معصوم جانور کھلے میدان میں جمع ہوئے اور کئی دن تک بیٹھے رہے۔
ان میں پرندے بھی تھے اور چوپائے بھی ۔ طوطے ، بلبلیں ، بطخیں ، چڑیاں، خرگوش، ہرن اور بے شمار دوسرے جانور۔ یہ سب وہ تھے جو سالہا سال سے جنگل میں خاموش رہ کر، دب کر، رہ رہے تھے۔ جنگل پر اصل قبضہ بھیڑیوں ، چیتوں، شیروں، گینڈوں ، سانپوں اور مگرمچھوں کا تھا۔ خونخوار درندوں کا یہ گروہ جنگل کے ہرگوشے پر قابض تھا۔ اس گروہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ معصوم اور مظلوم جانوروں کی ایک بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے کچھ بھائی جنہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا، خونخوار گروہ کے خدمت گار بنے ہوئے تھے۔ ان میں لومڑی ، گیدڑ اور بکرے سرفہرست تھے۔ یہ دن بھر خونخوار گروہ کے ساتھ رہتے۔ ان کی ہرطرح کی خدمت بجالاتے۔ جب یہ درندے آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے تو لومڑی ان کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتی۔ کبھی اس طرف بھاگ کر آتی اور کبھی بغل میں کچھ کاغذات دباکر دوسرے گروہ کی طرف جارہی ہوتی۔ گیدڑوں کی قسمت بھی عجیب تھی۔ دو تین گیدڑ پڑھے لکھے تھے۔ ہرگیدڑ نے ایک خونخوار درندہ پکڑا ہوا تھا۔ یہ اس کے لیے تقریر یں لکھتا، مذاکرات میں مدد کرتا، اگر زبان فرنگ بولنا پڑتی تو ان کی ترجمانی کرتا۔ گیدڑوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ سالہا سال درندوں کی خدمت کرنے کے باوجود ان کی حیثیت نوکروں، مشقتیوں حاشیہ برداروں، اٹیچی کیسوں اور حقہ پکڑنے والوں سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن یہ تھا کہ راتب اچھا مل جاتا۔ بچا کھچا سہی، پر تھا تو گوشت، اور وہ بھی کثیر مقدار میں!
بکروں کا کردار گھنائونا تھا لیکن دلچسپ بھی۔ انہیں اصل میں معصوم گروہ کا ساتھی ہونا چاہیے تھا لیکن لالچ کی وجہ سے یہ خونخوار گروہ میں شامل ہوچکے تھے۔ یہ بظاہر پارسا بنتے تھے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں۔ معصوم گروہ کے ارکان کو جمع کرکے وعظ کرتے رہتے تھے۔ لیکن تھے پرلے درجے کے منافق۔ اندر سے کچھ، باہر سے کچھ، بسیار خوری کی وجہ سے ان کے پیٹ پھول چکے تھے اور تن وتوش سے درندے ہی لگتے تھے لیکن خونخوار گروہ کے ثقہ ارکان ان منافقوں کو ہمیشہ اپنے سے کم تر سمجھتے تھے ۔
جنگل کی تمام پیداوار پر خونخوار گروہ اپنا حق جتاتا تھا۔ درختوں پر لگنے والے پھل، جڑی بوٹیاں، سبز پتے، رہائش کے لیے خوشگوار علاقے، تجارت سے ہونے والی آمدنی، غرض ایک ایک شے پر اسی گروہ کا قبضہ تھا۔ کچھا رایک ایک درندے کی اتنی بڑی تھی کہ اس میں ہزاروں جانور سما سکتے تھے ،دریا بھی انہی کے تصرف میں تھا اور مگرمچھ اسی گروہ کے رکن تھے۔ معصوم جانوروں کو ہمیشہ گدلا پانی ملتا۔ مستقبل میں بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ اب بھیڑیوں ، گینڈوں، تیندوئوں اور سانپوں کی اگلی نسل بھی حکمرانی کے لیے پرتول رہی تھی۔ طوطے، چڑیاں، بطخیں، بلبلیں ، تیتر، خرگوش اور ہرن ہاتھ پائوں مارتے تھے مٹھیاں بھینچتے تھے، ترکیبیں لڑاتے تھے، منصوبے بناتے تھے لیکن خونخوار گروہ سے جنگل کا قبضہ چھڑانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
