا پائی جاندے  سن

اس گروپ فوٹو میں سید منور حسن کو دیکھ کر ایک دردناک اور عبرت ناک واقعہ یاد آ گیا 
سید منور حسن کے عین پیچھے شیرِ پنجاب مصطفی کھر نظر آ رہے ہیں۔ ان کے دورِ اقتدار میں میاں طفیل محمد کے ساتھ جو غیر انسانی اور ناقابلِ بیان سلوک ہوا تھا، اسے یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تعّجب ہے آج جماعت کے امیر، اسی مصطفی کھر کے ساتھ دیسی مرغی اور چوڈا پہلوان کا پکا ہوا خصوصی حلوہ تناول فرما رہے ہیں ع

ببین       

 
کہ از کہ بُریدی و با کہ پیوستی!
 
یعنی

غور تو فرمایئے آپ کہاں سے ٹوٹے اور کن کے ساتھ آ جُڑے!ہمیں نہیں معلوم ارب پتیوں کی اس انجمن تحفظِ مفادات میں سیّد صاحب کا جو ایک عام آدمی کی طرح رہتے ہیں، کیا کام تھا؟ ہمارا حسنِ ظن ہے کہ سیّد صاحب نے یہاں ضرور کلمۂ حق بلند کیا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ضرور شرم دلائی ہوگی کہ ان کے ارکان ٹیکس نہیں دیتے اور دروغ گوئی کا ارتکاب کرتے ہیں۔



اُمراء


 
میں کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے درویش بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ کہیں یہ وہی درویش تو نہیں جن کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎

 

سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب


ورنہ وہ درویش پردے میں تھے دنیادار بھی

1 comment:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

بہترین تجزیہ ہے ۔
جناب گستاخی کی معافی چاہوں گا۔
پیرا گراف یا اوپر نیچے کی سطر میں فاصلہ جیسے شعر کے کی اوپر والی سطر اور نیچے والی میں فاصلہ زیادہ ہے۔
لکھتے وقت اگر آپ شفٹ دبا کر ریٹرن دبائیں تو یہ فاصلہ مناسب ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی اور مسئلہ ہے کسی ماہر سے مشورہ کیا جا سکتا ہے۔
پڑھنے آسانی ہو گی اس لئے یہ گستاخی کی ہمت کر رہا ہوں۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com