یہ ہاتھی تھا جس نے معصوم گروہ کے مظلوم ارکان کو اکٹھا کیا۔ ہاتھی کا قصہ دلچسپ بھی تھا اور کچھ کچھ پراسرار بھی، یہ ہاتھی اسی جنگل میں رہتا تھا لیکن کچھ عرصہ ہوا، ایک اور جنگل کو ہجرت کرگیا تھا۔ اب اچانک واپس آیا تو اس نے معصوم گروہ کے پرندوں اور چوپایوں کو ایک کھلے میدان میں اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ وہ انہیں ان کے حقوق دلوائے گا۔ درندوں سے جنگل واگزار کرائے گا۔ ایک ایسا نظام لائے گا جس میں صرف بھیڑیے ، تیندوے، سانپ اور مگرمچھ ہی حکمران نہ ہوں، طوطوں، بلبلوں ، بطخوں ، خرگوشوں اور ہرنوں کو بھی ان کا حصہ ملے۔ ہاتھی نے یہاں تک کہا کہ وہ ان خونخوار درندوں کے پیٹ پھاڑ دے گا، ان کی توندیں کمر سے لگا دے گا اور پھلوں اور پانی کی تقسیم اس طرح کرے گا کہ ہرایک کو اس کا حق ملے۔
پانچ دن یہ معصوم چوپائے اور پرندے کھلے آسمان کے نیچے جمع رہے اور ہاتھی ان کی قیادت کرتا رہا۔ یہ بات درست تھی کہ ہاتھی کئی سال ایک اور جنگل میں رہ کر آیا تھا اور پراسرار سا لگتا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ وہ باتیں پتے کی کررہا تھا۔ اس کا ایک ایک نکتہ دل میں جاگزیں ہوتا تھا۔ وہ معصوم گروہ کے حقوق کا رونا روتا تھا اور درندوں کے ظلم کی کہانیاں سناتا تھا۔ اس نے خونخوار گروہ کو چیلنج کیا کہ جنگل پر اپنی اجارہ داری ختم کرے اور معصوم پرندوں اور چوپایوں کو، جو جنگل کے اصل مالک ہیں، زمامِ اقتدار سونپ دے۔
ہاتھی کوتو خونخوار گروہ کچھ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن جب اس نے معصوم گروہ کے ارکان اپنے اردگرد اکٹھے کرلیے تو خونخوار گروہ ہوشیار ہوگیا۔ گروہ کے ارکان نے اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ سے محفوظ تر کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے شروع کردیے۔ لومڑیاں ادھر سے ادھر بھاگنے لگیں۔ پیغام رسانیاں ہوئیں، خطرے کی علامات ایک دوسرے کو دکھائی گئیں اور یوں سارے درندے جنگل کے ایک گوشے میں اکٹھے ہوگئے۔ تقریریں ہوئیں، بظاہر ہاتھی اور معصوم جانوروں کا ذکر نہ کیا گیا لیکن درپردہ یہ معصوم جانوروں کی یکجہتی ہی تھی جس نے انہیں اپنی اپنی کچھاروں سے نکل کر اجلاس منعقد کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ اجلاس کے آخر میں سارے درندے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ جنگل کا نظام وہی رہے گا جو چلتا آیا ہے۔ حق حکمرانی طاقت وروں ہی کا ہوگا، ہاں معصوم گروہ کے ارکان کو بھی چوگا شو گا ملتا رہے گا۔ اس اجلاس کے بعد جب خونخوار گروہ کے ارکان جمع ہوئے اور تصویریں بنوائی گئیں تو دلچسپ منظر یہ تھا کہ حسب سابق تین چار منافق بکرے بھی ساتھ تھے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں، پیٹ پھولے ہوئے، دہانوں سے گوشت کی بو کے بھبکے اٹھ رہے تھے !
خونخوار گروہ نے، حتمی فیصلہ یہ کیا کہ کسی نہ کسی طرح معصوم گروہ کے ارکان کو میدان سے اٹھا کر، ان کا اجلاس منتشر کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ہاتھی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، کچھ باتیں مانیں ، کچھ نہ مانیں،ہاتھی نے بہرطور معصوم چوپایوں اور پرندوں کو یہی بتایا کہ ان کی جدوجہد کامیاب ہوگئی ہے ۔ طوطے ،تیتر، بلبلیں، بطخیں ، خرگوش ، ہرن ،سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
لیکن انہیں معلوم ہے کہ جنگل میں نظام وہی ہوگا جواب تک چلتا آیا ہے۔ پیداوار پر خونخوار گروہ ہی کا قبضہ رہے گا۔ دریا کے کنارے بدستور مگرمچھوں کی زمینداریاں ہوں گی۔ پھل اور سبز پتے انہی کے تنورنما معدوں میں اترتے رہیں گے۔ معصوم چوپایوں اور پرندوں کا استحصال جاری رہے گا۔ انہیں بچی کھچی خوراک ہی پرگزارا کرنا پڑے گا۔ لومڑیاں ادھر سے ادھر بھاگتی رہیں گی۔ گیدڑ کفش برداری کا کام کرتے رہیں گے اور منافق بکروں کی توندیں پھولتی رہیں گی۔
ان میں پرندے بھی تھے اور چوپائے بھی ۔ طوطے ، بلبلیں ، بطخیں ، چڑیاں، خرگوش، ہرن اور بے شمار دوسرے جانور۔ یہ سب وہ تھے جو سالہا سال سے جنگل میں خاموش رہ کر، دب کر، رہ رہے تھے۔ جنگل پر اصل قبضہ بھیڑیوں ، چیتوں، شیروں، گینڈوں ، سانپوں اور مگرمچھوں کا تھا۔ خونخوار درندوں کا یہ گروہ جنگل کے ہرگوشے پر قابض تھا۔ اس گروہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ معصوم اور مظلوم جانوروں کی ایک بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے کچھ بھائی جنہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا، خونخوار گروہ کے خدمت گار بنے ہوئے تھے۔ ان میں لومڑی ، گیدڑ اور بکرے سرفہرست تھے۔ یہ دن بھر خونخوار گروہ کے ساتھ رہتے۔ ان کی ہرطرح کی خدمت بجالاتے۔ جب یہ درندے آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے تو لومڑی ان کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتی۔ کبھی اس طرف بھاگ کر آتی اور کبھی بغل میں کچھ کاغذات دباکر دوسرے گروہ کی طرف جارہی ہوتی۔ گیدڑوں کی قسمت بھی عجیب تھی۔ دو تین گیدڑ پڑھے لکھے تھے۔ ہرگیدڑ نے ایک خونخوار درندہ پکڑا ہوا تھا۔ یہ اس کے لیے تقریر یں لکھتا، مذاکرات میں مدد کرتا، اگر زبان فرنگ بولنا پڑتی تو ان کی ترجمانی کرتا۔ گیدڑوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ سالہا سال درندوں کی خدمت کرنے کے باوجود ان کی حیثیت نوکروں، مشقتیوں حاشیہ برداروں، اٹیچی کیسوں اور حقہ پکڑنے والوں سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن یہ تھا کہ راتب اچھا مل جاتا۔ بچا کھچا سہی، پر تھا تو گوشت، اور وہ بھی کثیر مقدار میں!
بکروں کا کردار گھنائونا تھا لیکن دلچسپ بھی۔ انہیں اصل میں معصوم گروہ کا ساتھی ہونا چاہیے تھا لیکن لالچ کی وجہ سے یہ خونخوار گروہ میں شامل ہوچکے تھے۔ یہ بظاہر پارسا بنتے تھے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں۔ معصوم گروہ کے ارکان کو جمع کرکے وعظ کرتے رہتے تھے۔ لیکن تھے پرلے درجے کے منافق۔ اندر سے کچھ، باہر سے کچھ، بسیار خوری کی وجہ سے ان کے پیٹ پھول چکے تھے اور تن وتوش سے درندے ہی لگتے تھے لیکن خونخوار گروہ کے ثقہ ارکان ان منافقوں کو ہمیشہ اپنے سے کم تر سمجھتے تھے ۔
جنگل کی تمام پیداوار پر خونخوار گروہ اپنا حق جتاتا تھا۔ درختوں پر لگنے والے پھل، جڑی بوٹیاں، سبز پتے، رہائش کے لیے خوشگوار علاقے، تجارت سے ہونے والی آمدنی، غرض ایک ایک شے پر اسی گروہ کا قبضہ تھا۔ کچھا رایک ایک درندے کی اتنی بڑی تھی کہ اس میں ہزاروں جانور سما سکتے تھے ،دریا بھی انہی کے تصرف میں تھا اور مگرمچھ اسی گروہ کے رکن تھے۔ معصوم جانوروں کو ہمیشہ گدلا پانی ملتا۔ مستقبل میں بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ اب بھیڑیوں ، گینڈوں، تیندوئوں اور سانپوں کی اگلی نسل بھی حکمرانی کے لیے پرتول رہی تھی۔ طوطے، چڑیاں، بطخیں، بلبلیں ، تیتر، خرگوش اور ہرن ہاتھ پائوں مارتے تھے مٹھیاں بھینچتے تھے، ترکیبیں لڑاتے تھے، منصوبے بناتے تھے لیکن خونخوار گروہ سے جنگل کا قبضہ چھڑانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
یہ ہاتھی تھا جس نے معصوم گروہ کے مظلوم ارکان کو اکٹھا کیا۔ ہاتھی کا قصہ دلچسپ بھی تھا اور کچھ کچھ پراسرار بھی، یہ ہاتھی اسی جنگل میں رہتا تھا لیکن کچھ عرصہ ہوا، ایک اور جنگل کو ہجرت کرگیا تھا۔ اب اچانک واپس آیا تو اس نے معصوم گروہ کے پرندوں اور چوپایوں کو ایک کھلے میدان میں اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ وہ انہیں ان کے حقوق دلوائے گا۔ درندوں سے جنگل واگزار کرائے گا۔ ایک ایسا نظام لائے گا جس میں صرف بھیڑیے ، تیندوے، سانپ اور مگرمچھ ہی حکمران نہ ہوں، طوطوں، بلبلوں ، بطخوں ، خرگوشوں اور ہرنوں کو بھی ان کا حصہ ملے۔ ہاتھی نے یہاں تک کہا کہ وہ ان خونخوار درندوں کے پیٹ پھاڑ دے گا، ان کی توندیں کمر سے لگا دے گا اور پھلوں اور پانی کی تقسیم اس طرح کرے گا کہ ہرایک کو اس کا حق ملے۔
پانچ دن یہ معصوم چوپائے اور پرندے کھلے آسمان کے نیچے جمع رہے اور ہاتھی ان کی قیادت کرتا رہا۔ یہ بات درست تھی کہ ہاتھی کئی سال ایک اور جنگل میں رہ کر آیا تھا اور پراسرار سا لگتا تھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ وہ باتیں پتے کی کررہا تھا۔ اس کا ایک ایک نکتہ دل میں جاگزیں ہوتا تھا۔ وہ معصوم گروہ کے حقوق کا رونا روتا تھا اور درندوں کے ظلم کی کہانیاں سناتا تھا۔ اس نے خونخوار گروہ کو چیلنج کیا کہ جنگل پر اپنی اجارہ داری ختم کرے اور معصوم پرندوں اور چوپایوں کو، جو جنگل کے اصل مالک ہیں، زمامِ اقتدار سونپ دے۔
ہاتھی کوتو خونخوار گروہ کچھ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن جب اس نے معصوم گروہ کے ارکان اپنے اردگرد اکٹھے کرلیے تو خونخوار گروہ ہوشیار ہوگیا۔ گروہ کے ارکان نے اپنا اور اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ سے محفوظ تر کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے شروع کردیے۔ لومڑیاں ادھر سے ادھر بھاگنے لگیں۔ پیغام رسانیاں ہوئیں، خطرے کی علامات ایک دوسرے کو دکھائی گئیں اور یوں سارے درندے جنگل کے ایک گوشے میں اکٹھے ہوگئے۔ تقریریں ہوئیں، بظاہر ہاتھی اور معصوم جانوروں کا ذکر نہ کیا گیا لیکن درپردہ یہ معصوم جانوروں کی یکجہتی ہی تھی جس نے انہیں اپنی اپنی کچھاروں سے نکل کر اجلاس منعقد کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ اجلاس کے آخر میں سارے درندے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ جنگل کا نظام وہی رہے گا جو چلتا آیا ہے۔ حق حکمرانی طاقت وروں ہی کا ہوگا، ہاں معصوم گروہ کے ارکان کو بھی چوگا شو گا ملتا رہے گا۔ اس اجلاس کے بعد جب خونخوار گروہ کے ارکان جمع ہوئے اور تصویریں بنوائی گئیں تو دلچسپ منظر یہ تھا کہ حسب سابق تین چار منافق بکرے بھی ساتھ تھے۔ ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں، پیٹ پھولے ہوئے، دہانوں سے گوشت کی بو کے بھبکے اٹھ رہے تھے !
خونخوار گروہ نے، حتمی فیصلہ یہ کیا کہ کسی نہ کسی طرح معصوم گروہ کے ارکان کو میدان سے اٹھا کر، ان کا اجلاس منتشر کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ہاتھی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، کچھ باتیں مانیں ، کچھ نہ مانیں،ہاتھی نے بہرطور معصوم چوپایوں اور پرندوں کو یہی بتایا کہ ان کی جدوجہد کامیاب ہوگئی ہے ۔ طوطے ،تیتر، بلبلیں، بطخیں ، خرگوش ، ہرن ،سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
لیکن انہیں معلوم ہے کہ جنگل میں نظام وہی ہوگا جواب تک چلتا آیا ہے۔ پیداوار پر خونخوار گروہ ہی کا قبضہ رہے گا۔ دریا کے کنارے بدستور مگرمچھوں کی زمینداریاں ہوں گی۔ پھل اور سبز پتے انہی کے تنورنما معدوں میں اترتے رہیں گے۔ معصوم چوپایوں اور پرندوں کا استحصال جاری رہے گا۔ انہیں بچی کھچی خوراک ہی پرگزارا کرنا پڑے گا۔ لومڑیاں ادھر سے ادھر بھاگتی رہیں گی۔ گیدڑ کفش برداری کا کام کرتے رہیں گے اور منافق بکروں کی توندیں پھولتی رہیں گی۔
No comments:
Post a Comment